جس نے کسی متقی عالم دین کے پیچھے نماز پڑھی گویا اس نے نبی کے پیچھے نماز پڑھی ۔ (تحقیق)
خادم الحدیث سید محمد عاقب حسینجس نے کسی متقی عالم دین کے پیچھے نماز پڑھی گویا اس نے نبی کے پیچھے نماز پڑھی۔ تحقیق
ان الفاظ کے ساتھ اس کو بطورِ حدیث درج ذیل کتابوں میں روایت کیا گیا:
1: صاحب ہدایہ علامہ مرغینانی حنفیؒ کہتے ہیں:
لقوله ﷺ من صلىٰ خلف عالم تقی فكأنما صلىٰ خلف نبیﷺ۔
آپﷺ نے فرمایا: جس نے کسی عالم دین کے پیچھے نماز پڑھی گویا اس نے نبی کے پیچھے نماز پڑھی۔
(كتاب الهداية فی شرح بداية المبتدی: جلد، 1 صفحہ، 57)
2: صاحب المبسوط علامہ رضی الدین سرخسی حنفیؒ فرماتے ہیں:
لقولهﷺ من صلىٰ خلف عالم تقی فكأنما صلىٰ خلف نبیﷺ۔
(كتاب المبسوط للسرخسی: جلد، 1 صفحہ، 42)
اسی طرح احناف کی درج ذیل کتب میں بھی یہ روایت موجود ہے:
(كتاب حاشية ابنِ عابدين، رد المحتار ط الحلبی: جلد، 1 صفحہ، 562)
(كتاب فتح القدير للكمال ابن الهمام وتكملته ط الحلبی: جلد، 1 صفحہ، 349)
(كتاب المحيط البرهانی فی الفقه النعمانی: جلد، 1 صفحہ، 407)
(كتاب حاشية الطحطاوی على مراقی الفلاح شرح نور الإيضاح: صفحہ، 300)
(كتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوری: جلد، 1صفحہ، 370)
مگر عرض یہ ہے کہ یہ حدیث رسول نہیں بلکہ نبی کریمﷺ پر جھوٹ اور افتراء ہے۔
1: امیر المؤمنین فی الحدیث شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
حديث من صلىٰ خلف عالم تقی فكأنما صلىٰ خلف نبیﷺ لم أجده۔
(كتاب الدراية فی تخريج أحاديث الهداية: جلد، 1 صفحہ، 68)
2: ابو محمد امام بدرالدین عینیؒ فرماتے ہیں:
هذا الحديث غريب ليس فج كتب الحديث۔
(كتاب البناية شرح الهداية: جلد، 2 صفحہ، 331 )
3: امام شمس الدین سخاویؒ فرماتے ہیں:
فلم أقف عليه بهذا اللفظ۔
(كتاب المقاصد الحسنة: صفحہ، 764 )
4: امام ملا علی قاری الحنفیؒ فرماتے ہیں:
حديث من صلىٰ خلف تقی فكأنما صلىٰ خلف نبیﷺ لا أصل له۔
(كتاب المصنوع فی معرفة الحديث الموضوع: صفحہ 344)
اسی طرح درج ذیل کتب میں بھی محدثین نے اس روایت کے بے اصل ہونے پر کتب احادیث میں وجود نہ ہونے پر اور ان کو اس حدیث کے نہ ملنے پر تصریح کی ہے۔
(كتاب تذكرة الموضوعات للفتنی: صفحہ، 40)
(كتاب الفوائد المجموعة: صفحہ، 32)
(كتاب كشف الخفاء ت هنداوی: جلد، 2 صفحہ، 109)
(كتاب نصب الراية: جلد، 2 صفحہ، 26)
(كتاب الأسرار المرفوعة فی الأخبار الموضوعة: صفحہ، 499)
(كتاب التنبيه على مشكلات الهداية: جلد، 2 صفحہ، 607)
اصولِ حدیث کا بڑا مشہور قاعدہ ہے کہ ہر وہ روایت جس کے بارے میں محدثین کرام فرمائے "لا أصل له، لم أقف عليه، لم أجده، لا أعرفه" اور کوئی دوسرا ناقد حدیث ان محدثین کا تعاقب نہ کرے تو اس روایت کی نفی کی جائے گی وہ روایت موضوع اور بے اصل قرار دی جائے گی ملاحظہ ہو:
امام جلال الدین سیوطیؒ اپنی اصول حدیث کی کتاب التدریب الراوی میں نقل کرتے ہیں:
إذ قال الحافظ المطلع الناقد فی حديث: لا أعرفه، اعتمد ذلك فی نفيه، كما ذكر شيخ الإسلام۔
ترجمہ: جب حافظ باخبر ناقد کسی حدیث کے بارے میں کہے
لا أعرفه، لا أصل له، لم اقف عليه، وغیرہ وغیرہ تو اس کی نفی پر اعتماد کیا جائے گا جیسا کہ شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ نے ذکر کیا۔
پھر خود آگے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأما بعد التدوين والرجوع إلى الكتب المصنفة، فيبعد عدم الإطلاع من الحافظ الجهبذ على ما يورده وغيره، فالظاهر عدمه۔
ترجمہ: مگر تدوینِ حدیث کے بعد اور کتب مصنفہ کی مراجعت کے بعد کسی ناقد حافظ کا کسی ذکر کردہ روایت پر مطلع نہ ہونا بعید ہے پس ظاہر یہی ہے کہ اس روایت کا وجود نہیں ہے۔
(كتاب تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: جلد، 1 صفحہ، 349)
ہم اوپر درجنوں محدثین کا کلام اس روایت کے تحت نقل کر آئے جنہوں نے اس روایت پر یہی کلام کیا ہے
لا أصل له، لم أقف عليه، لم أجده،
اور کسی دوسرے محدث نے کسی محدث کے کلام پر تعاقب نہیں کیا لہٰذا اس اصول کی روشنی میں یہ روایت بے اصل و باطل ہے۔
علمِ حدیث کا مشہور قاعدہ ہے کے ہر وہ حدیث جس کا وجود کتبِ احادیث میں نہ ہو حفاظ کے سینوں میں نہ ہو اور وہ ایسے زمانے میں ظاہر ہو جب تدوین حدیث مکمل ہو چکی ہے تو وہ روایت موضوع کہلائے گی۔
امام ابنِ الجوزیؒ م597ھ موضوع حدیث کے قرائن بیان فرماتے ہیں:
إذا رأيت الحديث يباين المعقول أو يخالف المنقول أو يناقض الأصول فاعلم أنه موضوع۔
ترجمہ: جب تم کسی حدیث کو دیکھو کہ وہ معقول کے خلاف ہے یا منقول سے ٹکراتی ہے یا اصول سے مناقص ہے تو جان لو کہ وہ موضوع ہے۔
امام ابنِ جوزیؒ کے اس بیانیہ کو محدثین نے قبول فرمایا لیکن فی الوقت ہمارا تعلق امام ابنِ الجوزیؓ کے بیان کردہ تیسرے قرینہ سے ہے اصول سے مناقص ہونے کا مطلب امام جلال الدین سیوطیؒ بیان فرماتے ہیں:
ومعنىٰ مناقضته للأصول: أن يكون خارجا، عن دواوين الإسلام من المسانيد والكتب المشهورة۔
امام سیوطیؒ فرماتے ہیں اور مناقص اصول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ روایت اسلام کی مشہور کتب احادیث و مسانید سے خارج ہو یعنی ان کتب میں موجود نہ ہو۔
(كتاب الموضوعات لابن الجوزی: جلد، 1 صفحہ، 106)
( كتاب تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: جلد، 1 صفحہ، 327)
امام نور الدین ابنِ عراق الکنانیؓ م963ھ نقل فرماتے ہیں:
ما ذكره الإمام فخر الدين الرازیؒ أن يروی الخبر فی زمن قد استقرئت فيه الأخبار ودونت فيفتش عنه فلا يوجد فج صدور الرجال ولا في بطون الكتب۔
ترجمہ: امام فخر الدین رازیؓ نے جس چیز کا ذکر کیا وہ یہ ہے کہ حدیث اس زمانے میں روایت کی جائے یا ذکر کی جائے جب احادیث کا استقراء کیا جا چکا ہے اور تفتیش کے باوجود نہ محدثین کے سینوں میں ملے اور نہ کتب احادیث میں تو ایسی روایت موضوع ہوتی ہے۔
(كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة: جلد، 1 صفحہ، 7)
زیر بحث روایت کے بارے میں بھی آئمہ کا اوپر واضح کلام نکل کر آئے "لیس فی کتب الحدیث" کہ یہ روایت کتب احادیث میں نہیں اور اسی طرح محدثین کے سینوں میں بھی یہ روایت نہیں جیسا کہ محدثین نے اس روایت کے بے اصل ہونے پر صراحت کی۔
لہٰذا اس اصول سے بھی یہ روایت موضوع ثابت ہوتی ہے۔
یہی اصول فی زمانہ بریلوی مکتبہ فکر اہلِ سنت و الجماعت کے مشہور و معروف عالم مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب نے بھی بیان کیا ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
اس روایت کے جھوٹے اور موضوع ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ کسی حدیث کی معتبر کتاب میں یہ روایت مذکور نہیں۔
(فتویٰ شارح بخاری: جلد، 1 صفحہ، 307)
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ علمِ حدیث کے دو مشہور و معروف اصولوں کے تحت یہ روایت بے اصل و باطل ہے اس کی نسبت نبیﷺ کی طرف کرنا حرام ہے۔
فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی:
مؤرخہ 6 ذوالحجہ 1443ھ۔