عقد الفريد مصنفہ احمد بن محمد المعروف ابن عبدربه
محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحبعقد الفريد مصنفہ احمد بن محمد المعروف ابن عبدربه
سهم مسموم
سیدنا عمر فاروقؓ کا دروازہ سیدہ فاطمہؓ پر آگ لے کر آنا اور ان کا گھر جلانے کی دھمکی دینا
ثبوت ملاحظہ ہو ۔ اہلِ سنت کی معتبر کتاب عقد الفرید جلد دوم صفحہ 205 ذکر خلافت سیدنا ابی بکرؓ
عقد الفريد
أَمَّا عَلِيٌّ وَعَبَّاسُ وَالزُّبَيْرِ فَقَعَدُوَا فِي بَيْتِ فَاطِمَة حَتَّى بَعَثَ إِلَيْهِمُ أَبُو بَكْرُؓ و عمَرَ بْنَ الخَطَّابِؓ لِيُخْرِجَهُمْ مِنْ بَيْتِ فَاطِمَةٍؓ وَقَالَ لَهُ إِنْ أَبوْا فَقَاتِلُهُمْ فَاقبَلَ بِقَبَسِ مِنَ النَّارِ عَلَى أَنْ يَضْرِمَ عَلَيْهِمُ الدَّارَ فَلَقِيتهُ فَاطِمَة فَقَالَتْ بابن الخطابِؓ أَجِئْتَ لِتَحْرِقَ دَارَنَا قَالَ نَعَمْ أَوْ تَدْخُلُوا فِيهَا دَخَلَتْ فِيهِ الأمة.
ترجمہ
ملخص سیدنا علیؓ اور سیدنا عباسؓ و سیدنا زبیرؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت سے انکار کر کے سیدہ فاطمہؓ کے گھر میں بیٹھ گئے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا عمرؓ کو بھیجا کہ ان کو لاؤ اگر انکار کریں تو ان سے جنگ کرو سیدنا عمرؓ آگ کا شعلہ لے کر آئے تاکہ اس گھر کو جلا دیں۔ پس سیدہ فاطمہؓ آئیں اور فرمایا اے خطاب کے بیٹے کیا تو میرا گھر جلانے آیا ہے؟ سیدنا عمرؓ نے کہا ہاں جب تک تم بیعت نہ کرو ۔
(سہم مسموم فی جواب نکاح سیدہ ام کلثومؓ صفحہ 67 تا 69)
عبارت بالا غلام حسین نجفی نے سہم مسموم میں ذکر کی۔ اور حوالہ دیتے ہوئے "اہلِ سنت کی معتبر کتاب عقد الفرید" لکھا عقد الفرید کے مصنف کا نام احمد بن محمد بن عبد ربہ ہے۔ پہلے اس کا مقام علمی پیش خدمت ہے۔ پھر اس کے مسلک پر گفتگو ہوگی۔
ترجمة المؤلف
ولَا يُعْرَفُ شَيْ مِنْ تَارِيخ ابن عبدربه فِيمَا عَدَا أَنَّهُ كَانَ فِي شَبَابِهِ لَا هِيَّا وَلَوْعًا بالغناء لَم يَذكرْ لَنَا المُؤرخُونَ شَيْئًا مِنْ سِيرَةِ ابْنِ عَبد ربه تدلَ عَلَى خُلْقِهِ وَصِفَتِهِ إِلَّا مَا قَدمْنَا مِنْ حَدِيثِ لَهومٍ وَصَبْوَتِهِ فِي شَبَابِهِ إِنَّ ابْنَ عَبْدَ ربِهِ لَمْ يَنْظُرْ فِيمَا جَمَعَ لكِتَابِهِ مِنَ الفنون نظر المختص بِحَيْثُ يَخْتَارُ لِكُلِّ فَرْعٍ مِنْ فَرُوعِ الْمَعْرِفَةِ بَعْدَ نَقْدٍ وَ تَمحِيصٍ وَ اخْتِبَارٍ فَلَا يَقُعُ مِنْهُ فِي بَابِ مِنْ أَبْوَابِ الْفَنِ إِلَّا مَا يَجْتَمِعُ عَلَيْهِ صَوَابُ الرَّأي عِنْدَ أَهْلِهِ لَا وَالكِنَّهُ نَظَرَ إِلَى جملة ما جمع نَظَرَ الْأَدِيبِ الَّذِي يَروى النَّادِرۃ لِحَلاوَة مَوْقِعِهَا لَا لِصِحةِ الرَّأْي فِيهَا وَ يَخْتَارُ الخَيْرَ یتَمَامِ مَعْنَاهُ لَا لِصَوابِ مَوْقِعهِ عِنْدَ أَهْلِ الرَّأْي وَالنَّظْرِ وَ الْإِخْتِصَاصِ انْظُر الَيْهِ فِيمَا رَوَى مِنْ حَدِيثِ الرَّسُولِﷺ مَثَلاً تَجِدُ الصَّحِيحَ وَالْمَرْدُود وَالضعیف وَالْمُتَوَاتِرَ وَالْمُوْضُوعَ وَأَقْوَالُهُ مَا نَقَلَ مِنْ حَوَادِثِ التَّارِيحَ وَأَخْبَارِ الْأُمَمِ وَالْمُلُوكِ تَجِدُ مِنْهُ مَا تُعْرَفْ وَمَا تُنْكَرُ وَمَا تُصَدِّقُ وَمَا تُكَذِّبُ وَمَا يَتَنَاقَضْ آخِرُهُ وَأَوَّلُهُ وَلَم يَكن ابن عبد ربه مِنَ الْغَفْلَةِ بِحَيْثُ يَجُوزُ عَلَيْهِ مَا لَا يَجولُ وَالٰكِنَّهُ جَامِعُ أَخْبَار وَ مُؤلِفٌ نَوَادِرَ جَمَعَ مَا جَمَعَ وَ أَلَف مَا الَفَ
(تعريف بالكتاب و مؤلفه بقلم محمد سعيد العريان على عقد الفريد (س)
ترجمہ
ابن عبدربہ کی تاریخ معلوم نہ ہو سکی۔ صرف اتنا پتہ چلا ہے کر وہ جوانی میں لہو و لعب کا رسیا اور گانے بجانے کا شائق تھا مؤرخین نے ابنِ عبدربہ کے بارے میں ہمارے لیے کوئی تاریخی مواد نہیں ذکر کیا ۔ جو اس کی اچھی عادات اور صفات پر دلالت کرتا ہو ۔ ہاں اس قدر موجود ہے۔ کہ جوانی میں اس کے بارے میں لہو و لعب کی بہت سی باتیں مذکور ہیں اور مزاح کے علاوہ لغویات کا رسیا تھا ابنِ عبد ربہ نے اپنی کتاب میں جو کچھ لکھا۔ اس پر ایک اچھی نظر اور مخصوص تحقیق کو روا نہیں رکھا، اسے جس طرح کی جو بات معلوم ہوئی۔ وہ اپنی کتاب میں لے آیا اس نے اپنی کتاب میں جو روایات واقعات جمع کیے ہیں وہ اصحابِ رائے کی متفقہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک ادیب کی طرح واقعہ کو رنگین بنانے کے لیے عجیب و غریب باتیں ہیں۔ اور اپنے مقصد کو مکمل کرنے کی خواہش میں سب کچھ درج کیا۔ یہ نہیں دیکھا کہ اس روایات و واقعہ کے بارے میں اہلِ رائے اور صاحبان تحقیق کیا کہتے ہیں۔ نمونہ کے طور پر رسول کریمﷺ سے جو احادیث اس نے لکھیں۔ ان کو لیجئے ۔ ان میں صحیح ، مردود، ضعیف، متواتر اور موضوع تک درج ہیں۔ اور تاریخی واقعات ، امتوں کے حالات اور بادشاہوں کی باتوں میں ایسی بہت سی روایات مذکور ہیں۔ جو معروف و منکر سچی اور جھوٹی سب خلط ملط ہیں۔ اور ایسی بھی کہ ان کے اول حصہ آخری کی تردید کرتا ہے۔ بہر حال ابن عبدربہ اس غفلت میں نہیں تھا کے اس پر وہ تنقید جائز ہو جو جائز نہیں۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے ۔ کہ وہ اِدھر اُدھر کی خبریں جمع کرنے والا اور نادر واقعات لکھنے والا ہے جو ملا لکھ دیا۔ اور جو سمجھا اُسے درج کر دیا ۔
نوٹ
عبارات بالا میں ابنِ عبدربہ کو ایک مجہول شخص قرار دیا گیا۔ اور اگر اس کے سوانح حیات کچھ ملتے بھی ہیں۔ تو وہ بالکل اس پر اعتبار نہ کرنے والے ہیں۔ واقعات و روایات میں سخت غیر محتاط شخص ہے ۔ حتیٰ کہ احادیث کے بارے میں حد درجہ غفلت برتنے والا ہے۔ ایسے شخص کی کتاب کو نجفی "اہلِ سنت کی معتبر کتاب" کہہ رہا ہے ۔ ذرا انصاف کیجئے۔ کس قدر بے وقوفی اور جہالت ہے۔ عبارات مذکورہ میں تو اس کی عادات و اطوار اور علمی مقام پر ہم نے روشنی ڈالی ۔ اب اسکے مسلک و مشرب کی طرف آئیے کہ یہ لہو و لعب کارسیا اور ادھر اُدھر کی بے تکی ہانکنے والا "اہلِ سنت" تھا ؟
صاحب عقد الفرید کا تشیع
الذريعہ
الْعَقْد لابي عمر احمد بن محمد المعروف با بن عبدربه القرطبى المتوفى سنة ثمان و عشرين وثلاثمائة أوله الحمد الله الاول بلا ابتداء (كان في خَزَانَةِ الْحَاجَ معتمد الدولة فرهاد مير زاحكى في كشف الظنون) عَنْ ابْنِ خُلْكَانَ أَنَّهُ مِنَ الْمُمْتَعَةِ حَوَى مِنْ كُلِّ شَيْ وَحَكَى ابن كَثِير أَيْضًا أَنَّهُ يَدُلُّ كَلَامَهُ عَلَى تَشَيَّعِ مِنْه
( الذريعه الى تصانيف الشيعه جلد 15 صفحہ 286)
ترجمہ
ابو عمر احمد بن محمد المعروف ابن عبدربہ متوفی 328ھ کی تصنیف ، عقد الفرید ہے۔ جو الحمد الله الاول بلا ابتداء، کے الفاظ سے شروع ہوتی ہے۔ کتاب مذکور الحاج معتمد الدولہ فرہاد مرزا کے خزانہ کتب خانہ میں تھی ابن خلکان سے کشف الظنون میں روایت ہے کہ یہ کتاب معمولی سے معمولی نفع کی باتوں پر مشتمل ہے۔ اور ابنِ کثیر نے یہ بھی کہا کہ کہ یہ شخص اہلِ تشیع میں سے تھا۔
لمحہ فكريه
صاحب الذریعہ نے اس بات پر اعتماد کرتے ہوئے کہ عقد الفرید کا مصنف ابنِ عبدربہ شیعہ ہے ۔ تب جا کر اس کا تذکرہ الذریعہ میں کیا ہے ۔ اور پھر ابنِ کثیر کی تحقیق کا حوالہ بھی دیا کہ یہ واقعی شیعہ ہے ۔ ایک ایسا شخص جس کی سوانح ناپید ہوں ۔ اور گانے بجانے اور گپیں ہانکنے کے علاوہ اس کی زندگی کی کوئی اچھی صفت صفحات تاریخ پر ناپید ہوں اور غلط سلط باتیں محض اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے ذکر کرنے سے نہ کتراتا ہو نجفی اسے شیعوں سے نکال کر سنی اور گپیوں سے نکال کر "معتبر عالم" لکھ کر اپنے یار کی تعریف کر رہا ہے ۔ ایسے مصنف کی تحریر کب حجت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے ؟
فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