المحاضرات مصنفہ حسین ابنِ محمد الراغب اصفہانی
محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحبالمحاضرات مصنفہ حسین ابنِ محمد الراغب اصفہانی
امام راغب اصفہانی کا پورا نام حسین ابنِ محمد ہے شیعوں کا بہت بڑا امام گزرا ہے لیکن کمال چالاکی سے اسے بھی اہلِ سنت کا بہت بڑا عالم کہہ کر اس کی کتابوں کے حوالہ جات ہم اہلِ سنت کے خلاف پیش کیے جاتے ہیں جیسا کہ شیعہ عالم اثیر جاڑوی نے اپنی کتاب جواز متعہ کے صفحہ 68 پر محاضرات راغب اصفہانی کا حوالہ ان الفاظ سے لکھا ہے کہ محاضرات راغب اصفہانی جلد دوم صفحہ 94 میں لکھا ہے کہ عظیم صحابی سیدنا زبیر بن عوامؓ اور جلیل القدر صحابیہ سیدہ اسماءؓ بنت سیدنا ابوبکرؓ خواہر ام المومنین سیدہ عائشہؓ نہ صرف سیدنا عمرؓ کی قولی مخالفت کرتے ہیں بلکہ حکم متعہ کی عملی تفسیر کر کے آپس میں متعہ کرتے ہیں جس سے سیدنا عبداللہ ابنِ زبیرؓ جیسا عظیم القدر ثبوت جنم لیتا ہے ایسی عبارت لکھ کر یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جب اہلِ سنت کے امام نے متعہ کی جواز کا عملی ثبوت پیش کیا ہے تو معلوم ہوا کہ سنی خواه مخواہ متعہ کی حرمت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں حالانکہ عبارت مذکورہ میں اس امر کی کوئی گنجائش نہیں تھی کیونکہ متعہ نکاح شرعی ہرگز نہیں ہوتا اور سیدنا زبیر بن عوامؓ اور سیدہ اسماءؓ بنت ابی بکر کے درمیان نکاح دائمی شرعی تھا لہٰذا نکاح دائمی سے پہلے ہونے والی اولاد کو اولاد متعہ کہنا کس قدر بے ایمانی اور شیطنیت ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح دائمی کو متعہ کے رنگ میں پیش کر کے خود راغب اصفہانی نے دشمن صحابہؓ ہونے کی تصدیق کر دی اسی طرح ایک اور شیعہ غلام حسین نخفی نے بھی راغب اصفہانی کا حوالہ اپنی تصنیف قول مقبول میں ان الفاظ سے نقل کیا ہے
قول مقبول:
اہلِ سنت کی معتبر کتاب محاضرات مؤلف راغب اصفہانی میں لکھا ہے کہ
عبداللہ ابنِ مبارک کان یرمی بالابنة فقال یا امیر المومنینؓ اما احتاج الی رجال یعینونی فقال قد بلغنی ذالك ۔
(حوالہ محاضرات جلد 1 صفحہ 99)
ترجمہ:
حاکم طبرستان نے عبدالمالک سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ کو قاضی بنایا اور یہ عبداللہ علت ابتہ کا مریض تھا اس نے حاکم سے کہا کہ سردار مجھے کچھ مردوں کی ضرورت ہے جو میری مدد کریں حاکم نے فرمایا کہ مجھے اس طلب کی وجہ پہلے معلوم ہے ۔
محاضرات کی عبارت کے تین جوابات:
جواب اول؛
کے محاضرات کا مصنف "راغب اصفہانی" ایک شیعہ مصنف عالم ہے جس کے شیعہ ہونے کی تصدیق شیعہ معتبر کتب میں موجود ہے اگر اس نے سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ پر لواطت (مفعولیت) کی تہمت لگائی ہے تو اس پر کیا تعجب ایسا کرنا اول تو ان لوگوں کی عادت و وطیرہ ہے دوسرا ان کے مذہب میں جب عورت سے لواطت کرنا محبوب مشغلہ ہے تو اس فعل محبوب کا ذکر بھی محبوب ہوتا ہے اس لیے کہ راغب اصفہانی نے اپنا چسکا پورا کرنے کے لیے سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ پر یہ الزام دھرا کے مختصر یہ ہے کہ شیعہ مصنف کی تحریر سے ایک سنی شخصیت کی ذات پر الزام دھرنا حجت نہیں بن سکتا راغب اصفہانی کے شیعی ہونے کی وجہ سے اس کی کتاب بھی ہمارے نزدیک نامعتبر اور اس کی مذکورہ عبارت بھی نا قابل مقبول ہے ۔
