حبیب السیر مصنفہ غیاث الدین محمد ابنِ ہمام الدین
محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحبحبیب السیر مصنفہ غیاث الدین محمد ابنِ ہمام الدین
"حبیب السیر" کو نجفی شیعی قول مقبول میں کئی ایک مقام پر اہلِ سنت کی معتبر کتاب کے عنوان سے پیش کیا۔ اور دیگر شیعہ مصنفین نے اس کتاب کو اہلِ سنت کی طرف منسوب کیا پھر اس سے اِدھر اُدھر کی لایعنی روایات سے اپنا الّو سیدھا کرنے کی کوشش کی بطور نمونہ کتاب وفاتِ عائشہؓ ملاحظہ ہو۔
کتاب وفاتِ عائشہؓ
ایک دن سیدنا معاویہؓ نے سیدہ عائشہؓ سے کہلا بھیجا کہ آج آپ کی دعوت ہے اور دعوت کا سامان یہ کیا کہ اپنے قیام گاہ میں خفیہ طور سے ایک کنواں کھدوایا۔اور اس کا منہ خس و خاشاک سے بھر دیا۔ اور اس پر ابنوس کی کرسی ڈال دی جب بی بی عائشہؓ اس مکان میں تشریف لائیں تو معاویہؓ نے اس کنویں کی طرف اشارہ کیا کہ اس پر تشریف رکھیں۔ عائشہؓ قدم رکھتی کنویں میں گر پڑیں۔ معاویہؓ نے اس کووئیں کو چونے سے بھروا دیا اور بند کر دیا اور مدینہ واپس آ گئے۔ (حبیب السیر جلد اول جزء سوم صفحہ85 مطبوعہ بمبئی بحوالہ وفاتِ عائشہؓ مصنفہ مرزا یوسف لکھنوئی صفحہ 112)
جواب
"حبیب السیر" کس مذہب سے تعلق رکھنے والی کتاب ہے؟اس کا مصنف کون ہے؟اس کا جواب شیخ آقائے بزرگ شیعی سے سنیے۔
حبیب السیر کا مصنف کٹر متعصّب شیعہ ہے
آقائے بزرگ شیعی کا بیان ہے
الذریعہ
حبیب السیر فی اخبار فراد البشر تاریخ فارسی کبیر فی ثلاث مجلدات لغیاث الدین محمد بن سہام الدین المذعو بخواند میر
جعل جمیع مجلداتہ ضمن مجلد کبیر اولہ (لطائف اخبار لئمالی نثار انبیاء عالی مقدار) الی قولہ بعد الصلوة علی النبیﷺ سیما وصیہ ووارث علمہ وخلیفتہ المکرم بتکریم انا مدینة العلم وعلی بابھاالمشرف بتشریف انت منی بمنزلۃ ھارون موسی مظھرالعجائب ومظھر الغرائب امیرالمؤمنین وامام المسلمین ابوالحسن علی بن ابی طالب الی قولہ بعد عدۃ ابیات فارسیة فی مدیح امیر المؤمنین(ع) اللھم صلی علی المصطفی وعلی المرتضیٰ وسائر الائقة المعصومین ۔۔۔۔۔ولہ ایضامنتحب تاریخ اوصاف ومکارم الاخلاق فی احوال الامیر علی شیر ثم انہ قد ابدی فی ھذاالکتاب الذی ھو اواخرتصانیفہ حسن عقیدتہ بمالم یظھرہ فی تصانیف السابقةعلیہ فانہ ذکر فی اول الجزء الرابع من المجلد الاول ما ترجمتہ بالعربیة ۔(ان الاحادیث النبویة صریحة فی کون الامازة والغرافۃ بعدالنبیﷺمتعلقة بامیرالمومنین (ع) ولایلیق للامامة غیرہ لکن القوم رغبوا عنہ لکثیرۃ من قتل فی جھاد المشرکین من اقربائھم فاعرضو عن الامام بالحق وبایعواابابکر وکان اول من بایعہ عمر)۔ثم ذکر فی اول الجزء الاول من المجلد الثانی کثیرامن فضائل امیر المومنین ومناقبہ واورددلائل علی امامتہ مو ایات القرآن والاحادیث النبویة وکذا ذکر مناقب سائر الائمة الاثنی عشر (ع) باسمائھم والقابھم نظما وکثیرا ولایذکر احدھم الا موصوفا بالامامة وکثیرب ما وصفھم بالعصمة وغیر ذالك مما یعد عند العامة من الغلو والمنکرات الازمات الترک فیما یری من تصانیفھم بل فی جمیع محبوراتھم
(الذریعہ الی تصانیف الشیعہ جلد 6 صفحہ 244تا،247 مطبوعہ بیروت طبع جدید)
ترجمہ
