Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

پاکستان میں شیعہ کے دہشت گردی اور ظلم و ستم اور ٹارگٹ کلنگ کے سنسنی خیز انکشافات

  مولانا محب اللہ قریشی

پاکستان میں شیعہ کے دہشت گردی اور ظلم و ستم اور ٹارگٹ کلنگ کے سنسنی خیز انکشافات

 میرے محترم قارئین کرام!

جناب حافظ احمد بخش ایڈوکیٹ شہید صاحبؒ فرماتے ہیں کہ: پاکستان میں شیعہ کردار پر روشنی ڈالنے کے لیے عہدِ حاضر کا وہ ناقابلِ فراموش جرم تو لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہوگا جس کا ارتکاب شیعہ صدر یحیٰ خان نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہ صرف انڈیا کے آگے ہتھیار ڈالے۔ بلکہ مشرقی پاکستان کی مسلم اکثریت کو ہندوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اس کی سازش سے دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست دولخت ہو گئی اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔

جہاں صحیح العقیدہ مسلمانوں کی بڑی اکثریت ہے کوئی شیعہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس طرح بچے کچھے پاکستان میں جس کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں۔ شیعوں کی آبادی کا تناسب اور اثر بہت بڑھ گیا اور ایران کے شہہ اور دخل اندازی پر مقامی شیعوں نے کل پرزے نکالے اور ہر روز کا مشاہدہ ہے کہ کس طرح یہ گروہ حکومتِ پاکستان کو اپنے ناجائز حقوق کے سلسلے میں مذہبی اور سیاسی سطح پر دباؤ ڈال کر بلیک میل کرتا رہا۔ غرض یہ کہ پاکستان کو دو لخت کرنے کی ایرانی سازش جس کی داغ بیل سکندر مرزا رافضی کے زمانے میں ڈالی گئی تھی کامیاب ہو گئی۔

جس طرح میر صادق اور غلام علی لنگڑے نے سلطان ٹیپو شہیدؒ کے خلاف سازش کر کے ہندوستان میں انگریز کے ہاتھوں اسلامی اقتدار کا خاتمہ کیا۔ آج ہندو یہود سے ساز باز کر کے سکندر یحیٰ پاکستان کے ٹکڑے کر چکے، اب بچے کھچے پاکستان کو مزید توڑنے کے لیے تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ چلانے کا یہی مقصد ہے جسے ادنیٰ سا مسلمان پاکستانی بھی گوارا نہیں کرے گا۔

سوچنے کا مقام ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں برابر کا فارمولا کس نے توڑا؟1971ء کہ انتخابات کے بعد ادھر ہم اور ادھر تم کا نعرہ لگا کر مشرقی پاکستان کو کس نے الگ کیا؟ پھر یحیٰ خان رافضی نے فوجی ایکشن کے ذریعے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کرا کر اسے ہمیشہ کے لیے ہم سے الگ کر کے بنگلہ دیش کس نے بنایا؟ اور اب زکٰوۃ وعشر کا انکار کر کے نفاذ اسلام و شریعت بل کی ڈٹ کر مخالفت کون کر رہا ہے؟ روسی کمیونسٹ اپنانے اور خون کی ندیاں بہانے کی دھمکیاں کون دے رہا ہے؟یہ صرف سبائی فرقہ ہے، جو اپنے اس طویل تاریخی سفر میں ہر منزل میں مسلمانوں کا رہزن ثابت ہوا۔ ہمدرد اور حامی کبھی نہیں رہا۔ اس لیے ہمیں حالیہ ایرانی شیعہ انقلاب اور شدید کشت و خون پر اور اسے دیگر ممالک کہ اپنے ہاں برآمد کرنے کے عزائم پر کچھ تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ ہلاکو خان اور تیمور کو اپنا ہیرو ماننے والے خمینی پرست شیعہ مسلمانوں کی یہی خدمت کر سکتے ہیں۔ کاش! ہماری بھولی بھالی بھیڑ چال مسلم قوم کو سمجھ ہوتی۔

 شیعہ، اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں:

لبنان میں مسلمانوں کے خلاف شیعوں نے عداوت اور بے وفائی کا عملی مظاہرہ کر کے مقامی و بیرونی عیسائیوں کو اپنا حلیف اور سچا رفیق سمجھ کر ان سے گٹھ جوڑ کر لیا، ان کا یہ منافقانہ رویہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ لبنان کی مسلم آبادی پر شیعہ امل ملیشیاء کب سے مظالم ڈھا رہی ہے۔ اور کیوں؟ شام میں دروزی شیعہ کس طرح اہلِ سنت کے املاک کو تباہ و برباد کر کے ان کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں؟ پاکستان کے شمالی علاقہ جات (گلگت ،اسکردو وغیرہ) کو علیحدہ ریاست صوبہ بنانے کے لیے کون سرگرم عمل ہے؟ افغانستان کی دس سالہ جنگ آزادی میں، "من حيث القوم" اور رول کبھی مثبت نہیں رہا۔ انہوں نے ہمیشہ جہاد کی مذاحمت اور لادین طاقت روس کے خلاف مجاہدوں کی مزاحمت کو لاحاصل اور بے سود کہہ کر نہ صرف ان کی حوصلہ شکنی کرتے رہے بلکہ عملاً روس کے لیے جاسوسی کر کے ان کو نقصان پہنچاتے رہے مگر جب اللہ تعالٰی جل شانہ نے روس کے خلاف مجاہدین کو فتح دی اور روسی فوجوں کا وہاں سے انخلا ہوا تو یہ مار آستین اب افغانستان کے عبوری حکومت پر قبضہ کرنے کے در پہ ہیں تاکہ وہاں اسلامی نظام قائم نہ ہو سکے۔

اس سلسلے میں ایران اپنے ہمنواؤں کے ذریعے مجاہدین پر مسلسل دباؤ ڈلوا رہا ہے کہ وہاں شیعوں کو ان کی آبادی سے کہیں زیادہ نمائندگی دی جائے۔ مزید برآں حرم کعبۃ اللہ میں بموں کے حالیہ دھماکے اس کی خباثت کا تازہ ثبوت ہیں جس سے بالکل عیاں ہیں کہ رافضی مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں۔ اللہ تعالٰی جلّ شانہ ان مسلمانوں کو بینائی عطا فرمائے جو ایران اور شیعوں کے گن گاتے ہیں۔

وطنِ عزیز پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا، اس کی سلامتی کو تخریب کاری اور لسانی گروہی فسادات کے ذریعے نقصان پہنچانے والے نہ صرف اس کے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔

سانحہ بہاولپور اگست 1988ء کی تحقیقاتی رپورٹ کے منظر پر آنے کے بعد یہ بات ایک حقیقت اختیار کر گئی کہ یہ سانحہ جہاز کے اندر ایئر فورس کے ایک شیعہ افسر فلائٹ لیفٹنٹ ساجدی کی تخریب کاری (زہریلی گیس چھوڑنے) سے وقوع پذیر ہوا جو اس میں ہلاک ہوا، اور آج رحیم یار خان میں شیعوں کے قبرستان میں دفن ہے۔واضح رہے کہ ساجد ساجدی شیعہ عارف الحسینی سے بہت متاثر اور اس کا مداح تھا۔ پھر جنرل ضیاء الحق کی شہادت پر شیعوں نے خوشی و فتح کا اظہار کر کے اپنی بد باطنی کا ثبوت فراہم کیا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سانحہ کے پیچھے شیعہ سازش کار فرما ہے۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی اور کوئٹہ میں غیر قانونی طور پر مقیم پانچ لاکھ سے زائد ایرانی کیا کر رہے ہیں؟ 1985ء میں ایک شیعہ لڑکی بشریٰ زیدی کے منی بس کے حادثے میں ہلاک ہونے کے بعد شیعہ دہشت گردوں نے ایرانی پاسداروں کی حمایت کے بل بوتے پر بڑے وسیع پیمانے پر پٹھانوں کی ویگنوں، بسوں اور دیگر عملہ، کو تباہ کر کے لسانی فسادات کی ابتدا کیوں کی؟ حالانکہ لڑکی کے باپ نے گاڑی ڈرائیور کو معاف کر دیا تھا۔

قیام پاکستان سے لے کر 1985ء تک کراچی میں اسلامی اخوت اور بھائی چارے کے تحت زندگی گزارنے والوں کے درمیان نفرتوں کا بیج کس نے بویا؟ 1985ء سے شروع ہو کر آج تک نہ ختم ہونے والے ہنگاموں میں واقعات کے مطابق گاڑیوں پر سوار ہو کر فائرنگ کرنے اور دہشت گردی پھیلانے والوں کا تعلق یا تو ایران سے ہے۔ یاپارا چنار یا شمالی علاقہ جات کی شیعہ آبادی سے ہے۔ دونوں قوموں کے شیعہ مل کر کراچی میں قومیت کی فضا کو کیوں ابھار رہی ہے۔ وادی پارا چنار میں روس کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے افغانی مجاہدین کا خون کس نے بہایا ہے؟ ان کے راستے روکنے والے کون تھے؟ میر جعفر، میر صادق اور یحٰی خان کی ذریت ایک بار پھر پاکستان کے ٹکڑے کرنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ آج امام بارگاہوں میں پاکستان کی فوجی چھاونی سے زیادہ اسلحہ موجود ہے۔ کوئٹہ، کراچی اور پارا چنار کے واقعات آنے والے واقعات کا سگنل ہیں۔

ایران میں خمینی انقلاب کے بعد سے ہمارے ملک میں "نفاذ فقہ جعفریہ" کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اس پر اہلِ سنت کے محبِّ وطن افراد اور انتظامیہ کی آنکھیں اب کھلنی چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد وفاقی وزیرِ داخلہ کو اپنی سینٹ کی تقریر میں کھلے الفاظ میں کہنا پڑا کہ حکومت کے پاس اس بات کا واضح ثبوت موجود ہے کہ پاکستان کے شیعوں کو غیر ملکی امداد مل رہی ہے۔ (روزنامہ جنگ لاہور 12 جولائی 1985ء)

سب کچھ جانتے ہوئے بھی انتظامیہ کسی قسم کی کاروائی کرنے سے کیوں قاصر ہے؟ ایران میں خمینی انقلاب کے بعد پاکستانی شیعوں کو جو ایرانی ایڈ اور گائیڈ لائن ملنا شروع ہوئی ہے، اس کی وجہ سے عالمِ اسلام کے ساتھ مسلسل غداری کرنے والا یہ گروہ پاکستان میں بھی اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔ تاکہ پاکستان کو بھی شیعہ اسٹیٹ بنا دیا جائے، اس مقصد کے حصول کے لیے یہ گروہ اہلِ سنت کے درمیان موجود فروعی اختلافات کو اچھال کر آپس میں دست و گریبان کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ شیعہ کے لیے اقتدار تک پہنچنا آسان ہو سکے۔ اس لیے علماء کرام اور عوام الناس کا فرض ہے کہ اتحاد کا علَم لے کر میدان میں نکلیں اور فتنہ شیعت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔

1: سانحہ گلگت:

آغا ضیاء الدین رضوی مرکزی انجمن امامیہ شمالی علاقہ جات کے صدر تھے 8جنوری 2005ء کو گلگت میں جب ان پر کسی مخالف نے حملہ کر کے زخمی کر دیا تو شیعہ دہشت گرد تنظیم _امل ملیشیا_ کے کمانڈوز اور مقامی شیعہ آبادی مشتعل ہو کر اپنے خود کار ہتھیاروں کے ساتھ بغرضِ انتقام سینکڑوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل پڑی اور مقامی دفتروں، بازاروں اور گھروں میں گھس کر سنی مسلمانوں اور ان کے خاندان کے افراد کا قتل عام شروع کر دیا سرکاری دفتروں اور ان کی درجنوں گاڑیوں کو آگ لگا دی اور سنی سرکاری افسران اور ملازمین کو بھی نہیں چھوڑا۔

کچھ سنی ملازمین کے اہلِ خانہ بیوی بچوں نے خوف کے مارے بھاگ کر ڈویژنل فوریسٹ افیسر "تیغون بنی" کے گھر پناہ لے لی۔ لیکن مسلح شیعہ درندے وہاں بھی پہنچ گئے اور فاریسٹ آفیسر اس کے اپنے خاندان اور اس کے گھر میں تمام پناہ گزینوں کو گولیوں سے بھون ڈالا اور مکان کو آگ لگا دی فاریسٹ افیسر کی جوان سال بیٹی جو باپ کے خون میں لت پت تھی اللہ تعالٰی جل شانہ اور رسولﷺ کے واسطے دے کر جان بچانے اور ہمسائیوں کو پولیس کو بلانے کے لیے دہائی دیتی رہی، لیکن۔۔۔شیعہ دہشت گردوں کو کوئی ترس نہ آیا۔ وہ تو انسان نہیں درندے تھے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایک ملازم نے بتایا کہ خود کار ہتھیاروں سے لیس سینکڑوں شیعوں نے ہسپتال پر ہلہ بول دیا اور ہسپتال کے وارڈوں میں گھس کر سنی ڈاکٹر مریضوں اور ان کی عیادت کے لیے آنے والوں پر اندھا دھند حملے شروع کر دیے۔شمالی علاقہ جات کونسل کے پارلیمانی لیڈر "حافظ حفیظ الرحمن" نے بتایا کہ اس واقعہ میں سنی سرکاری افسران اور ملازمین کو چن چن کر شہید کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سرحدی علاقے سے لے کر گلگت تک مسلح شیعہ افراد دہشت گردی کرتے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں اطلاع میں بتایا گیا کہ شہر کے گرد و نوا ح میں حفاظتی انتظامات سرے سے تھے ہی نہیں اور مقامی پولیس اور انتظامیہ بے بسی کی تصویر بنی رہی۔ 14 جنوری 2005ء کو شیعہ علماء کونسل کے زیرِ اہتمام اسلام آباد میں شیعوں نے ایک بار پھر زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔ دیکھا گیا کہ شیعہ مظاہرین نے اپنے ہاتھوں اور جیبوں میں پتھروں سے بھرے ہوئے تھیلے لیے ہوئے تھے۔ انہوں نے چائنا چوک پہنچ کر پولیس اور گاڑیوں پر زبردست پتھراؤ کرنا شروع کر دیا۔ اسلام آباد میں یہ افواہ بھی پھیلی کہ شمالی علاقہ جات کے کمانڈوز شہر میں ان علماء جو سانحہ گلگت پر زبان درازی کرتے ہیں۔ (یعنی لوگوں کو اصل حقائق سے باخبر کرتے ہیں) کا خاتمہ کرنے کے لیے داخل ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد غازی رشید شہید ؒ پر قاتلانہ حملہ کروا دیا گیا۔ جس میں وہ بال بال بچ گئے۔ اسی طرح اسلام آباد کی مسجد میں طاقتور بم بھی پایا گیا۔ جو اطلاع دینے پر پولیس اٹھا کر لے گئی۔

نوائے وقت 7.2.2005 کے مطابق گلگت میں شیعہ دہشت گردوں کے ہاتھوں سینکڑوں سنی افراد عورتوں اور بچوں کے قتل عام کے بعد اب یہ خبر آئی ہے کہ آغاز ضیاء الدین ملعون پر حملہ کرنے والا ان کا اپنا ہی ایک قریبی(شیعہ) ساتھی ہے۔ جو پشاور سے پکڑا گیا ہے (ایران اور عالم اسلام، صفحہ118)

2 : سانحہ کوئٹہ

کوئٹہ میں بربریت کے دو دن چنگیزی مظالم کی یاد تازہ کر دینے والے عینی شاہدوں کے واقعات، لاشوں کی بے حرمتی، کی ایسی مثال جاہلیت کے دور میں صرف ملتی ہے۔

6 جولائی 1985ء کو ضلع کوئٹہ صوبہ بلوچستان شہر میں شیعہ کے جانب سے ایک احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا گیا۔ اس مظاہرے سے قبل وہاں بعض ایسی تیاریاں دیکھی گئیں۔ جس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس موقع پر تشدد کی وارداتیں ہوں گی اور بعض لوگوں نے حکومت کو اس کی طرف متوجہ بھی کیا لیکن ان کی طرف سے حسبِ معمول سستی کا مظاہرہ کیا گیا اور ان اندیشوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی اور بالآخر اسی اندیشے کے مطابق وہی کچھ ہو گیا جو نہ ہونا چاہیے تھا۔ اور ظلم و بربریت کا وہ مظاہرہ دیکھنے میں آیا جو چنگیز خان کے مظالم میں بھی نہ سنا گیا تھا۔

 بربریت کوئٹہ کا انکھوں دیکھا کانوں سنا حال

عینی شاہدوں کے مطابق 6جولائی 1985ء کو جب مظاہرین نے دو غیر ملکی شہریوں آغا یعقوب اور مولوی جمعہ اسدی کی قیادت میں جلوس نکالنا شروع کیا تو مظاہرین کا ایک جتهہ جو مسلح تھا اس نے ایک طرف شر انگیزی کے لیے بڑھنا شروع کیا۔ پولیس کے نوجوان راستے میں آئے اور انہوں نے جلوس کے شرکاء کو اس طرف توجہ دلائی کہ حکومت کی طرف سے جلوس نکالنے کی اجازت نہیں، آپ صرف اسی جگہ اجتماع کر سکتے ہیں تو جلوس کے مسلح شرکاء نے پولیس والوں کو پکڑ لیا اور کچھ لوگوں نے ان کو ذبح کر دیا بعض پولیس والوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔ بعض کو زندہ ایمان بگاڑے پر لٹکایا گیا۔ بعض پولیس والے لاشوں کے سروں کو فٹ بال کے طور پر کھیل کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس دہشت گرد گروہ کو اسی پر صبر نہ آیا قریب بھی ایک اسکول تھا جس میں ملک کی چھوٹی طالبات تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ جلوس کے شرکاء میں سے ایک گروہ اس سکول کی طرف روانہ ہوا اور معصوم طالبات کا جو حشر کیا گیا اور جس طرح ان لڑکیوں کو پکڑ کر پولیس کے سامنے ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا اس کو تحریر میں لانا مشکل ہے۔ معلوم ایسا ہوتا تھا کہ ان مظالم کے باوجود ابھی جلوس کے شرکاء شیعہ دہشت گردوں کے انتقام کی پیاس نہ بجھی تو انہوں نے قریب کی دکانوں اور بینکوں وغیرہ کو جلانا شروع کر دیا اور جو راہ گیر ملا اس کو بھی تشدّد کا نشانہ بنایا گیا۔6جولائی کا دن اہلِ قائد آباد اور اہلِ کوئٹہ کے لیے قیامت سے کم نہ تھا سرکاری اطلاعات کے مطابق اس میں 92 افراد شہید ہو گئے۔

 افسوس ناک منظر:

16جولائی نوائے وقت اخبار کے مطابق۔۔ تھانہ قائد آباد کے علاقے میں چھ جولائی کے افسوسناک واقعہ کے دوران ایک شیعہ دہشت گرد دوسرے سنی پولیس سپاہی کو ذبح کر رہا تھا۔ یہ منظر ایک لڑکی شمع نے دیکھا جو یہ منظر دیکھتے ہی بے ہوش ہو گئی اور اب تک (یعنی 9دن کے بعد بھی) بے ہوش ہے۔

ان تمام مظالم اور واقعات میں نہ صرف غیر ملکی افراد مظالم کرتے دیکھے گئے بلکہ غیر ملک کے ایک رضاکار دستہ کا محافظ جسے "پاسدارانِ ایرانی انقلاب" کے نام سے پکارا جاتا ہے بھی ہلاک ہوئے۔ اس تمام کاروائی کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس تمام پرتشدّد کاروائی میں پولیس انتظامیہ نے اس کی روک تھام کے لیے کوئی جدّوجہد نہ کی، اور شام تک یہ ظالم خود ہی تھک کر آرام سے بیٹھ گئے۔ جبکہ دوسری طرف رات گئے تک بعض گھروں میں ان کی معصوم بچیاں نہ پہنچی تھی۔ 9جولائی کو پھر اس دہشت گرد گروہ اور حکومت کے درمیان شدید تصادم ہوا اور سارا دن کوئٹہ شہر فائرنگ کی آوازوں سے گونجتا رہا۔ اور آخر کار فوج کو مداخلت کرنا پڑی۔ اور 9جولائی کی شام کو کرفیو نافذ کیا گیا۔ کرفیو کے دوران جب شیعہ دہشت گردوں کے گھروں کی تلاشی لی گئی تو تقریبا 10ٹرک سے زائد مقدار میں غیر ملکی (ایرانی) اسلحہ برآمد ہوا۔ اور بعض جگہوں پر ایک ایک گھر سے ایک ٹرک کی مقدار اسلحہ برآمد کیا گیا اور اس گروہ کے افراد نے گھروں اور ایمان بگاڑوں کے تہہ خانوں میں دیواریں بنا کر اسلحہ چھپا رکھا تھا۔

 میرے محترم قارئین کرام!

سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ 6جولائی کو ہی فوجی کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟ اور مزید یہ نقصان کس کے پاؤر اور مشورے سے برداشت کیا گیا؟ اور چھ جولائی سے قبل جب ایران سے اسلحہ آنے کی خبر دی گئی تو انتظامیہ نے پیش بندی کے طور پر تلاشی کیوں نہیں لی؟ انتظامیہ نے جلوس کے شرکاء کا موڈ دیکھ کر حفاظتی اقدامات کیوں صحیح نہیں کیے؟ غیر ملکی خصوصًا ایرانی ایجنڈوں پر انتظامیہ کی طرف سے کیوں نگاہ نہیں رکھی گئی؟ یہ چند سوالات ہیں جو ہر پڑھنے والے اور سلیم الفطرت شخص کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔

ایرانی انقلاب کو دوسرے ممالک میں لانے کیلئے برآمد کے طریقے:

 انقلاب ایران کی برآمد کے طریقوں سے مراد۔۔۔ ایرانی رہنماؤں کے ان بیانات کی دوسرے ملکوں میں تشہیر ہے جو ان کی طرف سے اس موضوع پر وقتًا فوقتًا دیئے گئے ہیں اور جن کو بروئے کار لاکر ایرانی اس مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

 ایرانی بیانات ملاحظہ کیجئے:

  • یا درکھیں! دنیا میں اگر کہیں طاقتور حکومتیں ہمارے خلاف ہیں تو ان کے لوگ ہمارے ساتھ ہیں، اس لئے ہمارا ہدف صرف عوام اور ان کا عقیدہ ہونا چاہئے، کیونکہ لوگ سچائی کو جلدی قبول کر لیتے ہیں، اور چونکہ وہ دبے ہوئے اور مظلوم ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنے حکمرانوں کے خلاف جلد ہی اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے سرکاری اور غیر سرکاری نمائندے دوسرے ملکوں میں لوگوں کو بیدار کرنے کیلئے بھیجنے چاہئیں۔ اگر ہم ایرانی انقلاب کو برآمد کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں زیادہ سے زیادہ غیر سرکاری نمائندوں کو پوشیدہ طریقے سے دوسرے ملکوں میں بھیجنا چاہئے تاکہ وہ ان کی گلیوں میں آزادی سے چل پھر سکیں اور عام لوگوں سے گھل مل کر ان سے قریبی روابط پیدا کر سکیں، ان کے جذبات کو اُکسا سکیں اور ایران جیسے انقلاب کی طرف ان کو مائل کر سکیں۔ اب جبکہ ایرانی قوم انقلاب کے ابتدائی دور سے کامیابی سے گزرچکی ہے (یعنی لاکھوں سنیوں کے قتل عام کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں) اس پر اب ایک بھاری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اسلامی جہاد (جس میں صرف سنیوں کو قتل کیا جاتا ہو) شروع کرنے اور دوسرے ملکوں میں مظلوم اور دبے ہوئے لوگوں کو اپنی حکومتوں کے خلاف اُکسانے میں ان کا ساتھ دیں۔ 

(ایران افکار و عزائم، صفحہ 34)

  •  انقلاب کو دوسرے ممالک میں برآمد کرنے کا فرض ایران کی ہر تنظیم پر عائد ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ کھیلوں کی تنظیموں کو بھی ایسے کھلاڑی دوسرے ملکوں میں بھیجنے چاہئے جو ایرانی انقلاب سے متاثر ہوں اور اسے برآمد کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔

(ایران افکار و عزائم، صفحہ35)

  • ایرانی انقلاب کی برآمد کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ دوسرے اسلامی ملکوں کی مساجد کے آئمہ کو ایران آنے کی دعوت دیں تاکہ ان کے تعلقات ایرانی علماء کے ساتھ قائم ہوسکیں۔ ایرانی انقلاب کے اعلیٰ مقاصد اور عظیم ایرانی قوم کی قربانیوں سے ان کو آشنا کرو اور ان تک اسلام (شیعیت) کا صحیح پیغام پہنچاؤ۔ اگر امریکہ اور اس کے پٹھوؤں کے غیر اسلامی اور وحشیانہ عزائم سے لوگوں کو مؤثر طور پر آگاہ کر دیا گیا تو وہ ضرور ایران اور اس کے انقلاب کی حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوں گے 

(ایران افکار و عزائم، صفحہ 35)

  •  ایران کی کچھ سرکاری تنظیمیں اور سیاسی نمائندے اُن تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کے رابطے ایسے نوجوانوں خصوصًا شیعہ نوجوانوں سے ہیں جو یا تو بےکار ہیں یا کسی وجہ سے اپنی حکومتوں سے بیزار ہیں اور یا شیعہ تنظیموں کے سرگرم کارکن ہیں۔ ایسے نوجوانوں کو ایرانی اور بوسینیائی لڑکیوں سے شادی کی ترغیب اور مالی پیشکش کی جاتی ہے اور تخریب کاری کی تربیت کیلئے ایران لایا جاتا ہے جہاں اس مقصد کیلئے درجنوں تربیتی مراکز کام کر رہے ہیں۔ ان مرکزوں میں نوجوانوں کے دماغوں میں بٹھایا جاتا ہے کہ اُن کے حکمران غیر اسلامی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اور تربیت کاروں کے مطابق پروگرام کی تین منزلیں ہیں:  

پہلی منزل: مرکزی جگہوں، چوراہوں اور پرہجوم بازاروں میں بموں کے دھما کے کرنا، جس سے لوگ بددل ہوں اور یہ ثابت ہو کہ اس ملک میں استحکام اور پائیداری نام کی کوئی چیز نہیں اور امن کا فقدان ہے۔

 دوسری منزل: اُن پولیس والوں، وکیلوں اور ججوں وغیرہ کا قتل ہے جو تخریب کاروں یا ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے یا ان کے خلاف وکالت کرنے اور یا ان کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔ 

تیسری منزل: حکومت کا تختہ الٹنا اور شیعہ حکومت یا ایران نواز لوگوں کو بر سر اقتدار لانا ہے۔

(ایران افکار و عزائم، صفحہ39)

  •  حالیہ کچھ عرصے سے پاکستان کی شیعہ قیادت نے انٹرنیشنل کیمونیزم کے خطوط پر چلائی جانے والی ایران کی انٹرنیشنل شیعیت کی خمینی(خونی) تحریک کے پاکستان میں غیر مؤثر نتائج اور ناکامی کے بعد ایک حکمتِ عملی اپنائی ہے جس کے تحت اتحاد بین المسلمین جیسی تحریک، اخوتِ اسلامی، اخوتِ اکادمی نامی کئی نئی تنظیمیں متعارف کرائی ہیں جن کا مقصد باہمی اختلافات و نظریات سے ہٹ کر اعلیٰ اخلاق و کردار کو فروغ دینا ہے۔ جبکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ان تنظیموں کی باگ دوڑ نوجوان اور فعّال شیعہ قیادت کے ہاتھوں میں ہے۔

جو آئے دن مختلف اسلامی اور قومی موضوعات پر مجالس اور سیمینار کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ ان مجالس میں اکثر و بیشتر ممتاز سنی مسلم مذہبی، ادبی اور سماجی شخصیات کو نمایاں طور پر مدعو کرتے ہیں۔ ان موقعوں پر منتظمین کی طرف سے زیادہ زور قومی مفاہمت اور یکجہتی پر دے کر نہ صرف یہ تاثر عام کیا جاتا ہے کہ شیعہ و سنی در حقیقت ایک ہی شجر کی دو شاخیں ہیں بلکہ شیعہ کیمونٹی ہر اعتبار سے بہتر مسلمان اور حب الوطن پاکستانی ہیں۔ اس طرح ان کی غرض وغایت شیعہ نوجوانوں کی قیادت کو سنیوں میں مقبول بنانا ہے اور ایسی سازگار فضا پیدا کرنا ہے کہ مناسب وقت پر جب بھی ملک میں شیعہ انقلاب برپا کرنے کا آغاز کیا جائے تو یہی شیعہ نوجوان طبقہ مسلمانوں کے نمائندوں کی حیثیت سے بلا رکاوٹ اپنا شیعی مشن پورا کر سکے۔ یہ ایک دور رس خطرناک گہری سازش ہے جس کا صحیح اور بروقت ادراک پاکستانی مسلمانوں کو شیعوں کی غلامی سے بچا سکتا ہے۔

 (ایران افکار و عزائم، صفحہ4)

  •  اسی طرح آیت اللہ خمینی ملعون کی ہدیات پر پاکستان میں کئی شیعہ اسکول کھولے گئے، جن میں ایرانی اسکولوں کا نصاب پڑھایا جاتا ہے جسے نجف اور مشہد کے تعلیم یافتہ استاد پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چند اخبار اور میگزین بھی شروع کئے گئے، جن میں اسلام آباد سے شائع ہونے والا انگریزی اخبار مسلم بھی شامل ہے۔ ایران ان اخبارات و جرائد کومختلف طریقوں سے اشتہاری اور مالی امداد فراہم کرتا ہے۔ ان سب نے ایران کے شیعہ انقلاب کو اسلامی انقلاب اور خمینی ملعون کو اسلامی دنیا کا رہنما ثابت کرنے کیلئے ایک باقاعدہ مہم شروع کر رکھی ہے۔ کچھ سنی اخبار بھی شاید مالی امداد کے لالچ میں اس مہم کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں کہ اگر ایران کا انقلاب اسلامی ہے تو وہاں کا سرکاری مذہب شیعہ اثناء عشری کیوں ہے؟ اسلام کیوں نہیں؟ 
  •  آخرایسی مساجد اور مدارس میں گرنیٹ اور بم پھینکنا جن کے نام صحابہ کرامؓ کے ناموں پر رکھے گئے ہیں کیا معنی رکھتا ہے؟ یہ عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں بھی ان دہشت گردوں کا طریقہ کار بالکل وہی ہیں جو ایران میں "انقلابیوں" کا انقلاب سے پہلے تھا، جس کا مقصد بھی ایرانی عوام میں انتشار اور بے چینی پھیلا کر انقلاب کے لئے راہ ہموار کرنا تھا۔ (ایران افکار و عزائم، صفحہ 85)
  • پاکستان کے شیعہ طبقوں کے لیڈر اپنی تخریب کارانہ دہشت گردی کی کاروائیوں پر پردہ ڈالے رکھنے کیلئے اور اپنے بچاؤ کیلئے حکومتِ وقت کے حلیف بن کر اس کی پشت پناہی حاصل کر لیتے ہیں، جبکہ ایران میں ان کے آقا ان کی مالی، اخلاقی اور مادی امداد کرتے ہیں اور اسلام دشمن کاروائیوں میں ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔
  • شروع میں جس طرح قادیانیوں نے مسلمانوں کی عام کمزوری عورت اور مال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو استعمال کر کے قادیانیت کو فروغ دیا تھا، آج شیعہ بھی وہی حربہ استعمال کر کے بھر پور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ ان کی لڑکیاں پڑھے لکھے خوشحال مسلمان نوجوانوں کو فریب دیتی ہیں جس کے نتیجہ میں بعض مسلم نوجوان جو شیعوں کے عقیدے اور عزائم سے واقف نہیں ہوتے، ان شیعہ عورتوں کے دام میں پھنس کر ان سے شادی رچا لیتے ہیں۔ مزید ظلم یہ کہ ان عورتوں کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ سنی نوجوان اپنے دین سے برگشتہ ہو جائیں اور ان کی اولاد شیعہ آبادی میں اضافہ کا سبب بن جائیں۔(ایران اور عالم اسلام، صفحہ 46)
  •  اسی طرح ایران نے پاکستان میں اپنے ایجنٹ اور نمائندے بھی مقرر کر رکھے ہیں، جن کا حکومت اور دوسری مذہبی اور سیاسی جماعتوں اور ادبی حلقوں میں گہرا اثر و رسوخ ہے۔ وہ ایران کے قومی و مذہبی دنوں کے مواقع پر ان خاص دنوں کی یاد منانے کیلئے جلسے جلوس اور مختلف تقاریب کا انعقاد کر کے پاکستان کی مقتدر سیاسی، ادبی شخصیتوں اور حکومتی وزیروں مشیروں وغیرہ، خصوصًا ضعیف الاعتقاد اہلِ سنت کو بلا کر ایران اور خمینی کی تعریف میں مقالے پڑھواتے اور تقریریں کرواتے ہیں۔ جن کی ایرانی ذرائع ابلاغ کے ذریعے بعد میں خوب تشہیر کی جاتی ہے۔ 

(ایران افکار و عزائم، صفحہ 80)

  •  دوسرے اسلامی ملکوں میں ایرانی انقلاب کے برآمد کیلئے جو طریقے اختیار کئے ہیں ان میں سے ایک طریقہ۔۔۔ دبی ہوئی اور غلام قوموں کی رہنمائی ہے۔ وہ اس انداز میں کہ ان کے علماء (پادری) مختلف موقعوں پر ان کو مخاطب کرتے ہیں اور پیغام دیتے ہے تا کہ وہ اپنے ملکوں میں انقلاب کیلئے جوش و جذبے سے سرشار ہو سکیں اور شیعیت کیلئے جنگ لڑسکیں۔ 

(ایران افکار و عزائم، صفحہ36)

  • دوسرے ملکوں میں ایرانی انقلاب کو برآمد کرنے کا ایک اہم ہتھیار لٹریچر ہے اور ایک بلین ریال سے زیادہ خرچ پر کتابیں وغیرہ چھاپ کر دوسرے ملکوں میں تقسیم کی جا چکی ہیں۔ چنانچہ ایرانی حاجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ: اے برادران و خواهران! یہ تمہارا فرض ہے کہ دوسرے ملکوں کے حاجیوں کے ذریعے ایرانی انقلاب کو برآمد کرو۔ ایرانی انقلاب، اس کے بانی (خمینی ملعون) اور اپنی قوم کے مقاصد کی کتابوں، رسالوں اور تقریروں وغیرہ کے ذریعے تشہیر کرو اور دوسرے ملکوں کے حاجیوں کو باور کراؤ کہ ہمارا انقلاب خالصتاً اسلامی انقلاب ہے۔ 

محترم قارئین کرام! ایسی جگہ جہاں پر انسان اپنا سب کچھ بول کر صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ کے ساتھ تعلق بنانے اور اُس ذات کی بندگی کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں پر شیعوں کی یہ ذہن ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کی بجائے لوگوں کو خمینی ملعون اور ایرانی انقلاب سے آگاہ کر کے ان کی تعریفیں کی جائیں۔

 (ایران افکار و عزائم، صفحہ 38:35)