اصفہانی کی شیعہ ہونے پر کتب شیعہ سے استدلال:
الکنی والالقاب:
فقال الماھر الخبیر المیرزا عبداللہؓ فی ترجمتہ ونقل الخلاف فی اعتزالہ وتشیعہ ما ھذا لفظہ لکن الشیخ حسن بن علی الطبرسی قد صرح فی آخر کتابہ اسرار الامامۃ انہ ای الراغب کان من حکماء الشیعۃ الامامیة لہ مصنفات فالقة مثل مفردات فی غریب القرآن وافانین البلاغة والمحاضراة ۔
(الکنی والالقاب جلد دوم صفحہ 268مطبوعہ تہران طبع جدید)
ترجمہ:
عالم اور بہت بڑے ماہر عبد الله مرزا نے راغب اصفہانی کے بارے میں کہا کے اس کے معتزلہ اور اہلِ تشیع ہونے میں اگرچہ اختلاف کیا گیا ھے لیکن شیخ حسن بن علی الطبرسی نے اپنی کتاب اسرارالامامة کے آخر میں بالتصریح لکھا کے راغب اصفہانی شیعہ امامیہ حکماء میں سے تھا اس کے بلند پایہ تصنیفات میں سے مفردات فی غریب القرآن افانین البلاغہ اور محاضرات ہیں۔
الذریعہ فی تصانیف الشیعہ:
جامع التفسیر الامام ابو القاسم الحسین بن محمد بن فضل بن محمد الشھیر براغب اصفہانی ذکر فی الریاض اولا وقوع الخلاف فی تشیعہ ثم قال لکن الشیخ حسن بن علی الطبرسی صاحب کامل البھائی صرح فی آخر کتابہ اسرار الامامة انہ کان من حکماء الشیعة الامامہ
( الذریعۃ فی تصانیف الشیعہ جلد 5 صفحہ 45)
ترجمہ:
جامع التفسیر ابوالقاسم حسن بن محمد المعروف راغب اصفہانی کا ذکر الریاض نامی کتاب میں ہے ابتداءً اس کے تشیع میں اختلاف نقل کرنے کے بعد علامہ حسن بن علی طبرسی کا اسرارالامامہ کے آخر سے یہ قول نقل کیاگیا ہے کہ راغب اصفہانی شیعہ حکماء میں سے تھا
الزریعہ فی تصانیف الشیعہ:
الحسین بن محمد بن فضل بن محمد المتوفی کما ارخہ فی اخیار البشر فی سنة اثنتین وخمسمائة المردد ھو بین کونہ معتزلیا او شیعیا وجزء الثانی حسن ابنِ علی صاحب کامل البھائی فی آخر کتابہ اسرارالامامة ولذا ترجمہ صاحب الریاض فی القسم الاول
(الزریعہ فی تصانیف الشیعہ جلد 5 صفحہ 30)
ترجمہ:
حسین بن علی راغب اصفہانی کی تاریخ وفات بحوالہ اخیار البشر سن 502 ہے اگرچہ اس کے معتزلی اور شیعی ہونے میں اختلاف کیا گیا لیکن حسن بن علی نے اسرار الامامہ کے آخر میں اسے شیعہ لکھا ھے اسی لیے صاحب الریاض نے راغب اصفہانی کو قسم اول کے شیعوں میں ذکر کیا ھے
اعیان الشیعہ:
وفی الریاض اختلف فی کونہ شیعا فالعامة صرح بکونہ معتزلیا وبعض الحاضة صرح بذالك ولکن الشیخ حسن بن علی الطبرسی قد صرح فی اخر کتاب اسرار الامامة بانہ کان من حکماء الشیعة فان کثیرا من الناس یظنون انہ معتزلی اقوال یؤید تشیعہ قول من قال انہ کان معتزلی فانہ کثیرا ما یخلطون بین الشیعی والمعتزلی لتوافق فی بعض الاصول ویؤیدہ ایضاً کثرة روایتہ عن ائمة اھل البیت وتعبیرہ عن علی علیہ السلام بامیرالمومنین وقولہ فی محاضراتہ کما فی روضات الجنان قال النبیﷺ لامیرالمومنین الا ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسی غیرا انہ لانبی بعدی وقال انسؓ قال النبیﷺ ان خلیلی ووزیری وخلیفتی وخیرمن اترك من بعد یقضیدینی وینجز موعدی علی بن ابی طالب اترك فقال یحییٰ ابن اقسم للشیخ بالبصرۃ بمن افتیت فی جواز المتعة فقال لعمربن الخطابؓ فقال کیف ھذا وعمرؓ کان اشد الناس فیھا قال لان الخبر صحیحا قد اتا انہ صعد منبر فقال ان الله ورسولہ احل لکم متعتین وانا احرمھما علیکم واعاقب علیکم فقبلنا شھادتہ ولم تقبل تحریمہ ھذا ما نقبل فی (اسروضات عن المحاضرات۔
