Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

روضته الصفاء مصنفہ محمد میر خواند

  محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحب

روضته الصفاء مصنفہ محمد میر خواند

محمد میر خواند بن خاوند شاہ کی تصنیف روضته الصفاء بھی ان کتابوں میں سے ایک ہے۔ جن میں اہلِ سنت کے خلاف زہریلا پروپیگینڈا کیا گیا ہے۔ اس کا مصنف پکا امامی شیعہ ہے ۔ جیسا کہ ہم حوالہ جات سے ثابت کریں گے لیکن اس کے باوجود کچھ اہلِ تشیع اسے سنی کے طور پیش کر کے اس کی کتب سے حوالہ دے کر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی قسم کی ایک بھونڈی کوشش غلام حسین نجفی نے بھی کی ۔ سیدنا عثمان غنیؓ کے بارے میں زہر اگلتے ہوئے وہ لکھتا ہے: "سیدہ عائشہؓ کا فتوٰی کہ سیدنا عثمانؓ نعثل کو قتل کرو اللہ اس کو قتل کرے"

ثبوت ملاحظہ ہو ۔ اہلِ سنت کی معتبر کتاب روضته الصفاء ذکر عثمانؓ الخ (قول مقبول صفحہ 539)

 جواب: حسب سابق ہم اس سلسلہ میں وہی دو طریقے اختیار کرتے ہیں۔

 اول: یہ کہ اس کی چند عبارات پیش کریں ۔ جو اس کے نظریات و معتقدات پر روشنی ڈالتی ہوں ۔

 دوم: یہ کہ اس کے بارے میں اسمائے رجال اور کتب وغیرہ کے بارے میں تحقیق کرنے والے محمد میر خواند صاحب روضته الصفاء کو کسی گروہ کا آدمی کہتے ہیں۔ آئیے ! صاحب روضۃ الصفاء سے چند اقتباسات دیکھیں ۔

روضته الصفاء سے چند شیعہ نواز اقتباسات:

اقتباس نمبر 1:

عبید بن سلمہ کہ از اخوان عائشہؓ بود بعد از مشاهده ایں افعال و اقوال ترک اختلاط از عائشہؓ کرده یا او گفت۔ عجب حالتی است کہ نخستیں کسیکہ زبان تبعرض و تشنیع عثمانؓ کشود تو بودی و پیوسته می گفتی کہ اقتلوا نعثلا فانه قد کفر- ونعثل اسم الشخصے طويل اللحیة بود کہ باعثمانؓ از روئے صورت مشابہت داشت و هرگاه معترضان در مقام بد گوئی و عیب جوئی عثمانؓ می آوند - ایں اسم بردے اطلاق می کردند. چوں عبید بن سلمہ حالتہ راسخن مذکور منسوب کرد عائشہؓ جواب داد کہ بعد از آنکہ قوم عثمانؓ را از افعالی کہ پسندیده ایشاں نہ بود توبہ دادند و اجتماع برقتل او نمود ندایں هر دو قول است اما حدیث اخیر بہتر است از حدیث اولی عبید بن سلمہ دراں باب بیتے چند گفتہ که ایں دو بیت از جملہ ابیات است.

فَمِنْكِ الْبَدَاءُ وَ مِنْكِ الْمَفَرُ

وَ مِنْكِ الرِّيَاحُ وَ مِنْكِ المَطَر

وَأَنْتِ أَمَرْتِ بِقَتْلِ الْإِمَامِ

وَقَاتِلہ عِندَنَا مَنْ أَمَرَ

(تاریخی روضتہ الصفاء جلد دوم صفحہ 478 ذکر خلافت امیر المومنین سیدنا علیؓ مطبوعہ لکھنو طبع قديم)

 ترجمہ:

