Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شہادت حسینؓ- اسباب ونتائج

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

  واقعہ کربلا 

♦️ *شہادت حسینؓ- اسباب ونتائج* ♦️

حضرت حسنؓ اور حضرت معاویہؓ کی صلح کے بعد امیر معاویہؓ مسلمانوں کے سربراہ بن گئے ، اور تقریباً بیس سال تک خليفة المسلمین کے منصب پر فائز رہے، آپ کا دور خلافت چالیس ہجری (40ھ) سے لے کر ساٹھ ہجری (60ھ) تک رہا، اس پورے دور میں امن وامان کی حالت تشفی بخش رہی، اور فتوحات اسلامیہ کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا گیا، کہا جاسکتا ہے کہ خلافت راشدہ کے  بعد اسلامی تاریخ کا یہ سنہرا دورتھا۔

*یزید کی ولی عہدی*

شیعہ نکتہ نظر کے مطابق حضرت معاویہؓ نے اپنے بعد حضرت حسنؓ کو ولی عہد متعین کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت معاویہؓ اور حضرت حسنؓ کے درمیان جن شرطوں صلح ہوئی تھی ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ حضرت معاویہؓ کے بعد حضرت حسنؓ خليفتہ المسلمین ہوں گے لیکن اس دور میں حضرت حسنؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آ گیا۔ 


تنبیہ

بعض لوگوں نے مقام شرائط میں ایک شرط یہ بھی ذکر کی ہے کہ حضرت حسنؓ نے حضرت امیر معاویہؓ پر یہ شرط عائد کی تھی کہ "حضرت معاویہؓ کے بعد حضرت حسنؓ خلیفہ ہوں گے" اس بنا پر حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت حسنؓ کو زہر دلوا دیا تھا تاکہ وہ امر خلافت پر بعد میں ہمیشہ مسلط رہیں۔

اس شرط کے متعلق درج ذیل چیزیں قابل غور ہیں۔ ان پر توجہ کرلینے سے اس شرط کا سقم واضح ہوجائیگا۔

(1) قدیم مؤرخین طبری وغیرہ اور خصوصاً شیعہ کے قدیم تر مؤرخین دینوری، مسعودی اور یعقوبی وغیرہ نے جہاں شرائط صلح ذکر کی ہیں ہماری معلومات کی حد تک ان میں مذکورہ بالا شرط کا ذکر نہیں پایا جاتا۔ حالانکہ حضرت معاویہؓ پر طعن قائم کرنے کے لیے یہ عمدہ موقع تھا۔

نیز معلوم ہوتا ہے کہ ان مؤرخین کے دور تک شرائط میں یہ چیز شامل نہ تھی۔ ایک مدت دراز کے بعد لوگوں نے اس شرط کا اضافہ کرلیا اور زہر خورانی کے طعن کے لیے اس کو زینہ بنایا۔

یہ چیز نقلی طور پر پیش کی گئی ہے۔

(2) اب عقلی طور پر توجہ کریں کہ جب حضرت امیر معاویہؓ نے استخلاف یزید کا مسئلہ اس دور کے اکابر کے سامنے پیش کیا تو بعض اکابر نے اس چیز سے اختلاف کرتے ہوئے کلام کیا (جیسا کہ تواریخ میں منقول ہے) تو اس موقع پر ان لوگوں نے یہ چیز نہیں ذکر کی کہ حضرت حسنؓ کی زندگی میں آپؓ کی خلافت تھی اب ان کی وفات کے بعد آپؓ کو خلافت کا حق نہیں اور صلح کی شرائط میں یہ مسئلہ داخل تھا۔

فلہذا اس بات کو اختلاف کرنے والے بزرگوں کا پیش نہ کرنا بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ صلح کی شرائط میں یہ شرط داخل نہ تھی ورنہ وہ حضرات اس موقع پر اس شرط کو ضرور پیش کرتے۔

حوالہ: سیرت حضرت امیر معاویہؓ (مولانا نافع رحمہ اللہ)۔


حضرت امیر معاویہؓ نے منصب خلافت سنبھالا تو یہیں  سے معاملہ خلافت سے ملوکیت میں تبدیل ہوگیا، اور اسلامی تاریخ میں ملوکیت کا سلسلہ شروع ہوگیا، ان کے عہد میں نبوی منہاج پر خلافت نہیں تھی لیکن امت مسلمہ طویل خانہ جنگیوں اور آپسی کشت وخوں کے بعد ایک پرچم تلے جمع ہوچکی تھی، تقریباً پانچ سال کاعرصہ خانہ جنگی کی نذر ہو چکا تھا،کبارصحابہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے، صغار صحابہ میں بھی کچھ ہی حضرات موجود تھے، جن میں نمایاں ہستیاں عبداللہ ابن زبیر، عبداللہ ابن عمر، عبداللہ ابن عباس اور عبدالرحمن ابن ابی بکر (رضی اللہ عنہم) کی تھی۔ 

