حکمرانوں! شیعہ پاکستان کے اور آپ کے دوست اور خیر خواہ نہیں بن سکتے
مولانا محب اللہ قریشیحکمرانوں! شیعہ پاکستان کے اور آپ کے دوست اور خیر خواہ نہیں بن سکتے
تاریخِ اسلام کا ہر صفحہ شیعہ کے دہشت گردی کا منہ بولتا ثبوت ہے:
راقم الحروف نے سوچا کہ کیوں نہ تاریخِ اسلام کا اس حوالہ سے مطالعہ کیا جائے کہ آیا شیعہ دہشت گردی سپاہِ صحابہؓ کے وجود میں آنے کے بعد شروع ہوئی ہے یا پہلے سے جاری ہے۔ اس سلسلے میں جب تاریخ کے اوراق پلٹنے شروع کئے تو تاریخِ اسلام کا ہر صفحہ شیعہ دہشت گردی کا منہ بولتا ثبوت نظر آیا ۔
تاریخِ اسلام کے ابتدائی دور میں جب ابھی سپاہِ صحابہؓ نامی کسی تنظیم کا کوئی وجود نہیں تھا مگر سبائی ٹولہ نے نہ صرف ایک عام مسلمان بلکہ خلیفہ وقت سیدنا عثمان غنیؓ کو شہید کردیاتھا۔
سیدنا عثمان غنیؓ سے لے کر حضرت مولانا مفتی عبد المجید دینپوری شہیدؒ سے تک اہلِ سنّت کی شہادتوں کی طویل داستان تھی جس میں ہر جگہ شیعہ کا ہاتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ کارفرما نظر آیا ۔ جو لوگ سیدنا عثمان غنیؓ کی شہادت میں ملوث تھے وہی پھر قافلہ اہلِ بیت کے سرخیل سیدنا حسین بن علیؓ کو کوفہ بلانے اور ان کو شہید کرنے میں نمایاں نظر آئے ۔
تاریخِ اسلام کے اوراق پلٹتا جارہا تھا اور میری حیرانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا کہ یہی سازشی ٹولہ حسن بن صبا کی قیادت میں کہیں تو مسلمان جرنیلوں کو راستے سے ہٹانے کیلئے سرگرم عمل رہا اور کہیں عیسائیوں کے ساتھ مل کر بغاوتیں برپا کرنے میں مصروفِ کار رہیں۔ جب فاطمیوں کی شکل میں اس گروہ کو حکومت واقتدار مل گیا تو اہلِ سنت پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے، اور جب حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے تو یہود و ہنود سے مل کر امتِ مسلمہ کے خلاف سازشوں کے جال بننے میں مصروف ہو گئے۔ان کے انہی کرتوتوں کی وجہ سے امام ابنِ تیمیہؒ کو یہ کہنا پڑا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں میں فتنہ و فساد شروع ہو جائے تو اس میں بالواسطہ یا بلا واسطہ ضرور شیعوں کا ہاتھ ہوگا، اور دنیا میں شیعوں کی سیاہ تاریخ رقم ہے۔
شیعوں نے ہر دور میں مسلمانوں کے ساتھ غداری کی اورکفار کا ساتھ دیا:
علامہ ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہے کہ شیعہ ہمیشہ یہود و نصاریٰ، تاتاری اور مشرکین کے ساتھ رہے ہیں،تاتاری کفار کے اسلامی ملکوں میں راہ پانے میں سب سے زیادہ شیعہ کا دخل ہے، شام میں عیسائیوں کی انہوں نے پوری پوری مدد کی یہاں تک کے مسلمانوں کے بچوں کو ان کے ہاتھوں غلامی کی طرح فروخت کر دیا تھا، عیسائیوں کے بیت المقدس پر قبضہ میں بھی ان کا بڑا حصہ تھا،ان کے عقائدِ کفریہ کی بناء پر کافروں اور منافقوں کے زمرہ میں ان کی شمولیت لازم ہے، اور جو شخص بھی ان حالات کا مشاہدہ اور ان کے عقائد کا مطالعہ کر چکا ہے وہ انہیں مسلمانوں سے بالکل الگ سمجھتا ہے۔ ان کی تمام تر کوشش یہی رہی ہیں کہ اسلام کو منہدم کر کے اس کی وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے،اور اسلام کے ساتھ ان کے معاملہ کی تاریخ بالکل سیاہ ہے۔
(منہاج السنة: جلد 4 صفحہ110)
شیعیت کی ظلم و بربریت اور درندگی کی شرمناک داستانیں آج بھی تاریخ کا ایک تاریک باب ہیں
ماہِ محرم میں ایک حیاء باختہ و فتنہ پرور گروہ نے ایک مرتبہ پھر سنیوں کے خلاف اپنے سینوں میں رکھے بغض و کینہ کے آتش بگولے سرِ عام آشکارہ کیئے جھوٹ و فریب اور دجل کے دبیز پردے میں تعصب و عناد کی گرد سے اٹا چہرہ رُخِ بے نقاب کی طرح عیاں ہو گیا، بالآخر رافضیوں نے ایک بار پھر اپنے مکروہ وشرمناک فعل سے دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ سنیوں کی نفرت و عداوت ان کے رگ وپے میں بس گھول رہی ہے اور خبر دار کر دیا کہ سیدنا حسین بن علیؓ سے بے وفائی کرنے والے کسی سنی مسلمان کے وفادارو خیرخواہ نہیں، ان پر اعتماد و بھروسہ کرنے والے الم نصیب ہمیشہ زوال کے تیرہ بخت موسموں میں گر جاتےہیں، اور اس بے ننگ و نام نہاد سیاست میں اپنوں کی دل شکنی کر کے یہود کی ذریت کو اپنا ہمدم بنانے والے ارباب فکر و نظر بے ہنری و بے تدبیری کی راہ کے شکار ہیں ۔
مدرسہ تعلیم القرآن راجہ بازار کی بے حرمتی اور طلبہ پر اندھا دھند فائرنگ کے بعد طالب علموں کی بہیمانہ شہادت،قرآن مجیدوں کو جلانا،ایسے واقعات ہیں جو رافضیوں کےمکروہ و متعفن ذہن کی بھر پور عکاس ہیں۔ یہ کوئی پہلا اور آخری واقعہ نہیں جسے بھول ونسیاں کی پوٹلی میں رکھ کر مٹی پاؤ کے تاریک گھڑھے میں دفن کر دیا جائے ۔
شیعیت نے ہر دور میں مسلمانوں اور شعائرِ اسلام کو اپنی سنگباری کا ہدف بنایا ہے۔ پیغمبرِ انقلابﷺکے جانثاروں اور وفاداروں کا نام سن کر انگاروں پر لوٹنے والی یہ قوم ہر دور میں اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں کے ساتھ مسلمانوں کی ترقی و عروج کی راہ میں رکاوٹ بنی ہے،ان کی ظلم و بربریت اور درندگی کی شرمناک داستانیں آج بھی تاریخ کا ایک تاریک باب ہیں جسے دیکھ کر چڑھتے سورج کی طرح اس امر کا یقین ہو جاتا ہے کہ یہ گستاخ فرقه کسی دین ومذہب کا نام نہیں،یہ یہود کا وہ خود کاشتہ زہر یلا پودا ہے جس کا بیج فقط اسلام کونقصان پہنچانے کے لئے بویا گیا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ اسلام کی عزت و شوکت 22 لاکھ مربع میل پر اسلام کا جھنڈا لہرانے والے خلیفہ ثانی سیدنا فاروقِ اعظمؓ کو شہید کرنے والاابولولؤ فیروز رافضی تھا۔ پیکر شرم و حیاء سخاوت کے بے تاج بادشاہ نبی کریمﷺ کے دہرے داماد اور خلیفہ ثالث سیدنا عثمان غنیؓ کو شہادت کا جام پلانے والے بلوائی رافضی تھے۔ سیدناحسینؓ کو شہید کرنے والے توابین رافضی تھے پھر انتقام سیدنا حسینؓ کے نام پر ستر ہزار مسلمانوں کو تہ تیغ کرنے والا مختار الثقفی بھی رافضی تھا۔ ہلاکو سے بغداد کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہانے والا وزیر ابنِ علقمی رافضی تھا۔ تاتاریوں کو اکسا کر بغداد میں سولہ لاکھ مسلمانوں کی گردنیں تن سے جدا کرنے والا نصیر الدین طوسی رافضی تھا سنی امراء کو قتل کر کے صلاح الدین ایوبیؒ کے خلاف سازشیں کرنے والے فاطمین مصر رافضی تھے۔فاتح یورپ بایزید یلدرم کو ظلم وستم کی چکی میں پیسنے والاشاہ تیمور لنگ رافضی تھا۔ بنگال کا جعفر اور دکن کا صادق رافضی تھے ۔ دہلی کی جامع مسجد میں لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا شاہ درانی رافضی تھا۔ ایرانی انقلاب کی آڑ میں نہتے سنیوں کو قتل کرنے والا خمینی ملعون بھی سب جانتے ہیں رافضی تھا۔ ملک پاکستان میں علماء،طلباء، وکلاء، سیاستدان اور سنی تاجروں کو شہید کرنے مدارس ، مساجد اور قرآن کی بے حرمتی کرنے والے یہی شیعہ دہشت گرد ہیں ۔ یہ سب وہ تاریخی حقائق ہیں جن سے آنکھیں چرانا خود فریبی اور جھٹلانا بے ضمیری کے سوا کچھ نہیں ۔
شیعہ فرقے کا مزاج ہی تخریب کاری ہے
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ فرماتے ہیں کہ ہر فرقے کا ایک مزاج ہوتا ہے اس فرقے کا مزاج ہی تخریبی ہے اور تاریخ اس پر شہادت دے گی کہ مسلمانوں کو جتنے نقصانات اٹھانے پڑے ہیں اس میں سیاست کی یا خلافت کی، جہاں جہاں تباہی ہوئی ہے نیچے سے یہی فرقہ نکلتا ہے تو تاریخ کی روشنی میں یہ ایک تخریبی فرقہ ہے، جب اس کا مزاج یہ ہے تو ہو سکتا ہے کہ آج وہ آپ کی چاپلوسی کر کے آپ میں شامل ہو جائے لیکن کل کو نوک پنجے نکال کر آپ کو پٹخ دے آپ کے اوپر غالب آجائے۔
جیسا کہ تاریخ اس پر شاہد ہے پھر آپ کیا کریں گے؟
(دفاعِ صحابہؓ اور علماء دیوبند:صفحہ148)
پوری دنیا میں اسلام مخالف مظالم و تباہی میں شیعہ کا ہاتھ ہے
تاریخِ اسلام کے مختلف ادوار میں جتنے المیے اوراد بار رونما ہوئے یعنی خلافتِ را شده، خلافتِ دمشق، خلافتِ بغداد اور خلافتِ عثمانیہ کے خلاف خون چکاں اور تباہ کن واقعات، ان کے پیچھے بالواسطہ یا
بلاواسطہ اسی اسلام دشمن شیعہ تحریک کے سرکردہ لیڈروں کاہاتھ رہا ہے۔
منیٰ میں بھگدڑ ایک منظم سازش تھی، اس سازش میں ایرانی حکومت اور پاسدارانِ ایرانی انقلاب براہِ راست ملوث تھے۔ ان کا اس سے بھی بڑا منصوبہ تھا جسے سعودی حکومت نے نا کام بنا دیا ۔ (5 اکتوبر 2015ء روزنامہ ایکسپرس اخبار کوئٹہ صفحہ نمبر1)
سعودی عرب پولیس نے یمن شیعہ حوثی باغیوں کی جانب سے آبِ زم زم کی 2000 بوتلوں میں زہریلا مواد شامل کرنے کی اطلاع کے بعد چھاپہ مار کر زہر آلودہ آبِ زم زم کے چھ سو کاٹن قبضے میں لے لئے۔
(روزنامه اسلام اخبار پشاور صفحه نمبر1،چھ اپریل 2014ء )
2015ء منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران ہونے والے سانحہ کی اصل حقیقت سامنے آگئی ۔ پاکستان علماء کونسل کے چئیرمین طاہر اشرفی کے مطابق ایران کے تربیت یافتہ شیعوں نے شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران حجاج کرام کا راستہ روکا، اور پھر عرب پولیس پر حملہ کیا۔ اس دوران ایرانیوں کی طرف سے یا حسین اور خمینی زندہ بادکے نعرے لگنے سے حجاج خوفزدہ ہو گئے۔اور بھگدڑ مچنے سے 900 حجاج شہادت پاگئے۔
اسلاف کے پچاس اقوال اور ثبوتیں که شیعه پاکستان کے اور آپ کے دوست اور خیرخواہ نہیں بن سکتے
میرے محترم قارئین کرام!