  •  حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے اس زمانے میں پروپیگنڈہ کیسی غیر معمولی اور کتنی مؤثر طاقت ہے، اور کسی غلط سے غلط بات کو حقیقت باور کرا دینے کی اس میں کس قدر صلاحیت ہے، اس کی تازہ مثال جو آنکھوں کے سامنے ہے وہ پروپیگنڈہ ہے جو موجودہ ایرانی حکومت کی طرف سے اپنے سفارتخانوں اور ایجنٹوں کے ذریعہ خمینی ملعون کی شخصیت اور ان کے برپا کئے ہوئے ایرانی انقلاب کی "خالص اسلامیت" اور اس سلسلہ میں اسلامی وحدت اور شیعہ سنی اتحاد کی دعوت کے عنوان سے کیا جا رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے کانفرنسوں پہ کانفرنسیں بلائی جارہی ہیں جن میں دنیا بھر کے ملکوں سے ایسے نمائندے بلائے جاتے ہیں، جن سے متاثر ہونے اور اپنے مقصد میں فائدہ اُٹھانے کی توقع ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ملکوں اور مختلف زبانوں میں کتابچوں، کتابوں، پمفلٹوں اور رسائل و اخبارات کا ایک سیلاب جاری ہے۔ کم از کم راقم سطور نے اپنی ستر سالہ شعوری زندگی میں نہیں دیکھا کہ کسی حکومت یا کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے ایسے وسیع پیمانے پر اور ایسا فنکارانہ اور مؤثر پروپیگنڈہ کیا گیا ہو۔ ہمارے اس دور کی حکومتیں زمانہ جنگ میں جس طرح اسلحہ اور دوسرے جنگی وسائل پر بے دریغ اور بے حساب دولت خرچ کرتی اور اس کیلئے حکومتی خزانے کا منہ کھول دیتی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ ایرانی حکومت اسی طرح اس پروپیگنڈہ پر ملک کی دولت پانی کی طرح بہا رہی ہے۔ اس مہینے مارچ 1984ء کے شروع میں ضلع مراد آباد کے دیہات کے ایک صاحب کسی ضرورت سے لکھنو آئے، راقم سطور سے بھی ملے، انہوں نے بتلایا کہ ہمارے علاقے میں گاؤں گاؤں اس سلسلہ کا لٹریچر پہنچ رہا ہے۔ بارش کی طرح بہنے والے اس لٹریچر اور اس پروپیگنڈے سے کلمہ اسلام کی سر بلندی اور اسلامی حکومت کے قیام کی تمنا اور خواہش رکھنے والے ہر اس شخص کا متاثر ہونا فطری بات ہے، جو شیعیت اور شیعیت کی تاریخ سے اور اس وقت کے ایران کے اندرونی حالات اور وہاں کی سنی آبادی کی حالت زار سے خمینی ملعون کی شخصیت اور ان کے برپا کئے ہوئے انقلاب کی اس فکری و مذہبی بنیاد سے واقف نہ ہو، جو خود خمینی ملعون نے اپنی تصانیف خاص کر اپنی کتاب "ولاية الفقيه الحكومت لاسلامیہ"میں پوری وضاحت سے بیان کی ہے۔ یہ کتاب ہی گویا اس انقلاب کی بنیاد ہے۔ اور اس کتاب کو بھی صحیح طور پر وہی سمجھ سکتا ہے جو شیعیت سے واقف ہو، اور اس نے شیعہ مذہب کا مطالعہ کیا ہو۔ 

(ایرانی انقلاب صفحہ22 تا 29)

  •  ایران نے پاکستان میں اپنے سفارت کاروں کو سخت ہدایات جاری کی ہوئی ہیں کہ وہ اس ملک میں اپنے ہم مسلک لوگوں سے مل کر شیعہ انقلاب لانے کیلئے راہ ہموار کریں۔ چنانچہ ان کا کام ہی یہ ہے کہ ایران میں شائع شدہ فرقہ واریت پر مبنی شیعہ مواد کو مقامی زبانوں میں شائع کروائیں، مقامی لوگوں میں تقسیم کریں اور اپنے ہم مسلک لوگوں سے مل کر یہاں شیعہ انقلاب لانے کے لئے حکمتِ عملی اور لائحہ عمل وضع کریں۔

(ایران اور عالم اسلام، صفحہ109)

  • یہ ایک حقیقت ہے کہ ایرانیوں خصوصًا ان کے سفارت کاروں اور ثقافتی مراکز (جو پاکستان میں نصف درجن سے زیادہ ہیں) کے کارکنوں نے بھی پاکستانی شیعوں میں سنیوں کے خلاف تعصّب کو ہوا دی اور انہیں فعّال بنانے کی غرض سے اپنے حقوق بزورِ قوت چھیننے کی تلقین کی۔ ایرانی سفارت کے ذریعے پاکستان میں ایرانی لٹریچر کثرت سے پہنچایا گیا اور یہاں کے مقامی لوگوں کی زبانوں میں ترجمہ کروایا گیا جن لٹریچر میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کو جھوٹا لکھا گیا تھا، اور حضوراکرمﷺ کو ناکام لکھا گیا تھا، اور ازواجِ مطہراتؓ و صحابہ کرامؓ کو کافر، مرتد، جہنمی تک تحریر کیا گیا تھا، اور صحابہ کرامؓ کی ماں، بہن کو ننگی گالیاں تحریر کی گئی تھی۔ (معاذاللہ)۔ 

(ایران افکار و عزائم، صفحہ82)

  •  عوام کو حکومت کے خلاف مشتعل کرنے کا کام شیعی خطیب علی احمد حبیل کر رہا ہے۔ وہ اپنے خطابات میں لوگوں کو حکومت کے خلاف پرتشدّد کاروائیاں کرنے اور حکومت مخالف پروپیگنڈہ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس نے کئی پارٹیاں تشکیل دی ہیں جو "بحرینی حزب الله" میں شامل ہو کر تخریبی کاروائیاں کریں گی۔ ان ملزمان کے اعترافات اُن دنوں بحرینی ٹیلی ویژن کی خصوصی بلیٹن میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ نیز ان دنوں کے بحرینی اخبارات میں بھی ان کی تفصیل چھپی تھی۔ اسی طرح حزب الله کے داعی عبد الوہاب حسین کا کردار بھی بڑا اہم ہے، وہ حزب الله کے اراکین کو سیکورٹی اور انٹیلی جنس کے اداروں کے ساتھ نپٹنے کے طریقے سکھاتا ہے۔ وہ اراکین کی خصوصی تربیت کرتا ہے کہ کس طرح خفیہ ادارے والوں کے حساس سوالات کا جواب دینا ہے۔ لوگوں کی ذہن سازی کیسے کرنی ہے اور انہیں حکومت مخالف رویے پر کیسے تیار کرنا ہے۔

 (حزب اللہ کون ہے، صفحہ47)

عالمِ اسلام میں تشیع کی نشر و اشاعت کے لئے شیعی خفیہ منصوبے کی تفصیل:

      ایران کے انقلاب کے مرشدِ اعلیٰ آیة الله العظمی علی خامنه ای ملعون کی ہدایات اور نگرانی میں شیعی شعار (علی کے شیعہ غالب ہوں گے) کے تحت "قم" شہر میں شیعی مجلس مشاورت کا اجلاس ہوا تاکہ عالمِ اسلام میں تشیع کی نشر و اشاعت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس اجلاس میں تمام جماعتوں کے قائدین مراجع، حوات کے لیڈر دینی اور سیاسی قائدین اور مباحثین نے شرکت کی۔ جس میں مختلف امور پر تبادلہ خیال کے بعد درج ذیل سفارشات پر اتفاق کیا گیا۔

  1.   ایک عالمی شیعہ تنظیم کی ضرورت محسوس کی گئی ہے جس کا نام "منتظمہ مؤتمر الشیعی"(عالمی شیعی مجلس مشاورت) ہوگا۔ اس کا ہیڈ آفس ایران میں ہو گا اور اس کی برانچیں پوری دنیا میں ہوگی۔ تنظیم کی کمیٹیاں اور ان کے فرائض طے ہوں گے اور مجلس کا اجلاس ہر مہینے ہو گا۔ 
  2. ہر ملک کی موجودہ حالت کا تحقیقی جائزہ لیا جائے گا اور عراق میں ہمارے اُن کامیاب تجربے سے استفادہ کیا جائے گا (یعنی جس طرح عراق میں صدام حسین شہیدؒ کی حکومت کو ختم کیا، اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک میں بھی اسلامی حکومتوں کو ختم کر کے شیعہ انقلاب لانے کی کوشش کی جائے گی) پھر باقی ملکوں میں اس کو لاگو کیا جائے گا۔ اُن میں اہم ترین سعودی عرب ہے جو وہابی کافروں کا قلعہ ہے۔ پھر اُردن ہے جو یہودیوں کا ایجنٹ ہے۔ اسی طرح یمن، کویت، مصر، بحرین، ہندوستان، پاکستان اور افغانستان میں اسے لاگو کیا جائے گا۔ خمسینیہ اور عشرینیہ منصوبوں پر فوری عمل شروع کیا جائے (یعنی پنج سالہ اور دس سالہ پلان پر فوری عمل شروع کر دیا جائے)۔ 
  3. پوری دنیا میں تمام تنظیموں اور جماعتوں کی غیر سرکاری عسکری فوج بنائی جائے۔ یہ کام عسکری اداروں میں اپنے افراد داخل کر کے، امن و امان کے اداروں، حساس اداروں میں داخل کیا جائے۔ ان کے لئے خصوصی بجٹ مقرر کیا جائے اور انہیں ہمارے سعودی، یمنی اور اردنی بھائیوں کے تعاون کے لئے تیار کیا جائے۔  
  4. ہر میدان میں عورتوں کے تمام وسائل اور ذرائع سے بھر پور استفادہ کیا جائے تا کہ تمام جغرافیائی اہداف میں انہیں استعمال کیا جا سکے۔ تربوی اور تعلیمی نوکریوں کو حاصل کیا جائے۔
  5.   تمام مذاہب اور قوموں کے ساتھ عملی ہم آہنگی پیدا کرنا اور ان سے مکمل فائدہ اُٹھانا تا کہ پوری دنیا میں شیعی مقاصد کے حصول میں اُن سے مدد لی جا سکے اور ان کے ساتھ نسلی تعصّب سے اجتناب کیا جائے تا کہ شیعی مصلحت کو نقصان نہ ہو۔ 
  6. عام دینی شخصیات کا قتل اور ان کی صفوں میں جاسوس شامل کرنا تاکہ ان کے منصوبوں کی اطلاع ہو سکے۔
  7.   تمام دینی حوزات اور مراجع کیلئے ضروری ہے کہ وہ ماہانہ رپورٹ اور سالانہ منصوبہ سازی کریں اور مجلس کو آگاہ کریں کہ ان ممالک میں کیا کیا رکاوٹیں پیش ہیں اور کیا کیا کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔ تشیع کے پھیلاؤ کے لئے مفید تجاویز بھی ارسال کریں۔
  8.  مجلس کے عسکری، اعلامی اور اداری معاملات کیلئے عالمی مالی بینک کا قیام یہ مجلس کے زیرِ تحت کھولا جائے گا، جس کی ذیلی برانچیں پوری دنیا میں ہوگی۔ اس میں حکومتوں، مالدار تاجروں، زکوة خمس اور تمام جمعیات اور تنظیموں سے مال جمع کر کے رکھا جائے گا۔ 
  9.  ایک مرکزی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو پوری دنیا میں مجلس کے منصوبوں کو مربوط کرے گی اور اس کے امور کو چلائے گی۔
  10.   تمام ممالک، حکومتوں اور جماعتوں کا پیچھا کیا جائے گا، ان کے خلاف ہر میدان میں جنگ چھیڑی جائے گی، خصوصاً اقتصادی جنگ، اس میں ایرانی برآمدات کو فروغ دینے اور سعودی، اُردنی شامیود اور چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کی ترغیب دی جائے گی۔ 

(حزب اللہ کون ہے، صفحہ187)

شیعوں کے وہ طریقے جن سے وہ سادہ لوگوں کو اپنے مذہب کی طرف لاتے ہیں:

 شیعہ فرقوں میں سے ہر فرقہ میں داعیانِ مذهب ہوتے تھے، جن کو "دعاة" کہتے تھے۔ یہ صرف اپنے اپنے فرقہ کے مذہب کی طرف بلاتے تھے۔ ان کی دعوت کے چار طریقے تھے۔

 علم سے کام لینے کا طریقه

 علم سے وہ اس طرح کام لیتے کہ شبہات کو شہرت دیتے اور ان پر ایسی موزوں اور نپی تلی گفتگو کرتے کہ ہر خاص و عام کے دل میں اُتر جائے، اور ہر شخص کی قابلیت، عادت اور مزاج کے مطابق ہمکلامی کرتے۔ اہلِ سنت کے دلائل توڑ مروڑ کر اپنے مذہب کی تائید و تعریف میں اور دوسرے کے مذہب کی مذہمت میں استعمال کرتے۔

 مال سے کام لینے کا طريقہ:

 مثلاً اس مذہب کو قبول کرنے والوں کو ہدیئے، تحفے اور انعامات دینا، نو مسلموں کی بہت تعظیم کرنا اور ان کو انعام و اکرام سے نوازنا۔ اپنے ہم مذہبوں کو ملازمتوں اور عہدوں کے ذریعہ فائدہ پہنچانا۔ غیر مذہب والوں کو ملازمتوں سے نکالنا اور ان کو حقیر و ذلیل رکھنا۔ مقدمات میں ہم مذہبوں کے ساتھ رعایت و جانب داری کا سلوک کرنا اور غیر مذہب والوں کو ملزم و قصور وار ٹھہرانا۔

 زبان سے دعوت کا کام لینے کی صورت:

 قبولیتِ مذہب پر اچھے وعدے کرنا، جو ان کے مذہب کی طرف مائل ہو تو محبت و شفقت آمیز گفتگو کرنا، اور جو ان کے مذہب کا مخالف ہو تو اس سے تیوری چڑھا کر بات کرنا اور سختی و درشتی سے ہمکلام ہونا۔

   تلوار سے کام لینے کا طریقہ 

 تلوار سے یوں کام لیتے ہیں کہ مذہب کے مخالف کو قتل کر دیتے، لوگوں کو مذہب قبول کرنے پر مجبور کرتے مخالف مذہب کے امراء و حکام سے جنگ کرتے تا کہ ان کی شوکت کم ہو۔ 

(تحفه اثنا عشريه اردو، صفحہ60)

 لوگوں کو اپنے شیعہ مذہب کی طرف دعوت دینے کے اسباب:

پہلا سبب: اہلِ مذہب کو گمراہ کرنا۔ ان کی جمعیت میں پھوٹ ڈالنا اور افتراق پیدا کرنا تاکہ اپنے ہم مذہب ان کی برائیوں سے امن و حفاظت میں رہیں۔ 

 دوسرا سبب: لشکر کی تعداد بڑھانا تاکہ ان کی کثرت کے سہارے اپنے پروگرام پورے کر سکیں۔ 

 تيسرا سبب: صاحبِ دولت و ثروت کی خوشامد اور چاپلوسی کرتے رہنا تا کہ وہ ان کے مذہب کا دلدادہ اورا ہلِ مذہب بنا رہے۔

 چوتھا سبب: اہلِ سنت کے درمیان بغض و عناد اور دشمنی کا ایسا بیج بونا کہ ایک گھر والے بھی آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں اور ایک دوسرے کی کاٹ میں لگ جائیں، تاکہ ان کا روزگار تباہ اور زندگی تلخ ہو جائیں۔

 (تحفہ اثنا عشریہ اردو،صفحہ61)

شیعہ مکرو فریب اور ورغلا کر اپنے مذہب کی طرف لانے کے طریقے

 مراتب دعوت

اوّل مرتبه ۔۔۔ زرق مراتب دعوت یعنی عقل وفراست سے مدعو (جس کو اپنے مذہب کی طرف دعوت دے رہے ہوں) کے بارے میں صحیح جانچ پرکھ، کہ وہ دعوت کے قابل ہے یا نہیں؟ یا اس پر دعوت اثر کرے گی یا نہیں۔ کیونکہ انہیں کے بقول بنجر زمین میں تخم ریزی کرنی چاہئے۔ یعنی جو دعوت کی قابلیت نہ رکھتا ہو اسے دعوت نہیں دینی چاہئے۔ ان کا یہ بھی قول ہے کہ جہاں روشنی ہو وہاں دم نہیں مارنا چاہئے۔ یعنی جس جگہ اہلِ سنت کا اصول یا متکم عالم ہو وہاں لب کشائی مناسب نہیں۔

 دوسرا مرتبه۔۔۔ مدعو (جس کو اپنے مذہب کی طرف دعوت دے رہے ہوں) کو خود سے مانوس کرنا، اور ہر شخص کے مزاج کے مطابق اس کی دلجوئی کرنا، مثلاً اگر ایک شخص زہد و طاعت کی طرف زیادہ مائل اور اس کا دلدادہ ہے تو اس کے سامنے اپنے آپ کو بھی زاہد و متقی ثابت کرنا۔ آئمہ کرام سے زہد و طاعت کے ثواب کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا۔ یا کوئی دوسرا جواہرات و زیورات پر فدا ہے اور ان کا شوقین ہے تو اس کے سامنے عقیق و یاقوت اور فیروزے کی فضیلتوں کی روایات بیان کرنا، اور اس پر ثوابِ عظیم کا وعدہ دینا۔ اسی طرح دیگر تمام امور خصوصاً کھانے، اولاد، عورتوں، باغات یا گھوڑوں یا ان کے علاوہ معاملات میں مخاطب کے طبعی رجحان کے موافق بات کرنا۔ 

تيسرا مرتبه ۔۔۔ تشکیک یعنی فریقِ مخالف کے عقائد و اعمال میں شک و شبہ پیدا کرنا، مثلاً قصه فدک بیان کرنا اور اس میں حدیث قرطاس کا بیان چھیٹر دینا، وغیرہ وغیرہ۔ یا اہلِ سنت کے مسائل میں فروعی اختلافات کو چھیڑنا، مثلاً رفع یدین کرنا یا نہ کرنا، آمین بالجبر پڑھنا یا نہ پڑھنا، یا مقطعاتِ قرآنی کا ذکر درمیان میں لانا یا متشابہات کے بارے میں تفاسیری اختلافات کو چھیڑنا اور موضوع بحث بنانا یا ان جیسے کسی اور بات کی طرف کلام کا رخ بار بار پھیرنا اور اس پر اظہار تعجب کرنا، تا کہ سامع کے دل میں شک اور تردّدر پیدا ہو اور مخاطب ان امور کی تحقیق حق کی طرف مائل ہو جائے، اور اپنے اہلِ سنت کے مذہبوں سے مایوس ہو کر دوسرے مذہب کی طرف جھک جائے۔ 

چوتها مرتبه۔۔۔ ربط یعنی عہد و پیمان کرنا اور ہر شخص سے اس کے اعتقاد کے موافق پختہ قول و اقرار کرنا کہ وہ ان بھیدوں کو فاش نہ کرے اور ان کو منظر عام پر نہ لائے۔