(اعیان الشیعہ جلد 6صفحہ 160 تذکرة الراغب الاصفہانی)
ترجمہ:
الریاض میں راغب اصفہانی کے شیعی ہونے میں اختلاف مذکور ہے اور عام شیعہ اسے معتزلی کہتے ہیں اور بعض خاص شیعوں نے بھی اس کی تصریح کی ہے لیکن شیخ حسن بن علی طبرسی نے اپنی کتاب اسرار الامامہ کے آخر میں یہ تصریح کی ہے کہ راغب اصفہانی حکماء الشیعہ میں سے تھا بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ معتزلی ہے میں کہتا ہوں کہ اس کی تشیع پر قائل کا یہ قول تائید کرتا ہے کے وہ معتزلی تھا کیونکہ ایسا بہت مرتبہ ہوا ہے شیعہ اور معتزلی کو باہم ملا دیتے ہیں کیونکہ ان دونوں (شیعیت اعتزال) کا بعض اصول میں اتفاق ہے اور اس کے تشیع پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اس کی روایات اہلِ بیت سے بکثرت ہیں جہاں کہیں پہ سیدنا علی المرتضیؓ کا نام لیتا ہے وہاں آپ کے نام کے ساتھ امیر المومنین ضرور لکھتا ہے اور یہ قول بھی کہ اس کی تشیع کی تائید کرتا ہے کہ جیسا کہ روضات الجنان میں اس کی کتاب المحاضرات کے حوالہ سے منقول ہے کہ حضورﷺ نے امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰؓ کو فرمایا کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ تو میرے نزدیک ایسا ہو جائے جیسے حضرت ہارونؑ حضرت موسیؑ کے نزدیک تھا یہ علیحدہ بات ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور سیدنا انسؓ سے ایک روایت یہ بیان کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ میرا دوست میرا وزیر میرا خلیفہ اور میرے بعد والوں میں سب سے بہتر جو میرا قرض ادا کرے گا اور میرا وعدہ پورا کرے وہ سیدنا علی بن ابی طالبؓ ہے یحییٰ بن اقسم نے شیخ کو بصرہ میں پوچھا کہ آپ نے متعہ کے جواز کا فتویٰ کس شخص کہ اعتبار سے دیا ھے؟ کہا سیدنا عمر بن الخطابؓ کے اقوال کی روشنی میں اس نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ سیدنا عمر بن الخطابؓ جواز متعہ کے بارے میں سخت مخالف ہیں جواب دیا کہ صحیح خبر ملی ہے کہ سیدنا عمر بن الخطابؓ ایک مرتبہ منبر پر چڑھے اور تقریر کے دوران کہا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے تمہارے لیے دو متعہ حلال کیے ہیں میں انہیں تم پر حرام کرتا ہوں اور اس پر سزا دیتا ہوں تو ہم نے سیدنا عمر بن الخطابؓ کی گواہی قبول کی اور ان کی تحریم کو نہ مانا یہ روایت بحوالہ محاضرات روضات میں منقول ہے
لمحہ فکریہ:
