Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

المستدرک للحاکم مصنفہ محمد بن عبد الله حاکم نیشاپوری

  محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحب

المستدرک للحاکم مصنفہ محمد بن عبد الله حاکم نیشاپوری

یہ کتاب علم حدیث کی ہے۔ اور مشہور یہ ہے کہ مسلم اور بخاری کی شرائط پر اسے حاکم نے لکھا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کتاب میں بعض روایات ایسی بھی درج ہیں جو عقائد اہلِ سنت کے صراحتہ خلاف ہیں اور اجماع اہلِ سنت کی مخالفت ہے مثلاً یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ حضورﷺ کی امت میں سے سیدنا صدیق اکبرؓ تمام سے افضل ہیں بلکہ پہلی امتوں کے تمام افراد سے افضل ہیں۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے ان کی ایک رات جو انہوں نے سرکار دوعالمﷺ کی خدمت کرتے ہوئے غار ثور میں گزاری کے بدلہ تمام نیکیاں ہیچ سمجھیں اب اس اجتماعی عقیدہ کو دیکھئے اور المستدرک کی ایک روایت پر نظر ڈالئے۔

المستدرك:

قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهﷺ المبارزة عَلَى ابْنِ أَبِي طَالِبؓ لِعَمْرِ بن عَبْدُودٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ أَفْضَلُ مِنْ أَعْمَالِ امتی إلى يوم القيامة -

(المستدرك جلد سوم صفحہ 32 کتاب المغازی مطبوعه بيروت طبع جديد) ذكر مبارزة على

ترجمہ:

غزوہ خندق کے دن جب سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اپنے مد مقابل عمر بن عبدود سے لڑائی لڑی تو حضورﷺ نے فرمایا سیدناعلیؓ کا یہ کام تا قیامت میری امت کے کاموں سے افضل ہے یہی وجہ ہے کہ روایت مذکورہ چونکہ اہلِ سنت کے اجماعی نظریہ و عقیدہ کے خلاف اور شیعیت کے بو سے بھری ہوئی نظر آتی ہے اس لیے امام ذہبی نے اس کے تحت یہ الفاظ لکھے ۔

قُلْتَ قبحَ اللَّهَ رَافِضِيًّا اِفتراہ میں کہتا ہوں کہ اس رافضی صاحب مستدرک حاکم کا برا ہو ۔ یہ روایت اس نے خود بنائی ہے (ایسی روایات اور اس کے معتقدات کے پیش نظر اہلِ تشیع نے اسے اپنا آدمی کہا ہے۔)

اعيان الشيعه

قال الخطيب ابوبكر عبد الله الحاكم كان ثقَةً يَمِيلُ إِلى التَّشَيعِ فَحَدثنى ابراهيم بن محمد الامورى قالَ جَمَعَ الحاكم أَحَادِيثَ وَزَعَمَ أَنَّهَا صِحَاحٌ عَلَى شَرْطِ البخاري ومسلم مِنْهَا حَدِيثُ الطَّيْرِ وَمَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ فَانْكَرَهَا عَلَيْهِ أَصْحَابُ الْحَدِيثِ فَلَمْ يَلْتَفِتُوا إِلَى قوله قال ابو عبد الرحمن الشاذ يارخي كنا فِي مَجْلِسِ السيد ابي الحسن فسالِ الحَاكِمُ عَنْ حَدِيثِ الطَّيْرِ فَقَالَ لَا يَصِحَ وَلَوْضَع لَمَا كَانَ أَحَدٌ أَفْضَلُ مِنْ عَلِيِّ بَعْدَ النبِيﷺ قُلْتُ ثُمَّ تَغَيَّرَ الحاکم وَ أَخْرَج حَدِيثَ الطَّيْرِ في مُسْتَدْرَك وَلاريبَ أَنَّ فِي الْمُسْتَدْرَك أَحَادِيثَ كَثِيرَ وَلَيْسَتْ عَلَى شَرْطِ الصحَةِ بل فیہ احادیث موضوعة قَالَ ابْنُ طاهر سالت ابا اسماعيلى الانصاري عَنِ الْعَالِمِ فَقَالَ ثِقَةٌ فِي الْحَدِيثِ رَافِضِي خَبِيث ثُمَّ قَالَ ابْنُ طَاهِر كَانَ شَدِيدَ التَّعَصُّبِ لِلشَّيعَةِ في الباطن 

(اعيان الشیعه جلد 1 صفحہ 391)

(تذکرہ عبد الله حاکم)

ترجمہ:

