الامامۃ والسیاسۃ مصنفہ ابنِ قتیبہ عبداللہ بن مسلم
محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحبالامامۃ والسیاسۃ مصنفہ ابنِ قتیبہ عبداللہ بن مسلم
الامامة و سیاست کا مصنف عبداللہ بِن مسلم ابنِ قتیبہ ہے اس کتاب میں اور اس کی ایک اور کتاب المعارف میں اس شخص نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے بارے میں بڑا زہر اگلا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے بڑھ کر اس مردودالسان سرکار دو عالمﷺ کی ذات مقدسہ کو اپنی تحریرات میں نشانہ بنایا ایسے شخص کو کون معتبر کہہ سکتا ہے بہرحال غلام حسین نجفی کی کتاب ماتم اور صحابہؓ کا ایک اِقتباس پیش کر کے ہم ابنِ قتیبہ کے بارے میں اپنے اندازے سے تحقیق پیش کریں گے ملاحظہ ہو
ماتم اورصحابہؓ
ثم جاء الی اُم خالد فرقدعندھا فامرت جواریھا وطرحن علیہ الشواذك ثم غطتہ حتیٰ قتلتہ ثم خرجن فصحن وشققن ثیابھن یا امیر المومنینؓ یا امیر المومنینؓ ثم قام عبدالملک بالامر بعدہ
( اہلِ سنت کی معتبر کتاب الامامۃ والسیاسۃ جلدوم صفحہ 261)
ترجمہ
(مروان نے یزید کی زوجہ سے شادی کی تھی پھر کسی بات پر یزید کے بیٹے خالد سے ان بن ہو گئی خالد نے ماں سے شکایت کی کہ اس نے کہا میں اس کا بندوبست کرتی ہوں) پھر جب مروان رات کو گھر آ کر خالد کی ماں کے پاس سویا تو اُم خالد نے کنیزوں کو حکم دیا اور کنیزوں نے اس پر لحاف ڈال کر اس کو مار ڈالا اور پھر ان عورتوں نے گریبان چاک کیے اور چلاتی ہوئی نکلی اور کہتی تھی کہ یا امیر المومنینؓ یا امیر المومنینؓ
قارئین کرام! مروان ملوانوں کے چھ خلیفوں کا باپ ہے اور اس کی موت پر بنو امیہ کی عورتوں نے گریبان چاک کیے اگر یہ بدعت ہوتا تو چھ خلیفوں کے باپ پر اس بدعت کو ہرگز نہ کیا جاتا
(ماتم اور صحابہؓ صفحہ 247)
جواب اول
اولاً الامامۃ والسیاسة کی ابنِ قتیبہ کی طرف نسبت ھی غلط ھے
الامامۃ والسیاسۃ نامی کتاب کیا ابنِ قتیبہ کی تصنیف ہے المعارف لابنِ قتیبہ میں جن تصانیف ابنِ قتیبہ کا تذکرہ ہے ان میں سے اس نام کی اس کی کوئی تصنیف نہیں لکھی گئی بلکہ المعارف کے مقدمہ میں اس امر کی تردید موجود ہے الفاظ یہ ہے
مقدمة المعارف لابنِ قتیبہ
بقی بعدھذا کتاب شاعت نسبتہ الی ابنِ قتیبہ ولیس لہ وھو کتاب الامامة والسیاسة والادلة علی بطلان نسبة ھذا الکتاب الی ابنِ قتیبة کثیرة منھا
- ان الذین ترجموا الابنِ قتیبة لم یذکروا ھذا الکتاب بین ما ذکروہ لہ
- ان الکتاب یذکر ان مؤلفه کان بدمشق وابنِ قتیبہ لم یخرج من بغداد الا الی الدینور
- ان الکتاب یروی عن لیلی وابو لیلیٰ کان قاضیا بالکوفة 148 ای قبل مولد ابنِ قتیبة بخمس وستین سنة
- ان المؤلف فقل خیر فتح الاندلس عن امراة شھدته وفتح الاندلس کان قبل مولد ابنِ قتیبہ بنحو مائة وعشرین سنة
- ان مؤلف الکتاب یذکر فتح موسیٰ بن نصیر لمراکش مع ان ھذہ المدینة سیدھا یوسف بن تاشقین سلطان المرابطین سن 455 ھجری وابنِ قتیبة توفی سن 276 ھجری
(مقدمۃ المعارف لابنِ قتیبہ مقدمہ از ڈاکٹرثروت عکاشہ صفحہ 56 مطبوعہ قاھرہ مصر)
ترجمہ
باقی رہی یہ بات کہ کتاب الامامۃ و السیاسۃ جو کہ ابنِ قتیبہ کی طرف منسوب ہے وہ ہرگز اس کی تصنیف نہیں ہے اور اس کے بارے میں یہ اس کی تصنیف نہیں بہت سے دلائل ہیں