 پانچواں مرتبه ۔ تدليس یعنی ان اکابرِ دین، اکابرِ علماء اور برگزیدہ اولیاء کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا کہ وہ ہمارے ہم مذہب تھے، مثلاً انہوں نے یہ کہا کہ حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ، حضرت مقداد کندیؓ اور حضرت عمار بن یاسرؓ شیعہ مذہب رکھتے تھے اور ان کے بعض کلمات کو اپنے جھوٹے دعوے پر بطورِ دلیل پیش کرنا، اور یہ کہنا کہ حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، اویس قرنیؒ اور تابعین میں سے حضرت حسن بصریؓ اور امام غزالی صاحبؒ بھی شیعہ تھے۔

اور کتاب "سر العالمین" کو جو محض ان بزرگ پر افتراء و بہتان ہے، اپنے دعویٰ کا شاہد بنانا اور کہنا کہ حکیم سنائی مولانا روم، شمس تبریز اور خواجہ شیرازی بھی باطن میں شیعہ تھے، اور ان ابیات کو جو ان سے منسوب ہیں یا ان کی مثنویات اور دیوانوں سے ملحق ہیں اپنے کلام کا گواہ بنانا۔ یہ ساری دروغ گوئی اس غرض سے کرتے ہیں کہ سامع کا میلان شیعہ مذہب کی طرف زیادہ ہو اور وہ سوچے کہ جس چیز کو ان اکابرینِ دین نے اختیار کیا اور یہ پوشیدہ رکھا ہے لا محالہ اس میں بھی کوئی بھید اور راز ہے۔ 

چھٹا مرتبه ۔۔۔ خلع یعنی چہرہ کا پردہ ایک طرف رکھ کر صحابہ کرامؓ کی طرف (معاذ اللہ) ظلم و غضب کی نسبت کھلم کھلا کرنا، اور اپنے مذہب کے اُصول و فروع کو صاف صاف بیان کرنا۔ جب مدعو (جس کو اپنے مذہب کی طرف دعوت دے رہا تھا) اس حد تک پہنچ جائے کہ سب اُمور کو برداشت کرے تو گویا مقصد حاصل ہو گیا۔

 نوٹ: ان میں سے بعض مرتبہ خلع کے بعد ایک مرتبہ اور اضافہ کرتے ہیں جس کو "سطلع" کہتے ہیں۔ یعنی مدعو سے اپنے سابقہ معتقدات سے اظہارِ بیزاری کرانا اور اس کے آباء و اجداد جو اس مذہب پر تھے ان سے اس کو متنفر کرنا اور اولاد واقارب سے قطع تعلق کرنا۔ 

(تحفہ اثناء عشريه أردو، صفحہ71)

 شیعہ مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے دھوکہ دے کر اپنے مذہب سے بیزار کرنے کی کوشش کرتے ہیں:

میرے محترم قارئین کرام! حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی صاحبؒ نے اپنی کتاب تحفه اثناء عشریہ میں شیعوں کے 107 دھوکے لکھے ہیں کہ وہ کس طرح مسلمانوں کو دھوکہ دے کر اپنے مذہب سے بیزار کر کے شیعہ مذہب کی طرف لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن میں سے چند درج ذیل ہیں۔ 

(1) بعض مرتبہ لوگوں کو اس طرح دھوکہ دیتے ہیں کہ ان کے علماء نے تقیہ کا لبادہ اوڑھ کر اپنے آپ کو اہلِ سنت کے محدثین ظاہر کیا اور علمِ حدیث کے قابلِ اعتبار محدثین سے علمِ حدیث حاصل کرنے میں مشغول ہو گئے، اور صحیح اسناد یا دو حفظ کیں۔ ظاہری زہد و تقویٰ سے اپنے کو آراستہ و پیراستہ کیا، ان کی اس ظاہری حالت سے اہلِ سنت کے طلبائے حدیث نے بھی دھوکہ کھایا اور ان کی شاگردی کو قابلِ اعتماد سمجھا اور ان سے علم حدیث پڑھا۔ اہلِ علم میں اعتماد پیدا کرنے کے بعد انہوں نے یہ حرکت شروع کی کہ صحیح و حسن احادیث کی روایت کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کی گھڑی ہوئی احادیث بھی خلط ملط کر دیں۔ عوام تو کیا خواص تک اس دھوکہ اور فریب کے شکار ہوئے، اس لئے کہ احادیث صحیحہ و موضوعہ میں تمیز کی صورة رواۃ حدیث ہیں، اور جب اس چالبازی کی وجہ سے اچھے اور برے راوی مل جل گئے تو اب تمیز کی کوئی صورت نہ رہی لیکن اللہ تعالیٰ جل شانہ کا فضل اہلِ سنت کو شامل تھا اور ان مکاروں کے کید و فریب کا پردہ چاک کرنا منظور تھا۔ لہٰذا فنِ رجال کے ماہرین اس طرف متوجہ ہوئے تحقیق و تفشیش میں لگے اور بالآخر اس دھوکہ کا پتہ چلالیا، اور پورے طور پر اس سے آگاہ ہوئے۔ جب دھوکہ اور فریب کھلا اور معاملہ طشت از بام ہوا تو اس گروہ کے کچھ لوگوں نے حدیثیں گھڑنے اور وضع کرنے کا صاف اقرار کر لیا اور بعض دوسروں نے گو زبان سے تو اقرار نہیں کیا مگر کچھ اور قرائن و علامات نے ان کی سازش اور فریب دہی کا راز کھولا۔

 (تحفه اثناء عشريه اردو، صفحہ93)

 (2) بعض مرتبہ لوگوں کو اس طرح دھوکہ دیتے ہیں کہ اپنے مذہب کے موافق حضور اکرمﷺ سے مرفوع احادیث گھڑ لیتے ہیں اور پھر ان کو رواج و شہرت دیتے رہتے ہیں، ان کی اکثر حدیثیں قصہ و کہانی کے انداز کی ہوتی ہیں۔ بعض الفاظ و صیغے صحیح احادیث سے اڑا کر اس انداز و طریقے سے ادا کرتے ہیں جن سے ان کے مذہب کی تائید نکل سکے۔ اور بعض وقت ایسے صیغے بھی گھڑ لیتے ہیں کہ احادیث صحیحہ میں کبھی نہیں دیکھے گئے، مثلاً کہتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہ السلام یہ آرزو رکھتے تھے کہ شیعانِ علی میں محشور ہوں (یعنی ان کا حشر انہیں کے ساتھ ہو) اسی جیسے اور الفاظ اور صیغے۔

 (تحفہ اثناء عشريه اردو، صفحہ95)

(3) بعض مرتبہ لوگوں کو اس طرح دھوکہ دیتے ہیں کہ اہلِ سنت کے معتبر رجال اسناد پر شیعہ نظر رکھتے ہیں ان میں سے کسی کا نام یا لقب ان کے رجال میں سے کسی سے ملتا جلتا ہوتا ہے تو اس کی حدیث اور روایت کو اسی کی سند سے منسوب کر دیتے ہیں۔ اب چونکہ دونوں کا نام اور لقب ایک ہوتا ہے اس لئے تمیز مشکل ہو جاتی ہے اور نا واقف سنی ان کے راوی کو اپنا معتبر راوی سمجھنے کے دھوکے میں آجاتے ہیں اور اس کی روایت پر اعتماد کر بیٹھتے ہیں۔

مثلاً "سدی" نام کے دو راوی ہیں۔ سدی کبیر، سدی صغیر اوّل اہلِ سنت کے معتبر راوی ہیں اور دوسرا کذاب۔ روایتیں گھڑنے والا خالص متعصب شیعہ ہے۔ يا مثلاً "قتیبہ" کہ اس نام کے بھی دو راوی ہیں۔ ایک ابراہیم بن قتیبہ جو کٹر شیعہ ہے۔ دوسرے عبداللہ ابن مسلم قتیبہ جو اہلِ سنت میں سے ہیں اور کتاب المعارف انہیں کی تصنیف ہے۔ ڈھیٹ پن ملاحظہ ہو کہ اس مذکورہ بالا رافضی نے بھی ایک کتاب لکھی اور اس کا نام بھی کتاب المعارف ہی رکھا، تاکہ دونوں کتابوں میں اشتباہ پیدا ہو جائے۔

 (تحفہ اثناء عشريه اردو،صفحہ95)

(4) بعض مرتبہ لوگوں کو اس طرح دھوکہ دیتے ہیں کہ ایک ایسی کتاب جس میں صحابه کرامؓ پر لعن طعن ہو اور مذہب اہلِ سنت کا بطلان ہو خود تصنیف کر کے اس کو اہلِ سنت کے کسی جلیل المرتبہ عالم کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ اور اس کے خطبہ میں مصنف کی طرف سے یہ وصیت بھی درج کر دیتے ہیں کہ ہم نے اس میں جو کچھ لکھا ہے یہ ہمارا اصلی اور پوشیدہ عقیدہ ہے۔ اس کو ایک محفوظ امانت اور پوشیدہ بھید، سمجھ کر راز میں رکھیں۔ اس کے علاوہ دوسری کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے اسے ظاہر داری اور زمانہ سازی محض تصور کریں۔ مثلاً "سر العالمین" کو امام غزالی صاحبؒ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اسی طرح کی اور کئی کتابیں ترتیب دے کر انہوں نے یہی حرکت کی ہے۔ اب چونکہ ایسے صاحب ذوق لوگ بہت ہی کم ہیں کہ وہ اس فرضی بزرگ مصنف کے طرزِ کلام سے گہری واقفیت رکھتے ہوں کہ ان کے اور دوسروں کے مزاج سخن میں فرق و امتیاز کر سکیں، اس لئے لامحالہ عام طلبائے دین اس مکر کے چکر میں غوطے کھاتے اور بہت حیران و پریشان ہوتے ہیں۔

(تحفہ اثناء عشريه اردو، صفحہ95)

 (5) بعض مرتبہ لوگوں کو اس طرح دھوکہ دیتے ہیں کہ ان میں سے کوئی عالم، مذاہبِ اربعہ میں سے دکھاوے کیلئے کوئی مذہب قبول کر کے اس کا اپنے اوپر اتنا گہرا رنگ چڑھا لیتا ہے کہ لوگ ظاہری اور باطنی امتحان اور تجربے کے بعد اپنے مذہب کا مقتداء سمجھ لیتے ہیں۔ اور پھر اس مذہب کے مدارس میں تدریس بھی ان کے سپرد ہو جاتی ہے، اور منصب افتاء میں یہی ممتاز نظر آنے لگتے ہیں۔ اور جب وہ فرشتہ اجل کو قریب آتے دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے نزدیک شیعہ مذہب ہی حق ہے، اور وصیت کرتا ہے کہ میری تجہیز و تکفین کی رسوم کسی شیعہ سے کرائی جائیں اور مجھے شیعوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ اور اس حیلہ کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ شاگردوں، معتقدوں اور دوست و احباب کے دلوں میں تردّد اور شک و شبہ پیدا کر دیا جائے تاکہ وہ یہ سوچیں کہ اتنا بڑا عالم فاضل اور پر ہیز گار، شیعہ مذہب کو حق اور سچ نہ جانتا ہو تو اس کی طرف کیوں جھکتا اور اہلِ سنت کے مذہب سے کیوں دست بردار ہوتا۔ چنانچہ ابنِ مطہر علی نے اپنی کتاب "نهج الكرامه" میں لکھا ہے کہ ہمارے زمانہ کے اکثر شافعی مدرسین مرتے وقت یہ وصیت کر گئے کہ ان کی تجہیز و تکفین کوئی شیعہ کرے اور ان کو مشہد امام کاظم میں دفن کیا جائے۔ 

(تحفه اثنا عشريه اردو، صفحہ117)

(6) بعض مرتبہ لوگوں کو اس طرح دھوکہ دیتے ہیں کہ شیعوں میں سے بعض مکار، اہلِ سنت کے ثقہ محدثین کی صحبت و ہم نشینی اختیار کرتے ہیں۔ اپنے مذہب سے بیزاری کرتے اور اپنے مذہبی اسلاف کو بُرا اور مذہب کے فسادات و عیوب کو علی الاعلان بے نقاب کرتے ہیں توبہ، دیانت، احسن سیرت اور تقویٰ کی صفات سے اپنے آپ کو متصف کرنے کی بظاہر کوشش کرتے ہیں، حدیث صرف ثقات سے لینے کی رغبت دکھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ علماء و طلباء ان کو قابلِ وثوق اور لائق اعتماد سمجھنے اور صدق و پاکدامنی پر اطمینان ظاہر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اور جب ان کو یہ مرتبہ مل جاتا ہے تو یہ اپنی اصلیت پر آجاتے ہیں، اور اپنی مکاری کا مظاہرہ شروع کر دیتے ہیں، اور معتبر وثقہ روایات میں اپنی گھڑی ہوئی روایات کا جوڑ لگا دیتے یا بعض کلمات میں تحریف کر کے روایت کرتے ہیں تاکہ لوگ دھوکہ میں پڑ جائیں۔ یہ ان کا بہت بڑا اور چلتا ہوا مکر و فریب ہے۔

 (تحفه اثنا عشريه اردو، صفحہ125)

 بعض مرتبہ لوگوں کو اس طرح دھوکہ دیتے ہیں کہ ان کے اسلاف، سادہ دل بندوں اور کم عقل لوگوں کو دھوکہ اور فریب دینے کے لئے یہ حربہ استعمال کرتے ہیں کہ آئمہ اور بزرگانِ دین کی خدمت میں کثرت سے آمد و رفت رکھتے اور ان کی مجلسوں میں شرکت کرتے اور موقع بموقع ان کے مکانوں میں آتے جاتے ہیں تاکہ لوگ اس دھوکہ میں پڑ جائیں کہ یہ ان کے بہت چہیتے شاگرد یا بہت گہرے دوست ہیں اور اپنے دینی مسائل کا حل انہیں سے حاصل کرتے ہیں، اور ان کی روایات پر اعتماد کرتے ہیں۔ جب لوگ اس قسم کی غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں تو ان کا اصل رنگ کھلتا ہے، اُس وقت یہ اپنی گھڑی ہوئی لغو اور گمراہ کن باتیں ان روایات میں داخل کر کے ان کو پھیلاتے اور خوب شہرت دیتے ہیں اور یوں وہ خوش فہم لوگ ان کے دام مکر میں آکر اپنا دین و ایمان برباد کر بیٹھتے ہیں۔

 (تحفه اثناء عشريه اردو، صفحہ197)

انتظامیہ نے حفظ ما تقدّم نہ کرنے کا خمیازہ بھگت لیا:

         ہمارے ملک کی انتظامیہ بھی عجیب ہے اس کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ اس نے کسی واقعے کی روک تھام کے لیے پہلے سے اقدامات نہیں کیے۔ اور نہ ہی اس سلسلے میں سوچتی ہے۔ اس کا ہمیشہ سے مطمع نظر یہ رہتا ہے کہ جب ہنگامہ ہوگا تو اس وقت سدِّ باب کریں گے، گویا کہ ان کے ہاں پیش بندی کا کوئی باب ہی نہیں ہے۔

کوئٹہ کے واقعات میں بھی یہی ہوا، اسلحہ کھلے عام آتا رہا، باقاعدہ جلوس نکالنے کا اعلان کیا گیا، اس کے لیے رات گئے تک مورچہ بندی ہوئی یہ سب انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا اور لوگ بھی اس کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ لیکن کیا ہوا، کوئی انتظام نہ کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غیر ملکی ایرانی ایجنٹ رحم کے جذبہ سے عاری ہو کر مسلمانوں کی جان و املاک کو نقصان پہنچاتے رہے۔

بہرحال انتظامیہ نے کیا اقدامات کیے اس سے ہمیں کوئی بحث نہیں۔ان سطور سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے ایسے واقعات کیوں ہو رہے؟ اور ایک اقلیتی طبقہ کس کے اشاروں پر اس قسم کی حرکات کر کے ملک کی سالمیت کے در پے ہیں؟ اور مذہب کی آڑ میں كب تک اس قسم کے واقعات کا اعادہ ہوتا رہے گا۔۔۔؟

3۔۔۔ سانحہ مدرسہ تعلیم القرآن راولپنڈی

سانحہ مدرسہ تعلیم القرآن راولپنڈی ایسا المناک واقعہ ہے جس سے ہر مسلمان کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ جلتی ہوئی مسجد و مدرسہ دینی کتب اور قرآن مجیدوں کی بے حرمتی نے ماحول کو اور بھی غمناک کر دیا۔ 10 محرم الحرام کو راجہ بازار راولپنڈی میں واقع عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم تعلیم القرآن کی مسجد میں شیعوں نے آگ اور خون کی جو ہولی کھیلی ہے اس نے 1400 سال قبل بپا ہونے والی کربلا کی تاریخ میں ایک اور کربلا کا اضافہ کر دیا۔خنجروں، بھالوں اور نیزوں، کدالوں سے قرآن و حدیث پڑھنے والے معصوم طالب علموں کے جسموں کو جس طرح ادھیڑا گیا ان بچوں کی گردنوں کو جس طرح سے کاٹا گیا، اسے دیکھ کر ہٹلر اور ہلاکو و چنگیز کی روحیں بھی شرما اٹھی ہوں گی۔

 سانحہ راولپنڈی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عمل میں لائی گئی

اس لیے کہ یہ جلوس دار العلوم کے سامنے سے گزشتہ کئی برسوں سے گزرتا رہا اور ہمیشہ وسعت ظرفی برداشت اور صبر و تحمّل سے کام لیتے ہوئے پورا پورا دن محصور رہتے طلباء کے سارے کاموں اور آمد و رفت میں خلل رہتا اور شیعہ دہشت گرد گھنٹوں تک مدرسہ و مسجد کے سامنے مین چوک پر جلوس روک رکھتے نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی کی جاتی۔ لیکن اس سال یہ ہوا کہ یہ جلوس اپنے طے شدہ وقت سے پہلے ہی مدرسہ کے سامنے آگیا۔ حالانکہ جلوس کے مدرسے کے سامنے سے گزرنے کا وقت عمومًا سہ پہر ساڑھے تین اور چار بجے کے درمیان ہوتا ہے لیکن اس سال حیرت انگیز طور پر یہ جلوس پونے دو بجے ہی مسجد کے سامنے آگیا۔