خطیب ابوبکر نے کہا کہ حاکم (صاحب مستدرک) ثقہ تھا۔ اور شیعیت کی طرف اس کا میلان تھا مجھ سے ابراہیم بن محمد اموری نے بیان کیا کہ حاکم نے احادیث جمع کیں اور زعم کیا کہ وہ بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہیں ان میں سے ایک حدیث الطیر اور دوسری من کنت مولاہ فعلی مولا ہے، کہ جس کا میں مولی اس کا علی مولی ان پر محدثین نے انکار کیا اور اس کی بات کی طرف کوئی دھیان نہ دیا ابو عبد الرحمن شاذ ریاخی نے بیان کیا کہ ہم سید ابوالحسن کی مجلس میں تھے حاکم نے ان سے حدیث طیر کے بارے میں پوچھا۔ تو انہوں نے کہا یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اگر صحیح ہوتی ۔ تو حضور ﷺ کے بعد سیدنا علی المرتضیٰؓ سے افضل کوئی نہ ہوتا میں کوتا ہوں یہ سن کر حاکم نے تغیر کیا اور حدیث طیر کو اپنی مستدرک میں ذکر کیا یقیناً مستدرک میں بہت سی ایسی احادیث ہیں جو صحت کے شرط پر نہیں بلکہ اس میں تو من گھڑت احادیث بھی ہیں ابنِ طاہر کہتے ہیں میں نے ابو اسماعیلی انصاری سے حاکم کے بارے میں پوچھا تو فرمایا حدیث میں ثقہ ہے رافضی خبیث ہے پھر ابنِ طاہر ہی کہتے ہیں کہ حاکم سخت متعصب تھا اور اندرون خانہ شیعیت پر پختہ تھا ۔

الكنى والالقاب:

الحاكم وَقَدْ يُقَالُ لَهُ الْحَاكِمُ النیشاپوری هُوَ ابو عبد الله محمد بن عبد الله بن محمد حمدويه الحافظ المعروف بابن البيع وَ هُوَ مِنْ أَبْطَالِ الشَّيْعَةِ وَ سَدَنَتِهِ للشريعة وَ كَانَ ابْنُ الْبَيْعِ يَمِيلُ إلى التشيع صرَحَ جَمْعُ مِنَ الفَرِيقَينِ بِتشيْعهِ عَنِ الذهبي عن ابنِ طاهر قَالَ سَأَلْتُ ابا اسماعيلي الانصارى عَنِ الْحَاكِمِ فَقَالَ ثِقَةٌ فِي الْحَدِيثِ رَافِضِي خَبِيثُ ثم قَالَ ابنِ طاهر كَانَ لَشَدِيد التَّعَصُبِ لِلشَّيعَةِ فِي الْبَاطِنِ وَكَانَ يَظْهَرُ التَّسَتُنَ فِي التَّقْدِيمِ وَالْخِلَافَةِ وَكَانَ مُنحرِفَا عَنْ مُعَاوِيَة وَآلِهِ مُتَظَاهِرًا بِذَالِكَ وَلَا يَعْتَذِرُ مِنْهُ قَالَ الذهبي امَّا انحَرَافہ عَنْ خُصُومٍ على فَظَاهِرَ وَأَمَّا أَمْرُ الشَّيْخَينِ فَمُعَظَّمْ لَهُمَا بِكُلِّ حَالٍ فَهُوَ شِيْعِي لَا رَافِضِي وَلَيْتَهُ لَمْ يُصَنف المُستَدَرَكَ فَإِنَّهُ عَقَلَ عَنْ فَضَائِلِهِ بِسُوءٍ تَصَرَفِهِ وَذَكَرَ ابن شهر اشوب فى معالم العلماء وصاحب الرياض في القسم الاول في عدادِ الْإِمَامِيَّةِ عَلَى مَا نُقِلَ عَنْهُمَا 

(الكنى والالقاب جلد دوم صفحہ 170 171 مطبوعه تہران طبع جدید)

ترجمہ:

 حاکم نیشاپوری ابو عبد الله محمد بن عبد الله معروف ابنِ بیع یہ بہت بڑے شیعیوں میں سے ہے۔ اور ان کی شریعت کے ستون ہیں ابنِ بیع کا میلان شیعیت کی طرف تھا۔ شیعہ سنی دونوں اس کے تشیع کی تصریح کرتے ہیں ذہبی نے ابن طاہر سے بیان کیا کہ میں نے ابو اسماعیلی انصاری سے حاکم کے متعلق پوچھا کہنے لگے حدیث میں ثقہ ہے۔ اور خبیث رافضی ہے پھر ابنِ طاہر نے کہا۔ باطنی طور پر متعصب شیعہ تھا اور خلافت و تقدیم میں سنی ہونا ظاہر کرتا تھا۔ سیدنا امیر معاویہؓ اور ان کی آل سے منحرف تھا اور یہ بات اس کی اعلانیہ تھی اس کا کوئی عذر اس کی طرف سے نہیں کیا گیا ذہبی کہتے ہیں اس کا انحراف جنگ صفین سے وہ تو ظاہر ہے رہا معاملہ شیخین کا تو وہ ان دونوں کی ہر حال میں تعظیم کرتا تھا لہٰذا وہ شیعی ہے رافضی نہیں کاش کہ وہ مستدرک نہ لکھتا کیونکہ اس میں اس نے ان کے فضائل سے روگردانی کی ہے اور بےجا تصرف کیا ہے ابنِ شہر آشوب نے معالم العماء میں اس کا ذکر کیا اور صاحب الریاض نے قسم اول میں اس کا تذکرہ کیا جہاں اس نے شیعہ علماء کی تعداد بیان کی ہے یہی ان سے منقول ہے۔

لسان المیزان:

( محمد) بن عبد الله ابضی النيسابوري الحاكم ابو عبد الله الحافظ صاحب التصانيف. إِمَامٌ صُدُوقٌ وَلَكِنَّهُ يُصِحَ فِي مُسْتَدْرَكِهِ أَحَادِيثَ سَاقِطَةً فَيَكْثُرُ مِنْ ذَالِكَ فَمَا أَدْرِي هَلْ خَفِيَتْ عَلَيْهِ فَمَا هُوَ مِمَّنْ يَجْهَلُ ذَالِكَ وَإِنْ عَلِمَ فَهُو خِيَانَةٌ عَظِيمَةٌ ثم هُوَ شِيعي مَشْهُورُ بِذَالِكَ مِنْ غَيْرِ تُعَرِّضِ لِلشَّيْخَينِ وَقَدْ قَالَ ابو طاهر سالت ابا اسماعیل عبد الله الانصارى عَنِ الْحَاكِمِ الى عبد الله فَقَالَ إمَام فِي الْحَدِيثِ رَافِضِي خَبِيث قُلْتُ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْإِنْصَافَ مَا الرَّجُلِ بِرَافِضي بل شیعی فقط

(لسان الميزان جلد 5 صفحہ 232 حرف الميم)

ترجمہ

محمد بن عبد الله حاکم نیشاپوری صاحب تصانیف کثیرہ امام صدوق ہے لیکن مستدرک میں اس نے گری پڑی احادیث کا بھی صحت کا خیال نہ کیا اور اُس نے کثرت سے کی ہے میں نہیں سمجھتا کہ ایسا اس نے جہالت اور ان احادیث سے بے خبری کی بنا پر کیا ہے لیکن ایسا ہو نہیں سکتا اور یا پھر یہ اس کی بہت بڑی خیانت ہے پھر وہ مشہور شیعی ہے ہاں شیخین کے درپے نہیں ہوتا تھا ابو طاہر نے کہا کہ میں نے ابو اسماعیل عبداللہ انصاری سے حاکم کے متعلق پوچھا تو کہنے لگے۔ حدیث کا امام اور خبیث رافضی ہے۔ میں کہتا ہوں اللہ انصاف کو پسند کرتا ہے حاکم رافضی نہیں شیعہ تھا فقط

لمحہ فکریہ

 حاکم صاحب المستدرک بالاتفاق شیعہ ہے اور اس کا اقرار دونوں مذاہب کی کتب میں موجود ہے جس کے چند حوالہ جات پیش خدمت کیے جا چکے ہیں ہاں اس کے رافضی ہونے کو بالاتفاق تسلیم نہیں کیا گیا جس کی وجہ رافضی کی تعریف ہے اگر رافضی وہ ہے جو شیخین کو غاصب کہے اور بقیہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تبرا بازی کرے تو اس معنی میں حاکم نیشا پوری رافضی نہیں کیونکہ شیخین کے بارے میں اس کے ظاہری خیالات درست ہیں اور اگر رافضی کی تعریف یہ کی جائے جو کہ سیدنا امیر معاویہؓ پر لعن طعن کرے اور اس کے کچھ مسائل اہلِ سنت کے معتقدات کے خلاف ہوں تو اس معنی میں حاکم رافضی ہے کیونکہ من جملہ مسائل و معتقدات اہلِ سنت میں سے ایک مسئلہ افضلیت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا ہے جسے حاکم تسلیم نہیں کرتا تو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ حدیث کے امام بن کر بھی شیعیت سے نہیں بچ سکے اس لیے جس محدث پر شیعیت ٹپکتی ہو اہلِ سنت پر حجت نہیں ہو سکتے حاکم نے مستدرک میں جو حدیث طیر ذکر کی اور جس پر امام ذہبی نے فیہ التشیع لکھا وہ اہلِ سنت کے خلاف بطور حجت ہرگز تسلیم نہیں ہو سکتی

فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارُ