Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

خصائص نسائی مصنفہ احمد ابن شعیب النسائی

  محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحب

خصائص نسائی مصنفہ احمد ابن شعیب النسائی

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس کے مصنف حافظ ابو عبدالرحمٰن احمد بن شعیب النسائی ہیں جو صحاح ستہ میں سے ایک قابل قدر کتاب نسائی کے مصنف بھی ہیں اس خصائص نامی کتاب میں انہوں نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کے فضائل و مناقب بیان کیے لیکن ان میں وہ حد سے آگے بڑھ گئے اس غلو کی وجہ سے ان کے ہم عصر لوگوں نے ان میں تشیع کا احتمال سمجھا اور اس امر کی شیعہ کتابوں میں صراحت بھی موجود ہے اب اس کتاب کے حوالہ سے اور اہلِ تشیع کے خیالات سے امام نسائی کے بارے میں کچھ باتیں درج کی جاتیں ہیں پہلے خصائص کی چند عبارات ملاحظہ ہوں ۔

عبارت اول:

فَقَالَ لَهُ أَمَا تَرْضَى أَن تَكون متى منزلۃ هَارُونَؑ مِنْ مُوسَىؑ إِلَّا إِنَّكَ لَستَ نَبِيٌّ إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ أَذْهَبَ إِلَّا وَأَنتَ خَلِيفَنِي قَالَ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهﷺ انت ولى علىؓ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِى -

(خصائص النسائي صفحہ 15 ذالاختلاف على محمد ابن المنكدر في هذا الحديث چشتی کتب خانه فيصل الآباد )

ترجمہ:

حضورﷺ نے سیدنا علی المرتضیٰؓ سے فرمایا کیا تم اسپر راضی نہیں کہ تمہارا مقام و مرتبہ میرے ہاں وہی ہو جو موسیؑ کے ساتھ ہارونؑ کو تھا مگر تم پیغمبر نہیں ہو اور یہ بات ضروری ہے کہ میرے بعد تم میرے خلیفہ ہو گے حضورﷺ نے ان سے فرمایا تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو۔

عبارت دوم:

ثُمَّ قَالَ الَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ قَالُوا بَلَى نَشْهَدُ لَانَتَ أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِن مِنْ نَفْسِهِ قَالَ فَإِنِّي مَنْ كُنْتُ مَوْلَاہ فھذا مَوْلاهُ وَ أَخذ بَيْدِ عَلِيؓ

(خصائص النسائى صفحہ 22 ذكر قول النبيﷺ من كنت وليه فهذا وليه)

ترجمہ: 

پھر حضورﷺ نے (خم غدیر کے موقعہ پر) لوگوں سے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ میں ہر مومن کی جان سے زیادہ قریب ہوں سب نے کہا ہم آپ کی اس قربت کی گواہی دیتے ہیں آپ نے فرمایا میں جس کا مولیٰ ہوں یہ بھی اس کا مولیٰ ہے آپ نے یہ کہتے ہوئے سیدنا علیؓ کا ہاتھ پکڑا۔

عبارت سوم:

فقَالَ مَا تُريَدُونَ مِنْ عَلىؓ إِنَّ عَلِيًّاؓ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُومِن مِنْ بَعْدِي 

(خصائص النسائی صفحہ 27 ذكر دعاء النبيﷺ لمن احبه چشتی کتب خانه فیصل آباد)

ترجمہ

حضورﷺ نے فرمایا تم سیدنا علیؓ کے بارے میں کیا ارادہ رکھتے ہو بے شک سیدنا علیؓ مجھ سے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا ولی ہے۔

عبارت چہارم:

يَقُولُ مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَعَلِيَّ مَوْلاهُ اللَّهُم وَآلِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادٍ مَنْ عَادَاهُ وَ احِبَ مَنْ احَبَّهُ وَأَبْغِضُ مَنْ أَبْغَضَهُ وَانْصُارُ مَنْ نَصَرَهُ وَتَفَرَّقَ بَيْنَ الْمُؤْمِينَ وَالْكَافِرُ .