مولانا امان اللہ صاحب جمعہ کے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے خطاب کے دوران کچھ پولیس اہلکاروں نے مولانا کو پرچی دی کہ لاؤڈ سپیکر بند کر دیا جائے، چنانچہ لاؤڈ سپیکر بند کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود کچھ شر پسند عناصر مسجد میں داخل ہو گئے۔ یوں لگتا تھا کہ انہوں نے پہلے سے ہی سب کچھ طے کر رکھا تھا۔ ان شر پسند شیعہ دہشت گردوں کے پاس بوتلیں تھیں۔ جن میں کوئی محلول سا تھا انہوں نے ان بوتلوں سے نمازیوں پر حملہ کر دیا، کچھ لوگوں نے بچ بچاؤ کروایا، وہ دہشت گرد وقتی طور پر تو مسجد سے نکل گئے۔ اس کے بعد عربی خطبہ اور نماز ادا کی گئی۔ لوگ جب نماز سے فارغ ہوئے تو ایک مرتبہ پھر ایرانی انقلاب کے غنڈوں کا ایک جتھہ مدرسے کے احاطے میں داخل ہو گئے۔ ان لوگوں نے نمازیوں اور طلباء پر تشدّد کر دیا ان کے ہاتھوں میں خنجر تھے ان سے وار کرنے لگے پھر تھوڑی دیر بعد ایک مسلح جتھہ محراب کے راستے مسجد میں داخل ہو کر مختلف مقامات پر مورچہ زن ہو گئے اور حملہ آوروں نے سیدھا نشانہ باندھ کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اور حال یہ تھا کہ مسجد کے اندر شیعہ دہشت گرد سنی مسلمانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر گاجر ،مولی کی طرح کاٹ رہے تھے۔اور مسلم جتھے باہر نکلنے والوں پر ٹوٹ پڑے۔ اس کے بعد چند مسلح افراد مدرسے میں داخل ہوئے اور بعض علماء کو کمروں سے نکال کر ان پر بہیمانہ تشدّد شروع کر دیا۔جب وہ حملہ آور چلے گئے تو ہم نے کمروں سے باہر نکل کر دیکھا کہ معصوم طلباء کی لاشیں فرش پر پڑی تھی۔ اور ان کے جسم کے مختلف اعضاء کٹے ہوئے تھے۔ ہر طرف لاشیں، دینی کتب اورقرآن پاک کے جلے ہوئے نسخے بکھرے پڑے تھے۔ خدا تعالٰی کی پناہ۔۔ بہت ہی دردناک منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا ہمارے سامنے قتل و غارت گری کا کھیل جاری تھا اور ہم بے بسی سے ہاتھ مل رہے تھے۔ کچھ کر نہیں سکتے تھے مدرسے سے متصل کپڑے کی پوری مارکیٹ کی ڈیڑھ سو سے زائد دکانوں کو جلا کر ہر سال کروڑوں روپے کی زکوٰۃ دینے والے مسلمان تاجروں کو پائی، پائی کا محتاج بنا دیا۔ آگ کے شعلوں نے اس پورے مرکز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بعد ازاں مسجد کے اطراف میں شدید فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا سانحہ تعلیم القرآن میں 5ہزار احادیث کی کتابیں اور کئی ہزار قرآن مجید کے نسخے جلائے گئے اور کروڑوں روپے کے سامان جلائے گئے اور بہت زیادہ لوگوں کو شہید کیا گیا۔

 سانحہ مدرسہ تعلیم القرآن پر دلخراش تحریر

راولپنڈی میں 10محرم الحرام کو قیامت کا ہی منظر تھا لوگ جس خدا کو برحق مانتے ہوئے اس کے سامنے سر بسجود ہونے دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار گئے تھے 

وہاں ان پر قیامت ٹوٹ پڑی کوئی جلایا گیا، کوئی مر گیا، کوئی ذبح ہو گیا، کسی کی لاش نہ ملی، کوئی لاپتہ ہو گیا، بچوں کے کٹے ہوئے سر، مسجد تاراج، محراب خاموش، جلے ہوئے قرآن دینی کتب کی خاک بنتی ہوئی راکھ، سفید مرمر پر چار سو لہو کے چھینٹے، جنازے مانگے تو نہ ملے، ایمبولنس اور فائر بریگیڈ کا راستہ بند کر کے تعلیم القرآن جانے سے روک دیا، کاروبار تباہ و برباد کر دیا گیا۔ معصوم بچوں نے اپنے والدین کو اطلاع دینے کے لیے جب فون اٹھایا تو موبائل سروس بند کر دی تھی۔ مدد اور نصرت کے لیے باہر سے آنے والے سنیوں کا راستہ روکنے کے لیے کرفیو لگا کر تمام راستے بند کر دیے تھے۔

بٹگرام میں جب معصوم بچوں کی لاشیں پہنچی تو ایک ماں نے اپنے لاڈلے بچے کی لاش دیکھنے کے بجائے آسمان کی جانب دیکھا اور کہا یا اللہ میں نے اپنا پیارا دل کا ٹکڑا تیرے گھر میں تیرا قرآن پڑھنے بھیجا تھا لیکن تو نے کیا کیا۔۔! پھر بٹگرام ایسا چیخا کہ مسلمانوں کی 14سالہ تاریخ بھی شرما کر رہ گئی-

 سانحہ تعلیم القرآن ایک سال گزر گیا لیکن طلباء اور نمازیوں کے قاتل قانون کی گرفت سے باہر کیوں۔۔۔؟

گذشتہ سال 15نومبر 2013ء 10محرم الحرام کو مسلح ماتمی دہشت گردوں کے ہاتھوں اہلِ سنت کی عظیم دینی درسگاہ مدرسہ تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی پر حملہ آور بے دردی سے شہید کیے گئے طلباء، نمازیوں کے قاتلوں اور مسجد و مدرسہ اور اس میں موجود قرآن مجید نذرِ آتش کر کے شہید کرنے والے مجرموں اور قاتلوں کو ایک سال گزرنے کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے گرفتار کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

قاتلوں اور مجرموں کی عدم گرفتاری سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہری سمیت عوام اہلِ سنت سخت تشویش کا شکار ہیں۔ جبکہ حکومتِ پنجاب اور وفاقی حکومت کی جانب سے مجرموں کی گرفتاریوں کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے صرف دعوے ہی ثابت ہوئے۔ اور حکومت کی نااہلی کی وجہ سے شیعہ دہشت گرد اتنے جری ہو گئے کہ انہوں نے گزشتہ اس سانحہ کے عینی اور اہم گواہ مدرسہ کے نائب مہتمم مولانا امان اللہ صاحب کو بھی ساتھی سمیت شہید کر دیا- دہشت گردوں نے ایک سازش کے تحت مولانا امان اللہ صاحب کو شہید کر کے سانحہ کے کیس کو کمزور کرنے کی سازش کی۔ 

(ہفت روزہ اہلِ سنت اخبار، 7نومبر تا 13نومبر 2014ء)

 پاکستان میں شیعہ دہشت گردی اور تخریب کاری کے (50) متفرق واقعات اور انکشافات

1.. نوائے وقت 2.8.2003 کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے اسکولوں اور کالجوں میں شیعہ دینی نصاب کے حوالے وہاں کے شیعہ لیڈر ایران کے شہ پر طالب علموں کو احتجاج اور مظاہروں پر اکسا کر وہاں شدید توڑ پھوڑ کروا رہے ہیں اور سرکاری و نجی املاک کو نذرِ آتش کر کے زبردست نقصان پہنچا رہے ہیں اور علاقے کی انتظامیہ کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ ان تقریب کار طلباء کے جلوسوں کے پیچھے پیچھے کوو ہاں کے حکام افسران موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی نااہلی اور بے بسی کی وجہ سے ان میں ان طلباء کی پرتشدّد کاروائیاں روکنے کی ہمت اور جرأت نہیں ہوتی۔

(ایران اور عالم اسلام، صفحہ24)

2.. ہمارے بااختیار اداروں کو یاد ہوگا کہ اگست 1991ء میں ہزاروں شیعہ دہشت گردوں نے پاکستان سیکرٹریٹ پر کیسے اچانک اور منظّم حملہ کر کے ڈرامائی انداز میں قبضہ کیا تھا۔ اور سرکاری مشینری کو تقریبًا مفلوج کر کے رکھ دیا تھا- سنا ہے کہ ان دفتروں میں کام کرنے والے شیعہ کارکن بھی ان کےساتھ ملے ہوئے تھے (جن شیعہ کارکنوں کو اسی غرض سے ہر ادارے میں بھرتی کرتے ہیں کہ ایسے دن أن کو کام آ جائیں) بعد میں ایک شیعہ لیڈر نے بتایا کہ یہ کاروائی تو ریہرسل تھی۔ اس بار ان کے پاس صرف ڈنڈے تھے، اگلی دفعہ خود کار ہتھیار ہوں گے۔

آزاد کشمیر کے شہید لیڈر مفتی کفایت حسین نقوی نے کہا کہ ہمارے بچوں نے پچھلے مہینے اسلام آباد میں پاکستان سیکرٹریٹ پر قبضہ کر کے اپنی طاقت ثابت کر دی۔ اگر ساجد نقوی حکم دیں تو ہم ریڈیو اور ٹی وی سٹیشنوں پر بھی قبضہ کر لیں گے۔ انہوں نے مزید کہاکہ اسلحہ رکھنا ہمارا شرعی حق ہے اور کوئی ہمیں اس حق سے نہیں روک سکتا۔ 

(ایران افکار و عزائم، صفحہ86)

3۔۔۔ خمینی کے ایرانی خونی انقلاب کے بعد تہران کے ایک مشہور چوراہے میں انور سادات، صدام حسینؒ شہید اور جنرل ضیاء الحق ؒشہید ان تینوں کی قد آور تصویریں لٹکائی گئی اور ان پر لکھا گیا "امریکہ کے کتے" اور ایک ایرانی اخبار نے جنرل ضیاء الحق شہید کو ضیاء الباطل بھی لکھا۔

چند سالوں کے بعد 1985ء میں ایرانی خونی انقلاب کے دوران تہران میں ابھرنے والے نعرے۔۔۔۔جنرل ضیاء الحقؒ، امریکہ کا کتا۔۔ کی گونج پاکستان میں بھی سنائی دی اور وہ بھی اس وقت کے ایرانی صدر خامنہ ای ملعون کی موجودگی میں اس سلسلے میں ایک پاکستانی اخبار کی رپورٹ ملاحظہ ہو: 

ایران کے صدر خامنہ ای اور جنرل ضیاء الحق لاہور کے ہوائی اڈّے سے ایک کار میں سوار ہوئے لیکن ابھی ان کے کار ایئرپورٹ کی حدود میں ہی تھی کہ یہ اطلاع ملی کہ ایئرپورٹ کی حدود کے باہر کافی بڑے ہجوم نے سڑک روک رکھی ہے۔یہ لوگ آیت اللہ خامنہ ای کی تصاویر اٹھائے ہوئے تھے اس ہجوم کو سڑک سے ہٹانے اور راستہ صاف ہونے میں کم و بیش دس منٹ صرف ہوئے اس دوران صدر خامنائی اور جنرل ضیاء الحق کار میں بیٹھے راستہ صاف ہونے کا انتظار کرتے رہے شیعوں کا ہجوم جس نے سڑک کو روک رکھا تھا اور جو سڑک کے دونوں طرف ایئرپورٹ سے اپر مال تک ٹولیوں میں موجود تھے صدر خامنہ ای اور ایران کے حق میں نعرے لگا رہے تھے جبکہ وہ شیعہ دہشت گرد صدر ضیاء الحق وزیراعظم محمد خان جونیجو مردہ باد مردہ باد" اور "امریکہ مردہ باد" اور "امریکی کتے ہائے ہائے" جیسے گستاخانہ نعرے لگا رہے تھے۔

بعد ازاں یہ شیعہ لوگ جب بسوں پر سوار ہو کر اپنے گھروں کے لیے روانہ ہوئے تو جدھر سے گزرتے رہے، حکومتِ پاکستان، صدر ضیاء الحق، وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے خلاف اشتعال اور توہین آمیز نعرے لگاتے رہے۔ ایئرپورٹ سے واپسی پر نوجوانوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں۔۔۔امریکہ مردہ باد، صدر ضیاء الحق مردہ باد، اور جونیجو مردہ باد، کے نعرے لگاتے ہوئے پیدل شہر کی جانب آرہی تھیں۔ ان میں سے بہت سے نوجوانوں نے اپنی پیشانیوں پر سفید پٹیاں باندھ رکھی تھیں۔ جن پر سرخ رنگ کے چھینٹے پڑے ہوئے تھے۔ اور ان پر "خمینی رہبر" کے الفاظ تحریر کیے گئے تھے۔

یہ شیعہ نوجوان سڑک پر گزرنے والی کاروں، ویگنوں اور بسوں، کے پاس پہنچ کر جوش و خروش سے نعرے لگانے لگتے۔ اور بسوں ویگنوں اور کاروں میں سوار افراد سے مطالبہ کرتے کہ وہ امریکہ مردہ باد اور صدر ضیاء الحق مردہ باد کے نعرے لگائیں۔ جب ان کے مطالبے کے جواب میں خاموشی اختیار کی جاتی تو وہ ویگنوں، کاروں اور بسوں کے شیشوں پر ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ڈنڈے اور ٹھوکریں مارتے۔ ان کی ان کاروائیوں کے نتیجے میں متعدّد بسوں اور ویگنوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور بہت سے لوگوں نے ان کے ساتھ نعرے بازی لگا کر گلو خلاصی کرائی۔

افسوسناک الميه

 یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ اس ملک میں کیا ایک طبقہ ملک دشمنی اور ایران نوازی میں اس حد تک بھی آگے بڑھ سکتا ہے؟اور ساتھ ہی امیرِ عزیمت علامہ حق نواز جھنگوی شہیدؒ اور ان کے رفقاءکار ساتھیوں کیلئے دل سے دعا نکلتی ہے جنہوں نے اپنا تن، من،دھن قربان کر کے اس عظیم فتنے اور سیلاب کے سامنے بند باندھ کر سنی مسلمانوں کو بیدار کیا۔ ورنہ آج ملک کی جو حالت ہوتی، وہ جاننے والے جان سکتے ہیں!

بہرحال لاہور میں ملک دشمن شیعہ مظاہروں نے صدر پاکستان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور ان کی آنکھیں کھول دیں ۔

 (ایران افکار و عزائم:صفحہ 89) 

 (4)لاہور میں ٹھوکر نیاز بیگ کا علاقہ تخریب کاری کے مرکز کی صورت اختیار کر چکا ہے، عام تاثر یہ ہے کہ وہاں جدید ترین اور خطرناک اسلحہ ہر وقت موجود رہتا ہے اور مختلف اوقات میں قتل وغارت گری میں ملوث شیعہ افراد وہاں پہنچ کر روپوش ہو جاتے ہیں اور پولیس والے بھی اس مرکز میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ پتہ چلا ہے کہ پاکستانی فوج کے حساس اداروں کے کارکن بھی اس مرکز کو جدید اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔

 (ایران اور عالمِ اسلام: صفحہ 106) 

 (5) نوائے وقت راولپنڈی:6 مارچ 1993ء کے مطابق تحریک کے ایک لیڈر نے کہا کہ ان کے کارکن اُصول پرست ہے اور وہ سیاست اور لیڈرشب کو ایران کی طرز پر چلانا چاہتے ہیں لیکن اس سلسلے میں کوئی فوری تحریک چلانے سے پہلے کارکنوں کو تربیت دینا ضروری ہے۔

 قابل توجہ:

 پاکستان میں حکومت اور خفیہ اداروں کو سمجھنا چاہیئے کہ یہ کس ڈھب کی تربیت ہوگی ؟ اس کا ذمہ دار کون ہو گا ؟ اور اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں ؟ 

 (6)گرومندر کراچی میں 6 اکتوبر 1984 دن کو 12 بجے شیعہ جلوس نے خونی ڈرامہ کھیلا جس سے چار آدمی شہید اور کئی آدمیوں کو اُٹھا کر آگ میں پھینکا گیا ۔ 24 موٹر سائیکل، 28 کاریں، 8 ٹرک، 27 دستی گاڑیاں ، 3 پیٹرول پمپ اور 70 کے قریب دوکانوں اور گھروں کو جلایا گیا ۔ دوکانوں کے نقصانات کا تخمینہ انسٹھ لاکھ پینسٹھ ہزار چھ سو ستر ، لگایا گیا اور مکمل نقصانات کا تخمینہ دو کروڑ کے لگ بھگ ہے-

(7) 6اکتوبر صبح نماز کے بعد خلفاء راشدینؓ کے دفتر کو توڑا گیا اور وہاں پڑھنے والے بچوں سے قرآن مجید چھین کر روڈ پر پھینک دیئے گئے۔

 (8)لیاقت آباد 10 کے امام باڑہ سے نہتے عوام پر گولیاں برسائی گئیں اور وہاں پر کھڑی گاڑیوں کو نذرآتش کیا، لوگوں کو تلواروں اور چھریوں سے شہید کیا اور پورے لیاقت آباد میں ہر مقام پر فائرنگ کی گئی،پولیس نے چھاپہ مار کر امام باڑہ سے اسلحہ برآمد کیا، ٹربیونل قائم ہوا مگر اس کی رپورٹ شائع نہیں کی۔مارٹن کواٹرز کے امام باڑہ سے اسلحہ برآمد ہوا۔ 

 (9) لاہور میں جلوس نکالا اور مال روڈ پر دھرنا مار کر صبح گیارہ سے چار بجے شام تک بیٹھے رہے اور ہوائی فائرنگ کئے گئے،ڈنڈوں سے مسلح تھے۔

 (10) 1983ء میں گودھرا کیمپ میں شیعوں نے قرآن مجید کو جلا کر بند روڈ پر دھرنا مار کر بیٹھے رہے اور اپنے ناجائز مطالبات اُس وقت کے گورنر عباسی سے تسلیم کروائے۔ ان احتجاجوں میں ایرانی قونصلیٹ جنرل مکمل ملوث رہا، دھرنے کے دوران پاکستان کے خلاف نعرے لگائے گئے۔

