حلیتہ الاولیاء مصنفہ حافظ ابونعیم
محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحبحلیتہ الاولیاء مصنفہ حافظ ابونعیم
حلیتہ الاولیاء کے مصنف کا نام حافظ ابو نعیم ہے۔ اس کے بارے میں کتب شیعہ یہی کہتے ہیں کہ یہ ہمارے مسلک کا مصنف ہے۔ لیکن تقیہ پر پیرا ہو کر اس نے شیعیت چھپائے رکھی۔ اس بنا پر کچھ لوگ اسے اہلِ سنت میں سے سمجھتے ہیں۔ اور پھر سنیت کو بد نام کرنے کے لیے اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ غلام حسین نجفی نے بھی یہی کیا۔ سیدنا عمرؓ بن الخطاب کا اپنے سر پر خاک ڈالنا اس کی کتاب سے ثابت کر کے یہ کہنا چاہا کہ بوقت مصیبت سر پر خاک ڈالنا سنیوں کی کتاب اور ان کے خلیفہ سے بھی ثابت ہے۔ اصل عبارت ملاحظہ ہو۔
ماتم اور صحابہؓ
"وقت مصیبت سر پر خاک ڈالنا سنت سیدنا عمرؓ ہے"
حلية الأولياء:
عَنْ عَقْبه بن عَامِرٍ قَالَ لَمَا طَلَقَ رَسُولُ الله حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ فَبَلَغَ ذَالِكَ عُمَرَ فَوَضَعَ التَّرَابَ عَلَى رَأسِهِ وَجَعَلَ يَقُولُ مَا يَعْبَاءُ اللَّهُ بِعُمَرَ بَعْدَ هٰذا-
(اہلِ سنت کی معتبر کتاب حلیۃ الاولیاء جلد دوم صفحہ نمبر 50 تا 51) سیدہ حفصہؓ بنت عمرؓ
ترجمہ: راوی کہتا ہے۔ کہ جناب نبی کریمﷺ سیدہ حفصہؓ بنت عمرؓ کو طلاق دی۔ اور یہ خبر جناب سیدنا عمرؓ کو پہنچی۔ تو سیدنا عمرؓ نے سر میں خاک ڈالی اور کہنے لگا۔ اب اس کے بعد اللہ کی بارگاہ میں سیدنا عمرؓ کی کوئی آبرو نہیں۔
قارئین۔ بیٹی کی طلاق ایک صدمہ ہے۔ لیکن آلِ نبیﷺ کا گھر جس طرح ویران ہوا۔ اور نواسۂ رسولﷺ سیدنا حسینؓ جس بے دردی سے شہید ہوئے، یہ اہلِ اسلام کے لیے ایک مصیبت عظمیٰ ہے۔ یہ منصف ذرا انصاف فرمائیں کہ سیدہ حفصہؓ کی طلاق پر سیدنا عمرؓ سر میں خاک ڈالیں تو یہ شرعاً جرم نہیں اور اگر سیدنا حسینؓ کی یاد میں ہم خاک ڈالیں تو یہ بدعت ہے۔ ( ماتم اور صحابہؓ صفحہ نمبر 154 155 تصنیف غلام حسین نجفی).
جواب
گزشتہ کتب کے مصنفین کے بارے میں تحقیق کا جو طریقہ ہمارے سامنے ہے۔ حلیتہ الاولیاء اور اس کے مصنف کے نظریات و عقائد معلوم کرنے کے لیے ہم انہی دو طریقوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ پہلے حلیتہ الاولیاء حافظ ابونعیم کے معتقدات خود اس کی تحریروں سے ملاحظہ ہوں۔
محدث ابو نعیم کی شیعہ نواز تحریریں:
در حلیة الاولیاء
حلية الاولياء
عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَا أَنسُ اسْكِبُ لِي وُضُوءا اثُمَ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ قَالَ يَا أَنَّسُ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ عَلَيْكَ مِنْ هَذَا الْبَابِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ. وَسَيِّدُ الْمُسْلِمِينَ وَقَائِدُ غَرَ الْمُحَجَّلِينَ وَخَاتِمُ الْوَصِيِّينَ قَالَ أَنَسٌ قُلْتُ اللَّهُم اجْعَلْهُ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ وَكَتَمْتُهُ إِذْ جَاءَ عَلَى فَقَالَ مَنْ هَذَا يَا أَنَسٍ فَقُلْتُ عَلِيَّ فَقَامَ مُسْتَبْشِرًا فَاعَتْنَقَهُ ثم جَعَلَ يَمْسَحْ عرْقَ وَجْهِهِ بِوَجْهِهِ وَيَمْسَحُ عَرُقَ عَلَى بِوَجْهِهِ قَالَ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللهِ لَقَدْ رَأَيْتُكَ صَنَعْتَ شَيْئًا مَا صَنَعْتَ بِي مِنْ قَبْلُ قَالَ وَمَا يَمْنَعُنِي وَأَنْتَ تُودِى عَنِّي وَ تُسْمِعُهُمْ صَوتِي وَتَبِنُ لَهُمُ مَا اخْتَلَفُوا فِيهِ بَعْدِي رَوَاهُ جابر الجعفي عن ابى الطفيل عن أنس نحوہ
(حلية الاولياء جلد اول صفحہ نمبر 63 تا 64 تذكره على ابن ابي طالب)
ترجمہ: حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ مجھے حضورﷺ نے وضو کے لیے تیاری کا حکم دیا۔ میں نے وضو کا اہتمام کیا۔ آپﷺ نے وضو فرمایا۔ پھر کھڑے ہو کر دو رکعت پڑھیں۔ پھر مجھ سے فرمایا جو سب سے پہلے اس دروازے سے داخل ہو گا۔ وہ امیر المومنین، سید المسلمین اور خاتم الوصیین اور امت کا مسلمہ قائد ہوگا۔ میں نے دل میں ہی کہا۔ اے اللہ! یہ آنے والا انصار میں سے ہو۔ اتنے میں سیدنا علیؓ المرتضٰی تشریف لائے۔ حضورﷺ نے پوچھا کون آیا ہے۔ میں نے عرض کیا۔ علیؓ آئے ہیں۔ آپﷺ خوشی سے کھڑے ہوئے اور ان کو گلے لگا لیا۔ پھر اپنا پسینہ ان کے منہ پر اور ان کا پسینہ اپنے منہ پر ملنے لگے۔ سیدنا علیؓ عنہ نے پوچھا حضورﷺ آج آپ نے میرے ساتھ جو کچھ کیا۔ وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ آپ نے فرمایا۔ ایسا کرنے سے مجھے کوئی چیز کیسے روکتی۔ حالانکہ تم وہ ہو کہ میرا پیغام لوگوں تک پہنچاؤ گے۔ اور میری آواز ان کو سنواؤ گے۔ اور ان کے مابین اختلاف کو واضح کرو گے۔ اس روایت جیسی روایت جابر جعفی نے ابو الطفيل کی سند سے حضرت انسؓ سے ذکر کی ہے۔
نوٹ:
حضورﷺ کی مذکورہ کلام سیدنا علیؓ المرتضٰی کے خلیفہ بلا فصل ہونے کی ایک دلیل ہے۔ اور یہی عقیدہ اہلِ تشیع کا ہے۔ اسی لیے، خاتم الوصیین کا لقب بھی انہیں عطا کیا گیا۔ یعنی حضورﷺ کے قرضہ جات اور آپ کے پاس رکھی گئی امانتوں اور وعدوں کا ایفاء یہ سب سیدنا علیؓ المرتضٰی کی ذمہ داری بنتی تھی لیکن ان پر عمل سیدنا ابوبکرؓ صدیق نے کیا۔ لہٰذا وہ وصیتِ مصطفےٰﷺ کے پورا کرنے والے ٹھہرے۔
سلیمان بن ابراهيم صاحب ینابیع المودۃ نے ایک روایت اپنی کتاب میں درج کر کے اُسے حافظ ابو نعیم کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں۔ کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب مجھے شب معراج آسمانوں کی طرف اٹھایا گیا۔ تو آسمان پرتمام پیغمبر جمع تھے۔ جب میں ان کے پاس پہنچا۔ تو وحی آئی۔ اے محمدﷺ! ان سے ان کی بعثت کا مقصد پوچھئے۔ انہوں نے جواب دیا۔ خدا کی وحدانیت کی گواہی، آپﷺ کی نبوت کا اقرار اور سیدنا علیؓ المرتضٰی کی ولایت کو ماننا یہ ہماری بعثت کا مقصد ہے۔ (ینابیع المودة صفحہ نمبر 337)
حضرات انبیائے کرامؑ سے سیدنا علیؓ المرتضٰی کی امامت و ولایت کا اقرار لیا جانا کس سنی کا عقیدہ ہے؟ اگر حافظ ابونعیم سنی تھا تو اس مضمون کی روایت کیوں کی؟ اور پھر اسے شیرِ مادر سمجھتے ہوئے سلیمان بن ابراہیم نے اسے ینابیع المودۃ میں کیوں ذکر کیا؟
حلية الاولياء:
عَنْ أَبِي بَرْزَهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه ان اللهَ عَهْدَ إِلى عَهْدًا فِي عَلَى فَقُلْتُ يَا رَبِّ بَيِّنُهُ لِي فَقَالَ اسْمَعُ فَقُلْتُ سَمِعْتُ فَقَالَ إِنَّ عَلِيًّا رَايَةَ الْهُدَى وَ إِمَامَ أَوْلِيَائِي وَ نُورَ مَنْ أَطَاعَني
(حلية الاولياء جلد اول صفحه 66 تا 67 مطبوعہ، بيروت)
ترجمہ: ابی برزہ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے سیدنا علیؓ المرتضٰی کے بارے میں ایک عہد لیا۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا اے رب! وہ عہد بیان فرما دو۔ فرمایا، سنو! میں نے کہا سنتا ہوں۔ تو کہا۔ بے شک سیدنا علیؓ المرتضٰی ہدایت کا جھنڈا میرے اولیاء کا امام اور میری اطاعت کا نور ہے۔
اس عبارت سے بھی شیعہ نظریات ٹپک رہے ہیں۔ پیغمبر آخرالزمانﷺ سے سیدنا علیؓ المرتضٰی کے بارے میں عہد لیا جا رہا ہے۔ شائد اسی عہد کے پیشِ نظر مناقب ابن شهر اشوب نے لکھا ہے کہ
"اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اگر تم نے اے محمدﷺ! سیدنا علیؓ المرتضٰی کی ولایت کا اعلان نہ کیا۔ تو میں آپ کو عذاب دوں گا۔"
اب دو سرا طریقہ اپناتے ہوئے ہم ابو نعیم کے متعلق کتب شیعہ سے چند حوالہ جات پیش کرتے ہیں۔ جن میں شیعہ اکابر و محققین نے بالتصریح یہ لکھا ہے کہ حافظ ابو نعیم ہمارا آدمی ہے۔ اور اس کی شیعیت پختہ ہے۔ حوالہ ملاحظہ ہو۔
محدث ابونعیم ملا باقر مجلسی شیعہ کا جد اعلیٰ ہے اور خاندان مجلسی میں ابو نعیم کا تشیع متوارث سے منقول ہے ..شیعہ علماء
الذريعة:
تاريخ اصفهان للحافظ بي نعيم احمد بن عبد الله بن احمد بن اسحاق بن موسى بن مهران الاصفهاني المولود (334) اور 336) والمتوفى 430 كَمَا أَتَحَهُ ابْنُ خُلْكَانَ وَقَبُرُ فِي الأَصْفَهان في ( آب بخشان) قَالَ فِي مَعَالِمِ العلماءِ إِنَّهَ عَامِيٌّ إِلَّا أَنَّ لَهُ مَنْقَبَةُ الْمُطَهِّرِينَ وَ مَرْتَبَهُ الطيبين وَمَا نَزَلَ مِنَ القرآن في أمير المومنين عليه السلام وعن الشيخ البهائي انه أو رد فِي حِلْيَتِهِ مَا يَدُلُّ عَلَى خُلُوصِ وَلَا يُهِ وَ هُوَ الْجدُّ الاعلى لِلْعَلَامَةِ الْمُجْلِي وَحُكِيَ في (الرَّوْضَاتِ) عَنِ الأمير محمد حسين الخواتون آبادى الْجَزَمُ بِتَشَيعه نقْلَا عَنْ آبَائِهِ عَنْهُ.