( تہذيب صفحہ 61)

(خصائص النسائى صفحہ 27 ذكر دعاء النبيﷺ لمن احبه چشتی کتب خانه فیصل آباد)

ترجمہ:

آپﷺ فرماتے ہیں جس کا میں مولیٰ اس کا سیدناعلیؓ بھی مولیٰ ہے اے اللہ جو سیدنا علیؓ سے دوستی کرے تو بھی اس سے دوستی کر جو اس سے عداوت رکھے تو بھی اُسے دشمن بنا جو اس سے محبت کرے تو بھی اس سے پیار کر اور جو اس سے بغض رکھے تو بھی اس سے بغض رکھ اور اس کی مدد کر اور کافر و مومن کے مابین اس کے ذریعہ تفریق کر دے۔

عبارت پنجم

قَالَ اِسْتَاذَنَ أَبُو بَكْرٍؓ على النبيﷺ فَسَمَعَ صَوْتَ عَائِشَةَؓ عَالِيًا وَهِيَ تَقُولُ لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّ عَلِيًّاؓ أَحَبُّ إِلَيْكَ مِنِّي فَأَهْوَى لَهَا لِيَلطِمَهَا وَقَالَ لَهَا يَا بِنْتُ فَلَانٍ أَرَاكِ تَرْفَعِينَ صَوْتَكِ عَلَى رَسُولِ اللهﷺ فامسکہ رسول اللہﷺ وخَرج أَبُوبَكْرٍؓ مُغْضِبًا

(خصائص النسائي صفحہ 28 ذكر منزلة سیدنا علىؓ)

ترجمہ

راوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے حضورﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی جب سیدنا ابوبکرؓ اندر آئے تو انہوں نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی بلند آواز سنی وہ کہہ رہی تھیں کہ میں جانتی ہوں کہ آپ کو سیدنا علیؓ سے بہ نسبت میرے زیادہ محبت ہے سیدنا ابوبکرؓ نے چاہا کہ سیدہ عائشہؓ کے تھپڑ لگائیں اور کہا کہ اے فلاں کی بیٹی تو حضورﷺ کے سامنے آواز بلند کر رہی ہے حضورﷺ نے منع کر دیا اس پر سیدنا ابوبکرؓ ناراضگی کی حالت میں باہر نکل گئے۔

نوٹ:

مذکورہ حوالہ جات میں امام نسائی نے سیدنا علیؓ کی شان میں غیر محتاط بلکہ حد سے بڑھے ہوئے الفاظ کہے ہیں سیدنا علی المرتضیٰؓ کو ہر مومن کا ولی صاف صاف لکھا اور مولیٰ بھی کہا جس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ سیدنا علیؓ سب سے اولی ہیں اور یہ عقیدہ اہلِ تشیع کا ہے انہی عبارات کی وجہ سے شیعہ لوگوں نے امام نسائی میں تشیع کا ثبوت لکھا حوالہ ملاحظہ ہو۔

الكنى والالقاب:

حكى أَنَّهُ لَمَّا الى دمشق وَصَنَت كِتَابِ الْخَصَائِص مناقب امير المومنين عليه السلام أنكر عَلَيْهِ ذالک و قِيلَ لَهُ لِمَ لَا صَنفْتَ فِي فَضَائِلِ الشَّيْخَينِ فَقَالَ دَخَلْتُ دمشق وَالْمُنْحَرِفُ عَنْ عَلِي بِهَا كَثِيرٌ فَصَنَفْتُ كِتَابَ الْخَصَائِصِ رِجَاءَ أَنْ يَهْدِيَهُمُ الله تَعَالَى بِهِ فَدَفَعُوا فِي خُصُيَتَيْهِ وَأَخْرَجُوه مِنَ الْمَسْجِدِ ثُمَّ مَاذالُوا بهِ حَتَّى أَخْرَجُوه من الدمشق إلى الرملة فمات بھا ۔

(كتاب الكنى والالقاب جلد سوم صفحہ 348)

 ترجمہ

بیان کیا گیا ہے کہ جب امام نسائی دمشق آئے اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کے مناقب میں کتاب الخصائص لکھی تو ان کی اس بات کو ناپسند کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ آپ نے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے فضائل میں کوئی کتاب کیوں نہیں لکھی کہنے لگے کہ یہاں سیدنا علی المرتضیٰؓ والے بکثرت رہتے ہیں اور میں نے اس لیے کتاب الخصائص لکھی شاید یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ہدایت پاجائیں لوگوں نے جب یہ سنا تو امام نسائی کے خصیتین کو نقصان پہنچایا اور مسجد سے باہر نکال دیا یہاں تک کہ دمشق سے رملہ جانے پر مجبور کر دیا نسائی رملہ میں ہی فوت ہوئے۔

الكنى والالقاب:

إِنَّ أبا عبد الرحمن فارَقَ مِصْرَ فِي اخر عُمْرِه وَخَرَجَ إِلى دَمِشْقَ فَسُئِلَ عَنْ مَعَاوِيَةؓ فما رَوَى مِنْ فَضَائِلِهِ فَقَالَ أَمَا يَرْضَى معاوِيَةؓ أَنْ يَخْرُجَ رَأَسا بِرَاسٍ حَتَّى يَفْضُلَ وَفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى مَا أُعْرِفُ لَهُ فَضِيلَةً إِلَّا لَا أَشبَعَ اللهُ بَطَنَكَ .

(الكنى والالقاب جلد سوم صفحہ 248 تنقيح المقال جلد اول صفحہ 72)

ترجمہ

ابو عبد الرحمن نسائی نے آخری عمر میں مصر کو چھوڑ کر دمشق میں سکونت اختیار کی ان سے سیدنا امیر معاویہؓ اور ان کے فضائل کے بارے میں پوچھا گیا تو کہنے لگے کیا سیدنا امیر معاویہؓ اس پر راضی نہیں کہ وہ سر کے بدلے سر سے نکلیں یہاں تک کہ وہ فضیلت پائیں ایک اور روایت میں ہے کہ امام نسائی نے کہا میں ان میں کوئی فضیلت نہیں جانتا صرف یہ جانتا ہوں پر حضورﷺ نے ان کے بارے میں ہے فرمایا تھا اللہ تعالیٰ تیرا (سیدنا امیر معاویہ) پیٹ نہ بھرے امام نسائی میں تشیع پایا جاتا تھا۔

الذريعة:

الْخَصَائِصُ فِي فَضَائِلِ عَلَى (ع ) وَقَدْ يُقَالَ لَهُ الخَصَائِصُ العَلَوِيَّةُ لِلْإِمَامِ النِّسَانِي أَبِي عبد الرحمن احمد بن على بن العيب بن سنان بن بحر الخراساني المولود 215 والمتوفى بمكة 303 بَعْدَ إِخْرَاجِهِ مِنَ الْمُسَجِدِ الْأُمُوي بشام بِسَبَبٍ تَصْنِيف هَذَا الْكِتَابِ فَتَمرَضَ عَلَى أَثَرِ الْضَرَبِ والرفس والدفع في خُصْبَعِهِ فَطَلَبَ حَمْلَهُ إِلَى مَكَّةَ وَهُوَ عَلِيلٌ فَتُوفي بِهَا فِي شَعْبَانَ تِلْكَ السنَّةِ قَالَ ابن خلكان إنَّهُ كَانَ يَتَشيع -

(الذريعة الى تصانيف الشيعة جلد 7 صفحہ 163 مطبوعہ بیروت طبع جدید)

 ترجمہ:

سیدنا علی المرتضیٰؓ کے فضائل میں کتاب الخصائص امام نسائی نے لکھی جسے خصائص العلویہ بھی کہتے ہیں امام نسائی 215 میں پیدا ہوئے اور مکہ میں 303 میں فوت ہوئے اس کتاب کی تصنیف کی وجہ سے انہیں شام میں واقعہ "مسجد اموی" سے نکالا گیا اور لوگوں نے ان کو دھکے دیئے اور سینے اور خصیتین پر ضربات لگائیں جن کی وجہ سے بیمار ہو گئے اور مکہ پہنچانے کے لیے لوگوں کو کہا بیماری کی حالت میں مکہ پہنچے اور اسی سال شعبان کے مہینہ میں انتقال کر گئے ابن خلکان نے کہا کہ ان میں تشیع تھا۔

لمحہ فکریہ

اِمام نسائی کے بارے میں کتب شیعہ کے حوالہ جات سے یہ بات سامنے آگئی کہ ان میں تشیع پایا جاتا تھا اگرچہ ہم ان کو شیعہ نہیں کہتے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان کی غیر محتاط روش اور غلو کی وجہ سے جن عبارات و روایات پر ان پر تشیع کا پایا جانا ثابت کیا جاتا ہے۔ وہ روایات ہم اہلِ سنت پر ہرگز حجت نہیں بن سکتیں۔ اِمام نسائی میں تشیع کا پایا جانا اب جبکہ کتب شیعہ سے حوالہ جات کے ذریعہ ثابت کر چکے اب اہلِ سنت کی کتب سے بھی اس کا ملاحظہ ہو جائے۔