 (11) 12 مارچ 2001ء نماز عشاء کے دوران شیعہ دہشت گرد تنظیم : سپاہِ محمد :کے دہشت گردوں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے 9 نمازیوں کو شہید اور 10 نمازیوں کو زخمی کر دیا۔

 (بحوالہ: خلافت راشده: اپریل 2001:صفحہ 6) 

 (12) 6 اکتوبر 2004 کو رشید آباد گراؤنڈ ملتان میں ایک جلسے کے اختتام پر سائیکل اسٹینڈ کے قریب کار اور موٹر سائیکل بم دھماکے ہو گئے۔جس سے کانفرنس پنڈال سے واپس جاتے ہوئے لوگ دھماکوں کی زد میں آگئے۔42 نوجوان شہید جبکہ 100 سے زائد زخمی ہو گئے۔

 سانحه ملتان کے مرکزی شیعہ دہشت گرد عرفان علی 2 اکتوبر کو ملتان آیا اور ایک سرائے میں قیام کیا۔ اس دوران ایک پراپرٹی ڈیلر کی مدد سے 5 اکتوبر کو مکان حاصل کر لیا، جہاں وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس گھناؤنے فعل کی منصوبہ بندی کرتا رہا۔ دہشت گرد عرفان علی نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گاڑی سوزوکی ملتان کے ہی ایک رہائشی سے چھینی تھی اور دھماکہ خیز مواد فٹ کر کے ٹھکانے پر لے کر کھڑی کر دی۔

 مزید تفصیلات کے مطابق عرفان علی شاہ کا قریبی ساتھی اور اس سانحہ کا مرکزی کردار امجد علی شاہ بھکر کے سابق ایس پی پولیس کا بیٹا تھا۔ جس نے کار میں بم نصب کیا اور عرفان علی شاہ کے ہمراہ اس کو دھماکہ کی جگہ پر کھڑا کیا۔امجد علی شاہ کا ایک اور ساتھی جس کی ذمہ داری موٹر سائیکل بم دھماکہ کرنے کی تھی جس کا نام ناصر بتلایا جاتا ہے، اس نے اپنے نا معلوم ساتھی کے ساتھ مل کر موٹر سائیکل میں بم نصب کیا اور اس کو راستہ میں کھڑا کر دیا۔ اس کے علاوہ غلام عباس بھی اس گروہ میں شامل ہے جو کہ پلاٹ والے سٹاپ کے قریب ہی موجود علی ہسپتال کے ساتھ ڈبل کیبن ڈالا لے کر کھڑا تھا۔ یہ پانچوں افراد دھماکہ کرنے کے بعد وہاں پہنچے اور بذریعہ ڈالافرار ہو گئے ۔

 (13) 6 ستمبر 1991ء کوملتان روڈ پر چوبرجی کواٹر گراؤنڈ لاہور میں سپاہِ صحابہؓ کی طرف سے منعقدہ دفاعِ صحابہؓ کانفرنس کے دوران پریس گیلری میں ہونے والے بم کے ایک دھماکے میں 4 کارکن شہید جبکہ 55 افراد زخمی ہوئے ۔ 

(14) حیدرآباد : دس محرم الحرام 2015 ء کو اہلِ سنّت والجماعت کے مدح صحابہؓ جلوس پر شیعہ دہشت گردوں نے خنجروں سے حملہ کر دیا۔20 کارکن سخت زخمی ہو گئے ۔ 

(15) اسلام آباد میں ہنگامہ آرائی و بدامنی پیدا کرکے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی،ان تمام واقعات خصوصاً 1983ء میں ایرانی قونصلیٹ باقاعدہ ان ہنگاموں میں ملوث تھا۔

 (16) روزنامہ جنگ: 16:2:1990کے مطابق ایرانی انقلابی گارڈز نے پاکستان کے سرحدی شہر تافتان میں ایک ایرانی سردار بلوچ خان کو ہلاک کر دیا اور واپس ایران میں فرار ہو گئے ۔ 

 (17) مارچ 1993ء میں ایرانی پاسداروں نے ایران کے دو مخالف بلوچی لیڈروں کو کراچی کی ڈیفنس کالونی میں گولی ماردی۔ 

 (18) 1991ء میں ایک معروف بلوچی لیڈر کو پاکستان اور ایران سرحد پر قتل کر دیا گیا تھا۔ 

 (19)6 جون 1993ء کو ایک اور ایرانی مجاہد کو کراچی میں شہید کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ایک پاکستانی راہ گیر بھی شہید ہوا۔

 (دی نیوز:راولپنڈی: 7:6:1993)

 (20)کوئٹہ 22 جمادی الثانی یومِ وفات سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ کے جلوس کے موقع پر کوئٹہ پریس کلب کے ساتھ بم دھماکہ کیا گیا ، جس میں تقریبا 8 سنی نوجوان شہید اور کئی لوگ زخمی ہو گئے۔

 (21) 7 نومبر 2015ء کو شیعہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے جان محمد روڈ کوئٹہ پر مدرسہ عربیہ تجوید القرآن کے دورۂ حدیث کے طالب علم شمس الرحمٰن کو شہید کیا گیا۔ اور اسی رات کو دو سنیوں کو بھی شہید کیا گیا۔ 

 (22) 21 جولائی 1987 روزنامہ جنگ کراچی کے مطابق سیٹلائٹ ٹاؤن اور ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کوئٹہ میں 8 جولائی کو ایرانی مہاجرین کی اقامت گاہوں پر حملہ کرنے والے ایرانی دہشت گردوں کے خلاف سرگرمی سے تفشیش جاری ہے، پولیس نے 12 دہشت گردوں کا مزید 7 دن کا ریمانڈ حاصل کر لیا ہے، جبکہ ایرانی دہشت گرد محمد رضا کو عدالت نے اقبالی بیان کے بعد جوڈیشنل حوالات میں بھیج دیا ہے۔

ایرانی دہشت گرد محمد رضا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ ( بی اے ) تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایرانی فوج میں ملازم ہو گیا۔ایک دن اسے اطلاع دی گئی کہ اسے ایرانی حکومت نے کسی ملک میں خفیہ مشن کیلئے منتخب کیا ہے وہ اس کیلئے تیار رہے ۔ میں نے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دیں، مجھے فوجی افسر نے اہم ہدایات جاری کیں اور مجھے بذریعہ طیارہ تہران سے زاہدان پہنچا دیا گیا ۔ یہاں مجھے افغان مہاجرین کا جعلی شناختی کارڈ اور دوسری دستاویزات فراہم کی گئیں اور کہا گیا کہ وہ پاکستان میں ایرانی اسلامی انقلاب کے مخالفین اور منافقین کے خلاف جہاد کرنے جارہے ہیں اور جس آپریشن پر جا رہے ہیں اس کا نام جنگ بر خلاف منافقین ہے۔ ایرانی دہشت گرد محمد رضا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے پاکستان میں داخل ہو گئے اور کوئٹہ پہنچ گئے اور لارڈز ہوٹل میں قیام کیا۔ ہمیں کمانڈر ناصر حسین نے آپریشن سے آگاہ کیا، ایک روز قبل سیٹلائٹ ٹاؤن کوئٹہ کے ایک مکان میں پہنچا دیا ، جہاں دوسرے 12 کمانڈوز بھی موجود تھے۔ ہمیں نقشے کی مدد سے منافقین کے ٹھکانوں کے بارے میں بتایا گیا اور مکمل ہدایات دی گئیں ۔ کاروائی کے بعد فرار کا منصوبہ بھی تیار کر لیا گیا۔علی صبح چار بجے ہمیں جگایا گیا،چار بجکر پچاس منٹ پر ہم ٹھکانوں پر پہنچ گئے۔ سات منٹ کی کاروائی کے بعد ہمیں یقین ہو گیا کہ تمام منافقین ختم ہو گئے ہیں تو ہم پہلے سے تیار کردہ جیپ میں بیٹھ کر فرار ہو گئے ، جیپ کے ڈرائیور نے دوسرے ٹھکانوں سے بھی کمانڈوز کو اٹھالیا،ہم نے فرار ہوتے وقت زائد اسلحہ باغ میں پھینک دیا اور سرحد کی طرف روانہ ہو رہے تھے کہ راستے میں ہماری جیپ خراب ہوگئی ۔ ہم ایک دوسری پک اپ میں سوار ہوئے لیکن چیک پوسٹ پر پکڑے گئے۔ 

( شیعیت کا اصلی روپ:صفحہ 598 )

 (23) سی آئی ڈی ایکسٹرنرم کراچی پولیس کی جانب سے گرفتار ہونے والے شیعہ دہشت گردوں نے تفشیش کے دوران 11 علماء اور کارکنوں کے قتل کا اعتراف کیا ہے، انہوں نے دورانِ تفشیش CCPO کراچی سعود مرزا اور SP عمر شاہد کے روبرو انکشاف کیا ہے، شیعہ دہشت گرد منتظر امام نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ناظم آباد تھانے کی حدود میں واقع انو بھائی پارک کے قریب 2010 میں سپاہِ صحابہؓ کے مرکزی رہنما مولانا عبد الغفور ندیم شہیدؒ اور ان کے بیٹے معاویہ ندیم صاحب کو شہید کیا تھا۔ تین ہٹی کے قریب مزار والی مسجد کے سامنے انجینئر الیاس زبیر شہیدؒ اور مسجد کے پیش امام شفیق علوی کو شہید کیا تھا۔ آرام باغ تھانے کی حدود میں واقع سٹی کورٹ جاتے ہوئے ایک کارکن عمر دھوبی کو شہید کیا ، اس تھانے کی حدود میں ان دہشت گردوں نے ایک کارکن منظور احمد کو شہید کیا۔ خواجہ اجمیر نگری میں مولانا محمد احمد مدنی کو بیٹے سمیت شہید کیا۔ فیصل کالونی میں ایک کارکن ریحان کو شہید کیا۔ سرسید تھانے کی گلی میں انصار، نبیل،اور نعمان کو شہید کیا۔ کراچی پولیس نے اس سے قبل بھی دہشت گردوں کے اس گینگ کے دوسرے لڑکوں کو گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے پیش کیا تھا، جنہوں نے سنسنی خیز انکشافات کئے۔ان تمام دہشت گردوں کا تعلق شیعہ کی عسکری تنظیم سپاہِ محمدکے ساتھ تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ سپاہِ محمد کے دہشت گردوں کو ایران کے شہر مشہد میں موجود رضا ایرانی دہشت گردی کا ٹاسک دیتا ہے جو( یوایس بی ) کے ذریعے ٹارگٹ کلرز کو پہنچایا جاتا ہے، اس کے ساتھ کالعدم سپاہِ محمد کو کراچی میں فعال کرنے کیلئے ڈالروں کی صورت میں رقم ایران میں موجود سپاہِ محمد کے تین کمانڈروں کو فراہم کی جاتی ہے جو کراچی کے اندر دہشت گردی کے 6 گروپ چلا رہے ہیں ۔ 

ان لوگوں نے مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ، مولانا ہارون قاسمی شہیدؒ، مفتی جمیل شہیدؒ ، مولانا نذیر تونسوی شہیدؒ اور مفتی عتیق الرحمن شہیدؒ سمیت سپاهِ صحابہؓ کے کئی درجن علماء اور کارکنوں کو شہید کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ یہ انکشافات کراچی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے سپاہِ محمدکے دہشت گردوں سید حماد ریاض نقوی اورسید علی مہر عرف سلمان

نے دوران تفشیش کئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے نیٹ ورک میں ممتاز بھائی منتظر امام،آصف زیدی، یاور عباس اور محسن نامی لڑکے کام کرتے ہیں جنہیں ذوالقرنین حیدر رقم اور اسلحہ فراہم کرنے میں مدد کرتے ہیں،اور علامہ ذوالقرنین حیدر کے رابطے ایرانی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ ہیں۔ 

 (24)ایران سے دہشت گردی کی تربیت لے کر آنے والا کالعدم سپاہِ محمد کا 16 رکنی ٹارگٹ کلر گروپ کراچی میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کی بڑی بڑی وارداتوں میں ملوث ہے۔ یہ تربیت یافتہ قاتل محض 25 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پرسپاہِ محمد کے اہداف پورے کرتے ہیں، جبکہ ٹارگٹ مکمل کرنے پر انہیں 50 ہزار روپے انعام الگ دیا جاتا ہے۔ ان دہشت گردوں نے تفشیش کے دوران مزید بتایا کہ پاکستان میں محفوظ تربیتی کیمپ نہ ملنے کے بعد کالعدم سپاہِ محمد نے اپنے دہشت گردوں کو ایران میں دہشت گردی کی تربیت دلوانا شروع کی ہے۔دہشت گردوں کو ٹارگٹ کلنگ کیلئے اہداف ایران میں موجود سپاہِ محمد کے ٹارگٹ کلرز جاری کرتے ہیں۔ مولانا اورنگزیب فاروقی کو ٹارگٹ کرنے پر 20 لاکھ روپے انعام رکھا گیا تھا ۔ اس واردات میں استعمال کی جانے والی کار جعلی شناختی کارڈ پر 11 لاکھ روپے میں خریدی تھی۔ 

اس کار میں مذکورہ ٹیم نے گلشن اقبال میں کاروائی کی لیکن مولانا اورنگزیب فاروقی اس حملے میں زخمی ہوئے،جبکہ پولیس گارڈ اور ان کے دو ذاتی محافظ شہید ہو گئے تھے۔

کراچی کے چھ علاقوں میں کالعدم سپاہِ محمد کے مضبوط نیٹ ورک کام کر رہے ہیں تاہم ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے مرکزی نیٹ ورک نیو رضویہ سوسائٹی سے چلایا جا رہا ہے۔ جہاں ایران میں موجود کالعدم سپاہِ محمد کے ذمہ داروں کے سب ایجنٹ موجود ہیں، جو ٹارگٹ کلرز کو ہدایات جاری کرتے ہیں۔ کالعدم سپاہِ محمد کے دہشت گرد کراچی کی شیعہ آبادیوں میں پناہ لیتے ہیں اور کالعدم سپاہِ محمد میں ہر ایک سال میں اہل تشیع نوجوانوں کو بھرتی بھی کرتے ہیں۔ یہ انکشافات کرنے والے کالعدم سپاہِ محمدکے دہشت گردوں ارشاد حسین عرف عامر عرف حسین،اور جوہر حسین عرف جعفر عرف رحمٰن کو گذشتہ روز سی آئی ڈی کے کاؤنٹرٹیر رازم یونٹ کی ٹیم نے خفیہ اطلاع ملنے پر ابوالحسن اصفہانی روڈ پر واقع عباس ٹاؤن سے گرفتار کیا تھا۔ ملزمان کے قبضہ سے اسلحہ، واردات میں استعمال ہونے والی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بھی برآمد کی گئی ہیں۔ گرفتار ملزمان نے بتایا کہ ٹارگٹ کلرز کو ماہانا تنخواہ 25 ہزار روپے کے علاوہ ٹارگٹ کی اہمیت کے لحاظ سے انعام بھی دیا جاتا ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ گروپ2011ء میں کراچی میں فعال ہوا تھا۔ تا ہم تحقیقاتی اور سیکورٹی اداروں کی کاروائیوں کی وجہ سے اس کے بہت سے ٹارگٹ کلرز ایران فرار ہو گئے تھے ۔ 

ذرائع : کے مطابق کالعدم سپاہِ محمدمیں شامل ٹارگٹ کلرز میں سے بعض کا تعلق پارا چنار سے ہے۔ ذرائع کے مطابق کالعدم سپاہِ محمد کے سب ایجنٹ شیعہ نوجوانوں کو منتخب کر کے تربیت کیلئے براستہ دبئی ایران بھجواتے ہیں، جہاں انہیں ایک ماہ کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سپاہِ محمد کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کی 5 اور 6 رکنی ٹیمیں بنائی گئی ہیں جو علاقائی سطح پر اپنے ہدف کی نگرانی کرتی ہیں اور ہدایت ملنے پر کاروائی کرتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایران سے تربیت لے کر آنے والے ٹارگٹ کلر بعض اوقات صحافیوں کا روپ دھار کر مخالف مذہبی گروپوں کی ریلیوں اور جلوسوں میں کوریج کے بہانے اپنے ٹارگٹ کی تصاویر بناتے ہیں اور اس کے بارے میں معلومات اکھٹی کرتے ہیں۔ تفشیشی اداروں کے ذرائع کے مطابق گرفتار ملزمان نے بتایا کہ گذشتہ برس نرسری کے قریب شاہراہِ فیصل پر تین علمائے کرام کوسپاہ محمد کی جس ٹیم نے قتل کیا تھا، اس کی نگرانی سپاہِ محمد کا بدنام دہشت گرد ڈاکٹر علی خود کر رہا تھا اور اس کو وہاں لگے خفیہ کیمرے کی فوٹیج سے شناخت کیا گیا تھا۔ گرفتار سپاہِ محمدکے دہشت گردوں نے تفشیشی افسران کو بتایا کہ ایران میں دہشت گردوں کو آپس میں رابطوں کیلئے جدید مواصلاتی نظام کے استعمال کی تربیت بھی دی جاتی ہے ۔

 (الایثار اخبار: 10 فروری 2014ء) 

 (25) 28 جنوری 2001 ء صبح پونے آٹھ بجے جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی کی گاڑی کا ڈرائیور جامعہ کے علماء اور طلباء کو ان کے گھروں سے جامعہ کی طرف لا رہا تھا، کہ مین شاہراہِ فیصل ڈرگ روڈ پل کے نیچے شاہ فیصل کالونی جانے والے راستے کی طرف سے گاڑی مڑی تو عقب سے آنے والی دو گاڑیوں ہائی روف اور کار میں سوار ملزمان نے پٹری کے قریب اورٹیک کر کے جامعہ کی گاڑی روک کر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس سے جامعہ فاروقیہ کے شیخ الحدیث مولانا عنایت اللہ صاحب،استاد الحدیث مولانا حمید الرحمٰن صاحب مفتی محمد اقبال صاحب اور ان کے صاحبزادے یاسر اقبال اور سات سالہ طالبعلم بلال شدید زخمی ہو گئے، اس واقعہ کے خلاف ملک بھر میں خصوصاً کراچی میں شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا۔ دہشت گردی کا یہ واقعہ بھی سابقہ واقعات کی طرح شیعہ کی طرف سے دہشت گردی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس میں جامعہ بنوری ٹاؤن کے مہتم سمیت استاذ العلماء حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ اور دیگر نامور علماء کرام شہید ہو گئے ہیں۔ گذشتہ واقعات میں جو چند لوگ گرفتار ہوئے انہوں نے وقوعہ میں شمولیت کا اعتراف کیا اور ان کا تعلق شیعہ کے مرکزی قائدین سے ثابت بھی ہو گیا تھا لیکن ہمارے چند نام نہاد مصلحت پسند علماء ان واقعات کو سنی مسلم تناظر میں دیکھنے پر تیار نہیں تھے۔ اس کے بعد موجودہ واقعہ کا ملزم بھی شیعہ دہشت گرد علی لنگڑاقریبی امام باڑہ سے گرفتار ہوا ، اس نے وقوعہ میں استعمال ہونے والا اسلحہ و دیگر ملزمان کے نام اور قتل کی سازش کی نشاندہی بھی کر دی ہے۔ اب حق پرست علماء کرام کو جان لینا چاہئے کہ شیعہ اپنی ابتداء سے اب تک مسلمان اور اسلام کا دشمن رہا ہے۔ علماء کرام کو مصلحت پسندی کی چادر اتارکر اسلام دشمن گروہ شیعہ کے خلاف فیصلہ کن محنت کرنے کیلئے سپاہِ صحابہؓ کے ساتھ مکمل تعاون کیلئے تیار ہو جانا چاہیے۔ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے محفوظ ہو جانے کا خواب دیکھنے والے اس خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتے ۔

 اور اہلِ حق علماء کرام کو کسی بھی حکومتی یا امن و امان کے پروگرام میں شیعہ اور مسلم کی تمیز کا ضرور خیال رکھنا چاہئیے۔

 (26) اہلِ سنّت علماء اور کارکنوں کے قتل میں ملوث چار ٹارگٹ کلرز گرفتار۔ چاروں قاتل رینجرز کے ٹارگٹ آپریشن میں رضویہ اور گلبہار سے پکڑے گئے۔ نعیم حیدر نے11،اظہر نے 15 حسین نے 4 ، اور رئیس جعفری نے ایک شخص کو قتل کرنے کا اعتراف کر لیا ۔ 

(سلسلہ وار الايثار اخبار:6 مارچ 2013ء)

 (27)کراچی رینجرزاور پولیس نے مختلف علاقوں میں ٹارگٹ سرچ آپریشن کے دوران 51 ملزمان کو حراست میں لے کر بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کر لیا ہے، ان ملزمان میں شیعہ کی عسکری تنظیم کالعدم سپاہِ محمد کا بدنام زمانہ دہشت گرد عباس زیدی شامل ہے۔ جس نے اپنے ساتھیوں سے مل کر اہلِ سنّت والجماعت کے ترجمان مولانا اکبر سعید فاروقی شہید سمیت سپاهِ صحابہؓ کے 21 کارکنوں اور علماء کرام کو شہید کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق رینجرز نے بھاری نفری کے ساتھ پی آئی بی کے علاقے میں سینٹرل جیل کے قریب غوثیہ کالونی کے داخلی اور خارجی راستے بند کر کے سرچ آپریشن کیا جہاں سے شیعہ دہشت گرد نعیم علی اور عارف نظامی پکڑے گئے ۔ دوسری جانب ڈی آئی جی منیر احمد شیخ اور ایس ایس پی ایسٹ پیر محمد شاہ نے بتایا کہ گلشن اقبال پولیس نے عباس ٹاؤن کے قریب چھاپہ مار کر شیعہ تنظیم کالعدم سپاہِ محمد کے دہشت گرد کو گرفتار کر کے اسلحہ برآمد کیا ہے۔ ملزم نے دوران تفشیش انکشاف کیا ہے کہ اس نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سفاری پارک کے قریب اہلِ سنّت والجماعت کے ترجمان مولانا اکبر سعید فاروقی کو شہید کرنے کے علاوہ رضویہ کے علاقے میں سہیل بیگ، فیض شیریں والا اور گذشتہ سال اسکاؤٹ کالونی میں کار میں سوار 4 علماء کرام ، ہلزکالونی میں سپاہِ صحابہؓ کے کارکن صلاح الدین عباسی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر اور ایک پروفیسر کو شہید کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

(بحواله :خلافت راشده:نومبر 2013ء:صفحہ51)

 (28) کورنگی کراسنگ پر قاری امین کو شہید کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئےسپاہِ محمد کے دہشت گرد ندیم حسین زیدی نے انکشاف کیا ہے کہ اسے اورنگی ٹاؤن سیکٹر سے قاری امین کو قتل کرنے کا ٹارگٹ دے کر بھیجا گیا تھا۔ کو رنگی سیکٹر کی جانب سے قاری امین کی نشاندہی کی گئی۔ 

 ندیم حسین زیدی نے پولیس کے سامنے انکشاف کیا ہے کہ اہلِ سنّت والجماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کو قتل کرنے کی ہدایات تین مراحل سے ہو کر اس تک آتی ہے۔ اسے ہدایات علی رضا دیتا ہے، جو متحدہ اور کالعدم سپاہِ محمد کا دہشت گرد ہے۔ لہٰذا ہم نے قاری امین کو ٹارگٹ کیا۔ لیکن جب فرار ہو نے لگے تو محلے والوں نے گھیر لیا اور پتھراؤ شروع کر دیا،جس پر میرے ساتھی سے موٹر سائیکل سلپ ہو گئی اور ہم گر گئے،محلے والوں نے مجھے گھیر لیا،جبکہ میرا ساتھی فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ ملزم ندیم حسین نے بتایا کہ جس علاقے میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کرنی ہوتی ہے تو اس علاقے میں دوسرے علاقے سے ٹارگٹ کلرز بھیجے جاتے ہیں۔ 

(بحواله :خلافت راشده: مارچ 2013ء) 

 (29) محکمہ تعلیم کوئٹہ کے بعض اسکولوں میں غیر نصابی کتب پڑھانے کا نوٹس لیا جائے۔ان غیر نصابی کتب کے ذریعے بعض فرقہ پرست عناصر طلبہ کی برین واشنگ کر کے انہیں فرقہ پرستی پر اکساتے ہیں جن کی وجہ سے صوبے میں اقوام کے درمیان بھائی چارے کی فضا کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار جمعیت طلباء اسلام نظریاتی کے صوبائی کنوینیئر حافظ محمد اصغر حریری صوبائی صدر سیف الدین سیفی اور دیگر اراکین نے مشترکہ بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم کوئٹہ کے بعض اسکول علمدار روڈ،مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن میں واقع ہیں،ان میں بعض فرقہ پرست تنظیموں کے اشارے پر غیر نصابی سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں جن کی وجہ سے معصوم طلبہ کی برین واشنگ کر کے انہیں فرقہ پرستی پر اکسانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 

( روزنامہ ایکسپرس اخبار کوئٹہ: 6 جون 2016ء) 

 (30) ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ زیارت مقدسہ کی آڑ میں غیر شرعی اور غیر اخلاقی کاموں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

 (روزنامه ایکسپریس اخبار کوئٹہ: 2 جولائی 2016 ء) 

 (31) کالعدم سپاہِ محمد کے ٹارگٹ کلر آصف زیدی کو گرفتار کر لیا گیا،اور اس نے 20 قتل کا اعتراف کر لیا ہے۔

 (روزنامہ امت اخبار کراچی:10 اکتوبر 2015ء ) 

 (32) ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے بیان میں غیر یقینی صورت حال بالخصوص جیکب آباد اور چھلگری میں پے در پے واقعات( بم دھماکوں )کے سلسلے میں بعض عناصر کی جانب سے پریس کانفرنس میں از خود یہ اقرار کیا گیا ہے کہ انسانیت سوز واقعات اور حالات کی خرابی کے درپردہ محرکات بیرونی قوتوں کی جانب سے پیدا کردہ پراکسی وار کا نتیجہ ہے۔ خطے کے حالات کے پیش نظر پارٹی کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ یہاں پر جتنے واقعات رونما ہوئے اُن میں بیرونی قوتوں کا ہاتھ تھا۔ خطے میں مذہبی عدم برداشت اور نفرتوں کو جنم دے کر عوام کو ایک دوسرے سے دور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ ہم آج بھی اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ حقانیت پر مبنی بات یہی ہے کہ حالات کی خرابی کے پیچھے بیرونی قوتوں کی خطے میں پیدا کردہ پراکسی وار ہے، جس میں ایران اور امریکہ براہِ راست ملوث ہیں ۔

 بیان میں کہا گیا کہ اب حکومت کو چاہیئے کہ وہ ہمسائیہ ملک ایران سے خطے میں اپنی پراکسی وار بند کرنے کے لئے ڈائیلاگ کرے۔

 (روزنامہ ایکسپرس اخبار کوئٹہ: 28 اکتوبر 2015ء ) 

 (33) ایران کی سرحدی حدود سے فائر کئے گئے تین مارٹر گولے پاکستانی علاقے ماشکیل میں گر کر پھٹ گئے ۔ ( روزنامہ ایکسپرس اخبار کوئٹہ: 28 دسمبر 2015 ء)

 (34) کسٹم اور پولیس نے تفتان سے آنے والے شیعہ زائرین کی بسوں سے کروڑوں روپے اسمنگلنگ کا سامان قبضے میں لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق کسٹم اور پولیس نے کامیاب کاروائی کرتے ہوئے ایران سے شیعہ زائرین کی بسوں میں لایا جانے والا کروڑوں روپے اسمنگلنگ کا سامان قبضے میں لے لیا ہے۔ اسمنگلنگ کا خاتمہ نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے جس پر بہر صورت کاربند رہیں گے۔ زائرین کی بسوں میں اسمنگلنگ کی شکایات موصول ہو رہی تھیں مگر ٹھوس شواہد نہ ہونے کی بناء پر ایکشن نہیں لیا جا سکا۔ان خیالات کا اظہار اسٹنٹ ڈپٹی کلکٹر کسٹم عبد الواحد قمبرانی نے گزشتہ روز ( این ایل سی ) کوئٹہ میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ عبدالواحد قمبرانی کا کہنا تھا کہ زائرین کی بسوں میں اسمنگلنگ کی شکایات اور اطلاعات مل رہی تھیں تا ہم ٹھوس شواہد نہ ہونے کی وجہ سے ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا تھا، کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ٹھوس شواہد ملنے کے بعد کسٹم اور پولیس نے تفتان میں زائرین کی بسوں کی چیکنگ کی تو 40 بسوں میں کروڑوں روپے اسمنگلنگ کا سامان پکڑا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اسمنگلنگ کا خاتمہ نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے جس پر ہر صورت میں ایکشن لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی غیر قانونی طور پر اسمنگلنگ کرتے ہوئے قومی خزانوں کو کروڑوں روپے نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ 

(روزنامہ ایکسپریس اخبار کو ئٹہ : 22 دسمبر 2015ء)

 (35)ماشکیل میں لیویز کی گاڑی پر ایرانی فورسز نے فائرنگ کر کے 4 اہلکاروں کو زخمی کرنے کے بعد ان کا اسلحہ بھی چھین لیا۔ تفصیلات کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر ماشکیل نصیر جتک نے بیان دیا کہ یہ واقعہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ایرانی سرحد سے متصل علاقے بچہ رائی میں پیش آیا، جہاں مبینہ طور پر ایرانی فورسز کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے لیویز اہلکاروں کو قریبی ہسپتال میں طبی امداد دی گئی، جس کے بعد ایک اہلکار کو مزید علاج کی غرض سے کوئٹہ منتقل کیا گیا ۔ لیویز حکام کے مطابق ایرانی فورسز کے اہلکاروں نے یہ حملہ پاکستانی حدود میں گھس کر کیا جس کے دوران وہ دہشت گرد لیویز اہلکاروں سے 5 عدد کلاشنکوف، راؤنڈز اور ان کے موبائل فونز اور دیگر اشیاء بھی چھین کر لے گئے ۔

 (روزنامہ ایکسپرس اخبار کوئٹہ:2 اکتوبر 2015ء) 

 (36) 13 مئی 2015 ء کو نماز عشاء کے وقت مسجد سیّدنا عثمان غنیؓ بلوچی اسٹریٹ کوئٹہ کے ساتھ دو شیعہ ٹارگٹ کلروں کو گرفتار کر کے گوالمنڈی چوک تھانہ کوئٹہ کے حوالہ کر دیا گیا۔جن سے 2 پستل ،7 میگزین اور 53 گولیاں برآمد ہو گئے ہیں۔ ٹارگٹ کلروں کے نام قاسم ولد عبد العلی عزت علی ولد علی اکبر ہے۔ 

 (37) 12 مئی 2015ء کو لیاقت بازار کوئٹہ میں شیعہ دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے دو سنی مسلمانوں کو شہید اور ایک بچے کو زخمی کر دیا۔ 

(38) 14 اگست 2014ء کو کاسی روڈ کوئٹہ میں شیعہ دہشت نے فائرنگ کر کے عبد الغفور اور عبد اللہ کو شہید کر دیا گیا ۔ 

(39)7 جون 2012ء کو مدرسہ مفتاح العلوم کوئٹہ نیو اڈہ جلسہ دستاربندی کے موقع پر شیعہ دہشت گردوں نے سائیکل میں بم رکھ کر دھماکہ کیا، جس میں 17 افراد شہید اور 45 افراد زخمی ہو گئے ۔

 (40) 12 جون 2014 ء کومنان چوک کوئٹہ پر شیعہ دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے اہلِ سنّت و الجماعت کے کارکن حافظ خلیل کو شہید اور 4 کارکنوں کو زخمی کر دیا ۔ 

 (41)سیکورٹی ادارے کے ہاتھوں گرفتار متحدہ کے فیڈرل بی ایریا سیکٹر کے 2 دہشت گردوں نے مجموعی طور پر 20 قتل کا اعتراف کر لیا۔ دورانِ نقشیش ملزمان نے انکشاف کیا کہ متحدہ لندن قیادت نے تمام سیکٹروں کو نئی ٹارگٹ کلنگ ٹیمیں بنانے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔گرفتار دہشت گردوں میں مونس رضا زیدی ولد حسن رضا زیدی ایکسائر پولیس کاانسپکٹر ہے جس نے 7 قتل کا اعتراف کیا ہے۔ سیکورٹی ادارے کے افسران اس سے متحدہ اور کالعدم سپاہِ محمد کے مشترکہ نیٹ ورک کے حوالے سے تفتیش کر رہے ہیں ۔ گرفتار مونس رضا زیدی ولد حسن رضا زیدی کا کہنا ہے کہ وہ فیڈرل بی ایریا کا رہائشی ہے۔وہ 2000ء میں متحدہ کے فیڈرل بی ایریا سکیٹر کے یونٹ 147 میں بطور کارکن شامل ہوا۔اس نے شروع میں جلاؤ گھیراؤ اور بھتہ خوری کی کاروائیاں کیں اور پھر متحدہ قیادت کے حکم پر سکیٹر کی ٹارگٹ کلر ٹیم میں شامل ہو گیا ۔2009ء میں اس کی کارکردگی سے خوش ہو کر متحدہ قیادت نے اسے ایکسائر میں بھرتی کرایا۔اب سیکورٹی کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ ملزم مونس رضا زیدی ولد حسن رضا زیدی متحدہ اور کالعدم سپاہِ محمد کے اس مشترکہ نیٹ ورک کا حصہ ہے۔جس کے ذریعے شہر میں ٹارگٹ کلنگ کرائی جاتی ہے۔

 تفتیشی ذرائع نے بتایا کہ ملزم مونس رضا زیدی ولدحسن رضا زیدی کالعدم سپاہِ محمد کے لئے بھی کام کرتا رہا ہے۔ 

(روزنامہ امت اخبار کراچی:10 مئی 2015ء)

 (42)شام میں ایرانی فوجی اور 6 پاکستانیوں کی ہلاکت کا انکشاف۔ پاکستانی زينبون ملیشیا میں شامل تھے،حلب میں مارے گئے قم میں سپرد خاک کیا گیا۔

ایرانی میڈیا تفصیلات کے مطابق شام کے شمالی صوبے حلب میں شامی اپوزیشن کے ساتھ لڑائی میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ایک اعلیٰ افسرسمیت زینبون ملیشیا میں شامل 6 پاکستانی جنگجو ہلاک ہو گئے۔ ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ پاسدارانِ انقلاب کا مہدی ثامنی راد نامی افسر فروری کے مہینے میں حلب کے مضافات میں ہونے والی لڑائی میں ہلاک ہوا۔ ایرانی خبر رساں اداروں نے پاکستانی شیعہ نو جوانوں پر مشتمل زینبون ملیشیا کے 6 جنگجوؤں کے جنازے کی تصاویر پرمبنی رپورٹس شائع کی ہیں۔ زینبون ملیشیا کو پاسدارانِ انقلاب بھرتی کرتے ہیں جو شام جا کر بشارالاسد کی فوج کے شانہ بشانہ اپوزیشن کے خلاف لڑائی میں حصہ لیتے ہیں ۔اطلاعات کے مطابق اس طرح شام جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 600 تک پہنچ چکی ہے۔ شام میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کو ایران کے شہر قم میں خصوصی قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔یہ قبرستان اُن افراد کے لئے مخصوص ہے جو کہ شام میں بشار الاسد کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان گنوا دیتے ہیں ۔ مرنے والے پاکستانیوں کی شناخت عزیز علی شیخ سید امام نقی سہیل عباس ، الطاف حسین ، انتظار حسین اور فرزند علی کے ناموں سے کی گئی ہے۔ 

(روزنامہ ایکسپرس اخبار کوئٹہ 7مارچ 2016ء)

 (43) تفتان کے علاقے میں ایرانی فورسز کی فائرنگ سے ایک شخص جابحق ہو گیا ، جس کی لاش کو پاکستان کے حوالے کر دیا گیا۔

 ( روزنامہ ایکسپرس اخبار کوئٹہ : 9 مارچ 2016ء) 