شیعہ کتب میں ایسی کتابوں کے حوالہ جات پیش کیے ہیں جن کا موضوع ہی یہ ہے کہ اہلِ تشیع کے کون کون علماء گزرے ان کی کیا کیا تصنیفات تھی ان کی کتابوں کے حوالہ جات سے خود شیعہ تسلیم کرتے ہیں کہ راغب اصفہانی ہمارا آدمی ہے اور شیعہ حکماء میں سے ایک ہوا اگرچہ اس کو معتزلی بھی کہا گیا لیکن صاحب اعیان الشیعہ نے اس سے اس کی شیعیت ثابت کر دکھائی اہلِ تشیع کے عقائد باطلہ خبیثہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنی عورتوں سے لواطت کرنی جائز ہے تو اس لیے غلام حسین نجفی نے اپنے اس فعل مرغوب کے تصور سے لذت حاصل کرنے کے لیے سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ کی ذات پر کیچڑ اچھالا ہے حالانکہ سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ اپنے دور کی بے مثل شخصیت تھے شیعہ کتب بھی ان کے تقویٰ اور بتحر علمی کے معترف ہیں ان پر مرض اِبنہ کا الزام دھرنا دراصل خود اس مرض کا مریض ہونا بیان کیا گیا ہے ذرا اپنوں کی زبانی سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ کی شخصیت کو سنیے
الکنی والالقاب:
ابو عبد الرحمن عبداللہ بن المبارک المروزی العالم الذاھد العارف المحدث کان من تابعی التابعین ذکرہ الخطیب فی تاریخ بغداد واثنی علیہ وروی عن ابی اسامہ قال ابن المبارک فی اصحاب الحدیث مثل امیر المومنینؓ فی الناس وعن ابن مھدی قال کان ابن المبارک اعلم من سفیان الثوری وعن ابن عیینہ قال نظرت فی امر الصحابة وامر ابن المبارکؓ فما رائیت لھم علیہ فضلا الابصحبتھم النبیﷺ وغزوھم معہ وعن عمار بن الحسن انہ مدح ابن المبارک وقال
اذا سارعبداللہ من مرو لیلۃ
فقد سار منھا نورھا وجمالھا
اذا ذکر الاحبار فی کل بلدۃ
فھم انجم فیھا وانت ھلالھا
یحکی انہ احسن الی علویۃ ملھوفۃ فرا فی المنام انہ یخلق الله تعالیٰ علی صورتہ ملکا یحج عنہ کل عام وروی انہ قال لابی جعفر محمد بن علی باقر(ع)قد اتیتك مسترقا مستعبدا فقال قبلت واعتقہ وکتب لہ عھدا حکی الامیری انہ استعار قلما من الشام فعرض لہ سفر فسار الی انطاکیہ وکان قد نسی القلم معہ فذکرہ ھناك فرجع من انطاکیہ الی الشام ماشیا حتی ردہ القلم صاحبہ وما دو روی الخطیب انہ الستعار قلما بارض الشام فذھب الیہ صاحبہ فلما قدم مرو نظر فاذا ھو معہ فرجع الی ارض الشام حتی ردہ علی صاحبہ۔
(الکنی والالقاب جلد 1 صفحہ 400)
ترجمہ:
کہ سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ بہت بڑے عالم زاہد عارف اور محدث گزرے ہیں آپ تبع تابعین میں سے تھے خطیب نے تاریخ بغداد میں ان کا تذکرہ کیا ہے اور ان کی شان بیان کی ابو اسامہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابنِ مبارکؓ کا مقام محدثین کرام میں یوں جیسا کہ عوام میں امیر المومنینؓ کا ہوتا ہے ابنِ مہدی سے منقول ہے کہ سیدنا ابنِ مبارکؓ کو انہوں نے سفیان ثوری سے بڑا عالم کہا ہے ابنِ عینیہ سے منقول ہے کہ میں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ابنِ مبارک کے معاملہ میں غور و فکر کیا تو مجھے یہی نظر آیا کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضورﷺ کی صحبت مبارکہ اور آپ کی معیت میں غزوات میں شرکت یہ دو باتیں باعث فضیلت ہیں اور عمار بن الحسن نے سیدنا ابنِ مبارکؓ کی تعریف میں کہا ہے کہ جب مرو سے سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ نے رات کو سفر کیا تو یقینا مرو سے اس کے نور و جمال نے سفر کیا جب ہر شہر میں اس کے جید علماء کا تذکرہ کیا جائے تو وہ ستارے ہیں اور سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ ان کے چاند ہیں بیان کیا گیا کہ سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ نے ایک دفعہ غریب علوی عورت کی مدد کی اس نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابن مبارک کی صورت میں ایک فرشتہ پیدا کیا جو ہر سال ان کی طرف سے حج کرتا ہے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا ابوجعفر محمد بن علی الباقرؓ کو عرض کیا کہ میں آپ کے ہاں غلام اور نوکر بن کر حاضر ہوا ہوں آپ نے فرمایا کہ میں نے قبول کیا پھر آزاد کر دیا اور ایک عہد نامہ بھی تحریر فرما دیا کہ دمیری نے بیان کیا ہے کہ سیدنا ابنِ مبارکؓ نے شام میں کسی سے قلم ادھار لیا پھر سفر درپیش ہوا اور انطاکیہ چلے آئے أتے وقت قلم دینا بھول گئے انطاکیہ پھنچ کر یاد آیا فوراً انطاکیہ سے پیدل چل کر شام آئے اور قلم اس کے مالک کے سپرد کیا اور واپس انطاکیہ آگئے خطیب نے روایت کیا کہ انہوں نے سرزمین شام میں کسی سے قلم ادھار لیا لیکن قلم دینا بھول گئے اور مرو میں جا کر دیکھا کہ وہی قلم ان کے پاس موجود ہے تو وہاں سے واپس شام تشریف لائے اور قلم والے کے قلم سپرد کر دیا
تہذیب التہذیب:
قال ابو الخاتم عن اسحاق بن محمد بن ابراھیم المروزی نعی ابن المبارک الی سفیان بن عیینہ فقال لقد کان فقیھا عالما عابدا ذاھد شیخا شجاعا شاعر وقال فضیل بن عیاض اما انہ لم یخلف بعدہ مثلہ وقال ابو اسحاق الفرازی ابن المبارك امام المسلمین وقال سلام بن ابی مطیع ماخلف بالمشرق مثلہ وقال اسماعیل بن عیاش ما علی وجہ الارض مثل ابن المبارك ولا اعلم ان الله خلق خصلة من خصال الخیر الا وقد جعلھا فیہ وکان ینفق علی الفقراء فی کل سنة مائة الف درھم ومناقبہ وفضائلہ کثیرة جدا وقال الحسن بن عیسیٰ کان مستجاب الدعوات وقال العجلی ثقہ ثبت فی الحدیث رجل صالح وکان جامعا للعلم وقال ابن حبان فی الثقات کان فیہ خصال لم تجتمع فی احد من اھل العلم فی زمانہ فی الارض کلھا
(تہذیب التہذیب جلد 5صفحہ 385 تا 386)
ترجمہ:
ابو حاتم نے اسحاق بن محمد بن ابراہیم المرزوی سے بیان کیا کہ جب سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ کے انتقال کی خبر سیدنا سفیان بن عیینہؓ کو پہنچی تو انہوں نے کہا کہ وہ بہت بڑا فقیہ عالم عابد زاہد شیخ اور بہادر اور شاعر تھا فضیل بن عیاض نےکہا کہ سیدنا ابنِ مبارکؓ نے اپنے بعد اپنی مثل نہیں چھوڑی ابو اسحاق فرازی کا قول ہے کہ سیدنا ابنِ مبارکؓ امام المسلمین تھے سلام بن ابی مطیع نے کہا ہے کہ مشرق میں انہوں نے اپنی مثل پیچھے نہ چھوڑی اسماعیل بن عیاش کا قول ہے کہ روئے زمین پر سیدنا ابن مبارکؓ کی مثل نہیں ہے اور میرے علم میں ایسی کوئی خصلت نہیں ہے جو اچھی ہو اور سیدنا ابن مبارکؓ میں نہ پائی جاتی ہو آپ فقیروں پر ہر سال ایک لاکھ درہم تقسیم فرمایا کرتے تھے اور آپ کے فضائل و مناقب کے فہرست بہت طویل ہے حسن بن عیسیٰ نے آپ کو مستجاب الدعوات بتایا ہے عجلی نے کہا کہ آپ ثقہ اور حدیث میں پختہ تھے صالح مرد تھے علم کے جامع تھے ابنِ حبان نے انہیں ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان میں ایسی خصلتیں تھیں جو اس دور کے کسی عالم میں مجتمع نہ تھی
قارئین کرام!
سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ کی شخصیت کتب شیعہ اور سنی دونوں میں سے ہم نے واضح کی ہے اور سب اس پر متفق ہیں کہ آپ بڑے مجاہد زاہد اور علم کے بے کفار سمندر تھے آپ اپنے دور کے بے مثل علمی اخلاقی شخصیت تھے وہ مستجاب الدعوات تھے ہاں ہوسکتا ہے کہ اصفہانی نے اس لذت اور ثواب کو حاصل کے لیے سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ کا نام لے دیا ہو کہ چونکہ اہلِ تشیع کے مسلک میں وطی فی دبر محبوب مشغلہ ہے اور اس لیے ان کے ہاں مرض اِبنہ کے مریض کی یہ شان ہو کے اس کے نزدیک ایک دفعہ مفعول بننے پر ایک فرشتہ پیدا ہو تو قیامت تک اس کی طرف حج کرتا رہے (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ) منہج الصادقین جلدوم آخری صفحہ پر آپ متعہ کے فضائل اگر دیکھیں تو حیران و ششدر ہو جائیں گے کہ لکھا ہے کہ متعہ کرنے والا مرد اور عورت جب اس کی خاطر ایک دوسرے کو ہاتھ لگاتے ہیں تو ان کے ہاتھوں کے تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں پھر جب جماع ہوتا ہے تو ایک حرکت پر 70 ہزار نیکیاں ملتی ہیں اور یہ دونوں غسل کرتے ہیں تو پانی کے ہر قطرے پر ایک ایک فرشتے پیدا ہوتے ہیں جو قیامت تک ان دونوں کے لیے استغفار کرتا رہتا ہے جب متعہ کے غسل پر فرشتے پیدا ہوں تو مرض اِبتہ کے رسیا پر بھی ضرور پیدا ہونے چاہیں لیکن صرف اہلِ تشیع کے فاعل و مفعول کے فعل سے نہ کہ اہلِ سنت کے مسلک حقہ کے مطابق کیونکہ حرام بہرحال حرام ہے اور اس سے فرشتوں کی پیدائش کو منسلک کرنا بے دینی اور شریعت کا استہزا ہے
فاعتبروایااولی الابصار:
جواب دوم:
کے اِبن کا لغوی معنی عیب اور عداوت آیا ہے عیب میں سے کوئی مخصوص عیب اس کا معنی نہیں ہے اس لیے کہ جب عیوب کی مختلف اقسام ہیں تو ان سب کو چھوڑ کر صرف مفعولیت کا اس سے مراد لینا غلام حسین نجفی ایسے ذلیل ترین شخص کا ہی کام ہے حالانکہ اس نے جو محاضرات سے عبارات نقل کی ہے اس میں سیدنا عبد اللہ بن مبارکؓ کے حوالے سے یہ بیان مذکور ہے کہ انہوں نے بادشاہ وقت سے کہا کہ کچھ لوگوں کو مجھ سے عداوت ہے لہٰذا مجھے چند محافظ دیئے جائیں خبث باطنی کی وجہ سے نجفی نے معنی کچھ یوں کیا کہ مجھے مردوں کی ضرورت ہے جو میری مدد کریں یعنی میرے ساتھ لواطت کریں میں ان کا مفعول بنوں بادشاہ نے کہا کہ میں اس بات کو پہلے سے ہی جانتا ہوں الخ جب لفظ اِبن کا معنی مفعول بننا نہ معروف ہے نہ عام تو پھر دوسرے معنی چھوڑ کر اسے ہی کو اختیار کرنا بدباطنی کی علامت نہ ہوگی تو اور کیا ہوگی لغت کی کتب میں اس لفظ کے معانی عیب اور عداوت کے ہیں چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں
لسان العرب:
وفی حدیث ابی ذر انہ دخل علیؓ عثمان بن عفانؓ فماسبہ ولا ابنہ ای ما عابہ ویقال بینھم ابن ای عداوۃ
(لسان العرب جلد 13 صفحہ3 تا4 حروف نون مطبوعہ بیروت)
ترجمہ:
سیدنا ابوذرؓ کی حدیث میں ہے کے وہ سیدنا عثمان بن عفانؓ کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے انہیں ناگالی دی اور ناعیب لگایا اور کہا جاتا ہے کہ ان کے درمیان اِبن ہے یعنی عداوت ہے
تاج العروس:
وابنہ تعبینا ای عابہ فی وجھہ وعتیرہ ومنہ حدیث ابی ذر انہ دخل علیؓ عثمانؓ فاسبہ ولاابنہ الحقد والعداوۃ یقال بینھم ابن
( تاج العروس جلد 9 صفحہ 116 باب النون)
ترجمہ:
کےاس نے دوسرے کو اِبن یعنی عیب لگایا ہے یعنی کہ چہرہ میں عیب لگایا اور اسے شرم دلائی اسی سے سیدنا ابوذرؓ کی حدیث ہے اور وہ سیدنا عثمانؓ کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے انہیں ناگالی دی اور ناعیب لگایا حسد اور عداوت بھی اس کا معنی ہے کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کے درمیان ابن ہے یعنی عداوت ہے ۔
المنجد:
الابنة عیب کینہ لکڑی کی گرہ کہا جاتا ھے بینھم ابن ان کے درمیان دشمنیاں ہیں فی حسبہ ابن ان کے حسب میں بہت سے عیب ھیں
( المنجد صفحہ 57 حرف ابنِ)
مجمع البحرین:
والمابون المعیب والابنۃ العبب ولایوبن ولایعاب
(مجمع البحرین جلد 6 صفحہ 197 لفظ اِبن متبوعہ تہران)
ترجمہ:
بون کا معنی عیب لگایا ہوا ہے اور اِبنۃ عیب کو کہتے ہیں لایأبن یعنی لا یعیب (وہ عیب نہیں لگاتا) ہے
تاج العروس:
قال زمحشری ابنہ مدحہ وعد محاسنہ
(تاج العروس جلد 9 صفحہِ 117)
(فصل الھمزہ باب نون مطبوعہ مصر)
ترجمہ:
کے زمحشری نے کہا کہ اِبنة کا معنی یہ ہے کہ اس نے فلاں کی تعریف کی اور اس کی خوبیاں شمار کی
قارئین کرام!