اہلِ سنت کی کتب سے اِمام نسائی کا تعارف

تذكرة الحفاظ:

ثمَّ إِنَّهُ صَنَّفَ بَعْدَ ذالكَ فَضَائِلَ الصَّحَابَةِؓ فَقِيلَ لَهُ وَأَنَا أَسْمَعُ أَلَّا تَخْرُجَ فَضَائِلَ مَعَاوِيهؓ فَقَالَ أَيُّ شَى أَخْرُجُ حَدِيثَ اللهُمَّ لَا تَشبَعُ بَطْنَهُ فَسَكَتَ السَّائِلُ

( تذكرة الحفاظ جلد دوم صفحہ 699 تذكرة النسائی 719 مطبوعه بيروت طبع جدید) 

ترجمہ 

فضائل سیدنا علی المرتضیٰؓ پر کتاب تصنیف کرنے کے بعد اِمام نسائی نے ایک کتاب فضائل صحابہؓ پر لکھی ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ فضائل سیدنا معاویہؓ کے بارے میں کوئی حدیث بیان نہیں کرتے؟ کہنے لگے کون سی حدیث لکھوں کہ تم نے حضورﷺ کی سیدنا معاویہؓ کے بارے میں یہ حدیث نہیں سنی اے اللہ اس کے پیٹ کو سیر نہ کر یہ سن کر سائل خاموش ہوگیا

تهذيب التهذيب:

قَالَ أَبُو بَكْرِ المَامُونِي سَأَلْتُهُ عَنْ تَصْنِيفِهِ كِتَابِ الْخَصَائِصِ فَقَالَ دَخَلْتُ دمشق والمنحرف بِهَا عَنْ عَلِيؓ كَثِيرٌ وَصَنَّفَ كِتَابَ الْخَصَائِصِ رِجَاءَ أَنْ يَهْدِيَهُمُ اللهُ ثُمَّ صَنْفَ بَعْدَ ذَالِكَ كِتَابَ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ وَقَرَاهَا عَلَى النَّاسِ وَقِيلَ لَهُ وَأَنَا حَاضِر الَّا تَخْرُجَ فَضَائِلَ مُعَاوِيَةؓ فَقَالَ أَيُّ شَيْ اخْرُجُ اللَّهُمَّ لَا تَشْبَعُ بَطْنَهُ سكَتَ وَسَكَتَ السَّائِلُ 

(تهذيب التهذيب لابن حجر العسقلانی جلد اول صفحہ 38 مطبوعہ بیروت طبع جدید)

ترجمہ:

ابوبکر المامونی کہتے ہیں کہ میں نے اِمام نسائی سے ان کی تصنیف کتاب الخصائص کے بارے میں پوچھا کہنے لگے کے میں جب دمشق پہنچا تو وہاں مجھے بہت سے لوگ سیدنا علی المرتضیٰؓ سے منحرف ملے میں نے یہ کتاب اس امید پر لکھی کہ شائد اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرما دے پھر اس کے بعد اِمام نسائی نے فضائل صحابہؓ پر ایک کتاب لکھی اور وہ لوگوں کو سنائی گئی پوچھا گیا اور میں اس وقت موجود تھا کہ آپ سیدنا امیر معاویہؓ کے فضائل کے بارے میں کوئی حدیث بیان نہیں کرتے کہنے لگے اس ارشاد نبویﷺ کے بعد کونسی روایت ان کے بارے میں بیان کروں حضورﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا اللہ تیرے پیٹ کو سیر نہ کرے اس پر نسائی بھی خاموش ہو گیا اور سائل بھی خاموش ہو گیا۔

وفيات الاعيان:

قالَ مُحَمَّد ابن اسحاق الاصبهانی سمعت مَشَائِخَنَا بِمِصْرَ يَقُولُونَ إِنَّ أَبَا عَبدِ الرحمن فَارَقَ مِصْر في اخِرِ عُمْرِهِ وَخَرَجَ إِلى دمشق فَسُئِلَ عَنْ مُعَاوِيَةؓ وَمَا رُوِيَ مِنْ فَضَائِلِهِ فَقَالَ أَمَا يَرْضَى مُعَاوِيَةؓ أَنْ يُخْرَجَ رَأَسا بِرَأُسٍ حَتَّى يُفَضَّلَ وَفِي رِوَايَةٍ أَخْرى مَا أَعْرِفُ لَهُ فَضِيلَةً إِلَّا (لا اتَّبَعَ اللهُ بَطَنَكَ ) كانَ يَتَشَتع فَمَا زَالوا يَدُفَعُونَ فِي خضره حتى أخْرَجُوهُ مِنَ الْمَسْجِدِ وَفِي رِوَايَة أخرى يَدفعُونَ فِي خَصْيَتِهِ وَدَاسُّوهُ ثُمَّ حمل إلى الرَّمَلةِ فَمَاتَ بِهَا .

(وفيات الاعيان لابنِ خلكان جلد اول صفحہ 77 ما ذكر ابوعبد الرحمن نسائی مطبوعہ بیروت طبع جدید)

ترجمہ

محمد بن اسحاق اصبہانی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے مشائخ سے مصر میں سنا وہ کہتے ہیں کہ اِمام نسائی نے آخری عمر میں مصر سے دمشق چلے گئے وہاں ان سے پوچھا گیا کہ سیدنا امیر معاویہؓ اور ان کے فضائل کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو کہنے لگے کیا سیدنا معاویہؓ اس پر راضی نہیں کہ سر بہ سر نکلیں۔ حتیٰ کہ فضیلت لے جائیں ایک اور روایت میں ہے کہ مجھے ان کی فضیلت کے بارے میں اس کے سواء کوئی حدیث نہیں آتی اللہ تعالیٰ اس کے پیٹ کو سیر نہ کرے اور ان میں تشیع تھا لوگ متواتر ان کو ستاتے رہے اور ان کے خصیتین میں مارا بالا آخر مسجد سے نکال دیا ایک اور روایت میں ہے کہ ان کے خصیتین کو لوگوں نے بہت تکلیف دی اور انہیں مروڑتے تھے پھر انہیں وہاں سے رملہ لایا گیا اور یہیں ان کا انتقال ہوا مذکورہ روایات جو کتب اہلِ سنت سے پیش کی گئی ہیں ان کے مطابق بھی امام نسائی میں تشیع کا وجو ملتا ہے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ امام موصوف کا شمار اہلِ سنت کے ان علماء میں ہوتا ہے جو بگانہ روزگار تھے نہایت متقی اور دیندار تھے لیکن ان کی جن عبارات و آیات پر علماء نے تشیع کا الزام لگایا وہ بہرحال ہمارے خلاف حجت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔

قابل توجہ:

 اب تک جن کتب کا ہم نے تذکرہ کیا ان میں سے تین کے مصنف ابنِ حجر مکی محمد بِن جریر طبری اور اِمام نسائی اہلِ سنت کے مقتدر علماء میں سے ہیں اور انکی تصانیف بھی اہلِ سنت کی تصانیف شمار ہوتی ہیں لیکن اِن تصانیف میں وہ روایات و واقعات جوان کے تشیع ہونے پر دلالت کرتی ہیں وہ ہرگز ہم اہلِ سنت پر حجت نہیں ہوسکتیں اِن کے علاوہ عقد الفرید اورمعارج النبوۃ ویسے ہی اس درجہ کی نہیں ان پر اعتبار کیا جاسکے اور یہ مختصر طور پر ان کتب کا تذکرہ تھا جو اہلِ سنت کے علماء نے لکھیں اِن کے بغیر جن کتب کا ہم نے تذکرہ کیا وہ تمام کی تمام اہلِ تشیع کے علماء کی ہیں جنہیں آئے دن کچھ بیوقوف قسم کے شیعہ مولوی"اہلِ سنت کی معتبر کتاب" کے طور پر اپنی کتابوں میں ذکر کرتے ہیں اور پھر ان کی عبارات سے اپنے مذہب کی تائید چاہتے ہیں حالانکہ وہ دراصل مذہب شیعہ کی ترویج واشاعت کے لیے ہی لکھی گئیں۔

ہم سے جس قدر ہوسکا ان کتب کے بارے میں حقائق سے پردہ اٹھایا ہے ہم امید رکھتے ہیں کہ ہماری یہ کوشش علماء اہلِ سنت کے لیے باعث نفع ہو گی اور ہم قارئین کرام سے خلوص دل کے ساتھ اس امر کے متمنی ہیں کہ وہ ہماری ان معروضات سے جب مستفید ہوں تو اپنی مخصوص دعاؤں میں ضرور یاد فرمائیں اور اللہ کریم سے بتوسل نبی کریمﷺ بخشش کی دعا فرمائیں

 واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين الخ