مقتل الحسين الخوارزمي مصنفه ابوالمؤید محمد بن احمد
محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحبمقتل الحسين الخوارزمي مصنفه ابوالمؤید محمد بن احمد:
یہ کتاب ابو المؤيد الموفق الدین محمد بن احمد کی تصنیف ہے اس کتاب کو اہلِ سنت کی"معتبر کتاب" کے عنوان سے اہلِ تشیع پیش کرتے ہیں اور پھر اس کے مندرجات سے اپنے مذہب و مسلک کی تائید کرتے ہیں غلام حسین نجفی نے یہی "قول مقبول" میں متعدد مقامات پر اس کے حوالہ جات پیش کیے حالانکہ اس کا مصنف اہلِ سنت کا فرد نہیں لہٰذا اس کی تصنیف کردہ کتاب اہلِ سنت کی معتبر کتاب کیسے ہو سکتی ہے؟ ہم زبانی جمع خرچ نہیں کرتے بلکہ اِن شاءاللہ تحقیق سے ثابت کریں گے کہ علامہ خوارزمی نے اہلِ سنت نہیں مقتل الحسین کی صرف دو عبارتیں پیش خدمت ہیں، جو غلام حسین نجفی کی تصنیف "قول و مقبول فی اثبات وحدة بنت رسولﷺ" میں اس نے اپنے مسلک کی تائید میں لکھی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے پوری زمین سیدہ فاطمہؓ کے حق مہر میں دے دی:
قول مقبول:
(مقتل الحسین الخوارزی کی عبارت ملاحظہ ہو)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَا عَلِيُّؓ إِنَّ اللَّهَ زَوَجَكَ فَاطِمَةؓ وجعَلَ صُدَاقَهَا الْأَرْضَ فَمَنْ مشَى عَلَيْهَا مُبْغِضًا لَهَا مَشى حَرَامًا
ترجمہ:
سیدنا ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی پاکﷺ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تیری شادی میری بیٹی سیدہ فاطمہؓ سے کی ہے اور میری بچی کا حق مہر خدا نے تمام زمین کو قرار دیا جو آپ سے بغض رکھتے ہوئے زمین پر چلے گا تو اس کے لیے زمین پر چلنا حرام ہے
(قول مقبول صفحہ 95)
نوٹ:
مذکورہ حوالہ سے شیعہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ کا زمین پر چلنا حرام تھا کیونکہ ان دونوں نے باغ فدک کے معاملہ میں سیدنا فاطمہؓ کو ناراض کیا تھا اور ان کی ناراضگی کے ہوتے ہوئے ان کے حق مہر میں دی گئی زمین پر ان دونوں حضرات کا چلنا ناجائز اور حرام ثابت ہوا۔
قول مقبول:
تمام عبارتوں کا ملحض ترجمہ
ترجمہ
سیدہ ام سلمیؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ سیدنا علیؓ کو پیدا نہ کرتا تو میری بیٹی سیدہ فاطمہؓ کا کوئی کفو اور ہمسر نہ تھا۔
- (اہلِ سنت کی معتبر کتاب مقتل الحسين للخوارزمی صفحہ 66)
- (اہلِ سنت کی معتبر کتاب مودة القربی صفحہ 46)
- ( اہلِ سنت کی معتبر کتاب ينابيع المؤدة صفحہ177)
لمحه فكريه
"مقتل الحسین" کی دو عبارتیں جو پیش کی گئی آپ ان سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کسی سنی کا نظریہ بیان نہیں کیاگیا بلکہ اہلِ تشیع کی طرفداری برتی گئی ہم غلام حسین نجفی کو ان روایات کے ضمن میں صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ مذکورہ روایات سند صحیح کے ساتھ اگرچہ خبر واحد ہی کے درجہ میں ہو دکھا دی جائیں تو منہ مانگا انعام ملے گا بہر حال یہ من گھڑت اور موضوع روایات ہیں اور ان کا عقل و نقل کے خلاف ہونا بھی اظہر من الشمس ہے دیکھئے اگر تمام زمین سیدہ فاطمہؓ خاتون جنت کا حق مہر تھی تو عورت اپنے حق مہر کی بِلا شرکت غیر کے مکمل مالکہ ہوتی ہے اس کی اجازت کے بغیر تصرف حرام ہوتا ہے اگر ایسا تھا تو پھر پوری زمین کی بجائے صرف باغ فدک کا مطالبہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے اور اگر سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ نے ان کی زمین کو ناجائز استعمال کیا تو کیا کوئی شیعہ اپنے زیر تصرف زمین کی کوئی رسید کوئی ثبوت اس امر پر پیش کر سکتا ہے کہ اسے سیدہ فاطمہؓ نے ایسا کرنے کی اجازت عطا کی ہے اگر بِلا اجازت سبھی استعمال کر رہے ہیں اس پر نمازیں ادا کی جاتی ہیں اس پر امام باڑے تعمیر کیے جاتے ہیں اس پر مجالس و محافل منعقد کی جاتی ہیں ان سب کے جواز کا حکم کہاں سے ملے گا؟ خلاصہ کلام یہ کہ خوارزمی نے ایسی بہت سی روایات گھڑیں جیسا کہ اہلِ تشیع کا پسندیدہ مشغلہ ہے اس کے شیعہ ہونے کی خود شیعہ محقیقین گواہی دیتے ہیں پھر بھی اس کے اہلِ سنت ہونے کا چرچا کیا جائے تو کس قدر حقائق سے چشم پوشی ہوگی ثبوت ملاحظہ ہو ۔
الذريعة:
واورده القمي في الكنى والالقاب، بعنوان الخطب
خوارزم ونقل ما في آخر مناقبه ه من مديح على (ع) بقوله
إِنَّ النَّبِيﷺ مَدِينَةً لِعُلُومِہ
وَعَلىؓ الهَادِي لَهَا كَالْبَابِ
لَوْلاً علىؓ مَا اهْتَدَى في مشكل
عُمرؓ الاصَابَةَ وَالْهُدى لصواب
بالجملة لا شبھةَ فِي أَنَّهُ يُفَضِلُ عَلِيًّاؓ عَلَى غَيرہ مِنَ الصَّحَابَةِؓ وَعَدَهُ في رِسَالَةِ مَشَائِحُ شِيعَة منهم
(الذريعة على تصانيف الشيعه جلد 22 صفحہ 316 م ن الف)
ترجمہ:
