ینابیع المودة مصنفہ حافظ سلیمان بن ابراہیم قندوزی
محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحبینابیع المودة مصنفہ حافظ سلیمان بن ابراہیم قندوزی
اس کتاب کے پہلے صفحہ پر اس کے مصنف کا نام اور مسلک یوں لکھا گیا ہے "تالیف حافظ سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی" جیسا کہ ہر قاری اس بات سے بخوبی آشنا ہے۔ کہ اہلِ تشیع کے نزدیک اہلِ بیت کے بارہ امام ہیں اور ان کے اقوال و اعمال کو یہ دین سمجھتے ہیں، بارہ اماموں میں سے ہر ایک کی امامت منصوص من اللّٰہ ثابت کرتے ہیں۔ پھر ان بارہ حضرات کے نام کی باری آتی ہے۔ تو اہلِ سنت پر حجت قائم کرنے کے لیے "ینابیع المودة" کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ سہم مسموم اور قول مقبول (جو کہ غلام حسین نجفی کی تالیفات ہیں) وغیرہ میں بیسیوں جگہ اس کتاب کے حوالہ جات نقل کیے گئے ۔ اور ہر جگہ اسے اہلِ سنت کی کتاب کے طور پر لکھا گیا۔ بطور نمونہ ایک اقتباس پیش نظر ہے۔
"نبیﷺ کا فرمان کہ میرے بعد بارہ خلیفے امام اور سردار ہونگے ، اور اہلِ سنت کی معتبر کتاب ینابیع المودة میں یہ ثابت ہے۔
(سہم مسموم صفحہ 60)
جواب:
صاحب بینابیع الموده سلیمان بن ابراہیم کون تھا ؟ اس بارے میں "الذریعہ" کی ایک کسوٹی پیش کر کے ہم پرکھیں گے۔ کسوٹی یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے بارے میں نظریاتی اور عقائد کا اختلاف ہو۔ تو پھر اس کی تحریرات سے اس کا فیصلہ آسان ہو جاتا ہے۔ اس کسوٹی کے پیش نظر ینابیع المودہ سے چند اقتباسات (صرت ترجمہ کی صورت میں) ذیل میں مرقوم ہیں ۔ اس بارے میں تفصیلی شواہد شاہ عبد العزیز صاحب نے تحفہ اثنا عشریہ میں ذکر کر دیئے ہیں۔
صاحب بینابیع المودہ اپنی تحریرات کے آئینہ میں
1۔ سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ جنت کے دروازہ پر یہ کلمہ لکھا ہوا ہے ۔ لا اله الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه على اخر رسول اللّٰه صفحہ 206
2- حضورﷺ فرماتے ہیں۔ شب معراج تمام انبیاء کو جب میرے پاس اکٹھا کیا گیا۔ تو اللّٰه تعالیٰ نے مجھ سے کہا۔ ان سے پوچھئے کہ تمہیں کیوں نبی بنا کر بھیجا گیا ؟ انہوں نے جواب دیا۔ *لا اله الا اللّٰه وحدہ* کی شہادت، آپ کی نبوت کا اقرار اور سیدنا علیؓ ابن ابی طالب کی ولائیت کے اقرار کے لیے ہم مبعوث ہوئے ہیں۔ صفحہ 238
3- جب اللّٰه تعالیٰ نے ارواح سے اپنے رب ہونے کا اقرار لیا۔ تو فرمایا۔ "میں تمہارا رب، محمدﷺ تمہارے نبی اور سیدنا علیؓ المرتضی تم سب کے امیر ہیں"۔صفحہ 248
4۔ حضورﷺ فرماتے ہیں ۔ کہ شب معراج میں نے جنت کے دروازے پر یہ لکھا ہوا دیکھا ۔
لا إلهَ إِلَّا أَنَا مُحَمَّدٌ حَبِيبي مِنْ خَلْقِي أَيَدُتُه بِعَلِي وَزِيرُہ، وَ نَصَرْتُهُ بِهِ.
میرے سوأ کوئی معبود نہیں، محمدﷺ تمام مخلوق سے مجھے زیادہ پیارے ہیں۔ میں نے علیؓ کے ذریعہ اُن کی تائید کی۔ علیؓ اُن کے وزیر ہیں۔ اور علیؓ کے ذریعہ میں نے ان کی مدد کی۔ صفحہ 256
5- جابر جعفی کا کہنا ہے کہ سیدنا باقر نے فرمایا۔ اللّٰہ تعالی نے امامت سیدنا حسینؓ کی اولاد میں رکھی ہے۔ اور ان بارہ اماموں کی حضورﷺ نے صاف نشاندہی فرمائی۔ فرماتے ہیں۔ جب میں آسمانوں پر گیا۔ تو میں نے ان کے ساقِ عرش پر نام لکھے دیکھے۔ نور سے لکھے ہوئے بارہ نام یہ تھے ۔ علیؓ، حسنؓ، حسینؓ، علیؓ، محمدﷺ، جعفرؓ ، موسیٰؒ، علیؒ، محمدؒ ، علیؒ، الحسنؒ ، محمد القائم الحجة المهدیؒ- صفحہ 427
6- وَاللّٰهُ مُتم نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ - کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ امام قائم کے آنے پر سلسلہ امامت کو مکمل فرما دے گا۔ صفحہ 429
7- حضورﷺ نے فرمایا۔ اے علیؓ! لوگوں کے سینوں میں چھپی، چھپی کدورتوں سے ڈر. جنہیں وہ ظاہر نہیں کرتے میرے وصال کے بعد ان کو ظاہر کریں گے ایسے لوگو پر اللّٰہ تعالیٰ اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر آپﷺ رو دیئے۔ اور فرمانے لگے۔ کہ جبرئیلؑ نے مجھے بتایا ہے۔ کہ میرے بعد لوگ تم (علی المرتضیؓ) پر ظلم کریں گے۔ اور یہ سلسلۂ ظلم امام قائم کے ظہور تک رہے گا۔ صفحہ 440
8- سیدنا جابرؓ سے عبایہ بن ربعی روایت کرتا ہے۔ کہ حضورﷺ نے فرمایا ۔ میں سید النبیینﷺ ہوں ۔ اور سیدنا علیؓ سیدالوصیین ہیں میرے وصی میرے بعد بارہ ہوں گے۔ ان میں سے پہلا وصی سیدنا علیؓ اور آخری امام مہدیؒ ہوگا۔ صفحہ 445
9-سیدنا ابن عباسؓ سے روایت کہ انہوں نے حضورﷺ کو یہ کہتے سنا۔ میں ،سیدنا علیؓ سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ اور سیدنا حسینؓ کی اولاد میں سے نو آدمی مطہر اور معصوم ہیں۔صفحہ 445
10- حضورﷺ کی بارہ خلفاء والی حدیث سے مراد بارہ ائمہ اہلِ بیت ہیں ۔ یہ ان خلفاء پر صادق نہیں آتی۔ جنہوں نے آپﷺ کے وصال کے بعد خلافت سنبھالی ۔ کیونکہ وہ بارہ نہیں تھے۔صفحہ 446
لمحة فكريہ
ان دس عدد تحریرات میں صاحب ینابیع المودہ کے نظریات و عقائد کھل کر سامنے آگئے۔ بابِ جنت پر اہلِ تشیع کا کلمہ تحریر ہونا۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کو ولایت سیدنا علی المرتضیؓ کے اقرار کا مکلف کہنا، تمام ارواح سے امارت و ولائیتِ شیر خدا کا اقرار لینا، بارہ خلفاء سے مراد بارہ ائمہ اہلِ بیت نہ کہ خلفائے راشدینؓ وغیرہ، اللّٰہ تعالیٰ کا اپنے نور کا مکمل فرمانے کا مطلب سلسلہ امامت کو مکمل کرنا۔ حضورﷺ کے وصال کے بعد لوگوں (خلفائے ثلاثہؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ) کا سیدنا علی المرتضٰیؓ پر ظلم کرنا،سیدنا علی المرتضٰیؓ کا وصی رسولﷺ ہونا اور ائمہ اہلِ بیت کا معصوم ہوتا یہ نظریات اہلِ سنت کے ہیں؟ نہیں نہیں بلکہ یہ تمام کے تمام عقائد اہلِ تشیع کے ہیں۔ اس کے باوجود صاحب ینابیع المودة سنّی کیونکر ہو گیا۔ اس سے معلوم ہوا۔ کہ اس کے نام کے ساتھ، "حنفی" محض دھوکہ دہی اور فریب کے طور پر لکھا گیا ہے ۔ اس کی اپنی تحریرات سے اس کے نظریات کے بعد آئیے شیعہ محققین سے پوچھیں کہ شیخ سلیمان بن ابراہیم صاحب "ينابیع المودہ" کسی مسلک سے تعلق رکھتا تھا ؟ الذریعہ کی عبارت ملاحظہ ہو۔
صاحب بینابیع الموده شیخ قندوزی تقیه باز شیعہ ہے۔ اور یہ کتاب کتب شیعہ میں سے ہے:
آقا بزرگ شیعی
الذريعة الىٰ تصانيف الشيعه
(ينابيع الموده لذوى القربي) للشيخ سليمان بن ابراهيم الحنفى القندوزي البلخي -النقشبند 1220 - 1294)ط- استانبول 1301 في صفحہ 527 ) ثم في بمبئ على الحجر ثم طهران 1308 وَ بَعْدَهَا مَكَررًا وَالْمُؤَلِف وَإِنْ لَمْ يُعْلَمُ تَشِيعَهُ لٰكِنَّهُ غَنُوصِيَّ وَالْكِتَابُ يُعَدُّ مِنْ كُتُبِ الشَّيْعَةِ أَوَّلَهُ (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اَلَّذِي أَبْدَعَ الْوُجُودَ) وَيَظْهرُ مِنْهُ أَنَّ لَهُ فِي مسَائِلَةٍ مَوَدَّةِ ذوى القُربىٰ كِتَابٌ أَخَرَ سَقَاهُ "مشرق الاكوان.
الذريعة جلد 25 صفحہ 290 مطبوعه بيروت طبع جدید)
ترجمہ ينابيع الموده لذوی القربی ، شیخ سلیمان بن ابراهيم الحنفی ، القندوزی البلخی کی تصنیف ہے۔ جو (1220 - 1294) کو نقشبند میں چھپی 1301 میں استنبول میں، 527 صفحات پر مشتمل چھپی۔ پھر بمبئی اس کے بعد 1308 میں تہران میں چھپی۔ اس کے بعد کئی مرتبہ اس کی اشاعت ہوئی۔ اس کے مصنف کا شیعہ ہونا اگرچہ غیر معلوم ہے۔ لیکن وہ غنوصی ہے۔ اور اس کی کتاب کا شمار کتب شیعہ میں ہی ہوتا ہے۔ کتاب "الحمد لله رب العالمين الذي ابدع الوجود" سے شروع ہوتی ہے۔ اس کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس کی مودة ذوی القربیٰ کے موضوع پر "شرق الاكوان" کے نام سے بھی ایک کتاب ہے۔
جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں۔ کہ کسی مصنف کے نظریات و عقائد معلوم کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک اس کی تصانیف اور دوسرا "مصنفین" کے موضوع اور ان کے عقائد پر لکھی جانے والی کتب. ینابیع المودہ سے دس عدد حوالہ جات اس کے مصنف سلیمان بن ابراہیم کے شیعہ ہونے کی صراحت کرتے ہیں۔ اور معتبر شیعہ علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی نے بھی الذریعہ میں اس کے شیعہ ہونے کو تسلیم کیا ہے ۔ لہٰذا اس مصنف کا اہل سنت میں سے ہر گز شمار نہیں ہو سکتا اور اہلِ سنت حضرات کو اس کی کتب کی عبارات سے پریشان نہ ہونا چاہیے پھر یہ بھی بات قابل غور ہے۔ کہ اگر یہ کتاب اور اس کا مصنف سنی ہے۔
تو پھر اس وقت ایران میں اس کا چھپنا اور کھلے بندوں فروخت ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ کیونکہ خمینی صاحب کے دور میں کسی ایسی کتاب کی اشاعت ہرگز برداشت نہیں کی جاسکتی۔ ان شواہد کی روشنی میں اس کے نظریات و عقائد ڈھکے چھپے نہیں رہ سکتے۔
نوٹ:
"ینابیع المودة" کے اگر ماخذ دیکھے جائیں۔ تو یہ کتابیں نظر آئیں گی۔
- کتاب سلیم بن قیس ہلالی-
- مناقب ابن شہر آشوب۔
- نہج البلاغہ.
یہ تینوں کتب سبھی جانتے ہیں ۔ کہ مسلک شیعہ کی معتبر کتب ہیں۔ اور ینابیع المودة کے راوی موفق بن احمد اور شیخ صدوق کے شیعہ ہونے میں کس کو شک ہے۔ پھر بھی نجفی وغیرہ یہی ہانکے جا رہے ہیں۔ کہ یہ کتاب اہلِ سنت کی معتبر ہے۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی۔