پاکستان میں موجود، ایرانی سفارت خانے یا دہشت گردی کے اڈے؟
مولانا محب اللہ قریشیپاکستان میں موجود، ایرانی سفارت خانے یا دہشت گردی کے اڈے؟
میرے محترم قارئین کرام ! اسی طرح ملک پاکستان میں ایرانی سفارتخانے دہشت گردی کے اڈے اور ایرانی سفیر ایران کے جاسوس ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہر ادارے میں موجود سنی غیرت مند افسران ان پر کھڑی نظر رکھیں۔
اس سلسلے میں بھی چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:
(1)بد قسمتی سے پاکستان نے ایران میں اکثر ایسے سفیر بھیجے جو پاکستان کے و فادار کم اور ایران کے خیرخواہ زیادہ تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں ایرانی حکومت ، اس کے ذرائع ابلاغ اور عوام کی صحیح سوچ اور عزائم سے کماحقہ آگاہی نہ ہو سکی ، ہمارے نمائندوں نے حکمران طبقہ سے دوستی بڑھائی اور عوام سے کسی سطح پر بھی ہمارا رابطہ نہ ہو سکا بلکہ اس کیلئے جو مواقع میسر تھے ہم نے ان سے بھی کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا، ایک شیعہ سفیر کے ہاتھوں تو ہم اپنے وطن کا کئی ہزار مربہ میل علاقہ بھی گنوا بیٹھے۔
پاکستان کی تعلیمی درسگاہوں (سفارت خانوں) میں ایرانی طالب علموں کے داخلے کیلئے ہم نے ان کے انتخاب میں اپنا حق کبھی استعمال نہیں کیا بلکہ جو ایرانی طالب علم داخلے کے سلسلے میں سفارت میں آیا اس کو دھتکار دیا گیا۔ اس کی بجائے جو نام ایران کی حکومت بھیجتی اسے قبول کر لیا جاتا، چاہے وہ ہمارے تعلیمی معیار پر پورا اترتا یا نہ اترتا ہو۔ نتیجہ یہ تھا کہ ان میں طلباء کے روپ میں اکثر ساواک کے رکن ہوتے ، جن کا کام یا تو پاکستان میں دوسری ایرانی طلباء کی مخبری یا مقامی خاص معلومات کا حصول ہوتا ۔
شاہ کے زمانے میں پاکستان میں سفارت ایران اور اس کے فرہنگی مراکز کا ایک کام یہ بھی تھا کہ پاکستان میں ایسے لوگوں کی فہرستیں تیار کریں جو ایران کیلئے کام کرتے ہوں۔ان کو باقاعدگی سے اپنے استقبالیوں میں دعوت دیں اور ان کی شراب اور دوسری ضرورتوں کا خیال رکھیں اور وقتاً فوقتاً عیاشی کیلئے انہیں ایران بھیجتے رہیں ۔
(ایران افکار و عزائم صفحہ 60)
(2) شیعہ لیڈراپنے سفیروں کو یہ درس دیتے ہیں کہ ہمارے سفیروں کو دوسرے ملکوں میں خاص طور پر نام نہاد اسلامی ملکوں میں اپنا وقت انتظامی اور غیر ضروری امور پر ضائع نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اپنے انقلاب پر پختہ ایمان اور یقین رکھتے ہوئے ہرممکن کوشش کرنی چاہیئے کہ وہاں کے لوگوں میں انقلاب کا جذبہ بیدار کریں اور اس کے لئے راہ ہموار کریں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ :
اے ہمارے سفیرو! آپ ایران کے اسلامی (شیعہ) انقلاب کی نمائندگی کرتے ہیں،آپ اپنے طور طریقے سے اسلام (شیعیت) کی اقدار کو بلند رکھیں اور دوسرے ملکوں میں ایسی طاقتوں سے ہم آہنگی پیدا کریں اور ان کی رہنمائی کریں جو اسلامی (شیعہ) انقلاب پر یقین رکھتے ہوں۔
(ایران افکار و عزائم صفحہ 35)
(3) ایران نے پاکستان میں اپنے سفارت کاروں کو سخت ہدایات جاری کی ہوتی ہیں کہ وہ اس ملک میں اپنے ہم مسلک لوگوں سے مل کر شیعہ انقلاب لانے کیلئے راہ ہموار کریں ۔ چنانچہ ان کا کام ہی یہ ہے کہ ایران میں شائع شدہ فرقہ واریت پر مبنی شیعہ مواد کو مقامی زبانوں میں شائع کروائیں ، مقامی لوگوں میں تقسیم کریں اور اپنے ہم مسلک لوگوں سے مل کر یہاں شیعہ انقلاب لانے کیلئے حکمت عملی اور لائحہ عمل وضع کریں ۔
(ایران اور عالم اسلام: صفحہ 109)
