کتاب الفتوح: اعثم کوفی مصنفہ احمد ابن اعثم کوفی
محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحبکتاب الفتوح: اعثم کوفی مصنفہ احمد ابن اعثم کوفی
"کتاب الفتوح" کے مصنف کا نام ابو محمد احمد بن اعثم کوفی ہے۔ عام کتب شیعہ کی طرح اس میں بھی حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں نازیبا اور زہریلا مواد موجود ہے ۔ جن روایات میں اس قسم کی باتیں ہیں ۔ غلام حسین نجفی وغیرہ اسے اہلِ سنت کی معتبر کتاب کہہ کر ان روایات کو بطور محبت پیش کرتے ہیں۔ نمونہ کے طور پر ایک دو اقتباس ملاحظہ ہوں ۔
ماتم اور صحابہؓ
اہلِ سنت کی معتبر کتاب اعثم کوفی صفحہ نمبر 159 چھاپ قدیم فارسی:
"وسگاں یک ہایش رار بوده لودند - (ماتم اور صحابهؓ صفحہ 145)
ترجمہ: کسی کی لاش پر کتے آئے اور ایک ٹانگ گھسیٹ کرلے گئے ۔ نصیب اپنا اپنا ۔
نوٹ
یہ روایت اعثم کوفی نے سیدنا عثمان غنیؓ کے بارے میں لکھی۔ ان کی شہادت پر ان کی لاشں تین دن تک بے گور و کفن پڑی رہی اور کوئی پرسان حال نہ تھا ۔ حتیٰ کہ لاش کی ایک ٹانگ کتے کاٹ کر لے گئے ۔
ماتم اور صحابہؓ
اعثم کوفی.
ترجمہ ابنِ جریر نے ذکر کیا ہے کہ جب قاتلوں نے سیدنا عثمانؓ کے سر قلم کرنے کا ارادہ کیا تو عورتوں نے چیخ و پکار کی اور اپنے منہ پیٹے. منہ پیٹنے والی عورتوں میں دو سیدنا عثمان غنیؓ کی بیویاں تھیں- ایک نائلہ اور دوسری ام النبیین اور منہ پیٹنے والی عورتوں میں سیدنا عثمانؓ کی بیٹیاں تھیں- (ماتم اور صحابہؓ صفحہ 116)
جواب : غلام حسین نجفی نے اس حوالے سے ثابت یہ کرنا چاہا کہ سیدنا عثمان غنیؓ چونکہ بد کردار خلیفہ تھے معاذ اللہ اس لیے انہیں اپنی قسمت کا لکھا دیکھنا پڑا- لاش تک کو کسی نے نہ پوچھا اور کتے عام مردار کی طرح اس کی ٹانگ لے اڑے اس گستاخی اور توہین سیدنا عثمانؓ کا جواب توہم فقہ جعفریہ جلد چہارم میں تفصیل سے تحریر کر چکے ہیں جو چھپ کر بازار میں آگئی ہے یہاں ہمیں اس بارے میں کچھ کہنا ہے- 'کتاب الفتوح المعروف اعثم کوفی اہلِ سنت کی معتبر کتاب ہے' اس بارے میں حقیقت یہ ہے کہ اس کے مصنف اور اس کی اس تصنیف کے شیعہ ہونے میں غلام حسین نجفی وغیرہ کو بھی یقین ہے لیکن حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خصوصا خلفائے ثلاثہؓ کی شان جہاں کہیں کوئی ادھر ادھر روایت نظر آتی ہے اسے اہلِ سنت کی معتبر کتاب کی روایت کہہ کر عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے- اعثم کوفی اٹھ جلدوں پر محیط ہے- اور اس میں بہت سے مقامات پر اہلِ تشیع کے مخصوص عقائد کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے- تمام کتاب سے ان مقامات کی نشاندہی کرنا طویل کام ہے اس لیے اس کی چند عبارات پر اکتفا کیا جاتا ہے-
اعثم کوفی کے چند حوالہ جات
حوالہ نمبر 1
الَمْ تَكُونِينَ تُحَرِّضِينَ النَّاسَ عَلَى قَتْلِهِ ثُمَّ إِنَّكِ أَظْهَرْتِ عَيْبَهُ وَقُلْتِ اقْتُلُوا نْعْثَلاً فَقَدْ كَفَرَ
(كتاب الفتوح جلد دوم صفحه 249 ذكر قدوج عائشهؓ من مكه)