 (44) کوئٹہ موٹر سائیکل پر سوار شیعہ دہشت گردوں کے ہاتھوں 2 تاجر شہید ۔

مسجد روڈ پر محمد فضل اور محمد سلیمان دوکان کھول رہے تھے کہ 2 شیعہ دہشت گرد نقاب پوش فائرنگ کر کے فرار ہو گئے ۔ تاجر رہنماؤں کا لاش کے ہمراہ باچاخان چوک اور منان چوک پر ٹائر جلا کر احتجاج اور قاتلوں کو فی الفور گرفتار کرنے کا مطالبہ۔ تفصیلات کے مطابق اتوار کی صبح صوبائی دارالحکومت کو یہ شہر کے وسط میں واقع مسجد روڈ پر دوکاندار اپنی دوکان کھول رہے تھے ، کہ دو مسلح نقاب پوش موٹر سائیکل سواروں نے ان پر اندھادھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں محمد فضل موقع پر جبکہ اس کا بھائی بعد میں زخموں کا تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے ۔ اور حملہ آور شیعہ دہشت گرد موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ۔ 

( روزنامہ ایکسپریس اخبار کوئٹہ : 25 مئی 2015 ء ) 

 (45)بین الصوبائی جعل ساز گروہ کا شیعہ سرغنہ گرفتار، جعلی پاسپورٹ ، ویزے و دیگر دستاویزات برآمد ۔

 پولیس ٹیم نے کوئٹہ کے علاقے مری آباد میں ایک مکان پر چھاپہ مار کر ملزم علی عباس کو گرفتار کیا۔ ملزم شہریوں سے رقم لے کر یورپ اور ایران بھجواتا تھا۔ 

گروہ کے 3 ارکان کراچی اور 3 کوئٹہ میں ہیں۔ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیوں کو تحقیقات کیلئے ٹاسک دے دیا ۔ ssp آپریشن اعتزاز گورایہ کی پریس کانفرنس

 تفصیلات کے مطابق قائد آباد پولیس کوئٹہ نے جعل سازوں کے بین الصوبائی گروہ کے سرغنہ کو گرفتار کر کے بڑی تعداد میں جعلی پاکستانی پاسپورٹ جعلی ایرانی ویزے، اسٹیکرز ، لیپ ٹاپ اور دیگر دستاویزات قبضے میں لے لیں ۔ اور گروہ کے 3 ارکان کراچی اور 3 کوئٹہ میں ہیں۔ ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیز کو بھی تحقیقات کیلئے ٹاسک دے دیا گیا۔ جعلی پاسپورٹ، ویزے، دہشت گردی کے علاوہ انسانی اسمنگلنگ میں بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ ملزم کی گرفتاری کے لئے کراچی پولیس سے بھی رابطہ کر لیا گیا ہے۔ 

ان خیالات کا اظہار ایس ایس پی آپریشن اعتزاز گورایہ نے پریس کانفرنس میں کیا ۔ ایس ایس پی آپریشن نے کہا کہ پاسپورٹ ، ویزے کے کاروبار سے متعلق سی سی پی او نے میری، ایس پی قائد آباد اور ایس ایچ او عاشق حسین پر مشتمل ٹیم تشکیل دی تھی ، جس پر ٹیم نے مری آباد کے علاقے ناصر آباد میں مکان پر چھاپہ مار کر ملزم علی عباس کو گرفتار کر کے 39 جعلی پاکستانی پاسپورٹ ۔ 250 جعلی ایرانی ویزے۔ 100 عدد پاسپورٹ تبدیل کرنے والے اسٹیکرز ۔ ایک عدد لیپ ٹاپ۔ 2 عدد پرنٹر اور دوسری دستاویزات قبضے میں لے لیں ۔ ملزم سادہ لوح شہریوں سے رقم لے کر یورپ اور ایران بھیجوانے کا کام کرتا ہے۔

 (روزنامہ ایکسپرس اخبار کوئٹہ : 14 جنوری 2015ء)

 (46) ایران کی سرحدی سیکورٹی فورسز کی جانب سے پاکستانی علاقوں تربت، زعمران ، ماشکیل پر درجنوں مارٹر گولے فائر کئے گئے جس سے 7 افراد زخمی ہو گئے ۔ حملے کا یہ سلسلہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب شروع ہوا جو صبح تک جاری رہا۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان کے سرحدی علاقوں پر 40 سے زائد مارٹر گولے فائر کئے گئے۔ تربت کے علاقے زعمران میں مارٹر گولہ ایک گاؤں پر گرنے سے 7 افراد زخمی ہوئے جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا ۔ 

( روزنامہ ایکسپرس اخبار کوئٹہ 30 دسمبر 2014ء) 

 (47)نو اور دس محرم کی درمیانی شب گاؤں فاروقہ میں گنبد والی مسجد پر ماتمی جلوس میں شامل مسلح دہشت گردوں نے اندھا دھند فائرنگ کردی۔ موقع واردات سے پولیس فرار، پاک فوج کے دستوں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا، کرفیو نافذ ، چھاپوں میں متعدد دہشت گرد گرفتار ساہیوال کے گاؤں فاروقہ میں نو اور دس محرم الحرام کی درمیانی شب گنبد والی مسجد پر اسلحہ بردار ماتمی جلوس کا حملہ ، اہلِ سنّت نمازی رانا شاہد ، رانا عبدالرحمٰن اور زبیر معاویہ سمیت 4 نمازی شہید جبکہ 10 نمازی شدید زخمی ہو گئے ۔ 

گزشتہ سال کے سانخہ تعلیم القرآن راوالپنڈی کے طرز پر رواں سال ایک بار پھر خنجر بردار مسلح ماتمی جلوس کے ہاتھوں مسجد پر حملہ اور اہلِ سنّت نمازیوں کی شہادت اور زخمی کئے جانے پر ملک بھر کے اہلِ سنّت علمائے کرام کی سخت الفاظ میں مذمت ۔

 تفصیلات کے مطابق سرگودھا کی تحصیل ساہیوال کے ایک گاؤں فاروقہ میں 10 افراد کے اجازت یافتہ ماتمی جلوس کے بجائے 150 افراد پر مشتمل مسلح جلوس نکالے جانے کے خلاف اہلِ علاقہ نے شدید احتجاج کیا، جس کے بعد جلوس کے راستے پر واقع گنبد والی مسجد میں علاقہ مکین مسجد کو تحفظ کرنے کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت جمع ہوئے اور انتظامیہ کو بھی اس حوالے سے آگاہ کر دیا گیا اور انہیں ماتمی جلوس کے مسلح شر پسندوں کے عزائم کے بارے میں بتایا گیا لیکن انتظامیہ اسلحہ بردار ماتمی جلوس کے شرکاء کوروک نہ سکی۔ اور پچھلے سال سانحہ پنڈی کی طرح اس سال بھی وہی تاریخ سرگودھا میں ایک بار پھر ماتمی جلوس کی آڑ میں مسلح شیعہ دہشت گردوں نے نہتے اہلِ سنّت نمازیوں پر دھاوا بول کر انہیں شہید و زخمی کر دیا اور مسجد کا تقدس بھی پامال کیا گیا۔ شدید فائرنگ کی آوازیں سننے پر جب اہلِ علاقہ جائے وقوع پر پہنچے تو ہر طرف نمازیوں کا خون بہہ رہا تھا۔ اسلحہ بردار ماتمی جلوس کے دہشت گردوں نے براہِ راست گنبد والی مسجد پر فائرنگ اور خنجر کے وار کر کے 4 نمازیوں کو انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا جبکہ 10 نمازی زخمی بھی ہوئے ، زخمیوں میں سے متعدد افراد کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ 

)ہفت روزہ اہلِ سنّت اخبار 7 نومبر تا 13 نومبر 2014ء)

 (48) ایران مخالف جنگجو گروپ کے سابق کمانڈر عبدالرؤف ریگی ، اس کے بھتیجے اور کئی اہم شخصیات کو پاکستانی زمین پر ہلاک کیا گیا۔ وزیر انٹیلی جنس ۔ 

بیرون ملک اپوزیشن رہنماؤں کے قتل کا ٹاسک ایرانی انٹیلی جنس کے پاس ہے، کچھ عرصہ پیشتر افریقی ملک تنزانیا میں بھی ایک اپوزیشن راہنما محمد بزووغ زاده کو ایرانی انٹیلی جنس نے ہلاک کیا تھا محمود علوی۔

 ایرانی وزیر کے اعترافِ جرم کے بعد ثابت ہو گیا کہ پاکستان میں ماضی اور حالیہ دنوں میں جید علماء کرام اور مذہبی رہنماؤں کے قتل کے پیچھے ایران اور اس کے تربیت یافتہ دہشت گرد ملوث ہیں۔

 تفصیلی رپورٹ کے مطابق ایران کے وزیر برائے انٹیلی جنس محمود علوی نے بیرون ملک مقیم اپوزیشن رہنماؤں کو قتل کرنے کا اعتراف کر لیا ۔ ایرانی خبر رساں اداروں کے مطابق محمود علوی نے یہ بیان قم شہر میں طلباء کی ایک رہائشی اسکیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کیا۔

 انہوں نے کہا کہ ایران مخالف جنگجو گروپ بلوچ آرمی کے کمانڈر عبدالرؤف ریگی ،اس کے بھتیجے اور کئی دوسری اہم شخصیات کو پاکستان کی سرزمین پر ہلاک کیا۔ خیال رہے کہ عبدالرؤف ریگی کو 28 اگست کو پاکستان کے شہر کوئٹہ میں ایک بم دھماکے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ ایرانی وزیر نے بتایا کہ بیرون ملک ایران کے اپوزیشن رہنماؤں کے قتل کا ٹاسک انٹیلی جنس کے پاس ہے۔ ایرانی وزیر کے اعتراف جرم کے بعد ملک کے مختلف اداروں، سیاسی، سماجی خصوصاً مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور جید علماء کرام نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب پاکستانی انٹیلی جنس اداروں اور حکومت کو چاہیئے کہ وہ ایرانی حکومت سے با قاعدہ سفارتی سطح پر سخت احتجاج اور ایرانی سفیر کو ملک بدر کر کے ایران کو ہر سطح پر نا پسندیدہ ملک قرار دے۔ کیونکہ دنیا کا کوئی آئین و قانون کسی ملک کو کسی دوسرے ملک کے خلاف اس کی سرزمین میں گھس کر دہشت گردانہ اور تخریبی کاروائیوں کی اجازت نہیں دیتا۔ ایران کو دوست قرار دینے والوں کے لئے وزیر انٹیلی جنس محمود علوی کا بیان ان کے منہ پر طمانچہ ہے۔ 

پاکستان میں جید علماء کرام اور مذہبی رہنماؤں کے درجنوں قاتل اب بھی ایران میں پناہ لئے ہوئے ہیں اور ایران میں بیٹھ کر پاکستان دشمن سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات سے بخوبی واقف ہیں اور کراچی آپریشن میں گرفتار دہشت گردوں نے ایران سے ٹریننگ لینے، ایران کے اشاروں اور مالی فنڈنگ سے جید علماء کرام کے قتل کے اعتراف بھی کئے ہیں۔ اور گرفتار دہشت گردوں کے متعدد ساتھی اب بھی ایران میں موجود ہیں ۔ 

(ہفت روز واہلِ سنّت اخبار 12 دسمبر تا 18 دسمبر 2014)

 (49) ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی بیان میں انتہا پسندانہ نظریات کے فروغ اور بیرونی ایجنڈے کو ہزارہ قوم پر مسلط کرنے کی غرض سے علمدار روڈ کوئٹہ اور ہزارہ ٹاؤن کوئٹہ میں مختلف تربیتی مراکز کے قیام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان مراکز میں ہزارہ قوم کے معصوم جوانوں اور خواتین کی برین واش کر کے انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ دینے اور ہزارہ قوم کو خود سے بیگانہ بنا کر غیروں کے ایجنڈوں پر کام کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں جو ہزارہ قوم کے تمام مکاتب فکر کے لئے باعث تشویش ہے۔

 بیان میں کہا گیا کہ ہزارہ قوم نے ماضی میں بھی ایسے عناصر کی کوششوں کو ناکامی سے دو چار کرتے ہوئے ہزارہ قوم کے نوجوانوں کو گمراہی سے بچائے رکھا اور اب بھی قوم کے روشن خیال سیاسی ادارہ قوم کی شناخت کو لاحق خطرات سے محفوظ رکھنے کی خاطر اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے مذہبی اور عقیدہ کے نام پر عوام کو دھوکہ دینے والی قوتوں کی سازشوں سے قوم کو باخبر رکھنے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ 

بیان میں کہا گیا کہ مدارس اور تربیتی مراکز کے نام پر اس طرح ہزارہ قوم میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے کی کوششیں ہو رہی ہے ہیں، جس میں خواتین اور نوجوانوں کو مختلف بہانوں سے برین واش کرنے کیلئے جس تیزی سے اخراجات کئے جا رہے ہیں اس پر ملکی سلامتی اداروں کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، اور ان عناصر سے ان کی آمدنی کے ذرائع معلوم کرتے ہوئے عوام کو حقائق سے باخبر رکھنے کے سلسلے میں کردار ادا کرنا چاہیئے ۔ 

 بیان میں کہا گیا کہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور ہزارہ قوم کے روشن خیال قوم دوست حلقے ، جس طرح ماضی میں ان عناصر کو قوم کے سامنے بے نقاب کر چکے ہیں آئندہ بھی تسلسل جاری رہے گا اور قوم کو ہر طرح کے حقائق سے آگاہی فراہم کرتا رہے گا۔ 

(روزنامه جنگ اخبار کوئٹہ: 10 مارچ 2015ء) 

 (50) 14 ستمبر 2015ء،خفیہ ادارہ (سی ٹی ڈی) کے ہاتھوں گرفتار ہونے والا بدنام زمانہ شیعہ دہشت گردMQM کا ٹارگٹ کلر وصی حیدر کی گرفتاری کے بعد خوفناک انکشافات واردات کرنے کے بعد زائرین کے ساتھ ایران چلا جاتا تھا۔ عام کارکن کے قتل پر 20 ہزار۔ بڑے عالم کے قتل پر 20 لاکھ جبکہ مولانا عبدالمجید دینپوریؒ کے قتل پر 30 لاکھ روپے ملے۔

 ملک پاکستان میں اس طرح کے ہزاروں قیامت نما واقعات ہیں کہ شیعہ ظالموں نے مظلوم سنی علماء طلباء، ڈاکٹر ، پروفیسر، وکلاء، تاجر اور عام عوام کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیئے گئے ہیں۔ 

میرے محترم قارئین کرام!

 باطل کا انداز ہر دور میں یہی رہا ہے کہ مال اور عیاشی کی بنیاد پر اہلِ حق کو خرید لو، اور اگر اس میں کامیابی نہ ہو تو طاقت کے زور پر اہلِ حق کو راستہ سے ہٹا دو۔ہر دور میں باطل کا یہی طریقہ واردات رہا ہے۔

 رافضیت جو کہ یہودیت کی نسل سے پیدا شدہ ہے، اس کے اصولوں میں ایک بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ اپنے مخالفین کو راستہ سے ہٹا دیا جائے ، اس کیلئے وہ اس بات میں کوئی تفریق نہیں کرتے کہ ہدف ( یعنی ٹارگٹ ) بنایا جانے والا شخص تحفظ ناموسِ صحابہؓ سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں۔

 ہمارے ملک میں تحفظ ناموسِ صحابہؓ کے موضوع پر تنظیم اہلِ سنّت کے پلیٹ فارم سے آواز اٹھائی گئی، پھر تحفظ حقوق اہلِ سنّت کے نام سے آواز بلند کی گئی ، پھر سپاہِ صحابہؓ کے نام سے آواز اٹھی ، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ دہشت گردوں نے جن علماء کو شہید کیا ہیں کیا وہ سب کے سب مذکورہ بالا تنظیموں سے منسلک تھے؟( نہیں ، ہر گز نہیں ) بلکہ اب تک جو لوگ شیعیت کی دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں ان میں سے ایسے حضرات بھی ہیں جو سپاہِ صحابہؓ کے انداز اور طریقہ کار سے بھی متفق نہیں تھے۔

 حضرت مولانا علامہ حق نواز جھنگوی شہیدؓ سے لے کر حضرت مولانا علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ تک کے علاوہ بھی ناموسِ صحابہؓ کے تحفظ کیلئے جان قربان کرنے والے علماء کرام کی ایک طویل فہرست ہے۔ مگر ہم یہ پوچھتے ہیں کہ مرکزی مسجد اسلام آباد کے خطیب حضرت مولانا عبد اللہ شہیدؒ، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ، حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہیدؒ، حضرت مولانا محمد اسلم شیخ پوری شہیدؒ اور ان جیسے دوسرے بہت سے علماء کرام اور قائدین اسلام جو کہ شیعیت کی تیغ قاتل کا شکار ہوئے ان کا کیا قصور تھا ؟

اگر سپاہِ صحابہؓ یا اس کے قائدین شیعہ کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں تو ان کا ہدف بھی وہی لوگ بننے چاہئیں ۔ مگر علمائے حق کو بلا تفریق اپنا نشانہ بنانا اور ان کے معصوم خون سے اپنے ہاتھ رنگنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دشمنانِ اسلام (شیعہ) کے پیش نظر اور مقصد۔سپاہِ صحابہؓ نہیں بلکہ علمائے حق اور علمائے اسلام ہیں، اور شہادتوں کے سنہری سلسلہ میں بلاامتیاز ہر وہ شخص شامل ہو سکتا ہے جسے باطل اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتے ہوں ۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ باطل یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ وہ حق کے خلاف آخری راؤنڈ کھیل رہا ہے اور ان مذہبی شخصیات کو راستہ سے ہٹا کر اپنے مفادات کا تحفظ کر لے گا۔ مگر یہ اس کی بھول ہے۔ اگر تاتاریوں کا قتل عام اسلام کی زندگی مختصر نہ کر سکا اور عیسائیت کا اندھا طوفان اسلام کا کچھ نہ بگاڑ سکا تو یہودیت اور سبائیت کا موجودہ سیلاب بھی اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گا ان شاء الله )۔

 میرے محترم قارئین کرام !

 اس طرح کے ہزاروں قیامت نما حادثات ہے جو شیعہ دہشت گردوں کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوئے ہیں نمونہ کے لئے چند واقعات آپ کے سامنے پیش کر دیئے ہیں۔