Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ملکی عہدوں پر شیعوں کو مقرر لانا، ان کو حج یا قاضی یا مسجد کا متولی بنانا،ان کو کسی تنظیم وغیرہ کا ممبر بنانا،اور ان کو ووٹ دینا وغیرہ،ملک کی سالمیت کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ اور اس کا شرعی حکم اور نقصانات۔ سنی اکثریت کے حقوق پر شیعہ اقلیت قابض کیوں ہے۔

  مولانا محب اللہ قریشی

ملکی عہدوں پر شیعوں کو مقرر لانا، ان کو حج یا قاضی یا مسجد کا متولی بنانا،ان کو کسی تنظیم وغیرہ کا ممبر بنانا،اور ان کو ووٹ دینا وغیرہ،ملک کی سالمیت کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ اور اس کا شرعی حکم اور نقصانات۔

 سنی اکثریت کے حقوق پر شیعہ اقلیت قابض کیوں ہے۔

 اسلاف کے 50 اقوال ملاحظہ فرمائیں

¹-اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا: کہ کافر(شیعہ) کو ہمراز اوربھیدی نہ بناؤ،

چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَةً مِّنۡ دُوۡنِكُمۡ لَا يَاۡلُوۡنَكُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ‌ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ  ۖۚ وَمَا تُخۡفِىۡ صُدُوۡرُهُمۡ اَكۡبَرُ‌ؕ قَدۡ بَيَّنَّا لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ‌ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ (سورۃ آل عمران آیت نمبر 118)

ترجمه:اے ایمان والو نہ بناؤ بھیدی کسی کو اپنوں کے سوا وہ کمی نہیں کرتے تمہاری خرابی میں ، ان کی خوشی ہے تم جس قدر تکلیف میں رہو نکلی پڑتی ہے دشمنی ان کی زبانوں سے اور جو کچھ مخفی ہے ان کے جی میں وہ اس سے بہت زیادہ ہے، ہم نے بتادیے تم کو پتے اگر تم کو عقل ہے۔

اس آیت کے تحت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی صاحبؒ لکھتے ہیں

ربط:اوپر اہلِ کتاب کے خصوص یہود کے مختلف قبائح و ذمائم مذکور ہوئے ہیں آگے اہلِ ایمان کو خطاب کرتے ہیں کہ یہ جب ایسے ہیں تو ان سے دوستی یا دوستانہ برتاؤ مت رکھو۔

فائدہ: یہاں پر جو غیر مذہب والوں سے خصوصیت کی ممانعت فرمائی ہے اس میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کو اپنا ہمراز نہ بنایا جائے۔چنانچہ روح المعانی میں سیدنا حسنؓ کا تائید کرنا ایک حدیث کا جو بروایت بیہقی مشرکین کو ہمراز بنانے کی ممانعت میں آئی ہےاس آیت سے منقول ہے۔ اور اس میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنے خاص امور انتظامی میں اس کو دخل دیا جائے۔ چنانچہ کبیر میں سیدنا فاروقِ اعظمؓ کا انکار فرمانا ایک نصرانی کو منشی بنانے سے اس آیت کی بنا پر مذکور ہے اور گو شانِ نزول خاص ہے مگر عموم الفاظ سے حکم عام ہے۔

( بيان القرآن جلد1صفحہ131)

اس آیت کے تحت حضرت علامہ قاضی محمد ثناء اللہ عثمانی مجددی پانی پتی صاحبؒ لکھتے ہیں

ابنِ جریرؒ اور ابنِ اسحاقؒ نے سیدنا ابنِ عباسؓ کا قول نقل کیا ہے کہ کچھ مسلمانوں کا میل ملاپ کچھ یہودیوں کے ساتھ تھا، کیونکہ دونوں ہمسائے تھے اور جاہلیت کے زمانہ میں حلیف(ہم عہد) بھی تھے۔ اس سلسلہ میں ذیل کی آیت نازل ہوئی:

 (يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَةً مِّنۡ دُوۡنِكُمۡ)

ترجمہ:اے اہلِ ايمان اپنے لوگوں یعنی مسلمانوں کے علاوہ دوسروں کو اندرونی یارِ غار نہ بناؤ۔ بطانة رازدار،اور وہ شخص جس پر اعتماد کرکے کوئی اس کو اپنے رازوں سے واقف بنا دے۔ یعنی ان لوگوں کو اپنا یار غار نہ بناؤ جو تم سے نچلے اور کم مرتبہ والے ہیں۔ اس میں مسلمانوں کی مدح ہے کہ تمہارا مرتبہ غیر مسلموں سے زیادہ ہے۔ اور اس بات کی بھی آیت سے ہدایت(مستفاد) ہوتی ہے کہ اونچے مرتبہ والوں کے ساتھ رہو،ادنیٰ لوگوں کی صحبت اختیار نہ کرو، گوشۂ نشینی برے ہم نشین سے بہتر ہے، اور اچھا ہم نشین تنہائی سے بہتر ہے۔ 

 مِنۡ دُوۡنِكُمۡ کا لفظ رافضیوں،خارجیوں اور دوسرے بدعتیوں کو بھی شامل ہے، اس لئے کافروں کی طرح ان کو بھی اندرونی رازدار بنانا جائز نہیں ۔

 لَايَاۡلُوۡنَكُمۡ خَبَالًا ؕیعنی جو لوگ دوسرے مذہب پر ہیں وہ تمہارے اندر شر اور بگاڑ پیدا کرنے میں کوتاہی نہیں کریں گے بلکہ تمہارے اندر شر اور فساد کرنے کیلیئے اپنی پوری کوشش خرچ کر دیں گے۔

 وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ‌ۚ یعنی تمہارا سخت دکھ اور تکلیف میں پڑ جانا وہ دل سے پسند کرتے ہیں بلکہ کبھی قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِم٘ دشمنی ان کے منہ سے ظاہر ہو جاتی ہے۔ انتہائی بغض کی وجہ سے وہ اپنے پر قابو بھی نہیں رکھتے اور ایسی باتیں کہہ گزرتے ہیں جن سے تمھیں دکھ ہو۔

وَمَا تُخۡفِىۡ صُدُوۡرُهُمۡ اَكۡبَرُ‌ؕ اور جو بغض ان کے دلوں کے اندر چھپا ہوا ہے وہ ظاہر شدہ بغض سے بہت بڑا ہے ۔ کیونکہ وہ دھوکہ اور فریب دینے کیلئے (عموماً) دوستی کا اظہار کرتے ہیں۔

 قَدۡ بَيَّنَّا لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ‌ ہم نے تمہارے سامنے کھلی ہوئی نشانیاں کھول کر بیان کر دیں، جن سے ان کی عداوت معلوم ہو جاتی ہے یا جو دلالت کر رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا مخلص ہونا اور مؤمنوں سے دوستی رکھنا اور کافروں سے دشمنی رکھنا واجب ہے۔

اِنْ كُنتُمْ تَعْقِلُونَ یعنی اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو کافروں کی اندرونی دوستی سے باز رہو، ان کو دشمن ہی سمجھو، اللّٰه تعالیٰ سے خلوص رکھو اور مسلمانوں سے موالات کرو۔ 

(تفسیر مظہری اردو جلد2 صفحہ 264)۔

 اس آیت کے تحت حضرت مولانا الحافظ محمد ادریس کاندھلویؒ لکھتے ہیں 

ربط:گزشتہ آیات میں مسلمانوں کے صفات اور کافروں کے ذمائم اور قبائح کا ذکر تھا اب ان آیات میں مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ کافروں کے ساتھ خلا ملا نہ رکھو اور نہ ان کو اپنا رازدار بناؤ، کافر تمہارے دین اور دنیا دونوں کے دشمن ہیں ۔

یا یوں کہو کہ جب گزشتہ آیات میں یہ بیان کیا کہ کفر اور ظلم کی سرد ہوا نے ظالموں کے اعمال کی کھیتیوں کو تباہ و برباد کیا تو اب آئندہ آیت میں اہلِ ایمان کو نصیحت فرماتے ہیں کہ تم ان ظالموں سے خلط ملط نہ رکھنا۔مبادا ان کے کفر اور ظلم کی سرد ہوا کا اثر تمہارے اعمال کی کھیتیوں کو نقصان نہ پہنچادے۔

فائدہ: فقہاء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ مسلمان حاکم کیلئے یہ جائز نہیں کہ اہلِ ذمہ میں سے کسی کافر کو اپنا منشی اور پیشہ کار بنائے۔ اس لیے کہ وہ کافر مسلمانوں کا خیر خواہ نہ ہوگا اور اسلامی حکومت کے راز اور امور مملکت سے اپنی ہم قوم حکومت کو مطلع کرے گا۔بلکہ جن مسلمان وزیروں اور امیروں نے کسی غیر مسلم عورت سے نکاح کر لیا یا اس کو اپنے گھر میں رکھ لیا تو پھر اسلامی حکومت کے راز غیر مسلموں پر ظاہر ہوئے اور اسلامی حکومت کو شدید نقصان پہنچا اور ان غیر مسلم عورتوں نے مسلمان شوہر سے زائد اپنے ہم مذہب کافروں کی مصلحت کا لحاظ رکھا جیسا کہ تجربہ اور تاریخ اس کی شاہد ہے۔ اور سیدنا فاروقِ اعظمؓ کا بھی یہی مسلک تھا کہ وہ غیر مسلم منشی اور پیشکار بنانے کو ناپسند فرماتے تھے، اور اسی آیت سے استدلال فرماتے تھے۔

تنبیه: شریعتِ اسلامیہ کا یہ حکم کہ غیر مسلم کو اپنا دوست اور رازدار نہ بنایا جائے اور امورِ مملکت میں اس کو دخیل نہ بنایا جائےعین حق اور معین حقیقت ہے۔

یہ امر بالکل بدیہی ہے کہ غیر مذہب والا اپنے مذہب اور اپنے اہلِ مذہب ہی کی خیر خواہی کرتا ہے دوسرے اہلِ مذہب کی خیر خواہی نہیں کرتا۔تمام مغربی ممالک کو دیکھ لیجیئے کہ وہ کبھی بھی کسی مسلمان کو وزارت اور سفارت کا منصب سپرد نہیں کرتے ۔

مگر افسوس کہ آج کل کے نام نہاد مسلمان جب اس قسم کا حکم سنتے ہیں تو اس کو تعصب اور تنگ نظری سمجھتے ہیں۔حالانکہ اگر ان کو اپنے حقیقی بھائی کی خیر خواہی پر اطمینان نہ ہو تو اس کو بھی اپنا بطانہ(راز دار) بنانا گوارا نہیں کرتے۔ مگر جب خدا تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ اے مسلمانو! جو شخص اسلام کا اور مسلمانوں کا خیرخواہ نہ ہو بلکہ ان کا دشمن اور حاسد ہو،اس کو اسلامی حکومت میں کوئی عہدہ اور منصب نہ ہو تو یہی لوگ اللّٰه تعالیٰ کے اس قانون پر نکتہ چینی کرنے لگتے ہیں۔

تمام دنیا کی حکومتوں کا یہ مسلم قانون ہے کہ حکومت میں حکومت کے باغی کو کوئی عہدہ اور منصب نہیں دیا جا سکتا باغی کو عہدہ دینا، سیاسیاتِ ملکیہ میں بالاجماع حرام ہے۔ پس اگر اسلام یہ کہتا ہے کہ اسلامی حکومت میں ایسے شخص کو کہ جو اسلام سے باغی ہو یعنی کافر ہو اس کو کوئی عہدہ اور منصب نہ دو تو اس پر کیوں ناک منہ چڑھاتے ہیں؟

اپنے بانی کیلئے عہدہ دینا تو ناجائز اور حرام ہو، اور اللّٰه تعالیٰ کے باغی اور سرکش کیلئے عہدہ دینا جائز ہو۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کا باغی تو مجرم ہے اور اللّٰه تعالیٰ کا باغی بے قصور ہے۔ تو اس کا مطلب تو یہ نکلا کہ(معاذاللّٰه)آپ کی شان،اللّٰه تعالیٰ سے بڑھ کر ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کی فانی اور مجازی حکومت سے انحراف اور بغاوت کرے تو وہ قتل اور ہمیشہ قید کا مسحق بنے اور احکم الحاکمین سے اگر بغاوت(کفر) کرے تو اس کو وزیر بنانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔یہ وسعتِ قلب نہیں بلکہ بے غیرتی ہے۔

(معارف القرآن جلد2صفحہ 39)۔

 ان آیات کے تحت حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی صاحبؒ لکھتے ہیں

ربطِ آیات:آج کے درس میں اہلِ ایمان کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ مسلمان اہلِ کتاب کی دشمنی کے پیشِ نظر ان کو اپنا مخلص دوست نہ بنائیں۔