مختلف کتب لغت سے لفظ ابن کے معنی آپ نے ملاحظہ فرمائے ہیں عیب کینہ لکڑی کی گرہ دشمنی اور تعریف سبھی اس کی لغوی معانی ہیں ان تمام معنی میں سے تعریف کرنا اور خوبیاں شمار کرنا بھی ہے پھر عیب کی کوئی خاص قسم اس کے معنی میں ملحوظ نہیں ہے ان حقائق کے پیش نظر نجفی نے اپنے مسلک کی کتاب کو بھی چھوڑ کر اور وحید الزمان غیر مقلد کے بیان کردہ معنی کو لے بیٹھا اسے کون عقلمند تسلیم کرے گا وحید الزمان بھی تو اسی کا ساتھی عقیدہ شیعیت میں اس سے کم نہیں یار کوئی یار مل ہی جاتا ہے تو معلوم ہوا کہ جب لفظ ابن کے چند معنی ہے تو اس کے معنی متعین کرنے کے لیے عبارت کے سیاق و سباق کو دیکھنا پڑے گا جیسا کہ حدیث سیدنا ابوذرؓ میں اگر نجفی والا ہی معنی کریں بینہم ابن کا یہی مذکورہ معنی کیا جائے تو بالکل نجفی بھی تسلیم نہیں کرے گا سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ کے بارے میں لفظ اِبن سے کیا معنی مراد ہے اس کے لیے بھی ہمیں سیاق و سباق کا سہارا لینا پڑے گا جیسے کہ لفظ صلوۃ کے مختلف معنی ہیں دعا نماز درود شریف اور چوتڑوں کا حرکت دینا اور ان میں سے ہر ایک معنی سیاق و سباق ہی سے ہی متعین کرنا پڑے گا حافظواعلی الصلوات کا معنی نجفی یوں کرےگا
اے شیعو! نے چوتڑ ہلانے پر مداومت اور حفاظت اختیار کرو جبکہ صلوۃ کا معنی چوتڑ ہلانا یہاں نہیں کرے گا تو پھر سیاق و سباق کو ہی دیکھا جائے گا لفظ اِبن میں بھی یہاں قاعدہ جاری ہوگا
جواب سوم:
کے محاضرات کے جس سے نجفی نے عبارت نقل کی ہے اس کے بارے میں یہ سب کو معلوم ہے کہ عربی ادب کی کتاب ہے سیرت اور سوانخ نگاری اس کا موضوع نہیں جیسا کہ مدارس دینیہ میں عربی ادب سمجھنے کے بارے میں یہ سب کو معلوم ہے کہ سبعہ معلقہ وغیرہ کتب داخل نصاب ہیں ان میں ایک لفظ کو مختلف معانی میں استعمال کیا جانا بتایا ہے کہیں وہ مدح کے رنگ میں کہیں وہ ہجو کے رنگ میں اور کہیں مرثیہ کی صورت میں مذکور ہوتے ہیں ایک شاعر اگر کسی وقت کسی سے خوش ہو کر اس کے بارے میں تعریف کرتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملا ڈالتا ہے یا مذمت کرتے ہوئے اسے بدترین مخلوق سے بھی گھٹا دیتا ہے تو اس کا یہ طریقہ حقیقت شناسی کے لیے حجت نہیں بنتا بلکہ اگر وہ فصیح و بلیغ و شاعرہےتو اس کی فصاحت و بلاغت سے اس کے کلام سے کچھ باتیں اخذ کی جاتی ہیں جو کہ کلام کی فصاحت و بلاغت کی دلیل بن سکتی ہیں سبھی جانتے ہیں کہ حضورﷺ کی کفار و مشرکین سے ہجو کی آپ نے سیدنا حسان بن ثابتؓ کو ان کی ہجویات کے جواب دینے کے لیے مقرر فرمایا تو کیا کفار نے ہجویات میں جو باتیں نبیﷺ کے بارے میں بکی ان کو بطور استشہاد پیش کرنا خود کفر سے کیا کم ہے اور صاحب محاضرات کے موضوعات کچھ یوں مذکور ہیں ۔
المھجو باخذ الرشوۃ المھجو من القضاۃ باللواطت المھجو منھم بالابنۃ والکشح