 سیدنا عثمان غنیؓ کے شہید ہو جانے کے بعد جب سیدہ عائشہ صدیقہؓ ان کے خون کا مطالبہ کرنے لگیں تو ان کے بھائی عبید بن سلمہ نے جب ان تمام افعال و اقوال کا مشاہدہ کیا۔ تو اپنی بہن سیدہ عائشہؓ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا۔ اور ان سے کہا۔ عجیب حالت ہے کہ سیدنا عثمان غنیؓ کے بارے میں سب سے پہلے اعتراض کرنے والی تم خود ہو ۔ اور کئی مرتبہ یہ کہ چکی ہو۔ کہ اس نعثل کو قتل کر دو۔ یہ کافر ہو گیا ہے "نعثل" ایک لمبی داڑھی والے شخص کا نام تھا جس کی شکل و صورت سیدنا عثمان غنیؓ سے ملتی جلتی تھی ۔ اور جب کسی کی عیب جوئی اور برا بھلا کہنے کا موقعہ آتا ہے تو نعثل کا لفظ اس وقت استعمال کرتے ہیں۔ جب عبید بن سلمہ نے سیدہ عائشہؓ کو یہ بات کہی۔ تو انہوں نے جوابا کہا کہ جب لوگوں نے سیدنا عثمان غنیؓ سے کچھ ایسے افعال سرزد ہوتے دیکھے جو ناپسندیدہ تھے۔ تو انہوں نے توبہ کرنے کو کہا۔ اور ان (سیدنا عثمانؓ) کے قتل کے لیے اکٹھے ہو گئے ۔ یہ دو قول ہیں لیکن آخری بات پہلی بات سے بہتر ہے۔ عبید بن سلمہ کے اس موقعہ پر کہے گئے اشعار میں سے دو شعر یہ ہیں ۔

اے سیدہ عائشہؓ ! تو نے اس کام کی ابتداء کی۔

 اور تجھ پر ہی اس کا اختتام ہوتا ہے۔

 اور ہوا بھی تیری طرف سے تھی اور بارش بھی ۔ تو نے ہی تو قتل سیدنا (عثمانؓ) کا حکم دیا تھا۔ ہمارے فیصلہ کے مطابق ان کا قاتل وہی ہے۔ جس نے قتل کا حکم دیا تھا۔

 نوٹ:  عبارت بالا میں صاحب روضۃ الصفاء نے کس ڈھٹائی سے سیدہ عائشہ صدیقہؓ ؓ پر قتل سیدنا عثمانؓ کا الزام لگایا۔ گویا جنگ جمل کی بنیاد سیدہ عائشہؓ بنیں ۔ سیدنا عثمانؓ کو کافر، نعثل ایسے بے ہودہ الفاظ کی نسبت مائی صاحبہؓ کی طرف کی گئی۔ اور کمال چالاکی سے شیعہ معتقدات کو جناب عبید بن سلمہ کی زبانی بیان کر کے سیدہ عائشہؓ پر کتنا بڑا بہتان قائم کرنے کی کوشش کی ۔

اقتباس نمبر 2:

عمران و ابو الاسود نزد طلحہؓ و زبیرؓ رفتہ ہمیں سوال کردند و از ایشاں ہمیں جواب شنیدند . راز عائشہؓ استماع نموده بودند - رسولان گفتند کہ چگونہ با علیؓ مخالفت توانید کرد کہ بعیت او در گردن شما است طلحهؓ و زبیرؓ جواب داد کہ ما از بیم شمشیر مالک اشتر بر بیعت اور قدام نمودیم مشروط با آنکه قاتلان عثمانؓ راسیاست فرماید -

 (تاریخ روضته الصفاء جلد دوم صفحہ 479) 

 ترجمہ:

 عمران اور ابو الاسود جب سیدنا طلحہؓ اور سیدنا زبیرؓ کے پاس پہنچے۔ تو ان سے آنے کی وجہ پوچھی۔ (ان دونوں نے وہی جواب دیا ۔ جو سیدہ عائشہؓ سے پہلے یہ سن چکے تھے ۔ ان دونوں نے سیدنا علیؓ کے قاصد ہونے کی حیثیت سے بصرہ کے قریب جا کر مائی صاحبہؓ کا ایک لشکر کے ہمراہ تشریف لانا۔ اس کی وجہ پوچھی۔ تو مائی صاحبہؓ نے جوابا کہا تھا۔ ہم قاتلان سیدنا عثمانؓ کو سزا دینے کے لیے آئے ہیں) اس کے بعد ان دونوں قاصدوں نے سیدنا طلحہؓ و سیدنا زبیرؓ سے پوچھا کہ تم نے جب سیدنا علی المرتضیؓ کی بیعت کر لی ہے۔ تو پھر ان کی مخالفت پر کیوں اُتر آئے ہوئے۔ دونوں نے جواب دیا۔ کہ ہم نے سیدنا علی المرتضیؓ کی بیعت مالک اشتر کی تلوار کے خوف سے اس شرط پر کی تھی۔