(الذريعة الى تصانيف الشيعه جلد سوم صفحہ نمبر 232 مطبوعة بيروت طبع جدید)
ترجمہ: تاریخ اصفهان..ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی کی تصنیف اس کا سن پیدائش 334 یا 336 ہے ۔ اور 430 میں انتقال ہوا۔ یہ تاریخ ابن خلکان کی تحقیق کے مطابق ہے۔ اصفہان میں مقام آب بخشان میں اس کی قبر ہے۔ معالم العلماء میں ہے۔ کہ ابو نعیم ایک عام سنی مصنف ہے۔ مگر اہلِ بیت مطہرین کی منقبت و مرتبہ میں دو تصانیف بنام منقبة المطهرين، مرتبۃ الطیبین ہیں۔ اس نے قرآن کریم کی وہ آیات بھی اکٹھی کی ہیں۔ جو سیدنا علیؓ المرتضٰی کی شان میں نازل ہوئیں۔ شیخ بہائی کا کہنا ہے کہ ابو نعیم نے اپنی کتاب حلیۃ الاولیاء میں ایسی باتیں درج کیں ہیں۔ جو اس کی اہلِ بیت سے محبت پر دلالت کرتی ہیں۔ ابونعیم مذکور علامہ مجلسی کا دادا ہے۔ اور "الروضات" میں امیر محمد حسین خاتون آبادی سے حکایت کی گئی ہے کہ ابو نعیم یقیناً اہلِ تشیع میں سے ہے۔ اس کا کٹر شیعہ ہونا اس کے آباؤ اجداد سے منقول ہے۔
اعيان الشيعه
عَنْ رِيَاضِ الْعُلَمَاءِ أَن أَبا نعيم هذا المعروف انه كَانَ مِنْ مُحَدِّثي عُلَمَاءِ أَهْلِ السُّنَّةِ ولكِنَّ سَمَاعِي مِنَ الاسْتَاذِ مُحَمَّد باقر مجلسى أنَّ الظَّاهِرَ كَونُهُ مِنْ عُلَمَاءِ أَصْحَابِنَا وَ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ فِي بَعْضِ فَوَائِدِ سيدنا الامير محمد حسین خاتون آبادی سبطِ العَلَامَةِ محمد باقر المجلسي قال و مِمَّنْ أَطَّلْعَهُ عَلَى تَشَيْعِهِ مِنْ مَشَاهِيْرِ عُلَمَاءِ أَهْلِ السُّنَّةِ هُوَ الْحَافِظُ أَبو نعيم المحدث باصبهان صاحب كتاب حلية الأولِيَاء وَهُوَ من أحدَادِ جَدَى العلامة ضَاعَفَ اللهُ الْعَامَة وقَدْ نَقَلَ جَدَى تَشَيعَهُ عَنْ وَالِدِه عَنْ أَبِيهِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيْهِ إِلَى أَنْ قَالَ وَ لِذَا تَرَى كِتَابَهُ المسمى بحلية الأولياء يَحْتَوى عَلَى أَحَادِيثِ مَنَاقِبِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام مثالاً يُوجَدُ فِي سَائِرِ الْكُتُبِ وَلَمَّا كَانَ الوَلَدُ أَعْرَفُ بِمَذْهَبِ الوَالِدِ منْ كُلِّ اَحَدٍ لَمْ يَبْقَ شَكَ في تَشَيعه وَعَنِ الْمَوْلى نظام الدين القرشى مِن تَلاھنةِ الشيخ البهائي أنَّهُ ذَكَرَة في المقسم الثاني مِنْ كِتَابِ رِجَالِهِ نِظَامُ الْأَقْوَالِ وَقَالَ رَأَيْتُ قَبْرَهُ فِي إِصْبَهَانَ مَكْتُوبًا عَلَيْهِ قَالَ رَسُول الله صلى الله عليه وسلم مكتوب عَلَى سَاقِ الْعَرْشِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ مُحَمَّدُ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَبْدِي وَرَسُولِي وَأَيَّدْتُهُ بِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَوَاہ الشيخ المُؤْمِنَ الحافظ الثِقَةُ الْعَدَلُ ابُو نعيم الخ-
(اعيان الشيعه جلد سوم صفحہ نمبر 7 مطبوعہ بیروت طبع جدید) تذکره ابونعیم
ترجمہ: ریاض العلماء سے منقول ہے کہ ابو نعیم صاحب علیہ الاولیاء اہلِ سنت کے محدثین میں سے تھا۔ لیکن میں نے جو اپنے استاد محمد باقر مجلسی سے سن رکھا ہے وہ یہ ہے کہ ابو نعیم ہمارے علماء میں سے تھا۔ اور روضات الجنات میں امیر محمد حسین خاتون آبادی جو کہ ملا باقر مجلسی کا نواسہ ہے۔ نے کچھ فوائد ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔ اہلِ سنت کے مشہور علماء میں سے جن کے شیعہ ہونے پر مجھے اطلاع ہوئی۔ ان میں سے ایک حافظ ابونعیم محدث اصبہانی ہے جن کی تصنیف حلیۃ الاولیاء ہے۔ ابو نعیم مذکور میرے داد کے اجداد میں سے ہیں۔ میرے دادا نے ان کا شیعہ ہونا اپنے والد اور والد کے والد سے نقل کیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ابو نعیم تک تمام کو شیعہ میں سے کہہ گئے۔ پھر کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ان کی تصنیف حلیۃ الاولیاء میں ایسی احادیث پاتے ہو۔ جو سیدنا علیؓ المرتضٰی کی منقبت میں ہیں۔ یہ احادیث تمہیں دوسرے کسی مصنف کی کتاب میں نہ ملیں گی۔ جب بیٹا اپنے والد کے مذاہب کو سب سے زیادہ بہتر جانتا ہے۔ تو پھر ابو نعیم کے شیعہ ہونے میں قطعا شک نہ رہا۔ نظام الدین قرشی جو کہ شیخ بہائی کے شاگردوں میں سے ہے اس سے منقول ہے کہ میں نے ابونعیم کی اصبہان میں قبر دیکھی۔ اس پر یہ عبارت درج تھی۔
"حضورﷺ نے فرمایا کہ ساق عرش پر لکھا ہوا ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ لاشریک ہے۔ محمدﷺ بن عبد اللہ میرے بندے اور رسول ہیں۔ اور میں نے سیدنا علیؓ المرتضٰی کے ذریعہ ان کی تائید کی"
اسے شیخ حافظ ابو نعیم نے روایت کیا ہے ۔ الخ ۔
ابونعیم کی قبر پر آج بھی شیعوں والا کلمہ لکھا ہے
الكنى والالقاب:
ابو نعيم الأصبهاني مصغر الحافظ احمد بن عبد الله بن احمد بن اسحاق بن موسى بن مهران الاصبهاني من أَعْلَامِ الْمُحَدِّثِينَ وَالرُّوَاةِ وَأَكَابِرِ الْحُفَّاظِ وَالثَّقَاتِ أَخَدَ عَنِ الْافَاضَلِ وَأَخَذُهُ عَنْهُ لَهُ كِتَابٌ حِلْيَةِ أَلا وَلِيَاء وَهُوَ مِنْ أَحْسَنِ الْكُتُبِ كَمَا ذَكَرَهُ ابْنُ خَلْكَانَ وَهُوَ كِتَابٌ مَعْرُوفٌ بَيْنَ أَصْحَابِنَا يَنْقُلُوْنَ عَنْهَ أَخْبَارَ الْمَنَاقِبِ وَلَهُ أَيْضًا كِتَابُ الْأَرْبَعِينَ مِنَ الْأَحَادِيثِ الَّتِي جَمَعَهَا فِي أَمْرِ الْمَهْدِقِ (ع) وَلَهُ تَارِيخ اصْبَهَانِ وَعَنِ الْمَوْلى نظام الدين القرشي تلْمِيذٍ شَيْخنا البهائي أَنَّهُ ذَكَرَ هُذَا الرَّجَلَ فِي الْقِسْمِ الثَّانِي مِنْ كِتَابِ رِجَالِهِ الْمُسَمَّى بِنظِيمِ الْأَقْوَالَ قَالَ وَرَأَيْتُ قَبْرَهُ فِي اصْبَهَانَ وَكَانَ مَكْتُوبًا عَلَيْهِ قَالَ (ص) مَكْتُوبٌ عَلَى سَاقِ الْعَرْشِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ مُحَمَّدُ بْنَ عَبْدِى وَ رَسُولِي أَيَّرْتُهُ بِعَلِي ابْنِ أَبِي طَالِبِ رَوَاهُ الشَّيْخُ الْحَافِظُ الْمُؤْمِنُ الثقة الْعَدَلُ ابُو نُعَيْمِ الخ
(كتاب الكنى والالقاب جلد اول ص 165 تا 166)
(مطبوعه تهران طبع جدید) تذكره ابو نعيم
ترجمہ: ابونعیم اصبہانی حافظ احمد بن عبد اللہ بن احمد اکابر محدثین اور راویوں میں سے ہوا۔ اور بہت بڑا حافظ الحدیث اور ثقہ آدمی تھا اپنے دور کے فاضل علماء سے علم پڑھا۔ اور پھر اس سے پڑھنے والے بھی فاضل ہی ہوئے۔ اس کی ایک تصنیف حلیۃ الاولیاء نامی ہے، ابن خلکان نے اس کو بہترین تصنیف کہا ہے۔ یہ کتاب ہم اہلِ تشیع کے علماء میں معروف و مشہور ہے۔ وہ مناقب کی روایات اسی سے نقل کرتے ہیں۔ ابو نعیم کی ایک اور تصنیف کتاب الاربعین ہے۔ جس میں امام مہدی کے متعلق احادیث کو اس نے جمع کیا ہے تاریخ اصفہان بھی اسی کی تصنیف ہے۔ مولوی نظام الدین شاگرد شیخ بہائی نے ابو نعیم کو کتاب نظام الاقوال میں دوسری قسم کے لوگوں میں درج کیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ میں نے اصبہان میں اس کی قبر کو دیکھا۔ اس پر یہ عبارت درج تھی