عہد نبوی کو گزرے پچاس سال کا عرصہ بیت چکا تھا، اتنی مدت کے بعد وہ جوش وجذبہ ایمانی بھی اس درجہ کا نہیں رہا جو خلافت راشدہ کے ابتدائی پچیس  سالوں تک تھا، خانہ جنگیوں کی وجہ سے لوگوں کے ذہن بدل چکے تھے مملکت کی وسعت کے ساتھ ہی عجمی عناصر مزاج میں داخل ہو چکے تھے، اور مجموعی اعتبار سے امت مسلمہ کے حالات شورائی نظام کے متمل نہیں تھے، بلکہ مسلم مزاج میں فتوحات کے پہلو بہ پہلو دنیا کی محبت بھی دبے پاوں چلی آرہی تھی، چنانچ عظیم صحابی رسول حضرت مغیرہؓ بن ابی شعبہ نے حضرت معاویہ کویہ مشورہ دیا کہ وہ اپنا جاشیں نامزد کر دیں، اور اس کی ولی عہدی کی بیعت بھی لے لیں، تا کہ آپ کے بعد مسلمان دوبارہ خلیفہ کے انتخاب میں خانہ جنگی کا شکار نہ ہوں، اور اس کے لیے انھوں نے یزید کا نام بھی پیش کردیا۔ کیونکہ اہل شام اور بنوامیہ کا مزاج اور ان کی طبیعت کسی غیر کوقبول کرنے کو تیارنہ تھی بلکہ ایسی صورت میں خانہ جنگی کے قوی امکانات پیدا ہوجاتے۔

*امیر معاویہؓ کے اس موقف کو علامہ ابن خلدون نے اس طرح بیان کیا ہے:*

جس بات نے امیر معاویہؓ کو کسی دوسرے کے بجائے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنانے پر آمادہ کیا وہ صرف اس مصلحت کی رعایت تھی کہ اس وقت بنو امیہ کے اہل حل و عقد کے نزدیک یزید پر اتفاق کرنے سے مخالفین کا اتفاق واجماع حاصل ہوجائے گا، اس وقت بنوامیہ اپنے اصحاب اقدارکے علاوہ کسی اور کو قبول کرنے پر راضی نہ تھے، اور بنوامیہ ہی قریش اور پوری ملت کے سرگروہ تھے انہیں  ہی تسلط و اقتدار حاصل تھا، اسی وجہ سے معاویہؓ نے دوسروں پر مزید کوترجیح دی، جس کے متعلق یہ گمان تھا کہ وہ ولایت و خلافت کے لیے زیادہ موزوں اور بہتر ہے، اور انھوں نے افضل و بہتر سے ہٹ کر مفضول وغیر مناسب کو ولی عہد بنادیا، وہ بھی اس خیال سے کہ اتحاد باقی رہے، اور لوگوں کے افکار منتشر نہ ہوں، کیونکہ اتحاد واتفاق شارع کے نزدیک بہت اہم چیز ہے۔

(مقدمہ ابن خلدون:175-176)

حضرت حسنؓ کی زندگی میں حضرت معاویہؓ نے حضرت مغیرہؓ کی یہ رائے ماننے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ حضرت حسنؓ سے ولی عہدی کا وعدہ کر چکے تھے، لیکن حضرت حسنؓ کی شہادت کے بعد حضرت معاویہؓ کو اس مشورہ پر انشراح ہوگیا۔ حضرت معاویہؓ کا یہ ایک اجتہادی فیصلہ تھا نیز پدرانہ شفقت ومحبت کی بنا پر ایسافیصلہ غیرطبعی اور غیر فطری بھی نہ تھا، اس کے علاوہ حضرت معاویہؓ کے سامنے یزید کی وہ اخلاقی اور معاشرتی خرابیاں اتنی عیاں نہ تھیں جن سے دوسرے افراد واقف تھے، بلکہ چاپلوسں اور مفاد پرست ان کے سامنے دوسرا  ہی رخ پیش کرتے ، بہرحال ،49ھ میں انھوں نے یزیدکے عمومی بیعت کی دعوت دی لیکن اس دعوت کو عام طور پر مسلمانوں نے ناپسند کر دیا، اورسخت اختلاف کا اظہار کیا کیونکہ یہ اسلامی مزاج کے عین مخالف فیصلہ تھا لوگوں کو یزید کے مشاغل اور اس کی سیر وتفریح کا خوب علم تھا، حالات کی مخالفت کو خود یزید نے بھی سنجیدگی سے لیا، اور اس وقت بیعت کا یہ معاملہ رک گیا۔

تفصیلات دیکھیں:

(البدایہ و النہایہ: 180/8) 

یزید کی ولی عہدی کی خبر جب اہل کوفہ کو پہنچی تو پولیس خوشامد پسند کوفی وفد کی شکل میں حضرت معاویہؓ کے پاس پہنچے اور ان سے درخواست کی کہ آپ کے بیٹے جیسا کوئی قابل اور ماہر سیاست نظر نہیں آتا، ہم سب یزید کی ولی عہدی کے لیے بیعت کرنے کو تیار ہیں، اور پھر شام و عراق میں یزید کی بیعت کا خوب پروپیگنڈہ کیا گیا، اور یہ شہرت کردی گئی کہ شام و عراق اور کوفه و بصرہ سب یزید کی بیعت متفق ہیں۔

56ھ کا آغاز ہوا تو حضرت معاویہؓ نے یزید کے لیے بیعت لینے کا سلسلہ شروع کردیا، اور تمام علاقوں میں اس کی اطلاع بھیج دی اور پھر مسلمانوں کی اکثریت نے یہ بیعت قبول کرلی، جن میں متعدد صحابہ کرام بھی شامل تھے۔

*حضرت حسینؓ کا موقف*

دوسری جانب ایک جماعت ایسی بھی تھی جس نے محسوس کیا کہ  یہ عمل اسلام کے مزاج کے بالکل خلاف ہے، اگر ابھی اس پر روک نہ لگائی گئی تو آگے چل کر مسلمانوں میں ولی عہدی کی یہ رسم چل پڑے گی اور اس کے ذریعہ قیصر وکسری کی روایتیں زندہ ہو جائیں گی، اس کے علاوہ یزید کی اخلاقی برائیاں اور اس کا فسق و فجور بھی کھل کر سامنے آچکا تھا اور اس کی جو برائیاں اعلانیہ نہیں تھیں وہ امیر معاویہؓ کے انتقال اور اس کے حاکم بننے کے بعد طشت از بام ہوگئیں، اس لیے اسی وقت اس کی مخالفت ضروری تھی ۔