نمبر 1
کہ جن لوگوں نے ابنِ قتیبہ کے حالات لکھے انہوں نے اس کی تصنیفات میں اس کتاب کا ذکر تک نہیں کیا
نمبر 2
کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا مصنف دمشق کا رہنے والا تھا حالانکہ ابنِ قتیبہ بغداد میں رہائش پذیر تھا اور یہاں سے وہ دینور کے علاوہ کسی اور شہر میں ہرگز نہیں گیا
نمبر 3
کتاب میں ابو لیلیٰ کی روایات درج ہیں کہ ابو لیلیٰ 148 ھجری میں کوفہ کا قاضی تھا یعنی ابنِ قتیبہ کی پیدائش سے 65 سال قبل
نمبر 4
کتاب کے مصنف نے اندلس کے فتح کے واقعہ کو ایک عورت کی زبانی بیان کیا جو اس واقعہ میں موجود تھی اور فتح اندلس 120 سال قبل پیدائش ابنِ قتیبہ ہوئی تھی
نمبر 5
اس کتاب کے مؤلف نے مراکش کی فتح موسیٰ بِن نصیر کے حوالہ سے بیان کی ہے حالانکہ مراکش کو یوسف بِن تاشقین نے سن 455 ھجری میں آباد کیا تھا اور ابنِ قتیبہ کا انتقال 276 ہجری میں ہو چکا تھا
لمحہ فکریہ
الامامۃ و سیاسۃ کا مصنف کون تھا ؟صاحب مقدمۃ المعارف نے پانچ مضبوط دلائل سے اس امر کی تردید کی ہے کہ اس کا مصنف مسلم بِن قتیبہ نہیں اب مسلم بِن قتیبہ کو اہلِ سنت کا امام کہہ کر پھر الامامۃ والساسۃ کو اس کی تصنیف لکھنا کہاں کی دانشمندی ہے ذرا انصاف سے کہیے؟
جواب دوم
ابنِ قتیبہ کی بعض غلیظ تحریرات
اگر بفرض محال الامامۃ و السیاسہ کو مسلم بِن قتیبہ کی تصنیف تسلیم کر لیا جائے تو پھر ہم ابنِ قتیبہ کی شخصیت کی تحقیق کریں گے کہ کیا اس کے عقائد وہی ہیں جو اہلِ سنت کے معتمد اور مقبول ہیں اگر ایسا ہی ہو تو پھر کسی حد تک اہلِ سنت کی معتبر کتاب کے عنوان سے الامامۃ و سیاسۃ کو پیش کیا جا سکتا ہے اگر ابنِ قتیبہ نظریاتی طور پر اہلِ تشیع کا ہمنوا نکلے پھر اس کی تصانیف کو اہلِ سنت کی معتبر کتاب کہنا نری حماقت اور پرلے درجے کی جہالت ہوگی آئیے ابنِ قتیبہ کی تصنیف الامامۃ و سیاسۃ اور المعارف سے چند اِقتباسات ملاحظہ کریں تاکہ اس کی اپنی زبانی اس کے عقائد کا اندازہ ہو سکے
اِقتباس نمبر 1
ان ابا بکرؓ تفقد قوما تخلفوا عن بیعتہ عند علی کرم اللہ وجھہ فبعث الیھم عمر فجاء فناداھم وھم فی دار علی فابوا ان یخرجوا فدعا بالحطب وقال والذی نفس عمرؓ بیدہ لتخرجن اولاحرقنھا علیؓ من فیھا فقیل لہ یا اباحفصؓ ان فیھا فاطمةؓ فقال وان خرجوا فبایعوا الاعلیا فانہ زعم انہ قال حلفت ان لا اخرج ولا اضع ثوبی علیؓ عاتقی حتیٰ اجمع القرآن فوقفت فاطمہؓ علی بابھا فقالت لاعھد لی بقوم حضروا اسواء محضر منکم ترکتم رسول اللہﷺ جنازة بین ایدینا وقطعتم امرکم بینکم لم تستامرونا ولم تردوا لناحقا
(الامامة والسیاسة جزء اول صفحہ 12 تا 13 کیف کانت بیعت سیدنا علی بن ابی طالبؓ)
ترجمہ
سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے دیکھا کہ کچھ لوگ ان کی بیعت نہیں کرنے آئے اور سیدنا علی المرتضیؓ کے پاس جمع ہیں تو ان کے پاس سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا عمر بن خطابؓ کو بھیجا سیدنا عمرؓ تشریف لائے اور انہیں آواز دی لیکن انہوں نے باہر آنے سے انکار کر دیا اس پر سیدنا عمرؓ نے ایندھن منگوایا اور خدا کی قسم کھا کر کہا کہ تمہیں نکلنا ہوگا ورنہ میں تمہیں جلا دوں گا اس پر سیدنا