"حضورﷺ نے فرمایا ۔ ساق عرش پر یہ کلمہ تحریر ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ لا شریک ہے۔ محمد بن عبد اللہ میرے بندے اور رسول ہیں۔ سیدنا علیؓ المرتضٰی کے ذریعہ میں نے ان کی تائید کی،"
یہ روایت حافظ مومن شیخ ابو نعیم نے ذکر کی ہے
لمحہ فكريہ
کچھ لوگوں نے حافظ ابو نعیم اصفہانی کو سنی علماء میں شمار کیا۔ اور پھر اس کے فضائل اور مناقب بھی ذکر کیے۔ بات دراصل یہ ہے کہ سنیوں میں چونکہ تقیہ منافقت نہیں ہے۔ اس لیے نہ خود کرتے ہیں۔ اور نہ کسی میں بغیر دلیل اس کو ثابت کرتے ہیں ۔ علماء اہلِ سنت نے ابو نعیم کی کتب کو دیکھا۔ ان میں بظاہر کوئی ایسی بات جو اہلِ تشیع اور اہلِ سنت کے مابین فرق کرنے والی ہو نظر نہ آئی۔ اور نہ ہی صحابہ کرامؓ پر تبرہ بازی کی گئی ہو۔ اس بنا پر انہوں نے اسے اپنا سمجھا۔ اس کے برعکس شیعہ مسلک میں "تقیہ" کے بغیر آدمی بے دین ہوتا ہے۔ لا دین لمن لا تقية له- اس لیے انہوں نے تقیہ باز شیعہ علماء اور کھرے سنیوں کے مابین فرق کیا۔ اور تحقیق کے ساتھ دونوں کی نشاندہی کی۔ اس لیے جب اہلِ تشیع کو کوئی ایسی عبارت جو ان کے مقصد و معتقدات کے مطابق ہو نظر آئی۔ تو اس کے قائل کو اپنا کہا۔ اور اہلِ سنت کی روش پر اس کا چلنا اسے بطور تقیہ قرار دیا۔ اس حقیقت کے پیش نظر حافظ ابونعیم کو شیعہ محققین اور علماء نے صاف صاف لکھا کہ یہ دراصل ہمارا آدمی ہے محض تقیہ کی بنا پر سنی بنا ہوا تھا۔ اور ظاہر سنیوں نے اسے سنی ہی کہا۔ اور یہ دھوکہ کچھ شیعہ لوگوں کو بھی ہو گیا۔ اس دھوکہ سے آگاہ کرنے کے لیے ملا باقر مجلسی کے حوالے سے اس کے نواسے نے ابو نعیم کے جدی پشتی شیعہ ہونے کی دلیل پیش کی۔ اور حلیۃ الاولیاء کتاب کو بھی بطور سند پیش کیا۔
حافظ ابو نعیم کے تشیع پر اس کی اپنی عبارات کی گواہی:-
عبارت نمبر 1 حلية الاولياء
حَدٌ ثنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَيْمُونَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بن عَيَّاشٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حُصَيْره عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ جُنَّدَبٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَنَّس أسْكُبُ لِي وَضُوءا) ثُمَّ تَامَ وَصَلَّى رَكْعَتَینِ ثُمَّ قَالَ يَا أَنَسَ أَوَّلُ مَنْ يَدُخُلُ عَلَيْكَ مِنْ هذَا الْبَابِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ سَيِّدُ الْمُسْلِمِينَ وَ قَائِدُ الغُرِ المُحَجَلِينَ وَخَاتِمُ الْوَصِينَ) قَالَ انسَ قُلْتُ اللَّهُمَّ اجْعَلُهُ رَجُلًا مِنَ الأَنْصَارِ وَكَتَمْتُهُ إِذَا جَاءَ عَلَى فَقَالَ مَنْ هَذَا يَا أَنَس فَقُلْتُ عَلَى فَقَامَ مُستبشرا فاعتنقه ثُمَّ جَعَلَ يَمْسَحُ عِرَقَ وَجْهَهُ بِوَجْهِهِ وَيَمْسَحُ عِرْقَ علي بوجهه قَالَ عَلَى يَا رَسُولَ الله لقد رأَيتك صَنَعْتُ شَيًّا مَا صَنَعْتَ لِي مِنَ قَبْلِ : قَالَ وَ مَا يَمْنَعُنِي وَأَنتَ تَوَدِّى عَنِّى وَتَسْمَعُهُمْ صَوتي وَ تَبَيَّنَ لَهُمُ مَا اخْتَلَفُوا فيهِ بَعْدِي ) رواه جابر الجعفي عن ابي الطفيل نحوه .
(حلية الاولياء جلد اول صفحه 63 تا 64)
ترجمه: حضورﷺ نے حضرت انسؓ کو فرمایا۔ میرے لیے وضو کا پانی لاؤ۔ آپ نے وضو فرمایا۔ اور دو رکعتیں ادا کیں۔ پھر کہا: اے انسؓ اب جو شخص اس دروازہ سے تم پر سب سے پہلے داخل ہوگا۔ وہ امیر المؤمنين، سيد المسلین، قائد غیر المجلین اور خاتم الوصیین ہوگا۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں۔ میں نے دل میں کہا۔ اے اللہ! یہ منصب کسی انصاری کو عطا کرنا۔ اچانک سیدنا علیؓ المرتضٰی آگئے حضورﷺ نے پوچھا۔ انس یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا۔ سیدنا علیؓ المرتضٰی ہیں۔ آپﷺ بخوشی کھڑے ہوئے اور ان سے معانقہ کیا۔ پھر ان کے چہرہ کا پسینہ اپنے چہرہ پرملنے لگے۔ سیدنا علیؓ المرتضٰی کا پسینہ اُن کے چہرے پر بہ رہا تھا سیدنا علیؓ المرتضٰی نے عرض کیا۔ یا رسول اللہﷺ! آج آپ میرے ساتھ کچھ ایسا سلوک کر رہے ہیں۔ جو اس سے قبل دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا۔ کیوں نہ کروں کیونکہ تو وہ ہے جو میری طرف سے امانتیں ادا کرے گا۔ میری آواز لوگوں کو سنائے گا۔ اور میرے بعد جس میں لوگ اختلاف کریں گے تم اُسے بیان کرو گے۔ ابوطفیل نے جابر جعفی نے بھی ایسا ہی بیان کیا ہے۔
وضیح
روایت مذکورہ میں "خاتم الوصیین" کے لفظ اہلِ تشیع کے ایک عظیم عقیدہ کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ یہی عقیدہ یہ لوگ اپنی اذان اپنے کلمہ میں ادا کرتے ہیں۔ اور اسی عقیدہ کی بنا پر وہ خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت کرنا ناجائز اور غاصبانہ فعل گردانتے ہیں۔ گویا اس ایک لفظ سے حافظ ابو نعیم نے شیعیت کی بھر پور ترجمانی کر دی ہے پھر شیعہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں۔ کہ سیدنا ابوبکرؓ صدیق کی جبری بیعت کے وقت سیدنا علیؓ المرتضٰی نے بہت زیادہ آہ و بکا کی۔ اور روضہ رسولﷺ سے آواز بھی آئی۔ اس آہ و بکا کے واقعہ کا ذکر ابو نعیم نے و تسمعهم صوت الخ میں کر کے شیعیت کی ہمنوائی کی۔ علاوہ ازیں روایت مذکورہ کے راوی ابراہیم بن میمون اور حارث ابن حصیرہ کٹر شیعہ ہیں۔
ميزان الاعتدال:
ابراهيم بن محمد بن میمون من الجلاء الشيعة
( میزان الاعتدال جلد اول صفحه نمبر 30)
ترجمہ ابراهیم بن محمد بن میمون شیعہ برادری کے بہت بڑے عالم ہیں۔
ميزان الاعتدال
الحارث بن حصيره الازدى من المحترقين بِالْكُوفَةِ فِي التَّشَيعِ وَقَالَ ذَنِي سَأَلْتُ حريرا أرأيت الحارث بن حصيره قَالَ نَعَم رَأَيْتُهُ شَيْخُنَا كَبِيرًا طَوِيلَ السَّكُوتِ يَصِرٌ على أمر عظيم عن الحارث بن حصيره عن زيد بن وهب سمعتُ عَلِيًّا يَقُولُ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَ احَوَهُ رَسُولِهِ لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا کذَابٌ وَ قَالَ أَبُو حَاتِمِ الرَازِئُ هُوَ مِنَ الشَّيْعَةِ الْعِشْقِ
(ميزان الاعتدال جلد اول صفحه 200) حرف حاء
ترجمہ: حارث بن حصیرہ کوفہ کے دل جلے شیعوں میں سے تھا۔ ذینج کہتا ہے میں نے جریر سے پوچھا کیا تو نے حارث بن حصیرہ کو دیکھا ہے۔ کہا ہاں۔ وہ ایک بہت بوڑھا اور بہت زیادہ خاموش آدمی تھا۔ ایک امر عظیم پر اصرار کرتا تھا۔ وہ یہ کہ اس نے علی بن وہب کے واسطہ سے بیان کیا کہ اس نے سیدنا علیؓ المرتضٰی سنا۔ فرماتے تھے۔ میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسولﷺ کا بھائی ہوں۔ یہ بات میرے بعد وہی کہے گا۔ جو بہت بڑا جھوٹا ہو گا۔ ابو حاتم رازی کے بقول حارث بن حصیر بے لگام شیعوں میں سے تھا۔
قارئین کرام! روایت مذکورہ کے دونوں راوی کٹر شیعہ اور بے لگام ہونے کے ساتھ ساتھ حسد و بغض کے مارے بھی ہیں۔ ان کی روایت کسی اہلِ سنت کے لیے کب حجت بن سکتی ہے؟ اگر ابو نعیم میں ان کی ہم نوائی نہ ہوتی۔ اور وہ کٹر اہلِ سنت ہوتا توایسوں کی روایت ذکر نہ کرتا۔ اور اس روایت میں سیدنا علیؓ المرتضٰی کا جو قول پیش کیا گیا۔ وہ حقیقت سے بہت دور ہے جس اعتبار سے سیدنا علیؓ المرتضٰی حضورﷺ کے بھائی ہیں۔ اسی اعتبار سے عبداللہ بن عباسؓ اور فضل بن عباسؓ کا بھی آپ سے یہی رشتہ ہے۔ کیا یہ دونوں اگر اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کا بھائی کہیں تو "کذاب" شمار ہوں گے؟ علاوہ ازیں ابو نعیم نے روایت کے آخر میں اسی روایت کا جابر حنفی سے مروی ہونا بیان بھی کیا۔ اور یہ صاحب اپنے دو ساتھیوں سے بھی چند قدم آگے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
تهذيب التهذيب
وَكَانَ جَابِرُ كَذَّابًا. قال الشعبي الجابر الجابر لَا تَمُوتُ حَتَّى تَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم- قال اما جَعْفِي فَكَانَ وَاللَّهِ كَذَابًا يُؤْمِنُ بِالرَّجعة- وقال ابو يحيى الحماني عن ابي حنيفه مَا لِقَيْتُ فِيمَنْ لَقِيتُ أَكْذَبَ مِن جابر الجعفي. وقال يحي بن يعلى سمعت زائدة يقول جابر الجعفي رافضي يستم اصْحَابَ النبي صلى الله عليه وسلم.. قال المجلي كَانَ ضَعِيفًا يَغْلُو في التشيع..وقال الميونى قلت لا حمد بن خداش أَكَانَ جَابِرٌ يَكْذِب قال إى والله..وقال ابن حبان كان سبانيا مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ الله بن سباء وَكَانَ يَقُولُ إِنَّ عَلِيًّا يَرْجِعُ إِلَى الدُّنْيَا۔
(تهذيب التهذيب جلد دوم صفحه 47 تا 50)
ترجمہ: جابر کذاب ہے شعیبی نے جابر سے کہا۔ تو اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک رسول اللہﷺ پر بہتان نہ باندھ لے۔ کہا کے جعفی وہ تو خدا کی قسم کذاب تھا۔ اور رجعت پر ایمان رکھتا تھا۔ ابو یحییٰ الحمانی نے ابی حنیفہ سے بیان کیا۔ کہ میں نے جابر جعفی ایسا کذاب اور کوئی نہیں دیکھا۔ یحییٰ بن یعلی کا کہنا ہے۔ میں نے زائدہ سے سنا۔ که جابر جعفی رافضی تھا۔ حضورﷺ کے صحابہؓ کو گالی دیا کرتا تھا۔ مجلی کا کہنا ہے۔ ضعیف راوی ہے۔ اور تشیع میں غلو کرتا تھا۔ میمونی نے کہا کہ میں نے احمد بن خداش سے پوچھا کیا جابر جھوٹ بولتا تھا۔ اس نے کہا خدا کی قسم ہاں۔ ابن حبان نے کہا کہ جابر جعفی عبداللہ بن سبا یہودی کے مذہب کا پیرو تھا۔ اور کہا کرتا تھا۔ کہ سیدنا علیؓ المرتضٰی دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔
لمحہ فکریہ
روایت مذکورہ کے جو ذرائع اور واسطے حافظ ابو نعیم نے بیان کیے۔ اُن کے رجال کٹر شیعہ بلکہ کذاب اورسرکار دو عالمﷺ کے اصحاب کو گالی دینے والے لوگ ہیں اور جابر جعفی تو کھلم کھلا عبداللہ بن سباء کا پرچارک ہے۔ اور رجعت علیؓ المرتضٰی کا قائل ہے۔ جو اہلِ تشیع کا ایک اور واضح عقیدہ ہے۔ ابو نعیم نے اس روایت کو ذکر کر کے اس پر کوئی تنقید نہ کی۔ اسی کی رضا مندی کی دلیل ہے۔ لہٰذا ابو نعیم کا تشیع واضح ہے۔ اور تقیہ کا خوگر شیعہ ہونا ظاہر ہے۔
نوٹ
روایت مذکورہ کے آخری الفاظ "قال لعلى أنتَ تُبَینُ لامتي ما اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِی" کے متعلق مستدرک میں یہ مذکور ہے ۔ "قلت بل هو فيما اعتقده من وضع ضرار قال ابن معين كذاب" یعنی علامہ ذہبی کہتے ہیں۔ کہ روایت مذکورہ ضرار کی گھڑی ہوئی ہے۔ اور ابن معین نے اسے کذاب کہا ہے۔ لہٰذا روایت مذکورہ کا آخری حصہ بھی پہلے کی طرح موضوع ہے۔ اگر چہ اول حصہ بالاتفاق موضوع ہے۔
عبارت نمبر 2
قال قال النبي صلى الله عليه وسلم يا على الخصِمُكَ بِالنُّبُوَّةِ وَلَا نُبُوَّةَ بَعْدِي وَتَخْصِمُ النَّاسَ بِسَبْع وَلَا يُحَاكَ فِيهَا أَحَدٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَنْتَ أَوَّلُهُمْ إِيمَانَا بِاللَّهِ وَأَنْهَهُمْ بِعَبْدِ اللَّهِ وَتَقُومَهُمْ بِأَمْرِ اللهِ وَأَقْسَمَهُم بِالسَّوِيَّةِ وَأَعْدَ لَهُمْ فِي الرعیة وَأَبْصَرُهُمْ بِالْقَضِيَةِ وَاعْظَمَهُمْ عِنْدَ اللَّهَ مَزِيَّةً
(حلية الأولياء جلد اول صفحہ نمبر 65 تا 66)
ترجمہ: حضورﷺ نے فرمایا۔ اے علیؓ! میں تیرے ساتھ نبوت کے ساتھ جھگڑا کروں گا۔ اور میرے بعد نبوت نہیں ہے۔ اور تو لوگوں کے ساتھ سات باتوں میں جھگڑا کرے گا۔ اور ان میں کوئی قریشی تیرے ساتھ جھگڑا نہ کرے گا۔ تو اللہ پر ایمان لانے میں، اللہ کا عہد پورا کرنے میں، اللہ کا امر قائم کرنے میں ان سب سے پہلے درجہ پر ہے۔ اور ان میں سے برابر تقسیم کر کرنے، رعیّت میں انصاف کرنے ، فیصلہ کی حقیقت تک رسائی اور اللہ کے نزدیک مرتبہ میں اعلیٰ و افضل ہے۔
توضيح
روایتِ مذکورہ میں جملہ "خصمك بالنبوة"، کا ظاہر معنی تو یہی ہے کہ میں محمدﷺ تیرے ساتھ اے علیؓ نبوت کے ساتھ جھگڑا کروں گا۔ اور المنجد و خیر میں خصم کا معنی یہ بھی کیا گیا ہے ۔ اس کے پیش نظر معنی یہ ہو گا کہ میں تجھ پر بذریعۂ نبوت غالب آجاؤں گا۔ لیکن "ولا نبوۃ بعدی" کا پھر کوئی محل نظر نہیں آتا۔ راقم الحروف نے اس عبارت کا ترجمہ اور مطلب مولوی اختر علی صدر مدرس جامعۃ المنتظر سے پوچھا۔ تو انہوں نے بھی غلبہ کا معنی لیا۔ اور پھر روایت کا مطلب کچھ یوں بیان کیا ۔
اے علیؓ ! بالفرض اگر تو میرے ساتھ نبوت میں جھگڑا کرے تو میں غالب آجاؤں گا۔ لیکن اہلِ علم بخوبی جانتے ہیں۔ کہ اس قسم کا مفروضہ شانِ نبوت کے بھی خلاف ہے۔ اور سیدنا علیؓ المرتضٰی کی مخاصمت بھی وہمِ کفر سے خالی نہیں حقیقیت یہ بھی ہے کہ سیدنا علیؓ المرتضٰی کا درجہ اہلِ تشیع کے ہاں انبیاء کرامؑ سے بڑا ہے۔ بلکہ بقیہ آئمہ اہلِ بیت کا مرتبہ بھی حضرات انبیاء کرامؑ سے ارفع و اعلیٰ ہے۔ اس عقیدہ کے پیشِ نظر مذکورہ روایت کا مفہوم یہ ہوگا کہ سیدنا علیؓ المرتضٰی حضورﷺ سے نبوت میں مخاصمت کریں گے لیکن حضورﷺ ان پر غالب رہیں گے۔ اور سات باتوں میں سیدنا علیؓ المرتضٰی تمام بقیہ انسانوں پر غالب ہیں۔ جبکہ اہلِ تشیع سیدنا علیؓ المرتضٰی میں کچھ ایسی خصوصیات کے معتقد ہیں جو سرکار دو عالمﷺ کو بھی حاصل نہیں۔ تو پھر حضورﷺ سے ان کی مخاصمت کی وجہ بنتی ہے۔ عقائد جعفریہ جلد اول میں کتب شیعہ سے حوالہ جات کے ذریعہ ہم ان خصوصیات سے متعلق تفصیلی بحث کر چکے ہیں۔
بالجملہ مذکورہ عبارت ابونعیم کے تشیع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اور اس روایت کے آخر میں "اعظمهم عند الله مزية"، بھی شیعیت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ کیون سیدنا علیؓ المرتضٰی کا تمام انسانوں سے افضل ہونا جن میں انبیائے کرامؑ بھی شامل ہوں۔ یہ اگرچہ اہلِ تشیع کا عقیدہ ہے۔ لیکن اہلِ سنت کے نزدیک یہ کفریہ عقیدہ ہے۔ اور اگر اس عظمت و افضلیت سے مراد حضورﷺ کے صحابہ کرامؓ سے ہے۔ تو بھی اہلِ سنت کے معتقدات کے خلاف ہے کیونکہ ہمارے عقیدہ کے مطابق صحابہ کرامؓ میں افضلیت سیدنا ابوبکرؓ کو حاصل ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا۔ کہ روایت مذکورہ سے ابونعیم کے تشیع کا ثبوت ملتا ہے۔
میزان الاعتدال
بشار بن ابراهيم- قال العقيلي يروى عن الاوزاعي مَوْضُوعات وقال ابن عدى هُوَ عِنْدِي مِمَّنْ يَضَعُ الْحَدِيثَ وقال ابن حبان كَانَ يَضَعُ الحَدِيث عَلى الثقات وَوَضَعَ نَحوه خالد بن اسماعيل انبانا مالك عن حميد عن انس مطين حدثنا خالد ابن خلد العبدي حدثنا بشر بن ابراهيم الانصاري عن ثور عن خالد بن معدان عن معاذ مرفوعا يَا عَلى أَنَا اخْصِمُ بالنبوة ولانبوة بعدی وَتَخْصِمُ النَّاسَ بِسَبْعٍ أَنْتَ اوْلَهُمْ إِيمَانًا وافهمهم بعهد واقَومَهُمْ بِأَمْرِ اللَّهِ وَاقْسَمْ بالسويَّةِ وَعدْلِهِمْ وَ أَبْصَرُهُمْ بِالْقَضَاءِ وَ أَعْظَمُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ مَزِيَّةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ-
(ميزان الاعتدال جلد اول صفحہ 145، 146)
ترجمہ
بشار بن ابراہیم کے متعلق عقیلی نے کہا کہ یہ امام اوزاعی سے من گھڑت روایتیں بیان کرتا تھا۔ ابن عدی نے اسے من گھڑت احادیث والا بتایا۔ ابن حبان نے کہا کہ یہ ثقہ لوگوں پر من گھڑت احادیث لگاتا تھا۔ ان موضوع روایات میں سے ایک یہ بھی ہے جو خالد بن اسماعیل کی سند سے حضرت انسؓ سے مرفوعاً اس نے ذکر کی جس میں مذکور ہے کہ حضورﷺ نے سیدنا علیؓ المرتضٰی کو فرمایا۔ میں تیرے ساتھ نبوت کے ساتھ جھگڑوں گا۔ الخ
تنقيح المقال:
لَم اقِفُ فِيهِ إِلَّاعَلَى عَدَّ الشيخ - إِيَّاهُ فِي رِجَالِهِ بالعنوان المذكور من اصحاب الباقر عليه السلام ظَاهِرُهُ كَونَهُ إِمَامِيَّا إِلَّا أَنَّ حَالَهُ مَجْهُولٌ۔
(تنقيح المقال جلد اول صفحہ 169)
ترجمہ: میں بشار کے متعلق صرف اتنا جانتا ہوں۔ کہ شیخ نے اسے اپنے رجال میں شمار کیا ہے۔ اور وہ امام باقر کے اصحاب سے ہے۔ لہٰذا اس کا امامی ہونا ظاہر ہے لیکن اس کے تفصیلی حالات معلوم نہیں ہو سکے۔
لمحة فكرية
روایت مذکورہ کو صاحب میزان الاعتدال نے بشار کی خود ساختہ ذکر کیا۔ اور بشار کا معمول ظاہر و باہر ہے کہ ثقہ لوگوں کے نام پر حدیث گھڑ کر لوگوں کو بتایا کرتا تھا۔ عبداللہ مقانی صاحب تنقیح المقال نے اس قدر تسلیم کیا کہ امامی شیعہ ہے۔ اگرچہ اس کی تفصیل سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ بہرحال امام باقرؓ کے اصحاب میں سے ہے۔ لہٰذا ابو نعیم کا ایسے کذاب اور وضاع الحدیث کی روایت کو تنقید و جرح کے بغیر اپنی کتاب میں ذکر کر دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ ابو نعیم کا نظریاتی طور پر اس سے اتفاق کرتا تھا اور اس لیے ابو نعیم کا شمار اہلسنت علماء میں ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔ اور نہ ہی اس کی عبارات اہلسنت کی عبارات کہلانے کی مستحق ہیں۔
عبارت نمبر (3):
حدثنا محمد ابن المظفر ثنا محمد ابن جعفر بن عبد الرحيم حدثنا احمد بن محمد بن يزيد بن سليم ثنا عبد الرحمن بن عمران ابن ليلى اخو محمد بن عمران ابن ليلى اخو محمد بن عمران ثنا يعقوب بن موسى الهاشمي عن ابن أبي رواد عن اسماعيل بن اميه عن عكرمه عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَحْيَى حَيَاتِي وَيَمُوتُ مَمَاتِي وَيَسْكُنُ جَنَّةً عَدْنٍ غرَسَهَا رَبِّي فَلْيُوَالِ عَلِيًّا مِنْ بَعْدِى وَلِيُوَالِ وَلِیهُ وَلْيَقْتَدِ بِالْأَئِمَّةِ مِنْ بَعْدِي فَإِنَّهُمْ عِترَتی خُلِقُوا مِنْ طِينَتِي رُزِقُوا افَهُمَا وَعَلَمَا وَيْلٌ لِلْمُكَذِّبِينَ بِفَضْلِهِمْ مِنْ أُمَّتِي لِلقَاطِعِينَ فِيهِمْ صِلَتِي لَا أَنَا لَهُ اللهُ شَفَاعَتِي
(حلیۃ الاولياء صفحہ نمبر 86 جلد نمبر 1)
ترجمہ: محمد بن مظفر اپنے واسطوں سے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتا ہے۔ کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ جو خوشی سے یہ چاہتا ہو کہ میری زندگی جئے، میری موت مرے اور جنت عدن میں سکونت رکھے۔ جسے میرے رب نے تیار کیا ہے تو اسے چاہے کہ میرے بعد سیدنا علیؓ المرتضٰی سے محبت کرے۔ اور اس کے ولی سے محبت کرے. میرے بعد ائمہ کی اقتداد کرے۔ کیونکہ وہ میری عترت ہیں میرے خمیر سے پیدا کیے گئے اور وافر فہم و علم کے مالک ہیں۔ اور جو لوگ ان کے فضل کی تکذیب کرنے والے ہیں۔ ان کے لیے بربادی ہے اور جوان میں میری صلہ رحمی کاٹنے والے ہیں ان کے لیے بھی بربادی اور ان کو اللہ تعالیٰ میری شفاعت سےمحروم رکھے گا۔
توضیح
حافظ ابو نعیم نے اس روایت میں سیدنا علیؓ المرتضٰی اور ائمہ اہلِ بیت سے دوستی اور محبت رکھنے کا جو ذکر کیا۔ اسے اہلِ تشیع بڑے طمطراق سے بیان کرتے ہیں۔ کیونکہ ان حضرات کی افضلیت کے منکر کو آپ کی شفاعت سے محرومی کی وعید دی گئی۔ اور اس کے برخلاف محبِ علیؓ و ائمہ اہلِ بیت کے لیے بہت سے اخروی مدارج و مقامات بیان کیے گئے ہیں۔ اہلِ تشیع کی کتب میں لکھا ہے۔ کہ حضورﷺ نے اپنی امت کو قبل از وقت آگاہ کر دیا تھا۔ کہ میرے وصال کے بعد لوگ میری جانشینی میں جھگڑیں گے۔ لہٰذا سیدنا علیؓ المرتضٰی سے موالات کا مظاہرہ کرنا۔ اور مخالفین کا ساتھ نہ دینا۔ اور خلافت بلا فصل، سیدنا علیؓ المرتضٰی کے لیے سمجھنا۔ اور پھر جب سیدنا علیؓ المرتضٰی اس دار فانی سے تشریف لے جائیں۔ تو ان کی اولاد کو ہی افضلیت کا مستحق سمجھنا۔ ان کی ہی اقتداد کرنا۔ اور یہی کچھ حافظ ابو نعیم بھی دبی زبان سے کہہ رہا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ کہ اہلِ سنت جن کو خلیفہ اول ، دوم، سوم تسلیم کرتے ہیں۔ یہ در اصل سیدنا علیؓ المرتضٰی کی فضیلت کے جھٹلانے والے ہیں۔ اور حضورﷺ کی صلہ رحمی کا خیال نہ رکھنے والے ہیں۔ اور آپﷺ کی شفاعت سے محروم ہیں۔ اس لیے یہ لوگ غاصب، ظالم اور باغی قرار پائے (معاذ اللہ) بہر حال حافظ ابو نعیم کی ان عبارات کی روشنی میں کوئی بھی اہلِ سنت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ لہٰذا ان کی عبارات ہم اہلِ سنت پر حجت نہیں ہو سکتیں۔ کیونکہ ان کا تشیع ظاہر اور تقیہ مخفی ہے۔ علاوہ ازیں روایت مذکورہ کے سب سے پہلے راوی محمد بن مظفر کے متعلق علامہ ذہبی فرماتے ہیں۔
میزان الاعتدال:
"إِنَّ أَبَا الْوَلِيدَ قَالَ فِيهِ تَشيعُ ظَاهِر" يعني ابو الوليد نے کہا۔ کہ محمد بن مظفر میں تشیع بالکل واضح ہے۔
(ميزان الاعتدال جلد سوم صفحہ نمبر 138)
اسی طرح ایک اور راوی عبد الرحمن بن عمران ہے۔ اس کے بارے میں صاحب تنقیح المقال رقمطراز ہے۔
تنقيح المقال:
وَالْإِسْنَادُ جَمَاعَةٍ عَنْ ابی الْمُفَضَّلُ عَنْ حَمِيدٍ وَظَاهِرُهُمَا كَوْنُهُ إِمَامَيًّا-
(تنقيح المقال جلد دوم صفحہ 146 من البواب الدين)
ترجمہ: جماعت کا اسناد ابی مفضل سے کہ حمید سے مروی ہے اور ظاہر دونوں سے یہ ہے کہ وہ امامی ہے۔
قارئین کرام! خلافت بلافصل اور امامت ائمہ اہلِ بیت کا عقیده جواب تشیع کا معروف و مشہور عقیدہ ہے۔ حافظ ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں اسے بیان کیا۔ اور پھر اس کے دو راوی خود شیعہ امامی ہیں۔ ان کی روایت کردہ حدیث پر کوئی اعتراض یا جرح نہیں کی۔ اب ایسے شخص کو غلام حسین نجفی وغیرہ اہلِ سنت کا بڑا عالم کہہ کر اس کے حوالہ جات پیش کریں۔ اور پھر انہیں ہمارے خلاف بطور حجت بیان کریں اس کو کون ذی ہوش تسلیم کرے گا۔ اسی عبارت کو سامنے رکھ کر غلام حسین نجفی نے حافظ ابونعیم کے بقول یہ ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کی۔ کہ معاذاللہ خلفائے ثلاثہؓ کو ہم شیعہ ہی غاصب ظالم نہیں کہتے بلکہ سنیوں کا ایک بہت بڑا عالم بھی یہی کہہ رہاہے۔ جب ابو نعیم میں خود تشیع بھرا پڑا ہے۔ تو پھر اس کی عبارات سے اہلِ سنت پر حجت قائم کرنا کس طرح درست قرار دیا جا سکتا ہے۔
عبارت 4 ينابيع المودة:
عن ابى هريرة رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لَمَّا أَسْرِى بي فِي لَيْلَةِ الْمُعْرَاجِ فَاجْتَمَعَ عَلَى الْأَنْبِيَاءُ فِي السَّمَاءِ فَأَوَحَى اللَّهُ الی يَا مُحَمَّدُ بِمَاذَا بُعِثْتُمْ فَقَالُوا بُعِثْنَا عَلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ وَعَلَى الْإِقْرَارِ بِنَبُوتِكَ وَ الْوَلَايَةِ لِعَلِّي بن أبي طالب- رواه الحافظ ابو نعیم (ينابيع المودة صفحہ نمبر 238) تذکرہ فضائل اہلِ بیت
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کہ حضورﷺ نے فرمایا۔ جب مجھے معراج کی رات سیر کرائی گئی ۔ تو میرے پاس انبیاء کرامؑ جمع ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی۔ اے محمدﷺ کس کے ساتھ تمہیں مبعوث کیا گیا ۔ سب انبیاء کرامؑ بولے لا اله الا الله وحدہ کی گواہی دینے کے ساتھ بھیجا گیا۔ اور حضورﷺ کی نبوت کے اقرار پر اور سیدنا علیؓ المرتضٰی بن ابی طالب کی ولائیت کے اقرار پر بھیجا گیا۔
لمحہ فكريہ:
مذکورہ عبارت حافظ ابو نعیم سے سلیمان بن ابراہیم نے نقل کی اس میں عقائد شیعہ کی صراحتہ ترجمانی کی گئی ہے۔ کیونکہ اہلِ تشیع کی کتب میں موجود ہے کہ انبیائے کرامؑ کی تشریف آوری تین باتوں پر موقوف تھی توحید باری تعالیٰ ، رسالت محمدﷺ اور ولایت سیدنا علیؓ المرتضٰی اور یہ عقیدہ کسی سنی کا ہرگز نہیں۔ نہ ہوا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ اس عبارت سے بھی حافظ ابونعیم میں تشیع کے پائے جانے کا اظہار ہو رہا ہے۔
آخری گزارش
حافظ ابو نعیم کے بارے میں اہلِ سنت کی کتب اسماء الرجال میں کوئی جرح نہیں کی گئی۔ جس کیوجہ سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ حافظ ابونعیم بھی صحیح العقیدہ سنی ہیں۔ اور ان میں رفض و شیعیت نام تک سے بھی نہیں۔ لہٰذا جو لوگ ان پر تشیع کا الزام دھرتے ہیں یہ درست نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ ہماری کتب اسماء الرجال میں واقعی ان پر جرح نہیں کی لیکن خود شیعہ کتب میں انہیں بہترین تقیہ باز شیعہ کہا ہے۔ اور ان کے اس قول کی تائید خود حافظ ابو نعیم کی کتب کی عبارات بھی کرتی ہیں۔ جن میں سے چند بطور نمونہ ہم نے ذکر کیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان میں تشیع بہرحال موجود تھا۔ اس لیے ان کی تصنیفات کے حوالہ جات کو وہ اہلِ سنت کی معتبر کتاب کے عنوان سے پیش کرنا ہمارے خلاف کوئی حجت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ٹھیک ہے حافظ ابو نعیم نے کچھ صحابہ کرامؓ کی بھی تعریف لکھی ہے لیکن اس سے ان کا تشیع ختم نہیں ہو جاتا۔ کیونکہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو خلفائے ثلاثہؓ پر لعن طعن نہیں کرتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ رافضیوں کے غلط نظریات کی تردید کرنے کے لیے بھی تیار نہیں مختصر یہ کہ حافظ ابو نعیم اگرچہ بظاہر اہلِ سنت کا فرد ہے۔ لیکن اس کی وہ عبارات جن میں تشیع ہے وہ ہم پر ہرگز حجت نہیں۔
اسی طرح صاحب اعیان الشیعہ ابو نعیم کے شیعہ ہونے پر یہ دلیل پیش کی کہ شیخ بہائی کے شاگرد نظام الدین شیعہ نے اسے علماء شیعہ کی قسم ثانی میں ذکر کیا ہے۔ اور اس بارے میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ابونعیم کی قبر پر وہی کلمہ لکھا ہوا ہے۔ جو اہلِ تشیع کا مروج ہے۔ ان تمام دلائل و شواہد سے منہ موڑ کر نجفی وغیرہ کا اسے سنی اور اس کی کتاب حلیةل الاولیاء کو اہلِ سنت کی معتبر کتاب لکھنا کسی قدر فریب ہے؟
دوسری طرف ہمارے علماء نے ابو نعیم کی روایات کو بوجہ کثرت موضوعات نا قابل اعتبار کہا ہے۔ جیسا کہ لسان المیزان میں مذکور ہے۔
لسان الميزان:
لَا أَعْلَمُ لَهُمَا ذَنبًا أَكْبَرَ مِنْ رِوَايَتِهِمَا المَوْضُوعَاتِ سَاكِتِينَ عَنْهَا
(لسان الميزان صفحہ نمبر 201 جلد اول) تذکرہ احمد بن عبد الله الحافظ ابو نعیم)
ترجمہ: ان دونوں (ابو نعیم و ابن مندہ) کا سب سے بڑا جرم میرے نزدیک یہ ہے کہ ان دونوں نے موضوع روایات اپنی کتب میں ذکر کیں۔ اور پھر ان پر خاموشی اختیار کی ۔ اب جبکہ علماء شیعہ ابو نعیم کو بالدلائل اہلِ تشیع میں شامل کریں۔ اور پھر ان کی روایات میں موضوعات کی بہتات بھی ہو۔ تو پھر کس اعتبار سے ابو نعیم کی کوئی روایات قابل استدلال ہو سکتی ہے؟ معلوم یہ ہوتا ہے کہ ابو نعیم نے موضوعات وہی درج کیں۔ جو مسلک شیعہ کی مؤید ہیں۔ اور اس کی طرف اعیان الشیعہ میں امیر خاتون آبادی کا قول اشارہ کر رہا ہے "حلیۃ الاولیاء" میں سیدنا علیؓ المرتضٰی کے مناقب میں ایسی احادیث موجود ہیں۔ جو کسی دوسری کتاب میں نہیں مل سکتیں.
فاعتبروا یا اولی الابصار
مصنف کی طرف سے حافظ ابونعیم کے بارے میں ایک تاویل
حافظ ابونعیم کے بارے میں ہم نے تفصیلی بحث کرتے ہوئے ثابت کیا تھا کہ اس میں تشیع موجود ہے۔ جس کی دلیل مختصر یہ تھی کہ ملاباقر مجلسی (مشہور شیعہ محقق) کے اجداد میں سے ابونعیم ہے۔ اور اسی طرح محمد حسین خاتون آبادی شیعی کا بھی یہ دعوی ہے۔ کہ ابو نعیم میرے دادا کے اجداد میں سے ہے ۔وَقَد نَقَلَ جَدَى تَشَيْعَهُ عَن وَالِدِهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ اٰبائِهِ حتى انتهى اليه قَالَ هُوَ مِن مَشَاهِيرٍ مُحَدثی الْعَامَةِ ظَاهِرًا إِلَّا أَنَّهُ مِنْ خُلَصِ الشَّيعَة في باطن أمرہ
(ایان الشیعہ جلد سوم صفحہ 7)
میرے آباء و اجداد میں منقول ہے کہ ابو نعیم بظاہر اہلِ سنت کے مشہور محدث ہوئے ہیں لیکن در حقیقت وہ خالص شیعہ تھے ۔ چونکہ یہ دونوں افراد حافظ ابونعیمؒ کے خاندان کے افراد ہیں۔ ان کے کہنے کے مطابق ہم نے ابو نعیم میں شیعیت کا اثبات کیا۔ کیونکہ گھر والے اپنے اندرون خانہ کے حالات دوسروں کی بہ نسبت بہتر اور صحیح جانتے ہیں ۔ لیکن راقم الحروف پچھلے دنوں جب حرمین طیبین کی زیارت کے لیے وہاں پہنچا تو مجھے حافظ ابونعیم کی ایک کتاب ملی جس کا نام "الامامه والرد علی الرافضہ" ہے ۔ اس کتاب کے مقدمہ میں ڈاکٹر علی بن محمد بن ناصر نے بھی یہی کچھ لکھا۔ جو ہم بیان کر چکے ہیں ۔ (ملاحظہ ہو اس کتاب کا صفحہ نمبر 161) اس کتاب میں حافظ ابو نعیم کے (جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے، خلفائے ثلاثہؓ پر کیے گئے شیعوں کے بہت سے اعتراضات کارد فرمایا ۔ اور تحقیقی جوابات دیئے۔ جن کو ہم اپنی تصنیفت تحفہ جعفریہ کی پانچ جلدوں میں تفصیل سے پہلے ہی بیان کر چکے ہیں۔ اس نئی کتاب کو دیکھ کر میرے ذہن میں فوراً ایک تاویل آئی ۔ وہ یہ کہ ملا باقر مجلسی اور محمد حسین خاتون آبادی چونکہ حافظ ابو نعیم کی اولاد میں سے ہیں۔ انہوں نے خواہ مخواہ تقیہ کا سہارا لے کر حافظ ابو نعیم کو بھی اپنے مسلک کا پیرو لکھ دیا ہو کیونکہ ممکن ہے یہ دونوں اسے عار و شرم محسوس کرتے ہوں کہ کوئی انہیں کہے کہ تم شیعہ بنے بیٹھے ہو۔ دیکھو تمہارا دادا عظیم محدث حافظ ابو نعیم کٹر سنی تھا۔ پھر جب اس پر ان دونوں کو یہ کہا جائے کہ تم سنیوں کو کتے اور سور سے بھی برا سمجھتے ہو۔ تو بتاؤ تمہارا اپنے دادا حافظ ابونعیم کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیونکہ وہ اہلِ سنت سے تعلق رکھتا تھا۔ اگر واقعی سنی تمہارے نزدیک ایسے ہی ہیں۔ تو پھر تم ان لوگوں کی اولاد ہو۔ جو کتے اور سور سے بدتر ہیں۔ علاوہ ازیں جب شیعہ لوگ سنیوں کو کنجریوں کی اولاد بھی کہتے ہیں ۔ تو ان دونوں پر یہ الزام بھی آتا تھا۔ کہ تم خود بھی ایک سنی کی اولاد ہونے کی وجہ سے زندیق ہو۔ ان تمام لوازمات و اعتراضات سے بچنے کے لیے انہوں نے حافظ ابونعیم کو خواہ مخواہ شیعہ بنا دیا ہو۔ گویا یہ سب کچھ اپنی ہی ذہنی اختراع ہے۔ اور اپنے آپ کو بچانے اور بدنامی سے دور رہنے کے لیے اپنے دادا کو بھی اپنے نظریات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ حافظ ابو نعیم کی مذکور کتاب الامامہ والرد علی الرافضہ، میں خلفائے ثلاثہؓ کی شان میں بہت سی روایات مذکور ہیں، ہم ان میں سے چند احادیث بطور مثال درج ذیل کر رہے ہیں۔ ان سے آپ حافظ ابو نعیم کے بارے میں مذکورہ تأویل کی تائید کریں گے۔
خلفائے ثلاثہؓ کے فضائل میں حافظ ابو نعیم کی ذکر کردہ چند روایات
1. سیدنا صدیق اکبرؓ کی شان میں احادیث
الامامة
عن ابي عثمانؓ حدثني عمرو ابن العاصؓ ان رسول اللهﷺ واله واصحابه وسلم بعثہ على جيش ذات السلاسل فلما أتيته قُلْتُ أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ ، عَاٸشةؓ قُلْتُ مِنَ الرِّجَالِ قَالَ أَبُوهَا قَالَ ثم عَدَ رِجَالاً
(كتاب الامامة والرد على الرفضة صفحہ 227 مكتبة العلم والحكم مدينه منوره)
ترجمہ: سیدنا ابو عثمانؓ سے روایت ہے کہ مجھے عمرو ابن العاصؓ نے حدیث بتائی بے شک رسول اللہﷺنے انہیں ذات سلاسل کے لشکر کا سردار بنا کر بھیجا۔ اس میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر بن خطابؓ بھی تھے، مجھے سپہ سالار مقرر کرنے پر مجھے خیال آیا ۔رسولﷺ کے نزدیک میں ان سے بھی زیادہ محبوب ہوں، میں نے عرض کیا۔ یا رسولﷺ ! آپ کو سب سے زیادہ کون پسند ہے؟ فرمایا سیدہ عائشہؓ میں نے عرض کیا مردوں میں سے؟ فرمایا اس کا والد آپ نے پھر کچھ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا بھی نام لیا۔
2: الإمامة :
عن عمرو ابن عتبهؓ قَالَ اتيت رسول الله ﷺ واله اصحابه وسلم أَوَّلَ مَا بَعَثَ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ مُسْتَخْفِ فَقُلْتُ فَمَن مَعَكَ عَلَى هَذَا الْأَمْرَ قَالَ حُرَّ وَ عبد يعني أبا بكرؓ و بلالؓ
(الامامة والرد على الرفضة صفحہ 231)
ترجمہ: سیدنا عمر بن عتبہؓ کہتے ہیں۔ کہ میں رسول کریمﷺکے پاس بعثت مبارکہ کے ابتدائی دور میں حاضر ہوا ۔ جبکہ آپ چھپے تھے۔ میں نے عرض کیا آپﷺ کے ساتھ کون کون اس وقت ہیں ؟ فرمایا ۔ ایک آزاد اور ایک غلام یعنی سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا بلالؓ -
3: الامامة :
عن طلحةؓ بن مصرف قال سألت عبد الله بن ابي اوفي هَلْ کانَ رسول الله ﷺ واله واصحابه وسلم أوصى ؟ قَالَ لا - فَكَتَبَ عَلَى المسلمين أوامر المسلمين بِالْوَصِيَّةِ وَلَمُ يُوصِ - قَالَ أَوْصَى بِكِتَابِ الله
( الامامة صفحہ 233)
ترجمہ: طلحہ بن مصرفؓ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفیؓ سے پوچھا کیا سرکار دو عالمﷺ نے آخری وقت کوئی وصیت فرمائی تھی ؟ فرمایا نہیں۔ آپ نے مسلمانوں کو تو وصیت کرنے کاحکم دیا ۔ خود وصیت نہ فرمائی۔ فرمایا آپ نے کتاب اللہ وصیت فرمائی تھی ۔
4: الامامة :
عن عروة عن عائشةؓ وعن ابيهاﷺ وصلى الله تعالى عَلَى بَعْلِهَا وَ نَبِیهَا قَالَتْ دخل رسول اللهﷺ واله واصحابه وسلم في اليوم الذي بَدَا فِيهِ فَقَالَ ادْعِي لِي أَبَاكَ وَأَخَاكَ (حتى) اكْتُبُ لابِي بَكْرِؓ كِتَابًا فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ (وَيَتَمَنَی) ممَن وَيَابَي الله والمؤمنون إلا ابا بكرؓ -
( الامامة والرد على الرافضہ صفحہ 249 تا 250 خلافت امیر المومنینؓ ابوبكرصديقؓ مكتبة مدينة المنورة)
ترجمہ:
سیدہ عائشہؓ سے سیدنا عروہؓ بیان کرتے ہیں فرماتی ہیں ۔ کہ جب حضورﷺ کے وصال شریف کے لمحات قریب آئے۔ تو آپﷺ نے فرمایا ۔ اپنے والد اور بھائی کو بلاؤ حتٰی کہ میں ابوبکرؓ کے لیے کچھ تحریر لکھوں ۔ مجھے خوف ہے کہ کوئی کہنے والا کہے گا۔ اور کوئی آرزو رکھنے والا آرزو کرے گا۔ اور اللہ اور تمام مومن اس کا انکار کریں گے ۔ مگر اللہ تعالی اور تمام مومن سیدنا ابو بکرؓ کا انکار نہیں کرتے۔
سیدنا عمر بن خطابؓ کی شان میں احادیث:
1: الامامة :
عن عمرو ابن ميمونؓ عن علي بن ابي طالبؓ قَالَ إِذَا ذْكرْت الصَّالِحِينَ فَحَي أَهْلَ العُمَرؓ كُنَا نَعْدُ أَنَّ السَّكِينَةَ تَنْطِقُ على لسان عمرؓ -
(احاديث في تفضيل عمرؓ ) (الامامه صفحہ281)
ترجمہ :-
سیدنا علی بن ابی طالبؓ سے
سیدنا عمرو بن میمونؓ روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا۔ جب تو صالحین کا ذکر کرے تو سیدنا عمرؓ کے اہل پر تحیت و سلام بھیجا کر۔ ہم یہ سمجھتے تھے سکینہ (وحی) سیدنا عمرؓ کی زبان پر بولتی ہے۔
2: الامامة :
عن عون بن ابي جحيفهؓ عن ابيه قَالَ كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَؓ وَهُوَ مُسَجى فِي ثَوْبِهِ وَقَدْ قَضَى نَحْبَهُ فَجَاءَ عَلَىؓ وكشف الثوبِ وَقَالَ رحمة الله عليك ابا حفص فَوَاللَّهِ مَا بَقِي أَحَدٌ بَعْدَ رَسُولِ اللهِﷺصلى والہ واصحابه وسلم أحب إلى أن القى الله بصحيفته منك رواه البو المعشر المديني عن نافع عن ابن عمرؓ -
(احاديث في تفضيل عمرؓ) (الامامة صفحہ 282)
ترجمہ:
سیدنا عون بن ابی صحیفہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں سیدنا عمرؓ کے پاس تھا۔ جب وہ وصال کے بعد کفن میں لپیٹے ہوئے تھے۔ اتنے میں سیدنا علی المرتضیؓ تشریف لائے۔ اور منہ سے کپڑا ہٹا کر فرمانے لگے۔ اے ابا حفصؓ اللہ کی تجھ پر رحمت ہو۔ خدا کی قسم رسولﷺ کے بعد تم سے بڑھ کر مجھے کوئی محبوب نہیں کہ جس کے اعمال کے ساتھ میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں ۔ اسے ابو اعمش مدینی نے نافع سے وہ سیدنا ابن عمرؓ سے روایت کرتے ہیں۔
3: الامامة :-
عن ابي اسحاقؓ قَالَ ذَهَبَ بأَبِي إِلَى الْمَسْجِدِ يَومَ الجمعة فَقَالَ لِي هَل لَّكَ يا بُنَى أَن تَنْتُه إلى علىؓ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ قُم فَقُمْتُ فَإِذَا أَنَا بِشَيْخ أبيض الرأس واللَّحْيَةِ قَائِم عَلَى الْمِنْبَرِ لَہ صَلَعَةٌ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ خَيْرُ هذِهِ الْأُمَّةِ بعد نبيھاﷺ واله واصحابه و سلم ابو بكرؓ ثُمَّ عُمرؓ (الامامة صفحہ 283)
(احاديث في تفضيل عمرؓ)
ترجمہ:
ابو اسحاقؓ بیان کرتے ہیں۔ کہ مجھے میرے والد اپنے ساتھ جمعہ کے دن مسجد میں لے گئے فرمانے لگے۔ کیا تم سیدنا علیؓ کے ساتھ کوئی خواہش رکھتے ہو۔ میں نے عرض کیا۔ ہاں۔ فرمایا، اٹھو۔ میں کھڑا ہو گیا ۔ تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ سفید ریش اور سر کے سفید بالوں والا منبر پر کھڑا تھا۔ میں نے انہیں یہ فرماتے سنا۔ اس امت میں اس کے پیغمبرﷺ کے بعد بہترین آدمی سیدنا ابوبکرؓ پھر سیدنا عمرؓ ہیں۔
سیدنا عثمان غنیؓ کی شان میں چند روایات
1: الامامة:
عن عثمانؓ بن عبد الله بن موهب قال جاء رجل من مصر لحج البيت فَقَالَ يَا ابْنَ عُمَرَؓ انِي سَائِلُكَ عَنْ شَىء فَحَدثنِي انْشِدُكَ اللَّه بِحُرمَة ھذا الْبَيْتِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانؓ تَغِيبُ عَن بَدر فلَمُ يَشْهَدُهَا ؟ فَقَالَ نَعَم وَ لكِن أَمَّا تَغَيبه عَن بَدْرِ فَانَهُ كانت تحته بنت رسول اللهﷺ فَمَرِضت فَقَالَ له رسول اللهﷺ لكَ أجْرٌ رَجُلٍ شَهِدَ بَدْرًا وَ سَهُمُهُ۔
(الامامة صفحہ 302 303)
ترجمہ
سیدنا عثمانؓ بن عبداللہ موہب کہتے ہیں کہ مصر سے ایک شخص حج بیت اللہ کے لیے آیا۔ اس نے سیدنا ابن عمرؓ سے کہا میں تم سے ایک بات پوچھنے والا ہوں ۔ تمہیں اس بیت اللہ کی حرمت کی وساطت سے اللہ کی قسم دیتا ہوں ۔ مجھے اس کا صحیح جواب دینا۔ کیا تمہیں علم ہے ۔ کہ سیدنا عثمانؓ غزوہ بدر میں شریک نہ ہوئے تھے۔ اس کی کیا وجہ تھی۔ سیدنا ابن عمرؓ نے فرمایا۔ وہ واقعی غزوہ بدر سے غیر حاضر تھے۔ لیکن ان کی غیر حاضری کی وجہ یہ تھی۔ کہ ان کے عقد میں حضورﷺ کی ایک صاحبزادیؓ تھی۔ جو بیمار تھیں تو انہیں حضورﷺ نے فرمایا۔ تمہارے لیے بدر میں موجود صحابی کا اجر بھی ہے اور اس کا حصہ بھی مال غنیمت میں سے ہے۔
2 الإمامة
عن انسؓ قَالُ لَمَّا أَمَرَ رَسُول اللهﷺ واله واصحابه وسلم ببيعة الرضوان كَانَ عُثْمَانَؓ رَسُولِ اللهﷺ إلى أهل مَكَّةَ فَبَايَعَ النَّاسُ فَقَالَ رسول اللهﷺ ان عثمانؓ في حَاجَةِ اللَّهِ وَحَاجَةٍ رَسُولِهِ فَضَرَبَ احدی يَدَيْهِ عَلَى الْأَخْرَى فَكَانَ يَدُ رسول اللهﷺ لِعُثْمَانَؓ خَيْرًا مِنْ أَيْدِيهِمْ لَانُفُسِهِمْ
( الامامة صفحہ 305)
(خلافة الامام امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفانؓ)
ترجمہ
سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضورﷺ نے بیعت رضوان کا ارشاد فرمایا ۔ تو اس وقت سیدنا عثمانؓ جناب رسول کریمﷺ کی طرف سے اہلِ مکہ کی طرف پیغام لے جانے والے تھے۔ تمام لوگوں نے بیعت کی۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ سیدنا عثمانؓ، اللہ کی حاجت اور اس کےرسول اللہﷺ کی حاجت میں مصروف ہے۔ پھر آپﷺ نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مارا پس رسول اللہﷺ کا ہاتھ جو سیدنا عثمانؓ کی طرف سے تھا ۔ وہ دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں سے کہیں بہتر تھا۔
3: الامامة :-
فان زعم عثمانؓ أعطى من بيْتِ مَالِهِمْ مَا لم یكُن لَّهُ فِيهِ حق قيل له لم يثبت ذالك مِنْ وَجْهِ الصَّحِيحِ بَلْ قَالَهُ مَنْ قَالَ ظَنَّا وَكَيْفَ يُقْبَلُ على عثمانؓ وھو من أكثَرِ النَّاسِ مَالا وَابْدَلَهُمْ وَأَكْثَرَهم عطية وَمَعْرُوفًا مَعَ أَنَّ الْأَيَّامَ لَا تَخْلُو مِنْ جھال يَقُولُونَ مَا لا يَعْلَمُونَ
(الامامة صفحہ 318)
(خلافه الامام امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفانؓ)
ترجمه :
اگر کوئی زعم کرے کہ سیدنا عثمانؓ نے بیت المال سے ایسے لوگوں کو دیا جن کا کوئی حق نہ تھا۔ تو اسے جواباً کہا جائے گا کہ تیرا یہ کہنا کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے۔ بلکہ یہ کسی کا اپنے ظن کے مطابق کہنا ہے ۔ سیدنا عثمان غنیؓ کے بارے میں یہ بات کیسے مانی جاسکتی ہے۔ حالانکہ آپ تمام لوگوں سے مال میں اس کے خرچ کرنے میں اور بھلائی کے کاموں میں صرف کرنے کے اعتبار سے بڑھ کر تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ ہر دور میں جہلاء بکثرت ہوتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے رہتے ہیں ۔ جن کا انہیں کوئی صحیح علم نہیں ہوتا۔
خلاصہ کلام
حافظ ابو نعیم کی کتاب سے خلفاء ثلاثہؓ کی شان میں چند روایات جو ہم نے درج کیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو نعیم کے دل میں خلفاء ثلاثہؓ کی بےپناہ محبت تھی۔ اور پھر اسی اخبار میں انہوں نے شیعوں کے خلفاء ثلاثہؓ پر کیے گئے اعتراضات کا جواب بھی دیا۔ یہ بھی ان کے اہلِ سنت ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ انہیں ان کی اولاد نے خواہ مخواہ اپنی بناوٹی عزت بچانے کے لیے شیعہ بنایا ہے۔ ورنہ در حقیقت اہلِ سنت کے عظیم محدث ہیں۔ رہا ان کی کتاب "حلیۃ الاولیاء" میں سیدنا مناقب علی المرتضیؓ کے سلسلہ میں بعض روایات جو اہلِ سنت کے عظیم مسلک کے خلاف ہیں۔ اور اسی طرح سیدنا عمر بن خطابؓ کے بارے میں واقعہ کہ جب انہوں نے اپنی بیٹی سیدہ حفصہؓ کی طلاق کا سنا تو سر پر خاک ڈال کر پیٹنے لگے وغیرہ وغیرہ باتیں ان کی دو وجوہات سامنے آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ حافظ ابونعیم کے سامنے اپنے مقرر کردہ موضوع پر احادیث جمع کرنا مقصود و مطلوب تھا۔ رہا یہ کہ کون سی حدیث و روایت ضعیف، موضوع، متروک وغیرہ ہے۔ اور کون سی قابل عمل؟ اسے انہوں نے پیش نظر نہ رکھا۔ جس طرح علامہ السیوطیؒ کا طریقہ ہے کہ وہ کسی موضوع پر جس قدر ذخیرہ احادیث ملتا ہے۔ اسے جمع کر دیتے ہیں، پھر ان کی صحت وغیرہ صحت کا تعین کرنے کے لیےانہوں نے "الاولی الموضوعه" نامی کتاب تصنیف فرمائی کہ جس میں انہوں نے اپنی روایات کے صحت سقم کو واضح کر دیا۔ اسی طرح حافظ ابونعیم نے صرف احادیث و روایات جمع کر دیں۔ ان کے مقام و مرتبہ کو علماء حدیث پر چھوڑ دیا۔ دوسری وجہ یہ کہ ان کی کتب میں ان کی اولاد (جو شیعہ تھی) نے ایسی روایات داخل کر دیں جو شیعیت کی موید تھی۔ یہ وجہ قوی معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ شیعوں سے اپنے جدّا اعلی کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے ایسی حرکت کرنا کوئی بعید نہیں۔ بلکہ یہ ان کی دیرینہ عادت ہے
بہر حال ابونعیم کی طرف منسوب شده عبارات اہلِ سنت پر قطعاً حجت نہیں بن سکتیں ۔ کیونکہ حافظ ابو نعیم کے نزدیک سیدنا ابوبکر صدیقؓ افضل الخلق بعد انبیاء اور سیدنا عمر بن خطابؓ ان کے بعد اعلیٰ درجہ کے مالک ہیں ۔ مولانا عبد الرحمن جامی اور حافظ ابو نعیم محدث کے بارے میں جو میں نے تاویل ذکر کی ہے اللہ تعالیٰ نے کثرت درود شریف کی برکت سے مجھ پر ان کا القاء کیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی، اپنے محبوب کی اور محبوب کے محبوبوں کی محبت میں ہی زندہ رکھے ۔ اسی حال میں موت آئے۔ اور کل قیامت میں اسی کیفیت کے ساتھ میدان حشر میں جائیں ۔
آمین بجاہ نبی الرحمۃﷺ