ملاحظہ ہو:

مقدمہ ابن خلدون: 18

مخالفت کرنے والوں میں نمایاں نام عبداللہ ابن زبیر، عبداللہ ابن عمر، عبداللہ ابن عباس، عبدالرحمن ابن ابی بکر اور سبط رسول حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہم) کا تھا، جن کی عظمت و مرتبت مسلم و قابل تقلید تھی۔

حکومتِ یزید کے کارندوں نے حضرت حسینؓ کے انکار بیعت کو وہ اہمیت دی جو باقی اصحاب کونہیں دی، وہ جانتے تھے کہ حضرت حسینؓ کی لوگوں کے دلوں میں بڑی اہمیت و عظمت ہے، آپ نواسہ رسولﷺ اور جلیل القدر ہستی حضرت علیؓ کی اولاد ہیں، اس لیے حکومت کے ارکان کی پوری توجہ اس بات پر تھی کہ آپ بیعت کرلیں لیکن ان کے اصرار اور کوششوں کے باوجود حضرت حسینؓ نے جھکنا یا نرم پڑنا قبول نہ کیا، اور اپنے موقف پر پوری بصیرت اور عزم و ارادہ کے ساتھ قائم رہے۔ البتہ جب حکومت کادباؤ بڑھنے لگا تو آپ مدینہ چھوڑ کر کہ مکرمہ  میں پناہ گزیں ہو گئے۔ 

*اہل کوفہ کے دعوت نامے*

اہل عراق اور اہل شام کے درمیان حضرت علیؓ کے دور سے اختلافات قائم تھے،اہل عراق حضرت علیؓ کے ہمنوا تھے اور کوفہ ان کا دارالخلافہ تھا، اہل شام حضرت معاویہؓ کے حامی تھے اور دمشق ان کا پایہ تخت تھا، اگرچہ حضرت حسنؓ نے آپسی اختلافات کو ختم کر کے  صلح اختیار کر لی تھی، لیکن اہل عراق اور اہل شام اپنے دلوں میں آپسی نفرت کی چنگاری دبائے ہوئے تھے، جو گاہے گاہے اپنا اثر ظاہر کرتی، چنانچہ جب اہل کوفہ کوخبر پہنچی کہ

حضرت حسینؓ نے یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کر دیا ہے، تو انھوں نے حضرت حسینؓ کو خطوط روانہ کیے جن میں اس بات کی وضاحت کی کہ وہ خود بھی یزید کو ناپسند کرتے ہیں، بلکہ وہ تو حضرت معاویہؓ کے بھی خلاف ہیں، اور ہمیشہ وہ حضرت علیؓ کےحامی رہے ہیں، اور آج بھی وہ حضرت علیؓ کی اولاد کو ہی خلیفہ بنانا چاہتے ہیں، انھوں نے صراحت کی کہ ان کے گردنوں میں یزید کی بیعت نہیں ہے بلکہ وہ حضرت حسینؓ کی ہی بیعت کرنا چاہتے ہیں اور انھی کو اپنا خلیفہ تسلیم کرتے ہیں، اور بڑی تاکید سے حضرت حسین کو کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہاں اس سے اسلامی نہج پر خلافت کے قیام کو ممکن بنایا جا سکے۔

*اہل کوفہ نے جو خطوط لکھے ان کے نمونے شیعوں کی ہی کتاب سے ملاحظہ ہوں:*

بسم الله الرحمن الرحيم 

حسین بن علی کے نام، جو اپنے اور اپنے والد امیر المومنین کے شیعوں کی طرف سے امیر المومنین ہیں، سلام الله علیک، امابعد! 

۔لوگ آپ کے منتظر ہیں، آپ کے سوا ان کی کوئی رائے نہیں، اے رسول اللہﷺ کے بیٹے جلدی کیجیے جلدی۔ والسلام

(کشف الغمہ:32/2 _ الارشاد للمفید: 203)

ایک دوسرا خط ملاحظہ ہو:

"اما بعد! باغات سرسبز ہو چکے ہیں ، پھل تیار ہو چکے ہیں، بس  آپ مضبوط لشکر کی طرف آجایئے۔والسلام"

(الارشاد للمفید: 205، اعلام الوریٰ للطبرسی: 223) 

حضرت حسینؓ کورمضان المبارک کی 20/تاریخ کو پہلا خط ملا لیکن آپ نے اس کو کھولا تک نہیں، اور اسے کوئی اہمیت نہیں دی:

*ثم لم يمس الحسين يومه ذلك*

(الاخبار الطوال از علامہ دینوری: 231)

حضرت حسینؓ کی خدمت میں اہل کوفہ کے جو خطوط پہنچے ان کی تعداد کم و بیش پانچ سو کی تھی، ان خطوط کے علاوہ کئی وفود بھی حضرت حسینؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے قسمیں کھا کھا کر اپنی وفاداری کا یقین دلایا، ان خطوط اور وفود سے حضرت حسینؓ ضرور متاثر ہوئے لیکن ان کوفیوں کے سابقه کارناموں کے پیش نظر حالات کی تحقیق ضروری تھی، چنانچہ اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کو حالات کا جائزہ لینے کےلئے کوفہ روانہ کیا۔