القمی نے اپنی کتاب "الکنی و الالقاب" میں اسے اخطب خوارزم کے عنوان سے ذکر کیا اور اسکے مناقب کے اخیر میں بیان کیا کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے بارے میں اس کے تعریفی اشعار یہ ہیں۔
بے شک نبی کریمﷺ علوم کے شہر میں سیدنا علی المرتضیٰؓ ہادی اس کے دروازہ کی مانند ہیں۔
اگر سیدنا علی المرتضیٰؓ نہ ہوتے تو سیدنا عمر بن الخطابؓ مشکل میں نہ صواب پاتے اور نہ راہ ملتا
مختصر یہ کہ اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ خوارزمی سیدنا علی المرتضیٰؓ کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر فضیلت دیتا ہے۔خ اور علامہ القمی نے اپنے رسالہ مشائخ شیعہ میں اسے شیعہ مشائخ میں سے شمار کیا ہے ۔
یہ تھی حقیقت کے خوارزمی سنی نہیں بلکہ شیعہ ہے اس کی ایک کتاب "مناقب اہلِ بیت" کے بہت سے حوالہ جات پیش کر کے کم علم لوگوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے اہلِ سنت کے مشہور عالم نے یہ لکھا وہ لکھا حالانکہ جب خوارزمی کو قمی ایسا شخص مشائخ شیعہ میں سے لکھ رہا ہے تو پھر اس کاسنی ہونا اور اس کی کتابوں کا اہلِ سنت کی معتبرکتاب میں ہونا کس قدر بعید از حقیقت ہے مذکورہ دو حوالہ جات کو غلام حسین نجفی کی کتاب سے پیش کیے گئے تاکہ ان کی روشنی میں اس کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہو جائیں کہ خوارزمی کون ہے اور اس کی عبارات کسی مسلک کی نمائندگی کرتی ہیں درج ذیل ملاحظہ فرمائیں۔
خوارزمی اپنی عبارات کے آئینے میں:
اللہ تعالیٰ نے اپنے نام اعلیٰ سے شیر خدا کے نام سیدنا علیؓ کو مشتق کیا اور سیدنا علیؓ کی ولایت کو اہلِ آسمان اور اہلِ زمین پر پیش کیا جس نے تسلیم کیا وہ مومن اور جس نے انکار کیا وہ کافر ہوا:
عبارت اول:
مقتل الحسين:
وذكر ابنِ شاذ ان هذا حدثنا احمد بِن محمد عبد الله الحافظ حدثني على بِن سنان الموصلى عن احمد بن محمد بن صالح عن سلمان بن محمد عن زياد بن مسلم عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر عن سلامة عن أبي سلمى راعي ابل رسول اللهﷺ قال سمعت رسول اللهﷺ يقول ليلةَ أُسْرِيَ بی إِلَى السَّمَاءِ قَالَ لِي الْجَلِيلُ جَلَّ وَعَلَا "امَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ من ربه" قلت وَالْمُؤْمِنُونَ قَالَ صَدَقْتَ يَا مُحَمد مَنْ خَلَفتَ فِي أُمَّتِكَ قُلْتُ خَيْرَهَا قَالَ عَلى بْنَ أَبِي طَالِبِؓ قُلْتُ نَعم يَا رَبِّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي اطَّلَعْتُ إِلَى الْأَرْضِ اطلاعَةً فَاخْتَرْتُكَ مِنْهَا فَشَقَقْتُ لَكَ اسْمَا مِنْ أَسْمَانِي فَلَا أَذْكَرُ فِي مَوضِع الَّا ذُكِرْتَ مَعِي فَانَا الْمَحْمُودُ وَأَنْتَ مُحَمَّدُ ثُمَّ اطَّلَعْتُ الثَّانِيَةَ فَاخْتَرْتُ عَلِيًّاؓ وَشَقَقْتُ لَهُ اسْمَا مِنْ أَسْمَائی فَأَنَا الْأعْلَى وَهُوَ عَلى يَا مُحَمَّدُ إِنِّي خَلَقْتُكَ وَخَلَقْتُ عَلِيًّاؓ وَفَاطِمَةَؓ وَالْحَسَنَؓ وَ الحسينؓ والائمة مِن ولْدِهِ مِنْ سَنَخِ نُورٍ مِنْ نُورِى وَعَرَضْتُ وَلَا يَتِكُمْ عَلَى أَهْلِ السَّمَوَاتِ وَأَهْلِ الْأَرْضِ فَمَنْ قَبْلَهَا كَانَ عِنْدِي مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ جَعَدَهَا كَانَ عِنْدِي مِنَ الْكَافِرِينَ يَا مُحَمَّدُ لَوْ أَن عَبْدًا مَّنْ عِبَادِي عَبَدَني حَتَّى يَنْقَطِعَ أو يصير كالشنِ البَالِي ثم اتانی جَاحِدَا لوَلَايَتِكُمْ مَا غَفَرْتُ لَهُ حَتَّى يُقرِّبو لَايَتِكُمُ يَا مُحَمَّدٌ اتُحِبُّ أَنْ تَرَاهُمْ قُلْتُ نَعَمُ يَا رَبِّ فَقَالَ لِي الْتَفِتْ عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ فَالْتَفَتْ فَإِذَا أَنَا بِعَليؓ وَفَاطِمَةَؓ وَالْحَسَنِؓ وَالْحُسَيْنِؓ وَعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِؓ و محمد بن على وجعفر بن محمد وموسىٰ بن جعفر و على بن موسى و محمد ابن على وعلى بن محمد والحسن بن على والمهدى
(مقتل الحسين جلد اول صفحہ 95 96 في فضائل الحسنؓ والحسينؓ مطبوعه قم ایران)
ترجمہ:
حضورﷺ کے اونٹوں کا چرواہا ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا جب شب معراج مجھے آسمانوں کی طرف لے جایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا "امن الرسول بما انزل اليه من ربہ" میں نے عرض کیا والمؤمنون فرمایا تونے سچ کہا یا محمد ! تو نے اپنی امت میں کسے خلیفہ چھوڑا ہے عرض کی امت کے بہترین آدمی کو پوچھا کون؟ سیدنا علی بن ابی طالبؓ کو عرض کیا ہاں پھر فرمایا اے محمد! میں زمین کی طرف متوجہ ہوا اور اہلِ زمین میں سے تمہیں میں نے منتخب کیا اور پھر تمہارے لیے اپنے ناموں میں سے ایک نام تجویز کیا لہٰذا جہاں میرا ذکر ہوگا وہاں تیرا بھی ذکر ہوگا میں محمود اور تو محمد ہے پھر دوسری مرتبہ میں متوجہ ہوا تو سیدنا علی بن ابی طالبؓ کو منتخب کر کے انہیں بھی اپنے ناموں میں سے ایک نام دیا میں اعلیٰ اور وہ علی ہے اے محمد! میں نے تمہیں، سیدنا علیؓ سیدہ فاطمہؓ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ اور ان کی اولاد میں سے تمام ائمہ کو اپنے خالص نور سے پیدا کیا اور تمہاری ولایت تمام آسمانوں اور زمین والوں پر پیش کی جس نےاُسے قبول کیا وہ میرے نزدیک مومن ہے اور جس نے انکار کیا وہ کافر ہے اے محمد! اگر میرے بندوں میں سے کوئی بندہ میری تا دم آخر عبادت کرتا ہے یا عبادت کرتے کرتے وہ مشکیزہ کی طرح خشک ہو جائے پھر میرے پاس تمہاری ولایت کا منکر ہو کر آئے میں اس کی اس وقت تک بخشش نہیں کروں گا جب تک وہ تمہاری ولایت کا اقرار نہ کرلے اے محمد کیا تم انہیں دیکھنا چاہتے ہو عرض کی ہاں اے اللہ ! فرمایا تو پھر عرش کی دائیں جانب نظر کرو میں نے دیکھا تو وہاں سیدنا علیؓ سیدہ فاطمہؓ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ علی بن حسن، محمد بن علی جعفر بن محمد موسیٰ بن جعفر ، علی بن موسیٰ، محمد بن علی ، علی بن محمد حسن بن علی اور مہدی وہاں موجود پائے۔
لمحہ فكرية:
مندرجہ بالا اِقتباس میں درج ذیل باتیں مذکور ہیں ۔
- اللہ تعالیٰ نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کو اپنا نام عطا کیا (لہٰذا ان کا کوئی بھی ہمسر نہ ہوا اس سے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ پر افضلیت ثابت ہوئی)
- بارہ اِماموں کی ولایت کو تسلیم کرنے والے مومن اور منکر کافر ہیں ۔
- ائمہ اور خلفاء بارہ ہیں جنہیں بارہ اِمام کہا جاتا ہے ان میں سے پہلے سیدنا علی المرتضیٰؓ اور آخری امام مہدی ہیں ۔
مذکورہ تین نظریات کیا کسی سنی کے ہیں سیدنا علی المرتضیٰؓ کو خلیفہ بلا فصل کہنا اور سیدنا صدیق اکبرؓ و سیدنا فاروق اعظمؓ کی خلافت و امامت کا انکار کرنا کس سنی کا عقیدہ ہے ائمہ اہلِ بیت کی ولائت کے تسلیم اور عدم تسلیم پر ایمان و کفر کا حکم اہلِ سنت میں سے کس عالم یا مجتہد و فقیہ کا قول ہے ؟ لہٰذا ان نظریات کی روشنی میں صاحب مقتل الحسین علامہ خوارزمی کا تشیع بالکل واضح طور پر سامنے آگیا ۔
علاوہ ازیں مذکورہ روایت کی سند میں جن راویوں کا نام ذکر کیا گیا ان آٹھ (سلامہ عبد الرحمن بن یزید زیاد بن مسلم، سلمان بن محمد احمد بن محمد بن صالح ، علی بن سنان ، احمد بن محمد بن عبد الله اور محمد ابن شادان) کا کتب رجال اہلِ سنت میں اول تو نام ہی نہیں ملتا اور اگر ملتا ہے تو اس کے شیوخ و اساتذہ کا نام وہ نہیں جو ذکر کیا گیا اسی طرح لقب اور کنیت وغیرہ میں بھی اشتباہ ہے لہٰذا ایسی سند جو اول تا آخر مجہول راویوں پر مشتمل ہو اسے فرضی اور موضوع ہی کہا جا سکتا ہے شیعہ اسمائے رجال میں ان راویوں میں سے محمد ابنِ شاذان کا نام ملتا ہے اس کنیت کے دو نام وہاں موجود ہیں اور دونوں ہی شیعہ علماء میں سے ہیں ایک فضل بن شاذان اور دوسرا محمد بن احمد بن علی بن حسن شاذان ہے پہلے ابنِ شاذان کے متعلق رجال کشی اور جامع الرواۃ میں یوں مذکور ہے۔
جامع الرواة:
هَذا الشَّيْخُ أَجَلُ مِنْ أَنْ يُغْمَنَ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ رئيس طَائِفَتِنَا أَجَلُّ أَصْحَابِنَا الْفُقَهَاء والمتكلمين
(جامع الرواة جلد دوم صفحہ 5)
ترجمہ:
فضل ابنِ شاذان جلیل القدر عالم ہے جس پر انگشت نمائی نہیں ہوسکتی ہمارے گروہ کا سردار فقہاء اور متکلمین میں سے عظیم المرتبت شخص ہے دوسرے ابنِ شاذان کے بارے میں شیخ عباس قمی نے یوں لکھا ہے
الكنى والالقاب:
ابو الحسن محمد بن احمد بن علی بن الحسن بن شاذان القمى مِنْ أَجَلَ الْعُلْمَاءِ الْإِمَامِيَّةِ الفقیهة يروى عن والده ابي العباس احمد بن عَلَى صَاحِبِ كِتَابِ زَادِ المُسافر والأمالي وكان ابو العباس احمد سمعَ مِنْ مُحَمَّد بن الحسن بن احمد بن الوليد و محمد بن علی ابن تمام الدهقان وكان شيخ الشَّيْعَةِ في وقته۔
(الكنى والالقاب صفحہ 323)
(لسان الميزان جلد اول صفحہ 234 تذکره ابنِ شاذان)
ترجمة:
ابنِ شاذان قمی امامی فقہاء علماء میں سے عظیم عالم تھا اپنے والد ابوالعباس احمد بن علی سے روایت کرتا ہے جو زاد المسافر والامالی کتاب کے مصنف ہے اور ابو العباس نے محمد بن الحسن اور محمد بن علی سے سماع حدیث کیا اور اپنے دور کا شیخ الشیعہ تھا قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ خوارزمی نے جس ابنِ شاذان کا ذکر کیا وہ مؤخر الذکر ہے بہر حال کوئی بھی ہو دونوں اہلِ تشیع کے جید علماء میں سے ہیں اور ان کی مرویات پھر خاص کر مختلفت فیہ مسائل وعقائد میں کب قابل حجت ہو سکتی ہیں اور پھر جب ایسی روایات کے مفاسد کی طرف دیکھا جائے تو ان میں موضوع ہونے کا معاملہ بھی نکھر کر سامنے آجاتا ہے مثلاً سیدنا علی المرتضیٰؓ کی خلافت بلافصل کی جگہ سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ خلیفہ پہلے بن گئے جس سے عملی طور پر ان کی امامت و خلافت کا انکار ثابت ہوتا ہے اور خوارزمی کی روایت کے مطابق ان کی ولائت کا انکار کفر ہے لہٰذا شیخین (معاذاللہ) کافر ٹہرے پھر جب حضورﷺ اپنی صاحبزادیوں کو سیدنا عثمان غنیؓ کے نکاح میں دینا اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کا اپنی صاحبزادی سیدہ ام کلثومؓ کا عقد سیدنا عمر فاروقؓ سے کرنا دیکھا جائے تو معاملہ اور بھی بگڑ جاتا ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ ولایت سیدنا علیؓ پر غاصبانہ قابض ہوئے اور معاذ اللہ منکر ولایت سیدنا علیؓ ہوکر کافر ہو گئے اور سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ایک کافر کو اپنی صاحبزادی نکاح میں دی ہم نے صرف بطور نمونہ ایسی روایات کے مفاسد میں سے ایک کا تذکرہ کیا لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ ایسی روایات حب اہلِ بیت نہیں بلکہ ان سے دشمنی پر مبنی ہیں اور ان کے پیچھے یہودیت کارفرما ہے اب علامہ خوارزمی کی ہم ایک اور عبارت پیش کرتے ہیں جس سے اس کی مذہبی لگن کا اندازہ ہو جائے گا۔
اگر تمام لوگ سیدنا علیؓ کی محبت پر جمع ہو جاتے تو اللہ تعالیٰ دوزخ کو پیدا نہ کرتا:
عبارت دوم:
عن يحيىٰ بن طاهر اليربوعي اخبرنی في ابو معاوية عن ليث بن ابي سليم عن طاؤس عن ابن عباس قال قال رسول اللهﷺ لو اجتمعَ النَّاسُ عَلَى حُبِّ عَلَى لَمَا خَلَقَ اللهُ النَّارَ ۔
(مقتل الحسين جلد اول صفحہ 38 في فضائل امیر المؤمنين مطبوعه قم ايران تذكره في فضائل امير المومنين)
ترجمہ:
سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر تمام لوگ سیدنا علی المرتضیٰؓ کی محبت پر جمع ہو جاتے تو اللہ تعالیٰ دوزخ کو پیدا نہ فرماتا۔
عبارت سوئم:
اخبرنى ابوالفرج حدثنى الحسن بن علی حدثني صهيب بن عباد حدثني ابي عن ابيه على بن الحسين عن أبيه عن على ابن ابی طالب عليه السلام قال قال رسول اللهﷺ أتاني جبريل وَقَدْ نَشَرَ جَنَاحَيْهِ فَإِذَا فِيهِمَا مَكْتُوبٌ على أحَدِهِمَا لا اله إلا الله محمد النبيﷺ وعلى الآخرِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ عَلَى الوَصِيُّ ۔
(مقتل الحسين جلد اول صفحہ 38 في فضائل امير المؤمنين مطبوعه قم ایران)
ترجمة:
سیدنا علی المرتضیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا میرے پاس جبرئیلؑ آیا اور اس نے اپنے دونوں پر پھیلا رکھے تھے اُس وقت اس کے ایک پٙر پر لکھا تھا لا الله الا الله محمد النبیﷺ اور دوسرے پر پر لا اله الا الله علىؓ الوصی لکھا ہوا تھا۔
لمحہ الفكرية:
مذکورہ دونوں عبارات کو یا ان کے ترجمے کو پڑھنے والا بغیر کسی تامل کہ فوراً کہ اُٹھے گا کہ یہ عبارات کسی اہلِ تشیع کی ہیں اور سبھی قارئین جانتے ہیں کہ مذکورہ عبارات ہم نے مقتل الحسین سے نقل کیں جو خوارزمی کی تصنیف ہے لہٰذا واضح ہوا کہ خوارزمی اہلِ سنت کا فرد نہیں اور نہ ہی اس کی یہ کتاب "اہلِ سنت کی کتاب" ہے محض دھوکہ اور فریب دینے کے لیے کچھ لوگ خوارزمی کو سنی اور اس کی کتابوں میں اہلِ سنت کی کتاب کہہ کر ان کے اِقتباسات کو اپنے مذہب پر حجت لاتے ہیں عبارت دوم میں اگر غور کیا جائے تو اس سے دراصل اہلِ تشیع کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں عقیدہ نظر آتا ہے یہ وہ اس طرح کہ ان کے نزدیک تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سوا باقی سبھی سیدنا علی المرتضیٰؓ کے دشمن ہونے کی وجہ سے معاذاللہ جہنم میں گئے کیونکہ اگر ان میں سیدنا علی المرتضیٰؓ سے پیار ہوتا تو وہ کبھی بھی سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کو خلیفہ نہ بنے دیتے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ہی دوزخ تیار کر رکھی ہے معاذ اللہ اور دوسری عبارت سے اپنا کلمہ اور الفاظ اذان ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ایک معتبر سنی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ "علی وصی اللہ" ہیں تو اگر ہم اذان اور کلمہ میں یہ الفاظ زیادہ کرتے ہیں تو اس پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے بلکہ جب یہ الفاظ جبرئیل امینؑ کے پر پر لکھے موجود ہیں تو پھر اس کے اصل اور صحیح ہونے میں کیا کسر باقی رہ جاتی ہے اسی صفحہ پر مزید یہ بھی ہے ۔
عن جابرؓ قال قال رسول اللهﷺ مَكْتُوبٌ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِﷺ عَلَى ابْنُ أَبِي طَالِبٍؓ أَخَو رَسُولَ اللهِﷺ قَبْلَ أَن يُخْلَقَ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضَ بِالْفى عَامَيْنَ