(4)یہ ایک حقیقت ہے کہ ایرانیوں، خصوصاً ان کے سفارت کاروں اور ثقافتی مراکز ( جو پاکستان میں نصف درجن سے زیادہ ہیں ) کے کارکنوں نے بھی پاکستانی شیعوں میں سنیوں کے خلاف تعصب کو ہوا دی اور انہیں فعال بنانے کی غرض سے اپنے حقوق بزور چھیننے کی تلقین کی۔ ایرانی سفارت کے ذریعے پاکستان میں ایرانی لڑیچر کثرت سے پہنچایا گیا اور یہاں کی مقامی لوگوں کی زبانوں میں ترجمہ کروایا گیا جن لڑپچر میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کو جھوٹا لکھا گیا تھا، اور پیغمبر ﷺ کو ناکام لکھا گیا تھا، اور ازواجِ مطہراتؓ و صحابہ کرامؓ کو کافر ، مرتد جہنمی تک تحریر کیا گیا تھا، اور صحابہ کرامؓ کی ماں، بہن کو ننگی گالیاں تحریر کی گئی تھی۔ (معاذ الله)
(ایران افکار و عزائم صفحہ 82)
(5)مجاہدین خلق کے خفیہ ریڈیو 14,12،92 نے الزام لگایا کہ ایرانی حکومت نے اپنی تخریب کاری کے جال کو دوسرے ملکوں میں اپنی سفارتوں کے ذریعے بہت فعال بنادیا ہے، تاکہ ان ملکوں میں ایران کی مخالف قوتوں کو ختم کیا جا سکے یا کمزور بنایا جا سکے۔
(ایران افکار و عزائم صفحہ 27)
(6) اس سے پہلے ایران کے دو تخریب کار بغداد میں مجاہدین کے لیڈر مسعود رجوی کو قتل کرنے میں ناکام رہے تھے ۔
(بغداد الجمہوریہ: 26,12,91)۔
بعد میں پتہ چلا کہ دونوں حملہ آور جو بظاہر ایرانی سفارت کار تھے، دراصل ساواک (ایران کی تربیت یافتہ دہشت گرد تنظیم) کے ایجنٹ تھے، اور اپنی سفارت کی سیاسی گاڑی میں حملہ آور ہوئے تھے۔
عراقی خبر رساں ایجنسی (INA) کے مطابق مجاہدین خلق کے ترجمان نے الزام لگایا کہ حال ہی میں ایران کی حکومت نے بہت سے تربیت یافتہ تخریب کاروں کو سیاسی حیثیت دے کر اپنی وزارت خارجہ میں منتقل کر دیا ہے، تا کہ دوسرے ملکوں میں دہشت گردی اور تخریب کاری آسان ہو سکے اور ان لوگوں کی سیاسی حیثیت کی بنیاد پر ان کو کوئی گزند بھی نہ پہنچے-
ترجمان نے کہا کہ یہ سیاسی کارکن اس سے پہلے دوسرے ملکوں یعنی فرانس، اٹلی ، لبنان ، سعودی عرب ، تھائی لینڈ تر کی اور پاکستان میں تخریب کاری اور ایران کے مخالف لیڈروں کے قتل کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔
ایران کی سلامتی کے وزیر آقائی فلاحیاں نے اعتراف کیا (ایرانی ٹی وی 30:8:1992) کہ وہ ایران کے اندر اور باہر اپنے مخالفوں کا سختی سے پیچھا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے مخبری کا ایک ادارہ باہر کے ملکوں میں بھی کام کر رہا ہے، اور بیرون ملک رہائش پذیر مخالفوں کے ساتھ سختی سے نپٹ رہا ہے، انہوں نے بتایا کہ بہت سے مخالفین کو تو وہ ایران کی سرحدوں پر ہی پکڑ لیتے ہیں۔
(ایران افکار و عزائم: صفحہ 19)
(7) ایران نے دوسرے ملکوں میں اپنی سفارتوں کے ذریعے اپنے مخالفوں کی فہرستیں تیار کیں، اور ان کو ختم کرنے کے منصوبے بنائے گئے ۔ اب تو ایرانی حکومت نے دہشت گردوں کو دوسرے ملکوں میں اپنے سفارت کار بنا کر بھیجنا شروع کر دیا ہے تا کہ الزام کی صورت میں ان کیلئے سیاسی تحفظ حاصل کیا جا سکے، ان کا کام منصوبہ بنانا ہوتا ہے، اصل تخریب کاری مقامی لوگوں سپاہِ محمد ( پاکستان میں شیعہ کی دہشت گرد تنظیم) وغیرہ تنظیموں کے کارکنوں سے کروائی جاتی ہے۔
(ایران افکار و عزائم: صفحی 66)
ایران کے بعض سفارتی نمائندوں کے بارے میں یہ تاثر موجود ہے کہ وہ پاکستان کے اندر ایسی کاروائیوں میں شریک رہتے ہیں جو منصب سفارت کے شایان شان نہیں ہیں۔ یہ تاثر پروپیگنڈے اور غلط اطلاعات کی بنیاد پر بھی قائم ہو سکتا ہے لیکن اس کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں۔ اس کو ایرانی سفارت خانے کے (ظاہراً) احتجاجی اور پاکستانی وزارت خارجہ کے معذرتی بیانات سے زائل نہیں کیا جاسکتا کہ (اس کو صرف پروپیگنڈہ ہی قرار دیا جائے ، بلکہ اس دہشت گردی و تخریب کاری کے واقعات کی مثالیں آپ کو بکثرت مل جائیں گی، جس میں ایرانی سفیر ملوث ہوں گے )۔ اس سے سلگتے جذبات مزید بھڑک سکتے ہیں۔
(ایران افکار و عزائم صفحہ 72)
(9) یہاں تک کہ ان کے لیڈروں کو قتل کرنے کیلئے اپنے سفارتی کارکن اور سفارت ایران کی سیاسی گاڑیاں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ دوسرے ملکوں میں اپنے مخالفوں سے نمٹنے کیلئے حکومت ایران نے ایک خاص تنظیم سکواڈ قائم کی ہے۔ قاہرہ کے عربی اخبار الاهرام 8:12:1992 کے مطابق خطہ کے تمام انتہا پسند لیڈروں کے مستقل مراکز ایران میں ہیں ، ان کو ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی نگرانی میں اسلحہ کے استعمال اور تخریب کاری کی تربیت دی جاتی ہے۔
القدس سکواڈ کے کمانڈو کا سب سے بڑا تربیتی مرکز تہران کی امام علی یونیورسٹی میں واقع ہے۔ اس یونیورسٹی میں مختلف ممالک (جن میں پاکستان بھی شامل ہے) کے نو جوانوں کو اعلیٰ فوجی اور دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے، اور ان کو ذہنی اور جسمانی طور پر دوسرے ملکوں میں ہر طرح کی تخریب کاری کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔
بغداد کے عربی روزنامہ (المجمہوریہ: 4:1:1992) نے انکشاف کیا کے صدر رفسنجانی نے اپنے سلامتی اور خفیہ ایجنسیوں کے وزیر آقائی فلاحیاں اور القدس سکواڈ کے کمانڈر احمد وحیدی کو حکم دیا ہے کہ دوسرے ملکوں میں ایران کے مخالفین کے قتل کے منصوبوں کو جلد ازجلد عملی جامہ پہنائیں ۔
(ایران افکار و عزائم صفحہ 39)
(10) اسی طرح اسکندریہ میں چند گرفتار شدہ مصری تخریب کاروں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ایران کے شہر مشہد میں تربیت حاصل کی ، انہوں نے بتایا کہ وہاں تقریباً پندرہ سو نوجوان زیرِ تربیت تھے جن کا تعلق مصر، الجزائر ، تیونس، سعودی عرب اور پاکستان سے تھا۔
(ایران افکار و عزائم صفحہ 39)
(11) ایرانی سفیر اور مقامی شیعہ:
شاہ کے زمانے میں ایرانی حکومت کی ہدایات تھیں کہ سفیر صاحب تہران سے باہر جائیں تو ان کی وزارت خارجہ کو اپنے پروگرام کی تفصیل بتا کر پہلے ان سے اجازت لیں ۔ ایران میں ہمارے سفیروں کو اتنی جرأت نہیں ہوتی (یا شاید ان کو احساس ہی نہیں ہوتا ) کہ ایرانی بلوچستان یا کردستان جا کر وہاں سنی لیڈروں سے ملیں اور سنی مسلک کے لوگوں کی حالت زار کا مطالعہ کریں ، اور اپنی حکومت کو رپورٹ دیں ۔ شاید ہماری حکومت کو بھی اس کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانہ اور پاکستان میں بکھرے ہوئے مختلف شہروں میں ایران کے کوئی نصف درجن سے زیادہ ثقافتی مراکز ( خانہ ہائے فرہنگ) میں ایرانی نمائندوں کے مقامی شیعوں کے ساتھ باقاعدگی سے اجلاس ہوتے ہیں اور اللہ جانے کیا موضوع زیر بحث آتے ہیں اور کیا فیصلے ہوتے ہیں۔