*مسلم بن عقیل کوفہ میں*

حضرت حسینؓ کے مشورہ پر مسلم بن عقیلؓ کوفہ پہنچے، کوفیوں نے آپ کا بہت ہی پر تپاک خیر مقدم کیا، آپ وہاں ہانی بن عروہ کے گھر پر ٹھہرے، لوگ آتے اور حضرت حسینؓ کے لیے بیعت کرتے، یہ سلسلہ چلتا رہا اور چند ہی دنوں میں اٹھارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کرلی، انھوں نے طلاق و عتاق کی قسمیں بھی کھائیں (یعنی اگر وہ اپنی بات سے پھرے تو ان کی بیوی کو طلاق اور ان کا غلام آزاد) یہ سلسلہ چلتا رہا اور تقریبا چالیس ہزار تک پہنچ گیا، حضرت مسلم ؒ کو یقین ہو گیا کہ اہل کوفہ پوری طرح حضرت

حسینؓ کے ساتھ ہیں، بس انھوں نے حضرت حسینؓ کو پیغام بھیجا کہ آپ تشریف لائیں۔ یہاں حالات اطمینان بخش ہیں، شیعہ مورخ کے بقول حضرت مسلم نے لکھا:

آپ کے ساتھ ایک لاکھ تلواریں ہیں، تاخیر نہ کیجیے

(الارشاد للمفید: 220)۔

یہ پیغام ملتے ہی حضرت حسینؓ نے کوفہ روانگی کی تیاریاں شروع کردیں۔

کوفہ میں اس وقت حضرت نعمان بن بشیر گورنر تھے انہیں جب علم ہوا کہ حضرت مسلم بن عقیل یزید کے خلاف بیعت لے رہے ہیں تو انھوں نے اس معاملہ کو کوئی اہمیت نہ دی اور پوری چشم پوشی کا اظہار کیا۔ کوفہ ہی کے کچھ یزیدی حاشیہ برداروں نے یزید تک یہ خبر پہنچادی، یزید نے فورا کارروائی کی اور حضرت نعمان بن بشیر کومعزول کر کے عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا گورنر متعین کر دیا۔

ابن زیاد نے کوفہ پہنچتے ہی چاروں طرف اپنے جاسوس روانہ کر دیے، جب اسے معلوم ہوا کہ حضرت مسلم بن عقیلؓ نے ہانی بن عروہ کے گھر کواپنا مرکز بنارکھا ہے تو اس نے ہانی بن عروہ کوگرفتارکر لیا، مسلم بن عقیل کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے چار ہزار کوفیوں کا لشکر تیار کیا اور ابن زیاد کے محل کا محاصرہ کر لیا،کوفہ کے سردار ابن زیاد کے حامی تھے۔ انھوں نے فوجیوں کو مال ودولت کی رشوتیں دیں، انہیں ڈرایا دھمکایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورتیں آتیں اور اپنے بیٹوں کو لے جاتیں، مرد آتے اور اپنے بھائیوں اور دوستوں کو لے جاتے، اور قبائل کے سربراہ اور شورش میں حصہ لینے سے اپنے لوگوں کو روکتے، آخر پوری فوج تتر بتر ہو گئی، اور ابن عقیل کے ساتھ تین سو آدمی رہ گئے، پھر اور گئے اور صرف تیس رہ گئے۔ مغرب کی نماز تک صرف دس بچے اور پھر وہ سب بھی چلے گئے اور حضرت مسلم تنہا رہ گئے، پورے کوفہ میں ایک شخص بھی ان کا ساتھ دینے والا نہ بچا۔

مسلم بن عقیل کوفہ میں بے یارومددگار ہو گئے ۔ کوئی راستہ تک بتانے والانہ تھا، وہ کوفہ کی گلیوں میں سراسیمہ پھر رہے تھے کہ ایک گھر کے باہر ایک عورت کھڑی نظر آئی، مسلم بن عقیل نے اس سے پناہ مانگی عورت حالات سے آگاہ نہ تھی، مسلم بن عقیل کی پریشان حالی پر اسے رحم آگیا، اپنے گھر میں پناہ دی، کھانے کو روٹی دی، اسی دوران اس کا لڑکا گھر پہنچا، اسے حالات کا بخوبی علم تھا، جب معلوم ہوا کہ یہی ابن عقیل ہیں تو اس نے مخبری کر دی، اور یکا یک ابن زیاد کی فوج کے ستر سپاہیوں نے پورے گھر کا محاصرہ کرلیا، مسلم کو اس کا علم ہوا تو تلوار سونت کر ان کے مقابلہ کو نکلے، ستر آدمیوں کا تنہا مقابلہ آسان نہ تھا، زخموں سے چور ہو کر واپس گھر میں داخل ہوئے، فوجیوں نے گھر کی چھت پر چڑھ کر پتھر برسانے شروع کیے اور پھر گھر میں آگ لگا دی، ان کا دم گھٹنے لگا، آخر اس گھر کے مالک عبد الرحمن نے آپ کو پناہ دی، آپ نے خود کو اس کے سپرد کیا

مگر اس نے آپ کو دشمنوں کے حوالہ کرنا چاہا، آپ پھر بھی مقابلہ کی کوشش کرتے رہے ،محمد ابن اشعث نے پکار کر کہا کہ میں تمھیں امن دیتا ہوں، اپنی جان ہلاک نہ کرو۔ یہ نہ تمھیں قتل کریں گے اور نہ تھیں کوئی تکلیف پہنچائیں گے۔ چنانچہ ابن عقیل کو گرفتارکرلیا گیا تلوار چھین لی گئی، اور ایک خچر پر بٹھا کر ابن زیاد کے سامنے پیش کیا۔ اس وقت مسلم بن عقیل کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں یقین تھا کہ اب وہ شہید کر دیے جائیں گے۔ انہوں نے ابن اشعث سے کہا: میں اپنی جان کے لیے نہیں روتا ہوں، بلکہ میں حسینؓ اور آل حسینؓ کے لیے رو رہا ہوں جو عنقریب میری تحریر پر یہاں کوفہ آنے والے ہیں، اور میں جانتا ہوں کہ ان کے ساتھ یہاں کیسا برتاو کیا جائے گا، تم نے مجھے امان دی تھی، اور میں جانتا ہوں کہ تمہارے اس امان کو قائم رکھنا تمھارے بس میں بھی نہیں ہے، اور یہ لوگ مجھے ضرورقتل کردیں گے، تو اب کم از کم میری ایک بات مان لو کسی کو حسینؓ کے پاس بھیج کر میری حالت کی اطلاع دیدو، اور کہ دو کہ واپس لوٹ جائیں، اہل کوفہ کے خطوط سے دھوکہ نہ کھائیں،یہ وہی لوگ ہیں جن سے تمہارے والد بھی پریشان تھے۔

مسلم بن عقیل کو ابن زیاد کے محل میں پیش کیا گیا، ابن زیاد نے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا انھیں محل کی چوٹی پر چڑھایا گیا، وہ تکبیر و تہلیل اور تسبیح و استغفار پڑھتے رہے۔ اتنے میں ایک شخص جس کا نام بکیر بن عمران تھا اس نے ان کی گردن مار دی، اور ان کا سر قصر سے نیچے پھینک دیا، اور پھر جسم بھی نیچے گرادیا۔

(البدایہ و النہایہ:156/7)

حضرت مسلم ابن عقیل 9/ذی الحجہ کو شہید کردیے گئے، اور ادھر 8/ ذی الحجہ کو حضرت حسین مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے۔

نوٹ

یہ اہل کوفہ وہی لوگ ہیں جن کے ذہنوں میں ابن سبا کے بوئے ہوئے بیج پروان چڑھ رہے تھے، جو اسی کے ساختہ پرداختہ نے خود کو شیعان علی کہنے والے انہی کوفیوں نے حضرت علیؓ کے خلاف بغاوت کی ،ان سے جنگ کی، انھیں شہید کیا، حضرت حسنؓ کاخیمہ لوٹا، ان کو ذلیل کیا، اور اب حضرت حسنؓ کے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ بلا کر ان کے ساتھ غداری کی ، انھیں دھوکہ دیا، اور چار و ناچار انہیں موت تک پہنچادیا۔ (اللہ کی لعنتیں ہوں ان پربےشمار)۔ 

*حضرت حسین کی روانگی کا عزم*

کوفہ کوئی معمولی شہر نہیں تھا، یہ انتہائی حساس جگہ پر واقع تھا، اسلامی مملکت کی سب سے بڑی چھاؤنی تھی، جو حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں قائم کی گئی تھی، یہیں سے ایران وشام کی طرف جانے والی شاہراہ کو بھی کنٹرول کیا جاتا تھا، اس لیے حضرت حسینؓ یہ رائے رکھتے تھے کہ اگر کوفہ کی عظیم اکثریت ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے جیسا کہ ان کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے تو اس کے ذریعہ اسلامی نظام کو درست کیا جاسکتا ہے اور اس میں جو تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کا ازالہ کیا جاسکتا ہے، اور دین محمدی کو ان بدعات سے روکنے کے لیے یہ فیصلہ ضروری تھا، اسکے علاوہ ان کے معتمدخاص حضرت مسلم بن عقیلؓ کی طرف سے اطمینان بخش رپورٹیں پہنچ چکی تھیں، چالیس ہزار کوفیوں نے بیعت بھی کر لی تھی، اس لیے ظاہری طور پرکوفہ نہ جانے کی کوئی معقول وجہ نہ تھی۔

چنانچہ حضرت مسلمؓ کی طرف سے جواب ملنے کے بعد حضرت حسینؓ نے بلاتامل روانگی کا پختہ ارادہ کر لیا، اور اپنے اہل وعیال کے ہمراہ کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ متعدد صحابہؓ نے حضرت حسینؓ کو روکنا بھی چاہا، کیونکہ کسی کو بھی اہل کوفہ کے وعدوں اور  ان کی بیعتوں پر اعتبار نہ تھا، جن صحابہؓ نے آپ کو روکنے کی کوشش کی ان کے نام یہ ہیں: عبداللہ ابن عمر، عبداللہ ابن عباس، عبداللہ ابن عمرو بن العاص، ابوسعید خدری، عبداللہ ابن زبیر، اور آپ کے برادر محمد بن علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہم)

لیکن حضرت حسینؓ سفر کا پختہ عزم کر چکے تھے اور انہیں یقین تھا اہل کوفہ ان کے ساتھ پوری وفاداری برتیں گے، اور پھر حضرت مسلم بن عقیلؓ نے بھی آنے کی دعوت دی تھی۔ اس کے علاوہ آپ کے سامنے جو بلند اور عظیم مقاصد تھے اس کے لیے خطرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے، راستہ میں اموی دور کے مشہور شاعر فرزدق سے ملاقات ہوئی اس نے کہا:

لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اورتلواریں بنوامیہ کےساتھ‘‘

(طبری: 218/1) 

حضرت حسینؓ مسلم بن عقیلؓ کے انجام سے بے خبر کوفہ کی جانب روانہ تھے، آپ 8 ذی الحجہ کو مکہ سے روانہ ہوئے، اور9/ ذی الحجہ کو ابن عقیلؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آچکا تھا۔ راستہ میں محمد بن اشعث کے قاصد نے آپ کو مسلم بن عقیلؓ کی شہادت کی پوری اطلاع دی، اور واپسی کا مشورہ دیا، دوسرے ذرائع سے بھی آپ کو حالات معلوم ہونے لگے۔ اس واقعہ سے آپ کو سخت صدمہ پہنچا اور آپ بہت دلگیر ہوئے، اور فرمایا:”ہمارے شیعہ نے ہمیں