ترجمہ:
یعنی جنت کے دروازے پر محمد رسول اللہﷺ علی بن ابی طالبؓ اخو رسول اللہﷺ زمین و آسمان کے پیدا ہونے سے دو ہزار سال پہلے لکھا ہوا تھا یہ تھی حقیقت حال جیسے دھوکہ دینے کے لیے خوارزمی کو اہلِ سنت کا عالم بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور پھر اپنے من گھڑت کلمے اور اذان کے الفاظ کو اس کی کتابوں سے ثابت کیا جاتا ہے علاوہ ازیں روایت مذکورہ کے افراد اور سند بھی بالکل جعلی اور من گھڑت ہے اس میں سے کچھ کا تو کتب اسماء الرجال میں اتہ پتہ ہی نہیں اس روایت کا مرکزی راوی ابوالفرج لکھا گیا اور کتب اسماء الرجال میں اس کنیت کے دو آدمی ہیں اور دونوں کٹر شیعہ ہیں ملاحظہ ہو ۔
الكنى والالقاب:
على بن الحسين بن محمد المرواني الاموى الزيدي صاحب كتاب الاغانى اورَدَة شيخنا الحر الأملي قدسَ سِرُّهُ فِي أَملِ الأَمَالِ وَقَالَ هُوَ أَصْبَهَاني الْأَصْلِ بَغْدَادِي الْمُكْشَاءِ مِنْ أَعْيَانِ الأَدْبَاء وَكَانَ عَالِمَا رَوَى عن كثير مِنَ الْعُلَمَاءِ وَكَانَ شيعيا۔
الكنى والقاب جلد اول صفحہ 138)
ترجمة:
ابو الفرج اصفہانی علی بن الحسین بن محمد المروانی اموی زیدی کتاب اغانی کا مصنف ہے شیخ حراملی نے اہلِ الآمال میں اس کا تذکرہ کیا اور کہا کہ یہ اصل اصفہانی ہے اور بغداد میں نشو ونما پائی مشہور ادیب تھا بہت سے علماء سے روایت کی اور شیعہ تھا دوسرے ابوالفرج کے بارے میں اسی کتاب کے صفحہ نمبر 140 میں یہ الفاظ لکھے ہیں الشيخ الاقدم محمد بن ابي عمران موسى من علماء الْإِمَامِيَّةِ ثِقَة
ترجمه:
یعنی ابوالفرج شیخ محمد بن ابی عمران موسی فرقہ امامیہ کے مشہور علماء میں سے تھا اور ثقہ تھا ۔
اب خدا بہتر جانتا ہے کہ خوارزمی کے کس ابوالفرج سے روایت کی لیکن جس سے بھی کی وہ پکا شیعہ ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیئے تھا کیونکہ خوارزمی اور ابوالفرج دونوں کا خمیر ملتا ہے اس لیے من گھڑت روایات اور بے تکی باتوں کو حدیث بنا کر پیش کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ان کی عبارات اہلِ سنت پر حجت ہرگز نہیں ہو سکتیں ۔
عبارت چہارم:
عن ابي سعيد الخدريؓ أَنَّ النَّبِيَّﷺ يَوْمَ دَعَا النَّاسَ إِلَى عَلِي فِي غَدِيرِ خمْ أمَرَ بِمَا كَانَتِ الشَّجرَةُ مِنْ شَوكٍ فَقْم وَ ذَالِكَ يَوْمَ الْخَمِيسُ ثُمَّ دَعَا النَّاسُ إلى عَليؓ فَأَخَذَ بِضَبْعِهِ ثُمَّ رَفَعَهُ حَتَّى نَظَرَ النَّاسُ إِلى بَيَاضِ ابْطَيْهِ ﷺ ثُمَّ لَمْ يَتَفَرَقَا حَتى نَزَلَتْ هذه الاية (الْيَوم اکمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَا تُممتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا) ، فقال رسول اللهﷺ اللهُ أَكْبَر عَلَى كَمَالِ الدِّينِ وَأَتمَامِ النِّعْمَةِ وَ رضا الرَّبِّ بِرِسَالَتِي وَوِلَايَةِ عَلَى -
(مقتل الحسين صفحہ 47 جلد اول في فضائل امير المؤمنينؓ مطبوعه قم ایران)
ترجمہ:
سیدنا ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے غدیر خم کے دن بروز جمعرات لوگوں کو سیدنا علی المرتضیٰؓ کی بیعت کے لیے بلایا اور کانٹے دار درخت کے نیچے سب کو اکٹھا کیا آپ نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کے بازو پکڑے اور اوپر اٹھایا حتیٰ کہ لوگوں نے آپؓ کی بغلوں کی سپیدی دیکھی پھر وہ جدا نہ ہوئے تھے کہ الیوم اکملت لكم دينكم الاخ آیت کریمہ نازل ہوئی پھر حضورﷺ نے فرمایا دین کے کامل فرمانے نعمت کے تمام کرنے میری رسالت پر رب کے راضی ہونے اور سیدنا علیؓ کی ولایت پر راضی ہونے پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی ہے۔
نوٹ:
غدیرخم کا تفصیلی واقعہ اور اس واقعہ میں اہلِ تشیع کی قلابازیاں ہم نے تحفہ جعفریہ جلد اول میں واضح کر دی ہیں میں مختصر یہ کہ اس موقعہ پر اہلِ تشیع یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی خلافت بلافصل کا اعلان کیا تھا یہی بات خوارزمی بھی کہ رہا ہے اور دین کی تکمیل کو ولایت سیدنا علی المرتضیٰؓ کے ساتھ مشروط کرکے دیکھا جا رہا ہے اس عبارت سے بھی اس کی شیعیت ٹپک رہی ہے
عبارت پنجم:
قال قال رسول اللهﷺ لما دخلت الْجَنَّةُ رَأَيْتُ فِيهَا شَجخرَةً تَحْمِلُ الْحُلَى وَالْحلَلَ أَسْفَلُهَا خَيْلَ بَلَقَ وَأَوْسَطُهَا حُورَ الْعَيْنِ وَ فِي أَعْلَاهَا الرِّضْوَانَ فَقُلْتُ يَا جِبْرَئِيلُؑ لِمَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةُ قَالَ هذه لابْنِ عَمِكَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى ابْنِ أَبِي طَالِبٍؓ إِذَا أَمَرَ اللهُ الْخَلِيفَةَ بِالْأَحْوَلِ إلَى الْجَنَّةِ يُؤتَى بِشِيْعَةِ عَلَى حَتى يُنْتَهَى بِهِم إلى هذهِ الشَّجَرَةِ فَيَلْبِسُونَ الْحُلِي وَالْحُلَل وَيَرْكَبُونَ الْخَيْلَ الْبَلَقَ وَيُنَادِي مُنَادٍ هَؤُلَاءِ شِيعَةُ عَلَى صَبَرُوا فِي الدُّنْيَا عَلَى الأذى فَحْسِبُوا الْيَوْم