کیا ہمارے سلامتی کے حساس اداروں نے کبھی یہ معلوم کرنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ ایران کے سفارتی نمائندے اور ان کے ثقافتی مراکز کے افسران اور اہلکار اس ملک میں کیا معاملات زیر بحث لاتے ہیں؟ ان کے سفارت خانے اور مراکز فرہنگی میں ایران کے جن مشہور تخریب کاروں کو ہم نے سفارتی تعیناتی کی اجازت دے رکھی ہے اور بے شمار سیاسی مراعات دے رکھی ہیں ، وہ دراصل پاکستان میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ ان کی مقامی شیعوں کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات ہیں اور ان کے درمیان کیا منصوبہ بندی ہوتی ہے؟ ایسے حالات میں جبکہ ایرانی حکومت نے ہمارے خلاف بھارت ، شمالی اتحاد اور دنیا کی دوسری اسلام دشمن طاقتوں سے ساز باز کر رکھی ہے، ہمارے لئے ان کی اس حکمت عملی کا مطالعہ اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ایرانی سفارت کاروں اور مقامی شیعہ لیڈروں کی ملاقاتوں میں،پاکستان میں مختلف تخریب کاری کے منصوبوں کی تیاری کے علاوہ پاکستان کے معروف افراد کی درجہ بندی کر کے ان کی فہرستیں بھی بنائی جاتی ہیں ۔ مثلاً
(1) کن افراد کو مروانا ہے۔
(2) کن افراد یا اداروں کو رشوت یا لڑکیوں کا نذرانہ دے کر خریدا جا سکتا ہے۔
(3) کن افراد کو تخریب کاری کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
(4) کن اشاعتی اور اخباری اداروں، ان کے ایڈیٹروں اور رپوٹروں اور مختلف شیعہ مخالف افراد کو صرف ڈرانے دھمکانے سے ہی اپنی راہ پر لایا جا سکتا ہے۔
یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ایرانی حکمرانوں کو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھاتی، پاکستان کے خلاف بغض و حسد کی آگ ان کے سینوں میں ہمیشہ جلتی رہتی ہے۔ ایران کے سیاسی نمائندے اپنے مقامی شیعہ گماشتوں کے ساتھ مل کر اس بات کی منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ کس طرح پاکستان میں انتشار اور افراتفری کا عمل تیز کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے ان کو ہر طرح کی مالی ، اخلاقی اور مادی امداد دی جاتی ہے۔
(ایران اور عالم اسلام: صفحہ 81) ۔
(12) ایران اور پاکستان نے معاہدہ کیا کہ ایک دوسرے کو مجرم حوالہ کریں گے
1۔ بی بی سی: 2:6:1991 کے مطابق پاکستان اور ایران نے
مجروموں کو ایک دوسرے کے حوالے کرنے کے معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں ۔اس طرح پاکستان نے آخر کار ایران کا یہ پرانا مطالبہ پورا کر دیا ہے۔
2۔ روزنامہ ایکسپرس کوئٹہ 15,9,2014 کے مطابق ایران کے وزیر انصاف مصطفی پور محمدی نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہوگیا ہے اور جلد اس معاہدے پر عمل درآمد کیا جائے گا، اور پاکستانی کابینہ نے بھی ایران کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدوں کی منظوری دیدی ہے۔
میرے محترم قارئین کرام !
اب ایرانی پاسدارانِ انقلاب اور دوسرے تخریب کار پاکستان میں ایران کے مخالفین کو اطمینان سے مارتے ہیں اور ساتھ ہی دوسری تخریب کاری کی وارداتیں اورفلان تیار کرتے ہیں، اور اس کے بعد حکومت پاکستان ان کو بغیر مقدمہ چلائے ایران واپس بھیج دیتی ہے۔
اس کے برعکس (دی نیوز،راولپنڈی:5:6:1991)
کے مطابق تہران میں پاکستانی سفارت کے مطابق انقلاب کے بعد اب تک 40 کے قریب پاکستانیوں کو ناجائز دواؤں کے کاروبار کے جرم میں پھانسی دی جاچکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ پاکستانی اس الزام میں ایران کی مختلف جیلوں میں ابھی تک بند ہیں ۔
میرے محترم دوستو!
فیصلہ آپ کریں! ایک طرف شیعہ دہشت گرد قتل کے واردات کر کے پاکستانی حکمران صحیح سلامت ان قاتلوں کو ایران کے حوالہ کرتے ہیں اور دوسری طرف ایرانی حکومت معمولی کیس کے جرم میں ملوث سنی بھائیوں کو پھانسی دے رہا ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے؟
(ایران افکار و عزائم صفحہ 68)