ذلیل کیا“

(خلاصۃ المصائب: 49)

پھر حضرت مسلمؓ کے گھر والوں سے بھی مشورہ کیا، آخر رائے یہی ٹھہری کہ کوفہ پہنچ کر حکمت عملی کی  جائے، اورممکن ہے کہ اہل کوفہ حضرت حسینؓ کو بنفس نفیس سامنے دیکھیں تو جسم و جان سے آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوجائیں، اس کے علاوہ مسلم بن عقیلؓ کا قصاص بھی لینا ضروری تھا۔

*کربلا میں*

حضرت حسین نے اپنا سفر جاری رکھا اور کربلا میں پہنچ کر قیام کیا، کربلا میں کوفہ کے چند لوگ آپ کے پاس آئے، ان سے آپ نے دریافت کیا کہ کوفہ کے کیا حالات ہیں؟ اس کے جواب میں مجمع بن عبدالله العامری نے کہا:

"کوفہ کے اشراف اور عہدہ دار آپ کے خلاف جتھہ بنائے ہوئے ہیں، کیونکہ ان کو بڑی بڑی رشوتیں مل چکی ہیں، اور ان کے مطالبات پورے کیے گئے ہیں، وہ سب کے سب آپ کے خلاف برسر پیکار ہیں، رہے عوام تو ان کے دل آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلواریں آپ کے خلاف ہیں۔

(البدایہ و النہایہ: 173/8)"

اب ابن زیاد کے حکم سے عمر بن سعد بن ابی وقاص چار ہزار کا کوفی لشکر لے کر آپ کے پاس پہنچے، انھوں نے آپ کو ابن زیاد کے پاس چلنے کا حکم دیا، اس کے جواب میں حضرت حسینؓ نے ان کے سامنے تین باتیں رکھیں، فرمایا:

"تم مجھے چھوڑ دو، جیسے آیا ہوں واپس چلا جاؤں، اگراس سے انکار کرتے ہوتو مجھے ترکوں کی طرف جانے دو کہ میں وہاں جہاد میں شریک ہوجائیں، اور اگر اس سے بھی انکار ہے تو مجھے یزید کے پاس لے چلو اور میں اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیدوں، اور پھر وہی جو فیصلہ کرنا چاہے کرے۔

(البدایہ و النہایہ: 173/8)

عمر بن سعد نے یہ پیغام ابن زیاد تک پہنچا دیا ان کی بھی مرضی تھی کہ حضرت حسینؓ کو یزید کے پاس بھیج دیا جائے لیکن ایسی صورت میں یہ امر یقینی تھا کہ اہل کوفہ کی غداری اور ان کی دھوکہ بازی طشت ازبام ہوجاتی، اور اہل بیت اور فرزندان علیؓ سے ان کی محبت عقیدت کا سارا بھرم کافور ہوجاتا، اور یہ بھی ممکن تھا کہ ان کی غداری کے نتیجہ میں ان کے خلاف فرد جرم عائد ہوتا اور پوری شیعہ قوم کی جگ ہنسائی کی نوبت آتی، اس لیے یہ ضروری ہوا کہ حضرت حسینؓ کو یزید کے پاس جانے سے روکا جائے۔

چنانچہ ملعون شمرذی الجوشن جو کہ ابن زیاد کا خاص مقرب تھا اس نے ابن زیاد کو ورغلاتے ہوئے کہا کہ خدا کی قسم یہ تو ناممکن بات ہے حسینؓ کو چاہیے کہ وہ خود کو پہلے ابن زیاد کے حوالہ کریں، چنانچہ ابن زیاد نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ وہ پہلے خود کو میرے  حوالہ کریں پھر میں فیصلہ کروں گا کہ ان کے ساتھ کیا کیا جائے۔

ابن زیاد نے شمر سے کہا کہ عمر بن سعد اگر تعمیل حکم میں تساہل برتیں اور حسینؓ کو گرفتار کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیں تو تُو اس کی جگہ فوج کا افسر ہے۔ چنانچہ شمر ذی الجوشن نے عمر بن سعد کی جگہ خودسنبھالی اور پانچ ہزارکی فوج لے کر حضرت حسینؓ کے بہتر (72) جیالوں سے مقابلہ کے لیے نکل پڑا۔

حضرت حسین کو جب علم ہوا کہ ان کے سلسلہ میں فیصلہ ابن زیاد کو کرنا ہے تو آپ کو اس کی بد نیتی اور سازشی ارادوں کو سمجھنے میں دیر نہ لگی اور آپ نے گرفتاری دینے سے انکار کر دیا، آخر نوبت جنگ تک پہنچی۔ 

* حضرت حسین کی شہادت*

10/محرم الحرام جمعہ کے دن حضرت حسین نے فجر کی نماز ادا کی، آپ کے ساتھیوں میں بتیس سوار اور چالیس پیاده تھے، حضرت حسینؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور فوج کو مخاطب کرکے انہیں یاد دلانے لگے کہ وہ کون ہیں کس کے نواسے اور بیٹے ہیں، اور ان کی کیا حیثیت اور مقام ہے! وہ فرماتے تھے کہ لوگو! اپنے دل کوٹٹولو اور اپنے ضمیر سے پوچھو، کیا مجھ جیسے شخص سے جنگ کرنا جبکہ میں تمھارے نبیﷺ کا نواسہ ہوں درست ہے؟

(البدایہ والنہایہ: 179/8)