کہ سیدنا علی المرتضیؓ قاتلان سیدنا عثمان غنیؓ کے ساتھ جو سلوک ہونا چاہیئے وہ کریں گے۔ اور انہیں مناسب سزا دیں گے۔

 نوٹ:

اس عبارت میں صاحب روضۃ الصفاء نے سیدنا طلحہؓ و سیدنا زبیرؓ کی بیعت کو مشروط اور ڈر کی بیعت ثابت کیا۔ اس طرح ان کی توہین کا ارتکاب کیا گیا۔ اس بارے میں مروج الذہب جلد دوم صفحہ 392 کا حوالہ یاد دہانی کے قابل ہے۔ جس میں مذکور ہے کہ جنگ جمل کے دوران جب سیدنا علی المرتضیؓ کی ملاقات سیدنا زبیرؓ سے ہوئی تو انہوں نے انہیں حضورﷺ کا یہ ارشاد یاد دلایا۔ کہ ایک دفعہ سیدنا زبیرؓ تم نے مجھے ازراہ محبت گلے سے لگایا۔ تو حضورﷺ نے فرمایا تھا۔ آج گلے لگا رہے ہو۔ اور کل ان سے جنگ کرو گے حضورﷺ کا یہ ارشاد سنتے ہی سیدنا زبیرؓ نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ اسی طرح سیدنا طلحہؓ وہ شخصیت ہیں۔ جنہوں نے ایک غزوہ میں حضورﷺ کی حفاظت میں ثابت قدمی دکھائی جس کی مثال ملنا مشکل ہے انہیں یہ ثابت کرنا کہ مالک بن اشتر سے ڈر کر سیدنا علیؓ کی بیعت کی تھی۔ کیا شیعیت کا پرچار نہیں؟

اقتباس نمبر 3:

عائشهؓ ام سلمهؓ را در ایں قول تصدیق نموده گفت من ازیں عزیمت تقاعد نمودم کہ ہیچ نستی به از کنج سلامت نیست چوں عبد اللہ زبیرؓ کہ خواهر زاده عائشہؓ بود ازایں معنی آگاه شدبا و گفت کہ اگر تو دریں سفر موافقت نمی نمائی مین خود را ہلاک می سازم و باسرو پائے برہنہ روئے دریا بان می نہم عائشہؓ باوجود مبالغہ ابن زبیرؓ طمس او را مبذول نفرمود عاقبت ارباب مکر و حیله يسمع عائشهؓ رسانید ندکہ عبدالله زبیرؓ بے زاد و راحلہ بجانب بصره رفت اگ تبدارک مهم دے نپردازی غالبا نپر دزاه بلاک خواه شد. و چوں عائشهؓ باو محبتی مفرط داشت ناچار با مخالفان امام زمان موافقت نموده عزیمت بصره نمود.

(روضة الصفاء - جلد دوم صفحہ 479)

 ترجمہ:

 جب سیدہ عائشہؓ نے بصرہ جانے کا ارادہ کیا۔ تو چاہا کہ سیدہ ام سلمہؓ بھی ساتھ چلیں۔ لیکن سیدہ ام سلمہؓ نے کہا ۔ میں تو سیدنا علیؓ کی مخالفت نہیں کروں گی۔ کیونکہ حضورﷺ کی ایک حدیث ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا تھا۔ کہ میری ایک بیوی باغیوں کے ساتھ ہوگی۔ اور تمام عرب کے کتے اس پر بھونکیں گے۔ اور پھر حضورﷺ نے فرمایا تھا مرور عائشہؓ ہوگی ۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے سیدہ ام سلمہؓ کی اس بات کی تصدیق کی۔ اور کہا کہ میں بصرہ جانے کا ارادہ ملتوی کرتی ہوں ۔ اور سمجھتی ہوں کہ تنہائی میں ایک کونہ کے اندر بیٹھ جانے سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں ہے۔ جب سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ کو سیدہ عائشہؓ کے اس ارادے کا علم ہوا۔ جو سیدہ مائی عائشہؓ کا بھانجا بھی تھا۔ تو اس نے اپنی خالہ سے کہا۔ اگر آپ بصرہ کی طرف سفر کرنے میں میری موافقت نہیں کریں گی۔ تو اپنے آپ کو ہلاک کر دوں گا۔ اور سر پاؤں سے ننگا بیابان کی طرف نکل کھڑا ہو جاؤں گا لیکن اس کے باوجود سیدہ عائشہؓ بصرہ جانے کے لیے آمادہ نہ ہوئیں۔ بالا آخر کچھ چیلہ بازوں اور مکار لوگوں نے سیدہ عائشہؓ تک یہ بات پہنچائی ۔ کہ آپ کا بھانجا بغیر سواری اور خرچہ کے بصرہ کی طرف چل نکلا ہے ۔ اگر تم نے اس کی بروقت مدد نہ کی۔ تو شائد وہ راستہ میں ہی ہلاک ہو جائے ۔ چونکہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو سیدنا عبد اللہؓ کے ساتھ بے پناہ پیار تھا۔ چنانچہ سیدنا زمان علی المرتضیؓ کے مخالفین ساتھ بصرہ جانے کا پکا ارادہ کر لیا ۔

 نوٹ:

سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا بصرہ تشریف لے جانا۔ اس کا سبب یہ بیان کیا گیا ۔ کہ ان کی بھانجے کی محبت نے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ اگر مائی صاحبہؓ ایمان و اعتقاد کی اتنی کمزور تھیں ۔ کہ رشتہ داری کی ان کی نظر میں زیادہ اہمیت تھی۔ یہ واقعہ صاحب روضته الصفاء نے نہ جانے کہاں سے لیا ہے۔ کسی دوسری کتاب میں اس بے سروپا اور بے سند واقعہ کا تذکرہ نہیں ملتا۔ جس سے صاف ظاہر ہے میر محمد خواند شاہ نے محض سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر اعتراض کی فضاء ہموار کرنے کے لیے اسے گھڑا ہے ۔ محبوبہ محبوب رب العالمین کی توہین کون کیا کرتے ہیں ؟

اقتباس نمبر 4:

از سیدنا محمد باقر روایت کرده اندکہ چوں سیدنا علی کرم الله وجه رحصن را گرفتہ بجنبانید تمامت حصار چناں بجنبید کہ صفیهؓ دختر حیی از سر تخت بیفتا و روئے او مجروح شد.(روضته الصفاء جلد دوم صفحہ 375).

 ترجمہ:

  سیدنا باقرؓ سے روایت ہے کہ جب سیدنا علی المرتضیؓ نے قلعہ خیبر کا دروازہ پکڑ کر اسے ہلایا۔ تو قلعہ کی پوری دیوار کانپ اٹھی اور صفیه دختر حیؓ تخت پر سے نیچے گرگئی۔ اور زخمی ہو گئی ۔

 نوٹ:

 سیدنا علی المرتضیٰؓ کی شجاعت کا کون منکر ہے۔ وہ اسدالله الغالب ہیں ۔ قلعہ خیبر کا دروازہ اکھاڑ پھینکا۔ لیکن جس انداز سے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی شجاعت اس واقعہ میں بیان کی گئی۔ یہ ان واقعات میں ایک ہے جن کو اہلِ تشیع نے خود گھڑا ۔ اہلِ تشیع کے خود ساختہ واقعات کو بڑے شدومد سے نقل کرنے والا آپ جان چکے ہوں گے کون ہے ؟

اقتباس نمبر 5

در اعلام الوری مذکور است کہ علیؓ درداد بابوبکرؓ رسید ابوبکرؓ پر یہ کہ اے علیؓ چپ واقعہ شده مگر درشان من چیزے نازل گشتہ علیؓ گفت نہ ولیکن رسول خداﷺ مرا فرمود کہ سوره براۃ از تو بستانم ومن بر مشرکان خوانم ابوبکرؓ از راه برگشتہ بہ نزد رسول اللهﷺ آمد و بعرض رسانید کہ إِنَّكَ استنى لامر طالب الأعْنَاقِ فِيهِ إِلَى فَلَمَّا تَوَجَهُتُ تَرَودنِي عَنْهُ مَالِي أُنْزِلَ فِي القُرْآنُ فَقَالَ النَّبِيﷺ وَالكِن الأمِينَ هَبَطَ إِلَى عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَ لَانه لَا يُؤَدِّي إِليْكَ الا انْتَ أَوْ رَجُلٌ مِنْكَ وَعَلى مِنَي وَهُوَ أَحْى وَوَصِينِي وَ وَارِتي وَخَلِيفَتِي فِي أَهْلِي وَأَمَّتی مِنْ بَعْدِي يَقْضِي دَيْنِي يَنْجُرُ وَالهُدى لَا يُؤدى الأعلي -

 (تاريخ روضة الصفاء جلد دوم صفحہ 408 تا 409)

 ترجمہ

 اعلام الوری میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا علی المرتضیؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو راستہ میں جا لیا ۔ سیدنا ابوبکرؓ نے پوچھا۔ کیا ہوا ۔ کیا میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے ؟ سیدنا علیؓ نے کہا۔ نہیں۔ لیکن مجھے حضورﷺ نے تمہارے پاس بھیجا تاکہ تم سے سورہ برات لے لوں ۔ اور میں اُسے مشرکین کے سامنے جا کر پڑھوں۔سیدنا ابوبکر صدیق واپس حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ حضور ! آپﷺ نے مجھے ایک کام سرانجام دینے کی ذمہ داری سونپی ۔ جب میں اُسے نباہنے چلا تو آپ نے وہ زمہ داری مجھ سے واپس لے لی۔ کیا میرے بارے میں کوئی حکم الہی نازل ہوا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا نہیں لیکن ابھی جبریل امین آئے تھے۔ اور یہ پیغام دے گئے کہ وہ کام (سورۃ براۃ کی تبلیغ) یا تو آپ خود کریں۔ یا کسی اپنے آدمی سے کروائیں۔ دیکھو۔سیدنا علیؓ مجھ سے ہی ہے ۔ وہ میرا بھائی اور وصی و وارث ہے۔ میرے اہل اور میری امت میں وہ میرا خلیفہ ہے۔ میرے بعد وہی میرے قرضے اتارے گا۔ اور میرے وعدے پورے کرے گا۔ لہٰذا یہ کام صرف اور صرف سیدنا علیؓ ہی کر سکتا ہے۔

 نوٹ:

سیدنا علی المرتضیؓ کے بارے میں اس عبارت میں کس قدر واضح طور پر شیعہ نظریات بیان کیے گئے۔ حضورﷺ کے بعد آپﷺ کا وصی اور خلیفہ انہیں کہا گیا یعنی تین خلفاء کرامؓ معاذاللہ غاصب تھے۔ پھر حوالہ اس کتاب کا دیا جو از اول تا آخر مسلک شیعہ کی ترجمانی ہے۔ اعلام الوری علامہ طبرسی شیعی کی تصنیف ہے۔ اس کتاب کے حوالہ سے سیدنا علی المرتضیؓ کوخلیفہ بلا فصل ثابت کرنے والا خود کٹر شیعہ ہے۔

اقتباس نمبر 6

روایت ہے کہ محمد بن حنفیہؓ اور سیدنا زین العابدینؓ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں اکٹھے ہوئے تھے۔ اور مسئلہ امامت کے بارے میں گفتگو چل نکلی محمد بن حنفیہؓ نے کہا ۔ کہ امامت کا زیادہ حقدار میں ہوں ۔ کیونکہ میں امیر المومنین سیدنا علی المرتضیؓ کا نسبی بیٹا ہوں ۔ لہٰذا حضورﷺ کے جنگی ہتھیار مجھے ملنے چاہیں۔ سیدنا زین العابدینؓ نے فرمایا ۔ کہ اے چچا خدا سے ڈر۔ اور جس دعوے کا مسحق نہیں وہ نہ کر سیدنا محمد بن حنفیہؓ نے اپنی بات پر اصرار کیا ۔ سیدنا زین العابدینؓ نے فرمایا۔

کہ اے چچا جس کی امامت کی گواہی حجر اسود دے گا۔ خلیفہ وقت اور امام زمان وہ ہے۔ اور اس بات کو قائم رکھتے ہوئے سیدنا زین العابدینؓ نے فرمایا۔ اے چچا پہلے تو خدا قادر مختار کی بارگاہ میں دعا کر کہ حجر اسود تیری امامت کی گواہی دے۔ اور جب محمد بن حنفیہؓ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ اور حجر اسود سے گواہی کا مطالبہ کیا۔ تو کوئی جواب نہ ملا۔ پھر محمد بن حنفیہؓ نے سیدنا زین العابدینؓ سے کہا کہ تو بھی یہی عمل کر سیدنا زین العابدینؓ نے دعا کے بعد فرمایا ۔ اے حجر اسود اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور اوصیاء کے جس عہد و میثاق کو تیرے اندر رکھ کر تجھے مشرف فرمایا ہے۔ اس کے واسطے سے فصیح عربی زبان میں مجھے خبر دے کہ سیدنا حسین بن علیؓ کے بعد امیرالمومنینؓ کون ہے۔ جب سیدنا زین العابدینؓ نے یہ بات کہی ۔ تو حجر اسود حرکت میں آیا ۔ چنانچہ قریب تھا۔ کہ اپنی جگہ سے باہر آجائے ۔ خدا قادر مختار نے اس میں قوت گویائی پیدا فرمادی۔ اور آواز آئی اے خدائے سزائے پرستش بتحقیق کہ امامت، بعد از حسینؓ بعلی بن حسینؓ رسیده است و امام اوست یعنی اے خدائے لائق عبادت سیدنا حسینؓ کے بعد امامت بالتحقیق علی بن حسینؓ (زین العابدینؓ) کو پہنچ چکی ہے ۔ اور امام وہ ہے ۔ (تاریخ روضتہ الصفاء جلد سوم صفحہ 543)

 نوٹ

حوالہ بالا میں امامت کا منصوص من اللہ کرنا نظر آتا ہے ۔ اور عہد میثاق کی تشریح و تفسیر پھر اس کی وجہ سے حجر اسود کا مشرف ہونا یہ وہ عقائد ہیں۔ جن پر اہلِ تشیع کے مسلک کی بنیاد قائم ہے ۔ ان چند حوالہ جات سے صاحب روضتہ الصفاء کے نظریات و معتقدات کھل کر سامنے آگئے جن سے یہ فیصلہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔ کہ یہ شخص ہرگز ہرگز اہلِ سنت میں سے نہیں ہے۔ بلکہ امامی شیعہ ہے۔ اب ہم دوسرے طریقہ کی طرف قلم اٹھاتے ہیں۔ یعنی کتب شیعہ میں صاحب روضته الصفاء کو کن لوگوں میں سے شمار کیا گیا ۔

صاحب روضتۃ الصفاء کا تشیع کتب شیعہ سے الذريعة:

(روضة الصفاء في سيرة الانبياء والملوك و الخلفاء ) فارسى لمحمد میرخواند بن خاوند شاه بن محمد السيد برهان الدين - وفي بعض النسخ محمد بن خواوند شاه ابن محمود خاوند شاه بن كمال الدين الخرار زمي الحسيني من نسل زيد بن على بن الحسين المتوفى ثاني سنة تاريخ ذي القعده 903 عن ست وستين سنة تاریخ كَبِيرٌ فِي مُجَلدَاتِ سِتَّةٍ وَكَانَ بِنَاؤُهُ التَّكْمِيلُ بالسبع لكنه ابْتَلَى بِالْمَرَضِ وَمَا تَمَكَّنَ مِنْهُ بَدَ الْحَقَ بِهِ السَّابِعَ وَلَدُهُ صَاحِبٌ حَبِيب السير نتذْییلاً وَ تَكْمِيلًا لَهُ وَ بِالْجُمُلَةِ هُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى أَحْوَالِ الأَئِمَّةِ أَلائمہ الاثنی عَشَرَ أَيْضًا وَلَذَا احْتَمَلَ فِي الرِّيَاضِ كَوْنهُ شِيعِيًّا وَاسْتُظْهَرَ كَوْنَهُ مِنْ عُلَمَاءِ الْإِمَامِيَّةِ وَقَدْ طُبعَ فِي بمبئي 1271 وَكَتَبَهُ في خانقاه خُلَاصَةَ الَّتِي بن هاله الوزير الامير على شير في أيام مُصَاحَبَتِهِ لَہ...... وَقَدْ أَخَذَ مِنْهُ وَلَدُهُ غياث الدين تاريخَہ الفَارِسِي الْمَرْسُومَ (حبيب السير) الَّذِي أَلفَه للخواجة حبيب الله من رِّجَالِ دَولة الشاه اسماعيل الصفوي في 927-

(الذريعه الى تصانيف الشيعة - جلد 11، صفحہ 296 مطبوعہ بیروت طبع جدید)

ترجمہ

روضۃ الصفاء فارسی زبان میں لکھی گئی ہے۔ اور اس کے مصنف کا نام محمد میر خواند بن خاوند شاه یا محمد بن خواند شاہ خوارزمی حسینی ہے۔ جو سیدنا زین العابدینؓ کی نسل میں سے تھا ۔ 66 برس کی عمر میں 903ء بمطابق دو ذی العقدہ میں اس نے انتقال کیا۔ اس کی یہ تاریخ چھ جلدوں پر مشتمل ہے ارادہ یہ تھا۔ کہ اسے سات جلدوں میں مکمل کرے گا۔ لیکن ساتویں جلد بیماری کی وجہ سے نہ لکھ سکا ۔ یہ جلد اس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے غیاث الدین نے لکھ کر مکمل کی۔ مختصر یہ کہ یہ کتاب بارہ اماموں کے حالات بھی بیان کرتی ہے ۔ اسی لیے ریاض العلماء میں اس کے مصنف کے شیعہ ہونے کا احتمال بیان کیا گیا ہے ۔ یہ کتاب 1271 میں بمبئی میں چھپی مصنف نے اس کا خلاصہ اس خانقاہ میں بیٹھ کر لکھا تھا۔ جو اس کے لیے وزیر امیر علی شیر نے تعمیر کروائی تھی ۔ اس کے بیٹے غیاث الدین نے بھی ایک فارسی تاریخ بنام حبیب السیر لکھی۔ اور اس میں اپنے والد کی کتاب روضتہ الصفاء سے استفادہ کیا گیا۔

غیاث الدین کے حکم پر لکھی تھی۔ جو شاہ اسماعیل صفوی کی حکومت 927 کا ایک رکن تھا۔ 

الكنى والالقاب 

 المدير خواند محمد بن خاوند شاه بن محمود المورخ المطلع الماهر صاحب كتاب روضة الصفاء في سيرة الانبياء والملوك والخلفاء توفى سن 903 واخْتَصَرَهُ ابنُه غَيَاتُ الدين خواند میر و سماه حبيب السير في اخبار افَرَادِ الْبَشَرِ قَالَ صَاحِبٌ كَشْفِ الظُّنُونِ وَهِيَ فِي ثَلَاثِ مُجَلَّدَاتٍ عِبَارٍ مِنَ الْكُتُبِ الممتعة المُعْتَبَرَةَ إِلَّا أَنَّهُ أَطَالَ فِي وَصْفِ ابْنِ حَيْدر ای شاه اسماعيل الصفري ابن السلطان حيدر الموسوى كَمَا هُوَ مُقْتَضَى حَالِ عَصْرِهِ وَ هُوَ مَعْذورٌ فِيهِ تَجَاوَزَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَنْهُ -

 ( الكنى والالقاب جلد سوم صفحہ 220 مطبوعه تهران طبع جدید) 

 ترجمہ

 میر خواند محمد بن خاوند شاہ مؤرخ اور ماہر علم تھا ۔ روضتہ الصفاء اسی کی تصنیف ہے جو سن 903 میں اس نے لکھی ۔ پھر اس نے لکھی۔ پھر اس کے بیٹے غیاث الدین خواند میر نے اس کا حبیب السیر کے نام سے خلاصہ لکھا ۔ صاحب کشف الظنون نے کہا ۔ کہ اس کی تین جلدیں ہیں۔ اور اس کا بہت نافع اور معتبر کتابوں میں شمار ہوتا ہے ۔ ہاں اس نے اس کتاب میں ابن حیدر یعنی شاہ اسماعیل صفوی ابن سلطان حیدر موسوی کی بہت تعریف کی لیکن یہ اس دور کا تقاضا تھا۔ اس لیے اللہ سے دعا ہے۔ کہ وہ اسے معاف کر دے۔

 نوٹ:

شاہ اسماعیل صفوی کے ایک خاص درباری حبیب اللہ کے ایماء پر صاحب روضته الصفاء کے بیٹے حیات الدین نے حبیب السیر نامی خلاصہ تالیف کیا جس کے بارے میں ہم گزشتہ صفحات میں تحقیق پیش کر چکے ہیں۔ کہ یہ کتاب اہلِ تشیع کی ہے یہی وجہ ہے کہ الذریعہ میں اسے اور اس کی اصل یعنی روضتہ الصفاء دونوں کو اپنے مسلک کی کتب کے طور پر متعارف کرایا۔ اور مزید یہ کہ اس کتاب میں جس شخص کی بے مہبا تعریف کی گئی ۔ وہ یعنی ابن حیدر موسوی ایسا شخص ہے ۔ جس نے شیعیت کا اپنے دور میں بہت پرچار کیا۔ کیونکہ وہ خود امامی شیعہ تھا۔ اس بارے میں حوالہ ملاحظہ ہو۔

 الكنى والالقاب:

 صفی الدین اردبیلی - توفى سن 735 في اردبيل وَدُفَنِ بِهَا وَدُفِنَ عِنْدَهُ جَمَاعَةٌ كَثِيرَةٌ مِنْ أَوْلَادِه وَ احْفَادِه کالشَّيْخِ صَدْر الدِّين والشيخ جنيد والسلطان حيدر وابنه الشاه اسماعيل. ينسب إلَيْهِ السَّلاطِينُ الصفوية الَّذِينَ اهْتَمُوا بنشر اعلام الدين وترويج شِيْعَةِ امير المؤمنین علیہ السلام اوَلَهُم الشَّاهُ إِسْمَاعِيل - الاول ابن السلطان حیدر ۔  

(الكنى والالقاب جلد دوم صفحہ 424)

ترجمہ:

 صفی الدین اردبیلی 357 سن میں فوت ہوا۔ اردبیل میں ہی دفنایا گیا۔ اور اس کے ساتھ اس کی اولاد اور خدام کثیر تعداد میں مدفون ہیں۔ جیسا کہ شیخ صدر الدین ، شیخ جنید اور سلطان حیدر اور اس کا بیٹا شاہ اسماعیل۔ اسی صفی الدین کی طرف صفوی بادشاہ منسوب ہیں ۔ ہی وہ بادشاہ ہوئے جنہوں نے اپنے اپنے دور میں دین شیعہ کی تبلیغ و نشرِ اشاعت کا اہتمام کیا ۔ ان میں سے سب سے پہلا سلطان حیدر کا بیٹا شاہ اسماعیل ہے۔ 

 لمحہ فكريہ

جس طرح صاحب روضۃ الصفاء اپنی تحریرات کے آئینے میں امامی شیعہ ثابت ہوا تھا۔ اسی طرح کتب شیعہ جو صرف شیعہ مصنفین اور مؤرخین وغیرہ کی تاریخ بیان کرتی ہیں۔ اُن سے بھی یہی ثابت ہوا کہ یہ شیعہ ہے۔ اور اس نے ان بادشاہوں کے دور میں اس کتاب کی تصنیف و تالیف کی ۔ جس میں شیعیت کا سرکاری طور پر پرچار ہوتا تھا۔ ان حالات و واقعات کی روشنی میں کوئی عقل سے عاری ہی اسے سنی اور اس کی کتاب کو اہلِ سنت کی معتبر کتاب کہہ سکتا ہے۔ شیعہ ہونے کی وجہ سے اس کی تحریرات ہم اہلِ سنت پر حجت ہرگز ہرگز نہیں بن سکتیں ۔ غلام حسین نجفی وغیره نے خواہ مخواہ بیچارے کے مرنے کے بعد سنی کہہ دیا ۔ اور اپنا الو سیدھا کرنے کی حماقت کی لیکن فراڈ اور فریب پر قائم عمارت تحقیق کی ایک ضرب کی برداشت نہ کر،سکی ۔ اور دھڑام سے زمین بوس ہو گئی۔ 

(فاعتبروا یا اولی الابصار)