یعنی رشوت لینے کی وجہ سے جن کی ہجو کی گئی ہے اسے قاضی کی جن کی لواطت کی وجہ سے ہجو کی گئی ہے وہ کہ جن کی عداوت اور کینہ سےہجو کی گئی ہے اگر اِبنہ کا معنی لواطت ہی ہوتا جیسا کہ نجفی نے کی ہے تو سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ پر اس کا الزام المھجو من القضاۃ باللواطت کے تحت آتا لیکن ایسا نہیں ہے اب ہم دیکھتے ہیں کہ ابنہ اور کشخ دونوں کو ایک ہی موضوع کے تحت لایا گیا ہے ان میں کون سی قدر مشترک ہے اور اِبن کا معنی آپ پڑھ چکے ہیں کہ اب کشخ کے معنی سنیے
لسان العرب:
والکاشخ المتولی عنك یودہ ویقال طوی فلان کشحہ اذاقطعك وعاداك ومنہ قول الاعشی وکان طوی کشحا واب لیذھب قال الازھری یحتمل قولہ وکان طوی کشحا ای عزم علی امر واستمرت عزیمتہ ویقال طوی کشحہ عنہ اذا اعرض عنہ وقال الجوھری طویت کشحی علی الامر اذا اضمرتہ وسترتہ والکاشح المبغض العدو والکاشح الذی یضمرك العداوۃ یقال کشح لہ بالعداوۃ وکاشحہ بمعنی قال ابن السید والکاشح العدو والباطن العداوۃ کانہ یطویھا فی کشحہ اوکانہ یولیك کشحہ ویعرض عنك بوجھہ
( لسان العرب جلدوم صفحہ 582 لفظ کشح مطبوعہ بیروت)
ترجمہ:
کاشح وہ شخص جو اپنی محبت کی وجہ سے تجھ سے پھرنے والا ہو کہا جاتا ہے کہ فلاں نے اپنی کشح لپیٹ لی جب وہ تجھ سے قطع تعلق کرے اور وہ تیرا دشمن بن جائے اسی سے اعشی کا قول ہے کہ اس نے پہلو تہی کی اور جانے کا ارادہ کر لیا ازہری نے کہا کہ تو طوی کشحا میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس نے فلاں کام کرنے کا عزم کرلیا اور اس کی عزیمت لگاتار ہے اور کہا جاتا ہے کہ طوی کشح عنہ جب وہ اس سے منہ پھیرلے جوہری نے طویت کشحی علی الامر کا معنی یہ کیا ہے کہ میں نے فلاں کام کو پوشیدہ اور چھپا لیا ہے کاشح کے معنی بغض و عداوت رکھنے والا بھی ہے اور کاشح وہ شخص ہے جو دشمنی چھپا کر کرتا ہے گویا کہ اس نے دشمنی بغل میں چھپا لی ہے یا اس لیے کہ وہ تجھ سے اپنا پہلو پھیر لینا چاہتا ہے اور منہ موڑ لینا چاہتا ہے
قارئین کرام!
لفظ اِبن اور کشح کے جن دونوں کو ایک موضوع بنایا گیا ہے کہ معنی آپ نے ملاحظہ فرمائے جن کا خلاصہ یہ کہ یہ دونوں لفظ خفیہ عداوت کے معنی میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں اب سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ کے بارے میں ان الفاظ کی پیش نظر یہ کہنا تو مناسب ہوگا کہ کچھ لوگوں سے آپ کو یا کچھ لوگوں کو آپ سے خفیہ عداوت تھی جن کی بنا پر وہ لوگوں سے پہلو تہی کرتے تھے یعنی عوام سے دور رہنا یا عوام کا ان سے دور رہنا ان میں عیب تھا جس کو شاعر نے ہجو کے طور پر بیان کیا ناکے اس سے مراد مفعولیت تھی تو موضوع میں لفظ کشح کو اِبنہ کے ساتھ ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ابنہ سے مراد عداوت ہی ہے اور لواطت کے موضوع میں ان اشعار کو ذکر نہ کرنا جن میں لفظ اِبنہ آیا ہے اس بات کی دلیل ہے اِبنہ سے مراد لواطت یا مفعولیت نہیں ہے
فاعتبروایااولی الابصار