 کلیدی آسامیوں پر غیر مسلموں کی تقرری کا نقصان:

غیر مسلموں سے دوستی اور رازداری کرنے سے اس لئے منع فرمایا گیا کہ یہ لوگ اہلِ اسلام کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ لہٰذا کوئی راز کی بات ان تک نہیں پہنچنی چاہیئے ۔ایسا کرنے سے مسلمانوں کی ترقی اور تبلیغ میں رکاوٹ پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ اسی لئے امام ابوبکر جصاصؒ فرماتے ہیں کہ:

کسی غیر مسلم کو اسلامی ملک میں عہدے پر فائز نہیں کرنا چاہیئے،انہیں نہ وزیر بنانا چاہئیے،نہ مشیر اور نہ ہی پارلیمنٹ کا ممبر منتخب کرنا چاہیئے کسی عیسائی، یہودی ، ہندو، قادیانی(یاشیعہ)کو وزیر یا مشیر یا افواج کا کمانڈر بنا دیا جائے تو معاملہ بگڑ جائے گا۔ سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے دور میں سیدنا حذیفہؓ نے اپنا کاتب ایک غیر مسلم کو مقرر کرنا چاہا تھا مگر سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے انکار کر دیا تھا اور فرمایا جسے خدا تعالیٰ نے دور کیا تم اُسے کیوں قریب کرنا چاہتے ہو ۔

حضرت مولانا شاہ ولی اللّٰه محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ:

وثیق نامی روم کا عیسائی سیدنا فاروقِ اعظمؓ کا غلام تھا، بڑا ذہین اور اعلیٰ درجے کا حساب دان تھا۔ سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے فرمایا اگر تم ایمان لے آؤ تو میں تمہیں کوئی ذمہ داری کا کام سونپ دوں گا۔ مگر وہ شخص ایمان نہ لایا، اور آپؓ نے اسے کوئی عہدہ نہ دیا ۔ جب آپؓ زخمی ہوگئے تو اُسے پھر بلا کر ایمان اور عہدہ کی پیش کش کی مگروہ رضامند نہ ہوا ۔آپؓ نے اُسے آزاد کر دیا،مگر کوئی عہدہ نہ دیا۔ 

اس روایت سے یہ چیز ثابت ہوگئی کہ کسی غیر مسلم کو اسلامی حکومت میں کوئی کلیدی آسامی پیش نہیں کی جاسکتی۔اگر ایسا ہوگا تو اہلِ اسلام کے لئے لازماً نقصان کا باعث ہوگا۔

 مسلمانوں کے ساتھ بدخواہی:

غیر مسلموں کی خصلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَدُّوۡامَا عَنِتُّمۡ‌ۚوہ تمہاری مشقت کو پسند کرتے ہیں۔ان کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ مسلمان مصیبت میں گرفتار ہوں۔ اور دیکھو قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِم ان کی اسلام دشمنی کی بات بعض اوقات اُن کی زبانوں پر بھی آجاتی ہے۔ وہ لاکھ کوشش کریں کہ اُن کی اسلام کے ساتھ دشمنی مخفی رہے مگر پھر بھی منہ سے کوئی نہ کوئی بات ایسی نکل جاتی ہے، جو ان کی اندرونی خباثت کا مظہر ہوتی ہے۔ اسی لئے غیر مسلموں کے ساتھ دوستی سے منع فرمایا گیا ہے۔

اور یہ کہ اسلام دشمن طاقتیں کبھی مسلمانوں کی خیر خواہ نہیں ہو سکتیں،ان کی اندرونی خباثت بسا اوقات ان کی زبانوں پر تو آتی رہتی ہے۔ مگروَمَا تُخۡفِىۡ صُدُوۡرُهُمۡ اَكۡبَرُ‌ؕ جو کچھ ان کے دلوں میں چھپی ہوئی غلاظت ہے، وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ لہٰذا ان سے ہمیشہ خبردار رہنا چاہیئے ۔ کوئی راز کی بات ان تک نہیں پہنچنی چاہیئے ۔ اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا: قَدۡ بَيَّنَّا لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ‌ ہم نے اپنی نشانیاں اور احکام کھول کھول کر بیان کر دیئے ہیں۔اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ اگر تم عقل و شعور رکھتے ہو تو ان پرسختی سے عمل پیرا ہو جاؤ۔ اگر اس کے باوجود تم غیر مسلموں پر اعتماد کرو گے، ان کو وزیر مشیر بناؤ گے برے بڑے عہدوں پر فائزہ کرو گے تو پھر بہت بڑے قومی نقصان کےخود ذمہ دار ہو گے۔

اہلِ کتاب کی عداوت اور دشمنی کا ذکر کرنے کے بعد اللّٰه تعالیٰ نے اہلِ کتاب، مشرکین اور منافقین سے دوستی کرنے سے منع فرما دیا، اور خبر دار کر دیا کہ اُن کو اپنے ولی رازدان نہ بناؤ ، ورنہ وہ تمہارے درمیان فتنہ و فساد کی آگ بھڑکا دیں گے۔ اُن کی حالت یہ ہے کہ جو چیز تمہیں مشقت میں ڈالتی ہے، وہ اُس کو پسند کرتے ہیں، ان کی اسلام دشمنی بسا اوقات ان کی زبانوں پر آجاتی ہے۔ اس کے علاوہ تمہارے خلاف جو بغض و عناد ان کے دلوں میں پوشیدہ ہے وہ بہت زیادہ ہے، اس کو اللّٰه تعالیٰ ہی جانتا ہے تم اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے تمام احکام کھول کر بیان کر دیئے ہیں، اگر تم عقل و شعور رکھتے ہو، تو ان کو سمجھ جاؤ اور غیر مسلموں کو اپنا دلی دوست نہ بناؤ، نہ ہی ان کو راز سے آگاہ کرو ، انہیں وزیر و مشیر نہ بناؤ کہ اس طرح تمہاری اندرونی

 باتیں اُن تک پہنچتی ہیں، جو تمہارے نقصان کا باعث بنتی ہیں، وہ تمہاری کامیابی پر کبھی خوش نہیں ہوں گے۔ لہٰذا ان کی ہر وقت کوشش یہ ہوگی کہ تم کسی نہ کسی طرح ناکام ہو کر مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ۔

آج ہمارے گردو پیش یہی کچھ ہو رہا ہے۔ کافر طاقتیں مسلمانوں کے اندرونی معاملات میں دخیل ہو رہی ہیں، مسلمان اپنی نالائقی کی وجہ سے اپنے مشن سے ہٹ چکے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر معاملے میں اغیار کو رازدان بنایا جا رہا ہے،اُن سے مشورے طلب ہوتے ہیں اور پھر وہی لوگ اندرونی راز حاصل کر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، اُن کی ترقی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں تاکہ وہ ہمیشہ انہی کے دام میں گرفتار رہیں ۔ 

آج ہم نے ان کفار کو اپنا راز دار بنالیا ہے، وہ ہمیں اچھا اور خیر خواہی کا مشورہ کیسے دے سکتے ہیں؟وہ تو ہمیشہ ہماری ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسی لئے اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا کہ غیر اقوام کے ساتھ دلی دوستی قائم نہیں کرنی چاہیے۔

یک طرفہ محبت:

اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا:ھانتم أولا،تحبونهم: اے ایمان والو تم تو دوسروں سے محبت کرتے ہو جو لايحبونكم مگر وہ تم سے محبت نہیں کرتے۔مطلب یہ کہ تم ان کفار کو اپنا راز دار بنا رہے ہو، ان کو مشیر بنا رکھا ہے، ان سے محبت بڑھا رہے ہو، مگر وہ تم سے دلی لگاؤ نہیں رکھتے ۔ لہٰذا ان کے ساتھ تمہاری محبت یکطرفہ ہے، محبت ہمیشہ جانبین کی طرف سے ہونی چاہیئے۔ لہٰذا صرف تمہاری طرف سے یک طرف محبت کوئی محبت نہیں۔ وہ تو اللّٰه تعالیٰ اس کے رسولﷺ،قرآن کے شدید ترین دشمن ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ صرف تمہاری طرف سے دوستی اور محبت اہلِ اسلام کے لئے لازماً نقصان کا باعث ہوگی۔

(معالم العرفان فی دروس القرآن جلد4 382)

 اس آیت کے تحت مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں

 يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ* یعنی اے ايمان والو! اپنے (یعنی مسلمانوں کے) علاوہ کسی کو گہرا اور راز دار دوست نہ بناؤ۔ تو اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی ملت والوں کے سوا کسی کو اس طرح کا معتمد اور مشیر نہ بناؤ

کہ اس سے اپنے اوراپنی ملت و حکومت کے راز کھول دو۔

ابنِ ابی حاتمؓ نے نقل کیا ہے کہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ سے کہا گیا کہ یہاں ایک غیر مسلم لڑکا ہے جو بڑا اچھا

 کاتب ہے، اگر اس کو آپ اپنا منشی بنائیں تو بہتر ہو، اس پر سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے فرمایا یعنی اس کو میں ایسا کروں تو مسلمانوں کو چھوڑ کر دوسرے ملت والے کو راز دار بنالوں گا۔جو نصِ قرآن کے خلاف ہے۔ 

امام قرطبیؒ بڑی حسرت اور درد کے ساتھ مسلمانوں میں اس تعلیم کی خلاف ورزی اور اس کے برے نتائج کا بیان اس طرح فرماتے ہیں: 

یعنی اس زمانہ میں حالات میں ایسا انقلاب آیا کہ یہود ونصاریٰ کو رازدار و امین بنالیا گیا، اور اس ذریعہ سے وہ جاہل اغنیاء و امراء پر مسلط ہوگئے ۔

آج بھی کسی ایسی مملکت میں جس کا قیام کسی خاص نظریہ پر ہو وہاں اس نئی روش کے زمانے میں بھی کسی ایسے شخص کو جو اس نظریہ کو قبول نہیں کرتا مشیر اور معتمد نہیں بنایا جاسکتا۔ روس اور چین میں کسی ایسے شخص کو جو کیمونزم پر ایمان نہیں رکھتا ہو، کسی ذمہ دار عہدہ پر فائز نہیں کیا جاتا اور اس کو مملکت کا رازدار اور مشیر نہیں بنایا جاتا ۔

اسلامی مملکتوں کے زوال کی داستانیں پڑھیں تو زوال کے دوسرے اسباب کےساتھ بکثرت یہ بھی ملے گا کہ مسلمانوں نے اپنے امور کا راز دار و معتمد غیر مسلموں کو بنالیا۔سلطنتِ عثمانی کے زوال میں بھی اس کو کافی دخل تھا۔

آیت مذکورہ میں اس حکم کی وجہ بیان کی گئی ہے: 

*لا يألونكم خبالا الخ* یعنی وہ لوگ تمہیں وبال و فساد میں مبتلاء کرنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھتے، اور تمہارے دُکھ پہنچنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ بعض تو ان کی زبانوں سے ظاہر ہو پڑتا ہے۔ اور جو کچھ وہ اپنے دل میں چھپائے ہوئے ہیں، وہ اور بھی بڑھ کر ہے۔ ہم تو تمہارے لئے نشانیاں کھول کر ظاہر کرچکے ہیں،اگر تم عقل سے کام لینے والے ہو۔

مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ مسلمان اپنے اسلامی بھائیوں کے سوا کسی کو بھیدی اور مشیر نہ بنائیں،کیونکہ نصاریٰ ہوں یا یہود، منافقین ہوں یا مشرکین، کوئی جماعت تمہاری حقیقی خیر خواہ نہیں ہو سکتی، بلکہ ہمیشہ یہ لوگ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ تمہیں بیوقوف بنا کر نقصان پہنچا ئیں،اور دینی و دنیوی خرابیوں میں مبتلاء کریں۔ان کی آرزو یہ ہے کہ تم تکلیف میں رہو، اور کسی نہ کسی تدبیر سے تم کو دینی یا دنیوی ضرر پہنچے۔ جو دشمنی یا ضرر ان کے دلوں میں ہے وہ بہت ہی زیادہ ہے۔ لیکن بسا اوقات عداوت غیظ و غضب سے مغلوب ہو کر کھلم کھلا بھی ایسی باتیں کر گذرتیں ہیں جو ان کی گہری دشمنی کا صاف پتہ دیتی ہیں ۔ مارے دشمنی و حسد کے ان کی زبان قابو میں نہیں رہتی۔ پس عقلمند آدمی کا کام نہیں کہ ایسے دشمنوں کو راز دار بنائے ۔ اللّٰه تعالیٰ نے دوست و دشمن کے پتے اور موالات کے احکام بتلا دئیے ہیں، جس میں عقل ہو گی اس سے کام لے گا۔