شمر الجوشن کی فوج میں وہ کوفی بھی تھے جنھوں نے حضرت حسینؓ کو خطوط لکھے تھے اور آپ کو کوفہ آنے کی پرزور دعوت دی گئی، جب یہ  لشکر سامنے آیا تو حضرت حسینؓ نے انھیں پہچان لیا اور ان کوفیوں کومخاطب کر کے کہا:

"ويلكم يا أهل الكوفة أنسيتم كتبكم وعهودكم التي أعطيتموها و أشهدتم الله عليها، ويلكم أدعوتم ذرية أهل بيت نبیکم، وزعمتم أنكم تقتلون أنفسكم دونهم حتى اذا أتوكم سلمتموھم الی ابن زیاد من قسوھم من ماء الفرات، بئس ما خلفتم نبیکم فی ذریتہ ما لکم لاسقاکم اللہ یوم القیامۃ

(ناسخ التواریخ: 335) 

اے اہل کوفہ افسوس ہے تم پر! کیا تم اپنے خطوط اور اپنے وعدوں کو بھول گئے، جو تم نے ہم سے کیے تھے، اور تم نے اس پر خدا کو گواہ بنایا تھا، حیف صد حیف! تم نے اپنے نبی کے اہل بیت کو بلایا اور یہ وعدہ کیا کہ ان کے لیے اپنی جانیں نچھاور کر دو گے، اور جب تمہارے وعدوں پر بھروسہ کر کے وہ تمہارے پاس آئے تو تم نے انھیں ابن زیاد کے حوالہ کر دیا، جس نے ان پر فرات کا پانی بند کر دیا تم نے اپنے نبی کی اولاد کے ساتھ نہایت ہی گھناونا برتاؤ کیا ہے، قیامت کے دن خدائے پاک تمہیں بھی پیاسا ہی رکھے)

اسی اثناء میں شمرذی الجوشن آگے بڑھا اور حضرت حسینؓ کے قافلہ پر حملے شروع کردیے، گھمسان کی جنگ ہوئی، حضرت حسینؓ کے جاں نثار ایک ایک کر کے آپ پرفدا ہوتے رہے، آپ ان کے لیے دعا کرتے رہے اور "جزاكم الله أحسن جزاء المتقين" فرماتے رہے، آپ کے سامنے آپ کے رفقاء اور خاندان کے افراد شہید ہوتے گئے، آپ تنہا بچے لیکن کسی کی ہمت نہ تھی کہ آپ کا سامنا کرے،آپ بڑی دیر تک میدان میں گھومتے رہے لیکن مقابلہ کے لیے کوئی آگے نہ بڑھا، بالآخر شمر نے کوفی جنگجوؤں کو للکار کر کہا: اب حسینؓ کا کام تمام کرنے میں کیا انتظار ہے؟ آگے بڑھو اور انھیں گھیرے میں لے کر حملہ کرو، وہ چاروں طرف سے بڑھے، حضرت حسینؓ نے ثابت قدی سے مقابلہ کیا، پھر زرعہ بن شریک تمیمی نے لپک کر آپ کے شانہ مبارک پر وار کیا، سنان بن انس نے نیزہ سے حملے کیے، اور پھر گھوڑے سے اتر کر سر مبارک تن سے جدا کر دیا۔

(لعنة الله عليهم أجمعين)

  ♦️ *شیعہ- حضرت حسینؓ کے قاتل*♦️

حضرت حسینؓ کربلا کے میدان میں جس مظلومیت کے ساتھ شہید ہوئے وہ تاریخ اسلام کا ایک سیاہ باب ہے، اور اس کی سیاہی میں شیعوں کی سیاہ طبیعت کا ہی اثر ہے، حضرت حسینؓ کی شہادت اور کربلا کے اس المناک واقعہ کی تمام تر ذمہ داری کوفہ کے شیعان حسینؓ پر عائد ہوتی ہے، جنھوں نے فریب دہی و فتنہ پردازی کے ارادہ سے آپ کو دعوت دی، پھر انتہائی کمینہ پن، خیانت کاری اور بزدلی سے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا، آپ کے خلاف تلوار میں اٹھائیں اور آپ کے اور آپ کے رفقاء کے خون سے اپنے دامن کو تر کر لیا۔

تاریخ میں ساری شہادتیں موجود ہیں کہ شیعوں نے کس طرح حضرت حسینؓ کے ساتھ غداری کی اور خود حضرت حسینؓ اور ان کے خاندان افراد نے کس طرح ان شیعوں کو لعنت ملامت کی اور ان سے بیزاری بلکہ نفرت کا اظہار کیا ہے، ذیل میں چند نمونے ملاحظہ ہوں: 

*اہل کوفہ شیعہ تھے*

جن کوفیوں نے حضرت حسینؓ کو خطوط لکھے، ان سے معاہدے کے ان کے لیے قسمیں کھائیں، اور اپنے گلے میں ان کی بیعت کا طوق ڈالتے ہوئے ان کے ساتھ بے وفائی کی وہ سب شیعہ ہی تھے، اس کی گواہی مشہور شیعہ مصنف صاحب خلاصة المصائب نے دی ہے:

*"اہل بیت کو شہید کرنے والوں میں کوئی شامی یا حجازی نہیں تھا بلکہ سب کوفی تھے"*

(خلاصۃ المصائب: ص 201)

اور اہل کوفہ کے مذہب کی وضاحت قاضی نور اللہ شوستری نے اس طرح کی:

" تشیع اہل کوفہ حاجت با قامت دلیل ندارد و سنی بودن کوفی الاصل خلاف اصل و محتاج دلیل است"

(مجالس المومنین، مجلس اول، ص:25)

  (اہل کوفہ کے شیعہ ہونے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں، کوفیوں کا سنی ہونا خلاف اصل ہے جو محتاج دلیل ہے۔)