رافضی شیعہ ہمیشہ سے مسلمانوں کی تباہی وبربادی کا ہتھیار اور ان کی ملی وحدت میں زہر آلود خنجر کی حیثیت رکھتے ہیں اور آج تک ان کا کردار ایک جیسا ہے۔ عیسائی ہمیشہ سے اسلامی حکومتوں کو ختم کرنے کے لئے انہیں استعمال کرتے آرہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔ بطور نمونہ کے چند اقوال اور واقعات ملاحظہ فرمائیں:
- 1):شیعہ چوتھی صدی سے لے کر نویں صدی تک اپنے کفریہ عقائد میں کچھ دبے دبے سے رہے تھے اور اُس دور میں انہوں نے بڑی بڑی اسلامی سلطنتوں کو پامال کیا تھا اور وہ اسی لئے مسلمانوں کے دشمن سمجھے جاتے تھے۔جب بھی انہوں نے موقع پایا مسلمانوں کی سیاسی شوکت کو تاراج کیا۔ چنانچہ حضرت مولانا علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ ان ادوار کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
اسلامی حکومت کی بیشتر بربادی ان رافضیوں کے ہاتھوں سے ہوئی ہے، خدا تعالیٰ جل شانہ انہیں رسوا کریں۔(عبقات:جلد 2 صفحہ231)
- 2):- دراصل ایران کے متعلق پاکستان کی سوچ ہمیشہ مدافعانہ اور معذرت خواہانہ رہی ہے۔ شاید اس ڈر سے کہ مشرقی سرحدوں کی طرح کہیں مغرب میں بھی ہمارا کوئی دشمن پیدا نہ ہو جائے۔
ہماری اس کمزوری نے ایران کے حکمرانوں اور ایرانی لوگوں کا ہمارے ساتھ رو یہ نہ صرف طنزیہ بلکہ توہین آمیز بنا دیا ہے ۔ یہ لوگ اُوپر سے ہمارے مسائل کے حق میں ہمارے ساتھ ہاں میں ہاں ملاتے ہیں لیکن اندر سے خوش ہوتے ہیں ممکن ہے ان کے اس کردار میں ان کے مذہبی اصول تقیہ کا بھی دخل ہو، لیکن یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ایرانی شیعہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے، اور آپ کا کبھی مخلص دوست نہیں ہو سکتا۔
ترکی کو آنکھیں دکھانے کے لئے یونان سے دوستی کرتے ہیں، اور پاکستان پر دباؤ بڑھانے کیلئے ہمارے ازلی دشمن بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہیں۔آپ اگر دب گئے تو آپ کے سر پر سوار ہو جاتے ہیں ، آپ سے مطلب پڑتا ہے تو آپ سے معافی مانگنے اور پاؤں پکڑنے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ اور پھر کسی وقت اچانک ایسی آنکھیں پھیر لیتے ہیں کہ آپ کا سمجھنا محال ہو جاتا ہے کہ کس بات پر ناراض ہو گئے ہیں۔
(ایران افکار و عزائم صفحہ62)
- 3): دراصل ہمارا کوئی سیاست دان ، اخبار نویس یا کوئی دوسرا شخص ایران کے خلاف کوئی بات سننے کو آمادہ نہیں حالانکہ اس کے ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ کھلے اور خفیہ روابط ہیں اور اسلام دشمن اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ خفیہ گٹھ جوڑ ہے اور ہمارے ساتھ اس کے تعلقات محض منافقت پر مبنی ہیں۔ یہ خطرناک صورت حال ہمارے لئے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے اگر کوئی سمجھے۔
(ایران اور عالمِ اسلام صفحہ113)
- 4):حکومت پاکستان کیلئے لازم ہے کہ ایران کی نسبت سے وہ اپنا معذرت خواہانہ رویہ ترک کر کے ایسی واضح پالیسیاں وضع کرے جو ایک آزاد ملک کے شایانِ شان ہو۔ لہٰذا ہماری درخواست ہے،ہر اُس سنی آفیسر اور حکمران سے جو اسلام اور ملک کے حقیقی خیر خواہ اور محب ہو کہ ہر ادارے میں گھسے ہوئے شیعوں کی مسلح تنظیموں اور ان کی وطن دشمن اور ایران نواز کاروائیوں پر کڑی نظر رکھی جائیں ، ایسا نہ ہو کہ یہ آستین کے سانپ ایک دن آپ کو بھی ڈس کر ختم نہ کر دیں ۔
(ایران افکار و عزائم: صفحہ 86)
- 5):حضرت مولانا مسعود اظہر صاحب فرماتے ہیں کہ ملاقات کے وقت تمہارے قومی جلسوں و عام مجامع معلیٰ میں وہ اس قسم کی تقریریں کر جاتے ہیں جن سے سادہ لوح مسلمان یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے خیر خواہ ہے مگر وہ یاد رکھیں کہ یہ سب زبانی جمع خرچ ہوتا ہے،ولايحبونكم۔
(تفسير فتح الجواد:صفحہ 156)
- 6 ):علامہ ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہے کہ شیعہ ہمیشہ یہود و نصاریٰ تاتاری اور مشرکین کے ساتھ رہے ہیں، تاتاری کفار کے اسلامی ملکوں میں راہ پانے میں سب سے زیادہ شیعہ کا دخل ہے، شام میں عیسائیوں کی انہوں نے پوری پوری مدد کی یہاں تک کے مسلمانوں کے بچوں کو ان کے ہاتھوں غلامی کی طرح فروخت کر دیا تھا، عیسائیوں کے بیت المقدس پر قبضہ میں بھی ان کا بڑا حصہ تھا، ان کے عقائد کفریہ کی بناء پر کافروں اورمنافقوں کے زمرہ میں ان کی شمولیت لازم ہے، اور جو شخص بھی ان حالات کا مشاہدہ اوران کے عقائد کا مطالعہ کرچکا ہے و ہ انہیں مسلمانوں سے بالکل الگ سمجھتا ہے۔ ان کی تمام تر کوشش یہی رہی ہیں کہ اسلام کو منہدم کر کے اس کی وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے،اور اسلام کے ساتھ ان کے معاملہ کی تاریخ بالکل سیاہ ہے۔
(منہاج السنة: جلد 4 صفحہ 110)
- 7:امام ابن جوزیؒ فرماتے ہیں کہ ابن عقیل نے کہا کہ یہ بات ظاہر ہے کہ جس نے رافضی مذہب بنایا ہے اس کی اصلی غرض یہ تھی کہ دینِ اسلام میں اور اصل نبوت محمدی ﷺ میں طعن کر کے مٹا دے۔
(تلبیس ابلیس صفحہ 172)
- 8):امام ابن جوزیؒ فرماتے ہیں کہ ابنِ عقیلؒ نے فرمایا کہ اس مکار فرقہ کا فتنہ بھی اسلام میں سخت مصیبت ہے ۔
(تلبیس ابلیس:صفحہ 173)
- 9):ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے سیدنا ابیؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہودی جب بھی مسلمان کو تنہائی میں پاتا ہے اس کے دل میں خیال آتا ہے کہ مسلمان کو قتل کردوں۔
(تفسیر مظہری اردو: جلد3 صفحہ 387)
- 10):حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؓ لکھتے ہیں کہ:حضرت ابو موسیٰ اشعریؒ نے ایک مرتبہ ایک ذمی( نصرانی ) کو اپنا منشی (پی اے) مقرر کر لیا تو امیر المؤمنین سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے ان کو سرزنش و ملامت کا خط لکھا اور قرآن کریم کی یہ آیت لکھی:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَةً مِّنۡ دُوۡنِكُمۡ لَا يَاۡلُوۡنَكُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَاعَنِتُّمۡۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ ۖۚ وَمَا تُخۡفِىۡ صُدُوۡرُهُمۡ اَكۡبَرُؕ قَدۡ بَيَّنَّا لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 118)
ترجمہ:اے ایمان والو ! اپنے سے باہر کے کسی شخص کو رازدار نہ بناؤ، یہ لوگ تمہاری بدخواہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ تم تکلیف اٹھاؤ، بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ (عداوت) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔ ہم نے پتے کی باتیں تمہیں کھول کھول کر بتادی ہیں، بشرطیکہ تم سمجھ سے کام لو۔
ایک اور واقعه
ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؒ نے سیدنا فاروقِ اعظمؓ کی خدمت میں حاضرہو کر اپنے صوبے کا میزانیہ (بجٹ) پیش کیا۔ سیدنا فاروقِ اعظمؓ کو بہت پسند آیا۔سیدنا فاروقِ اعظمؓ ان کا میزانیہ( بجٹ) لے کر مجلس شوریٰ میں آئے اور ان سے فرمایا تمہارا منشی کہاں ہے؟ تا کہ تمہارا میزانیہ اراکین شوریٰ کے سامنے پیش کرے تو انہوں نے عرض کیا وہ تو مسجد نبوی میں نہیں آئے گا۔ سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے پوچھا کیوں؟ کیاوہ ناپاکی کی حالت میں ہے ؟ تو حضرت ابو موسیٰ اشعریؒ نے عرض کیا جی نہیں وہ نصرانی ہے۔ اس پر سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے ان کو سرزنش کی اور
فرمایا: تم ان نصرانیوں کو اپنے سے قریب کرتے ہو؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مسلمانوں سے دور رکھا ہے۔ تم ان کو عزت دیتے ہو؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل ورسوا کیا ہے۔ تم ان کو امین(معتمد علیہ) بناتے ہو ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو خیانت کار بتایا ہے۔
ایک اور روایت میں سیدنا فاروقِ اعظمؓ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: اہلِ کتاب(یہودیوں اور نصرانیوں ) کو حکومت کا اہل کار یا افسر مت بناؤ، اس لئے کہ یہ لوگ سود کو حلال سمجھتے ہیں، تم سرکاری عہدوں پر اور رعایا پر ایسے لوگوں کو مقرر کرو جواللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوں
نو سو سال پہلے کا حال
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں لیکن اب اس زمانہ میں تو حالات بالکل بدل چکے ہیں۔
یہودیوں اور نصرانیوں کو عام طور پر اسلامی حکومتوں میں ذمہ دار افسر اور کلرک مقرر کر دیا گیا ہے، اور اس طرح انہوں نے نادان و نا سمجھ عوام پر پورا اقتدار حاصل کر لیا ہے۔
نو سو سال بعد كا حال
مصنفؒ فرماتے ہیں یہ نوبت تو اب سے نو سو سال پہلے امام قرطبیؒ کے زمانہ میں پہنچ چکی تھی تو ہم اپنے اس زمانے کے متعلق کیا کہیں جبکہ اسلامی ملکوں میں شریف ( دیندار ) اور ذلیل ( بے دین ) لوگ ایک دوسرے میں خلط ملط ہو چکے ہیں۔ اپنے ملکوں میں اپنے اوپر ہم نے ان کو کس قدراقتدار دے رکھا، ان کے ساتھ میل جول اور الفت و محبت کے روابط و تعلقات کتنے بڑھا رکھے ہیں؟ حالانکہ ان دشمنانِ دین وملت کے ساتھ اختلاط اور ارتباط ، دوستی و موالات کے حرام ہونے کے بارے میں قرآن کریم کی بہت سے واضح اور قطعی آیات اور صریح احادیث صحیحہ موجود ہیں (فتاویٰ بینات:جلد 2 صفحہ107)
- 11):علامہ شعبیؒ فرماتے ہیں کہ میں تمہیں اُن تمام اہلِ ہوا سے دور رہنے کا حکم دیتا ہوں اور ان میں سے سب سے زیادہ برے روافض ہیں۔ وہ اسلام میں رغبت اور خوف خدا سے داخل نہیں ہوئے بلکہ مسلمانوں سے بغض او ر غصے کی وجہ سے داخل ہوئے ہیں۔( منہاج السنة النبويه فى نقض كلام الشيعة والقدرية:صفحہ 83)
- 12):حضرت مولانا علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ روافض،خوارج اور دوسرے اہلِ ہوا کے ساتھ محبت اور دوستی قائم کرنا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَةً مِّنۡ دُوۡنِكُمۡ لَا يَاۡلُوۡنَكُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَاعَنِتُّمۡۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ ۖۚ وَمَا تُخۡفِىۡ صُدُوۡرُهُمۡ اَكۡبَرُؕ قَدۡ بَيَّنَّا لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 118)
ترجمہ:اے ایمان والو ! اپنے سے باہر کے کسی شخص کو رازدار نہ بناؤ، یہ لوگ تمہاری بدخواہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ تم تکلیف اٹھاؤ، بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ (عداوت) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔ ہم نے پتے کی باتیں تمہیں کھول کھول کر بتادی ہیں، بشرطیکہ تم سمجھ سے کام لو۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَا تَرۡكَنُوۡۤا اِلَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ
(سورۃ هود آیت نمبر 113)
ترجمہ:اور (مسلمانو) ان ظالم لوگوں کی طرف ذرا بھی نہ جھکنا، کبھی دوزخ کی آگ تمہیں بھی آپکڑے۔
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَوَلَّوۡا قَوۡمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ
(سورۃ الممتحنةآیت نمبر13)
جس قوم پر اللہ کا غضب ہے ان کے ساتھ دوستی نہ لگاؤ۔
(السيف المسلول: صفحہ513)
- 13): امام شوکانی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:
رافضی شیعہ صرف اپنے مذہب میں امانت والا ہے،
وگرنہ ان میں امانت داری کا نام و نشان نہیں بلکہ جو رافضی نہ ہو یہ اس کے مال و خون کو جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ داؤ لگانے کیلئے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں۔فرصت ملنے پر غیر شیعی کو نقصان پہنچانے میں ذرہ برابر کسر نہیں چھوڑتے۔(اثناء عشریه عقائد و نظریات کا جائزہ اور گھناؤنی سازشیں صفحہ 215)
- 14):حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ بعض بدفہم اور کم سمجھ مسلمان
غیرمسلموں کو اپنا دوست سمجھ کر ان کے بغلوں میں جا کر گھستے ہیں۔( ان سے اپنے راز بیان کرتے ہیں )ان ناعاقبت اندیشوں کو معلوم بھی ہے کہ بزرگوں کا مقولہ ہے کہ نادان دوست سے دانا دوست اچھا ہوتا ہے، اور جونادان بھی ہو اور دشمن بھی تب کیا کہنا۔
جو شخص حکومت یا سلطنت کے باغیوں سے میل جول رکھتا ہے یا ان کوامداد پہنچاتاہے ، وہ شخص بھی باغیوں ہی میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہم جس کے وفادار ہیں وفاداری اُسی وقت تک ہے کہ ہم اس کے دشمنوں سے نہ ملیں ۔
دوست سے سنبھل کر دوستی کرو، زیادہ میل جول نہ کرو شاید کسی دن دشمن ہو جائے تو گھر کے بھیدی ( راز دار) کی دشمنی بہت نقصان دہ ہوتی ہے۔ اور اگر کسی کو اپنے دوست کے متعلق دشمنی کا احتمال نہ ہو تو وہ اپنے ہی متعلق یہ احتمال رکھے کہ شاید کہ کسی دن میں ہی بدل جاؤں۔اس لئے اتفاق میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔
(اسلام اور سیاست صفحہ 149)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
کافر جتنے ہیں سب اسلام کے دشمن ہیں، کوئی گورا ہو یا کالا، دونوں سانپ ہی ہیں بلکہ گورے سانپ سے کالا سانپ زیادہ زہریلا ہوتا ہے۔اگر گورے سانپ کو گھر سے نکال بھی دیا، کالا سانپ ڈسنے کو موجود ہے، جس کا ڈسا ہوا زندہ رہنا مشکل ہے۔ جب تک ہم کلمہ پڑھتے ہیں،تمام غیر مسلم ہمارے دشمن ہیں، اس میں کالے گوروں کی کچھ قید نہیں، مسلمانوں میں جو بڑے بڑے خوشامدی ہیں وہ (غیر مسلم) ان کو بھی اپنا دوست نہیں سمجھتے۔
گو کفار اپنی کسی مصلحت سے مسلمانوں کی کچھ رعایت کریں مگر یہ یقینی بات ہے کہ وہ اسلام کو اپنے لئے مضر سمجھتے ہیں اور اس واسطے اس کے مٹانے کی فکر میں ہیں۔
(اسلام اور سیاست صفحہ 150)
- 15): امام اہل سنت حضرت مولانا علامہ محمد عبدالشکور فاروقی لکھنویؒ فرماتے ہیں کہ مذہب شیعہ میں دغاو فریب ایسی عمدہ چیز ہے کہ آئمہ اکثر اپنے مخالفوں کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرتے اور بجائے دعا کے نماز میں بددعا دیتے تھے، اور اپنے متبعین کو بھی یہی تعلیم دیتے تھے کہ تم ایسا کیا کرو، لوگ سمجھتے تھے کہ امام نمازِ جنازہ پڑھ رہے ہیں اور وہاں معاملہ بر عکس ہے۔ شیعوں کی کتاب فروع کافی کے صفحہ نمبر 99 پر ہے:
سیدنا جعفر صادق سے روایت ہے کہ ایک شخص منافقوں میں سے مر گیا، امام حسین اس جنازہ کے ہمراہ چلے، راستہ میں غلام ان کا اُن کو ملا اس سے امام حسین نے فرمایا کہ تو کہاں جاتا ہے ؟ اس نے کہا میں اس منافق کے جنازہ سے بھاگتا ہوں، نہیں چاہتا کہ اس پر نماز پڑھو ،امام حسین نے اس سے فرمایا: دیکھو میرے دا ہنی جانب کھڑا ہو اور جوکچھ مجھے کہتے ہوئے سننا وہی تو بھی کہنا۔ پھر جب اس منافق کے ولی نے تکبیر کہی تو امام حسین نے بھی تکبیر کہہ کر یہ دعا مانگی کہ یا اللہ اپنے فلانے بندے پر لعنت کر ہزار لعنتیں جو ساتھ ساتھ ہوں مختلف نہ ہو یااللہ! اپنے اس بندے کو دوسرے بندوں میں اور شہروں میں رسوا کر اور اپنے آگ کی گرمی میں اس کو ڈال اور سخت عذاب اس پر کر، کیونکہ وہ تیرے دشمنوں سے دوستی رکھتا تھا اور تیرے دوستوں سے دشمنی رکھتا تھا اور تیرے نبی کے اہلِ بیت سے بغض رکھتا تھا ۔
میرے محترم قارئین کرام!
دیکھئیےیہ امام معصوم ہے جو اس طرح لوگوں کو فریب دے رہے ہیں، اگر اس منافق کی نمازِ جنازہ جائز نہ تھی تو امام کو علیحدہ رہنا چاہیئے تھا خواہ مخواہ نمازِ جنازہ میں شریک ہو کر بد دعا کس قدر مذموم خصلت ہے۔شیعہ کی کتابوں میں اس قسم کے افعال اورائمہ سے بھی منقول ہیں۔
( شیعہ مذهب کے چالیس مسائل صفحہ 27)
- 16): رئیس المناظرین حضرت مولانا ابوالفضل مولوی محمد کرم الدین دبیرؒ ساکن بھیس ضلع جہلم صاحب فرماتے ہیں کہ :
جوسنی بھائی روافض سے دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اور ان کو اپنا مسلمان بھائی تصور کرتے ہیں۔ وہ غور کریں کہ جولوگ تمہارے بزرگانِ دین صحابہ کرامؓ اور ازواجِ مطہراتؓ سے یہ سلوک رکھتے ہوں کہ ہر ایک نماز کے بعد ان کے نام لے لے کر لعنت و تبراء کریں،ان کا یومیہ ورد ہو، اور ان عظیم ہستیوں پر ہی لعنت نہیں کرتے بلکہ ان لوگوں کو بھی اس لعنت میں شامل کرتے ہیں جو ان حضرات سے محبت رکھتے ہیں۔پھر افسوس ہے کہ غیور سنی ایسے بدطینت اور خبیث اشخاص کو اپنا دوست بنائے جو صحابہ کرامؓ سے ایسی دشمنی رکھتے ہوں، اور سنیوں سے اُن کو بیر ہے۔
(آفتابِ ہدایت ردِ رفض و بدعت:صفحہ 213)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
شیعہ کے کتابوں میں لکھا ہے کہ اوّل تو سنی کا جنازہ نہ پڑھا جائے،اگر ضرورت کی وجہ سے پڑھے تو دعا کی بجائے سنی میت پر اس طرح بد دعا کرے۔
" اے خدا!اس بندے کی میت کو اپنے بندوں اور اپنے شہروں میں ذلیل و رسوا کر، اے خدا!اس کو جہنم کی آگ سے جلا دے، اے خدا!اس کو سخت ترین عذاب دے۔
سنيوں! جانتے ہو!
جانتے ہو، یہ لوگ تمہارے جنازوں میں شامل ہو کر میت کیلئے کیا بد دعا کرتےہیں۔کیا تم اس بات کو گوارہ کرسکتے ہو کہ ایک شخص تمہاری والدہ یا والد ، یا لیڈر یا بزرگ کی میت کے جنازہ پر کھڑا ہو کر اس کے لئے بد دعائیں کرے؟ بقول شاعر!
نہ آنے دیجیئے انہیں لاش پر خدا کے لئے
نماز پڑھنے جو آئیں گے بد دعا کے لئے
(آفتابِ ہدایت و ردِ رفض و بدعت:صفحہ214)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
شیعہ کے نزدیک سنی کتے اور ولدالزنا سے بھی برے ہیں۔(شیعہ کی کتاب فروع کافی کے جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 8 ہے کہ)
"ایسے کنویں کے پانی سے مت نہاؤ جس میں تمام کا مستعمل پانی پڑتا ہے، کیونکہ اس میں ولد الزنا کے بدن کا پانی بھی گرا ہوا ہوتا ہے،اور ولدالزنا سات پشت تک پاک نہیں ہو سکتا۔اور اس میں ناصبی (سنی) کے بدن سے گرا ہوا پانی بھی ہوتا ہے۔اور وہ ناصبی (سنی)
ولدالزنا اور کتے سے بھی بدتر ہے۔خدا نے تمام مخلوق سے بُرا کتے کو بنایا ہے اور ناصبی(سنی)اس سے بھی بُرا ہے۔
قارئین کرام!
دیکھو!شیعہ لوگ سنیوں کو کتے اور ولدالزنا سے بھی بُرا سمجھتے ہیں۔ پھر اگر سنی ان سے برتاؤ کریں تو اُن سے بڑھ کر کون بے غیرت ہو سکتا ہے۔
(آفتابِ ہدایت ردِ رفض و بدعت :صفحہ260)
- 17):شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا مفتی حمید اللہ جان صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:شیعہ عموماً تحریفِ قرآن ، قذف حضرت عائشہ صدیقہؓ ، انکارِ صحبت صدیق اکبرؓ جیسے کفریہ عقائد رکھتے ہیں۔لہٰذا ان کے ساتھ گہرے تعلقات اور دوستی نہ رکھی جائے۔
وقوله تعالیٰ:يايها الذين اٰمنو لاتتخذو اليھودوالنصارىٰ اولیآءاى لا تعتمدواعليهم ولا تعاشروهم معاشرة الاحباب(بعضهم اولياء بعض)ايماء الى علة النهى يعنى انهم متفقون على خلافكم واضراركم وتوالى بعضهم بعضا لاتحادهم فی الدين
(تفسير مظہری:جلد 3 صفحہ 156)
ان الرافضى ان كان ممن يعتقد الالوهية فی على اوان جبرائيل غلط فى الوحى اوكان ينكر صحبة الصديق او يقذف السيدة الصديقة فهو كافر لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة بخلاف ما اذا كان يفضل عليا او يسب الصحابة فانه مبتدع لا كافر كما اوضحته في كتابى تنبيه الولاة والحكام على احكام الشاتم خير الانام او احد اصحابه الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام۔(شامی جلد2 صفحہ314)
و منها ان يكون مسلما اوكتابيا فلا تؤكل ذبيحته اهل الشرك والمرتد: (هندية:جلد 5 صفحہ 285)(ارشاد المفتين:جلد1 صفحہ 346)
- 18):- حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہیدؓ فرماتے ہیں کہ:کفار، اللہ تعالیٰ کے دشمن ہیں۔مؤمن، اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں،اللہ تعالیٰ کا دوست اللہ تعالی کے دشمنوں سے دوستی کیونکر کر سکتا ہے؟ کفار سے دوستی کی ممانعت کی آیات کئی ہیں۔ان میں ایک یہ ہے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُواالْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ اے ایمان والو!مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ۔
(فتاویٰ ختمِ نبوت: جلد1صفحہ 680)
- 19): امام ربانی، مجددالف ثانی سرہندیؒ فرماتے ہیں کہ:دو محبتیں جو ایک دوسرے سے ضد ہوں،ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں، کیونکہ اجتماعِ ضدین محال ہے، اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی دل میں محبت ہوگی تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺکے دشمنوں کی محبت دل میں نہیں آسکتی۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے دشمنوں کی جتنی دوستی ومحبت دل میں آئے گی تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت اتنی ہی کم ہو جائے گی۔
(مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر 165:جلد1)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
کافروں کے ساتھ جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے دشمن ہیں، دشمنی رکھنی چاہیئے،اور ان کو ذلیل و خوار کرنے میں کوشش کرنی چاہیئے ، اور کسی طرح ان کی عزت نہیں کرنی چاہیئے ، اوران بدبختوں کو اپنی مجلس میں نہیں آنے دینا چاہیئے۔ (مکتوب:جلد1 صفحہ 165)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
اسلام کی عزت اس میں ہے کہ کفروکفار کو خوار و ذلیل کیا جائے۔جو شخص کفر والوں کی عزت کرتا ہے، حقیقت میں مسلمانوں کو ذلیل کرتا ہے ۔
(مكتوب جلد 1 صفحہ163)
- 20):حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ فرماتے ہیں کہ:جو شخص حضور اکرمﷺ کے دشمنوں سے دوستی رکھے،اس کو سوچنا چاہیئے کہ حضورﷺ کو کیا منہ دکھائے گا۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد2صفحہ 119)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے دشمنی رکھو، اللہ تعالیٰ کے دوستوں سے محبت رکھو۔ اگر اللہ تعالیٰ کے دوستوں سے دوستی نہیں تو تمہارے پاس محبت نہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے دشمنی نہیں تو تمہارے پاس غیرت نہیں ہے، اور یہ دونوں علامتیں ہیں ضعف ایمان کی اور اللہ تعالیٰ سے کمزور تعلق کی غرض یہ کہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ عادوا اعدانہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے دشمنی رکھو۔
اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہو؟ اور تمہیں معلوم ہے کہ دشمن سے دوستی رکھنے والا دشمن ہوتا ہے، اور دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ گویا تم اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے دوستی کر کے اللہ تعالیٰ سے اپنی دشمنی کا اعلان کرتے ہو۔ تم اپنے دنیاوی تعلقات میں ایسے لوگوں سے تو قطع تعلق کر لیتے ہو جو تمہارے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہوں تم ان کے یہاں نہیں جاتے، کیونکہ وہ فلاں فلاں سے تعلق رکھتا ہے جس کے ساتھ تمہارے تعلقات کشیدہ ہیں، تمہاری انا اس کو برداشت نہیں کرتی کہ تم اپنے دشمنوں کے ساتھ تعلق رکھنے والوں سے تعلق رکھو تو ذرا سوچو کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت اس چیز کو کیسے برداشت کرے گی کہ تم اس کے دشمنوں سے تعلق رکھو۔
(اصلاحی مواعظ جلد1صفحہ216)
- 21):حضرت مولانا عبد القیوم حقانی صاحب فرماتے ہیں کہ 31 اگست 1987ءکو حسبِ معمول عصر کے وقت حضرت مولانا عبد الحق حقانی صاحبؒ کی مجلس میں حاضر تھا کہ اچانک لاہور سے مولانا فضل الرحیم صاحب اپنے رفقاء کی ایک جماعت کے ساتھ حاضر خدمت ہوئے ۔ مصافحہ اور رفقاء کے تعارف کے بعد مولانا فضل الرحیم صاحب نے جب مکہ مکرمہ کے حالیہ افسوس ناک سانحہ پر شیعوں کے ناپاک عزائم کا تذکرہ کیا تو حضرت مولانا عبد الحق حقانی صاحبؒ نے فرمایا:جی ہاں!تفصیلات احباب نے سنائی ہے۔
اب شیعہ کی خباثتیں عالمی سطح پر ظاہر ہورہی ہیں،
اب تو اہلِ اسلام کو حضورا کرم ﷺ کے ارشاد گرامی کہ:صحابہ کی شان میں تنقیص کرنے والوں سے اجتناب کیا جائے پر عمل کرنا چاہئیے مگر اس پر مجھے تعجب ہے کہ شیعہ لوگ تو بیت اللہ شریف کو منہدم کرنے اور حجرۂ اسود کو چرانے اور شعائر اللہ کی توہین کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مگر ہمارے بعض نادان دوست انہیں گلے لگا رہے ہیں۔
( دفاعِ صحابہؓ اور علماء دیوبندصفحہ191)
- 22): حضرت مولانا مفتی رضاءالحق صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:کفار سے قلبی دوستی کرنا جائز نہیں، وہ نص قطعی سے ممنوع محظور ہے۔
(فتاویٰ دار العلوم زكرياجلد 8 صفحہ159)
- 23): فقیہ العصر مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحبؒ فرماتے ہیں:
بعض سادہ لوح مسلمان کہتے ہیں کہ ہمارا ہمسایہ شیعہ ہے، اس کے ساتھ ہمارے بہت پرانے تعلقات ہیں، فلاں شیعہ ہمارا ہم جماعت ہے، فلاں شیعہ کاروبار میں شریک ہے اس لئے اس کے ساتھ دوستی ہے، اس سے تعلقات ختم کرنا بہت مشکل ہے، مروت کے سخت خلاف ہے۔ایسے لوگ یہ بتائیں کہ اگر کوئی آپ کی ماں،بیٹی اور بیوی کو فاحشہ،زانیہ و بدکار کہے، تو آپ کس مروت کی وجہ سے اس کے ساتھ تعلقات رکھ سکتے ہیں؟ شیعہ مردود تمام مسلمانوں کی ماں سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی شان میں ایسی بکواس کرتے ہیں، جبکہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی پاک دامنی و پاک بازی کا اعلان اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے، مگر یہ مردود (شیعہ) اللہ تعالیٰ اور قرآن کی تکذیب کرتے ہیں۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ كون ہیں؟
1): پوری امت کی ماں ازواجِ مطہراتؓ میں سب سے افضل
2): حضوراکرم ﷺ کی بہت چہیتی بیوی سب بیویوں سے زیادہ مقرب۔
3):پوری امت میں سب سے افضل اور حضوراکرمﷺ کے سب سے زیادہ مقرب خلیفہ اوّل سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی بیٹی۔
اب آپ سوچیں!
کہ آپ اپنی ماں، دونوں جہانوں کے سردار کی بیوی ، اور پوری امت میں افضل ترین شخصیت کی بیٹی کے حق میں ایسی بکواس کرنے والے،اللہ تعالیٰ اور قرآن کو جھٹلانے والے، پوری امت کی ماں کو بدکار کہنے والے حضور اکرم ﷺ سیدنا حضرت صدیقِ اکبرؓ اور پوری امت کو معاذ اللہ دیوث کہنے والے بدبختوں سے تعلقات رکھنا کیسے گوارا کر لیتے ہیں؟
آپ بتائیں!
کیا ایسا شخص انتہائی بے دین ہونے کے علاوہ انتہائی بے غیرت اور دیوث نہیں؟ایمان اور غیرت دونوں کا جنازہ نکل گیا ہے۔ اگر آپ ویسے کسی شیعہ سے تعلقات منقطع کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے تو اس کی ماں، بیٹی اور بیوی کو بدکار کہے پھر دیکھیں وہ آپ سے تعلق رکھے گا؟ حالانکہ ان کے مذہب میں متعہ جیسی بدکاری تو بہت بڑا ثواب ہے، اس کے باوجود بدکاری کی تہمت تو در کنار متعہ بازی کا طعنہ بھی ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔
(احسن الفتاوٰى: جلد 10صفحہ40)
- 24): حضرت مولانا مفتی محمد عبد السلام چاٹگامی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ کفارومشرکین کے اعتقاد میں نجاست ہے اس لئے ان سے نفرت رکھنا ضروری ہے اور ان سے قلبی تعلق و دوستی اور محبت رکھنا درست نہیں۔(جواهر الفتاوٰى:جلد 5 صفحہ 184)
- 25):حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:
کوئی مسلمان کسی کافر کے ساتھ موالات یعنی قلبی محبت اور تعلق نہ رکھے گا۔ ارشاد باری تعالٰی ہے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ :اے ایمان والو تم یہود و نصارٰی کو دوست مت بناؤ۔
(فتاویٰ عثمانیه:جلد 10 صفحہ 327)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
غیر مسلموں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا منع ہے۔
(فتاویٰ عبادالرحمٰن جلد 7صفحہ 208)
- 26):حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ کسی کافر مرد یا عورت کو بھائی یا دوست بنانا جائز نہیں۔ قرآن کریم میں غیر مسلموں سے دوستی کرنے کو واضح طور پر منع فرمایا گیا ہے۔
قال الله تعالیٰ:
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةًؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ(سورۃ آل عمران 28)
ترجمہ: مؤمن،کافروں کو دوست نہ بنائیں مسلمانوں کے علاؤہ اور جو شخص ایسا کرے گا پس نہیں ہیں وہ اللہ تعالٰی کے سامنے کسی چیز میں مگر یہ کہ تم ان کافروں سے بچاؤ اختیار کرو۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو ڈراتا ہے اپنے سےاور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اور تمام مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔غیر مسلم اورمسلم آپس میں ایک دوسرے کے دوست نہیں ہو سکتے ۔
(فتاویٰ دار العلوم کراچی جلد6صفحہ90)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
کفار کے ساتھ دوستی جائز نہیں، چنانچہ قرآن کریم نے تنبیہ کر دی ہے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(سورۃ المائدہ 51)
ترجمه: اے ایمان والو امت بناؤ یہود و نصاریٰ کو دوست،وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے، اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے ان سے تو وہ انہی میں سے ہے اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں کرتا ظالم لوگوں کو۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ اَوْلِیَآءَۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(سورۃالمائدہ57)
ترجمه:اے ایمان والو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنالیا ہے وہ جو تم سے پہلے کتاب دئیے گئے اور کافر ان میں کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر ایمان رکھتے ہو۔
اس آیت میں ہر قسم کے کفار سے دوستی کو صراحت کے ساتھ منع کر دیا گیا ہے۔
(فتاویٰ دار العلوم کراچی:جلد 6 صفحہ92)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
قرآن کریم کی متعدد آیات میں کافروں کے ساتھ دوستی کو منع فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دشمن ہیں،اور اللہ تعالیٰ کا دشمن ہمارا دوست نہیں ہو سکتا۔ ایک آیت قرآنیہ یہ ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ اَوْلِیَآءَۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(سورۃالمائدہ57)
ترجمہ:اے ایمان والو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنالیا ہے وہ جو تم سے پہلے کتاب دئیے گئے اور کافر ان میں کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر ایمان رکھتے ہو۔
لہذا کافروں کے ساتھ دوستی جائز نہیں۔ اسی طرح ایسے شخص سے بھی دوستی ممنوع ہے جس کی دوستی اور محبت سے اپنے دین کے نقصان کا خطرہ ہو۔
(فتاویٰ دار العلوم کراچی جلد 6 صفحہ199)
- 27):حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں ضروری ہے کہ ان پر دین کی محبت تمام محبتوں،یہاں تک کہ خونی رشتوں پر بھی مقدم ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:
يٰۤاَ يُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡۤا اٰبَآءَكُمۡ وَاِخۡوَانَـكُمۡ اَوۡلِيَآءَ اِنِ اسۡتَحَبُّوا الۡـكُفۡرَ عَلَى الۡاِيۡمَانِ ؕ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ مِّنۡكُمۡ فَاُولٰۤئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ(سورۃ التوبة 23)
ترجمہ:اے ایمان والو ! اگر تمہارے باپ بھائی کفر کو ایمان کے مقابلے میں ترجیح دیں تو ان کو اپنا سرپرست نہ بناؤ ۔ اور جو لوگ ان کو سرپرست بنائیں گے وہ ظالم ہوں گے۔
اسی لئے کسی مسلمان کے لئے قطعاً اس بات کی گنجائش نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی بھی دوسرے تعلق پر دین سے تعلق کو قربان کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے متبعین کیلئے اپنے وطن میں رہ کر دینِ حق پر عمل کرنا مشکل ہو گیا تو انہیں وہاں سے ہجرت کر جانے کا حکم دیا گیا۔ حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام کی ہجرت کے واقعات قرآن مجید میں تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ نیز تحفظ دین کیلئے مسلمانوں کو بھی مکہ سے ہجرت کرنے کا حکم فرمایا گیا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلۡ اِنۡ كَانَ اٰبَآؤُكُمۡ وَاَبۡنَآؤُكُمۡ وَاِخۡوَانُكُمۡ وَاَزۡوَاجُكُمۡ وَعَشِيۡرَتُكُمۡ وَ اَمۡوَالُ ۨاقۡتَرَفۡتُمُوۡهَا وَتِجَارَةٌ تَخۡشَوۡنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرۡضَوۡنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيۡكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَ جِهَادٍ فِىۡ سَبِيۡلِهٖ فَتَرَ بَّصُوۡا حَتّٰى يَاۡتِىَ اللّٰهُ بِاَمۡرِهٖ ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِيۡنَ (سورۃ التوبة 24)
ترجمہ:(اے پیغمبر ! مسلمانوں سے) کہہ دو کہ:اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، اور تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں۔ تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔اور اللہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔
( غیر مسلم معاشرہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے روابط صفحہ20)
28): حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ:مؤمن اور غیر مؤمن آپس میں دوست اور ولی نہیں ہو سکتے،
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةًؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ(سورۃ آل عمران 28)
ترجمہ: مؤمن،کافروں کو دوست نہ بنائیں مسلمانوں کے علاؤہ اور جو شخص ایسا کرے گا پس نہیں ہیں وہ اللہ تعالٰی کے سامنے کسی چیز میں مگر یہ کہ تم ان کافروں سے بچاؤ اختیار کرو۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو ڈراتا ہے اپنے سےاور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
نیز ایک اورجگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(سورۃ المائدہ 51)
ترجمه: اے ایمان والو امت بناؤ یہود و نصاریٰ کو دوست،وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے، اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے ان سے تو وہ انہی میں سے ہے اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں کرتا ظالم لوگوں کو۔
(فقہی مقالات:جلد 6 صفحہ 164)
- 29_ حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ فرماتے ہیں کہ فرقہ آغا خانیہ باجماع المسلمین کافر ہے اور زندیق کے احکام ان پر جاری ہوں گے، اس لئے کہ ہر وقت وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کو نقصان پہنچے ، وہ کبھی مسلمانوں کے خیرخواہ نہ اس سے پہلے رہے ہیں اور نہ اب مسلمانوں کے خیرخواہ ہیں بلکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اور دھو کہ دینا ان کے نزدیک عین عبادت اور کارِ ثواب ہے۔ چنانچہ ابن کثیر نے البدايه والنهاية میں لکھا ہے کہ: تاتاریوں نے جب دمشق پر حملہ کیا تھا تو اُن اسماعیلیوں نے اُن کا ساتھ دے کر مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنے کی ناکام کوشش کی تھی،چنانچہ یہ فرقہ بھی مسلمانوں کا دوست نہیں ہو سکتا ہے اور خدا تعالیٰ اور رسولﷺکا دشمن ہے ۔
تو اب ظاہر ہے کہ ایک مسلمان کیلئے کس طرح ان سے دوستی یا ان کے فاؤنڈیشن یا ان کی کسی انجمن میں شرکت جائز ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے بھی قطعی یہ حرام کیا ہے۔چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡؕ اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ ؕ وَيُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا ؕ رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ ؕ اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ اللّٰهِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ (سورۃ المجادلة22)
ترجمہ:جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، ان کو تم ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ ان سے دوستی رکھتے ہوں، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے، چاہے وہ ان کے باپ ہوں، یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے د لوں میں اللہ نے ایمان نقش کردیا ہے، اور اپنی روح سے ان کی مدد کی ہے، اور انہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ہیں۔ یہ اللہ کا گروہ ہے۔ یاد رکھو کہ اللہ کا گروہ ہی فلاح پانے والا ہے۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّىۡ وَعَدُوَّكُمۡ اَوۡلِيَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ وَقَدۡ كَفَرُوۡا بِمَا جَآءَكُمۡ مِّنَ الۡحَـقِّ ۚ يُخۡرِجُوۡنَ الرَّسُوۡلَ وَاِيَّاكُمۡ اَنۡ تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ رَبِّكُمۡ ؕ اِنۡ كُنۡـتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِهَادًا فِىۡ سَبِيۡلِىۡ وَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِىۡ ۖ تُسِرُّوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ ۖ وَاَنَا اَعۡلَمُ بِمَاۤ اَخۡفَيۡتُمۡ وَمَاۤ اَعۡلَنۡتُمۡؕ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡهُ مِنۡكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيۡلِ (سورۃ الممتحنة1)
ترجمہ:اے ایمان والو ! اگر تم میرے راستے میں جہاد کرنے کی خاطر اور میری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے (گھروں سے) نکلے ہو تو میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ایسا دوست مت بناؤ کہ ان کو محبت کے پیغام بھیجنے لگو، حالانکہ تمہارے پاس جو حق آیا ہے، انہوں نے اس کو اتنا جھٹلایا ہے کہ وہ رسول کو بھی اور تمہیں بھی صرف اس وجہ سے (مکے سے) باہر نکالتے رہے ہیں کہ تم اپنے پروردگار اللہ پر ایمان لائے ہو۔ تم ان سے خفیہ طور پر دوستی کی بات کرتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم خفیہ طور پر کرتے ہو، اور جو کچھ علانیہ کرتے ہو، میں اس سب کو پوری طرح جانتا ہے۔ اور تم میں سے کوئی بھی ایسا کرے، وہ راہ راست سے بھٹک گیا۔
وقال الله تعالیٰ:
اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ تَوَلَّوۡا قَوۡمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمؕۡ مَّا هُمۡ مِّنۡكُمۡ وَلَا مِنۡهُمۡۙ وَيَحۡلِفُوۡنَ عَلَى الۡكَذِبِ وَهُمۡ يَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ المجادلة14)
ترجمہ:کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا جنہوں نے ایسے لوگوں کو دوست بنایا ہوا ہے جن پر اللہ کا غضب ہے ؟ یہ نہ تو تمہارے ہیں اور نہ ان کے، اور یہ جانتے بوجھتے جھوٹی باتوں پر قسمیں کھا جاتے ہیں۔
ان آیتوں سے صراحتاً معلوم ہواکہ مشرکین اور دین و دشمن طبقہ سے دوستی رکھنا جائز نہیں اور نہ ان سےمالی امداد ہدیہ سمجھ کر قبول کرنا جائز ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ اللہ تعالیٰ نے زکر فرمایا ہے کہ انہوں نے مشرکین کے ہدیہ کو قبول نہیں فرمایا:
فَلَمَّا جَآءَ سُلَيۡمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوۡنَنِ بِمَالٍ فَمَاۤ اٰتٰٮنِۦَ اللّٰهُ خَيۡرٌ مِّمَّاۤ اٰتٰٮكُمۡۚ بَلۡ اَنۡـتُمۡ بِهَدِيَّتِكُمۡ تَفۡرَحُوۡنَ (سورۃ النمل36)
ترجمہ:چنانچہ جب ایلچی سلیمان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا : کیا تم مال سے میری امداد کرنا چاہتے ہو ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے، البتہ تم ہی لوگ اپنے تحفے پر خوش ہوتے ہو۔
بعض مرتبہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:انی لا اقبل ھدیۃ مشرک اور انی نهيت عن هدية المشركة: اور ان کی امداد قبول کرنا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ درِ حقیقت نہ ہدیہ ہے اور نہ امداد بلکہ مسلمانوں کو گمراہ اور بے دین بنانے کی سازش ہے جو عیسائیوں کی طرز پر چلائی جارہی ہے۔
حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے ابوبکر رازیؒ کے احکام القرآن کے حوالے سے لکھا ہے کہ: وقولهم في ترك قبول توبة الزنديق يوجب ان لايستتاب الاسماعيلية وسائر الملحدين الذين قدعلم منهم اعتقاد الكفر كسائر الزنادقة وان يقتلوا مع اظهارهم التوبة
(احکام القرآن:جلد 1 صفحہ 54)
جب اسلام کی نظر میں ان کی توبہ اور اسلام بھی قبول نہیں تو ظاہر ہے کہ نہ ان سے مالی فوائد بصورت امداد و ہدیہ لینا جائز ہے اور نہ ان کی فاونڈیشن اور انجمن میں شرکت جائز ہے۔ دیگر کفار کی امداد پر بھی اس کو قیاس نہیں کیاجا سکتا، کیونکہ وہ امداد حکومتی سطح پر ملتی ہے اس سے عام مسلمانوں کی زندگی اور دین کے متاثر ہونے کا خطرہ نہیں ہے جبکہ مذکورہ امداد سے عام مسلمانوں کی انفرادی زندگی متاثر ہونے کا شدید خطرہ ہے اور مسلمانوں کے مرتد اور زندیق بننے کا قوی احتمال ہے۔ لہٰذا ان کے ساتھ شرکت اور ان کی امداد قبول کرنا حرام ہے۔
قال النبيﷺ:من كثر سواد قوم فهو منهم : علماء اور عام دینداروں پر اس کا تدارک فرض ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہوں گے۔
(تاریخِ شیعیت:جلد 2 صفحہ 695)
- 30):حضرت مولانا مفتی محمد جعفر علی رحمانی صاحب فرماتے ہیں کہ:غیر مسلموں کو اپنا دوست اور راز دار نہ بنائے،اور نہ ہی انہیں مسلمانوں پر کسی اعتبار سے فوقیت دے، نیز ان کی طرف قلبی میلان بھی نہ ہو۔
( محقق و مدلل جدید مسائل جلد1صفحہ 519)
- 31):حضرت مولانا مفتی اسماعیل کچھولوی صاحب فرماتے ہیں کہ:کفار کے ساتھ اتنا گہرا تعلق نہیں ہونا چاہیئے کہ آیت شریفہ:لَایَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ کی ممانعت میں داخل ہو جائے ۔
(فتاویٰ دينيه:جلد 5 صفحہ127)
خواجہ غلام حسن سواگ صاحبؒ کھل کر حق بات بیان کرتے تھے کبھی کسی دنیا دار سے مرعوب نہ ہوئے اور نہ ہی کسی کو خاطر میں لاتے،دینی غیرت و حمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،حضرت خواجہ صاحبؒ کے صاحبزادہ محمد حسن صاحب سجادہ نشین آستانہ عالیہ پیر سواگ فرماتے ہیں کہ:
ایک مرتبہ دورانِ سفر سخت پیاس لگی تلاش کے بعد معلوم ہوا کہ ایک کنواں ہے مگر اس کا مالک بُغضِ صحابہؓ کی آگ میں جلنے والا ایک بد بخت ہے۔گو کنویں کا پانی تو پاک تھا لیکن خواجہ صاحبؒ کی حمیت اور غیرت نے گوارہ نہ کیا کہ وہ صحابہ کرامؓ کے دشمن کے کنویں سے پانی پی لیں۔باوجو دسخت پیاس کے حضرت صاحبؒ نے پانی نہ پیا اور پیاسے ہی روانہ ہو گئے۔ (سبحان الله)
ایک روز حضرت صاحبؒ نے ارشاد فرمایا کہ ہندو کے کنویں پر نماز پڑھو اور پانی بھی پیئو، مگر شیعہ کے کنویں پر نہ نماز پڑھو نہ پانی پیئو۔کیونکہ شیعہ کا ایمان سیدناابوبکر صدیقؓ و سیدنا عمرؓ کے سبّ کرنے سے جل جاتا ہے۔البتہ ہندو میں استعداد ہے کہ وہ ایمان لے آئے مگر شیعہ سے یہ امید نہیں کہ وہ ایمان دار بن جائیں، کیونکہ وہ سب کرنے کو ایمان جانتے ہیں، لہٰذا ان کا ایمان جل جاتا ہے۔ اور یہ منکرِ صحتِ قرآن ہیں۔ اگر ہو سکے تو شیعہ کے قدم پر قدم نہ رکھو۔
(فيوضات حسنیه:صفحہ182)
- 32):امام حرم مسجد نبوی شیخ عبد الرحمٰن الحذیفی صاحب فرماتے ہیں کہ: اہلِ سنّت اور شیعہ کا آپس میں کیا جوڑ؟اہلِ سنتّ تو حاملینِ قرآن و حاملینِ حدیث ہیں،انہیں کے ذریعہ تو اللہ تعالیٰ نے دین کی حفاظت فرمائی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کی سربلندی کیلئے جہاد کیا اور سنہری تاریخ رقم کی۔ جبکہ دوسری طرف روافض (شیعہ) کا یہ حال ہے کہ وہ صحابہ کرامؓ پر لعنت بھیجتے ہیں اور یوں دینِ اسلام کی بنیادیں کھوکھلی کرتے ہیں۔ اس لئے صحابہ کرامؓ تو وہ حضرات ہیں جنہوں نے دین ہم تک پہنچایا۔ سو جو شخص ان حضرات پر لعن طعن کرے وہ اسلام کو ڈھائے گا۔
یہ لوگ (شیعہ)اسلام کے حق میں یہودو نصاریٰ سے زیادہ خطرناک ہیں،ان پر کبھی بھی کسی طرح بھروسہ نہیں کیا جا سکتا،بلکہ مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ ہر وقت ان سے چوکنا رہیں اور ان کی گھاٹ میں بیٹھے رہیں۔
(حرمین کی پکار صفحہ33)
- 33): مدرسه عربيه دار السلام قائم پور کا فتویٰ
قادیانیوں کی طرح شیعہ اثناءعشریہ پر شرعاً حکم تکفیر و زندقہ ہے۔ہمارے اکابرین و محققین کا مذہب یہی ہے۔آج کے دور میں دین کے نام پر ان کو دینی مدارس اور دینی جماعتوں کے اتحاد میں شامل کرنے والے اپنے فعل کے خود ذمہ دار ہیں۔ ان کا یہ اتحاد شرعی طور پر کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے۔اس اتحاد سے عوام کو دھوکہ میں نہیں پڑنا چاہئیے۔حضورﷺ کے صحابہؓ کے گستاخوں کے ساتھ کسی طرح محبت اور دوستی کے تعلق کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔ (فتویٰ امام اہلِ سنّت مع تائید علمائے اہلِ سنّت صفحہ62)
- 34):دار العلوم حق چار یارؓ، زنڈہ باندڈہ ڈاکخانہ رسالپور ضلع نوشہرہ کا فتویٰ
شیعہ اثناء عشریہ اپنے کفریہ عقائد مثلاً : افکِ سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور تحریفِ قرآن جیسے عقائد کی بناء پر کافر ہیں۔شیعہ وغیرہ جملہ کفار سے دلی دوستی رکھنا تو شرعاً ممنوع اور حرام ہے۔ (فتویٰ امام اہلِ سنّت مع تائید علمائے اہلِ سنّت:صفحہ147)
- 35):فضيلة الشيخ ممدوح الحربی فرماتے ہیں کہ شیعہ کے نزدیک سنیوں کی اموال پر قبضہ کرنا جائز ہے:
شیعہ امامیہ، اہلِ سنّت جنہیں وہ ناصبی کہتے ہیں،کی املاک وثروت کو اپنے لئے حلال قرار دیتے ہیں شیعی ائمہ اور ان کے علماء اپنے پیرو کاروں کیلئے اہلِ سنّت کے اموال پر قبضہ کرلینے کو مباح قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں جب بھی موقع ملے یا جس وقت ان کے ایسا کر گزرنے کیلئے سازگار حالات میسر ہوں کسی قسم کی جھجھک یا تردد کے بغیر ناصبیوں(یعنی سنیوں) کے مال و جائیداد کو ہتھیا سکتے ہیں۔ان کے امام طوسی نے اپنی کتاب تهذیب الاحکام کے جلد 1صفحہ نمبر 384 لکھا ہے:
خذ مال الناصبي حيثما وجدته وادفع الينا الخمس: تجھے ناصبی( یعنی سنی)کا مال جہاں سے بھی ملے قبضہ کرلے اور اس کا خمس ہمارے سپرد کر دے۔ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے
مال المناصب وكل شيء يملكه حلال
ناصبی کا مال اور اس کی ہر مملوکہ شئ حلال ہے۔
(اثناء عشریہ عقائد و نظریات کا جائزہ اور گھناؤنی سازشیں109)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ شیعوں کے نزدیک تمام اسلامی فرقے کافر اور مرتد ہیں:
شیعوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اہلِ ایمان صرف وہی ہیں،ان کے علاوہ باقی تمام مسلمان کافر اور مرتد ہیں،ان کا دینِ اسلام کے ساتھ کوئی ربط و تعلق نہیں ہے۔ شیعہ اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کو اس وجہ سے کافر کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے ولایت سے انکار کیا ہے،جس کے متعلق شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ ارکانِ اسلام میں داخل ہے، لہٰذا جو شخص شیعوں کی طرح ولایت کا عقیدہ نہیں رکھتا وہ کافر ہے۔ بالکل اُس شخص کی طرح کا کافر ہے جو شہادتین کا انکار کرتا ہے یا نماز ترک کر دیتا ہے، بلکہ ان کے نزدیک ولایت کا درجہ ارکانِ اسلام سے فائق تر اور بلند ہے۔
ولایت سے یہ لوگ سیدنا علی کی اولاد اوران کے بعد آنے والے ائمہ کی امامت و ولایت مراد لیتے ہیں۔ چونکہ شیعوں کے علاوہ باقی اسلامی گروہ اس فاسد عقیدہ کی مخالفت کرتے ہیں لہٰذا اسی بنا پر ہر شیعہ ان تمام اسلامی فرقوں پر کفر کا حکم عائد کرتے ہیں۔اور انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔نہ صرف یہی بلکہ یہ لوگ اپنے تمام مخالفین کی جانوں اور ان کے اموال کو بھی اپنے لیے مباح سمجھتے ہیں۔
شیعوں کے مخالفین میں سرِفہرست اہلِ سنّت و الجماعت کا گروہ ہے، جنہیں شیعہ کبھی ناصبی، کبھی عالمی، کبھی سواد اور کبھی وہابیہ کا نام دیتے ہیں۔ شیعوں کی اہم ترین اور انتہائی معتمد کتابوں کے اندرایسی روایات کثرت سے وارد ہوئی ہیں جن میں ان کا اپنے علاوہ دیگر مسلمان فرقوں کی تکفیر کا عقیدہ پوری صراحت کے ساتھ موجود ہے۔برقی نے سیدنا جعفرؒ سے درج ذیل روایت نقل کی ہے:انہ قال ما احد علی ملة ابراهيم الانحن وشيعتنا وسائر الناس منها براء
(كتاب المحاسن:صفحہ 148)
ترجمه:ابو عبداللہ نے فرمایا:ہمارے اور ہمارے شیعوں کے علاوہ کوئی بھی ملت ابراہیمی پر قائم نہیں ہے، باقی تمام لوگ اس سے لاتعلق ہیں۔
اسی طرح کلینی نے الکافی الروضہ میں یہ روایت درج کی ہے:
عن على بن الحسين انه قال ليس على فطرة الاسلام
غيرنا و غير شيعتنا وسائر الناس من ذلك براء
(الكافي الروضه جلد8صفحہ145)
ترجمه:علی بن الحسین کہتے ہیں کہ ہم اہلِ بیت اور ہمارے شیعوں کے علاوہ کوئی بھی فطرتِ اسلام پر نہیں ہے،باقی تمام لوگ اس سے محروم ہیں۔
جی ہاں ! شیعہ صرف اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں، اپنے علاوہ باقی تمام اسلامی فرقوں کو کافر قرار دیتے ہیں۔اس سلسلے میں یہ لوگ اہلِ بیت کی طرف جھوٹی روایات اورمن گھڑت اقوال منسوب کرتے ہیں جن سے یہ عالی قدر رلوگ قطعی طور پر بری الذمہ ہیں۔
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ شیعوں کے نزدیک مسلمانوں کا ذبیحہ مردار ہے:
شیعہ جب اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کی تکفیر کا عقیدہ رکھتے ہیں تو اُن کے ساتھ سلوک اور برتاؤ بھی کفار اور مشرکین والا ہی کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ اپنے ماسوا مسلمانوں کا ذبیحہ نہیں کھاتے،اس عقیدہ کی بناء پر یہ مسلمانوں کو مشرکوں کاحکم دیتے ہیں۔
تفسیر عیاشی میں ہے:عن حمران قال سمعت ابا عبدالله عليه السلام يقول في ذبيحة الناصب واليهودي قال:لا تاكل ذبيحته حتى تسمعه يذكر اسم الله: (تفسیر عیاشی جلد1صفحہ375)
ترجمه: حمران کا بیان ہے کہ میں نے ابو عبداللہ کو ناصبی اور یہودی کے ذبیحے کے متعلق یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس کا ذبیحہ مت کھاؤ یہاں تک کہ تم اسے اپنے ذبیح پر اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہوئے نہ سن لو۔
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ شیعوں کے نزدیک مسلمانوں کے ساتھ نکاح حرام ہے۔
اسی طرح شیعہ اہلِ سنّت کے ساتھ نکاح وزواج کو بھی نا جائز سمجھتے ہیں۔
کلینی نے الکافی میں یہ روایت درج کی ہے:عن الفضيل بن يسار قال:سالمت ابا عبدالله عليه السلام عن نكاح الناصب قال لاوالله ما يحل۔
( كتاب الكافی جلد 5صفحہ350)
ترجمه:فضیل بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ سے ناصبی( یعنی سنی) سے نکاح کے متعلق سوال کیا تو آپ نے کہاہرگز نہیںاللہ تعالیٰ کی قسم !یہ حلال نہیں ہے۔
طوسی کی الاستبصارمیں یہ روایت منقول ہوئی ہے: عن فضیل بن يسار عن ابی جعفر قال ذكرالناصب فقال لا تناكحهم ولا تاكل ذبيحتهم ولا تسكن معهم (الاستبصار للطوسی جلد3صفحہ 184)
ترجمه:فضیل بن یسار کا بیان ہے کہ ابو جعفر کے سامنے ناصبیوں (یعنی سنیوں) کا تذکرہ ہوا تو آپ نے کہاان کے ساتھ نکاح نہ کرو، نہ ان کا ذبیحہ کھاؤ اور نہ ان کے ساتھ بودو باش اختیار کرو۔
یہی نہیں بلکہ خمینی نے بھی اپنی کتاب تحریر الوسیلہ میں اہلِ سنّت کے ساتھ شیعوں کے نکاح کو حرام قرار دیا ہے:
ولا يجوز للمومنة ان تنكح الناصب المعملين بمعداوة اهل البيت عليه السلام وكذا لا يجوز للمومن ان يمتدح الناصبية وكذا لايجوز للمؤمن أن ينكح الناصبية والغالية لانهما بحكم الكفار وان انتخلادين الاسلام۔
(تحريالوسيله جلد2صفحہ260)
ترجمه:مومنہ(یعنی شیعی عورت ) کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ ناصبی(یعنی سنی )سے نکاح کرے کہ وہ اہلِ بیت سے کھلی عداوت رکھتا ہے۔ اور اسی طرح مؤمن (شیعی مرد)کیلئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ناصبیہ (یعنی سنی عورت) سے نکاح کرے ۔ اور اسی طرح
مومن (یعنی شیعی مرد) کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ ناصبی اور غالیوں کی عورتوں سے نکاح کرے اس لئے کہ یہ دونوں فرقے کفار میں شمار ہوتے ہیں،اگرچہ یہ دونوں اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ شیعوں کے نزدیک اہلِ سنّت کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں:
شیعہ، اہلِ سنت کی اقتداء میں نماز کو ناجائز کہتے ہیں اور اس طرح پڑھی گئی نماز کو باطل قرار دیتے ہیں، ماسوا اُس صورت کے کہ یہ نماز رواداری یا تقیہ کے طور پر پڑھی گئی ہو۔
اس سلسلے میں شیعوں کی کتاب: المحاسن میں یہ روایت وارد ہوئی ہے:عن الفضيل بن يسار قال: سالت ابا جعفر عن مناكحة الناصب والصلاة خلفه فقال: لا تناكحه ولا تصلى خلفه(كتاب المحاسن:صفحہ161)
ترجمه:فضیل بن یسار کا بیان ہے کہ میں نے ابوجعفر سے ناصبیوں(یعنی سنیوں) کے ساتھ نکاح کرنے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق ابوجعفر سے دریافت کیا تو آپ نے کہا: اس کے ساتھ نکاح نہ کرو۔
ممتاز شیعی عالم نعمت اللہ الجزائری نے بھی اپنی کتاب: الانوار النعمانیہ کےجلد نمبر 2 صفحہ نمبر 306 میں اس موقف کی تصدیق و تائید کی ہے، چنانچہ اس نے لکھا ہے:
ناصبی (یعنی سنی) کے احوال و احکامات دو اُمور کی وضاحت کے محتاج ہیں۔اولاً:اخبار و روایات میں مذکور ناصبی کا مطلب و مفہوم یہ ہے کہ وہ نجس ہے اور وہ یہودی نصرانی اور مجوسی سے بھی زیادہ بُرا ہے۔اور یہ علمائے امامیہ کے نزدیک متفقہ طور پر کافر نجس ہے۔
(اثناء عشریہ عقائد و نظریات کا جائزہ اور گھناؤنی سازشیں:صفحہ 136)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ شیعوں کے نزدیک سنیوں کو قتل کرنا اور ان کے مال و متاع کو چھین لینا اور قبضہ کر لینا جائز ہے:
شیعوں کے نزدیک مسلمانوں،خاص طور پر اہلِ سنّت کے مال و جان مباح ہیں،ان کی معتمد کتابوں کے اندر ایسی روایات موجود ہیں جن میں اہلِ سنّت کو قتل کرنے اور ان کے مال ومتاع کو چھین لینے کی کھلی تلقین اور ترغیب دی گئی ہے۔ ان کے امام مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں اپنی سند کے ساتھ ابنِ فرقد کی یہ روایت نقل کی ہے:
ابن فرقد کا بیان ہے کہتا ہے کہ میں نے ابو عبداللہ کسے ناصبی کے قتل کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ناصبی کا خون حلال ہے مگر سخت احتیاط کی ضرورت ہے لہٰذا اگر ہوسکے تو ایسے انداز سے اُس پر دیوار گرادے یا اسے پانی میں ڈبو دے کہ تیرے اس فعل پر اس کی نگاہ نہ پڑے کہیں وہ تیرے خلاف گواہی نہ دے ڈالے، اب ممکن ہو سکے تو اسےضرور قتل کر دے۔
یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ شیعہ،اہلِ سنّت کی جانوں اور ان کے مال و اسباب کو بالکل اپنے یہودی آقاؤں کی طرح اپنے لئے مباح قرار دیتے ہیں ، دورِ حاضر کے شیعوں کا بھی یہ عقیدہ ہے جیسا کہ عصرِ حاضر کے شیعی امام،آیت اللہ خمینی نے اپنی کتاب تحرير الوسیلہ میں خمس کے بیان کے تحت لکھا ہے:
راجح بات یہ ہے کہ ناصبی ( یعنی سنی ) کو مال غنیمت اور اس سے خمس کے مسئلہ میں اہلِ حرب کافروں کے ساتھ شامل کیا جائے گا، بلکہ ناصبی کے مال کو جہاں بھی ملے اور جس بھی طریقہ سے ممکن ہو سکے چھین لیا جائے اور اس سے خمس نکالا جائے۔ مذکورہ بالا قول میں خمینی نے اپنے پیروکاروں کو اہلِ سنّت کے مال و متاع کو جہاں بھی ملے اور جیسے بھی ممکن ہو سکے چھین لینے کی اباحت کا فتویٰ دیا ہے،
اہلِ سنّت کے متعلق خمینی ملعون کے اس کھلے اور واضح موقف پر اس کے معاصر علماء میں سے کسی نے بھی رد نہیں کیا۔اس سے صاف معلوم ہو جاتا ہےکہ اس مؤقف پر خمینی کے تمام معاصر شیعی علماء کا اتفاق ہے۔ (اثناءعشریہ عقائد و نظریات کا جائزہ اور گھناؤنی سازشیں صفحہ 140)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کی اُخروی زندگی کے متعلق شیعوں کا مؤقف:
اہلِ سنت کی اُخروی زندگی کے متعلق شیعوں کا مؤقف یہ ہے کہ ان کے عقیدہ کے مطابق اہلِ سنّت اور دیگر تمام مخالفین ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں رہیں گے، چاہے وہ کتنے ہی اطاعت گزار، متقی اور پرہیز گار ہی کیوں نہ ہوں،ان کی عبادتیں اور اُخروی محنتیں انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے قیامت کے دن نجات نہ دلا سکیں گی۔
صدوق نے ثواب الاعمال و عقاب الاعمال میں صادق کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:ہمارا یعنی اہلِ بیت کا دشمن روزہ دار ہو یا نمازی، زانی ہو یا چور فکر نہ کرے وہ جہنمی ہے۔
اسی طرح ابان بن تغلب کی ایک روایت اس کتاب میں مذکور ہے کہ:ایان بن تغلب کہتے ہے کہ ابوعبد اللہ نے کہا ہر ناصبی(یعنی سنی) چاہے وہ کتنی عبادت و ریاضت کر لے اس کا انجام اس آیت کے مطابق ہوگا عاملة ناصبة، تصلىٰ ناراً حامية مصیبت جھیلتے ہوں گے،خستہ ہوں گے،جلتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔
کتاب المحاسن کے صفہ نمبر 184 میں علی الخدمی کی یہ روایت مذکور ہے:على الخدمی کا بیان ہے کہ
ابوعبد اللہ نے کہا پڑوسی اپنے پڑوسی کے حق میں اور مخلص دوست اپنے گہرے دوست کے حق میں سفارش کریں گے(ان کی سفارش کو قبول بھی کرلیا جائے گا مگر ناصبی( یعنی سنی )کےحق میں سفارش کو قبول نہیں کیا جائے گا، چاہے مقرب فرشتے اور انبیاء و مرسلین ( علیہم السلام ) بھی ان کے لئے سفارش پیش کرنے والے ہوں۔
(اثناء عشریہ عقائد و نظریات کا جائزہ اور گھناؤنی سازشیں:صفحہ141 )
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:سیدنا صدیقِ اکبرؓ اور سیدنا فاروقِ اعظمؓ کےدشمنوں سے اعلان بیزاری کرنا ضروری ہے:
سالم بن ابی حفصہ جو کہ شیعہ ہے یہ کہتا ہے کہ میں نے ابوجعفر اور اس کے بیٹے سے سنا، ان کا پورا نام ہے جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب ثابت ہے۔یہ اہلِ بیت کے امام فرمارہے ہیں اور سالم نے سوال کیا ہے کہ سید ناصدیقِ اکبرؓ اور سید نا فاروقِ اعظمؓ کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟انہوں نے فرمایا: اے سالم!ان دونوں سے دوستی رکھو، اور جو ان دونوں کا دشمن ہے، اس سے بیزاری کرو یہ دونوں حضرات راہِ ہدایت کے پیشواء تھے۔اور کہااے سالم ! کیا کوئی آدمی اپنے دادا کو گالی دے سکتا ہے۔ سیدنا صدیق اکبرؓ میرے دادا ہیں۔اگر میں ان دونوں سے دوستی نہ رکھتا ہوں تو مجھے حضوراکرمﷺکی سفارش ہی حاصل نہ ہو۔میں ان کے دشمنوں سے اعلان بیزاری کرتا ہوں اور جو ان دونوں سے بیزار ہے اللہ تعالیٰ اس سے بیزار ہے۔ (اثناء عشریه عقائد ونظریات کا جائزہ اور گھناؤنی سازشیں صفحہ210)
- 36):حضرت مولانا مہر محمدصاحبؒ فرماتے ہیں کہ شیعہ کے نزدیک تمام مسلمان کافر اور واجب القتل ہیں:
شیعہ مصنف اپنی کتاب حق الیقین کے صفحہ نمبر 519 لکھتے ہیں:امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جو کوئی ایک امام کا بھی انکار کرے، اور کسی ایک چیز کاانکار کرے جس میں خدا تعالیٰ نے ان کی اطاعت فرض کی ہے، پس وہ کافر اور گمراہ ہے، ہمیشہ جہنم کا حق دار ہے۔
دوسری جگہ لکھتے ہیں: تمام شیعوں کا اس پر اتفاق ہے کہ تمام بدعتی( اہلِ سنّت کو شیعہ بدعتی مانتے ہیں) کافر ہیں اور امام پر لازم ہے کہ اقتدار پاکر ان سے توبہ کرائے اور دینِ حق کی طرف بلا کر حجت پوری کرے، اگر وہ اپنے مذہب سے توبہ کرلیں اور راہِ راست (شیعہ مذہب) پر آجائیں تو قبول کرے ورنہ ان کو قتل کر دے، اس لئے کہ وہ مرتد ہیں ایمان سے،اور جو کوئی ان میں سے اسی( غیر شیعہ مذہب پر مر جائے وہ جہنمی ہے۔)
نوٹ
شیعہ کے امام خمینی نے اقتدار پا کر مسلم کشی کی پالیسی اس لئے اپنا رکھی ہے۔ تہران میں دس لاکھ مسلمانوں کو مسجد تک بنانے کی اجازت اسی لئے نہیں ہے مئی1985ءمیں لبنان میں متعین ایرانی عمل ملیشا نے یہودیوں اور عیسائیوں سے مل کر PLO اور فلسطینی مسلمانوں کا قتلِ عام اسی وجہ سے کیا کہ وہ یہودیوں سے بڑھ کر کافر ہیں۔مارچ 1986ء میں ایرانی عمل ملیشا نے صابرہ اور شیطلہ فلسطینی کیمپوں پر حسبِ سابق توپ خانوں اور ٹینکوں سے دوبارہ حملہ اسی لیے کیا۔ خمینی عراق اور عربوں سے خوفناک جنگ اور مسلمانوں کی تباہی اسی لیے کر رہا ہے۔شام کا بعثی ڈکیٹر حافظ الاسد رافضی 20 ہزار سے زائد دیندار اخوان المسلمون کو اسی جُرم سنیت میں شہید کر چکا ہے۔ایرانی انقلاب کو وہ اسی اسلام کشے کی خاطر پاکستان وغیرہ مسلم ممالک میں برامد کرنا چاہتے ہیں۔
(اسلام اور شریعت کا تقابلی جائزہ صفحہ67)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ:شیعہ کے نزدیک تمام سنی واجب القتل ہیں اور شیعہ تمام سنیوں کو حضرت علی کے دشمن اور زنا کی اولاد مانتے ہیں:
شیعہ مصنف اپنی کتاب حیات المقلوب: کی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 611 پر لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمّد ﷺکو تو رحمت کے طور پر بھیجا ہے اور مہدی کو بدلہ لینے اور عذاب دینے کے لیے بھیجے گا یہ انتقام و عذاب صرف اہلِ سنّت پر ہوگا۔
ملا باقر مجلسی ہی اپنی دوسری کتاب حق الیقین کے صفحہ نمبر 527 پر لکھتے ہیں کہ جب ہمارا مہدی غار سے ظاہر ہوگا سب سے پہلے سنیوں کا اور ان کے علماء کا قتل عام کرے گا۔
چنانچہ خمینی اور اس کے ایجنٹ شام و فلسطین و ایران و اعراق میں سنیوں کا قتل کر رہے ہیں لیکن پاکستان کا غافل ترین بدھو مسلمان یہاں بھی ایرانی انقلاب چاہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ شیعہ تمام سنیوں کو حضرت علی کے دشمن اور زنا کی اولاد مانتے ہیں ان کی نماز تک کو زنا کہتے ہیں عہد مغلیہ کا چیف جسٹس نوراللہ شوستری اپنی کتاب مجالس المؤمنین کے جلد نمبر 2 صفحہ480 پر سنیوں کو یوں گالی دیتا ہے۔
بغض الولی علامتہ معروفتہ، کتبت علی جبہات اولاد الزنا
من لم یوال من الانام ولیہ،سیان عنداللہ صلی اووزنا
ترجمہ:حضرت علی سے بغض کی نشانی مشہور ہے جو حرامیوں کی پیشانی پر لکھی ہوئی ہے جو لوگ حضرت علی کی ولایت(حسبِ عقیدہ شیعہ)کے قائل نہیں خدا کے ہاں برابر ہے کہ وہ نماز پڑھے یا زنا کرے۔معاذ اللہ ( اسلام اور شعیت کا تقابلی جائزہ صفحہ71 )
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ شیعہ سے ہوشیار اور دور رہنا چاہیئے
شیعہ توحید و رسالت قرآن کریم کی صداقت امت مسلمہ کی ہدایت کسی چیز پر صحیح ایمان نہیں رکھتے لیکن اسلام و ایمان کے دعویدار خوب بنتے ہیں۔
شیعہ بظاہر مسلم سوسائٹی میں رہنے اور تمام اسلامی مفادات حاصل کرنے اور مسلمانوں کو بہکانے کے لیے ظاہراً اپنے اوپر اسلام کا لیبل لگاتے رہتے ہیں ورنہ وہ کسی چیز کی حقانیت کے قائل نہیں۔
(اسلام اور شعیت کا تقابلی جائزہ صفحہ 72)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ شیعہ کے نزدیک مسلمان نجس ہے ان کا ذبیحہ حرام ہے، ان کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے، ہاں ان کا مال قبضہ کرنا جائز ہے:
خمینی کی معتبر کتاب تحریر الوسیلہ سے چند حوالے ملاحظہ ہوں:
1):ناصبی(سنی مسلمان)اور خارجی خدا ان پر لعنت بھیجے بلا توقف نجس ہیں۔
(تحریر الوسیلہ جلد 1 صفحہ 118)
2): تمام فرقوں کا ذبیحہ جائز ہے سوائے نواصب (مسلمانوں) کا اگرچہ وہ اسلام کا دعویٰ کریں۔
(تحریر الوسیلہ جلد 2 صفحہ 146)
3):ہر قسم کا کافر یا جن کا حکم کافروں جیسا ہے۔ جیسے نواصب(سنی)اگر شکاری کتا شکار پر چھوڑ دے تو ایسا شکار حلال نہیں( تحریر الوسیلہ جلد2 صفحہ 136 )
4):کافر یا وہ جو کافر کے حکم میں ہے مثل نواصب (اہلِ سُنّت) و خوارج ان کی نمازِ جنازہ پڑھنا جائز نہیں (تحریر الوسیلہ جلد1صفحہ79)
5):نفلی صدقہ بھی ناصبی(سنی) اور حربی کو دینا جائز نہیں اگرچہ رشتےدار ہی کیوں نہ ہو(تحریر الوسیلہ جلد1صفحہ91 )
6):اور قوی یہ ہے کہ ناصبیوں ( سنیوں) کا مال جہاں اور جس طریقے سے ملے لے لیا جائے اور اسے خمس نکالا جائے ( تحریر الوسیلہ جلد 1 صفحہ 352 )
نوٹ:یہ وہی خمینی ہے جس کے متعلق ہمارے بے ضمیر صحافی اور ایرانی ایجنٹ یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ وہ نا سنی ہے نہ شیعہ وہ خالص مسلمان ہے اور عالمِ اسلام کے اتحاد کے داعی ہیں۔(اسلام اور شیعت کا تقابلی جائزہ صفحہ110)
- 37):جناب عزیز احمد صدیقی صاحب فرماتے ہیں کہ شیعہ سنی سے کیا سلوک کرتے ہیں اور سنی لوگ ان کی نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں اور ان کے ساتھ اتحاد کرتے ہیں یہ افسوس ناک المیہ ہے:
فرمایا جناب صادق نے کہ چل آگے جنازہ مومن کے اور نہ چل آگے جنازہ مخالف کے پس آگے جنازے مومن کے ملائکہ جلدی کرتے ہیں اس کو جہنم میں لے جانے میں اور دوسری حدیث میں فرمایا کہ نہ چل آگے جنازہ مخالف کے ملائکہ عذاب و انواع عذاب سے اس کے آگے رہتے ہیں ۔
غالباً یہاں مخالف اور اس کی ضمیر کوناظرین کرام پہچان گئے ہوں گے اور اپنا مقام سبائی مذہب بھی سمجھ گئے ہوں گے، ان کے اماموں نے موت اور زندگی میں مخالفوں کے ساتھ سلوک بتلا دیا ہے۔
اب بھی بدیوانی قماش کے ملاؤں کے ورغلانے سے اتحاد کی امید لگائے رکھنے والے کیلئے کیا کہاجاسکتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول سنادوں جو اسی قوم کے لئے نازل ہوا ہے
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَةً مِّنۡ دُوۡنِكُمۡ لَا يَاۡلُوۡنَكُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ ۖۚ وَمَا تُخۡفِىۡ صُدُوۡرُهُمۡ اَكۡبَرُؕ قَدۡ بَيَّنَّا لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ (سورۃ آل عمران 118)
اے ایمان والو ! اپنے سے باہر کے کسی شخص کو رازدار نہ بناؤ، یہ لوگ تمہاری بدخواہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ تم تکلیف اٹھاؤ، بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ (عداوت) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔ ہم نے پتے کی باتیں تمہیں کھول کھول کر بتادی ہیں، بشرطیکہ تم سمجھ سے کام لو۔
هٰۤاَنۡتُمۡ اُولَاۤءِ تُحِبُّوۡنَهُمۡ وَلَا يُحِبُّوۡنَكُمۡ وَتُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡكِتٰبِ كُلِّهٖ ۚ وَاِذَا لَقُوۡكُمۡ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۖۚ وَاِذَا خَلَوۡا عَضُّوۡا عَلَيۡكُمُ الۡاَنَامِلَ مِنَ الۡغَيۡظِؕ قُلۡ مُوۡتُوۡا بِغَيۡظِكُمۡؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌ ۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ (سورۃ آل عمران119)
ترجمہ:دیکھو تم تو ایسے ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو، مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، اور تم تو تمام (آسمانی) کتابوں پر ایمان رکھتے ہو، اور (ان کا حال یہ ہے کہ) وہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم (قرآن پر) ایمان لے آئے، اور جب تنہائی میں جاتے ہیں تو تمہارے خلاف غصے کے مارے اپنی انگلیاں چباتے ہیں۔ (ان سے) کہہ دو کہ : اپنے غصے میں خود مر رہو، اللہ سینوں میں چھپی ہوئی باتیں خوب جانتا ہے۔
اِنۡ تَمۡسَسۡكُمۡ حَسَنَةٌ تَسُؤۡهُمۡ وَاِنۡ تُصِبۡكُمۡ سَيِّئَةٌ يَّفۡرَحُوۡا بِهَا ۚ وَاِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا لَا يَضُرُّكُمۡ كَيۡدُهُمۡ شَيۡــئًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ مُحِيۡطٌ (سورۃ آل عمران120)
ترجمہ:اگر تمہیں کوئی بھلائی مل جائے تو ان کو برا لگتا ہے، اور اگر تمہیں کوئی گزند پہنچے تو یہ اس سے خوش ہوتے ہیں، اگر تم صبر اور تقوی سے کام لو تو ان کی چالیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ سب اللہ کے (علم اور قدرت کے) احاطے میں ہے۔
اور آپ اپنے ملاؤں کو دیکھئے کہ وہ شیعوں کے نمازِ جنازہ کیلیے کیسے دوڑا ہوا جاتا ہے،خواہ اسے نماز پڑھنے سے روک ہی دیا جائے،کوئی رسوائی نہیں محسوس کرتا حالانکہ یہ وہ جنازہ ہوتا ہے جسے خود اس کے ورثاء نجس سمجھتے ہیں اور خود نہیں چھوڑتے، کرائے کے شہدوں سے نہلا کر لے آتے ہیں ۔ (سبائی سبز باغ صفحہ 195)
- 38):حضرت مولانا مفتی عبدالشکور قاسمی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:کافروں کے ساتھ دلی دوستی ہرگز جائز نہیں ورنہ کفر لازم آئے گا۔ اور ایک مسلمان کی نظر میں کوئی چیز اپنے مذہب سے زیادہ معظم محترم نہیں ہو سکتی۔جس مسلمان کے دل میں خشیت الٰہی اور غیرت ایمانی کا ذرا شائبہ ہو، وہ کافر اور کافر قوم سے موالات اور دوستانہ راہ و رسم پیدا کرنے یا قائم کرنے کو ایک منٹ کے لئے بھی گوارا نہیں کرے گا۔
(کفریہ الفاظ اور ان کے احکامات: صفحہ 24)
- 39): گولڑہ شریف کے سجادہ نشین پیر نصیر الدین گیلانی نے اپنی کتاب:نام ونسب میں شیعوں کے غیر اسلامی عقائد باطلہ کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ شیعہ گروه اہلِ سنّت سے اتفاق و اتحاد کرنے کے حق میں نہیں ہے پھر بھی ہمارے اکثر سنی علماء ان کی مجالس میں شرکت کو سیدنا حسینؓ کے نام کی وجہ سے باعثِ رحمت سمجھتے ہیں۔ان علماء پر واضح ہو کہ شیعہ لوگ سنیوں کے بھائی نہیں بن سکتے۔اگر سنیوں کی طرح شیعہ بھی صاف دل ہوتے تو وہ بھی ان کی مجالس میں ضرور شرکت کرتے مگر آپ نے کبھی دیکھا کہ کوئی شیعہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کانفرنس یا سیدنا فاروقِ اعظمؓ کانفرنس یا سیدنا عثمانِ غنیؓ کانفرنس یا سیدنا امیرِمعایہؓ کانفرنس یاسیدہ عائشہ صدیقہؓ کانفرنس میں شریک ہواہو؟
اگر یہ ہمیں کافر جانتے ہیں تو پھر ہم انہیں مسلمان کیوں گردانیں۔ ایران کا یہودی نظام ایک ظاہری اسلامی ہیئت میں مسلمانوں کی منافقانہ طریقہ سے تذلیل کر رہا ہے اور مسلمانوں کی اکثریت اس کی ظاہری شکل کو دیکھ کر اور اس کے پُرفریب نعروں کو سن کر اس کو امتِ مسلمہ کا ایک حصہ سمجھتی ہے۔
یہ ٹولہ ہر وقت شیعہ سنی وحدت کا منافقانہ نعرہ لگا کر مسلمانوں کے خلاف انتہائی سرگرم اور فعال ہے اور اسلام کو دنیا میں نافذ نہیں ہونے دیتا۔دراصل ایران کے شیعہ حکمرانوں نے اپنی طرف سے ایک بناوٹی اسلام بنایا ہوا ہے اور وہ اس خود ساختہ جعلی اسلام کو اصلی اسلام منوانے کے لئے ہرحربہ استعمال کرتے ہیں۔
دنیا کے بعض ملکوں میں شیعہ لوگ حکومت کی سربراہی میں سڑکوں پر غیر اسلامی حرکتیں کر کے اسلام کو کھلم کھلا بد نام کرتے ہیں۔ یہ منافق آزادی کے ساتھ ہمارے اسلامی ملک میں اسلام کو نوچ رہے ہیں اور ہمارے علماء کو اس کی پروا نہیں ان کی مجرمانہ خاموشی اور مصلحت پرستانہ پالیسی شیعہ کو نئے حوصلے فراہم کرتی ہے۔
ہمارے علماء کرام جن کا یہ دینی فریضہ ہے کہ ہر برائی کو روکیں وہ بھی اس موقع پر منافقت سے کام لیتے ہیں اور مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے ان اسلام دشمن کاروائیوں کی بالواسطہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔اس طرح وہ بھی ان بدعتوں میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔
(ایران اور عالمِ اسلام صفحہ42)
- 40):شیعہ وہ قوم ہے جنہوں نے سیدناعلیؓ سیدناحسنؓ اورسیدناحسینؓ کے ساتھ وفا نہیں کی تو آپ کے ساتھ کیسے وفا کریں گے:
انہی مکار غدار شیعوں نے متعدد خطوط لکھ کر سیدناحسینؓ کو کوفہ میں بلالیا،حالانکہ بارہ ہزار خطوط ان کی طرف سے سیدناحسینؓ کے پاس جمع ہو گئے۔
چنانچہ ملاباقر مجلسی لکھتے ہیں:
اور جب مبالغہ واصرار ان کا ازحد ہوا اور متعدد قاصد حضرت کے پاس جمع ہوگئے اور بارہ ہزار خطوط آگئے ۔ (جلاء العیون صفحہ431)
جب شیعانِ اہلِ کوفہ کا اصرارحد سے بڑھ کر انتہاء کو پہنچا تو سیدناحسینؓ نے سیدنا مسلم بن عقیلؓ کے ہاتھ پراٹھارہ ہزار کوفی بشرف بیعت ہوئے۔ چنانچہ سیدنا مسلم بن عقیلؓ نے سیدناحسینؓ کی طرف خط لکھا کہ
اہلِ کوفہ تہ دل سے آپ کے خواہاں ہیں،آپ بلا دریغ تشریف لائیں۔
(جلاءالعون صفحہ432)
بعد ازاں شیعانِ کوفہ نے سیدناحسینؓ کے ساتھ جو سلوک کیا وہ کتب شیعہ میں مذکور ہے۔ اور جب سیدناحسینؓ مقامِ کوفہ میں تشریف فرما ہوئے اور شیعانِ کوفہ نےاپنی غداری اور مکاری کو ظاہر کیا اور خطوطِ مرسلہ جو آپ کے پاس محفوظ تھے ان کو دکھائے۔ مگر وہ جفا کار شیعہ اپنی بے شرمی سے باز نہ آئے تو سیدناحسینؓ کو فرمانا پڑا کہ ہمارے شیعوں نے ہماری نصرت سے ہاتھ اُٹھالیا۔
(جلاء العون:صفحہ 452)
ان جفا کار غدار شیعوں نے سیدناحسینؓ کی نصرت سے عزلت و کنارہ کشی اختیار کرنا ہی کافی نہ سمجھا بلکہ غضب الٰہی کے ایسے خواہاں و متلاشی ہوئے اور سیدناحسینؓ کے مقابلہ پر کمر بستہ ہوگئے۔اس لئے تو سیدناحسینؓ نے فرمایا : تمہارے ارادوں پر لعنت ہو،اے بے وفایان جفاکار غدارا تم نے شمشیر کینہ مجھ پر کھینچی۔
(جلاء العيون:صفحہ 468)
آخر کار انہیں شریر النفس شیعہ بے وفایان مکار و غدار کے ہاتھوں سے سیدناحسینؓ نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔
(جلاء العون:صفحہ 469)
مذکورہ عبارات سے سورج کی روشنی کی طرح یہ بات معلوم ہوگئی کہ سیدناحسینؓ کے قاتلین شیعہ بلکہ راہ نمایان شیعہ تھے۔ اور غدارو مکار شیعوں نے اپنے بداطواری و بد اعتقادی کو فقط سیدناحسینؓ کے ساتھ ہی ظاہر نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے آپ کے والد محترم سید نا علی المرتضٰیؓ اور آپ کے بھائی سیدناحسنؓ کے ساتھ بھی ان کی بد گوہری عیاں ہوچکی تھی، اور بعد ازاں باقی آئمہ اہلِ بیت کے ساتھ بھی ایسا کرتے رہے۔ ملاحظہ ہو:جلاءالعيون:صفحہ 323،345 میں مذکور ہے کہ سیدناحسنؓ نےفرمایا:
بخدا اس جماعت (شیعہ) سے میرے لئے سیدنا امیرِ معاویہؓ بہتر ہے۔یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم شیعہ ہیں اور انہوں میرا ارادہ قتل کیا اور میرامال لوٹ لیا۔
اور کتاب سیر الائمه، ترجمه کشف الغمہ: میں مرقوم ہے کہ شیعوں نے سیدناحسنؓ کے ساتھ ایسی بدسلوکی اور بے وفائی کی کہ بغاوت کر کے آپ کا تمام مال اور متاع لوٹ لیا حتیٰ کہ مصلیٰ نماز بھی ان بد گوہر و بد کردار شیعوں نے زبر دستی چھین لیا۔
اور تاريخ الامم والملوك طبرسی:جلد 2 صفحہ228 میں بھی اسی طرح مسطور ہے کہ سیدناحسینؓ کو جن لوگوں(شیعوں) نے بلایا،انہوں نے قتل کیا۔
جب سیدناحسینؓ نے ان کی غداری پر ملا دیکھی تو آپ نے فرمایا: میں تمہارے بلائے بغیر یہاں نہیں آیا تمہارے بے شمار خط اور پیغام رساں میرے پاس پہنچے کہ ہمارا کوئی امام نہیں تم ہمارے پاس آجاؤ، پس میں تمہارے پاس آگیا۔تم پر لازم تھا کہ اپنے وعدوں پر قائم رہ کر میری تابعداری کرتے مگر تم نے اپنے وعدوں اور میری بیعت کو توڑ ڈالا۔سو یہ بات قابلِ تعجب نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی قسم تم اس سے پہلے اس قسم کی عہد شکنی اور بے وفائی میرے والد بزرگوار ( سیدناعلیؓ ) اور میرے برادرِ محترم(سیدناحسنؓ ) اور میرے چچا زاد بھائی سیدنا مسلم عقیلؓ سے کرچکے ہو۔
(قاتلانِ حضرت حسینؓ صفحہ13)
- 41):چھٹی، ساتویں اور آٹھویں صدی میں یہ لوگ (یعنی روافض) صرف اسی لئے مسلمانوں سے الگ اور اسلام دشمن سمجھے جاتے تھے کہ یہ لوگ بغضِ صحابہؓ کے سایہ میں مسلمانوں کی سیاسی شوکت کے دشمن تھے،اور جس طرح یہودو نصاریٰ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا نظامِ خلافت درہم برہم ہو۔
یہ لوگ(روافض) صفوفِ اسلام میں ان کی بڑی اُمید گاہ تھے اور یہ ہر وقت اس کوشش میں رہتے تھے کہ مسلمانوں کی تباہی جس طرح بھی ہو اس میں کمی نہ کی جائے۔
خلافتِ بغداد کی تباہی میں خلیفہ معتصم باللہ کے شیعہ وزیر مؤیدالدین بن محمد بن محمد على المعلقمی کا بنیادی ہاتھ تھا۔تاتاریوں کے اس حملے میں سولہ لاکھ کے قریب مظلوم مسلمان شہید ہوگئے،مگر ابن العلقمی کی انتقام کی آگ پھر بھی نہ بجھی۔اس کی تفصیل کے لئے تاریخ ابنِ خلدون جلد3صفحہ537 کی طرف مراجعت فرمائیں۔
اس ابن العلقمی کے بارے میں علامہ تاج الدین السبکیؒ لکھتے ہیں کہ وہ عربی کا بڑا ادیب تھا اور رافضی شیعہ تھا،اس کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کا بھر پور کینہ تھا۔اب آپ ہی اندازہ کریں کہ علامہ سبکیؒ کی نظر میں شیعہ کیا مسلمانوں میں سے ہیں یا اعدائے اسلام میں سے ہیں؟
اسی طرح شام میں عیسائیوں کی صلیبی جنگوں میں بھی شیعوں نے عیسائیوں کا ساتھ دیا تھا۔
شیخ الاسلام حافظ ابنِ تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ تم ان شیعوں کو مسلمانوں کے خلاف جو قرآن کریم کو ماننے والے ہیں مشرکین اور اہلِ کتاب کی مدد کرنے والا پاؤ گے جیسا کہ لوگ پہلے کئی دفعہ آزما چکے ہیں۔ان شیعوں نے خراسان،عراق،جزیرہ شام اور دوسرے کئی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف تاتاریوں کی مدد کی اور شام اور مصر وغیرہ میں مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کا ساتھ دیا۔ایسا ایک دفعہ نہیں چوتھی اور ساتویں صدی میں ایسے کئی حوادث پیش آئے جب تاتاریوں نے( ہلاکو خان) بلادِ اسلام پر یلغار کی اور مسلمان کثیر تعداد میں مارے گئے کہ بس اللہ تعالیٰ ہی ان کی تعداد کو جانتا ہے۔تو یہ لوگ مسلمانوں کی عداوت اور کافروں کی مدد میں ایک بڑی طاقت رہے ہیں۔
حافظ ابنِ تیمیہؒ اس سے پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ:
حرص و ہوا کے ان بندوں میں جہالت اور ضد(کوٹ کوٹ کر) بھری ہے، خاص طور پر رافضیوں میں، یہ اہلِ ہوا میں سب سے زیادہ ظلم اور جہل کا شکار ہیں۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد جو سب سے بہتر اللہ تعالیٰ کی ولایت میں ہیں جیسے سابقین اولین مہاجرین و انصار میں سے اور ان میں سے جو ان کے پیچھے چلے اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوگئے۔
یہ شیعہ لوگ کفارو منافقین سے موالات(دوستی) رکھتے ہیں، کفار میں سے یہود و نصاریٰ اور مشرکین سے ان کی دوستی ہے اور منافقین میں سے یہ نصیریہ اسماعیلیہ اوران جیسے دوسرے ملحدین کے ساتھی ہیں اور ان سے موالات(دوستی) رکھتے ہیں۔
اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ جو لوگ اس طرح کھلے کافروں کے ساتھ رہے اور قافلہ اسلام کے پہلے ہراول دستہ صحابہ کرامؓ کے خلاف دن رات بغض کا لاوا اُگلتے ہیں اور مسلمانوں کی جب کبھی کافروں سے پنجہ آزمائی ہو، وہ شیعہ ان کے ساتھ مل جاتے ہیں اور تاتاریوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی تاریخی تباہی انہی کے ہاتھوں عمل میں آئی اور خلافتِ بغداد انہی کے عمل سے مٹی ہوا،پھر ان کے کفروالحاد( اور اسلام دشمنی ) میں کسی مبصر کو کسی قسم کا شک وتردد نہیں ہوسکتا ہے؟
نہیں تو قرآن کریم کی اس شہادت کو لے لیں اور پھر آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا ان کو مسلمان سمجھا جا سکتا ہے؟
ومن يتولهم منكم فانه منهم: اور تم(دعوائے اسلام کرنے والوں) میں سے جوان سے دوستی رکھے گاوہ انہی میں سے ہے۔
( عبقات جلد 2صفحہ214)
- 42):عام مسلمانوں میں شامل رہنے کی بجائے اپنے لئے مؤمن کا عنوان:
مجالسِ اتحاد میں یہ اپنی صفائی اس طرح دیں گے کہ ہم صحابہ کرامؓ کو مؤمن مانتے تھے،سب اہلِ سنّت و الجماعت کو بھی ہم مسلمان مانتے ہیں کافر نہیں کہتے ۔
میرے محترم قارئین کرام!
شیعوں کے ہاں مؤمن ،مسلمان اور کافر تین درجے ہیں۔ دنیا کے احکام میں ان تینوں میں مسلمانوں اور کافروں کا فرق رہے گا مسلمانوں سے نکاح وغیرہ ہوسکتا ہے کافروں سے نہیں، یہاں مؤمن مسلمانوں کے ساتھ شمار ہوں گے، آخرت میں بھی دو ہی طبقے رہیں گے مؤمن اور کافر،جو مسلمان مؤمن نہیں وہ آخرت میں کافروں کے ساتھ ہی شمار ہوں گے۔ منافق مسلمانوں میں شامل ہونے کی بجائے مؤمن کے عنوان سے اپنا تعارف کراتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا و ماهم بمؤمنین :یہ مومن نہیں ہیں۔ان کا یہ دعویٰ محض ظاہر کے طور پر ہے جو ان کے دل چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں اس سے زیادہ ہے۔
اہلِ سنّت والجماعت کے ہاں احکامِ شریعت کی بناء ظاہر پر ہے اندر کی باتوں پر نہیں۔دنیا میں جو مسلمان مانا جائے گا اسے مؤمن بھی مانا جائے گا اور جو مؤمن مانا جائے وہ مسلمان بھی ہوگا۔لغوی مباحث میں تو ایمان و اسلام میں فرق ہے لیکن دینی اصطلاح میں دونوں ایک ہیں۔ جب یہ دونوں لفظ علیحدہ علیحدہ آئیں تو ایک ہی معنی دیں گے، ہاں ایک جگہ آئیں تو ان میں لغوی پہلو سے تقابل ہوسکے گا۔
مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی عادت:
یہ بات ان کے ذہن میں ہوتی ہے کہ اہلِ سنّت سنت والجماعت مؤمن نہیں ہے لیکن افسروں کے سامنے اپنے کو وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ایک کہنے کیلئے کہیں گے کہ ہم ان کو مسلمان سمجھتے ہیں،ہم سے لکھوا لو لیکن بھولے سے بھی ان کی زبان سے نہ نکلے گا کہ ہم سب مؤمن ہیں،آخرت میں بھی ہم نجات کے مستحق ہوں گے۔یہ دو پہلو والی بات مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے ہے۔
(عبقات جلد 2صفحہ307)
- 43):حضرت مولانا مہر محمد صاحبؒ فرماتے ہیں کہ: دورِ حاضر میں پاکستان اور عالم اسلام کیلیے زبردست خطرہ یہی روافض اور فتنہ خمینیت بن چکا ہے۔ مسلمانوں کو بیدار اور منظم ہونے کی انتہائی ضرورت ہے۔ وگرنہ
نہ جاگو گے تو مٹ جاؤ گے اے سنی مسلمانو!
تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں
(ہزار سوال کاجواب صفحہ27)
- 44):شیعہ مصنف کی کتاب الغیبة کے صفحہ 72 پر لکھا ہے کہ مالک بن اعين جھینی: امام جعفر باقر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ہمارے امام القائم (مہدی منتظر ) سے پہلے بلند ہونے والے ہر جھنڈے کا مالک طاغوت ہے۔ اور شیعہ مصنف مجالسی کی کتاب بحار الانوارجلد8صفحہ53میں ایک روایت ہے،امام صادق کہتے ہیں کہ:اے مفضل ! امام القائم سے پہلے کی جانے والی ہر بیعت کفر و نفاق اور دھو کے پرمبنی ہے۔ بیعت کرنے والے شخص اور بیعت لینے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔
اس لئے شیعوں کی دہشت گرد تنظیم حزب الله، سوائے شیعہ اثناء عشری حکومت کے کسی بھی حکومت کو تسلیم نہیں کرتی اور نہ اس کی اطاعت وفرمان
برداری ضروری سمجھتی ہے۔اور اگر بظاہر ان کی تابعداری کرنی پڑے تو وہ تقیہ پر عمل کرتے ہوئے منافقانہ دھوکہ دہی سے کام لے گی۔
شیعہ کی کتاب (وسائل الشیعه: جلد 1صفحہ 470) میں ابو عبداللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو خط لکھا کہ: اہلِ باطل کے ساتھ ظاہری طور پر خوشگوار تعلقات قائم رکھو، ان کے ظلم وستم کو برداشت کرو،خبردار انہیں گالی گلوچ مت کرنا۔جب تم ان کے ساتھ مجلس قائم کرو تو اپنے باہمی تعلقات میں اپنے دین پر عمل کرو ۔ان کے ساتھ خوشی وغمی کی تقریبات میں شرکت کرو اور جب باہمی گفتگو میں نوک جھوک ہو تو تم تقیہ پر عمل کرو جس کا تمہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ تم اسے اہلِ باطل کے ساتھ تعلقات میں استعمال کرو۔کیونکہ تمہارے لئے ان کی مجالس میں جانا اور ان کے ساتھ تعلقات رکھنا اور گفتگو کرنا ضروری ہے۔
شیعه مصنف: الحر العاملي: نے (وسائل الشيعه:جلد 1 صفحہ 470) میں ایک خصوصی باب ذکر کیا ہے جس کا عنوان ہے عوام کے ساتھ تعلقات میں تقیہ کرنا واجب ہے۔
ابو بصیر، ابوجعفر سے بیان کرتا ہے کہ عوام سے ظاہری اچھے تعلقات قائم رکھو،اور اندر سے ان کی مخالفت کرو، جبکہ بچوں جیسی حکومتیں قائم ہوں۔
اسی کتاب میں آگے لکھا ہے کہ سلطان کی اطاعت تقیہ کرتے ہوئے واجب ہے، پھر اس نے متعددشیعی روایات ذکر کی ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ سلاطین کے ساتھ تقیہ کرتے ہوئے معاملات نبھانا واجب ہے اور اپنے معاملات میں باطنی حالات کے برخلاف عمل کرنا ضروری ہے۔
شیعہ مذہب کا ایک اور عالم جو شہید اوّل کے نام سے معروف ہے وہ التقيه منهج اسلامی نامی کتاب کے صفحہ نمبر 16پر تقیہ کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے کہ:لوگوں کے ساتھ بظاہر رواداری کا سلوک کرنا اور جن امور کووہ ناپسند کرتے ہیں انہیں ترک کر دینا تاکہ لوگوں کے فتنے سے بچا جاسکے۔
خلاصه یہ ہے کہ شیعوں کے نزدیک تمام اسلامی حکومتیں طاغوتی ہیں اور ان کا تختہ الٹنا واجب ہے
تاکہ اُن ممالک میں ایرانی شیعہ کلام کے ماتحت شیعی نظام حکومت قائم کیا جاسکے۔
(حزب اللہ کون ہے صفحہ 114)
- 45): شیعیت کا اصل مقصد اس اصول سے بغاوت کی راہ ہموار کرنا تھا کہ قرآن وسنت اور اعتماد صحابہؓ کی بنیاد پر قائم اس دینِ اسلام میں گمراہی کا راستہ کھولا جا سکے۔اس کے لئے انہوں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس کو تخریبِ اسلام کہا جاتا ہے، اور یہ ان لوگوں میں معیوب فصل بھی نہیں ہے، کیونکہ ان کے مذہب کی تعلیمات بھی اس کے موافق ہیں مثلاً: اصول کافی جلد نمبر2صفحہ 20 پر شیعہ مصنف لکھتا ہے کہ:
حق حکمرانی صرف شیعوں یا ان کے آئمہ کا ہے اور شیعوں کا فرض ہے کہ تمام سنی حکومتوں کو تباہ کرتے رہیں اور اگر انہوں نے ایسا نہ کیا اور سنی حکومت میں اطمینان سے رہے تو خواہ یہ کتنے ہی متقی ہوں عذاب کے مستحق ہوں گے۔
(کشف الحقائق:صفحہ11)
سوال: کیا شیعہ کافر ہیں؟ اگر کافر ہیں تو کیا شیعہ سے دوستی رکھنا ٹھیک ہے؟
جواب:اگر شیعہ حضراتِ شیخین(سیدنا ابوبکرصدیقؓ اور سیدنا فاروقِ اعظمؓ) کو گالیاں دیں اور ان حضرات پر لعن طعن کرتے ہوں اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر تہمت لگاتے ہوں یاسیدناعلیؓ کو معبود سمجھتے ہوں یا یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو وحی پہنچانے کے سلسلے میں غلطی ہوئی تھی تو پھر یہ کافر ہوں گے اور اس صورت حال میں ان سے ولی دوستی رکھنا درست نہیں ہوگا۔
وفي الشامي ان الرافضي اذا كان يسب الشيخين ويلعنهما فهو كافر لاشك في تكفير من قذف السيدة عائشة او انكر صحبة الصديق اواعتقد الالوهية في على اوان جبرئيل غلط في الوحي الخ:(اشرف الفتاوىٰ صفحہ43)
سوال: قرآن کریم کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے کہ کافر مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے ؟
جواب:قرآن مجید کا منشاء یہ ہے کہ مذہبی حیثیت سے کافر کسی مسلمان کا حقیقی دوست اور سچا خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔سماجی یا اقتصادی مزاج و مذاق کی ہم آہنگی اور علاقہ و زبان کی اتحاد کی بنیاد پر تو ایک دوسرے کے ساتھ ذاتی دوستی ہو سکتی ہے لیکن ایک مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان ایمان و کفر کی جو خلیج حائل ہے وہ مذہبی اور فکری سطح پر ایک دوسرے کی دوستی میں ضرور حائل ہوگی۔اس لئے مسلمانوں کو اعتقادی اور تہذیبی اعتبار سے غیر مسلموں کی بہت زیادہ قربت سے بچنا چایئے،ورنہ ان کے لئے نقصان کا اندیشہ ہے ۔ اسی لئے اہلِ علم نے موالات اور مواسات میں فرق کیا ہے۔
كتاب الفتاوىٰ:جلد1صفحہ 138حصه:اوّل)
سوال:شیعہ تبرائی کا اہلِ سنّت والجماعت کے جنازہ میں داخل ہونا جائز ہے یا نہیں اگر داخل ہو جائے تو کوئی نقص ہے یا نہیں؟
جواب:غالی شیعوں کو جنازے میں داخل نہ کرنا چاہیئے۔کیونکہ یہ لوگ جنازہ میں بجائے دعا کرنے کے بد دعا کرتے ہیں۔ان کی کتابوں میں یہی لکھا ہے۔ (فتاویٰ مفتی محمود:جلد1صفحہ 254)
سوال:بعض دفعہ اہلِ تشیع بھی سنیوں کے جنازہ میں آکر شریک ہو جاتے ہیں۔آیا اُن کی یہ شرکت درست ہے؟
جواب: اہلِ تشیع کو شریک نہ کیا جائے۔کتب شیعہ میں لکھا ہے کہ اوّل تو سنی کا جنازہ نہ پڑھا جاۓ اگر بضرورت پڑھنا پڑے تو دعا کے بجائے بدعا کریں شیعہ کی كتاب:تحفةالعوام جلد1صفحہ 138میں ہے کہ اگر سنی خلافِ مذہب ہو اور بضرورت اس کا جنازہ پڑھنا پڑے تو چوتھی تعبیر کے بعد یہ پڑے۔
اے خدا!اس بندے کی میت کو اپنے بندوں اور اپنے شہروں میں ذلیل و رسوا کر، اے خدا! اس بندے کی میت کو جہنم کی آگ میں جلا،اے خدا!اسے سخت ترین عذاب دے،یہ چونکہ سنی میت پر بد دعا کرتے ہیں اس لئے شرکت کی اجازت نہ دی جائے۔
(خير الفتاوىٰ:جلد3 صفحہ304)
سوال:کچھ لوگ اہلِ تشیع کے جنازہ میں شریک ہوئے، امام بھی سنی اور باقی مقتدی بھی سنی تو نماز جنازہ میں کچھ خلل تو واقع نہیں ہوا؟
جواب:شیعہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اوّل تو سنی کا جنازہ نہ پڑھا جائے۔ چنانچہ:تحفة العوام جلد نمبر:1 صفحہ138میں ہے کہ:اگر میت سنی خلاف مذہب ہو اور بضرورت نماز پڑھنا پڑے تو بعد چوتھی تکبیر کے یہ کہے کہ: اے خدا! اس بندے کی میت کو اپنے بندوں اور شہروں میں ذلیل ورسوا کر،اے خدا!اس بندے کی میت کو نارِ جہنم میں جلا، اے خدا! اسے سخت ترین عذاب دے۔چونکہ یہ سنی میت پر بد دعا کرتے ہے، اس لئے شرکت کی اجازت نہ دی جائے۔
(خير الفتاوىٰ:جلد 4 صفحہ 335)
اُمت مسلمہ کے خلاف شیعہ کی بدترین خیانتیں:
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ رافضی شیعہ کی دینی دوستی اور محبت قم کے مذہبی لیڈروں کے ساتھ ہے اور ان کی سیاسی وابستگی صرف اور صرف حکومتِ تہران کے ساتھ ہے۔جس شخص نے ان زہریلے کیڑوں کے اقوال پڑھے سنے ہوں وہ یہ تلخ حقیقت پا لیتا ہے۔
آج میں یہاں پر شیعہ کی بدترین خیانتوں کی طرف اشارہ کروں گا، جو حضرات تفصیل کے خواہشمند ہوں ان کیلئے کتاب کے آخر میں مصادر و مراجع ذکر کروں گا۔لیجئے!شیعہ کی بدترین، تاریخی،اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف خیانتوں کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں:
¹-شیعہ نے سیدنا علیؓ کے خلاف خیانت کی تو سیدنا علیؓ نے ان کی شدید مذمت کی اور ان کے افعال و کردار سے براءت کا اعلان فرمایا ۔
(نهج البلاغه خطبه69 صفح148)
²- سیدناحسنؓ کے ساتھ ان کی خیانت ڈھکی چھپی نہیں،ایک شیعہ نےان کی ران میں زہر آلود خنجر مارا (جس سے بعد میں وہ شہید ہو گئے)۔اور شیعوں نے سیدناحسنؓ کو مذل المؤمنین(مومنوں کو رسواء کرنے والا)کا لقب دیا(معاذ الله)۔کیونکہ سیدناحسنؓ نے اپنے نانا حضرت محمدﷺ کی پشین گوئی کے مطابق مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کروادی تھی، اور سیدنا حسنؓ نے سیدناامیر معاویہؓ سے صلح کر لی تھی،جو شیعوں کو کسی صورت گوارہ نہ تھی۔
(بحارالانوارصفحہ64)
³-سیدناحسینؓ سے ان کی خیانت عالمی شہرت یافتہ ہے۔انہوں نےسیدناحسینؓ کو بے شمار خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی،جب سیدناحسینؓ ان کی دعوت پر کوفہ پہنچ گئے تو انہوں نے آپؓ کی بیعت کی لیکن پھر انہی کے خلاف ہوگئے اور سیدنا حسینؓ کو شہید کر دیا۔اور سیدناحسینؓ نے ان کی بدعہدی اور خیانت معلوم ہونے پر انہیں بد دعا دی تھی۔
⁴-ہارون رشید کے عہدِ حکومت میں شیعہ وزیر علی بن یقطین نے بد دیانتی کرتے ہوئے پانچ سوسنی مسلمانوں پر قید خانے کی چھت گرا کر شہید کر دیا ۔
⁵-فاطمیوں کا عہدِ حکومت اہلِ سنّت کے مذہب کو مٹانے اور شیعہ مذہب کی نشر و اشاعت کے لئے خیانتوں اور بد دیانتوں سے بھرا پڑا ہے۔
⁶-قرامطہ نے حجاج کرام کو شہید کر کے ان کے اموال لوٹ لئے،اس طرح وہ حاجیوں کے خون اور مال کو اپنے لئے حلال سمجھ کر لوٹتے رہے۔
⁷-بوھری فرقے کی خیانتیں اور سنی مسلمانوں پر ان کا ظالمانہ تسلط ۔
⁸-رافضی و زیر مؤید الدین ابی طالب محمد بن احمد علقمی نے سخت بد دیانتی کرتےہوئے تاتاریوں کو عباسی حکومت کے دارالحکومت بغداد میں داخل ہونے میں مدد دی اورمسلمانوں کے قتل و غارت میں شریک ہوا۔
⁹-جب تاتاری مشق میں داخل ہوگئے تو رافضی شیعہ نے ان کی اطاعت قبول کر کے ان کی حکومت میں خدمات سر انجام دیئے
¹⁰- ہلاکو خان جب حلب میں فوجیں لے کر داخل ہوا اور اس نے بے شمار مسلمان شہید کر دیئے تو اس دوران رافضیوں نے ہلاکو خان کی فرمان برداری اختیار کر لی اور اس کے خلاف جنگ سے دست بردار ہوگئے ۔
¹¹-نصیر الدین طوسی رافضی نے سنی مسلمانوں کے قتل و غارت میں بھر پور گھناؤنا کردار ادا کیا مسلمانوں کے اموال قبضے میں لے لیے اور ان کی فکری و نظریاتی میراث کو ختم کرکے رکھ دیا ۔
¹²-شیعہ کی خیانتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے اُمت مسلمہ کے عظیم مجاہد اور ہیرو
صلاح الدین ایوبی صاحب کو قتل کرنے کی کوششیں کیں۔
¹³- شیعہ نے سنی مسلمانوں کی سابقہ حکومت کو ختم کرنے کیلئے عیسائیوں سےمکمل تعاون کیا اور ان کے خفیہ ایجنٹ کا کردار ادا کیا۔
¹⁴-شیعہ اثناء عشریہ امامیہ کی تنظیم امل الشيعه لبنان میں عیسائیوں کے ساتھ مل کر سنی مسلمانوں کے خلاف بد کرداری میں ملوث ہے۔
¹⁵- صفوی شیعی حکومت نے عثمانی حکومت کی یورپ میں فتوحات کا بائیکاٹ کیا اورعثمانی حکومت کے خلاف عیسائیوں کے ساتھ مل کر سازشوں کے کئی جال بنے۔
¹⁶-شیعہ امامیہ خلیجی ممالک میں بے شمار خیانتوں کے مرتکب ہے،جیسا کہ وہ عراق میں عیسائیوں کے ساتھ اتحاد کر کے سنی مسلمانوں کے خلاف مجرمانہ کاروائیاں کر رہے ہیں اور اس میں ان کے علماء جیسے سیستانی اور الحکیم ہیں، ان کی مکمل حمایت انہیں حاصل ہے۔ امریکی سفیر اور عراق میں امریکی حاکم پال بریمر کی کتاب عراق میں فیصلہ کن سال میں شیعہ کے گھناؤنے کردار کے متعلق نہایت خطرناک اعترافات شامل ہیں۔اس نے لکھا کہ کسی طرح عراق کی تباہی اور شکست میں شیعہ امامیہ نے عیسائیوں کا بھر پور ساتھ دیا۔
پال بریمر لکھتا ہے کہ ابھی تک بہت سارے شیعہ امریکیوں پر سخت غضبناک ہیں کہ وہ عراق میں قتل و غارت بند نہیں کر رہا لیکن اس کے باوجود شیعہ قائدین مثلاً:آیة الله العظمى السيستانی وغیرہ نے اپنے پیرکاروں کو عیسائی اتحاد کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ تعاون عراق کو آزاد کرانے کی ابتداء سے ابھی تک جاری ہے اور ہم بھی ان کے تعاون کو کھونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔اسی طرح عراق میں اسلامی انقلاب کی مجلس اعلیٰ کے لیڈر عبدالعزیز الحکم کےبارے میں لکھتا ہے کہ مجھے
عبد العزیز الحکم نے کہا :
جناب سفیر صاحب!آپ نے فرمایا ہے کہ عنقریب اس نئے لشکر کی قیادت فوجی افسر کریں گےتو وہ افسر کون ہوں گے؟میں نے اس کا عر بی لقب لے کر کہا: جناب میر اوعدہ ہے کہ پہلا لشکر کا قائد شیعہ ہوگا۔ یقیناً امریکی اتحادی فوجوں کے سربراہ نے وعدہ پورا کر دیا ۔
پال بریمر مزید لکھتا ہے کہ:السیستانی امریکی افواج کا بڑا قریبی ساتھی ہے لیکن وہ نہیں چاہتا کہ وہ اعلانیہ امریکی فوج کے ساتھ مل کر کام کرے۔اس لیے امریکی لیڈر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس کی امریکی خدمات پر خصوصی شکریہ ادا کرتے ہیں۔
(حزب اللہ کون ہےصفحہ 118)