(مقتل الحسين جلد اول من في فضائل امير المؤمنین مطبوعه قم ایران)
ترجمة:
حضورﷺ نے فرمایا میں جب جنت میں داخل ہوا تو ایک درخت زیورات اور پوشاکوں سے بھرا ہوا دیکھا اس کے نیچے ابلق گھوڑے اور درمیان میں حورالعین تھیں اور اس کے اوپر رضوان تھا میں نے جبرئیلؑ سے پوچھا یہ درخت کن کے لیے ہے جبرائیلؑ نے کہا آپ کے چچازاد بھائی سیدنا علی بن ابی طالبؓ کے لیے ہے جب اللہ تعالیٰ آپ کے خلیفہ کو جنت میں داخل ہونے کا حکم دے گا وہ اپنے شیعوں کو لائیں گے اور اس درخت کے قریب آکر اس کے زیورات اور پوشاکیں پہنیں گے اور ابلق گھوڑوں پر سوار ہوں گے آواز دینے والا آواز دے گا یہ ہیں شیعیان علی جنہوں نے دنیا میں تکالیف پر صبر کیا تو آج انہیں اس کا صلہ عطا کیا گیا ۔
عبارت ششم:
عن ابن عباسؓ قال سمعت رسول اللهﷺ يَقُولُ لَيْلَةَ اسْرِي لِي إِلَى السَّمَاءِ ادْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَرَأَيْتُ نورًا ضَرَبَ بِهِ وَجْهِي فَقُلْتُ لجبرئيلؑ ما هذا النُّورُ الَّذِي رَأَيْتُهُ قَالَ يَا مُحَمَّدٌ لَيْسَ هَذَا نُورُ الشَّمْسِ وَلَا نُورُ الْقَمَرِ وَلَكِن جَارِيَةً مِّنْ جَوَارِي عَلَى ابْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ اطَلَعَتْ مِنْ قُصُورِهَا فَنَظَرَتْ إِلَيْكَ وَضُحِكَت فَهُذَا النُّورُ خَرَجَ مِنْ فِيهَا وَهِيَ تَدُورُ فِي الْجَنَّةِ وانْ يَدْخلهَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ .
(مقتل الحسين صفحہ 35 40 جلد اول في فضائل أمير المؤمنينؓ مطبوعه قم ایران)
ترجمه:
سیدنا ابنِ عباسؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ شب معراج مجھے آسمانوں کی طرف لے جایا گیا اور مجھے جنت میں داخل کیا گیا وہاں میں نے دیکھا ایک نور میرے چہرے پر آن پڑا میں نے جبرئیلؑ سے پوچھا کہ یہ نور کیسا ہے جو میں نے دیکھا؟ کہا اے محمدﷺ یہ نہ تو سورج کا نور ہے اور نہ ہی چاند کا نور ہے لیکن سیدنا علی بن ابی طالبؓ کی ایک لونڈی اپنے محل سے جھانکتی ہے اور وہ آپ کو دیکھ کر ہنس پڑی تو یہ نور اس کے منہ سے نکلا ہے اور یہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے داخل جنت ہونے تک اسی طرح پھرتی رہے گی ۔
عبارت ہفتم:
عن عبد الله بن مسعودؓ قال قال رسول اللهﷺ اول مَنَ اتَّخَذَ عَلَى ابن ابي طالبِؓ أَخا مِن أَهْلِ السَّمَاءِ إِسْرَافِيلٌؑ ثُمَّ ميكائيلؑ ثم جبريلؑ وَأَوَّلَ مَنْ أَحَبَّهُ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ حَمَلَةٌ الْعَرْشِ ثُمَّ الرِّضْوَانُ خَازِنُ الْجَنَّةِ ثُمَّ مَلَكَ المَوْتِ وَإِنَّ مَلَكَ المُوتِ يَتَرَحمْ عَلَى مُحِبي علي ابن ابي طالبؓ كَمَا يَتَرَحمُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ
(مقتل الحسين جلد اول صفحہ 39 في فضائل امير المومنينؓ مطبوعه قم ایران)
ترجمه:
سیدنا عبد الله بن مسعودؓ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا آسمان والوں سے سب سے پہلے جس نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کو بھائی بنایا وہ اسرافیلؑ ہے پھر میکائیلؑ اور پھر جبرئیلؑ اور آسمانوں والوں میں سے سب سے پہلے جس نے محبت کرنے والے وہ فرشتے ہیں جو عرش اٹھائے ہوئے ہیں پھر رضوان خازن جنت اور اس کے بعد ملک الموت اور یقینا ملک الموت سیدنا علی المرتضیٰؓ کے محبوں پر دعائے رحمت کرتا ہے جیسا کہ وہ انبیاء کرامؑ کے لیے کرتا ہے
شب معراج اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ سے سیدنا علیؓ کی لغت پر کلام فرمائی کہ جس سے آپ کو پتہ نہ چلا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے کلام فرما رہا ہے یا سیدنا علیؓ سے
عبارت ہشتم:
اخبرنى ابومخنف لوط بن يحيىٰ الازدى عن عبد الله بن عمر قال سمعت رسول اللهﷺ ( وسُئِلَ بِأَي لُغَة خَاطَبَكَ رَبُّكَ) قَالَ خَاطَبَنِي بِلُغَةِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍؓ فَالْهِمْتُ أَن قُلْتُ يَا رَبِّ خاطبتنِي أمْ عَلَى فَقَالَ عَزَّ وَجَلَ يَا أَحْمَدُ أَنَا شَيْ لَا كَالا شَيَاء لَا أَقَاسُ بِالنَّاسِ وَلَا أَوْصَفُ بِالشَّبُهَاتِ خَلَقْتُكَ مِن نؤْرِي وَخَلَقْتُ عَلِيًّا مِن نُّورِكَ فَاطَّلَعْتُ عَلَى سَرَائِرِ قَلْبِكَ فَلَمْ أَجِدُ فِي قَلْبِكَ احَبَّ إِلَيْكَ مِن عَلي بن ابي طالب عليه السلام وخاطبتك بِلِسَانِهِ كَيمَا يَطْمَن قَلْبُكَ .