  *حضرت حسین کی گواہی*

"خدایا اگر تو انہیں زندہ رکھ، تو  انہیں ٹکڑیوں میں بانٹ کے رکھ، ان کے در میان پھوٹ ڈالدے، کبھی حکمرانوں کو ان سے مطمئن نہ رکھ، انھوںنے ہمیں بلایا تھا کہ ہماری مدد کریں گے۔ مگر یہ دشمنی پر اتر آئے اور ہمارے قتل کے در پے ہو گئے ۔“

(الارشاد للمفید:241)

ایک دوسرے موقع پر شیعوں کو بددعا دیتے ہوئے فرمایا:۔

ہم سے بیعت کرنے کے لیے تم اس طرح لپکے جیسے ٹڈیوں کے دل کے دل ٹوٹ پڑتے ہیں،تم پروانوں کی طرح نچھاور ہوئے، پھر تمہی نے بیعت توڑ بھی دی، ہلاکت ہو، تباہی ہو، بربادی ہو امت کے ان فرعونوں پر! باطل کی ان ٹکڑیوں کے ان پس ماندہ حصوں پر! کتاب اللہ کے پس پشت ڈالنے والوں پر! تمہی ہو جنھوں نے ہمیں بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ہمیں موت کے گھاٹ اتارا،سن لو ظالموں پر خدا کی لعنت ہے!

(الاحتجاج: 24/2)

*حضرت زین العابدین کی گواہی*

حضرت زین العابدین اس جانکاه واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں، وہ فرماتے ہیں:

کیا تمہیں یاد نہیں کہ تم نے میرے والد کو خطوط لکھ کر کوفہ بلایا تھا مگر تم نے دھوکہ دیا، ان سے پیمان وفا باندها مگر انہی سے لڑ بیٹھے، ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا اب تم کیا منہ لے کر رسول الله (ﷺ ) کے پاس جاؤ گے؟جب آپ(ﷺ) فرمائیں گے تم نے میرے گھر والوں سے لڑائی کی، میری حرمت پامال کی ، دفع ہو جاؤ تم لوگ میری امت کے نہیں۔

(الاحتجاج 32/2) 

"جب امام زین العابدین عورتوں کے ہمراہ کربلا سے تشریف لائے اور وہ بیمارتھے تو اس وقت  کوفہ کی عورتیں اور مرد گریباں چاک، رو پیٹ رہے تھے۔ اس وقت امام زین العابدین اپنی کمزور آواز میں فرمانے لگے:”یہ لوگ رو رہے ہیں حالانکہ ان کے علاوہ کسی غیر نے ہمیں قتل نہیں کیا"

(الاحتجاج 158/2)

*حضرت زینب کی گواہی*

امیرالمومنین حضرت علی کی صاحبزادی اہل کوفہ سے فرماتی ہیں:

”اے کوفہ والو!اے دھوکہ بازو! مکار اور دغابازو!تمھاری مثال اس بڑھیا کی سی ہے جس نے بڑی محنت سے سوت کاتا مگر دوسرے ہی لمحہ اپنی محنت ضائع کردی، غرور وتکبر، جھوٹ اور مکاری کے سوا تمھارے اندر ہے ہی کیا تم میرے بھائی پر ماتم کرتے ہو؟ ہاں کروخوب ماتم کرو خوب روؤ، ہنسنا تمھارے مقدر میں نہ ہو، تمھارے دامن پرداغ لگ چکا ہے،خاندان نبوت کا خون کب تک ارزاں سمجھتے رہو گے؟

(الاحتجاج 29،30/2)

* حضرت فاطمہ صغریٰ کی گواہی*

”اے کوفہ والو!اے غدارو!اے مکارو!اے گھمنڈی انسانو! تمھاری وجہ سے اللہ تعالی نے ہم اہل بیت کو آزمائش میں ڈالا،اور  تمہیں ہمارے ذریعہ آزمایا، ہم تو آزمائش میں کھرے اترے، مگر تم ہمارے ناشکرےنکلے، اور ہمیں جھٹلانے لگے، اور تم نے ہم سے جنگ وقتال کو جائز ٹھہرایا،ہمارے مال کو تم نے لوٹ لیا، اسی طرح کل ہمارے پیارے دادا کو بھی تم نے قتل کیا تھا۔

تمھاری تلواروں سے ہمارا خون اب بھی ٹپک رہا ہے۔ ہلاکت ہوتمھارے لیے خدا کی لعنت اور اس کے عذاب کا انتظار کرو جو تم پر آیا چاہتا ہے، وہ تھمارا شیرازہ منتشر کر کے تمہیں باہم دست و گریباں کردے گا، پھر قیامت کے دن وہ تمھیں دردناک عذاب سے دوچار کرے گا ان مظالم کی پاداش میں جوتم نے ہم پر کیے ہیں، سن لو! خدا کی لعنت ظلم کرنے والوں پر! اےکوفہ والو!تمہارا بیڑہ غرق ہو!"

(الاحتجاج: 28/2)

* حضرت عبداللہ بن عمر کی گواہی*

حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں:

عراق والے مجھ سے مکھی مارنے کے بارے میں فتوی پوچھتے ہیں حالانکہ انہی لوگوں نے رسول الله (ﷺ) کی صاحبزادی کے بیٹے کو قتل کیا ہے۔

(بخاری: 3753)

لیجئیے یہ تھا سارا واقعہ کربلا پڑھیں اور شیئر کریں تاکہ شیعہ سے متاثر لوگو کو حقیقت معلوم ہو

  *شعبہ بناتُ الصحابہؓ* 

*زیرسرپرستی:*

*ادارہ دارالتحقیق ودفاع الصحابہؓ*