Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ کی دلیل: ایک خطبے میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خاتم الاوصیاء اور وصی الانبیاء فرمایا۔ ( جامع المسانید والسنن الھادی لأقوم سنن)

  جعفر صادق

محدث مؤرخ مفسر امام ابنِ کثیر رحمۃ اللہ دمشقی جو کہ اہلِ تشیع کے کٹر مخالف سمجھے جاتے ہیں انہوں نے اپنی کتاب جامع المسانید والسنن "الھادی لأقوم سنن" میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا وہ خطبہ نقل کیا جو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے ابوطفیل نے بیان کیا اور خطبے میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خاتم الاوصیاء اور وصی الانبیاء کے الفاظ سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگوں تم میں سے وہ شخص جدا ہو گیا جس کے درجہ کو نا پہلوں میں سے کوئی پہنچ سکا، نا آنے والوں میں سے کوئی پہنچ سکے گا اور وصی موسیٰ یوشع بن نون  کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ بھی اسی رات شہید ہوئے تھے جس رات حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔
کیا حضرت حسن رضی اللہ عنہ معاذاللہ ابن سباء سے متاثر تھے ؟ جیسا کہ آپ کے علماء دیگر اصحاب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ کچھ اصحاب ابن سباء کے پیرو کار بن گئے تھے ۔
واضح رہے کہ امام ابنِ کثیر رحمۃ اللہ ایک مؤرخ بھی تھے اور آپ نے تاریخ پر البدایہ والنہایہ لکھی جسے تاریخ ابنِ کثیر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ اور اوپر جس کتاب سے دلیل پیش کی گئی ہے اس کے بارے انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ یہ کتاب سنت کو قائم کرنے کیلئے ہدایت کا سرچشمہ ہے جیسا کہ کتاب کے نام میں ہی یہ بات مذکور ہے ۔ ابن کثیر نے خطبہ نقل کر کے کہیں بھی تردید نہیں کی۔ محقق نے اس خطبہ کی اسناد کے بارے حسان یعنی اچھی اسناد کا حکم لگایا ہے ۔
الجواب:
 شیعہ کی دلیل: ایک خطبے میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خاتم الاوصیاء اور وصی الانبیاء فرمایا۔ (جامع المسانید والسنن الھادی لأقوم سنن) 
 ابو طفیل پہلی صدی کا جلیل القدر تابعی ہے جس کی وفات 100 ھجری یا زیادہ سے زیادہ 110 ھجری بیان ہوئی ہے۔ دوسری طرف امام ابنِ کثیر رحمۃ اللہ ساتویں آٹھویں صدی کے عظیم مؤرخ ہیں۔ اس روایت کی مکمل سند بھیج دیں تاکہ اس پر تحقیق کی جا سکے۔ مسلمہ اصولوں کے مطابق جو فریق دلیل پیش کرتا ہے، اسی کا ذمہ ہے کہ اپنی دلیل کو مکمل پیش کرے اور روایت کو صحیح ثابت کرنا بھی اسی کا کام ہے۔ آپ خلاف اصول مسلسل اہلِ سنت کے اسکینز سے نامکمل دلائل پیش کرتے آ رہے ہیں نہ آپ کو اسنادی حیثیت کا پتہ ہے اور نہ حاشیہ پر غور کرتے ہیں۔
میں نے آپ کے دلائل کا سرسری طور پر رد کیا ہے، ہر روایات کے تمام راوی چیک نہیں کئے۔ آپ جس روایت پر اعتماد رکھتے ہیں کہ وہ آپ کے حق میں مضبوط دلیل ہے تو اس کی نشاندھی کر دیں، اور آپ نے یہ کہاں سے پڑھ لیا ہے کہ تاریخ ابنِ کثیر اہل سنت کے نزدیک مکمل صحیح کتاب ہے۔
پہلے اس کتاب کی توثیق پیش کریں، امام ابن کثیر یا کسی ایک اہل سنت عالم کا قول لائیں کہ یہ کتاب اہل سنت پر حجت ہے۔ اس کے علاوہ مذکورہ روایت کی مکمل سند بھی پیش کر دیں۔ اس روایت پر مزید گفتگو اس کے بعد کروں گا۔