(مقتل الحسين جلد اول صفحہ 43 في فضائل أمير المؤمنينؓ مطبوعه قم ایران)
ترجمہ:
سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے لوط بن یحییٰ ازدی بیان کرتا ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپ سے پوچھا گیا کہ شب معراج آپ سے اللہ تعالیٰ نے کس لغت سے خطاب کیا فرمایا سیدنا علی بن ابی طالبؓ کی لغت میں اس نے خطاب کیا مجھے الہٰام ہوا کہ میں یوں کہوں کہ اے اللہ تو نے مجھے خطاب کیا یا سیدنا علی المرتضیٰؓ نے؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے احمد میں دینوی چیزوں کی طرح کوئی چیز نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے لوگوں پر قیاس کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی شبہات سے مجھے موصوف کیا جا سکتا ہے میں نے تجھے اپنے نور سے بنایا اور پھر تیرے نور سے سیدنا علی المرتضیٰؓ کو پیدا کیا ہیں نے تیرے دل کے رازوں کو دیکھا تو آپ کے دل میں سیدنا علی بن ابی طالبؓ سے بڑھ کر کوئی محبوب نہ پایا لہٰذا میں نے اُن کی لغت میں تمہیں خطاب کیا تاکہ تمہارا دل مطمئن رہے
لمحہ فكرية:
قارئین کرام مذکورہ عبارت میں غور فرمائیں کس انداز سے خوارزمی نے اپنے قارئین میں شیعیت کا زہر گھولنے کی کوشش کی حقیقت یہ ہے کہ ان روایات میں سے کوئی ایک بھی صحیح نہیں بلکہ موضوع اور من گھڑت ہیں پانچویں نمبر کی روایت سے دراصل خوارزمی یہ کہنا چاہتا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی شخص کتنا بڑا بدکار شرابی زانی اور بدعمل ہو لیکن گر وہ شیعہ ہے تو پھر اس کی اُخروی کامیابی یقینی ہے۔ کیونکہ شیعیان علی کے لیے اللہ تعالیٰ نے زیورات ، پوشاک اور ابلق گھوڑے تیار کر رکھے ہیں بس مرنے کی دیر ہے اور پھر اس شیعہ کو ان بہشتی حلوں میں زیورات پہن کر سیدھا جنت میں پہنچا دیا جائے گا اور منادی ندا کرے گا کہ لوگو! یہ ہیں شیعیان علی جو سنیوں کی تکالیفت برداشت کرتے رہے تو اس فرضی اور موضوع روایت سے خوارزمی نے شیعہ بنے کی ترغیب دی پھر روایت ششم میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کی لونڈی کے چہرہ اور تبسم کرنے کا نور ایسا بیان کیاجسے دیکھ کر سرکار دو عالم حضرت محمد رسول اللہﷺ بھی حیران ہو گئے اور جبرئیلؑ سے پوچھ لیا کہ یہ کس کا نور ہے؟ گویا ایک لونڈی کو سیدنا علیؓ کی لونڈی ہونے کی وجہ سے یہ شرف اور کمال ملا تو جو شخص سیدنا علی المرتضیٰؓ کا شیعہ ہوگا اس کے نور کا کیا کہنا خوارزمی نے اس من گھڑت روایت سے یہ کہنا چاہا کہ لوگو! اگر قیامت میں کچھ نور چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کر شیعیان علی ہو جاؤ اور روایت ہفتم کے مطابق جان کنی کی شدت سے بچنے کا عجیب علاج تجویز کیا وہ یہ کہ اگرتم شیعیان علی بن جاؤ گے تو پھر عزرائیلؑ تمہاری جان نکالتے وقت اس طرح مہربانی اور رحمت سے پیش آئیں گے جس طرح وہ پیغمبروں سے پیش آتے ہیں یعنی شیعیان علی کا مقام حضرات انبیاء کرامؑ کے بالکل قریب ہے آٹھویں روایت مں لوط بن یحییٰ (جو اہلِ تشیع کا ماخذ و مرکز ہے) کے توسط سے تو خوارزمی نے کمال کر دکھایا کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کی شان خود حضورﷺ سے بھی ارفع و اعلیٰ ہوگی اللہ تعالیٰ نے شب معراج حضورﷺ سے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی زبان سے گفتگو فرماکر آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ اس بولنے والے کو سیدنا علیؓ کہوں یا اللہ تعالیٰ کہوں ۔
ان حوالہ جات میں خوارزمی نے وہی نظریات ذکر کیے۔ جواہلِ سنت اور اہلِ تشیع کے مابین تنازع ہیں اور اہلِ تشیع کی نمائندگی کا حق ادا کر دیا ہم نے ایک دو حوالہ جات کی بجائے آٹھ عدد حوالہ جات اس لیے ذکر کیے کیونکہ خوارزمی کی اس کتاب کو بڑے فخر کے ساتھ اہلِ سنت کی مایہ ناز کتاب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور قول مقبول میں غلام حسین نجفی شیعی نے بیسیوں حوالہ جات اس کتاب کے پیش کیے اور اسی عنوان کے ساتھ پیش کیے کہ یہ اہلِ سنت کی معتبر کتاب ہے ان چند حوالہ جات سے آپ بخوبی جان چکے ہوں گے "مقتل الحسین" کس مسلک کے شخص کی تصنیف ہے اور کن نظریات کے پرچار کی مالک ہے ۔
نوٹ:
ابو الموئید خوارزمی کی تصانیف بہت سی ہیں ایک کا تذکرہ ہو چکا دوسری مشہور کتاب "مناقب الخوارزمی" کے نام سے مشہور ہے اور غلام حسین نجفی نے قول مقبول میں اس دوسری تصنیف کے بھی بہت سے حوالہ جات "اہلِ سنت کی معتبر کتاب" کے عنوان سے دیئے ہیں۔ جب ان دونوں کا مصنف ایک خوارزمی ہےبتو پھر یہی دوسری کتاب نہیں بلکہ خوارزمی کی تمام تصانیف کے بارے میں قارئین کرام مطلع ہو چکے ہوں گے کہ وہ اہلِ سنت نہیں بلکہ اہلِ تشیع کی مؤید کتابیں ہیں مناقب خوارزمی کے بارے میں بطور نمونہ ایک مکالمہ پیش خدمت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جبرائیلؑ اسرافیلؑ اور صرصائیل کو سیدہ فاطمہؓ کے نکاح کا گواہ بنایا
قول مقبول
مناقب خوارزمی صفحہ 242 باب 20 کی عبارت ملاحظه ہو ۔
انا صرصائيل بعثني الله اليك لتزوج بالنور فقال النبيﷺ من والى من قال بنتك فاطمةؓ من علىؓ فزوج النبيﷺ فاطمةؓ من علىؓ بشهادة ميكائيلؑ وجبرائيلؑ صرصائيل
(قول مقبول صفحہ90)
ترجمہ:
ایک فرشتے نے عرض کیا کہ میرا نام صرصائيل ہے اور مجھے اللہ نے بھیجا ہے کہ آپ کو یہ حکم خداوندی پہنچاؤں کہ آپ نور کی شادی نور سے فرمادیں حضور پاکﷺ نے فرمایا کس نور کی شادی کون سے نور کے ساتھ فرشتہ نے عرض کیا کہ ایک نور آپ کی بیٹی سیدہ فاطمہؓ ہے ان کی شادی دوسرے نور کے ساتھ جو کہ سیدنا علی بن ابی طالبؓ ہیں نبی کریمﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کی شادی دوسرے نور جناب امیرؓ کے ساتھ فرمادی جبرائیلؑ میکائیلؑ اور صرصائيل کو گواہ بنایا۔
مذکورہ حدیث نے سیدہ فاطمہؓ کے شرف کو چار چاند لگا دیئے ہیں کیونکہ کسی نبی کی بیٹی کی شادی کی خاطر قدرت کی طرف سے خصوصی حکم نہیں آیا اور سیدہ فاطمہؓ بنت رسولﷺ کا رشتہ سیدنا علیؓ کے ساتھ حکم خدا سے ہوا ہے بقول سنی بھائیوں کے کہ نبی پاکﷺ کی تین لڑکیاں اور بھی تھیں اگر تھیں تو ان کی شادی کے لیے وحی کیوں نہ اتری ان کے نکاح کفار کے ساتھ کیوں ہوئے معلوم ہوا کہ بیٹی حضور پاکﷺ کی صرف وہی ہے جس کی شادی کے لیے حکم خداوندی آیا اور یہ عذر کہ شان والی صرف سیدہ فاطمہؓ ہے اس سے سیدنا عثمانؓ کی فضیلت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ جب ان کی کوئی بیوی شان والی نہ تھی تو خود ان کو بلند شان کیسے ملی سیدہ فاطمہؓ کی شادی کے لیے حکم خداوندی جو آیا کہ اے حبیبﷺ تو خود نور کی نور سے شادی کر معلوم ہوا کر سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا علیؓ دونوں نور ہیں اور لقب ذوالنورین دراصل جناب امیرؓ کا ہے سیدنا علیؓ خود بھی نور اور ان کی بیوی بھی نور پس آنجنابؓ ہوئے ذوالنورین اور سیدنا عثمانؓ کے خود نور ہونے کا ثبوت بھی نہیں ملتا۔
(قول مقبول صفحہ 90)
لمحہ فکریہ:
ہمارا مقصد اس عبارت کے پیش کرنے سے یہ ہے کہ خوارزمی کے عقائد اور پھر اسے شیعہ علماء نے کس ڈھٹائی سے اہلِ سنت کا عالم بنا کر پیش کیا یہ بات واضح ہو جائے رہا یہ کہ حضورﷺ کی صاحبزادیاں کتنی تھیں ہم اس کی مفصل بحث لکھ چکے ہیں مختصر یہ کہ ایک باپ کی اولاد بھی یکساں درجہ کی نہیں ہوتی کچھ اسی طرح حضورﷺ کی صاحبزادیوں میں سیدہ فاطمہؓ خاتون جنت افضل واعلیٰ ہیں دوسری درجہ میں ان سے کم ہیں لیکن یہ نہیں کہ وہ آپﷺ کی صاحبزادیاں ہی نہیں تھیں کتب شیعہ میں آپﷺ کی چار صاحبزادیوں کا ثبوت موجود ہے مثلاً وہ "ذبح عظیم" میں ہے کہ سیدنا حسینؓ وہ ہیں جس کے چچے سیدنا جعفر طیارؓ اور سیدنا عقیلؓ ہیں اور خالائیں سیدہ زینبؓ اور سیدہ ام کلثومؓ ہیں ان کے چچوں جیسے کسی کے چچے نہیں ان کی خالاؤں جیسی کیسی کی خالائیں نہیں نجفی کا ذوالنورین کے بارے میں اپنا خیال ظاہر کرنا نری حماقت اور جہالت ہے کیونکہ اس کا معنی ہے دو نوروں والا اب سیدنا علیؓ کو دو نور ملے ہیں ایک سیدہ فاطمہؓ اور دوسرا اپنا نور ملا ہے کیسی بےتکی بات ہے اپنا نور خود اپنے آپ کو ملے کوئی شیعہ اپنی کسی کتاب میں ذو النورین کا لقب سیدنا علی المرتضیٰؓ کے لیے استعمال کر کے دکھا دے تو ہم مان جائیں گے کہ یہ لقب واقعی سیدنا علیؓ کا تھا اور اگر نہ دکھا سکو تو ہم تمہیں تمہاری کتابوں سے یہی لقب سیدنا عثمانؓ کے لیے دکھاتے ہیں.
منتخب التواريخ:
و اما مخدره مکرم سیدہ ام کلثومؓ اسم شریفین ، منه بود و بعد از جناب رقیهؓ بعثمانؓ تزویج شد لذا عثمانؓ را ذو النورین میگویند.
ترجمہ:
یعنی پرده نشین محترمہ سیدہ ام کلثومؓ کو جن کا نام آمنہ ہے سیدہ رقیہؓ کے بعد سیدنا عثمانؓ کے عقد میں آئیں جس کی وجہ سے سیدنا عثمانؓ کو ذوالنورین کہتے ہیں
(منتحب التواريخ صفحہ 25 مطبوعه تہران فصل پنجم و ذکر اولاد آنحضرت مطبوعہ طہران ایران)
خلاصہ یہ کہ خوارزمی پکا شیعہ ہے اور مناقب وغیرہ اس کی تصانیف اس کے مذہب کی آئینہ دار ہونے کی وجہ سے اہلِ سنت کی معتبر کتابیں ہرگز نہیں ہوسکتیں اور ان کتب کی عبارات و روایات بیشتر موضوع اور من گھڑت ہیں جیسا کہ اہلِ تشیع کا وطیرہ ہے اس لیے خوارزمی کی کسی کتاب کا حوالہ یا روایت ہم اہلِ سنت پر حجت اور دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔
فاعتبروا يا اولى الابصار: