قاتلوں اور دہشت گردوں اور تخریب کاروں کا سرپرست ایران ہے
مولانا محب اللہ قریشیقاتلوں اور دہشت گردوں اور تخریب کاروں کا سرپرست ایران ہے
- بشار الاسد کی مدت صدارت میں اضافے کیلئے ایران میں اجلاس۔ روس، ایران اور شام کے وزرائے دفاع کی اجلاس میں شرکت، کا روائیاں تیز کرنےپر غور۔ (روزنامہ ایکسپرس اخبار کوئٹہ، 11 جنوری 2016ء)
- حال ہی میں بعض سعودی شہریوں کو سعودی قوانین کے تحت سزائے موت دی گئی۔ ان میں سے ایک "شیخ النمر" ہے۔ جس کی موت پر ایرانی حکومت اور ایرانی قوم نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔ ایران میں عالمی قوانین کی بے حرمتی کر کے سعودی سفارت خانے کو جلایا گیا، سعودی عرب کو شدید دھمکیاں دی گئی۔
ایرانی انقلاب کے بعد پاکستان میں جو قتل و غارت گری ہوئی، انٹیلی جنس رپورٹوں کے مطابق جو اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں، ایران ملوث ہے۔ عراق، شام، بحرین اور یمن کے بعد اب کھلم کھلا سعودی عرب کے خلاف ایران کا طرزِ عمل انتہائی ظالمانہ ہے۔ ایران اپنے ایک ہم مذہب کے لئے دوسرے ملکی قوانین پر سیخ پا ہے تو ایران اپنے ہی ملک میں سینکڑوں اہلِ سنت عوام اور علماء کرام اور حال ہی میں 27 اہلِ سنت یونیورسٹیوں کے نوجوانوں کو مقدمہ چلائے بغیر تختہ دار پر لٹکانے کا مجرم کیوں نہیں؟ تہران میں یہودیوں، آتش پرست مجوسیوں اور ہندوؤں وغیرہ کے عبادت خانے ہیں تو اہل سنت و الجماعت کی ایک مسجد کیوں نہیں؟
خمینی ملعون کے خونی انقلاب سے پہلے عالمِ اسلام میں موجودہ خلفشار نہیں تھا، جب سے موجودہ ایرانی انقلاب آیا ہے دنیا بھر خاص کر اسلامی ممالک بشمول پاکستان فتنه و فساد کا شکار ہیں۔ عراق میں امریکہ اور روس کے حواریوں سے مل کر ایران نے وہاں جو کچھ کیا وه "اظهر من الشمس" ہے۔ اسی طرح بحرین، کویت اور شام میں ایرانی جارحیت جاری ہے، اس کے کئی اہم عہدیدار اور جرنیل بھی مارے جاچکے ہیں۔ اسی طرح فلسطین میں بھی جبکہ مظلوم فلسطینی، یہودیوں کے ساتھ برسر پیکار ہیں، وہاں ایران کی پروردہ تنظیم حزب الله کے ذریعے جو کچھ ہوا، وہ ننگِ انسانیت ہے، یمن میں حوثیوں کو ایرانی اسلحہ سے مسلح کر کے وہاں پر جو کچھ کھیل جاری ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ (ماهنامه زکریا، جنوری فروری 2016 ء، صفحہ5)
- ایران حزب الله کی شہ رگ ہے۔ ایران حزب الله کا ہیڈ آفس ہے، جہاں سے اسے ہدایات اور احکامات دیئے جاتے ہیں۔ جبکہ حسن نصر اللہ ایران اور لبنان میں ایرانی ملیشیاء کے درمیان رابطے کے فرائض انجام دیتا ہے۔
5 مارچ 1987ء کو منعقدہ ایک اجلاس میں حزب الله کے ترجمان ابراہیم الامین نے بیان دیا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم ایران کا جزء ہیں بلکہ ہم لبنان میں ایران اور ایران میں لبنان کی حیثیت رکھتے ہیں۔
جبکہ حزب الله کا جنرل سیکرٹری حسن نصر اللہ کہتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایرانی حکومت ایسی مملکت ہے جو اسلامی قانون کے مطابق احکامات جاری کرتی ہے اور وہ ایسی حکومت ہے جو مسلمانوں اور عربوں کی مددگار ہے۔ اور ہمارا ایرانی حکومت سے باہمی تعاون کا رشتہ ہے۔ ایرانی حکمرانوں کے ساتھ ہمارے گہرے قلبی تعلقات ہیں اور ہم ایرانی حکومت کے ساتھ گہرے روابط میں بندھے ہیں جیسا کہ ہماری مسلح جدوجہد کی دینی اورشرعی حمایت بھی ایران ہی میں ہے۔
(حزب اللہ کون ہے، صفحہ 83)
- حزب الله اصل میں ایران ہی کا بیٹا ہے۔ اس بات کی وضاحت حزب الله کے سابقہ جنرل سیکرٹری صبحی الطفیلی کے اس بیان سے بھی ہوتاہے کہ وہ ایران کے دورے پر تھا جب ایرانی حکومت کے ساتھ لبنان میں مزاحمتی تحریک شروع کرنے پر ہمارا اتفاق ہوا۔ پھر حزب الله نے کام شروع کیا تو ہزاروں ایرانی حزب الله کو تربیت دینے اور ان کی مدد کرنے لبنان آگئے۔
ایران نے انقلابی گارڈ لبنان روانہ کئے تاکہ حزب اللہ کے عملی قیام کو یقینی بنایا جا سکے اور حزب اللہ کے افراد کو ٹریننگ اور امداد فراہم کی جاسکے۔ اس مقصد کے لئے 2000 دو ہزار گارڈز روانہ کئے گئے۔ جنہوں نے لبنان کے البقاع علاقے اورحزب الله کے ٹھکانے میں شیعہ عقائد بھی پھیلائے۔ اپنی شیعی تبلیغ کو مؤثر بنانے کے لئے انہوں نے متعدد ہسپتال، مدارس اور فلاحی تنظیمیں بنائیں۔ اور تہران میں حزب الله کا مستقل آفس بھی موجود ہے۔
حزب الله اپنی کتابوں میں اس نظریے کا اقرار کرتی ہے کہ ہمارے فقیہ ولی کو جنگ یا صلح کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار ہے۔ کیونکہ فقیہ ولی کی حکومت و اقتدار کا علاقے اور وطن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ ولی فقیہ تمام ممالک کے شیعہ کا حکمران ہے۔ اس لئے خمینی ملعون تمام ممالک میں موجود شیعہ آبادی کی سیاسی ذمّہ داریاں مقرر کیا کرتا تھا جو کسی بھی استعمار کے خلاف نبرد آزما ہوتے تھے۔
(حزب اللہ کون ہے، صفحہ89)
ایران دہشت گردوں کو اسلحہ دیتا ہے
ایرانی حکومت کی طرف سے ملنے والے احکامات کے تحت بحرینی حزب الله طویل المدت منصوبوں پر عمل پیرا ہے، جس کے تحت اسلحہ کی سمگلنگ بحرین میں جاری رہے گی، تاکہ سیکورٹی ادارے اس سازش کو ایک ہی مرتبہ پکڑنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اسی طرح اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ یہ اسلحہ مختلف خفیہ ارکان تک مختلف علاقوں میں بر وقت تقسیم بھی کیا جائے۔
گذشتہ کاروائی کا اعتراف بحرینی حزب الله کے قائد علی احمد کاظم المنقوی نے بھی کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ:
ہم نے ایرانی انٹیلی جنس آفیسر احمد شریفی کے ساتھ ایک خفیہ میٹنگ کی جس میں اس نے ہمیں سمندر کے راستے اسلحہ اسمگل کر کے بحرین پہنچانے کا پروگرام دیا ہے۔ ملزم جاسم خیاط نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ اسلحے کو اسمگل کرنے کا مقصد بحرینی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے۔ عسکری قوت استعمال کر کے اس حکومت کو ختم کر کے اس کی جگہ ایرانی شیعہ حکومت کے ماتحت حکومت قائم کرنا ہمارا مقصد ہے۔ اس نے یہ وضاحت بھی کی کہ پہلی سپلائی کرج چھاؤنی میں پہنچائی گئی جو تہران کے شمال میں واقع ہے۔ یہ کاروائی ایرانی انٹیلی جنس افسر محمد رضی آل صادق اور میجر وحیدی نے کی ہے۔
(حزب اللہ کون ہے، صفحہ 46)
ایران دوسرے ممالک میں دہشت گرد بھیجتے ہیں جو وہاں جا کر لڑتے ہیں
- ایرانی انقلاب کے سینئر عہدیدار اور شام میں ایرانی فوج کے کمانڈر جنرل محمد علی فلکی نے اعتراف کیا ہے کہ تہران نے فیلق المقدس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی کمان میں شیعہ فریڈم آرمی کے نام سے ایک فوج تشکیل دی ہے جو اس وقت تین اہم محاذوں... عراق، شام اور یمن میں لڑائی میں شامل ہیں۔
( روزنامہ ایکسپرس اخبار کوئٹہ، 20 اگست 2016ء)
- شام میں ایرانی فوجی اور 6 پاکستانیوں کی ہلاکت کا انکشاف۔ پاکستانی زينبون ملیشیا میں شامل تھے، حلب میں مارے گئے، قم میں سپرد خاک کیا گیا۔
ایرانی میڈیا۔
تفصیلات کے مطابق شام کے شمالی صوبے حلب میں شامی اپوزیشن کے ساتھ لڑائی میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک اعلیٰ افسر سمیت زینبون ملیشیا میں شامل 6 پاکستانی جنگجو ہلاک ہو گئے۔ ایرانی میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ پاسدارانِ انقلاب کا مہدی ثامنی راد نامی افسر فروری کے مہینے میں حلب کے مضافات میں ہونے والی لڑائی میں ہلاک ہوا۔
ایرانی خبر رساں اداروں نے پاکستانی شیعہ نوجوانوں پر مشتمل زينبون ملیشیا کے 6 جنگجوؤں کے جنازے کی تصاویر پر مبنی رپورٹس شائع کی ہیں۔ زینبون ملیشیا کو پاسداران انقلاب بھرتی کرتے ہیں جو شام جاکر بشارالاسد کی فوج کے شانہ بشانہ اپوزیشن کے خلاف لڑائی میں حصہ لیتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس طرح شام جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 600 تک پہنچ چکی ہے۔ شام میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کو ایران کے شہر قم میں خصوصی قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔ یہ قبرستان اُن افراد کے لئے مخصوص ہے جو کہ شام میں بشارالاسد کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ مرنے والے پاکستانیوں کی شناخت۔۔۔ عزیزعلی شیخ، سید امام نقی، سہیل عباس، الطاف حسین ، انتظار حسین اورفرزندِ علی کے ناموں سے کی گئی ہے۔
( روزنامہ ایکسپرس اخبار کوئٹہ، 7 مارچ 2016ء)
- ایران نے شام میں حالیہ دنوں میں لڑائی کے دوران اپنے 13 فوجی مشیروں کی ہلاکت کا اعتراف کر لیا ہے۔
ایرانی انقلاب گارڈز کے ترجمان حسین علی رضائی نے کہا کہ لڑائی میں 21 فوجی مشیر زخمی بھی ہوئے ہیں۔ مرنے والے تمام گارڈز کا تعلق ایران کے صوبے مازدارن سےتھا۔
(روزنامہ ایکسپرس اخبار کوئٹہ، 8مئی 2016ء)*
ایران میں باقاعدہ تربیتی کیمپ بنائے گئے ہیں، جہاں پر پاسدارانِ انقلاب کی نگرانی میں شیعہ نوجوانوں کو تخریب کاری اور ٹارگٹ کلنگ وغیرہ کی تربیت دے کر اسلامی ممالک میں بھیجتے ہیں:
اپنے مخالفوں کو قتل کرنے کے علاوہ ایرانی حکومت دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی ملوث پائی گئی ہے۔ چند واقعات ملاحظہ فرمائیں۔
- مجاہدین کے لیڈر آقای محدسیاں نے مصری اخبار "الاهرام" کو بتایا کہ اس خطہ کے تمام انتہا پسندوں کا مستقل ٹھکانہ ایران میں ہے جہاں ان کو پاسدارانِ انقلاب کی نگرانی میں اسلحہ کے مؤثر استعمال اور تخریب کاری کی بہترین تربیت دی جاتی ہے اور ان کو ذہنی اور جسمانی طور پر دوسرے ملکوں میں ہر طرح کی دہشت گردی اور تخریب کاری کیلئے تیارکیا جاتا ہے۔
(اخبار الاهرام، 8:12:1992)
- اسرائیلی ریڈیو: 1993-2-29 کے مطابق ایران پڑوسی اسلامی ملکوں میں انتہا پسندوں کو سرمایہ اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور ان کو تخریب کاری کی تربیت دے رہا ہے تاکہ ان ملکوں کے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلایا جا سکے اور وہاں کی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کے بعد ان پر اپنی اجارہ داری قائم کر سکے ۔
(ایران افکار و عزائم، صفحہ 28)
- فروری 1993 میں ترکی کے وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ہماری تفتیش سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ملک میں سیاسی قاتلوں کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے، انہوں نے بتایا کہ ہم اب تک ایک ایسے گروہ کے 19 کارکن گرفتار کرچکے ہیں جن کا براہ راست تعلق ایران سے ہے، اور جن کو ایران میں تخریب کاری کی تربیت دی گئ ہے۔
(دی نیوز، راوالپنڈی، 1993-2-5)
- مارچ 1993 میں امریکی وزیرِ خارجہ نے ایران کو ایک بین الاقوامی عادی مجرم اور تخریب کار قرار دیا اور کہا کہ ایران اپنے مسلح گروہوں حزب اللہ ، الجہاد اور دوسری جنگجو تنظیموں کو دنیا میں دہشتگردی کے لیئے استعمال کر رہا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے مخالفوں کو ختم کر رہا ہے بلکہ وہ تخریب کاری کے ذریعے دوسرے ملکوں میں دہشتگردی بھی پھیلا رہا ہے۔
(voa,1993-3-31)
- بی بی سی نے 1993-6-2 کو بتایا کہ ترک وزیرِ خارجہ نے ایرانی وزیرِ خارجہ کو ان واقعات کی تفصیل سے آگاہ کردیا ہے اور ضروری ثبوت بھی فراہم کردئیے ہیں۔
- مارچ 1992ء میں ارجنٹائن میں اسرائیلی سفارتخانہ کو طاقتور بم کے ذریعے اُڑا دیا گیا، جس میں تقریبا 50 لوگ مارے گئے، ایران کی سر پرستی میں قائم ہونےوالی جماعت الجهاد نے فوراً اس کی ذمہ داری قبول کر لی۔
(vog:19:3:1992)
- اسی طرح اسکندریہ میں چند گرفتار شدہ مصری تخریب کاروں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ایران کے شہر مشہد میں تربیت حاصل کی، انہوں نے بتایا کہ وہاں تقریباً پندرہ سو نوجوان زیرِ تربیت تھے جن کا تعلق مصر، الجزائر، تیونس، سعودی عرب اور پاکستان سے تھا۔
(ایران افکار و عزائم، صفحہ39)
- ایران کی کچھ سرکاری تنظیمیں اور سیاسی نمائندے اُن تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کے رابطے ایسے نوجوانوں خصوصاً شیعہ نوجوانوں سے ہیں جو یا تو بے کار ہیں یا کسی وجہ سے اپنی حکومتوں سے بیزار ہیں اور یا شیعہ تنظیموں کے سرگرم کارکن ہیں۔ ایسے نوجوانوں کو ایرانی اور بوسینیائی لڑکیوں سے شادی کی ترغیب اور مالی پیشکش کی جاتی ہے اور تخریب کاری کی تربیت کیلئے ایران لایا جاتا ہے جہاں اس مقصد کیلئے درجنوں تربیتی مراکز کام کر رہے ہیں۔ ان مرکزوں میں نو جوانوں کو تربیت دی جاتی ہے۔
(ایران افکار و عزائم، صفحہ39)
- شیعہ طبقہ مسلح ہونا اپنا حق اور تخریب کاری کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتےہیں۔ ان کا قول ہے کہ دہشت گردی اور تخریب کاری کے عمل سے بڑی سے بڑی قوت کامقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
در اصل ایران کے انقلاب کی بنیاد ہی دہشت گردی اور تخریب کاری پر رکھی گئی تھی اور شاہ کے خلاف انقلاب کی راہ ہموار کرنے کے لیئے ہزاروں ایرانیوں نے (0:P:L) کےچارج حبش کی زیر نگرانی عراق، لیبیا اور لبنان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی تربیت حاصل کی۔ (P،L،O) کے تربیت یافتہ ایرانی تخریب کاروں نے بعد میں پاسدارانِ انقلاب کے فرائض سنبھال لئیے۔ وہ اس فن میں ایسی مہارت حاصل کر چکے ہیں کہ یہ لوگ دوسرے اسلامی ملکوں کے شیعہ نوجوانوں کو اپنے کیمپوں میں تخریب کاری کی تربیت دیتے ہیں ان کا دعوی ہے کہ ان کے تربیت یافتہ تخریب کار اپنے جرائم کے ارتکاب کے بعد شاذ و نادر ہی پکڑے جاتے ہیں۔
(ایران افکار و عزائم، صفحہ5)
- حزب الله کا آخری گھناؤنا منصوبہ جو 2006ء میں پکڑا گیا وہ یہ تھا کہ حکومتِ بحرین کو پتہ چلا کہ ایرانی حکومت حزب الله کے ذریعے سے بحرین کے مختلف علاقوں میں زمینیں خرید کر شیعہ لوگوں میں تقسیم کر رہی ہیں تا کہ شیعہ آبادی میں اضافہ کیا جا سکے۔ایران کی حمایتی تنظیموں اور جماعتوں میں بالواسطہ طریقے سے امدادی رقوم تقسیم کی جا رہی ہیں۔ بلکہ سیکورٹی اداروں کی رپورٹ کے مطابق تہران کے قریب امام علی، چھاؤنی میں حزب الله بحرین کے اراکین کو تربیت دینے کیلئے معسکر کو دوبارہ بنا دیا گیا ہے اور اس کی تشکیلِ نو کی جارہی ہے۔
حزب الله لبنانی کے کئی لیڈروں نے اس معسکر میں ملاقاتیں کی ہیں،
ان میں ایک ملاقات مکرم برکات اور بحرینی شیعہ جنگجوؤں کی ہوئی جو پہلے دمشق اور پھر بیروت میں منعقد ہوئی۔ ان ملاقاتوں میں بحرین میں شیعہ اثر و رسوخ کو بڑھانے کیلئے شیعہ تحریک کو فعال بنانے اور سیاسی عمل میں تنظیم سازی پر غورو فکر کیا گیا۔ اس ملاقات میں حسن نصر اللہ نے شیعی افرادی قوت مہیا کرنے کا عہد کیا تا کہ ایرانی شیعی پلان کو مکمل کیا جا سکے۔
اسی طرح اس میٹنگ میں اقتصادی اثر و رسوخ میں اضافے کی قرارداد بھی منظورکی گئی، تاکہ شیعہ تاجروں کو بھی سرگرم کیا جا سکے۔ یہ کام شیعہ تاجروں کی بھاری امدادی رقوم دے کر اور ان کے ساتھ کاروباری شراکت کر کے کیا جا سکے تاکہ بحرین کی اقتصادیات پر کنٹرول ہو سکے اور بعد میں بعض بنیادی ضروریات زندگی کو مارکیٹ سے غائب کر کےمصنوعی قلت کا بحران پیدا کر کے حکومت کو اپنے مزید مطالبات ماننے پر مجبور کیا جا سکے۔
اس کے ساتھ ایرانی انٹیلی جنس ادارے بحرینی شیعہ کو انتخابات میں بھر پور شرکت کیلئے ہر قسم کی امداد فراہم کریں گے تاکہ قومی اسمبلی میں شیعہ ممبران کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکے۔ تا کہ وہ شیعہ مفادات کے مطابق قانون سازی کرسکیں اور ایسے قوانین اسمبلی سے پاس کرا سکیں جو خلیجی اور عربی ممالک میں ایرانی مفادات کی حمایت اور تحفظ کا کام دے سکیں۔ (حزب اللہ کون ہے، صفحہ 49)
- اسی لئے یمن کے رئیس علی بن عبد اللہ نے بھی ایک خطاب میں شیعہ اور ایرانی حکومت کی طرف سے حوثی کو ملنے والی امداد کی طرف اشارہ کیا۔ کیونکہ حوثی کی تنظیم کو اتنی بھاری مقدار میں مالی اور عسکری امداد اندرونِ یمن سے ملنا ممکن ہی نہیں عسکری امداد کی صورت یہ تھی کہ عراقی شیعہ اور ایرانی انقلابی گارڈز کے افراد یمن میں قتل و غارت کے مظاہروں اور دہشت گردی کی وارداتوں کیلئے تربیت دینے کیلئے یمن آتے رہے ہیں۔ چنانچہ روزنامه اخبار اليوم اپنے ایک شمارے میں لکھتا ہے کہ حوثی کے کارکنان میں سے گرفتار ہونے والوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ ایرانی انقلاب گارڈ اور عراقی شیعہ کے معسکرات میں دہشت گردی کی تربیت لیتے رہے ہیں۔
(حزب اللہ کون ہے ،صفحہ71)
- حجازی حزب الله کے افراد ایران اور لبنان میں عسکری اور تخریبی تربیت حاصل کرتے ہیں تاکہ اسلامی حکومتیں الٹنے اور ایرانی انقلاب کے زیرِ اثر نظام حکومت اُن ملکوں میں قائم کرنے کے خفیہ منصوبوں پر عمل کر سکیں۔ اگرچہ اس عسکری ونگ کے متعدد کمانڈر گرفتار ہو چکے ہیں اور کچھ قائد تنظیم سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں، تاہم اس تنظیم نے سیاسی اورابلاغی کوششیں بیرونِ ملک جاری رکھی ہوئی ہیں اور تنظیم ابھی تک اپنے شیعی عوام کو اشتعال دلانے اور حکومتی دشمنی اور عداوت پر ابھارنے والے رسائل اور میگزین شائع کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے انٹرنیٹ ویب سائٹ کھولی ہوئی ہے جہاں پر اپنی باغیانہ اور تخریبی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (حزب اللہ کون ہے، صفحہ59)
- خلیجی ممالک میں کویتی حزب الله کے موسسین اور کارکنان کی بھرتی قم شہر ہی سے ہوتی ہے، جبکہ یہ لوگ وہاں کے حوزہ علمیہ میں شیعی تعلیم حاصل کرنے کیلئے جاتے ہیں۔ اس تنظیم کے اکثر کارکنان کے ایرانی انقلابی گارڈ کے ساتھ گہرے روابط ہیں، کیونکہ انہوں نے تخریبی تربیت انہیں سے حاصل کی تھی۔ انہی لوگوں نے "الضر" میگزین بھی نکالا تھا جو حزب الله الکویتی کے نظریات و افکار کا پرچار کرتا تھا۔ یہ رسالہ تہران المركز الكويتي للاعلام الاسلامی کے تحت شائع ہوتا تھا۔ یہ رسالہ کویتی شیعہ کو اپنے مقاصد و اہداف کے لئے استعمال کرتا اور ان کی ذہن سازی کرتا تھا، تا کہ کویتی شیعہ حکومت کویت کا تختہ الٹ کر ایرانی شیعی حکومت کے تابع حکومت قائم کریں۔
یہ تنظیم کویت میں فتنہ و فساد اور عوامی اضطراب و بے چینی پیدا کرتی، بم دھما کے، اغوا اور قتل و غارت کی خفیہ کاروائیاں کرتی، تاکہ کویت میں اپنا تسلّط قائم کر کے ایران کی ہم مذہب حکومت قائم کر سکیں۔
کویتی حزب الله ایرانی شیعہ تحریک کا ایک جزو شمار ہوتی ہے جس کی قیادت آیت اللہ خامنہ ای ملعون کرتا ہے۔
(حزب اللہ کون ہے، صفحہ61)
- علی اکبر محتشمی کے بیان کے مطابق حزب الله کے قیام سے لے کر اب تک تقریباً ایک لاکھ شیعہ جنگجو جنگ کی ٹریننگ حاصل کر چکے ہیں۔ ہر تربیتی کیمپ میں 300 جنگجو شریک ہوئے تھے اور اب تک لبنان اور ایران میں بے شمار تربیتی کیمپ لگائے جاچکے ہیں۔
(حزب اللہ کون ہے، صفحہ 92)
ایران اپنے دہشت گرد قاتلوں اور مجرموں کی پشت پناہی کرتے ہیں
لندن کے انگریزی ماہنامہ ایکواف ایران نے اپنی اپریل 1993 کی اشاعت میں ایک مضمون لکھا۔ اخبار نے لکھا کہ ایران نے ان جرائم میں ملوث ہونے سے اگرچہ ہر دفعہ انکار کیا لیکن حکومتِ ایران کا ردِّ عمل اس کے انکار کو نہ صرف جھٹلاتا ہے بلکہ ان جرائم کو سچ بھی ثابت کرتا ہے۔ سچ پوچھیں تو ایران نے اپنے ان جرائم کی کبھی بھی مذمت نہیں کی بلکہ اپنے اُن تمام گرفتار شدہ قاتلوں اور مجرموں کی ہمیشہ پشت پناہی کی اور اُن کو رہا کرانے اور بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔
ماہنامہ نے مزید لکھا کہ:
ایران، لبنان کی حزب اللہ تنظیم کے ذریعے مغربی لوگوں کو یرغمال بنانے اور پھر ان کو رہا کرانے کا بھی ذمّہ دار ہے۔ تاکہ اس کاروبار سے معقول معاوضہ حاصل کر سکے۔
(ایران افکار و عزائم، صفحہ30)
ایران پڑوسی ملکوں کی ترقی نہیں چاہتا۔ اور اُن کے امن کو تباہ کرنا عبادت تصور کرتے ہیں۔ اور تمام اسلامی ملکوں کی امن کو تباہ کرنے میں ایران ملوث ہے
- پڑوسی ملکوں کی ترقی اور امن اِن کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور اس کے اثرات کو ختم کرنے کیلئے ایرانی قوم اور ذرائع ابلاغ ان کی کمزوریوں کو اُچھالتے رہتے ہیں، ان کے خلاف طرح طرح کے طنزیہ مضامین لکھتے اور نشر کرتے ہیں، ان کے مختلف طبقات میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
(ایران افکار و عزائم، صفحہ53)
- شیعیت کا اصل مقصد اس اصول سے بغاوت کی راہ ہموار کرنا تھا کہ قرآن و سنت اور اعتماد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر قائم اس دینِ اسلام میں گمراہی کا راستہ کھولا جا سکے، اس کیلئے انہوں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس کو تخریبِ اسلام کہا جاتا ہے اور یہ شیعوں میں کوئی معیوب فعل بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ان کی مذہبی تعلیمات بھی اس کے موافق ہیں مثلاً شیعہ مجتہد اپنی کتاب اصول کافی جلد2 صفحہ20 پر واضح الفاظ میں لکھتے ہیں کہ
"حقِ حکمرانی صرف شیعوں یا ان کے آئمہ کا ہے اور شیعوں کا فرض ہے کہ تمام سنی حکومتوں کو تباہ کرتے رہیں اور اگر انہوں نے ایسا نہ کیا اور سنی حکومت میں اطمینان سے رہے تو خواہ یہ کتنے ہی متقی ہوں، عذاب کے مستحق ہوں گے۔“
- آیت اللہ خمینی ملعون اور آیت الله منتظری ملعون نے انقلابِ ایران کی برآمد کیلئے جو طریقے اختیار کئے ان میں سے ایک طریقہ دبی ہوئی اور غلام قوموں کی رہنمائی تھی، وہ اس انداز میں کہ انہوں نے مختلف موقعوں پر ان کو مخاطب کیا اور پیغام بھیجے تا کہ وہ اپنے ملکوں میں انقلاب کیلئے جوش و جذبے سے سرشار ہو سکیں اور شیعیت کے لئے جنگ لڑسکیں۔ انہوں نے کہا: اے دنیا کے مسلمانو! اسلام کو بچانے کیلئے جلدی کرو، دنیا کی بڑی طاقتیں اسلامی ملکوں اور ان کے حکمرانوں کو زیر کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ تم ان ظالموں سے بدلہ لینے کیلئے اٹھو۔ ایران اسلامی ملکوں کے لوگوں کا بھائی ہے لیکن تمہارے حکمران امریکہ کے ایجنٹ ہیں، اسلام کی فتح کا راز شہادت میں ہے۔ خمینی نے ایرانی انقلاب کی فتح کے لئے یہی ہتھیار استعمال کیا۔ ہم سچے دل سے تیار ہیں کہ تمہارے انقلاب کے حصول کے لئے ہم اپنے تجربات پیش کریں۔ آیت اللہ خامنہ ای ملعون اور دوسرے ایرانی لیڈر مختلف موقعوں پر اپنی تقریروں میں مندرجہ ذیل نکات پر زور دیتے رہے ہیں۔
☆۔۔۔۔دنیا میں مظلوم لوگوں کیلئے انقلابِ ایران ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
☆۔۔۔ آج دنیا کے مسلمانوں کی نظریں ایران پر لگی ہوئی ہیں اوراسلامی ایران ان کی آخری اُمید ہے۔
☆۔۔۔خمینی کا ایمان تھا کہ خدا نے ایران کو ان اسلامی ملکوں کے انقلاب کی برآمد کی ذمہ داری سونپی ہے جو اسلام کے معاملے میں مخلص نہیں۔
☆۔۔۔ ہمیں اپنے انقلاب کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر کرنی چاہئے تا کہ دوسرے ملکوں میں انقلاب کی راہیں زیادہ ہموار ہوسکیں۔
☆۔۔۔ دوسرے ملکوں میں اس وقت اسلام کے حق میں جو شورشیں اُٹھ رہی ہیں ان کے اور ایران کے اسلامی انقلاب کے درمیان ایک روحانی رشتہ ہے۔
☆۔۔۔ ہم دیکھتے ہیں کہ صحیح اسلام (شیعیت) اب ایران کی حدود سے باہر پہنچ چکا ہے، گو اسے بغیر کسی طاقت کے استعمال کے برآمد کیا گیا ہے۔ دنیائے اسلام میں تمام مذہبی شورشیں ہمارے انقلاب کا نتیجہ ہیں۔
ایران نے دوسرے ملکوں میں بڑھتی ہوئی اسلامی (شیعی) جدوجہد کی حمایت کا تہیہ کر رکھا ہے۔
(ایران افکار و عزائم، صفحہ 36،37)
- اسلامی نشر و اشاعت کی ایرانی وزارت نے اپنے ایک کتابچہ میں جو 1984ء میں شائع ہوا۔ انقلاب کی برآمد کے موضوع پر آیت اللہ خمینی ملعون اور ان کے جانشین آیت الله منتظری ملعون کے بیانات کے حوالوں سے اس کا طریقہ اور مقاصد بیان کئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ:
ہمیں صرف اسلام (شیعیت) کی سربلندی اور مسلمانوں اور محکوم لوگوں کی آزادی مقصود ہے۔ ہم ہر جگہ انقلاب لانے کی کوششوں میں معاونت کرنا چاہتے ہیں۔ (یعنی جس ملک میں بھی لوگ اپنے ملک کی امن کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں ، ہم (ایرانی شیعہ) اس کے ساتھ تعاون ضرور تعاون کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام مظلوم لوگ اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے معاملات کو اپنی گرفت میں لے کر اپنے حقوق کو بزور حاصل کریں۔
- یہی وہ ایران ہے جو آج نئے شیعی صفوی توسیعی منصوبے کو چلا رہا ہے۔ یہ ایران ہی ہے جو امریکہ کو عراق کے خلاف ابھارتا ہے اور اب امریکی قبضے کے استمرار کیلئے ہر طرح کی خدمت بجالا رہا ہے۔ یہ ایران ہی ہے جو حزب اللہ کو لبنانی تباہی اور امن و امان کو غارت کرنے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ یہ ایران ہی ہے جس کی للچائی نظریں مسلسل خلیج عرب پر جمی ہوئی ہے۔ یہ ایران ہی ہے جس نے عرب امارات کے تین جزائر پر ظالمانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ ایران ہی ہے جو پاکستان کی امن کو خراب کر رہے ہیں، اور یہاں پر ایرانی انقلاب لانے کے لئے انہوں نے مختلف طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ ایران ہی ہے جو فلسطینی تحریکوں کو اپنے مقاصد کیلئے جب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے استعمال کرتا ہے اگرچہ عربی اور اسلامی علاقوں کا امن و امان غارت ہی ہو جائے۔ (حزب اللہ کون ہے، صفحہ 172)*
پاکستان میں اسلامی نظام اور افغانستان میں طالبان کےانقلابی اقدامات میں ایرانی رخنہ اندازیاں
میرے محترم قارئین کرام! سپاہ صحابہؓ پاکستان کے مشن، دستور اور منشور میں جہاں رافضیت و شیعیت کے کفریہ عقائد و نظریات کی بناء پر شیعیت کے کفر کا پرچار ہے، اس کے ساتھ ساتھ مملکت خداداد پاکستان میں نظام خلافتِ راشدہ کے نظام کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرنا بھی شامل ہے، اس لئے بحیثیت اصحاب رسولﷺ کے سپاہی کے دعویدار کے میں اور آپ آج کی اس مختصر نشست میں پاکستان میں گذشتہ پچاس سال میں مختلف اوقات میں احیائے نظامِ خلافت راشدہ کے لئے کی گئی جدوجہد اور اس کے نتائج و عواقب پر نظرِ اختصار دوڑائیں گے تاکہ عوامی سطح پر اس صورتِ حال کو زیادہ سے زیادہ سامنے لایا جائے کہ دینِ اسلام کا اصل دشمن کون ہے جن کی وجہ سے پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ نہیں ہو سکا۔
میرے عزیز دوستو!
اس ملک میں جب بھی نفاذ اسلام اور خلافت راشدہ کے نظام کے نفاذ کیلئے جدوجہد کی گئی وہ بار آور ثابت نہیں ہو سکی۔ اس سلسلے میں جتنے بھی انقلابی اقدامات اُٹھائے گئے اچانک غیر مرئی ہاتھوں کے ذریعے اس جدو جہد کو ثبوتاژ کرتے چلے گئے۔ غرض گذشتہ نصف صدی کے طویل عرصے میں کوئی بھی مخلص مذہبی قومی لیڈ راپنے اس ہدف کو حاصل نہیں کر سکا۔
جنرل ضیاء الحق سے ہزار اختلاف کے باوجود مجھے اور آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انہوں نے ماضی قریب میں اس سلسلے میں پیش رفت کرنے کی کوششیں کیں مگر اہل تشیع نے خمینی کے ایرانی انقلاب کی شہہ پر اسلام آباد کا گھیراؤ کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل ضیاء الحق اپنی طبع کی نرمی کی وجہ سے شیعیت کی کھلی جارحیت کے سامنے گھٹنے ٹیک گیا، اور نہ صرف اسلامی نظام سے راہِ فرار اختیار کی بلکہ ایرانی حکمرانوں کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر تعلیمی اداروں میں اسلامیات کا نصاب اور زکوۃ، شیعہ گروہ کیلئے الگ کرنے کا مطالبہ تسلیم بھی کر لیا۔
اس لئے سپاہ صحابہؓ کا موقف ہے کہ شیعہ نے اپنے آپ کو نہ تو پاکستانی قومیت میں تسلیم کیا، زکوۃ کا انکار کر کے اپنی زکوۃ ایران میں بھیج کر اپنی پاکستانی قومیت سے سرکاری سطح پر انکار کیا اور اسلام کے اہم اور بنیادی رکن کا انکار کر کے اپنے آپ کو مسلمان بھی تسلیم نہیں کیا۔ تو ہم اگر شیعیت کو انہی کے بنیادی عقائد کی وجہ سے کافر کہتے ہیں تو اس میں ہمارا قصور کیا ہے؟
اسی طرح انہوں نے اسلامیات الگ کر کے اپنے آپ کو مسلم قوم کا ایک متحدہ حصہ تسلیم کرنے سے انکار کیا جس کی وجہ سے یہ خود ہی مسلمانوں سے ان دو مطالبوں کے الگ کرنے کی وجہ سے الگ تھلگ قوم کی حیثیت سے پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ غرض یہ بات تو عیاں ہو گئی کہ پاکستان میں شیعہ گروہ اسلامی نظام کے نفاذ میں آج تک نظام خلافتِ راشدہ کے نفاذ کیلئے جب بھی کوششیں اپنے نتائج کے حصول کے قریب پہنچیں تو شیعہ گروہ نے اپنی الگ قوم کے تشخص کے لئے سامنے آکر حکمرانوں کو اپنی جارحانہ پالیسیوں کے ذریعے بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔
اگر پاکستان میں اندرونی طور پر صورت حال ان کے کنٹرول کے اندر نہ رہتی تو بیرونی طور پر بیرونی حکمرانوں کے ذریعے براہ راست مداخلت کر کے ہر ایسی اسلامی تحریک کوناکام بناتا رہا۔ عموماً ریڈیو تہران کا ایسے موقعوں پر یہ پروپیگنڈہ بہت بھونڈے انداز میں کیا جاتا رہا کہ پاکستان کے تمام طبقوں کے لئے مذہبی آزادی ضروری ہے اور ہر طبقے کو اس کے مذہبی عقائد پر عمل کی آزادی دینا ضروری ہے۔ نیز ایرانی اخبارات بالخصوص ایرانی سرکاری اخبارات کے علاوہ دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے بھی اس قسم کے بھونڈے پروپیگنڈے وقتًا فوقتًا کئے جاتے رہے۔ یہی وہ بنیادی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے پاکستان میں قومی مذہبی لیڈروں کی جدوجہد سبوتاژ ہوتی رہی، مثلاً حضرت مولانا مفتی محمود ؒ صاحب کی سرحد کی وزارت عظمی کے دور کی جد وجہد خصوصاً قابل ذکر ہے۔ اسی طرح 1977ء کی تحریک نظام مصطفیﷺ کو ملیامیٹ کرنے میں شیعیت کے غیر مرئی ہاتھ تھے جن کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے یہ عظیم تحریک ناکام ہوئی۔ بالکل اسی طرح موجودہ دور کی طالبان کی خالص اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے نفاذ کی افغانستان میں افغانستان کے علمائے حقہ کی تحریک جو عالم اسلام میں اس وقت واحد مذہبی اسلامی نظام کا نفاذ مخلصانہ کوششوں پر مشتمل ہے، ایرانی حکمرانوں نے روس اور انڈیا سے زیادہ اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ کسی طرح افغانستان میں طالبان کا حقیقی اسلامی انقلاب کو ناکام کیا جائے۔ جس میں اس وقت تک 16لاکھ سے زائد نوجوانوں مسلمان مجاہدین کا خون شامل ہے، لیکن ایران کے شیعہ عقائد و نظریات رکھنےوالے بدبخت حکمرانوں نے اپنی توسیع پسندانہ قدیم عادت کے مطابق وہاں کی شیعہ دہشت گرد تنظیم حزب وحدت کو بے تحاشا رقم اور مہلک اسلحہ اور عیاشیوں کے سامان وافر مقدار میں مہیا کر کے مسلمان دشمنی، اسلام دشمنی کے ثبوت دیئے، جس کا انکار آج کا کوئی بھی مسلمان نہیں کر سکتا۔
افغانستان کے اسلامی انقلاب میں ایرانی رخنہ اندازیوں کے تقریباً وہی مقاصد ہیں جو پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ میں رکاوٹ بنیں اور ایران کے مدِّنظر ہیں۔ اگر ایران افغانستان کے اسلامی انقلاب میں رکاوٹ نہ رہے تو ایرانی خمینی انقلاب کے پیچھے جو اسلام کے نام پر ڈھونگ، دجل اور اسلامی انقلاب کے نام پر جو فریب گذشتہ 20 سال سے عالم اسلام کے سامنے جھوٹ کو اتنا پھیلاؤ کہ وہ سچ نظر آنے لگے کی پالیسی ایران نے گذشتہ 20سال سے مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے شروع کر رکھی ہے۔ تمام عالم اسلام کے سامنے غیر اسلامی اور خالصتًا سنی دشمنی پر مبنی خمینی ملعون کی خواہشات کا انقلاب پورے عالمِ اسلام میں اسلامی انقلاب کے سامنے بے نقاب ہو رہا ہے۔ اس لئے ایران نے اپنے سیاسی حواریوں انڈیا اور روس کے ذریعے بھر پور کوشش کی کہ عالمِ اسلام کی عظیمُ الشّان واحد تنظیم طالبان اور افغانستان کو تقسیم کر دیا جائے۔ چنانچہ بامیان کو الگ ریاست بنا کر ایران نے اپنے ماتحت قانونی اور صوبہ کے طور پر دنیا کے سامنے متعارف کر دیا۔ وہاں کی شیعہ دہشت گرد تنظیم حزبِ وحدت نے وہاں کے علماء کرام، مسلم طلباء اور سنی العقیدہ عوام کا قتل عام غیر مسلم قوتوں کے ساتھ مل کر روس اور انڈیا کی پشت پناہی میں کیا۔ ایران افغانستان کی اسلامی انقلابی تحریک کے تباہ و برباد کرنے کے مکمل منصوبے بنا کر اس نظام میں رکاوٹیں ہی پیدا نہیں کر رہا بلکہ اس سرزمین اور سرزمین پر بسنے والے علمائے حقہ مجاہدین وغیرہ کو تباہ و برباد کر کے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کرنا چاہتا ہے۔ لہذا ...
- ایران، پاکستان اور افغانستان میں اسلامی انقلابی تحریک کو سبوتاژ اس لئےکرتا ہے تا کہ اس کے ذریعے سے اپنے جھوٹے نام نہاد اسلامی انقلاب کو بے نقاب ہونے سے بچاتا ہے۔
- جتنے بھی اسلامی ممالک ہیں مثلاً پاکستان باالخصوص افغانستان اور اس میں برپا ہونے والے حالات وغیرہ، نیز عراق اور دیگر وہ تمام اسلامی ممالک جن کی سرحدیں ایران کے ساتھ ملتی ہیں ان کو ایران سیاسی، بدامنی اور اندرونی کشمکش میں مبتلا کر کے اپنےمذہبی شیعہ انقلاب کے لئے راہیں ہموار کرنا مقصود ہوتی ہے۔
- افغانستان میں حزبِ وحدت جیسی دہشت تنظیم کے ذریعے افغانستان کو تقسیم کر کے حقیقی انقلاب کی راہیں مسدود و محدود کر کے ایران اپنے سیاہ کارناموں پر پردہ ڈالنا چاہتا تھا۔
- ایرانی متعصب شیعہ قیادت یہ کبھی بھی برداشت نہیں کرتی کہ اس کی سرحدوں سے ملنے والے اسلامی ممالک میں حقیقی اسلامی انقلاب برپا ہو، کیونکہ حقیقی اسلامی انقلاب اگر کسی بھی ایسے اسلامی ملک میں آجاتا ہے تو ایران میں موجود 40فیصد سنی آبادی میں بے چینی پھیلےگی اور پھر ایران میں سنی حقوق کے لئے ایرانی سنیوں کی ہمدردیاں یقینا ایسی مسلم قیادت سے ہوں گی جو اس نام نہاد اسلامی ملک میں حقیقی اسلامی انقلاب برپا کرے گا۔ (توشه کارکن، صفحہ151)
افغانستان اور عراق حکومتوں کے خاتمے میں ایران کاکردار اور امریکہ کے ساتھ اس کے خفیہ تعلقات
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حالیہ جنگوں میں ایران نے پس پردہ رہتے ہوئے نہایت اہم اور بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ خصوصاً افغانستان اور عراق کی حالیہ جنگوں کے دوران اور جنگوں سے پہلے اور جنگ کے خاتمے پر اس کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ بلکہ یہ امریکہ کے صف اول کے اتحادی تھے جنہوں نے افغانستان اور عراق کی تباہی کے منصوبے بنائے اور اس مقصد کے لئے کوئی کسر نہ چھوڑی۔
ان کی انتھک کوششوں کا مقصد صرف ان دو حکومتوں کا خاتمہ تھا تا کہ اُن علاقوں میں اپنی نسلی شیعی متعصب جماعت کو فروغ دے سکیں اور ان کے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ اس بات کا اعتراف خود امریکیوں کو بھی ہے۔ اگر ایران کی شمولیت نہ ہوتی تو طالبان حکومت کا اس تیزی سے خاتمہ ممکن نہیں تھا۔ ان کے اس تعاون کو اس خوبصورت جملے میں سمو دیا گیا۔
" اے ایرانی بھائیو! اگر تم نہ ہوتے تو کابل اور بغداد کبھی فتح نہ ہوتے ۔"
ایران کی انہی رضا کارانہ خدمات کے صلے میں جو اس نے امریکی افواج کیلئے عراق میں سر انجام دیں تھیں، ایران کو عراقی پارلیمنٹ میں بھر پور شیعہ نمائندگی کی صورت میں اس کا صلہ دیا گیا۔ امریکی قابض فوج نے جیسے ہی شیعہ افراد کی اکثریت پر مشتمل نئی عراقی حکومت کا اعلان کیا تو ایران نے سب سے پہلے اس نام نہاد حکومت کو تسلیم کر لیا، حالانکہ یہ حکومت اپنے قانونی جواز سے بھی محروم ہے۔
اس کے فوراً بعد تحریک مجاہدین خلق کے جنگجو میدانِ جنگ سے الگ ہو گئے اورانہوں نے جنگ سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس طرح امریکہ بھی ایران کے ساتھ بڑا نرم رویہ اپنائے ہوئے ہے، اگرچہ آئینی ہتھیاروں کا معاملہ ہی کیوں نہ ہو، اور اب ایک بار پھر خفیہ میٹنگوں میں ایران اور امریکی اتحاد کے لئے مسودات تیار کئے جا رہے ہیں۔
(حزب اللہ کون ہے، صفحہ 126)
ایران دوسرے ممالک میں، اپنے مخالفین کو ختم کرنےکیلئے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرتے ہیں
ایرانی حکمران دوسرے ملکوں میں موجود اپنے مخالفوں کو بھی اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اور ان کو ختم کرنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔
- لندن کے ایک عربی اخبار المجلہ کے مطابق ایران نے فروری 1980ء میں دنیا بھر سے انقلابیوں کی (جن میں پاکستانی شیعوں کے نمائندے بھی شامل تھے) ایک کا نفرنس منعقد کی۔ اُس وقت سے لے کر اب تک اسلامی ملکوں میں انقلابی تحریکوں کی مدد پر 14بلین ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔ ایرانی حکومت نے صرف 1990ء میں لبنان، پاکستان، افغانستان اور کئی دوسرے عرب ملکوں میں شیعہ تنظیموں اور دوسری تخریبی انقلابی تحریکوں کی مدد کیلئے 120ملین ڈالر مختص کئے۔
(ایران افکار و عزائم، صفحہ39)
- ایران نے اپنے نئے بجٹ میں تخریب کاری کے لئے 500ملین ڈالر مختص کئے۔ اس مد میں آیت اللہ خامنہ ای ملعون کے پاس کروڑوں ڈالر کا پوشیدہ بجٹ اس کے علاوہ ہے۔
(ایران افکار و عزائم، صفحہ29)
- ایران کے اسلامی پروپیگنڈہ کی تنظیم اس مقصد کے لئیے پہلے ہی 38000 علماء مختلف جگہوں پر بھیج چکی ہے۔ اور ایک بلین ریال سے زیادہ خرچ پر کتابیں وغیرہ چھاپ کر دوسرے ملکوں میں تقسیم۔کی جا چکی ہیں۔
(ایران افکار و عزائم، صفحہ38)
- متحدہ عرب امارات کے وزیرِ خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید نے اپنے روسی ہم منصب سیرگی لاروف کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران خطے میں پیسے اور اسلحی کے ذریعے فرقہ واریت پھیلا رہا ہے۔
الشيخ عبد الله بن زاید نے مزید کہا کہ عرب ممالک میں ایران کی مداخلت باعثِ تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ ایران شام اور یمن سمیت کئی دوسروں ملکوں میں دہشت گردوں کی مالی اور اسلحہ سے مدد کر رہا ہے۔
(روزنامه ا یکسپرس اخبار کوئٹہ، 28 فروری 2016ء)
- امریکہ نے لبنانی ملیشیا کے لئے ایران کی مسلسل سپورٹ پر وارننگ جاری کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حزب الله کی مالی معاونت فوری طور پر بند کی جائے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق وائٹ ہاؤس کی ترجمان ایرک شالز کا کہنا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ ایران دہشت گردی کے لئے مالی معاونت کر رہا ہے۔ نیز ہمیں حزب الله کو ایران سے ملنے والی مالی مد د کا بھی مکمل علم ہے۔
(روزنامه ایکسپرس اخبار کوئٹہ، 29جون 2016ء)*
- حلب میں مارے جانے والے 2 افراد کی تہران میں تدفین جنگجوؤں کے خاندانوں کی امداد کریں گے۔ خامنہ ای۔
تفصیلات کے مطابق ایران نے شام میں غیر قانونی طور پر لڑنے والے شیعہ جنگجوؤں کی کھلی سر پرستی کا اعتراف کرتے ہوئے مارے جانے والے جنگوؤں کے خاندانوں کی کفالت کا اعلان کیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر آیة الله علی خامنه ای نے شام میں صدر بشارالاسد کی حمایت میں لڑتے ہوئے مارے جانے والے ایرانی، افغانی اور پاکستانی جنگجوؤں کے خاندانوں کی بھر پور کفالت کا اعلان کیا ہے۔
عرب ٹی وی کے مطابق ایران میں شہداء فاؤنڈیشن نامی ادارے کے سربراہ نادر نصیری نے بتایا ہے کہ راہبر انقلاب اسلامی آیة الله علی خامنه ای نے شام میں بشارالاسد کی حمایت میں لڑنے والی تنظیم فاطمیون کے مقتول جنگجوؤں کےخاندانوں کی بھر پور کفالت کی ہدایت کی ہے۔ ایران میں یہ اصطلاح افغان، پاکستانی جنگجوؤں اور پاسدارانِ انقلاب کے ان عناصر کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو شام کی جنگ میں صدر بشارالاسد کی حمایت میں باغیوں سے لڑتے ہیں۔
مبصرین نے خامنہ ای کے انداز بیان اور دولت اسلامیہ داعش کے طریقہ واردات کو ایک دوسرے کے مماثل قرار دیا ہے، کیونکہ دونوں ہی شام کی جنگ میں لوگوں کو اکسانے میں برابر کے شریک ہیں۔ دونوں اپنے اپنے فلسفہ جہاد کے تحت شام کی جنگ میں حصہ لینے والوں کے لئے ہجرت اور جہاد کے اجر بیان کرتے ہیں۔ اور صدر بشارالاسد کی حکومت بچانے میں سرگرم ایرانی حکام اس جنگ کو مقدس جهاد قرار دے رہے ہیں۔
یادر ہے کہ بشارالاسد کی حمایت میں لڑنے والی تنظیم فاطمیون ملیشیاء کے اب تک 200 کے لگ بھگ جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔
دریں اثنا شام میں مارے جانے والے 2 پاکستانیوں اور ایرانی افسر کی تہران میں تدفین کی گئی ہے۔ ایران کے ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ تینوں حلب میں لڑائی کےدوران مارے گئے ہیں ۔ (روزنامہ امت اخبار کراچی، 29مئی 2015ء)
- حزب الله کے تمام مالی اخراجات ایرانی حکومت ادا کرتی ہے، اور ان کو مالی امداد فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح لشکر بدر اور جیش المهدی نامی عراقی تنظیم کو بھی ایرانی حکومت ہی اخراجات فراہم کرتی ہے۔ اور یہ دونوں جماعتیں ایرانی دولت کے ساتھ عراق میں سنی مسلمانوں اور سنی علمائے کرام کے قتل میں مشغول ہیں، اور ایرانی شیعہ کی حمایت سے سنی مساجد پر قبضہ بھی جما رہی ہیں۔
(حزب اللہ کون ہے، صفحہ38)
- حزب الله کا آخری گھناؤنا منصوبہ جو 2006ء میں پکڑا گیا وہ یہ تھا کہ حکومتِ بحرین کو پتہ چلا کہ ایرانی حکومت حزب الله کے ذریعے سے بحرین کے مختلف علاقوں میں زمینیں خرید کر شیعہ لوگوں میں تقسیم کر رہی ہیں تا کہ شیعہ آبادی میں اضافہ کیا جا سکے۔
ایران کی حمایتی تنظیموں اور جماعتوں میں بالواسطہ طریقے سے امدادی رقوم تقسیم کی جارہی ہیں۔ بلکہ سیکورٹی اداروں کی رپورٹ کے مطابق تہران کے قریب امام علی چھاؤنی میں حزب الله بحرین کے اراکین کو تربیت دینے کیلئے معسکر کو دوبارہ بنا دیا گیا ہے اور اس کی تشکیلِ نو کی جا رہی ہے۔
حزب الله لبنانی کے کئی لیڈروں نے اس معسکر میں ملاقاتیں کی ہیں، ان میں ایک ملاقات مکرم برکات اور بحرینی شیعہ جنگجوؤں کی ہوئی جو پہلے دمشق اور پھر بیروت میں منعقد ہوئی۔ ان ملاقاتوں میں بحرین میں شیعہ اثر و رسوخ کو بڑھانے کیلئے شیعہ تحریک کو فعال بنانے اور سیاسی عمل میں تنظیم سازی پر غور و فکر کیا گیا۔ اس ملاقات میں حسن نصر اللہ نے شیعی افرادی قوت مہیا کرنے کا عہد کیا تا کہ ایرانی شیعی پلان کو مکمل کیا جا سکے۔
اسی طرح اس میٹنگ میں اقتصادی اثر و رسوخ میں اضافے کی قرارداد بھی منظورکی گئی، تا کہ شیعہ تاجروں کو بھی سرگرم کیا جا سکے۔ یہ کام شیعہ تاجروں کی بھاری امدادی رقوم دے کر اور ان کے ساتھ کاروباری شراکت کر کے کیا جا سکے تاکہ بحرین کی اقتصادیات پر کنٹرول ہو سکے اور بعد میں بعض بنیادی ضروریاتِ زندگی کو مارکیٹ سے غائب کر کے مصنوعی قلّت کا بحران پیدا کر کے حکومت کو اپنے مزید مطالبات ماننے پر مجبور کیا جا سکے۔
اس کے ساتھ ایرانی انٹیلی جنس ادارے بحرینی شیعہ کو انتخابات میں بھرپور شرکت کیلئے ہر قسم کی امداد فراہم کریں گے تاکہ قومی اسمبلی میں شیعہ ممبران کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکے۔ تاکہ وہ شیعہ مفادات کے مطابق قانون سازی کر سکیں اورایسے قوانین اسمبلی سے پاس کرا سکیں جو خلیجی اور عربی ممالک میں ایرانی مفادات کی حمایت اور تحفظ کا کام دے سکیں ۔
(حزب اللہ کون ہے، صفحہ49)
- پہلے پہل حوثی اور اس کے بیٹے حزب الحق نامی تنظیم کے تحت کام کرتے تھے جو زیدی شیعہ کی سیاسی تنظیم ہے لیکن بعد میں حوثی اس سے الگ ہو گیا اور اس نے الشهاب المؤمن کے نام سے نئی تنظیم بنالی جو کہ شمالی یمن کے شہر صعدہ میں دہشت گردی، بغاوت اور دنگا فساد کی کاروائیوں میں مشغول ہے، بلکہ ایران ... حوثی کو مالی نظریاتی اورعسکری امداد فراہم کرتا ہے اور یہ ساری کوششیں یمن میں خمینی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کے لئے کی جارہی ہیں۔
صنعاء میں ایرانی سفارت خانے کے ذریعے سے حوثی کی تنظیم الشهاب المؤمن کو جو امداد دی گئی وہ ایک رپورٹ کے مطابق 42ملین یمنی ریال ہیں۔ یہ خطیر رقم حوثی کی تنظیم اور اس کے تابع دیگر شیعی مراکز کو دی گئی جو الصعده شہر میں ایرانی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
یہ امداد ان رقوم کے سوا ہے جو حوثی کو شیعہ مؤسسات اور ادارے بھیجتے ہیں، مثلاً: ایرانی شہر قم کا ادارہ مؤسسة انصارين، لندن کا ادارہ مؤسسة خونی، کویت کااداره مؤسسة الثقلین اور لبنانی حزب اللہ کے تابع ادارے۔ ان کے علاوہ دیگر کئی شیعہ ادارے اور تنظیمیں بھی حوثی کو امدادی رقوم کی ترسیل جاری رکھتی ہیں۔ اور یمنی حکومت کے قریبی ذرائع نے یہ بات بیان کی کہ الصعده کی لڑائی کےدوران اور اس سے پہلے حوثی کی مدد کے لئے سعودی شیعہ بھی مالی امداد بھیجتے رہے ہیں۔ اسی لئے یمن کے رئیس علی بن عبد اللہ نے بھی ایک خطاب میں شیعہ اور ایرانی حکومت کی طرف سے حوثی کو ملنے والی امداد کی طرف اشارہ کیا۔ کیونکہ حوثی کی تنظیم کو اتنی بھاری مقدار میں مالی اور عسکری امداد اندرونِ یمن سے ملنا ممکن ہی نہیں عسکری امداد کی صورت یہ تھی کہ عراقی شیعہ اور ایرانی انقلابی گارڈز کے افراد یمن میں قتل و غارت کے مظاہروں اور دہشت گردی کی وارداتوں کیلئے تربیت دینے کیلئے یمن آتے رہے ہیں۔ چنانچہ روزنامه اخبار اليوم اپنے ایک شمارے میں لکھتا ہے کہ : حوثی کے کارکنان میں سے گرفتار ہونے والوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ ایرانی انقلاب گارڈ اور عراقی شیعہ کے معسکرات میں دہشت گردی کی تربیت لیتے رہے ہیں۔
( حزب اللہ کون ہے، صفحہ71)
*ایران کی بنائی گئ اور ایران کے لئے کام کرنے والی شیعہ دہشت گرد تنظیمیں*
*میرے محترم قارئین کرام!* ایران میں شیعہ انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی بیرونی ممالک خصوصًا اسلامی ممالک میں متعدّد شاخیں اور تنظیمیں قائم کی گئی جو ایرانی نظام کے ماتحت تھیں۔ ان کا مقصد مختلف ممالک میں شیعہ کے ذریعے ایرانی انقلاب کے لئے راہ ہموار کرنے، ان ملکوں میں ایرانی طرز پر شیعہ خمینی انقلاب لانے، اور ان ملکوں کی امن وامان کو خراب کرنے، اور وہاں پر فتنہ و فساد برپا کرنے کے ناپاک عزائم شامل تھیں۔ ان میں سے چند تنظیموں کے نام درج ذیل ہیں:
اسلامی ملکوں میں شیعہ دہشت گردوں کی بڑی بڑی پارٹیاں جن میں لبنان میں *حزب اللہ*، عراق میں *اسلامی انقلاب کی سپریم کونسل، پاکستان میں *تحریک جعفریہ*، افغانستان میں *وحدت پارٹی*، سوڈان میں *Nif*،مصر میں *الجہاد*، اور الجزائر میں *ISF* شامل ہیں۔
*(ایران افکار و عزائم، صفحہ39)* *1... حزب الله لبناني*
لبنانی شیعه تنظیم *حزب الله* لبنان میں 1982ء میں قائم ہوئی۔ اور 1985ء میں سیاست کے میدان کارزار میں باقاعدہ شامل ہوگئی۔ یہ تنظیم ایرانی کمک پر پلنے والی تنظیم *حركة امل الشیعہ* کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔
*حزب الله:* کا خطرناک کردار بالکل واضح ہو چکا ہے۔ کیونکہ گذشتہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ *حزب الله* ایک متعصّب شیعہ تنظیم ہے، جن کے سینوں میں سنی مسلمانوں کے خلاف حسد و نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
*حزب الله* دورِ حاضر میں سنی مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن جماعت کے روپ میں ابھری ہے، جو پوری دنیا میں سنیوں کے خلاف کاروائیوں میں مصروف ہے۔ یہ جماعت ظاہرًا یہود و نصاریٰ کے خلاف علمِ جہاد بلند کرتی دکھائی دیتی ہے حالانکہ حقیقت میں یہ عالمِ اسلام میں شیعہ مذہب کے فروغ اور خمینی ملعون کے شیعی انقلاب کو کامیاب بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس بات میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ *حزب الله* لبنان میں ایک ایرانی تنظیم ہے۔ اس کی دلیل خود اس کی تأسیسی دستاویز میں ان الفاظ میں موجود ہے کہ:
ہم *حزب الله* کے ارکان ہیں، جس کے ہر اوّل دستے کو اللہ تعالٰی نے کامیابی عطا کی اور دنیا میں اسلامی حکومت کی نشاۃِ ثانیہ ہوئی۔ ہم ایک مدبّر عادل حاکم کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں جو بذاتِ خود ولی، فقیہ اور امامت کی شرائط پر پورا اترتا ہے۔ موجودہ دور میں ہمارا لیڈر *آیة الله روح اللہ الموسوی* خمینی ہے۔ جن کے ذریعے سے مسلمانوں نے ایران میں اسلامی انقلاب برپا کیا اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ہوئی۔
*حزب الله* کے لیڈر *ابراهيم الامين* اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم ایران کا ایک جزو ہیں، بلکہ ہم تو لبنان میں ایران اور ایران میں لبنان کی حیثیت رکھتے ہیں۔
*(حزب اللہ کون ہے،صفحہ 22:9)*
*ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:* تمام شیعہ خمینی ملعون کے زیرِ اثر *حزب الله* کی نشونما ایران میں ہوئی۔
*(حزب اللہ کون ہے، صفحہ106)*
*2... حزب الله حجازی*:
1979ء میں ایران میں خمینی انقلاب کے قیام کے شروع ہونے اور اس کے غلبے کے فوراً بعد ایرانی حکمرانوں نے اپنے سعودی ایجنٹوں کو سعودی حکومت کے خلاف بغاوت کا حکم دے دیا۔ ایرانی حکومت کی اس تحریض و تحریک پر 1400ہجری میں ضلع قطیف میں شیعہ آبادی نے بغاوت کر دی۔ اس بغاوت میں کچھ اس طرح کے نعرے لگائے گئے... ہم حسینی مذہب کے پیروکار ہیں، ہمارا قائد خمینی ہے، سعودی حکومت کو ختم کر کے دم لیں گے، شاہ فہد اور خالد کی حکومت کا تختہ الٹ کر رہیں گے، وغیرہ وغیرہ۔
پھر جیسے ہی سعودی شیعہ قیادت اور ایرانی حکومت میں تعلقات مضبوط ہوئے اور خمینی انقلاب کے اثرات ظاہر ہونے شروع ہوئے تو سعودی شیعہ کو *حسن الصفار* کی قیادت میں ایک نئی تنظیم بنانے کا حکم دیا گیا۔ لہٰذا *منظمه الثورة الاسلامية لتحرير الجزيرة العربيه* کے نام سے ایک تنظیم تشکیل دے دی گئی۔ جس کے لیڈر اور منتظم *حسن الصفار* تھے۔ اس تنظیم کا معنی ہے۔۔۔۔ جزیرۀ عرب کی آزادی کے لئے اسلامی انقلابی تنظیم۔ اور اس تنظیم کا ہیڈ آفس ایران میں تھا۔
*اس تنظیم کے اغراض و مقاصد:*
*1۔۔۔* ایران میں برپا ہونے والے خمینی انقلاب کی حمایت اور اسے عالمِ اسلام میں غالب کرنے کی کوششیں کرنا۔
*2۔۔-* جزیرۂ عرب یعنی سعودی عرب کی سنّی اسلامی حکومت کو ختم کرنا اور ایرانی حکومت کے تابع خمینی حکومت قائم کرنا۔
*حجازی حزب الله کا عسکری ونگ:*
80 کی دہائی کے نصف ثانی میں تقریباً 1987ء میں جزیرہ عرب کی اسلامی تنظیم نے اپنا عسکری ونگ قائم کیا اور اسے *حزب الله الحجازی* کا متفقه نام دیا گیا۔ اور یہ عسکری ونگ سعودی عرب میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے کیلئے بنایا گیا تھا، ایام حج میں فتنہ و فساد اور دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے کیلئے اس کو ایرانی گارڈ کے ساتھ وابسطہ کر دیا گیا۔
اس تنظیم کی تشکیل ایرانی خفیہ ایجنسی کے افسر احمد شریفی کے زیرِ انتظام انقلابی طرز پر کی گئی۔ اس تنظیم میں بعض سعودی شیعہ طالب علموں کو بھرتی کیا گیا جو ایران کے شہر **قم** میں زیرِ تعلیم تھے۔
1407ء کے حج کے دنوں میں *حزب الله الحجازی* کے شیعہ کارکنوں نے ایرانی انقلابی گارڈ کے تعاون سے ایک بہت بڑا جلوس نکالا جس کا مقصد حجاج کرام کو قتل کرنا اور عوامی پراپرٹی کو نقصان پہنچانا اور مسجدِ حرام اور مقدس مقامات میں فتنہ و فساد بر پا کرنا تھا۔
*(حزب اللہ کون ہے، صفحہ51)*
*3... كويتي حزب الله:*
*کویتی حزب الله 80 کی دہائی میں:*حزب اللہ لبنانی*
*کویتی حزب الله 80 کی دہائی میں:*حزب اللہ لبنانی* کی تأسيس کے بعد قائم کی گئی۔
*کویتی حزب الله* کی اس برانچ کی بنیاد کویتی شیعہ کے ان طلباء نے رکھی جو ایرانی شہر *قم* کے حوزہ دینیہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
خلیجی ممالک میں *حزب الله* کے مؤسسين اور کارکنان کی بھرتی *قم* شہر ہی سے ہوتی ہے، جبکہ یہ لوگ وہاں کے *حوزہ علمیہ* میں شیعی تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ اس تنظیم کے اکثر کارکنان کے ایرانی گارڈ کے ساتھ گہرے روابط ہیں، کیونکہ انہوں نے تخریبی تربیت انہیں سے حاصل کی تھی۔
یہ تنظیم کویت میں فتنہ و فساد اور عوامی اضطراب و بےچینی پیدا کرتی، بم دھماکے، اغوا اور قتل و غارت کی خفیہ کاروائیاں کرتی تاکہ کویت میں اپنا تسلّط قائم کر کے ایران کی ہم مذہب حکومت قائم کر سکیں۔ اس جماعت نے کویت میں بہت سی تخریبی اور دہشت گردی کی وارداتیں کی ہیں۔ جن کو تاریخ نے محفوظ کر لیا ہے۔
*کویتی حزب الله* ایرانی شیعہ تحریک کا ایک اہم جزو شمار ہوتی ہے، جس کی قیادت *آية الله العظمی خامنه ای* کرتا ہے۔
*(حزب اللہ کون ہے، صفحہ60)* *4... يمنى حزب الله :*
یمن میں *حزب الله* کی علاقائی برانچ کا نام *حزب الله* رکھا گیا لیکن *حزب الله لبنانی* کے گھناؤنے جرائم قتل و غارت اور دہشت گردی کی وارداتوں کی وجہ سے یمن کے مسلمان معاشرے میں *حزب الله* کو پذیرائی نہ مل سکی جو کہ شیعہ اثنا عشریہ کے عقائد و افکار کی پیروکار تھی، لہٰذا اس برانچ کا نام تبدیل کرکے *الشهاب المؤمن* رکھا گیا، تاکہ یہ عوام میں مقبول ہو سکے۔ یہ تنظیم 90 کی دہائی میں قائم کی گئی۔
اس تنظیم میں شیعہ زیدی فرقے کے افراد بھی بھرتی کئے گئے جو کہ اپنے زیدی عقائد ترک کر کے اثنا عشریہ عقائد کو قبول کر چکے تھے یا وہ اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے (تقیہ) دھوکہ دہی سے اس نئی تنظیم میں شامل ہو گئے تاکہ ایرانی شیعہ کے اثنا عشریہ عقائد کو یمن میں فروغ دیا جا سکے۔
*(حزب اللہ کون ہے، صفحہ67)*
*5..... بحريني حزب الله:*
بحرین میں ہادی المدرسی کو *الجبهة الاسلامية لتحرير البحرين* کے نام سے تنظیم بنانے کی ہدایات دی گئیں۔ جس کا ہیڈ کواٹر تہران میں ہوگا۔ اس تنظیم نے ابتداء میں ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے اپنے اغراض و مقاصد کی وضاحت کی، جو درج ذیل ہیں : *1...* آل خلیفہ کی حکومت کا خاتمہ۔
*2...* بحرین میں ایرانی خمینی انقلاب کے موافق شیعی نظامِ حکومت کا قیام۔
*3...* . بحرین کو خلیجی ممالک کے اتحاد سے نکال کر ایران کے ساتھ منسلک کرنا۔
یہ تنظیم ایران سے متعدّد میگزین شائع کرتی تھی۔ جیسے: *الشعيب التأثر:* اور *الثورة الرسالة* وغیرہ ہیں۔ 80 کی دہائی میں بحرین کی تحریکِ آزادی کے قائدین اور ایرانی انٹیلی جنس آفیسروں کا اجتماع ہوا جس میں تحریک آزادی کا عسکری ونگ قائم کرنے پر اتفاق رائے کیا گیا۔ اس ونگ کا نام *حزب الله البحرين* رکھا گیا۔
اس جماعت کے قیام کی ابتداء ہی میں حجه الاسلامیہ کے جنرل سیکرٹری محمد علی محفوظ کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ *حزب الله* کے بحرینی ونگ کو تین ہزار شیعی لشکری فراہم کرے گا، جن کی عسکری تربیت ایران اور لبنان میں ہوگی۔
اس تنظیم کا سربراہ *عبد الامير الجمری* کو بنایا گیا اور ان کے بعد علی سلیمان نے ان کی قیادت سنبھالی ہے۔ ہادی المدرسی تحریکِ آزادی بحرین کا قائد اس نئے ونگ کا مرشد اور امداد کننده سربراہ ہے۔ اسی طرح محمد نقی المدرسی نے اس نئے ونگ کو فکری اور اعتقادی راہنمائی دی۔
ان تمام مراحل کے بعد یہ نیا ونگ اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوگیا اور اس نے ملک میں فتنہ و فساد برپا کر دیا اور کچھ اہم علاقوں اور ان کے گرد و نواح میں اپنا غلبہ قائم کر لیا۔
اس تنظیم کا پہلا اور بنیادی مقصد موجودہ نظامِ حکومت کو ختم کر کے ایرانی شیعہ کے زیرِ اثر حکومتی نظام قائم کرنا تھا۔ اس بات کی تاکید و تصریح *آية الله روحانی* کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ بحرین ایران کے تابع ہے اور بحرین اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس تنظیم کے اہم ترین کارنامے 1994ء میں ہونے والے فسادات، ہنگامہ آرائی اور غنڈہ گردی ہے۔ یہ بدترین ہٹلر بازی اور غنڈہ گردی مختلف تنظیمی ناموں سے کی گئی، مثلاً کبھی کاروائی *منظمة الوطن السليب* کی کاروائی قرار دیا گیا۔ حالانکہ حقیقت میں یہ ساری تنظیمیں اور ان کی کاروائیاں ایک ہی جماعت *حزب الله البحرين* کی کارستانیاں تھیں۔
بعد ازاں یہ تمام نام ایک ہی تنظیم میں مدغم ہو گئے اور نئی تنظیم *جمعية الوفاق الوطني الاسلامیة* کے نام سے قائم کر دی گئی۔ جس کی قیادت علی سلمان کو سونپی گئی۔ اس نئی تنظیم کو سیاسی اور صحافتی میدان میں خدمات کے لئے مختص کر دیا گیا جبکہ عسکری اور تنظیمی کاروائیاں عسکری ونگ *حزب الله البحرین* کے سپرد کر دی گئیں۔
*(حزب اللہ کون ہے، صفحہ41)*
*6 ... دهشت گرد گروپ ملنگان حیدر کرار*:
ملنگان حیدر کرار شیعوں کا سب سے زیادہ خطر ناک گروہ ہے جو پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے گھروں کے دروازوں پر تبرّا کرتے ہیں اور بھیک کے بہانے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر لعنت کرتے ہیں۔ اس گروہ کے لوگ سیاہ کپڑوں میں ملبوس، پاؤں میں کڑے اور بالوں کی لمبی لمبی لٹیں لٹکائے رکھتے ہیں، یہ لوگ اُصولِ دین سے بالکل بے بہرہ ہیں بلکہ دینِ اسلام کے سخت دشمن ہیں۔ ان کا کام صرف *علی علی* کے نعرے لگانا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امّہات المومنین رضی اللہ عنہن کو گالیاں دینا ہے، جو ان کے نزدیک یہی عبادت ہے۔ عام مسلمان ان کو *کشتہ نفس اور تارک الدنیا* سمجھتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ایک باوثوق ذریعہ سے پتہ چلا ہے کہ صوبہ سرحد کی شیعی آبادی پارہ چنار کے نواحی علاقہ *زیڑان* میں کچے مٹی اور گارے کے مکانوں کے درمیان پہاڑی پر پختہ عمارات کا ایک سلسلہ ہے جسے ایرانی حکمرانوں کے مشورے اور امداد سے تعمیر کروایا گیا ہے، بتایا جاتا ہے کہ یہ اہلِ تشیع کا مدرسہ ہے لیکن درِ پردہ دراصل یہ ملنگوں کی پرورش گاہ ہے جہاں ان کو نشہ کے عادی بنا کر اور برین واش کر کے ملنگ بنایا جاتا ہے، اس جگہ اسلحہ اور بم بھی بنائے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس تعلیم گاہ میں اگست 2011ء میں ایک بم بھی پهٹا تھا جس میں تین افراد ہلاک اور بہت زخمی ہو گئے تھے۔
ملک کے مختلف حصوں سے کم سن بچوں اور نوجوانوں کو اغوا کر کے یہاں لایا جاتا ہے، ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے، انہیں نشہ کا عادی بنایا جاتا ہے اور چند سالوں کی تربیت کے بعد ان کو مکمل ملنگ بنا دیا جاتا ہے۔ پھر ان کو مختلف علاقوں میں شیعیت کے مقاصد کے فروغ کے لئے بھیجا جاتا ہے۔
*ان ملنگانِ حیدر کرار سے حسب ذیل کام لئے جاتے ھیں*:
*1:* بچوں اور نوجوانوں کو اغوا کر کے ملنگوں کی پرورش گاہوں میں پہنچانا-
*2:* نشہ آور اشیاء یعنی بھنگ، چرس، ہیروئن وغیرہ کے استعمال کو معاشرے میں پھیلانا-
*3:* تعویذ گنڈے کرنا اور سادہ لوح عورتوں کو ورغلانا۔
*4:* مزاروں کو بے حیائی، زنا کاری، نشے اور جوئے کے اڈے بنانا۔
*5:* سرِ عام صحابہ کرام رضوان الله عليہم اجمعین اور امّہات المومنین رصی اللہ عنہن کو غلیظ گالیاں دینا اور ان کے خلاف نفرت پھیلانا۔
*(ایران اور عالم اسلام، صفحہ50)*
*7۔۔۔ دهشت گرد تنظیم ISO*
پاکستان میں تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ کی قائم کردہ تنظیم، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (iso) سب سے زیادہ پُرجوش اور فعّال ہے۔ یہ تنظیم ایرانی انقلاب کے اغراض و مقاصد کو عام کرنے اور فروغ دینے کیلئے پاکستان میں ایرانی حکومت کے کارکنوں سے کہیں بہتر کام کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس نے نوجوان شیعوں کی لام بندی کیلئے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس تنظیم کے فرائض میں حسب ذیل ذمہ داریاں شامل ہیں۔
(1): انقلابی کتابچوں اور رسالوں کی تقسیم۔
(2): حسّاس علاقوں میں جلوس نکالنا۔
(3): مختلف موقعوں جیسے ایرانی انقلاب کی برسی، یوم القدس، ایران اور شیعوں کے خلاف سازشوں پر امریکہ سعودی عرب اور سپاہ صحابہؓ پاکستان کے خلاف احتجاج اور نفرت کا اظہار، مظاہروں اور جلوسوں کا اہتمام و انتظام کرنا وغیرہ وغیرہ۔
(ایران اور عالم اسلام، صفحہ 76)