(معارف القرآن جلد 2 صفحہ 186)۔

 اس آیت کے تحت شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللّٰه خان صاحبؒ لکھتے ہیں: 

کفار سے ترکِ موالات کے بارے میں ہم نے کھلے الفاظ میں اپنے احکام دے دیئے ہیں اور وہ آیتیں کھول کر بیان کر دی ہیں جن میں کفار کی دوستی سے روکا گیا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان یہودیوں کے بغض وعناد اور حسد و دشمنی کی نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں تاکہ ان کو فوراً پہچان لو اور ان سے علیحدہ رہو۔قومی اور ملی دشمنوں سے دوستانہ تعلقات سیاسی نتائج کے لحاظ سے بہت ہی خطرناک ہوتے ہیں۔ بعض اوقات دشمن کو کوئی کلیدی رازوں کا پتہ چل جاتا ہے، جس سے کئی اہم جنگی اور دوسرے تعمیری منصوبے نا کام ہو جاتے ہیں۔ جنگ جیتنے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی خفیہ جنگلی تدبیروں کو دشمن کی رسائی سے بالاتر رکھا جائے۔یہ وقت چونکہ مسلمانوں کی جنگی تیاریوں کا تھا اس لیے مسلمانوں کو خبردار کر دیا گیا تا کہ وہ محتاط رہیں۔

(جواہر القرآن جلد1صفحہ 174)

 اس آیت کے تحت حافظ عمادالدین ابو الفداء ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں: 

حضرت عمر بن خطابؓ سے کہا گیا کہ یہاں پر حیرہ کا ایک شخص بڑا اچھا لکھنے والا اور بہت اچھے حافظہ والا ہے آپ اسے اپنا منشی مقرر کر لیں آپؓ نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ غیر مؤمن کو بطانہ بنالوں گا جو اللّٰه تعالیٰ جل شانہ نے منع کیا ہے۔ 

اس واقعہ کو اور اس آیت کو سامنے رکھ کر ذہن اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ذمی کفار کو بھی ایسے کاموں میں نہ لگانا چاہیئے ، ایسا نہ ہو کہ وہ مخالفین کو مسلمانوں کے پوشیدہ ارادوں سے واقف کر دے اور ان کے دشمنوں کو ان سے ہوشیار کر دے کیونکہ ان کی تو چاہت ہی مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی ہوتی ہے۔ (تفسير ابنِ كثيرجلد1صفحہ 456)

 2):حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ لکھتے ہیں کہ حضرت ابوموسیٰؒ اشعری نے ایک مرتبہ ایک ذمی(نصرانی) کو اپنا منشی( پی اے) مقرر کر لیا تو امیر المؤمنین سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے ان کو سرزنش و ملامت کا خط لکھا اور قرآن کریم کی یہ آیت لکھی:

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَةً مِّنۡ دُوۡنِكُمۡ لَا يَاۡلُوۡنَكُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ‌ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ  ۖۚ وَمَا تُخۡفِىۡ صُدُوۡرُهُمۡ اَكۡبَرُ‌ؕ قَدۡ بَيَّنَّا لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ‌ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ(آل عمران:118)۔

 ترجمه:اے ایمان والو تم اپنوں کے(مسلمانوں کے) سواکسی کو بھیدی جگری دوست) مت بناؤ، وہ کوئی کمی نہیں کرتے تمہاری خرابی میں، وہ تو چاہتے ہیں کہ تم جس قدر بھی تکلیف (اور مصیبت) میں رہو،ان کی دشمنی تو ان کی زبانو (باتوں) سے ٹیکتی ہے اور جو کچھ(عداوت) ان کے سینوں میں ہے وہ تو اس سے بہت زیادہ ہے(جوان کی باتوں سے ٹپکتی ہے) ہم نے بتا دیئے تم کو اتے پتے،اگر تم کو منتقل ہے( تو ان کی عداوت سے ہوشیار رہو)۔

ایک اور واقعہ

ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے سیدنا فاروقِ اعظمؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے صوبے کا میزانیہ(بجٹ) پیش کیا۔ سیدنا فاروقِ اعظمؓ کو بہت پسند آیا۔سیدنافاروقِ اعظمؓ ان کا میزانیہ(بجٹ) لے کر مجلس شوریٰ میں آئے اور ان سے فرمایا تمہار ا منشی کہاں ہے؟تاکہ تمہارا یہ میزانیہ اراکین شوریٰ کے سامنے پیش کرے؟ تو انہوں نے عرض کیا وہ تو مسجد نبوی ﷺمیں نہیں آئےگا۔ سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے پو چھا کیوں؟کیا وہ ناپاکی کی حالت میں ہے؟ تو حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے عرض کیا: جی نہیں وہ نصرانی ہے۔ اس پر سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے ان کو سرزنش کی اور فرمایا:تم ان نصرانیوں کو اپنے سے قریب کرتے ہو؟ حالانکہ اللّٰه تعالیٰ نے ان کو مسلمانوں سے دور رکھا ہے۔ تم ان کو عزت دیتے ہو؟ حالانکہ اللّٰه تعالیٰ نے ان کو ذلیل و رسوا کیا ہے۔تم ان کو امین (معتمد علیہ) بناتے ہو؟ حالانکہ اللّٰه تعالیٰ نے ان کو خیانت کار بتلایا ہے۔

ایک اور روایت میں سیدنا فاروقِ اعظمؓ سے مروی ہے کہ آپؓ نے فرمایا:اٹل کتاب(یہودیوں اور نصرانیوں) کو حکومت کا اہل کار یا افسر مت بناؤ اس لئے کہ یہ لوگ سود کو حلال سمجھتے ہیں۔تم سرکاری عہدوں پر اور رعایا پر ایسے لوگوں کو مقرر کرو جو اللّٰه تعالیٰ سے ڈرتے ہوں۔

نوسوسال پہلے کا حال

امام قرطبیؒ فرماتے ہیں لیکن اب اس زمانہ میں تو حالات بالکل بدل چکے ہیں، یہودیوں اور نصرانیوں کو عام طور پر اسلامی حکومتوں میں ذمہ دار، افسر اور کلرک مقرر کر دیا گیا ہے، اور اس طرح انہوں نے نادان و ناسمجھ عوام پر پورا اقتدار حاصل کر لیا ہے۔

 نوسوسال بعد کا حال

مصنفؒ فرماتے ہیں یہ نوبت تو اب سے نو سو سال پہلے امام قرطبیؒ کے زمانہ میں پہنچ چکی تھی تو ہم اپنے اس زمانے کے متعلق کیا کہیں جبکہ اسلامی ملکوں میں شریف (دیندار) اور ذلیل( بے دین) لوگ ایک دوسرے میں غلط ملط ہو چکے ہیں۔اپنے ملکوں میں اپنے اوپر ہم نے ان کو کس قدر اقتدار دے رکھا ہے، ان کے ساتھ میل جول اور الفت و محبت کے روابط و تعلقات کتنے بڑھا رکھے ہیں؟حالانکہ ان دشمنانِ دین وملت کے ساتھ اختلاط اور ارتباط،دوستی و موالات کے حرام ہونے کے بارے میں قرآن کریم کی بہت سے واضح اور قطعی آیات اور صریح احادیث صحیحہ موجود ہیں۔

(فتاویٰ بینات، جلد2،صفحہ 107)

 )3جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی کا فتویٰ:

اثناء عشری شیعہ فرقہ جو ضروریاتِ دین اور اسلام کے مسائل قطعیہ کا منکر ہو، مثلاً:سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر تہمت کا قائل ہو یا قرآن کے بارے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کی غلطی کا قائل ہو یا صدیقِ اکبرؓ کے صحابی ہونے کا منکر ہو وامثال ذالک تو یہ بالاتفاق کافر ہیں۔جن کے بارے میں علماء حق پہلے بھی کفر کا فتویٰ دے چکے ہیں۔ لہٰذا ایسے غلط عقائد رکھنے والوں سے سلسلہ مناکحت اور ان کا ذبیحہ اور نذر و نیاز کی چیزیں کھانا اور ان کی نمازِ جنازہ پڑھنا یا ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا اسی طرح ان کو مسلمانوں کا حاکم یا سربراہ بنانا،یہ سب

 ناجائز اورحرام ہیں۔

(بحوالہ تاریخی دستاویزصفحہ83)

4)اگر چہ پاکستان میں شیعہ آبادی دو فیصد سے زیادہ نہیں،اس کے باوجود شیعہ لیڈر اور کارکن ہر شعبے میں مساوی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ ملک پاکستان میں تقریبا 60 فیصد اعلیٰ عہدوں پر فائزہ شیعہ افراد اپنی برادری کے لوگوں کی خوب پشت پناہی کرتے ہیں اور انہیں ہر قسم کا فائدہ پہنچاتے ہیں ۔

5)علامہ ابنِ تیمیہؒ نےفرمایا کہ قلبی میل جول اور محبت(جو کفار کے ساتھ ممنوع ہے) کا تعلق اگرچہ قلب سے ہے لیکن ظاہری مخالفت کفار کے ساتھ قطع تعلق میں زیادہ مؤثر ہے، اور یہ قطع تعلق مطلوب ہے۔ پھر ظاہری تعلق اگرچه قلبی تعلق کا سبب قریب یا بعید نہ بن سکے لیکن اس میں قطع تعلق کی مصلحت بھی حاصل نہیں ہوتی، بلکہ یہ ظاہری تعلق اور میل ہی کی طرف مائل کرتا ہے، جیسا کہ انسانی طبعیت اور عادت کا تقاضا ہے۔

اسی لئے اسلاف رحمہ اللّٰہ ان آیات سے(جن میں کفار سے مودت و موالات کی ممانعت ہے)اس بات پر استدلال کرتے رہے ہیں کہ سلطنت و انتظام کے امور میں بھی ان سے مدد نہ لی جائے جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا فاروقِ اعظمؓ سے ذکر کیا کہ میرا ایک نصرانی

 کاتب ہے۔ سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے ناراضگی کا اظہار فرما کر کہا کہ کیا تم نے اللّٰه تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا:

 یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ

 اے ایمان والوں یہود و نصارٰی کو اپنا دوست نہ بنایا کرو وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔

تم نے کسی مسلمان کو کیوں نہ کاتب بنالیا؟میں نے عرض کیا کہ مجھے اس کے لکھنے سے مطلب ہے، اور اس کا دین اسی کیلئے ہے تو سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے فرمایا کہ جب اللّٰه تعالی نے ان کی اہانت کی ہے، تو میں ان کا اکرام نہیں کروں گاجب اللّٰه تعالیٰ نے ان کو ذلیل کیا، تو میں ان کا اعزاز نہیں کروں گا۔ اور جب اللّٰه تعالیٰ نے انہیں دور کر دیا، تو میں ان کو قریب نہیں کروں گا۔

علامہ ابنِ تیمیہؒ دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے عاملوں(وزراء) کولکھ دیا تھا کہ اہلِ کتاب سے لکھنے کا کام نہ لیا کرو،اس لئے کہ اس طرح تم میں اور ان میں محبت قائم ہو جائے گی، جو شرعاً ممنوع ہے۔اور نہ ان کیلئے کنایہ کے الفاظ استعمال کرو، اس لئے کہ یہ تعظیم و تکریم کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں ۔

ایک اور جگہ آیتِ قرآنی لست منهم فی شئی کے ذیل میں فرمایا:کہ اسکا تقاضا یہ ہے کہ ان سے تمام امور میں احتراز کیا جائے۔

(اقتضاء الصراط المستقيم: صفحہ 22،34)

6)حضرت مولانا مفتی مہربان علی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡيَهُوۡدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوۡلِيَآءَ ‌ؔۘ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ‌ؕ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ مِّنۡكُمۡ فَاِنَّهٗ مِنۡهُمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ

 ترجمه:اے ایمان والو!مت بنا و یہود و نصارٰی کو دوست، وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے، اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے ان سے تو وہ انہی میں سے ہے، اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں کرتا ظالم لوگوں کو ۔(القرآن۔سورۃالمائدة آیت51)

 وقال اللّٰه تعالیٰ:

 فَتَـرَى الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوۡنَ فِيۡهِمۡ يَقُوۡلُوۡنَ نَخۡشٰٓى اَنۡ تُصِيۡبَـنَا دَآئِرَةٌ‌ ؕ فَعَسَى اللّٰهُ اَنۡ يَّاۡتِىَ بِالۡفَتۡحِ اَوۡ اَمۡرٍ مِّنۡ عِنۡدِهٖ فَيُصۡبِحُوۡا عَلٰى مَاۤ اَسَرُّوۡا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ نٰدِمِيۡنَ *

 ترجمہ:اب تو دیکھے گا اُن کو جن کے دل میں بیماری ہے دوڑ کر ملتے ہیں اُن میں ، کہتے ہیں کہ ہم کو ڈر ہے کہ نہ آجائے ہم پر گردش زمانہ کی سوقریب ہے کہ اللہ تعالی جلدظاہر فرمادے فتح یا کوئی حکم اپنی پاس سے تو لگیں اپنے جی کی چھپی بات پر پچھتانے۔(القرآن۔سورۃالمائدةآیت52)

امام ابو بکر جصاص رازیؒ اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ:ان آیات میں اللّٰه تعالیٰ نے کفار کی دوستی اور ان کے ازلال سے منع فرمایا،اور ان کی ازلال اوراہانت کا حکم فرمایا،اور ان سے مسلمانوں کے (اجتماعی) کاموں میں امداد لینے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ اس میں اُن کی عزت اور برتری ہے۔

اسی طرح دیگر بھی کئی آیتیں ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کیلئے اپنی عزت و وقار کو مجروح کر کے کفار سے استعانت لینا صحیح نہیں، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:

یٰۤاَیُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْابِطَانَةًمِّنْ دُوْنِكُمْ لَایَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًاؕ

 اے ایمان والو! نہ بناؤ بھیدی کسی کو اپنوں کے سوا، وہ کمی نہیں کرتے تمہاری خرابی میں۔

علامہ ابو بکر جصاص رازیؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کے(اجتماعی) کاموں اور ملازمتوں میں کفاراہل ذمہ ذمہ سے امداد لینا جائز نہیں۔

اس طرح آیت کریمہ:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ ﳕ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ میں بھی اس چیز کی وضاحت کر دی گئی ہے۔

اس آیت کے ذیل میں علامہ ابوبکر جصاص رازیؒ فرماتے ہیں کہ:ان آیات میں حق تعالیٰ نے کفار کی دوستی اور ان کے اعزاز سے منع فرمایا ہے، اور ان کی اہانت و ازلال کا حکم دیا ہے، اور ان سے مسلمانوں کے (اجتماعی) کاموں میں امداد لینے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ اس میں ان کی عزت اور برتری ہے۔

 نیز ارشادباری تعالیٰ ہے:الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا

ترجمه: وہ جو بناتے ہیں کافروں کو اپنا رفیق مسلمانوں کو چھوڑ کر،کیاڈھونڈتے ہیں ان کے پاس عزت،سو عزت تو اللّٰه تعالیٰ ہی کے واسطے ہے ساری۔

(جامع الفتاوىٰ جلد8 صفحہ373)

7) حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ:اگر کسی جگہ فیصلہ کندگان حاکم غیرمسلم ہو تو اس کا فیصلہ بالکل غیر معتبر ہے،اس کے حکم سے فسخ وغیرہ ہرگز نہیں ہو سکتا

لان الكافر ليس باهل للقضاء على المسلم كما هو مصرح في جميع كتب الفقه حتیٰ کہ اگر روداد مقدمہ

 غیرمسلم مرتب کرے اور مسلمان حاکم فیصلہ کرے یا بالعکس تب بھی فیصلہ نافذ نہ ہوگا الی قولہ:اور اگر فیصلہ کسی جماعت کے سپرد کیا جاوے جیسا کی بعض مرتبہ ججوں کی جیوری کے سپرد ہو جاتا ہے یا بیچ میں پیش ہوتا ہے یا چند اشخاص کی کمیٹی کے سپرد کر دیا جاتا ہے تو اس صورت میں ان سب ارکان کا مسلمان ہونا شرط ہے، کوئی غیرمسلم جج اور مجسٹریٹ اور ممبر بھی اس کا رکن ہو تو شرعاً اس جماعت کا فیصلہ کسی طرح معتبر نہیں،ایسے فیصلہ سے تفریق وغیرہ ہر گز صحیح نہ ہوگی۔

 (الحيلة الناجزه صفحہ31)

8)حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ فرماتے ہیں کہ: خلافِ اسلام تقریر کرنے والے کافر کی تعریف کرنا حرام ہے، اور ایسا شخص مسلمانوں کا نمائندہ نہیں ہوسکتا۔

(امداد المفتين:جلد 2 صفحہ 844)

9)حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کے خلاف شہادت دینے کیلئے یہ شرط ہے کہ گواہ مسلمان ہو سچا ہو غیر جانب دار ہو۔ اور شیعہ میں یہ تینوں شرطیں مفقود ہیں۔ لہٰذا مسلمان کے خلاف اس کی گواہی مردود ہے۔

(جواہر الفتاوىٰ جلد1صفحہ389)

10)حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن صاحب فرماتے ہیں کہ:سیدنافاروقِ اعظمؓ جیسے مدبر،سیاسی شخصیت اور حکمران نے تمام ممالکِ خلافت کو یہ فرمان بھیجا تھا کہ ذمیوں(مسلمان ملک میں رہنے والے غیر مسلموں) کے ساتھ مکاتبت کا تعلق مت رکھو، کہیں تم میں اور ان میں اس بہانہ سے مؤدت و محبت پیدا نہ ہو جائے ۔

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے ہاں ایک نصرانی کاتب ملازم تھا جس پرسیدنافاروقِ اعظمؓ انتہائی غصہ ہوئے تو حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے کہا کہ اے

امیرالمؤمنین!مجھے اس کی کتابت سے کام ہے، مجھے اس کے دین سے کیا تعلق ؟ توسیدنافاروقِ اعظمؓ نے فرمایا کہ جن کی توہین اللّٰه تعالیٰ نے خود کی ہے میں اُن کی تکریم نہیں کروں گا، جن کو اللّٰه تعالیٰ نے ذلیل کیا ہے میں اُن کو عزت نہیں دوں گا، اور جن کو اللّٰه تعالیٰ نے دُورکیا میں اُن کو مقرب نہیں بناؤں گا۔

حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ نے مذکورہ مکالمے سے انتہائی جامع اصول کا استخراج کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ:

1) جب تک کوئی مضطرانہ ضرورت داعی نہ ہو، اصل یہی ہے کہ غیر مسلموں سے استغاثہ اور وہ بھی ایسی کہ جس میں ان کی تکریم ہوتی ہو، قرین عقل و دین نہیں۔

2)یہ عذر کسی طرح قابلِ سماعت نہیں کہ ہمیں صرف ان کی خدمات درکار ہیں، نہ کہ ان کا مذہب کیونکہ اس تحصیلِ خدمات کے ذیل میں ان کے ساتھ معیت اس شدت و تغلیظ کو کم کردے گی جو ایک مسلمان کا اسلامی شعار بتلایا گیا ہے اور یہی قلت تغلیظ بالآخر مداہنت ،چشم پوشی اوراعراض عن الدین کا مقدمہ لے کر کتنے ہی شرعی منکرات کے نشونما کا ذریعہ ثابت ہوگی۔

 3)مان لیا کہ ایک شخص حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ جیساراسخ الایمان بھی ہے اور اشتراکِ عمل سے اس میں کوئی تزلزل بھی نہیں آسکتا لیکن یہ تو ہوسکتا ہے کہ ایسی ذمہ دار ہستی کا اشتراکِ عمل عام مسلمانوں کیلیے بڑی استعانت اور زیادہ اختلاط کا دروازہ کھول دے اور عوام اپنے لئے اس طرزِ عمل کو حجت شمار کریں۔

4)جس مخلوق کی اس کے خالق نے تکریم نہ کی اور ان کو پھٹکار دیا،اس کی تکریم اور ان کو پیار کرنا شرائعِ الٰہیہ کی توہین اور افعالِ خداوندی کی صریح تکذیب ہے۔ 

5)اسلام میں سیاست محض مقصود نہیں، بلکہ محض دین مقصود ہے۔ پس اگر سیاست ہی کا کوئی شعبہ تخریبِ دین یا مداہنت وحق پوشی کا ذریعہ بننے لگے تو بے دریغ اس کو قطع کر کے دین کی حفاظت کی جائے گی ، ورنہ قلبِ موضوع اور انقلاب ماہیت لازم آجائے گا۔

(فتاویٰ عثمانیه:جلد10 صفحہ327)

 ایک جگہ فرماتے ہیں کہ 

مسلمان کے خلاف کافر کی گواہی درست نہیں۔

(فتاوىٰ عثمانيه جلد 9صفحہ 260)

11)حضرت مولانا محمد رفعت قاسمی صاحب فرماتے ہیں کہ: زکوٰۃ کی تقسیم کا کام غیرمسلم کے سپرد کرنا جائز نہیں۔اس میں مسلمانوں کی تو ہین لازم آتی ہے، اور ایک غیرمسلم کی سرداری مسلمانوں پر ہوگی،اور زکوٰۃ کی رقم کا غلط استعمال ہوگا،اور زکوٰۃ دہندگان کی زکوٰۃ ادانہ ہوگی،اور اس کے ذمہ دار،انجمن کے منتظمین ہوں گے(یعنی جو شخص بھی یہ زکوٰۃ کی تقسیم کا کام غیرمسلم کو دے گا، وہ ہی ذمہ دار ہو گا)۔

(مسائل رفعت قاسمی مسائل زكوٰة جلد 5 صفحہ 190)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

کسی کافر کو اس کام پر مامور نہ کیا جائے(یعنی زکوٰۃ کی تقسیم نہ کرائی جائے)۔

( مسائلِ رفعت قاسمی: مسائلِ زكوٰة جلد 5،صفحہ190)

12)حضرت مولانا مفتی رضاء الحق صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:غیرمسلم کو قاضی نہیں بنایا جاسکتا۔اگر قاضی غیرمسلم ہو اور فیصلہ کرے تو نافذ نہیں ہوگا۔(فتاویٰ دارالعلوم زكريا:جلد8،صفحہ168)

 ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

غیرمسلم جج اگر طلاق وغیرہ کے متعلق فیصلہ دیتا ہے تو شرعی طور پر اس کا فیصلہ صحیح اور معتبر نہ ہوگا، اس فیصلہ کی وجہ سے مسئلہ طلاق میں بیوی کو آزادی حاصل نہ ہوگی۔اس مسئلہ کو علامہ شامیؒ نے ان الفاظ میں نقل فرمایا ہے:

 لم ينفذ حكم الكافر على المسلم ويقذ للمسلم على الذمی

(فتاویٰ دار العلوم زكريا:جلد4صفحہ242)

13)حضرت مولانا خالد سیف اللّٰه رحمانی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:مسجد پر غیرمسلم کی تولیت کے نہ درست ہونے کی صراحت قرآن کریم نے کردی ہے:ماکان للمشركين ان يعمروا مسجد اللّٰه شهدين على انفسهم بالكفر۔

 (كتاب الفتاوىٰ جلد2صفحہ147حصه چہارم)

14)حضرت مولانا مفتی محمد انعام الحق قاسمی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ: زکوٰۃ کی تقسیم کا کام 

غیرمسلم کے سپرد کرنا جائز نہیں،اس میں مسلمان کی تو ہین لازم آتی ہے،اور ایک غیرمسلم کی سرداری مسلمانوں پر ہوگی، اور زکوٰۃ کی رقم کا غلط استعمال ہوگا،اور زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی،اور اس کا ذمہ دار وہ شخص ہو گا جس نے غیرمسلم کو زکوٰۃ کی تقسیم کا کام دیا ہے۔ 

(زکوٰۃ کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیاصفحہ334)

15)حضرت مولانا مفتی محمد جعفر علی رحمانی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ سنی کے نکاح میں شیعہ گواہ نہیں بن سکتا۔

وفي الفتاوىٰ الهندية:الرافضی اذا كان يسب الشيخين ويلعنهما والعياذ باللّٰه فهو كافر ويجب أكفار الروافض في قولهم برجعة الامرات الى الدنيا وبتناسخ الأرواح وبانتقال روح الاله الى الائمة وبقولهم في خروج امام باطن وبتعطيلهم الأمر والنهي الى ان يخرج الامام الباطن وبقولهم ان جبريل عليه السلام غلط في الوحي الى محمد دون عملى ، وهؤلاء القوم خارجون عن ملة الاسلام واحكامهم احكام المرتدين ، كذافي الظهيرية]۔(محقق و مدلل جديد مسائل جلد2صفحہ174)

16)حضرت مولانا مفتی اسامہ پالن پوری ڈینڈ رولوی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ: کافر کو قاضی بنانا درست نہیں،کیونکہ کافر،ادنیٰ ولایت، اور وہ شہادت کے اہل نہیں تو اعلیٰ ولایت ، قضاء کے بدرجہ اولیٰ اہل نہ ہوں گے۔

(فقہی ضوابط:حصہ سوم صفحہ66)

17)حضرت مولانا فتح محمد صاحب لکھنویؒ فرماتے ہیں کہ:مسجد کا متولی غیرمسلم نہیں ہوسکتا۔

(حلال وحرام کے احکام:صفحہ309)

18)حضرت مولانا علامہ حق نواز جھنگوی شہیدؒ فرماتے ہیں کہ اب حکومت سے بھی یہی مطالبہ ہے کہ اسمبلی میں یا عدالت میں شیعہ کے کفر کا اعلان کیا جائے،اور اگر یہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو ہمارے ساتھ بات کریں،اور اگر غیرمسلم ہیں تو مسلمان کی طرح حقوق کیوں حاصل کر رہے ہیں ؟ مسلم کی طرح ماحول اور معاشرے میں گھسے ہوئے کیوں ہیں؟ اور ان کے مسلم ہونے کی شہرت میں جو مسلم لڑکیاں ان کے نکاحوں میں جا رہی ہیں،اور یہ نکاح ہوتا ہی نہیں بلکہ زنا ہے۔ تو ان کو بچانے کے لئے ہمارے پاس کیا طریقہ ہے کہ ہم سنی بچیوں کو اس عذاب سے بچائیں،اور دوسرے حقوق جن پر وہ مسلم کی حیثیت سے غاصبانہ قبضہ کئے ہوئے ہیں۔اس کے لئے ہمارے پاس کیا دفعہ ہے؟ 

(میں نے سپاہِ صحابہؓ کیوں بنائی صفحہ15)

19) چونکہ شیعہ لوگ حکومت کو زکوٰۃ نہیں دیتے اس لیے زکوٰۃ و عشر کمیٹیوں اور متعالقہ محکموں سے شیعہ ارکان و افسران کو فی الفور الگ کیا جائے،اور جب وہ زکوٰۃ نہیں دیتے تو شیعہ اداروں اور افراد کو بھی زکوٰۃ نہ دی جائے۔اور زکوٰۃ و عشر کی جگہ شیعہ لوگوں پر متبادل ٹیکس عائد کیا جائے۔

(ماہنامہ نظامِ خلافتِ را شدہ فروری 2014صفحہ 18)

 20)جنرل ضیاء الحق نے جب زکوٰة و عشر کا قانون نافذ کیا تو اہلِ تشیع نے مارشل لاء کے ضابطوں کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے وفاقی سیکرٹریٹ پر قبضہ کر لیا اور اس وقت وہ وہاں سے پلٹے جب اُن کا مطالبہ منظور کرتے ہوئے یہ حکم جاری کیا گیا کہ اہلِ تشیع کے لئے جداگانہ زکوٰۃ آرڈنینس نافذ کر دیا گیا ہے۔

اس طرح ایک ہی ملک میں دو اذانوں،دو کلموں اور دو دینیاتوں کی طرح زکوٰۃ کے بھی دو قانون تسلیم کر لئے گئے۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ ملکی قانون کے مطابق شیعوں کو زکوٰة دینے سے تو مستثنیٰ کر دیا گیا مگر خود ان کے ملکی خزانے سے زکوٰۃ لینے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ (

ماہنامہ نظامِ خلافتِ راشده فروری 2014 صفحہ16)

21) حضرت مولانا علامہ خالد محمودؒ فرماتے ہیں کہ: شیعہ یہ بھی مانتے ہیں کہ پاکستان میں اکثریت اہلِ سنّت کی ہے اور انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ اہلِ سنّت ، صحابہ کرامؓ کے بارے میں وہ سیدنا علیؓ ہوں یا سیدنا امیرِ معاویہؓ ہوں،سیدناسلمان فارسیؓ ہوں یا سیدنا

 عمروبن عاصؓ ہوں کس قدر حساس واقع ہوئے ہیں پھر شیعہ اس عالی ظرفی کو کیوں خیر آباد کہہ آئے جو ان کی اپنی کتابوں کی روشنی میں خود سیدنا علیؓ اور ان کی اولاد کی علمی میراث اور فکری تراث تھی۔

پھر شیعہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ملکی مشترک آبادیوں پر اہلِ سنّت کا حق ان کے حق سے کہیں زیادہ ہے پھر یہ سب کچھ جانتے ہوئے اور سیدنا علیؓ اور اولادِ علیؓ کی سیرت پہچانتے ہوئے اتنی بڑی اکثریت کو محرم میں ملک سے باہر کیوں سمجھ لیتے ہیں(یعنی اہلِ سنّت اکثریت کے سارے نظام کو درہم برہم کرتے ہیں)اور سڑکوں پر اس دریدہ دینی سے کیوں نکلتے ہیں کو یا ان کے سوا اس ملک میں نہ کوئی دیکھنے والی آنکھ ہے نہ کوئی سننے والا کان ہے بس ہم ہیں جو چاہے کرتے پھرے اور جو چاہیں بکتے پھریں۔ اختلاف میں اتحاد کی راہ تلاش کرنا اور اکثریتی آبادی کو بڑا بھائی سمجھ کر ان کے عقائد و جذبات اور ان کی ہدایات کا پورا احترام کرنا کیا یہ آلِ رسولﷺکی مشترکہ عالی ظرفی نہ تھی؟

 ياد ركهو!

تاریخی اختلاف ہوں یا سیاسی اعتقادی اختلاف ہوں یا عملی ملکی سلامتی اور وحدت ملی کی ہر مرحلے پر حفاظت ہونی چاہیئے ، شیعہ سے ہمارے اختلاف کو اصولی ہیں فروعی نہیں لیکن یہ اس درجے میں بھی نہیں کہ وہ دس محرم کی عزاداری کیلئے ملک کی اتنی عظیم اکثریت کو عملاً شہر بدر کر دیں اور کہیں آزادی یہی ہیں کہ ہم جو چاہیں کریں اور جہاں چاہیں پھریں ہماری اس خود ساختہ سانحہ کربلا کی عزاداری پر قانون کی کوئی گرفت نہ ہونی چاہیئے ۔

(خلفاء راشدین:جلد1صفحہ670)

22)اقلیت بمقابله اكثريت

حضرت مولانا محمد احمد لدھیانوی صاحب فرماتے ہیں کہ: ایک دوسرے نکتے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اگر یہ مملکت ایک اسلامی فلاحی مملکت ہے تو پھر اس میں بسنے والوں کی اکثریت کون سے عقائد و نظریات کی حامل ہے۔ تمام اعداد و شمار اور سرکاری وغیر سرکاری رپورٹیں اور زمینی حقائق اس بات کا ثبوت دیتی ہیں کہ اس ملک کی اکثریتی آبادی اہلِ سنّت والجماعت کے عقائد و نظریات کی حامل ہیں ۔ دوسری طرف وہ اقلیت ہے جو اہلِ سنّت والجماعت کے عقائد سے کلی طور پر متصادم ہے۔اس اقلیت کا اپنے عقائد و نظریات کے ساتھ اس ریاست میں زندگی گذارنا نہ صرف یہ کہ ان کا آئینی حق ہے بلکہ شرعی اور اخلاقی حق بھی ہے۔اس اقلیت کا احترام اور تحفظ اس ملک کی اکثریت یعنی اہلِ سنّت والجماعت پر واجب ہے، اور یہی میثاقِ مدینہ کا تصور ہے اور یہی خلافتِ راشدہ کے عادلانہ نظام سے ثابت ہے۔

جب دنیا کا کوئی بھی عمرانی معاہدہ اکثریت کو اقلیت کے عقائد و نظریات کا احترام کرنے کا پابند بناتا ہے تو اقلیت پر یہی اصول دوگنی طاقت کے ساتھ لاگو ہوتا ہے۔ 

اکثریت کو اگر اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اقلیت کے عقائد و نظریات اور ان کے شعائر کی توہین کرے تو اقلیت کو اس بات کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے کہ وہ بیچ چوراہے پر کھڑے ہو کر اکثریت کے عقائد و نظریات اور شعائر کی تو ہین کرے۔

 افسوس یہ کہ اس ملک میں یہی ہو رہا ہے۔ یعنی کہ یہ ملک اسلامی فلاحی ریاست ہے اور اس ملک میں رہنے والوں کی اکثریتی آبادی اہل سنت والجماعت کے عقائد پر کار بند ہے لیکن اس اکثریتی مسلم آبادی کو اسی اسلامی فلاحی ریاست میں : دفاعِ صحابہ کرامؓ کی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو تب لڑی جاتی جب اہلِ سنّت والجماعت کے عقائد و نظریات رکھنے والے افراد اس ملک میں اقلیت کی صورت میں جی رہے ہوتے۔ یہ وہ صورت حال ہے کہ جس میں ریاست کا کردار کلیدی ہونا چاہیئے تھا مگرحالات و واقعات نے ثابت کیا کہ ریاست نے اکثریت کی آواز پر کان نہ دھر کر اقلیت کو طاقت فراہم کی،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اکثریت کی صفوں میں یہ احساس اُبھرنے لگا کہ شاید آئینی جدوجہد کا راستہ ہمارے لئے کارآمد ثابت نہیں ہو رہا۔ اور یہی احساس بغاوت کا سبب بنا اور بالآخر اکثریت کی صفوں میں سے کچھ لوگ نکل کھڑے ہوئے اور تشدد کا راستہ اختیار کر لیا گیا ۔

اب بھی تماشا یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ بھی اقلیت کے ہمنوا بن کر اس تاثر کو ابھار رہے ہیں کہ اکثریت ہی دراصل اس ملک میں شیعہ سنی اختلافات یا فسادات کی وجہ ہیں۔ اس صورت حال کو ہمیں عمل اور ردِ عمل والے کلیہ میں رکھ کر دیکھنا چاہیئے۔ اس بات پر تو سبھی متفق ہیں کہ فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے میں کفر کے فتویں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔کفر کی انہی فتویٰ کو ہم بنیاد بنا لیتے ہیں اور اکائی سے فتویٰ بازی کے سلسلے کا جائزہ لینا شروع کرتے ہیں۔ اگر آپ یہ جائز لیں گے تو جلد اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گئے کہ کفر کا پہلا فتویٰ وہی ہو سکتا ہے جو حضراتِ شیخینؓ( سیدنا ابوبکر صدیقؓ اورسیدنا فاروقِ اعظمؓ) پر لگا ہے۔پھر اس کے بعد دوسری جانب سے اگر کسی نے کوئی جوابی فتویٰ دیا ہے تو اس کی حیثیت فتویٰ کی نہیں بلکہ ایک ردِ عمل کی ہے۔

آج اس ملک میں بڑی آسانی کے ساتھ اہلِ سنّت والجماعت کو تکفیری کہہ دیا جاتا ہے مگر میں یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ ردِ عمل میں کفر کے فتوے دینے والے تو تکفیری ہیں مگر صحابہ کرامؓ اور ازواجِ مطہراتؓ کی عزت سے کھیلنے والے اور ان کو کافر کہنے والے کیونکر تکفیری نہیں؟

اب مسئلہ صحابہ کرامؓ و ازواجِ مطہراتؓ کو ماننے یا نہ ماننے سے نہیں ہے بلکہ ان توہین آمیز لٹریچر سے ہے جو اس ملک کی اکثریتی آبادی اہلِ سنّت والجماعت کیلیے نا قابل برداشت ہے۔ یہ مسئلہ اگر کل حل کر دیا جاتا تو فسادات بھی کل ہی ختم ہو جاتے اور اگر یہ مسئلہ آج بھی باقی رہے گا تو فسادات بھی باقی رہیں گے۔

دنیا کی تاریخ یہ ہے کہ جب اکثریت کو اقلیت کے مقابلے میں اپنے حقوق کی جنگ لڑنی پڑ جائے تو بغاوت جنم لیتی ہے اور بغاوت نام ہی اُس عصر کا ہے جو کسی بھی اصول، ضابطے یا فتوے کا لحاظ نہیں رکھتا، پھر آئینی جدوجہد پر یقین رکھنے والی قیادت کی نصیحتیں تشدد پسند حضرات کو امن پسندی پر مائل نہیں کر سکتیں۔

 میری جماعت کی قیادت اسی طرح کی آزمائش سے گذر رہی ہے۔آئینی جدو جہد اور قومی سلامتی کیلئے ہمارے کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن اس وقت ہمیں دو طرفہ محاذ سے جنگ لڑنی پڑ رہی ہے ۔ 

ایک طرف ہم ریاستی اداروں کے سامنے اپنے جائز مطالبات رکھ رہے ہیں اور ان مطالبات کی منظوری چاہتے ہیں اور دوسری طرف ہم تشدد پر اصرار کرنے والی سوچ کی راہ میں دیوار بنے ہوئے ہیں ۔ دوسرے محاذ پر کامیابی کا مکمل انحصار پہلے محاذ کی کامیابی پر ہے۔ اگر ہم پہلے محاذ پر نا کام ہوگئے تو دوسری محاذ پر ہماری شکست یقینی ہوگی۔ یہ شکست ہماری نہیں بلکہ ان اداروں کی ہوگی جو اُس وقت متحرک ہوتے ہیں جب پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔ اداروں کا یہ طرزِ عمل ہمیشہ بھاری نقصان کی صورت میں سامنے آتا ہے جس کی قیمت بہر طور قوم کو ادا کرنی پڑتی ہے۔

اقلیت کو جب اکثریت کے احترام پر آمادہ نہ کر لیا جائے اُس وقت تک اکثریت کو دیے جانے والا امن کا کوئی بھی درس کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔ آج بھی اس ملک میں تحفظ اہلِ سنّت کے نام پر سنی عوام سڑکوں پر ہیں۔ یعنی کہ اس ملک کی اکثریتی آبادی جسے سنی کہا جاتا ہے وہ اپنے تحفظ کی بھیک مانگنے کے لئے سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے۔ اکثریت اور اقلیت کی جاری یہ جنگ اب بھی کافی حد تک آئینی دائروں میں گھوم رہی ہے، مگر کب تک آئینی دائروں میں گھومتی رہے گی۔؟

تمام ریاستی اداروں کو چاہیئے کہ وہ آئینی جدوجہد کا گلیشئیر پگھلنے سے پہلے پہلے غیر یقینی صورت حال کے حقیقی اسباب تلاش کریں اور حقیقی طور پر ان اسباب کا سد باب کریں۔ 

(نظامِ خلافتِ راشده رساله صفحہ9مئی 2014)

 سوال: یہاں کے قاضی صاحبان شادی بیاہ میں بذاتِ خود نکاح نامہ کی خانہ پری کرکے بخوشی عقد پڑھاتے ہیں لیکن طلاق یا خلع کا موقع آیا تو کورٹ کا راستہ بتلاتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟

جواب: مسلمان کیلئے قطعاً جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے معاملات غیر اسلامی سرکاری عدالتوں میں لے جائیں، غیر مسلم ججوں کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں غیر معتبر ہے، اور ان کا فسخ کیا ہوا نکاح باقی رہتا ہے اور نکاح ثانی جائز نہیں ہوتا۔

(كتاب الفتاوىٰ جلد 3صفحہ 44حصه ششم)

 سوال: آج کل پاکستانی فوج میں اقلیتی حقوق سے متعلق بیرونی دباؤ کے زیرِ اثر ہندوؤں اور سکھوں کو افسر منتخب کرنے پر غور و فکر جاری ہے، اس کے ابتدائی مرحلے کے طور پر فوج کے اندر مختلف لوگوں کی آراء معلوم کی جارہی ہیں،اگر ایسا ہو گیا تو اس کا نقصان ظاہر ہے۔ آپ اس کی شرعی حیثیت واضح فرمائیں؟

جواب: کفار کے ساتھ بلا ضرورت میل جول رکھنے سے بھی منع کیا گیا ہے کہ اس سے اُن کے بُرے اخلاق مسلمانوں میں منتقل ہونے کا اندیشہ بلکہ یقین ہو جاتا ہے، چہ جائیکہ کسی کافر کو کسی شعبے میں مسلمانوں کی نگرانی سونپی جائے ، پھر فوج تو حساس ادارہ ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کا اجتماعی مفاد وابستہ ہے۔ اسلام و پاکستان کے دشمنوں کو اس میں شامل کرنا ہی سنگین غلطی ہے اور دشمن کو افسر مقرر کرنا تو زیادہ خطر ناک ہے، جو اسلامی

تعلیمات کے علاوہ غیرت کے بھی خلاف ہے۔

(آپ کے مسائل کا حل جلد،1،صفحہ 105)

سوال:نکاح میں غیر مسلم گواہ ہو تو نکاح صحیح ہو گا یا نہیں؟

جواب: مسلمان کے نکاح کے صحیح ہونے کیلئے گواہوں کا بھی مسلمان ہونا ضروری ہے، غیرمسلم شاہد کے

 روبرو کیا گیا نکاح معتبر نہیں کہلائے گا۔

(فتاوىٰ دينيه:جلد3 صفحہ213)

سوال: ایک مرحوم خیر کی ملکیت صورت میں ہے مرحوم کا کوئی وارث نہیں ہے، ان کی اس ملکیت میں 16 کرایہ دار رہتے ہیں اور وہ خود بھی اس میں رہتے تھے، انہوں نے اپنی وفات سے پہلے عمارت کی آمدنی کیلئے ایک ٹرسٹ قائم کیا ہے اور وصیت کی ہے کہ اس

کی جو آمدنی ہو پہلے اس سے مکان کی تعمیر و مرمت کی جائے اور پھر جو رقم بچا کرے وہ محلہ کی چار مسجدوں میں تقسیم کی جایا کرے۔ مذکورہ عمارت کے کل پانچ افراد ٹرسٹی ہیں ان میں ایک شخص شیعہ آغاخانی کھوجا بھی ہے۔ ہم اہلِ سنّت و الجماعت حنفی المسلک ایسی آدمی کوٹرسٹی (منتظم) قائم رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟

 جواب: واقف نے غلطی کی ہے کہ سنی ٹرسٹیوں کے ساتھ آغا خانی کوٹرسٹی بنایا۔اب اگر اس کی وجہ سے وقف کو نقصان پہنچتا ہو اور واقف کا مقصد فوت ہو جاتا ہو تو بدلا جا سکتا ہے۔ اگر قانونی طور پر اس کی منظوری ہوگئی ہو تو قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ کاروائی کی جائے تا کہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو۔

صورت مذکورہ میں سنی ٹرسٹیوں کی اکثریت ہے تو ایک نے اگر مخالفت کی تو وہ کامیاب نہ ہوگا، کیونکہ فیصلہ اکثریت کی رائے سے ہو گا۔ بہر حال نہ سانپ بچے نہ لاٹھی ٹوٹے کے اصول پر کام کیا جائے ۔ 

( فتاویٰ رحیمیه:جلد9صفحہ46)

 سوال: ہمارے یہاں مسلمانوں کی ایک کمیٹی ہے اس کے منتظمین تمام مسلمان ہیں،وہ لوگ چندہ میں اللہ کے لیے رقم اور زکوٰۃ کی رقم بھی وصول کرتے ہیں اور زکوٰۃ کے پیسوں میں آج تک غریب مسلمانوں کو مفت دوا وغیرہ دیتے تھے، اور تقسیم کا یہ کام مسلمان ہی کو سپرد کیا جاتا تھا مگر اب ایک غیرمسلم کو ملازم رکھ کر وہ کام اس کو سپرد کیا گیا،اب وہ غیرمسلم اپنی مرضی سے جس کو چاہتا ہے مفت دوا دیتا ہے، حتیٰ کہ غریب حاجت مند مسلمانوں کے ہوتے ہوئے غیر مسلموں کو بھی مفت دوا دیتا ہے۔اب دریافت طلب امر یہ ہیں کہ :

 کیا زکوٰۃ جیسی اہم عبادت جو نماز روزہ وغیرہ کی طرح ایک اسلامی فریضہ ہے، اس کی تقسیم کا کام غیر مسلم کر سکتا ہے یا نہیں ؟

جواب: زکوٰۃ کی تقسیم کا کام غیرمسلم کو سپرد کرنا جائز نہیں،اس میں مسلمانوں کی توہین لازم آتی ہے، اور ایک غیرمسلم کی سرداری مسلمانوں پر ہوگی،اور زکوٰۃ کی رقم کا غلط استعمال ہوگا، اور زکوٰۃ دہندگان کی زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، اور اس کے ذمہ دار انجمن کے منتظمین ہوں گے۔

 در مختار میں ہیں: (هو اى العاشر : حر مسلم بهذا يعلم حرمة تولية اليهود على الاعمال (قوله هو مسلم ) ولا يصح أن يكون كافراً لانه لا يعلى عملى المسلم بالآية بحر والمراد بالآية قوله تعالىٰ ولن يجعل اللّٰه للكافرين على المؤمنين سبيلا:

: غاية الاوطار: میں ہے کہ:عاشر آزاد ہو مسلمان ہو۔ یعنی نہ غلام ہو،نہ کافر ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہود کو عامل بنانا حرام ہے۔

(فتاویٰ رحیميه:جلد7 صفحہ179) 

 سوال:کیا قاضی کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے؟

 جواب:مسلمان کے حق میں قاضی کا مسلمان ہونا باتفاق ائمہ اربعہؒ ضروری ہے، خواہ مقدمہ حدود کا ہو یا کسی اور باب سے متعلق ہو۔

(فتاویٰ دار العلوم کراچی:جلد 5 صفحہ57)

 سوال: ہمارے علاقے میں چند گھرانے اہلِ سنّت کے ہیں اور عموماً یہاں شیعہ آباد ہیں۔اس علاقے میں برائے وصولی زکوٰۃ شیعہ چیئرمین مقرر کئے گئے ہیں وہ ہم سے زکوٰۃ وصول کر کے حکومت کو دیتے ہیں اور پھر اس میں سے اہلِ تشیع کو بھی دیا جاتا ہے۔ اگر ہم دینے سے انکار کریں تو وہ زبردستی لے جاتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ اس صورت میں ہماری زکوٰۃ ادا ہو گی یا نہیں؟

جواب:چونکہ شیعہ عموماً خارج از اسلام ہیں۔ان کو زکوٰۃ کا چیئرمین مقرر کرنا اضاعت زکوٰۃ ہے۔

(وفي الهنديه ويرط في العامل أن يكون حراً مسلماً غیرهاشمی، كذا في البحر ناقلا عن الغاية)

کیونکہ عامل کو بھی زکوٰۃ ہی سے حصہ دیا جاتا ہے۔

وفي الهنديه واما اهل الذمه فلا يجوز صرف الزكوٰة اليهم بالاتفاق

( فتاویٰ فریدیه:جلد3 صفحہ388)

 سوال: ایک پکا سنی مسلمان عبد الکریم خان شیعہ منکر اصحاب و امهات المؤمنین(رضوان اللّٰه علیھم اجمعین)کو ووٹ دلوانے کا عہد کرتا ہے جس سے شیعہ مذکور اپنی امداد پاش لینا چاہتا ہے۔

یعنی نمائندہ سنی برملا کہتا ہے کہ میں اپنا ووٹ کامیاب ہونے پر شیعہ مذکور کو چیئرمین کیلئے دوں گا بلکہ یہ شیعہ سبّی ایک سنی کو نمائندگی کیلیے کھڑا کر کے شیعہ لوگوں کو ووٹوں کے بارے میں عہد و پیماں لے رہا ہیں۔ تو عندالشریعت اگر پکا مسلمان اس شیعہ سے اپنا کیا ہوا وعدہ توڑ دے تو جائز ہے یا نہیں؟ اور یہ بھی فرمادیں کہ شریعت میں شیعہ سنی کو عہد کر دینا انتخاب میں کیا ہے؟

 جواب:جو شخص صحابہ کرام (رضوان اللّٰه علیھم اجمعین)کا مخالف اور گالیاں دینے والے یا سننے والے یا سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو تہمت دینے والے کو امداد دیتا ہے وہ گنہگار ہے اور عہد اور دعائے خیر کوئی قبول نہیں،پکا سنی مسلمان اس قسم کے عہد سے باز آئے ۔ نیز ایسے سنی کہلانے والے سے بالکل ووٹ دینے کا عہد نہ کرے جس سے صحابہ کرامؓ اور امہات المؤمنینؓ کو سب و شتم بکنے والوں کی امداد کا شبہ ہو ۔ اور اگر کسی نے غلطی سے عہد بھی کر دیا ہے تو فورا وعدہ

 توڑ کر کسی دیندار پکے مسلمان کو ووٹ دیں جس سے اس قسم کے لوگوں کی امداد کا بالکل شبہ نہ ہو۔

ووٹ کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ ووٹ دینا شہادت دینا ہے۔ اس اعتبار سے غیر مستحق امیدوار کو ووٹ دینا جھوٹی گواہی دینا ہے جو گناہ کبیرہ ہے اور رسولﷺ نے جھوٹی گواہی کو شرک کے برابر قرار دیا ہے۔

لہٰذا اگر اس پکے سنی مسلمان نے اس کی شیعہ سے وعدہ بھی کیا ہو اور حلفاً بھی کیوں نہ کیا ہو اس پر اس ناجائز وعدے کو تو ڑنا لازم ہے اور حلفاً وعدہ کیا ہو تو دس مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا تین روزے رکھ دے تا کہ وہ اس گناہ کبیرہ کی جھوٹی گواہی دینے سے بچ جائے گا اور قسم سے بھی بری الذمہ ہو جائے گا۔

علاوہ اس کے ایک شیعہ غالی کو چیئرمین کیلئے ووٹ دینا اور اسے چیئرمین بنانا مسلمانوں کو دینی و مذہبی نقصان پہنچانا ہے اور ان کی دینی بر بادی ہے ۔اگر یہ پکا سنی مسلمان امیدوار شیعہ سے عہد و پیمان بھی توڑ دے پھر بھی مسلمان ووٹروں کو اس کے مقابلے میں جو دوسرے سنی مسلمان امیدوار کھڑے ہیں ان میں اپنے ووٹ کیلئے دیانت دار اور امانت دار، دین و مذہب پر سیرت وصورت کے لحاظ سے جو زیادہ پابند ہوا سے منتخب کرائیں اور سنی مسلمان نمائندہ شیعہ سے عہد و پیمان نہ توڑے تو مسلمان ووٹر ایسے امیدوار کو قطعاً ووٹ نہ دیں ورنہ مذکورہ بالا وعید حدیثیہ یعنی شرک کے برابر گنا اور کبیرہ میں پڑیں گے۔

(فتاویٰ مفتی محمود جلد11 صفحہ366)

سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ مذہب اہلسنّت والجماعت کے اپنے مذہبی عالم فاضل یا اپنے مذہب کا کوئی دین دار کے ہوتے ہوئے کو چھوڑ کر دنیاوی لالچ یا وہمی دباؤ کی وجہ کر کے اہلِ شیعہ جو

سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور صحابہ کرامؓ کا سبّی شیعہ ہو اور بے نمازی وغیرہ بھی ہو۔اس کے ساتھ دستِ بیعت یا معاہدہ ہو کر وقت مقابلہ حق و باطل کا ہوتے ہوئے سرے میدان پر اہلِ سنّت والجماعت کے کوئی چند افراد اپنے مذہب کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ووٹوں سے یا معاونت سے مذکورہ شیعہ کے ساتھ دستِ بیعت کرتے ہیں جس سے اہلِ شیعہ باطل مذہب اپنے آپ کو سچا ہونا دلیل پکڑتے ہیں کہ ہم سچے ہیں، ہمارا مذہب سچا ہے۔ اہلِ سنّت والجماعت ایسے ایمان فروشوں کیلئے کیا فتویٰ دیتے ہیں؟ آیا وہ افراد ایمان پر قائم ہیں اور نکاح باقی ہیں یا نہیں؟ نیز نمازِ جمعہ اس کا پڑھنا پڑھانا جائز ہے یا نہیں؟ نیز دعا سلام کیسا ہے؟ اگر بے علمی کی وجہ کر کے زبانی معاہدہ کر بیٹھیں کہ ووٹ شیعہ سبّی کو دیں گے تو اس وعدہ کا عندالشریعت کیا فیصلہ ہے؟ نیز اگر اپنے مذہب کا ووٹ لینے والا کوئی نہ ہو تو اہلِ شیعہ کے لئے ووٹ استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: شیعہ امیدوار کو سنی کے مقابلہ میں ووٹ دینا نا جائز اور سخت گناہ ہے لیکن صرف چونکہ ووٹ دینا اس کے مذہب کی تصدیق اور حق سمجھنا نہیں ہے۔ لہٰذا مؤمن باقی رہے گا اس کا نکاح بھی باقی ہوگا، نمازِ جنازہ بھی اس کا پڑھا جائے گا۔ ہاں سنی کے مقابلہ میں شیعہ کو ووٹ دینا گناہ ہے اسے تو بہ کرنا لازم ہے۔

اگر شیعہ کو ووٹ دینے کا اس نے معاہدہ کر لیا ہے تو شریعت میں وہ اس معاہدہ کا پابند نہیں ہے بلکہ اسے اس کے خلاف کرنا ضروری ہے۔ اور قسم اٹھانے کی صورت میں اس کے اوپر لازم ہے کہ قسم توڑ کر سنی مسلمان کو ووٹ دے کر کفارہ یمین ادا کرے۔ اور اگر اپنا ہم مذہب کھڑا نہ ہوا ہو تو ووٹ کو استعمال نہیں کرنا چاہئے ۔ چونکہ کسی ایک امید وار نے منتخب ہونا ہوتا ہے اس لئے امیدواروں میں جو دین و مذہب میں اہلِ سنّت والجماعت کے قریب ہو ، دین و مذہب میں مفید ممبری کیلئے اس کے حق میں استعمال کریں ۔ (فتاویٰ مفتی محمود:جلد 11صفحہ380)

 سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ جس ملک میں غیر مسلم معاہدہ کا درجہ رکھتے ہوں ملکی معاملات میں کیا ان کا درجہ کم تر ہو گا ؟

جواب: ہاں بعض معاملات میں کمتر ہو گا۔ ان کو حکومت کی کلیدی آسامیوں پر تعینات نہیں کیا جائے گا ،قضاء اور افتاء کا کام ان کے سپرد نہیں کیا جائے گا و غیر ذلک معاملات کے اندر وہ ہمارے اسلامی قوانین کے پابند ہوں گے۔

(فتاویٰ مفتی محمود: جلد11صفحہ 313)

 سوال: ہم نے بہت کوشش کی کہ مسجدان حرکتوں سے باز آجائیں لیکن اس کے باوجود انہیں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ تو اس صورت میں ہم ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کریں؟

 جواب :ان کی اصلاح کی کوشش ضروری ہے۔ لہٰذا اصلاح کی کوشش میں لگے رہیں اور جب تک ان کی اصلاح نہ ہو ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے اور نہ ہی اپنے بچوں کو ان کے پاس پڑھنے کیلئے بھیجنا چاہیے۔ 

(فتاویٰ دار العلوم زكرياجلد1صفحہ171)

 سوال: کیا غیر مسلم کی گواہی یا قضا مسلمان پر نافذ ہو سکتی ہے یا نہیں؟

جواب: بصورت مسئولہ غیر مسلم کی شہادت اور قضا مسلمان کے معاملات خصوصاً دینی امور میں نافذ نہیں ہوگی،یعنی کفار اہلِ شہادت نہیں اور جواہلِ شہادت نہیں وہ قضا کے بھی اہل نہیں ۔

واضح رہے کہ غیرمسلم ججوں کے فیصلے مسلمانوں کیلئے لازم نہ ہونے کا مسئلہ جمہور کا اجماعی اور اتفاقی ہے اور اس بارے میں مسلمانوں میں سے کسی کا اختلاف نہیں ۔

(فتاویٰ دار العلوم زكرياجلد8 صفحہ161)

سوال: کیا اسلامی مملکت میں کفار و مرتدین کو کلیدی عہدے دیئے جاسکتے ہیں؟

جواب: غیر مسلموں کو اسلامی مملکت میں کلیدی عہدوں پر فائز کرنا بنصِ قرآن ممنوع ہے۔ 

( آپ کے مسائل اور ان کا حل:جلد2 صفحہ140)

سوال: ہمارے کالج میں ایک تقریب ہو رہی ہے جس میں مقابلہ نعت وحمد حسن قراءت،اور مقابلہ تقاریر وغیرہ ہوگا۔اس مقابلے کیلئے مہمان خصوصی ایک غیر مسلم کو چنا گیا ہے۔ علامہ صاحب ! ذرا تشریح فرمائیں کہ یہ کیسا فعل ہے؟ اس فعل کی حمایت کرنے والوں کا کیا کردار ہوگا ؟

 جواب: مقابلہ حسن قراءت اور مقابلہ حمد و نعت اگر دینی کام ہے تو اس اجلاس کی صدارت کے لئے بھی وہی شخصیت موزوں ہو سکتی ہے جو مسلمان ہونے کے علاوہ فنِ قراءت میں ماہر ہو ، اور حمد و نعت کا صحیح موازنہ کر سکتا ہو محفلِ قراءت کا مہمان خصوصی ایک غیر مسلم کو بنانا کو یا قراءت اور محفلِ قراءت کے ساتھ اچھوتی قسم کا مذاق ہے۔ ایسی محفل میں مسلمان طلبہ شرکت نہ کریں اور اس کے خلاف احتجاج کریں۔

(آپ کے مسائل اور ان کا حل:جلد 2 صفحہ628)

سوال:کیا ایک مسلم ملک میں غیر مسلم جج ہو سکتا ہے؟

 جواب :شرعاً جائز نہیں ہے۔

سوال: ایک دشمن صحابہ کرامؓ کے حق میں ممبری کا ووٹ دینا جائز ہے یا نہیں؟

 جواب:اپنی نمائندگی کے لئے ایسے شخص کو رائے دینی چاہئے جو اہلِ اسلام کی مذہبی معاشرتی سیاسی اور صحیح ترجمانی کر سکے ۔ اور جو شخص اس کے خلاف کسی ایسے شخص کو رائے دے جس سے یہ توقع نہ ہو بلکہ اس میں مسرت کا اندیشہ ہو، وہ غلطی پر ہے۔اور اس اعانت کی وجہ سے گنہگار ہوگا۔جو شخص صحابہ کرامؓ کو گالیاں دے، حدیث شریف میں اس پر لعنت آئی ہے۔ ایسے شخص سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ (وہ بدبخت) مسلمانوں کی صحیح ترجمانی کرے گا؟

 (جامع الفتاوىٰ:جلد 4 صفحہ 138)

سوال:صحیح العقیدہ عالمِ دین اہلِ تشیع کے مدرسہ میں فاضل عربی کی کتب پڑھ سکتا ہے یا نہیں ؟وضاحت مطلوب ہے؟

جواب: بہت سی وجوہ کی بناء پر ان سے علم حاصل کرنا درست نہیں ۔مثلاً:

¹- اگر وہ کتب دینیہ ہیں تو دینی کتب ایسے اشخاص سے پڑھنے درست نہیں ۔

²-شاگرد ہونے کی صورت میں ان کی تعظیم بھی کرنی ہوگی،حالانکہ وہ اس تعظیم کے اہل نہیں ہے۔

³-ان سے مخالطت و مجالست کی وجہ سے متاثر ہونے کا اندیشہ بھی ہے۔

الحاصل ان سے کچھ نفع کے ساتھ بہت سے نقصانات کا اندیشہ بھی ہے۔اور اس لئے بھی اجازت نہیں دی جائے گی کہ استاد کا رنگ طلبہ میں منتقل ہوتا ہے۔

(جامع الفتاوىٰ:جلد 4صفحہ214)

سوال:ایک مرحوم صاحب خیر کی ملکیت صورت میں ہے مرحوم کا کوئی وارث نہیں ہے، ان کی اس ملکیت میں 16 کرایہ دار رہتے ہیں اور وہ خود بھی اس میں رہتے تھے،انہوں نے اپنی وفات سے پہلے عمارت کی آمدنی کیلئے ایک ٹرسٹ قائم کیا ہے اور وصیت کی ہے کہ اس کی جو آمدنی ہو پہلے اس سے مکان کی تعمیر و مرمت کی جائے اور پھر جو رقم بچا کرے وہ محلہ کی چار مسجدوں میں تقسیم کی جایا کرے۔ مذکورہ عمارت کے کل پانچ افراد ٹرسٹی ہیں ان میں ایک شخص شیعہ آغا خانی کھو جا بھی ہے۔ ہم اہل سنت و الجماعت حنفی المسلک ایسے آدمی کوٹرسٹی (منتظم) قائم رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب: واقف نے غلطی کی ہے کہ سنی ٹرسٹیوں کے ساتھ آغا خانی کوٹرسٹی بنایا۔اب اگر اس کی وجہ سے وقف کو نقصان پہنچتا ہو اور واقف کا مقصد فوت ہو جاتا ہو تو بدلا جا سکتا ہے۔ اگر قانونی طور پر اس کی منظوری ہوگئی ہو تو قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ کاروائی کی جائے تاکہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو۔

صورت مذکورہ میں سنی ٹرسٹیوں کی اکثریت ہے تو ایک نے اگر مخالفت کی تو وہ کامیاب نہ ہوگا، کیونکہ فیصلہ اکثریت کی رائے سے ہو گا۔بہر حال نہ سانپ بچے نہ لاٹھی ٹوٹے:کے اصول پر کام کیا جائے۔

 (جامع الفتاوىٰ: جلد 7:صفحہ 90)

سوال: ہمارے چک نمبر (221:B:E) میں موجود زکوٰۃ وعشر کمیٹیوں کی سلیکشن کی صورت میں ایک شخص نور محمد ولد عزیز بخش کو زکوٰۃ کمیٹی کا نمبر بنا دیا گیا جو کہ مرزائی ہے، بظاہر وہ اپنی ذات کو مسلمان کہلاتا ہے لیکن حقائق سے معلوم ہوا کہ وہ مرزائی ہے۔ کیا یہ شخص زکوٰۃ کمیٹی کا ممبر بن سکتا ہے؟

جواب: مرزائی ممبر مسلمانوں کے مال میں تصرف کا شرعاً مجاز نہیں ہے،خصوصاً جبکہ نظامِ زکوٰۃ کے اصول میں ہے کہ شیعہ اور مرزائی عشر و زکوٰۃ کمیٹی کا ممبر و عہدیدار نہیں بن سکتا ۔ نیز قرآن کریم میں واضح اعلان ہے کہ کافر مسلمان پر کسی قسم کا فوقیت کا اہل نہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ولین يجعل الله للكفرين على المؤمنين سبیل ہدایہ میں ہے لاتقبل شھادته ای الکافرعلی المسلم۔

(خیر الفتاویٰ جلد3،صفحہ464)

سوال: مقام مٹیلہ ملک برما میں انجمن مسلم کمیٹی قائم ہے جس کے اغراض و مقاصد میں ابھی صرف انتظام تجہیزوتکفین میت، مسافرین و نادار مسلمان ہیں۔ جس میں پانچ ممبر ہیں،اس میں اثناء عشری بھی ہیں کیا ایسے شخص کو مبر بنانا جائز ہے یا نہیں؟ کیا شیخینؓ کو گالی دینے سے کفر لازم آتا ہے؟

جواب: شیخینؓ کو سبّ و شتم کرنے والے روافض کو بہت سے فقہاء نے کافر لکھا ہے،اور جو روافض سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے افک کے قائل ہیں یا سیدنا صدیق اکبرؓ کے صحابیت کے منکر ہیں یا سیّدنا علیؓ کی الوہیت کے قائل ہیں وہ باتفاق کافر ہیں۔پس ایسے روافض کو ممبر بنانا درست نہیں ہے۔

(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند مدلل ومكمل جلد5صفحہ346)

سوال: جن مسائل میں شرعی قاضی کا فیصلہ ضروری ہے ان میں غیر مسلم حاکم کا اگر قانونِ شریعت کے موافق بھی ہو، کافی ہو سکتا ہے یا نہیں ؟

جواب: غیر مسلم کو قاضی بنانا درست نہیں تھا، کیونکہ قضاء کے شرائط میں سے ہے کہ قاضی مسلمان ہو۔پس غیرمسلم حکام قاضی شرعی کے قائم مقام نہیں ہو سکتے اور ان کا فیصلہ ضرورت شرعیہ کو پورا نہیں کرسکتا۔ قاضی کو قاضی بنانا صحیح نہیں، جب تک اس میں شہادت کے شرائط نہ پائے جائیں، یعنی مسلمان ہونا،مکلف ہونا،آزاد ہونا وغیرہ۔صلاحیت منصب قضاء کیلئے چندشرطیں ہیں۔ان میں سے عاقل ہونا،بالغ ہونا،آزاد ہونا اور مسلمان ہوتا ہے۔

(كفايت المفتى:جلد11صفحہ341)

سوال: مشرکین شرعی نجس و غیر محتاط کو مسلمانوں کی قبروں کے کاموں کے ہوتے ہوئے مقرر کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: مسلمانوں کی قبرستان کی خدمت ایسے شخص سے لی جائے جو قبروں کے آداب واحترام سے واقف ہو۔غیرمسلم ان احکامِ اسلامیہ سے واقف نہ ہوگا جو قبروں کے متعلق ہیں اور اس سے حفاظت قبور کی اسلامی خدمت کماحقه انجام پذیر نہیں ہو سکتی۔ اس لئے جہاں تک ممکن ہو مسلمان ملازم رکھنا لازم ہے۔ جہاں مسلمان ملازم نہ مل سکے تو مجبوری ہے۔ 

(کفایت المفتى: جلد 10صفحہ524:523)

سوال:نصیر آباد میں چند افراد نے سیرت النبیﷺ کے جلسہ کی صدارت متواتر تین روزہ کافر اور مشرک کے حوالہ کی۔آیا اس جماعت کا یہ فعل شریعتِ اسلام کے موافق ہے یا مخالف؟ تقریر کرنے والے علماء اہلسنت والجماعت تھے۔

جواب:صدر کو بسا اوقات مقررین کی تقریروں پر محاکمہ یا بعض مقررین کے بیانات پر تنقید کرنی ہوتی ہے، اس لئے کسی خاص جلسہ کی صدارت کیلئے مقصدِ جلسہ اورمتعلقاتِ مقصد کا ماہر شخص ہی موزوں ہوتا ہے۔ نیز مذہبی اجتماعات میں مذہبی حیثیت سے ممتاز شخصیت کو صدر بنانا مناسب ہے۔ بنابریں ان لوگوں کا انتخاب ناموزوں اور نا مناسب واقع ہوا۔

(کفایت المفتی:جلد 13 صفحہ 126)

سوال: ایک دشمن صحابہ کرامؓ کے حق میں ممبری کا ووٹ دینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: اپنی نمائندگی کے لئے ایسے شخص کو رائے دینی چاہیئے جو اہلِ اسلام کی مذہبی معاشرتی سیاسی اور صحیح ترجمانی کر سکے۔ اور جو شخص اس کے خلاف کسی ایسے شخص کو رائے دے جس سے یہ توقع نہ ہو بلکہ اس میں مضرت کا اندیشہ ہو، وہ غلطی پر ہے۔اور اس اعانت کی وجہ سے گنہگار ہوگا ۔

جو شخص صحابہ کرامؓ کو گالیاں دے، حدیث شریف میں اس پر لعنت آئی ہے۔ایسے شخص سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔

 (فتاویٰ محمودیہ:جلد 4 صفحہ 619)

 سوال:ایک شخص کو قبرستان میں ملازم رکھا ہے حفاظت کیلیے،بعد میں معلوم ہوا کہ وہ شیعہ ہے، مگر معاملات بہت صاف ہیں ، حفاظت خوب کرتا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسے آدمی کو رکھنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: اگر اس سے کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ نہیں ہے تو اس کو ملا زم رکھنا درست ہے۔ اگر کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ ہے یا احتمال ہے کہ سنیوں کی قبروں کا احترام نہیں کرے گا، بلکہ بے حرمتی کرے گا تو اس کو ملازم رکھنا درست نہیں۔

قال الله تعالیٰ:

یٰۤاَیُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْابِطَانَةً مِنْ دُوْنِكُمْ۔

قال ابوبكر الجصاس فنهى الله تعالىٰ :المؤمنين ان يتخذوا اهل الكفر بطانة من دون المؤمنين وان يستعينوا بهم في خواص امور هم واخبر عن ضمائر هؤلاء الكفار للمؤمنين فقال:لا يألونكم خبالا يعنى لا يقصرون فيما يجدون السبيل اليه من افساد امور كم لان الخبال هو الفساد:

 وكذلك عمر الى ابى موسى ينهاه ان يستعين باحد من

اهل الشرك في كتابته، وتملا قوله تعالىٰ: لا تتخذوا بطانة من دونكم، لا يألونكم خبالا

 تاہم اس سے بہتر اچھے عقائد کا آدمی اگر مل جائے تو اس کورکھنا زیادہ اچھا ہے۔

(فتاویٰ محمودیه:جلد 16صفحہ 578)

سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اقلیت کے حقوق کا تحفظ ہر ملک کی ذمہ داری ہے؟

جواب: اقلیت کے حقوق کا تحفظ صرف اُس وقت کیا جاتا ہے جب کہ اس کی سرگرمیاں ملک کے مفاد میں ہوں اور اقلیت کی سرگرمیاں ملک کے خلاف ہو تو ان کےساتھ رعایت کرنا ملک دشمنی کے مترادف ہوتا ہے۔

اس ملک میں فقہ جعفریہ کو پبلک لاء کے طور پر کسی صورت میں نافذ نہیں کیا جاسکتا ، یہ مطالبہ پاکستان کو کئی حصوں میں تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے کہ پوری دنیا کا قانون ہے کہ پبلک لاء اکثریتی آبادی کے لحاظ سے نافذ کیا جاتا ہے۔ اورپرنسل لاء میں اقلیت کو اپنے رسم و رواج کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت ہوتی ہے بشرطیکہ اس سے کسی اکثریت کی دل آزاری نہ ہوتی ہو۔

سوال: کیا اسلامی مملکت میں کفار و مرتدین کو کلیدی عہدے دیئے جا سکتے ہیں؟

جواب : غیر مسلموں کو اسلامی مملکت میں کلیدی عہدوں پر فائز کرنا بنصِ قرآن ممنوع ہے۔ 

( آپ کے مسائل اور ان کا حل: جلد 1: صفحہ 65)

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ جس ملک میں غیر مسلم معاہد کا درجہ رکھتے ہوں ملکی معاملات میں کیا ان کا درجہ کم تر ہوگا ؟

جواب: ہاں بعض معاملات میں کم تر ہوگا۔ ان کو حکومت کی کلید ہ آسامیوں پر تعینات نہیں کیا جائے گا۔ قضاء اور افتاء کا کام ان کے سپرد نہیں کیا جائےگا۔

وغیر ذلک:معاملات کے اندر وہ ہمارے اسلامی قوانین کے پابند ہوں گے۔ مثلاً خریدوفروخت،اجارہ وغیرہ اور عبادات کے اندر ان کو شریعت حقہ کے مطابق ادائیگی پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ وہ اس میں آزاد رہیں گے۔ (فتاویٰ مفتی محمود جلد یازدهم صفحہ313)

کیا سنیوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا تخریب کاری ہے؟امیرِ عزیمت حضرت مولانا علامہ حق نواز جھنگوی شہیدؒ اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں کہ:آج ہمارا ملک جن حالات سے گزر رہا ہے ان حالات میں ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہے۔ہر آدمی،ہرطبقہ ہر جماعت واویلا کر رہی ہے شور و غوغہ کئے ہوئے ہیں کہ ہمارے حقوق غصب کئے جارہے ہیں ، ہمارے حقوق کو چھینا گیا ہے، ہمارے حقوق ہمیں واپس دلائے جائیں۔ ہر طبقے کی کوئی نہ کوئی تنظیم ،کوئی نہ کوئی جماعت کوئی نہ کوئی فرد موجود ہے جو ان کے مطالبات کو ان کی ضروریات کو،ان کے حقوق کو جو غصب کئے گئے ہیں۔ ان کے لئے تحریک چلائے ہوئے ہیں،ان کیلئے اپنی ہمت اور اپنی استطاعت کے مطابق ہر فرد،ہر جماعت اور ہر گروہ کوشاں ہے۔

مگر ایک طبقہ، ایک گروہ، ایک جماعت دنیا کے اندرایسی بھی گزری ہے جن کے حقوق کی بات ہم ( سپاہِ صحابہؓ والے ) کرتے ہیں لیکن مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ملک میں اگر مہاجر کے حقوق کی بات ہوتی ہے تو کوئی آدمی انہیں تخریب کار اور ملک کا دشمن نہیں کہتا۔ اگر کوئی پنجاب اور مرکز کے حقوق کی بات کرتا ہے تو کوئی شخص اسے ملک دشمن اور تخریب کار نہیں کہتا۔ اگر کوئی شخص کلرکوں کے حقوق کیلئے تحریک چلائے ہوئے ہے تو اسے کوئی آدمی نہیں کہتا کہ ہمارا ملک اس وقت خطرات میں گھرا ہوا ہے آپ کچھ عرصہ کیلئے اپنے مطالبات کو ملتوی کر دیں ۔ اگر کوئی بندہ جٹ، غیرجٹ ،آرائیں، غیر آرائیں۔ اور قومیت ولسانیت کی بنیاد پر سرائیکی اور غیر سرائیکی سرحدی ، غیر سرحدی۔ پنجابی،غیر پنجابی۔ مہاجر،غیر مہاجر کے حقوق کی بات کرتا ہے تو اسے کوئی تخریب کار نہیں کہتا۔ اسے کوئی شخص ملک دشمن نہیں کہتا۔اس جماعت کو حب الوطنی کا سرٹیفیکٹ دیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ سندھو ویش کا نعرہ لگانے والے ملک کے وفادار ہیں، ملک کے خیر خواہ ہیں لیکن اگر ملک کی عظیم جماعت سپاہِ صحابہؓ کے قائدین اور ان کے جماعت کے رفقاء، صحابہ کرامؓ اور ازواجِ مطہراتؓ کے تقدس عظمت،شرافت،ناموس اور حقوق کی بات کرتے ہیں سُنّی حقوق کی بات کرتے ہیں توانہیں تخریب کار کہا جاتا ہے، انہیں ملک دشمن کہا جاتا ہے۔