"حبیب السیر" فی اخبار افراد البشر فارسی زبان میں لکھی گئی۔ ایک بہت بڑی تاریخ کی کتاب ہے جس کی تین جلدیں ہیں اسے غیاث الدین محمد بن ہمام الدین نے تصنیف کیا۔ اس کو پھر ایک بہت بڑی جلد میں اکٹھا کر دیا گیا۔ اس کتاب کے شروع میں حضورﷺ پر صلوٰۃ بھیجنے کے بعد یہ کہا خاص کر صلاۃ امام المسلمین امام امیر المومنین حضرت علیؓ بن ابی طالب پر ہوں۔جو حضورﷺ کے وصی اور آپ کے علم کے وارث اور خلیفہ ہیں۔ جن کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے۔ جن کو یہ اعزاز ملا کہ اے علیؓ تو میرے نزدیک یوں ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک ہارون علیہ السلام کا مقام و مرتبہ تھا۔ عجائب وغرائب کے مظہر اور مسلمانوں کے امیر و امام ہیں اس کے بعد بہت فارسی شعروں کے ذریعہ اور نثر کے ساتھ حضرت علیؓ کی تعریف لکھی اور یوں لکھا اللہم صلی علی المصطفیٰ وعلی المرتضیٰ وسائر الائمة المعصومین
اسی مصنف کی ایک اور کتاب بھی ہے جس میں امام امیر عالم سیر کے اخلاق اور کمالات بیان کیے گئے ہیں۔ اور یہ اس کی آخری تصنیف ہے اور اس میں اس نے اپنے عقائد کھل کر بیان کیے ہیں۔ جو اس سے پہلے تصانیف میں صراحت کے ساتھ نظر نہیں آتے جلد اول کی جو جزء رابع میں لکھا کہ یقیناً بہت سی احادیثِ نبویہﷺ اس بات پر صراحت کرتی ہیں کہ حضورﷺ کے بعد امارت اور خلافت سیدنا علیؓ کے لیے تھی۔ ان کے سوا کوئی دوسرا لائقِ امامت نہ تھا۔ لیکن لوگوں نے بے اعتنائی برتی کیونکہ مشرکین کے ساتھ جہاد میں ان کے بہت سے رشتہ دار کام آ گئے تھے۔ امام برحق سے منہ موڑ کر لوگوں نے سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کر لی اور ان کی سب سے پہلی بیعت کرنے والے سیدنا عمرؓ تھے پھر جلد ثانی کی جزء اول میں سیدنا علیؓ کے فضائل و مناقب تحریر کیے اور قرآنِ کریم و احادیثِ نبویہﷺ سے ان کی امامت کے دلائل بھی ذکر کیے ان کے علاوہ بارہ ائمہ معصومین کے بھی فضائل کا تذکرہ کیا۔ ان کے اسمائے گرامی اور القابات کے ذریعے نظم و نثر میں ان صفت امامت و عصمت کا تذکرہ بھی کیا۔اور ان کے علاوہ ان حضرات کے بارے میں کچھ ایسی باتیں بھی ذکر کی ہیں کہ جو غلو اور منکرات میں شامل ہیں ان غلو اور منکرات کے قائل اہلِ سنت ہیں۔ اور ان کی باتوں کا غلو اور منکر ہونا ان کی بہت سی تصانیف میں موجود ہے۔ اور ان کے محاورات بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔
لمحہ فکریہ
صاحب ذریعہ نے حبیب السیر کے مصنف کی بادلائل شیعہ ثابت کیا۔ اور وہ بھی اس کی اپنی عبارت کی روشنی میں مثلاً
1_ سیدنا علیؓ کو وصی رسولﷺ کہا اور خلیفہ بلا فصل کہا۔
2_ سیدنا علیؓ کو ائمہ پر صلوٰۃ و سلام کا شیعی انداز.
3_ امامت اور خلافت کے حقیقی حقدار سیدنا علیؓ تھے.
4_ لوگوں نے حقیقی خلیفہ کو چھوڑ کر سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کر لی.
5_ سیدنا علیؓ کی امامت و خلافت پر دلائل لکھے۔
6_تمام ائمہ اہلِ بیت معصوم تھے۔
7_ان کے فضائل و مناقب میں ایسی باتیں بھی لکھی ہیں جسے سنی "منکرات" میں سے مانتے ہیں۔ ان عقائد و نظریات کا حامل اہلِ سنت کا معتبر عالم کب ہو سکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ حبیب السیر کا مصنف پکا شیعی امامی ہے۔ اب ایسے شخص کی عبارت سے سیدنا امیر معاویہؓ اور سیدہ عائشہؓ کے بارے میں اچھی توقع رکھنا عبث ہے۔ اس لیے نجفی وغیرہ نے سیدنا امیر معاویہؓ کے بارے میں جو یہ اعتراض کیا ہے کہ انہوں نے سیدہ عائشہؓ کو دھوکے سے گڑھے میں گرا کر مارا تھا بالکل ناقابلِ یقین بات ہے یہی اعتراض شیعہ لوگ تقریباً ہر کتاب میں بیان کرتے ہیں اس پر بغلیں بچاتے ہیں۔اور ہم نے اس کی تفصیل بحث مطاعن سیدنا امیر معاویہؓ میں ذکر کر دی ہے۔ اس مقام کے مناسب اس اعتراض کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ یہ اعتراض کسی سنی نے نہیں بلکہ غالی شیعہ نے لکھا ہے لہٰذا اس کا جواب دینا ہمارے ذمہ نہیں ہے کیونکہ اس نے بلا دلیل اپنے بغض کا اظہار کیا ہے۔
فاعتبروایا اولی الابصار