Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اہل سنت کے دعویٰ کی تائید میں  چوتھی دلیل: متفق علیہ بین الفریقین روایت

  جعفر صادق

اہل سنت کےدعویٰ کی تائید میں چوتھی دلیل: متفق علیہ بین الفریقین روایت

 اب میں گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے چوتھی  دلیل پیش کر رہا ہوں۔

⬇️⬇️⬇️⬇️

  18 - علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن هشام بن سالم، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: أتى قوم أمير المؤمنين عليه السلام فقالوا: السلام عليك يا ربنا فاستتابهم فلم يتوبوا فحفر لهم حفيرة وأوقد فيها نارا وحفر حفيرة أخرى إلى جانبها وأفضى ما بينهما فلما لم يتوبوا ألقاهم في الحفيرة وأوقد في الحفيرة الأخرى [نارا] حتى ماتوا۔

(اصول کافی ج 7 ص 166)


اس روایت کی توثیق علامہ باقر مجلسی کی مرات العقول

 

  یہی  روایت مختلف اسناد سے شیعہ کتب میں موجود ہے۔

⬇️⬇️⬇️⬇️

محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن ابن أبي عمير، عن هشام بن سالم، عن أبي عبدالله قال: أتي قوم أمير المؤمنين (عليه السلام) فقالوا: السلام عليك يا ربنا، فاستتابهم فلم يتوبوا فحفر لهم حفيرة وأوقد فيها نارا وحفر حفيرة اخرى إلى جانبها وأفضى بينهما، فلما لم يتوبوا ألقاهم في الحفيرة وأوقد في الحفيرة الاخرى حتى ماتوا۔ 

(اصول کافی ج 7 ص 166)

محمد بن یحیی، جس نے احمد بن محمد سے جس نے ابن ابی عمیر سے جس نے ہشام بن سالم سے جس نے امام الصادق علیہ السلام سے روایت کی ، فرمایا کہ کچھ لوگ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا: السلام علیک یا ربنا یعنی آپ پر سلام ہو ہمارے رب! امام علی ع نے ان سے توبہ کروانا چاہی مگر انہوں نے توبہ نہیں کی، توانہوں نے ایک گڑھا کھودا ان کے لئے اور اس کو آگ سے جلایا اور اسکے ساتھ ایک اور گڑھا کھودا اور انکے درمیان فیصلہ کیا، جب انہوں نے توبہ نہیں کی انہوں نے ان کو اس گڑھے میں پھینک دیا اور دوسرے گڑھے کو جلادیا حتیٰ  کہ وہ سب فوت ہو گئے۔

 



یہ روایت متفق علیہ بین الفریقین ہے۔ صحیح بخاری میں بھی ہے۔

⬇️⬇️⬇️

   صحیح بخاری 3017۔ کتاب:جہاد کا بیان،

باب:اللہ کے عذاب ( آگ ) سے کسی کو عذاب نہ کرنا

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، حَرَّقَ قَوْمًا فَبَلَغَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ : لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أُحَرِّقْهُمْ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ ، وَلَقَتَلْتُهُمْ ، كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ ۔

علی رضی اللہ عنہ نے ایک قوم کو ( جو عبداللہ بن سبا کی متبع تھی اور علی رضی اللہ عنہ کو اپنا رب کہتی تھی ) جلا دیا تھا۔ جب یہ خبر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو ملی تو آپ نے کہا کہ اگر میں ہوتا تو کبھی انہیں نہ جلاتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ کے عذاب کی سزا کسی کو نہ دو ‘ البتہ میں انہیں قتل ضرور کرتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص اپنا دین تبدیل کر دے اسے قتل کر دو۔

   صحیح بخاری   6922۔کتاب:باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان۔

مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم ۔

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، قَالَ : أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِزَنَادِقَةٍ ، فَأَحْرَقَهُمْ ، فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ : لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أُحْرِقْهُمْ ، لِنَهْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ ، وَلَقَتَلْتُهُمْ ، لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ ۔

علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ بےدین لوگ لائے گئے۔ آپ نے ان کو جلوا دیا۔ یہ خبر ابن عباس رضی اللہ عنہما کو پہنچی تو انہوں نے کہا اگر میں حاکم ہوتا تو ان کو کبھی نہ جلواتا ( دوسری طرح سے سزا دیتا ) کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ میں جلانے سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آگ اللہ کا عذاب ہے تم اللہ کے عذاب سے کسی کو مت عذاب دو میں ان کو قتل کروا ڈالتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اسلام سے پھر جائے اس کو قتل کر ڈالو۔

  

 

 اس متفق علیہ حدیث سے میرا استدلال وہ عقلی دلائل ہیں جو پہلے بھی پیش کئے جا چکے جنہں آپ نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔

 

 

اگلے ٹرن میں اہل تشیع و اہل سنت کی مزید معتبر کتب اور تاریخ کی کچھ مضبوط روایات بھی پیش کروں گا۔ ان شاء اللہ

شیعہ مناظر رانا  محمد سعید  کی طرف سے آخری ٹرن کا رد کرنے سے فرار 

 گفتگو کا طریقہ تبدیل کرنے کی  کوشش!

 رانا محمد سعید شیعہ : قریشی صاحب!  کچھ باتیں ون ٹو ون کرنی ہیں ۔ ٹرن میں وہ کلئیر نہیں ہو سکتیں ۔ کیونکہ ٹرن میں گفتگو بہت لمبی ہو گئی ہے طرفین سے اور اس طرح بات لمبی ہی چلتی رہے گی ۔آپ اصول مناظرہ کے بھی خلاف جا رہے ہیں اور دعوی کے مطابق طے شدہ شرائط کے بھی خلاف جا رہے ہیں اور شروع سے ہی ایسا کر رہے ہیں۔

دوبارہ سے جھوٹا الزام لگانے پر رانا سعید شیعہ  سے پوچھا گیا کہ یہ  مناظرہ کی تمام شرائط دیکھیں اور بتائیں کہ کس شرط کی خلاف ورزی کی گئی ہے!

 

جعفر صادق: میری طرف سے کہاں اصول مناظرہ کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ نشاندہی کریں۔میں نے طئے شدہ شرائط کی خلاف ورزی کی ہے تو ثابت کریں۔

شیعہ مناظر رانا سعید کی طرف سے  بجائے ان  شرائط کی نشاندھی کرنے کے

ون ٹو ون گفتگو کر کے  کچھ باتیں کلیئر کرنے  کا کہنا!