ترجمہ : ( عبید بن ام کلاب سے جب سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے دمِ سیدنا عثمانؓ کا مطالبہ کیا ۔ تو اس نے کہا کہ تو سیدنا علی المرتضٰیؓ کی ولایت کو برا سمجھتی ہے۔ اور سیدنا عثمانؓ کی طرفدار بن کر ان کے خون کا مطالبہ کر رہی ہے۔ کیا تم نے لوگوں کو قتل سیدنا عثمانؓ پر ابھارا نہ تھا؟ اور پھر ان کے عیب بھی گنوائے۔ اور یہاں تک کہا تھا۔ اس نعثل (لمبی داڑھی والے) کو قتل کر دو ۔ یہ کافر ہو گیا ہے۔
حواله نمبر 2
اما ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ چنانکه بدان اشارت شد چندانکه تواتست و دانست مردم راور قتل تحریص می کرد. نا گاہی کہ سفر مکه درپیش داشت در مکه اور آاگہی دادند کہ عثمانؓ بدست صنادید اصحاب مقتول گشت نیک شاد شد - فقالت اَبعَدَهُ اللّٰهُ بِمَا قَدَّمَتْ یَدَاهُ اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِى قتله - عائشه در قتل سیدنا عثمانؓ شکر خداوند بگذاشت- دبرا و لعن و نفرین فرستاد- ہمانا عثمانؓ درا و اخر روزگار خود مانند کسی کہ از کرده خود پشیمان باشد گلا ہے شعری انشاء کردی دایں دو شعر ازدی روایت کردہ اند.
تَقْنِي اللَّذَازَةٌ مِمَّنْ قَالَ صَفْوَتُهَا مِنَ الْحَرَامِ وَيَبْقَى الْإِثْمُ وَالْعَارُ
تَبْقَى عَوَاقِبُ سُوءٍ مِنْ مَعْقِبِهَا لَا خَيْرَ فِي لَذَّةٍ مِنْ بَعْدِھَا النَّارُ
(كتاب الفتوح اعثم كوفي جلد دوم صفحہ 243 مطبوعہ مدینه منوره طبع جدید)
ترجمہ: جیسا کہ اس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہؓ نے جس قدر ہوسکا لوگوں کو قتل سیدنا عثمانؓ پر ابھارا- اتفاقاً انہیں مکہ شریف جانا پڑ گیا- جب مکہ پہنچ گئی تو لوگوں نے انہیں سیدنا عثمانؓ کے قتل ہونے کی اطلاع کی کہ وہ اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں مارے گئے ہیں- یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئیں اور کہا اس نے جو کچھ کیا تھا اللہ تعالی نے اس کا نتیجہ دے دیا- جس اللہ نے اسے قتل کروایا اس کا لاکھ لاکھ شکر ہے سیدنا عثمانؓ پر لعنت اور نفرت کا اظہار کیا- خود سیدنا عثمان غنیؓ زندگی کے آخری لمحات میں اپنے کیے پر پشیمان نظر آتے تھے- اور کبھی کبھار شعر بھی پڑھا کرتے تھے- یہ دو شعر ان سے روایت کیے گئے ہیں-
بڑے بڑے حرام کاموں کی لذت فنا ہو جائے گی
اور ان کا گناہ اور شرم باقی رہ جائے گی
برائی کرنے والے کے لیے اس کی برائی کے برے نتائج ہی باقی رہیں گے
ایسی خوشی کا کیا فائدہ کہ جس کے انجام پر دوزخ ملے
نوٹ: "نعثل کافر کو قتل کر دو" سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی طرف جملے کی نسبت کی حقیقت ہم اسی جلد میں تحریر کر چکے ہیں- یہاں صرف اعثم کوفی کے حالات و نظریات کی روشنی میں اسے پیش کیا گیا ہے- کیا کوئی اہلِ سنت کا فرد ام المومنینؓ کی طرف سیدنا عثمان غنیؓ کے بارے میں ایسے نظریات رکھتا ہے؟ اسی طرح سیدنا عثمان غنیؓ کی شہادت کا سن کر خوشی کا اظہار وہی کیا کرتے ہیں اور ان پر لعنت و نفرت کا ثبوت وہی پیش کیا کرتے ہیں جنہیں سیدنا عثمان غنیؓ کی خلافت حقہ پر یقین و ایمان نہیں- یہ دونوں خبیث خیالات و نظریات رافضیوں کے ہیں- اس لیے اعثم کوفی نہ خود سنی ہے اور نہ ہی اس کی کتاب الفتوح اہلِ سنت کی تصانیف میں سے ہے.
حوالہ نمبر 3
بَعَثَ مُعَاوِيَةُ بْنُ ابي سفيانؓ اِلى جُعْدة بِنْتِ الْأَشْعَثِ بن قيس زَوْجَةِ الْحَسَنِؓ سَمِّي الْحَسَنَؓ وَلَكِ مِائَةُ اَلْفِ دِرْهَمٍ وَ أُزَوِّجُكِ بِيَزِيد فَسَمَّتْهُ فَلَمَّا مَاتَ الْحَسَنُؓ بَعَثَتْ إِلَيْهِ لِتَنْجِزِ وَعْدِہ، فَبَعَثَ إِلَيْهَا الْمَالَ -
(تاريخ اعثم کوفی جلد چهارم صفحہ 206 وفات الحسنؓ تذکره بن علی)
ترجمہ : سیدنا امیر معاویہؓ نے سیدنا حسنؓ کی بیوی جعدة کی طرف پیغام بھیجا کہ اگر تو اپنے خاوند سیدنا حسنؓ کو زہر دے کر ہلاک کر دے تو میں تجھے ایک لاکھ درہم دوں گا اور اپنے بیٹے یزید سے تیری شادی بھی کر دوں گا اس لالچ پر جعدہ نے سیدنا حسنؓ کو زہر دے کر ہلاک کر دیا- جب یہ کر چکی تو سیدنا معاویہؓ کی طرف پیغام بھیجا کہ اپنا وعدہ پورا کرو- اس پر سیدنا امیر معاویہؓ نے مشروطہ مال جعدہ کی طرف بھیج دیا-
نوٹ: سیدنا حسنؓ کو ان کی بیوی جعدہ کا زہر دینے کا واقعہ ہے جو دراصل سیدنا امیر معاویہؓ پر اعتراض ہے- اس کا تفصیل کے ساتھ جواب اسی جلد میں تحریر کر چکے ہیں- اور دلائل سے یہ بھی ثابت کر چکے ہیں کہ خود سیدنا حسنؓ کو بھی اپنے قاتل کے بارے میں کوئی علم نہ تھا- لہٰذا اس عبارت سے سیدنا امیر معاویہؓ کی ذات پر قتل سیدنا حسنؓ کا الزام دھرنا کسی سنی کا عقیدہ نہیں ہو سکتا بلکہ کوئی مخالف سیدنا امیر معاویہؓ ہی کر سکتا ہے- اور دنیا جانتی ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ کا بدخواہ کون ہے؟
حوالہ نمبر 4
ذِكْرُ كَلَامِ مَا جَرَىٰ بَيْنَ حَفْصَةَؓ بِنْتِ عُمَرَ بْن الخَطَّابِ وَ بَيْنَ اُمِّ كُلْثُومِ بِنْتِ عَليؓ قَالَ وَبَلَغَ ذَالِكَ حَفْصَةَ بنتِ عمر بن الخطابؓ فارسلت إلى أم كلثومؓ فَدَعَتْهَا ثُمَّ أَخْبَرَ تْهَا باجْتِمَاعِ النَّاسِ إِلَى النَّاسِ إِلى عَائِشَةَؓ كُلَّ ذَالِكَ لِيَغَمِّهَا بِكَثْرَةِ الْجُمُوعِ إِلى عَائِشَةَؓ قَالَ فَقَالَتْ لَهَا أُمُّ كُلْثُومٍؓ عَلٰی رِسْلِكِ يَا حَفْصَةٌؓ فَإِنَّكُمُ إِنْ تَظَاهَرْتُمْ عَلی أَبِي فَقَدْ تَظَاهَرْتُمْ عَلَى رَسُولِﷺ فَكَانَ الله مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلٌ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلٰئِكَةُ بَعْدَ ذَالِكَ ظَهِيرٌ فَقَالَتْ حَفْصَةٌؓ يَا هَذِهِ أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْ شَرِّكِ فَقَالَتْ أُمُّ كُلْثُومٍؓ وَكَيْفَ يُعِيدُكِ اللهُ مِنْ شَرِّيْ وَقَدْ ظَلَمَتِنِي حَقى مَرَّتَيْنِ الْأَوَّلُ مِيرَاثي مِنْ أَمِّي فَاطِمَة بِنْتِ رَسُولِﷺ وَ الثَّانِي مِيرَاثِی مِنْ أَبِيکِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِؓ قَالَ وَ لَاَمَتِ النِّسَاءُ حَفْصَةَؓ عَلَى ذَالِكَ لَوْمًا شَدِيدًا.
(تاریخ اعثم كوفى جلد دوم صفحہ نمبر 299 تا 300 مطبوعہ حیدرآباد دکن طبع جدید)
ترجمہ: اس گفتگو کا تذکرہ جو سیدہ حفصہ بنت عمر بن الخطابؓ اور سیدہ ام کلثومؓ بنت علی المرتضیؓ کے مابین ہوئی- جب سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ بہت سے لوگوں کا قافلہ کی شکل میں بصرہ جانے کا معاملہ سیدہ حفصہؓ کو پہنچا- تو اس نے (سیدہ حفصہؓ نے) سیدہ ام کلثومؓ کو بلوایا اور پھر سیدہ ام کلثومؓ کو سیدہ عائشہؓ کے ساتھ لوگوں کے اجتماع کی خبر دی یہ اس لیے کیا تھا کہ سیدہ ام کلثومؓ کو سیدہ عائشہؓ کے پاس لے جا کر بہت سے لوگوں کی موجودگی میں پریشان کیا جائے- سیدہ ام کلثومؓ نے کہا: اے سیدہ حفصہؓ! رک جاؤ- اگر تم نے میرے باپ پر غلبہ کیا ہے تو تم رسول اللہﷺ پر بھی غلبہ کر چکے ہو لیکن اس وقت رسول اللہﷺ کا ساتھی اللہ٬ جبرائیل نیک مومن اور فرشتے بنے- (اور تم ان کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکے) یہ سن کر سیدہ حفصہؓ کہنے لگی: اے لڑکی! میں تیرے شر سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں- سیدہ ام کلثومؓ نے کہا میرے شر سے تو پناہ کیسے مانگ سکتی ہے حالانکہ تو مجھ پر دو مرتبہ زیادتی کر چکی ہے- پہلی زیادتی یہ کہ تو نے میری والدہ سیدہ فاطمہؓ کی میراث مجھ سے غصب کی اور دوسری یہ کہ تیرے باپ سے میرا ورثہ غصب ہوا- اس پر موجودہ عورتوں نے سیدہ حفصہؓ پر خوب ملامت کی-
حوالہ نمبر 5
قَالَتْ أم سلمهؓ ..... عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍؓ حَىٌّ وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِؓ مَا سَمِعْنَا هَذَا مِنْ رسُولِ اللهِﷺ سَاعَةً قَطُّ فَقَالَتْ أم سلمةؓ رحمة الله عليها إِن لَمْ تَكُنْ اَنْتَ سَمِعْتَهُ فَقَدْ سَمِعَتْهُ خَالَتُكَ عَائِشَهُؓ وَهَا هِيَ فَاسْئَلْهَا فَقَدْ سَمِعَتُهُﷺ يَقُولُ عَلیٌؓ خَلِيفَةٌ عَلَيْكُمْ فِي حَيَاتِي وَمَمَاتِي فَمَنْ عَصَاهُ فَقَدْ عَصَانِي اَلتَشْهَدِينَ يَا عَائِشَةُؓ بِهَذَا أَمْ لَا فَقَالَتْ عَائِشَةُؓ اللَّهُمَ نعم -
(تاريخ اعثم كوفي جلد دوم صفحہ 282 تا 283 تذكره خبر عائشہؓ مع ام سلمهؓ )
ترجمہ: سیدہ ام سلمہؓ نے سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ سے فرمایا سیدنا علی المرتضیؓ بقید حیات ہیں- اور وہ ہر مومن مرد و عورت کے ولی ہیں- یہ سن کر سیدنا عبداللہؓ نے پوچھا کہ یہ بات ہم نے تو کبھی بھی رسولﷺ سے نہیں سنی- سیدنا ام سلمہؓ نے فرمایا اگر تم نے نہیں سنی تو تمہاری خالہ سیدہ عائشہؓ نے تو سن رکھی ہے وہ موجود ہیں ان سے دریافت کر لو انہوں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے سنا سیدنا علیؓ میری زندگی اور موت دونوں صورتوں میں تم پر میرا خلیفہ ہے لہٰذا جس نے سیدنا علیؓ کی نافرمانی کی اس نے درحقیقت میری نافرمانی کی- اے سیدہ عائشہؓ کیا تم اس کی گواہی دیتی ہو یا نہیں؟ سیدہ عائشہؓ نے کہا بخدا میں اس کی گواہی دیتی ہوں-
نوٹ: حضورﷺ کی زندگی اور آپﷺ کے وصال کے بعد خلافت کا حقدار صرف اور صرف سیدنا علی المرتضیؓ کو بتلانا "خلافت بلا فصل" کہلاتا ہے- اور اس سے خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت کو غاصبانہ اور ناجائز ثابت کرنا نظر آتا ہے- کیا اس عقیدے کا معتقد اہلِ سنت ہو سکتا ہے۔
حوالہ نمبر 6
بعد ازاں چو مرض آں امام عالی مقام زیادت شد و دانست کے وقت ارتحال اس- سیدنا حسینؓ راوصیتہا کردہ کہ امر امامت را بداں جناب تفویض نمود- (تاریخ اعثم کوفی جلد چہارم٬ صفحہ ٬207 تذکرہ وفات حسنؓ)
ترجمہ : اس کے بعد جب سیدنا حسنؓ کا مرض بڑھ گیا اور آپؓ کو یقین ہو چلا کہ اب دنیا سے میرے کوچ کا وقت آن پہنچا ہے تو آپھ نے اپنے برادر خورد جناب سیدنا حسین ؓ کو بہت سی وصیتیں فرمائیں- اور یہ بھی فرمایا کہ اب میرے بعد امامت کا معاملہ تمہارے سپرد ہے-
نوٹ: امامت کے بارے شیعوں کا یہ نظریہ ہے کہ یہ "منصوص من اللہ" ہوتی ہیں- اس کی وضاحت عقائد جعفریہ جلد اول میں ملاحظہ کر لیں- اسی عقیدے کی ترجمانی کرتے ہوئے اعثم کوفی نے یہ روایت بلا سند ذکر کی کہ سیدنا حسنؓ نے بوقت وصال سیدنا حسینؓ کی امامت کی نص فرما دی-
حوالہ نمبر 7
اعثم کوفی ایک واقعہ یوں نقل کرتا ہے کہ سیدنا علی المرتضیؓ کا ایک راہب کے عبادت خانے کے پاس سے گزر ہوا تو وہ راہب آپ کو دیکھ کر نیچے اترا اور آپ پر ایمان لے آیا- پھر کہنے لگا کہ میرے پاس حضرت عیسی علیہ السلام کی لکھی ہوئی ایک کتاب ہے میں وہ پیش کرتا ہوں چنانچہ وہ کتاب لایا اور سیدنا علی المرتضیؓ کو پڑھ کر سنائی اس میں لکھا تھا کہ اللہ تعالی امی لوگوں میں ایک رسول بھیجے گا جو انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے گا- پھر جب اس پیغمبر کا انتقال ہو جائے گا تو اس کے امتی اختلاف کا شکار ہو جائیں گے- اختلاف خدا ہی بہتر جانتا ہے کب تک رہے گا- پھر ایک شخص اسی امت میں سے اس نہر کے کنارے سے گزرے گا وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والا ہوگا- لہٰذا جس کسی کو اس مرد صالح کی زیارت نصیب ہو اسے اس کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ وہ خاتم الانبیاء (جناب محمدﷺ) کا وصی ہوگا- اور جو بھی اس کے ساتھ مرے گا وہ درجہ شہادت پائے گا- یہ سن کر سیدنا علی المرتضیؓ رو دیے اور کہنے لگے تمام تعریفیں اس اللہ کو زیب جس نے ابرار کی کتابوں میں میرا ذکر کیا ہے-
نوٹ: اس بے سروپا اور بے سند واقعہ سے اعثم کوفی نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ سیدنا علی المرتضیؓ رسول خداﷺ کے وصی تھے۔ اور یہ بھی کہ حضورﷺ کے بعد امت میں اختلاف کی صورت میں لوگوں کو سیدنا علی المرتضیؓ کا ساتھ دینا چاہئیے۔ نہ کہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ وغیرہ کا۔ سیدنا علی المرتضٰیؓ کو رسول کریمﷺ کا وصی ماننا کس کا عقیدہ ہے ؟ کون اپنی اذان و کلمہ میں اس کا اظہار کرتا ہے ؟
حوالہ نمبر 8
ثمَّ أَمَرَ عَلَى بِرَيْنِ عُثْمَانَؓ فَحُمِلَ وَقَدْ كَانَ مَطْرُومًا عَلَى مَرْبَلَةٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ حَتَّى ذَهَبَتِ الْكِلابُ بِفَرْدِ رجُلَيْهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُصْرِيِّينَ وَأُمَّةٌ لَا نُدُفِتْهُ إِلَّا فِي مَقَابِرِ الْيَهُودِ (تاريخ اعثم كوفي جلد دوم - صفحہ 247، تذکره مقتل عثمانؓ)
ترجمہ: سیدنا عثمان غنیؓ کے شہید ہو جانے کے بعد تین دن تک اس کی نعش کوڑے کرکٹ کے ایک ڈھیر پر پڑی رہی۔ حتیٰ کہ آپ کی ایک ٹانگ کتے کاٹ کر لے گئے ۔ پھر کہیں جا کر سیدنا علی المرتضیؓ نے انہیں دفن کرنے کا حکم دیا ۔ ایک مصری شخص اور دوسرے بہت سے لوگوں نے کہا کہ انہیں یہودیوں کے قبرستان میں ہی دفنایا جائے۔
نوٹ:- سیدنا عثمان غنیؓ کی نعش کا تین دن تک بے گور و کفن ایک کوڑے کے ڈھیر پر پڑا رہنا اور پھر اس دوران کتوں کا ان کی ٹانگ لے اڑنا ہم ان دونوں گستاخیوں کا مسکت جواب تحفہ جعفریہ جلد چہارم صفحہ 506 پر تحریر کر چکے ہیں۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا عثمانؓ کی شہادت بروز جمعہ ہوئی۔ اور ہفتہ کی رات آپ کو سپرد خاک کر دیا گیا تھا۔ حش کوکب (جس کا ترجمہ کوڑا کرکٹ کا ڈھیر کیا گیا )۔ دراصل ایک کوکب نامی صحابی کے نام کا باغ تھا جو یہودیوں کے قبرستان کے قریب تھا ۔ اور دوسری طرف اس کی جنت البقیع سے ملتی تھی ۔ یہ واقعہ اگرچہ ناسخ التواریخ میں بھی مذکور ہے۔ لیکن اس نے اسے اعثم کوفی سے لیا۔ جس سے پتہ چلا کہ اس بے سند اور بے اصل واقعہ کا وضع کرنے والا اعثم کوفی ہے۔ اور اسے جس مقصد کے لیے تراشا گیا۔ وہ آپ کے سامنے ہے۔ کیا ایسے واقعات گھڑنے والا سنی عالم کہلا سکتا ہے؟ بغض سیدنا عثمان غنیؓ کن کی فطرت میں رچا ہوتا ہے ؟
حوالہ نمبر 9 :
فَغَضَبَتْ عَائِشَةُؓ وَقَالَتْ نَاوِلَنِي كَنَّا مِنْ حصباء فَنَاوَلُوهَا فَحَصَبَتْ بِهَا أَصْحَابَ عَلِيٌّ وَ قَالَتْ شَاهَتِ الْوُجُوهُ فَصَاحَ بِهَا رَجُلٌ مِنْ اصحَابِ عَليؓ وَقَالَ يَا عَائِشَةٌؓ وَمَا رَمَيْتِ إِذْ رَمَيْتِ وَالكِنَّ الشَّيْطَنَ رَمىثُمَّ جَعَلَ يَقُولُ شِعْرًا.
قَدْ جِئْتِ يَا عَيْشُ لِتَعْلَمِينَا
وَ تَنشُرُ الْبَرْدَ لِتَهزمِينَا
وَ تَقْذِفي الْحَصَبَاءُ جَهْلاًفِينَا
فَعَنْ قَلِيْلٍ سَوْفَ تَعْلَمِينَا
(تاريخ اعثم كوفي جلد دوم صفحہ 325 تا 326 خبر الفتى الذي حمل المصحف)
ترجمہ: جنگ جمل کے دوران سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے غصہ میں آکر کہا۔ مجھے کنکریاں پکڑاؤ۔ لوگوں نے کنکریاں دیں۔ آپ نے وہ کنکریاں علی المرتضیؓ کے ساتھیوں کی طرف پھینکتے ہوئے کہا۔ تمہارے چہرے سیاہ ہوجائیں ۔ یہ سن کر سیدنا علی المرتضیؓ کے ایک
طرفدار نے کہا۔ اے عائشہؓ ! یہ کنکریاں جب تو نے پھینکیں تھیں تو تو نے نہیں بلکہ شیطان نے پھینکی تھیں ۔ پھر یہ شعر بھی کہے۔
اے عائشہؓ ! تو نے یہ کنکریاں اس لیے پھینکیں تاکہ تو ہمیں یہ بتلائے کہ ہم شکست کھانے والے ہیں۔ تمہیں ہمارے بارے یہ علم ہی نہیں کہ ہم کیا ہیں۔ بہت جلد تجھے اس کا بھی پتہ چل جائے گا۔
نوٹ:
کیا گیا۔ اور پھر ایک فرضی طرفدار سیدنا علیؓ کا قول پیش کر کے اعثم کوفی نے دراصل اپنے خبث باطنی کی غذا بہم کی۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا کنکریاں مارنا اور پھر سیدنا علیؓ کے ایک شیعہ کا اسے شیطان کی کنکریاں مارنا قرار دینا کسی سنی کے ذہن میں یہ خبیث مضمون آسکتا ہے ؟
ان حوالہ جات سے اعثم کوفی کے نظریات و عقائد خود اس کی تحریروں سے واضح ہوئے ۔ اور ان کی روشنی میں ہم اس نتیجہ پر بآسانی پہنچ گئے کہ اعثم کوفی پکا اور کٹر رافضی ہے۔ اور اس کی تصانیف اسی کے نظریات کی پرچار میں ہیں۔ انہی خطرات کی روشنی میں خود شیعہ محقق اسے کیا کہتے ہیں۔ یہ بھی سنیئے۔
الذريعة
فتُوحُ الْإِسْلَامُ لِأَحْمَدَ بْنِ اعْثم ابي محمد الكوفي الأَخْبَارِي المُؤرخ المتوفى حدود 314 عَبَّرَ عَنْهُ يَا قُوت كِتَابِ الفتوح - (الذريعة إلى تصانيت الشيعه جلد 16، صفحہ 119)
ترجمہ: ابو محمد اعثم احمد بن اعثم کوفی جو کہ قصہ کہانیاں بیان کرنے والا اور تاریخ دان تھا۔ فتوح الاسلام اس کی تصنیف ہے۔ اور 314 میں اس کا انتقال ہوا - صاحب یاقوت نے اس کی کتاب کو "کتاب الفتوح" لکھا ہے۔
اعيان الشيعه :-
البو محمد احمد بن اعثم الكوفي الاخباري في معجم الادباء كان شيعيا لَهُ كِتَابُ الفتوح ذكَرَ فِيهِ إِلى أَيَّامِ الرَّشِيدِ وكتاب التاريخ إلى ايام المقتدر - (اعيان الشیعہ طبقات المورخين عن الشيعة جلد اول صفحہ 154 مطبوعہ بیروت)
ترجمہ: ابو محمد احمد بن اعثم الکوفی اخباری معجم الادباء میں ہے کہ یہ شیعہ تھا۔ اس کی ایک کتاب کا نام "کتاب الفتوح" ہے ۔ اس میں اس نے ہارون الرشید کے دور تک کی باتیں درج کیں۔ اور کتاب التاریخ میں وہ "مقتدر" کے زمانہ تک کے حالات درج کیے ۔
الكنى والالقاب
البو محمد احمد بن اعثم الكوفي المورخ المتوفى 314 عن معجم الأدباء لِيَاقُوت قَالَ إِنَّهُ كَانَ شِيعِيًّا وَهُوَ عِنْدَ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ ضَعِيفٌ وَلَهُ كِتَابُ الفتوح مَعْرُوفٌ ذَكَرَ فِيهِ إِلَى أَيَّامٍ الرشيد الخ ۔ (الكنى و الالقاب جلد اول صفحہ 215 مطبوعه تهران، طبع جدید - تذكره ابن اعثم الكوفی)
ترجمہ: ابو محمد احمد بن اعثم کوفی مورخ کا 314 ء میں انتقال ہوا۔ یاقوت کی معجم الادباء میں ہے کہ شیعہ تھا۔ اور علماء حدیث کے نزدیک یہ ضعیف ہے ۔ اس کی
تصنیف "کتاب الفتوح" معروف و مشہور ہے جس میں ہارون الرشید کے دور تک حالات درج ہیں۔
لمحہ فكريہ
"الذریعہ" نامی کتاب محض اس موضوع پر لکھی گئی۔ تاکہ اس میں شیعہ مصنفین کی تصانیف اور اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جائیں۔ اس میں "فتوح الاسلام" کا تذکرہ یہ گواہی دیتا ہے ۔ کہ اعثم کوفی ان مصنفین میں سے تھا۔ جو پکا شیعہ تھا۔ "اعیان الشیعہ" میں اسی لیے اس کے امامی شیعی ہونے کی تصریح موجود ہے۔ تو دونوں طریقوں سے اعثم کوفی کا امامی شیعہ ہونا ثابت ہو گیا۔