عمرؓ کو کہا گیا کہ اے ابو خفصؓ گھر میں سیدہ فاطمہؓ بھی تشریف فرما ہیں تو فرمایا ہوتی ہیں ہوتی رہیں یہ سن کر وہ باہر آئیں اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کے سوا سب نے بیعت کر لی کیونکہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اپنے ساتھ یہ عہد کیا ہوا تھا کہ وہ اس وقت گھر سے باہر نہ نکلیں گے اور نہ ہی اپنے کندھے پر کہیں جانے کے لیے کپڑا رکھیں گے جب تک کہ قرآن مجید جمع نہ کر لیں سیدہ فاطمہؓ بھی رک گئیں اور دروازے پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ کیا تم لوگوں کے ہاں میرے لیے کوئی عہد نہیں جو بری نیت سے آئے ہو تو تم نے نبیﷺ کا جنازہ ہمارے سامنے چھوڑ رکھا ہے اور عمارت کا فیصلہ اپنے لیے خود ہی کر لیا تم ہمیں عمارت کیوں نہیں دیتے اور ہمیں ہمارا حق واپس کیوں نہیں کرتے
اِقتباس نمبر 2
جب کچھ لوگ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے حکم سے سیدنا علیؓ کو پکڑ کر لا رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بیعت کیوں نہیں کرتے سیدنا علی المرتضیٰؓ نے کہا کہ اگر میں بیعت نہ کروں تو تم کیا کرو گے انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری گردن اڑا دیں گے سیدنا علیؓ بولے کہ تم اللہ کے بندے اور اس کے رسول کے بھائی کو قتل کرو گے؟ اس پر سیدنا عمرؓ بولے کہ تم عبداللہ تو ہو لیکن حضورﷺ کا بھائی ہونا یہ تو کوئی بات نہیں ہے سیدنا ابوبکر صدیقؓ خاموش کھڑے تھے سیدنا عمر فاروقؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے کہا کہ آپ اس کو اپنی بیعت کا کیوں نہیں کہتے سیدنا ابوبکرؓ نے کہا کہ جب تک سیدہ فاطمہؓ ان کے پاس ہیں میں انہیں کچھ بھی مجبور نہیں کروں گا سیدنا علی المرتضیٰؓ نے جب محسوس کیا کہ سیدنا عمرؓ مجھے چھوڑتے نہیں تو سیدنا علی المرتضیٰؓ نبیﷺ کی قبر انور پر جا کر حاضر ہو کر رو کر عرض کرنے لگے کہ اے بھائی لوگوں نے مجھے بے بس کر دیا ہے اور میرے قتل کے در پہ ہو گئے ہیں
(الامامۃ والسیاسۃ صفحہ 13 جزء اول)
نوٹ
ان دونوں اِقتباسات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اور خصوصا سیدنا عمر بِن خطابؓ کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے ہم اس کا تفصیلی جواب عقائد جعفریہ جلد اول اور تحفہ جعفریہ میں پیش کر چکے ہیں یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کا جبراً سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بیعت کرنا اور قبر رسولﷺ پر گریہ زاری کرنا یہ ہرگز اہلِ سنت کے عقائد میں سے نہیں بلکہ کتب شیعہ میں ان عقائد کی بھرمار ہے لہٰذا ان کا قائل اہلِ سنت کا فرد ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی الامامۃ و السیاستہ اہلِ سنت کی کتاب ہے
اِقتباس نمبر 3
سیدنا طلحہؓ اور سیدنا زبیرؓ بیعت سے فارغ ہونے پر سیدنا علی المرتضیؓ کے ہاں آئے اور کہنے لگے کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہم نے آپ کی کیوں بیعت کی ہے فرمایا میری اطاعت کے لیے اور اسی غرض کے لیے جو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ کی بیعت کرتے وقت تمہیں تمہارے پیش نظر تھی دونوں نے کہا کہ ہم نے بیت اس لیے کی ہے کہ امر خلافت میں ہم دونوں بھی آپ کے ساتھ شریک ہیں اور سیدنا علی المرتضیٰؓ بولے کہ یہ نہیں ہو سکتا
(جزء اول صفحہ 51)
اِقتباس نمبر 4
ابو حسین احمد بِن فارسی اپنی تصنیف الصاحبی میں ابنِ قتیبہ کا کلام نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ ابنِ قتیبہ منکر باتیں اور میری ناپسند باتیں درج کرتا ہے مثلاً اس نے شعبی سے ایک روایت یہ نقل کی ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ اور سیدنا علی المرتضیٰؓ فوت ہوگئے لیکن قرآن جمع نہ کر سکے اور سیدنا علی المرتضیٰؓ اپنی قبر میں پہنچ گئے لیکن وہ قرآن حفظ نہ کرسکے کس قدر قبیح کلام ہے
(مقدمۃ التحقیق علی المعارف صفحہ 59)
اِقتباس نمبر 5
کان الخطاب بِن نفیل من رجال قریش وامہ امرأة من فھم وکانت تحت نفیل فتزوجھا عمرو بن نفیل بعد ابیہ فولدت لہ زیدا فامہ اُم الخطاب
(المعارف لابنِ قتیبہ صفحہ 179 مطبوعہ مصر طبع جدید)
ترجمہ
خطاب بِن نفیل ایک قریشی آدمی تھا اور اس کی ماں فہم قبیلہ سے تھی نفیل کے نکاح میں تھی نفیل کے انتقال کے بعد عمر بن نفیل نے یعنی کہ بیٹے نے ماں سے شادی کر لی پھر اس سے زید پیدا ہوا
نوٹ
سیدنا عمر بن خطابؓ کے نسب پر کس قدر غلیظ ذہنیت استعمال کی گئی ہے یہی تو شیعت ہے
اِقتباس نمبر 6
کانت برہ بنتِ مراخت تمیم بِن مرتحت خزیمہ ابنِ مدرکہ بِن الیاس بِن مضر فخلف علیھا ابنہ کنانة بِن خزیمہ فولدت لہ النضر بِن کنانہ
( المعارف صفحہ 112)
ترجمہ
تمیم بِِن مرکی بہن برہ بنت مر کی شادی خزیمہ ابنِ مدرکہ کے ساتھ ہوئی جبکہ خزیمہ کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے کنانہ نے اس سے یعنی اپنی والدہ سے شادی کر لی تو اس سے نضر بِن کنانہ پیدا ہوا
نوٹ
نبیﷺ کے نسب شریف پر یہ اعتراض کس امتی کی جرات ہو سکتی ہے
اِقتباس نمبر 7
وکانت واقدۃ من بنی مازن بِن صحصحة عند عبد مناف فولدت لہ نوفلا وابا عمرو فھلك عنھا وخلف علیھا ابنہ ھاشم بِن عبد مناف
(المعارف صفحہ112)
ترجمہ
واقدہ نامی عورت قبیلہ بنی مازن سے تھی اور حضورﷺ کے پر دادا عبد مناف کا انتقال ہو گیا تو ان کے بیٹے ہاشم نے ان سے شادی کر لی یعنی بیٹے نے ماں سے شادی کر لی
لمحہ فکریہ
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں بکواس کرنا تو کتب شیعہ میں بھرپور طریقے سے موجود ہے اگر ابنِ قتیبہ کی تحریرات یہیں رک جاتی تو ہم اسے شیعہ کہہ دیتے لیکن اس خبیث التحریر نے تو آپﷺ کے آباؤ اجداد کو بھی معاف نہ کیا اور کمال ڈھٹائی اور بے حیائی سے بلا سند اور بے اصل روایات کا سہارا لیا ہے ھم سنی کس طرح تسلیم کریں گے جبکہ اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ حضورﷺ کے آباؤ اجداد آدمؑ سے تا حضرت عبداللہ تمام طیب و طاہر ہیں جو کہ جواہر البحارین علامہ یوسف نبھانی مواہب لدنیہ میں امام قستلانی اور مختلف تصانیف میں علامہ السیوطی نے اس کی خوب وضاحت فرمائی ہے صرف ایک حوالہ ملاحظہ ہو
الحاوی للفتاویٰ
ان اللہ استخلص رسولہﷺ من اطیب المناکح ونقلہ من اصلاب طاھرة الی ارحام منزھة وقد قال ابنِ عباس فی تاویل قول اللہ وتقبلك فی الساجدین ای تقلبك من اصلاب طاھرة من اب الی ان جعلك نبیا
( الحاوی للفتاوی جلدوم صفحہ 221 للسیوطی)
ترجمہ
کہ اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو باہمی نکاح میں بھی خاص مقام عطا فرمایا اورآپﷺ کو طاہر مردوں سے پاکیزہ عورتوں کی طرف مختلف پشتوں سے منتقل فرمایا حضرت ابنِ عباس نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد و تقبلك فی الساجدین کے معنی یہ بیان کیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ کو حضرت آدمؑ سے حضرت عبداللہ تک پاک و طاہر پشتوں سے منتقل کیا اور آپ تشریف لائے تو پیغمبر بن کر آئے
جواب سوم
ابنِ قتیبہ کی سیرت اور حالات کا آئینہ
لِسان المیزان
ورایت فی مرأة الزمان الدارقطنی قال کان ابنِ قتیبة یمیل الی التشبیہ منخرفات عن العترة وکلامہ یدل علیہ وقال البیھقی کان یری رای الکرامیة وذکر المسعودی والمروج ان ابنِ قتیبة استمد فی کتبہ من ابی حنیفة الدینوری وسمعت شیخی العراقی یقول کان ابنِ قتیبة کثیر الغلط۔
(لِسان المیزان جلد سوم صفحہ 385 مطبوعہ بیروت)
ترجمہ
کہ مرۃ الزمان میں میں نے دیکھا کہ ابنِ قتیبہ کے بارے میں یہ دارقطنی کا کہنا ہے کہ اس کا شیعیت کی طرف میلان تھا اور اہلِ بیت سے منحرف تھا اس پر اس کا کلام بھی دلالت کرتا ہے بیہقی نے اسے کرامیہ کہا اور مروج میں مسعودی نے کہا کہ اس نے اپنی کتابوں میں ابوحنیفہ دینوری کے مضامین سے مدد لی اس نے اپنے شیخ عراقی سے تو ابنِ قتیبہ کثیر الغلط تھا
مقدمۃ التحقیق
وغیر ابنِ الانباری وابی الطبیب نجد الحاکم ابا عبد الله محمد النیساپوری(405ھ) الذی یقول اجمعت الامة علی ان القتیبی کذاب کما نجد ابن تغریبردنی (874ھ)وکان ابنِ قتیبة خبیث اللسان یقع فی حق کبار العلماء
( مقدمة التحقیق للمعارف صفحہ 21 مطبوعہ مصر جدید)
ترجمہ
ابنِ انباری اور ابو الطبیب کے علاوہ حاکم ابو عبد اللہ نیشا پوری نے کہا کہ تمام امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قتیبی ابنِ قتیبہ پرلے درجے کا جھوٹا شخص ہے اور اسی طرح ابنِ تغریبروی نے کہا کہ ابنِ قتیبہ گندی اور ناپاک زبان والا تھا بڑے بڑے اکابر علماء کو بھی اس اپنی زبان کے خبث سے معاف نہ کیا
لمحۂ فکریہ
ابنِ قتیبہ کی سیرت اور اس کی تحریر کے بارے میں ہم نے ایک دو حوالہ جات سے روشنی ڈالی اور اس پر اہلِ تشیع ہونے کا فتویٰ اہلِ بیت سے منحرف ہونے کا الزام کرامیہ عقائد پر قائم اور ابوحنیفہ دینوری ایسے کٹر امامی شیعہ کے کتابوں سے استفادہ کرنے والا غلطیوں کا پیکر تمام علماء کے ہاں متفقہ طور پر کذاب خبیث اللسان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر گند اچھالنے والا حضور سرور کائناتﷺ کے آباؤ اجداد پر بہتان لگا کر خود نبیﷺ کو ناراض کرنے والا اور اس کے باوجود وہ اہلِ سنت میں سے ہے غلام حسین نجفی وغیرہ کی آنکھیں اس عبارت سے بند تھیں؟ بڑی بے حیائی کے ساتھ اس خبیث اللسان کی پیروی کرتے ہوئے خباثت لسانی کا مظاہرہ کیا گیا اور کذاب ابنِ قتیبہ کے نقش قدم پر چل کر نجفی نے مسیلمہ کذاب کو مات کر دیا کیوں نہ ایسا ہوتا وہ بھی تشیع کا دل داہ یہ بھی اسی کا پہردار وہ بھی اِدھر اُدھر کے ہانکنے والا یہ بھی فٹبال کندہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز
فاعتبروا یا اولی الابصار