کفایۃ الطالب مصنفہ محمد بن یوسف بن محمد قرشی گنجی
محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحبکفایۃ الطالب مصنفہ محمد بن یوسف بن محمد قرشی گنجی
محمد بن یوسف بن محمد قرشی گنجی صاحب کفایۃ الطالب کے حالات
غلام حسین نجفی شیعی نے اپنی تصنیف قول مقبول میں بہت سے مقامات پر کفایت الطالب کے حوالہ جات پیش کیے اور کہا کہ یہ اہلِ سنت کے معتبر کتاب ہے اس طرح اس نے بزعم خود اپنے باطل عقائد کو ان حوالہ جات سے سہارا دینے کی کوشش کی حالانکہ اس کتاب کا مصنف محمد بن یوسف بن محمد قرشی گنجی خود شیعہ ہے اس نے اپنے مسلک کی بھرپور تائید میں کئی ایک باتیں لکھیں جن کا اہلِ سنت کے معتقدات سے کوئی تعلق نہیں ذیل میں چند عبارات ملاحظہ ہوں۔
سیدہ فاطمہؓ کے زفاف کے وقت فرشتوں نے تکبیریں کہیں لہٰذا ایسے وقت تکبیریں کہنا سنت ٹھہرا
عبارت نمبر 1 کفایۃ الطالب
قال فلما کان من الیل بعث رسول اللهﷺ الی سلمان فقال یا سلمان ائتنی ببغلتی الشھباء فاتاہ ببغلتہ الشھباء فحمل علیھا فاطمة فکان سلمان رضی اللہ عنہ یقود ورسول الله ﷺ یقوم بھا فینا ھو کذالك اذا سمع حسا خلف ظھرہ فالتفت فاذاھو بجبرئیل ومیکائیل واسرافیل فی جمع کثیر من الملئکة فقال یا جبرئیل وماانزلکم قالوانزلنانزف فاطمہؓ الی زوجھا فکبر جبرییل ثم کبر میکائیل ثم کبر اسرافیل ثم کبرت الملئکۃ ثم کبر النبیﷺ ثم کبر سلیمان الفارسی فصار التکبیر خلف العرائیس سنة من تلك اللیلة۔
(کفایۃ الطالب صفحہ 303)
ترجمہ:
بیان کیا ہے کہ جب رات کا وقت آیا تو رسولﷺ نے سیدنا سلیمان فارسیؓ کو بلوایا جب آئے تو انہوں نے فرمایا سلیمانؓ میرا خچر شہباء لاؤ وہ لے آئے تو آپ نے اس پر سیدہ فاطمہؓ کو بٹھایا سیدنا سلیمانؓ اس کے آگے سے پکڑے ہوئے تھے اور حضورﷺ اس کی نگرانی فرما رھے تھےاسی دوران ایک آواز محسوس ھوئی جو پشت کی طرف سے آرھی تھی آپﷺ نے مڑکر دیکھا تو جبرئیلؑ میکائیلؑ اور اسرافیلؑ بہت سے فرشتوں کی جماعت کے ساتھ اترے تھے پوچھا کہ اے جبرئیلؑ تم کیوں آئے ہو کہا کے سیدہ فاطمہؓ کو ان کے زوج کی طرف زفاف کے لیے آئے ہیں جبرائیلؑ نے اس کے بعد تکبیر کہی پھر میکائیلؑ اسرافیلؑ پھر تمام موجود فرشتوں نے پھر نبیﷺ اور پھر سیدنا سلیمان فارسیؓ نے تکبیریں کہیں اور پس اس رات کے واقعہ کے بعد بارات کے پیچھے تکبیریں کہنا سنت ہو گیا۔
نوٹ:
اتکبیر خلف العرائس سنة جو کفایۃالطالب میں ابھی آپ نے پڑھی یہی نظریہ کتب شیعہ میں موجود ہے ملاحظہ ہو۔
جلاءالعیون:
چوں شب زفاف شدہ جبرئیل و میکائیل و اسرافیل باہفتاد ہزار ملک بزیر آمدند دلدلرا برائے فاطمہؓ آور وند جبرئیل لجام آنرا گرفت و اسرافیل رکاب را گرفت و میکائیل استادہ بود در پہلوۓ دلدل حضرت رسولﷺ جامہائے اور ادرست میکردپس جبرئیل و میکائیل و اسرافیل و جمیع الملائکہ تکبیر گفتند و سنت جاری شددر تکبیر گفتن در زفاف تاروز قیامت ۔
(جلاء العیون جلداول صفحہ 193)
ترجمہ
جب زفاف کی رات آئی جبرئیلؑ میکائیلؑ اسرافیلؑ اور ان کے ساتھ 70 ہزار فرشتے زمین پر آئے سیدہ فاطمہؓ کے لیے دلدل کو تیار کیا جبرئیلؑ نے لگام تھامی اسرافیلؑ نے رکاب پکڑی اور میکائیلؑ دلدل کے پہلو میں کھڑے ہوگئے اور حضورﷺ سیدہؓ کے کپڑے درست کر رہے تھے پس جبرئیلؑ میکائیلؑ اسرافیلؑ اورتمام فرشتوں نے تکبیریں کہی اور زفاف کے وقت تکبیر کہنا تاقیامت سنت ہو گیا۔
لمحہ فکریہ:
کفایت الطالب اورجلاءالعیون دونوں کی تحرر ایک ہی مسئلہ کو مختلف الفاظ سے واضح کر رہی ہے یہ سبہی جانتے ہیں کہ زفاف کے وقت تکبیر کہنا اہلِ تشیع کا مسلك ہے لہٰذا محمد بن یوسف قرشی گنجی اس نظرئیے کی وجہ سے سنی نہیں اس لیے کہ نجفی کا اسے معتبر اہلِ سنت قرار دینا دھوکہ ہے اور غلط بیانی ہے۔
جن پر سیدنا علیؓ ناراض ہو وہ شیطانی نطفہ ھے: عبارت 2 کفایة الطالب:
عن ابن عبد اللہ قال قال علی ابن ابی طالب رایت النبی ﷺ عند الصفاء وھو مقبل علی شخص فی صورۃ لفیل ملك یلقفہ فقلت ومن ھذا یا رسول اللہ ﷺ؟قال ھذاالشیطان الرجیم فقلت واللہ لاقتلنك ولاریحن الامة منك قال ماھذا واللہ جزائی منك قلت وما جزاءك منی یا عدواللہ ؟قال واللہ ما ابغضك احد قط الا شارکت اباہ فی رحم امہ۔
( کفایۃ الطالب صفحہ 70)
ترجمہ:
سیدنا ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا کہ میں نبی ﷺ کو صفا کے قریب ایک ہاتھی کی شکل کے انسان کی طرف متوجہ کھڑے دیکھا آپ اسے تلقین فرما رہے تھے کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ کون ہے فرمایا شیطان مردود ہے میں نے کہا خدا کی قسم اے اللہ کے دشمن میں تجھے ضرور قتل کر دوں گا اور امت محمدیہ کو تجھ سے نجات دے دوں گا شیطان بولا کہ خدا کی قسم تمہاری طرف سے میرا یہ جزا نہیں پوچھا کہ وہ کیا ہے کہنے لگا کہ خدا کی قسم جو بھی تم سے بغض رکھے گا میں اس کے باپ کے نطفہ میں شکم مادرکے اندر شریک ہو جاؤں گا۔
توضیح
روایت مذکورہ کا خلاصہ یہ ہوا کہ جس پر سیدنا علیؓ ناراض ہوں یا جو آپ سے بغض رکھے وہ شیطانی نطفہ سے یعنی شیطان نے اس کے باپ کے جماع کرتے وقت جماع میں شرکت کر لی تھی یہ عقیدہ بھی شیعہ خرافات میں سے ہے کہ صاحب کفایت الطالب نے اس کی تخریج تاریخ بغداد جلد سوم میں صفحہ290 سے کی ہے وہاں اس واقعہ کے ساتھ یہ بھی موجود ہے کہ اس کا راوی محمد بن مزید بن محمود غالی شیعہ تھا یہی کفایت الطالب کا حوالہ نجفی نے قول مقبول صفحہ 456 پر درج کرکے ثابت کیا کے جن سے سیدنا علیؓ ناراض ہوں وہ نطفہ شیطانی ہیں تو جب صاحب کفایت الطالب خود شیعہ اور اس واقعہ کے اصل راوی بھی غالی شیعہ تو پھر یہ اہلِ سنت پر حجت کیونکر ھوگا اسے اہلِ سنت کی معتبر کتاب کے عنوان سے پیش کرنا نہایت حماقت اور پرلے درجے کی بددیانتی ہے ۔
عرش پر شیعوں کا کلمہ لکھا ہوا ہے
عبارت 3 کفایۃ الطالب
عن ابی ھریرة قال مکتوبة علی العرش لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وحدی لا شریک لی ومحمد عبدی ورسولی ایدتہ بعلی ۔
(کفایۃ الطالب صفحہ 234)
ترجمہ
ابوہریرہ کہتے ہیں کے رسول اللہﷺنے فرمایا عرش پر یہ کلمہ لکھا ہوا ہے لا الہ الا اللہ الخ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں میں ایک ہوں میرا کوئی شریک نہیں ہے محمدﷺ میرے بندے اور رسول ہیں میں نے علی المرتضیؓ کے ذریعے ان کی تائید کی ہے ۔
تمام پیغمروں سے حضورﷺ کی ولایت اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ولایت کا عہد لیا گیا
عبارت 4 کفایۃ الطالب
عن عبداللہ قال قال النبیﷺ یا عبدالله اتانی ملک فقال یا محمد واسئال من ارسلنا من قبلك علی ما بعثوا؟ قال قلت علی ما بعثوا قال علی ولایتك وولایۃ علی ابن ابی طالب۔
(کفایۃ الطالب صفحہ 75)
ترجمہ
سیدنا عبداللہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے کہا اے عبداللہ میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور کہا کہ ان پیغمبروں کے بارے میں سوال کریں جو آپ سے پہلے تشریف لائے کہ انہیں کس لیے بھیجا گیا ہے میں نے پوچھا تم ہی بتا دو کہنے لگا کہ آپﷺ کی ولایت اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ولایت پر ۔
لمحہ فکریہ
جیسا کہ یہ بات جانی پہچانی ہے کہ اہلِ سنت کے عقائد کے مطابق حضرات انبیاء کرامؑ تمام مخلوق سے افضل ہیں اور یہی عقیدہ اہلِ تشیع کا بھی ہونا چاہیے تھا کیونکہ ان کی فقہ کے سیدنا جعفر صادقؓ نے بحوالہ رجال کشی فرمایا جو ہمیں پیغمبر کہے اس پر خدا کی لعنت امام موصوف کے اس ارشاد کے بالکل برعکس اہلِ تشیع عقیدہ رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ تمام انبیاءؑ سے افضل ہے اور صاحب کفایت الطالب بھی اسی عقیدہ کی مؤیدہ روایات درج کر رہا ہے کہ جب اس کے نزدیک حضرات انبیاءؑ کی رسالت نبوت اس بات پر موقوف ہے کہ وہ ولایت سیدنا علی المرتضیٰؓ کا بھی اقرار کریں تو اس عبارت سے اس کے قائل کے نظریات کا بخوبی علم ہو سکتا ہے اس لیے نہ تو کفایت الطالب اہلِ سنت کے معتبر کتاب اور نہ اس کا مصنف سنیوں کا قابل اعتبار عالم جن لوگوں نے اسے اہلِ سنت کی معتبر کتاب کے عنوان سے پیش کیا انہوں نے دراصل اپنے دین کے ستون عظیم تقیہ کا سہارا لیا ہے۔
جنت میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کا محل نبی کریمﷺ کے محل کے مقابلہ میں ہوگا
عبارت 5 کفایۃ الطالب
عن عبداللہ ابن ابی اوفی قال خرج رسولﷺ ذات یوم علی اصحابہ اجمع ما کانوا فقال یا اصحاب محمد لقد ارانی الله تعالیٰ منازلکم من منزلی قال ثم ان رسولﷺ احذ بید علی فقال یا علی اما ترضی ان یکون منزلك فی الجنۃ مقابل منزلی؟ قال بلی بابی انت وامی یارسول اللہﷺ قال فان منزلك فی الجنۃ مقابل منزلی ۔
(کفایۃ الطالب صفحہ 228 الباب الستون 60)
ترجمہ
سیدناعبداللہ بن ابی اوفیؓ کہتے ہیں کہ ایک دن نبیﷺ مجمع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تشریف لائے اور فرمایا کہ اے صحابہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے مقامات اپنے مقام کے اعتبار سے دکھا دیئے ہیں پھر نبیﷺ نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا اے سیدنا علیؓ کیا تو اس پر راضی نہیں کہ جنت میں تیری منزل میری منزل کے مقابل ہو عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہﷺ فرمایا کہ بے شک تیرا محل میرے محل کے بالمقابل ھے۔
لمحہ فکریہ:
حضورﷺ اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کے مابین کامل اتحاد اور مماثلت کےشیعہ دعویدار ہیں اس کے اثبات میں انہوں نے کئی طریقوں سے قلابازیاں کھائی ہیں ان کے ایک فرقے غرابیہ کا کہنا ہے کہ نبیﷺ اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کے مابین ایسی مماثلت ہے جیسے کہ ایک کوے کی دوسری کے ساتھ ہوتی ہے۔
(انوار نعمانیہ جلد دوم صفحہ 237 نور فی بیان فرق متبوعہ بیروت)
اسی مماثلت اور کامل اتحاد کی وجہ سے جبرائیلؑ بھول کر سیدنا علی المرتضیٰؓ کی بجائے نبیﷺ کے پاس چلے گئے معاذ اللہ صاحب کفایت الطالب نے بھی اسی مماثلت اور اتحاد کو اپنا نظریہ بنا رکھا ہے اس سے اس کی شیعت عیاں ہو رہی ہے اور پھر مذکورہ روایات کی تخریج کو مجمع الزوائد جلد نو صفحہ 173 اور صواعق مخرکہ صفحہ 96 کی طرف منسوب کیا ہے حالانکہ ان دونوں کتابوں کی مذکورہ صفحات پر بلکہ پوری کتابوں میں اس کا نام و نشان نہیں ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس روایت کا سر پاوں ہی نہ ہو اس سے بددیانتی کے ساتھ کسی ایسی کتاب کے سپرد کر دیا جائے جس میں اس کا نام و نشان نہ ہو اتنے تکلف وہی کرے گا جس سے اس تحریر و ورایت سے پیار ہوگا گویا محمد ابنِ یوسف گنجی نے شیعہ ایجنٹ ہونے کا حق ادا کر دیا غلام حسین نجفی وغیرہ کو اسے اپنا کہہ کر فخر کرنا چاہئے تھا۔
سیدنا علیؓ کی شکل کا ایک فرستہ جنت میں موجود ھے جسکا حضورﷺکو بھی علم نہیں
عبارت 6 کفایۃ الطالب:
حدثنا یزیذ ابن ھارون حدثنا حمید عن انس قال قال رسولﷺمررت لیلۃ اسری بی الی السماء فاذا انا بملك جالس علی المنبر من نور والملئکة تحدق بہ فقلت یا جبرئیل من ھذا الملك ؟ قال ادن منہ وسلم علیہ فدنوت منہ وسلمت علیہ فاذا انا باخی وابن عمی علی بن ابی طالب فقلت یا جبرئیل سبقتنی علی الی السماء الرابعۃ فقال لی یا محمد لا ولکن الملائکۃ شکت حبھا لعلی فخلق الله تعالیٰ ھذا الملك من نور علی صورۃ علی فالملائکة تزورہ فی کل لیلة جمعۃ ویوم جمعۃ سبعین الف مرۃ یسبحون الله ویقدسونہ ویھدون ثوابہ لنحب علی۔
(کفایۃ الطالب صفحہ132 تا 133)الباب سادس۔ والعشرون)
ترجمہ:
کہ سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے جب شب معراج آسمان پر لے جایا گیا تو وہاں نور کے ممبر پر بیٹھا ایک فرشتہ نظر آیا دوسرے فرشتے اسے بغور دیکھ رہے تھے میں نے جبرئیلؑ سے پوچھا یہ کون ہے اس نے کہا اسکے قریب جاؤ اور سلام کرو میں قریب گیا اور سلام کیا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ میرا بھائی اور چچا زاد سیدنا علی بن ابی طالبؓ ہیں میں نے پوچھا کہ جبرئیلؑ چوتھے آسمان پر مجھ سے پہلے کیسے آ گیا اس نے کہا یا محمدﷺ اس طرح نہیں بات یہ ہے کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور سیدنا علیؓ کی محبت کی شکایت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس فرشتے کو شکل سیدنا علیؓ میں اپنے نور سے پیدا فرمایا ہے تمام فرشتے ہر جمعرات اور جمعہ کو اس کی زیارت 70 ہزار مرتبہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کہتے اور اس کا ثواب سیدنا علی المرتضیٰؓ کے چاہنے والے کو بھیجتے ہیں۔
لمحہ فکریہ:
مذکورہ روایت بظاہر شیعہ عقائد کے خلاف جاتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک تمام ائمہ اہلِ بیت ہر چیز کا علم رکھتے ہیں غیب و مشاہدہ سب ان پر عیاں ہے لیکن اس واقعہ میں ائمہ اہلِ بیت کے امام حضورﷺ کو بے خبر اور لاعلم دکھایا جا رہا ہے لیکن اس صاحب کفایة الطالب کا اس طرف خیال ہے وہ اس دھن میں سوار ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے فضائل بیان کئے جائیں اور اس مقصد کے پیش نظر اگرکسی دوسرے عقیدہ پر ضرب کاری لگے تو اس کی پرواہ نہیں بعینہ یہی اس من گھڑت روایت میں ہے کہ نبیﷺ کو لاعلم ثابت کیا گیا آپ کو اس کا مکلف و مامور کیا گیا کہ فرشتوں کو سلام کریں آپ فرشتے اور سیدنا علی المرتضیٰؓ میں فرق امتیاز نہ کر سکے بہرحال اس فرشتوں کو جو شکل سیدنا علیؓ میں پیدا کیا گیا ہے 70 ہزار فرشتوں اسے سلام کرتے ہیں اور اپنی تسبیحات و تقدیسات کا ثواب محبان علی کو بخشتے ہیں اس کا ثبوت صاحب کفایة الطالب نے تین کتابوں پر ڈالا حلیۃ الاولیاء جلد چار صفحہ 329 تاریخ جلد 12 صفحہ 358 مجمع ازوائد جلد 9 صفحہ 173 لیکن یہ تینوں کتابیں اس روایت سے خالی ہوتے ہوئے صاحب کفایة الطالب کے تشیع کو ظاہر کر رہی ہیں۔
جو سیدنا علی المرتضیٰؓ کو سب سے افضل نہ مانے وہ کافر ہے
عبارت 7 کفایۃ الطالب:
عن عبد عن علی قال قال رسولﷺمن لم یقل علی خیر الناس فقد کفر۔
(کفایة الطالب صفحہ 245)
سیدنا علی المرتضیؓ سے عبداللہ راوی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا جو سیدنا علی المرتضیٰؓ کو تمام لوگوں سے بہتر افضل نہیں کہتا ہو وہ کافر ہے۔
لمحہ فکریہ:
اہلِ سنت کے معتقدات میں یہ عقیدہ بالکل واضح طور پر موجود ہے کہ مخلوقات میں سے تمام انبیاء کرامؑ افضل ہیں غیر انبیاء انسانوں میں سیدنا ابوبکرصدیقؓ پھر سیدنا عمر بن خطابؓ بالترتیب افضل ہیں اس سلسلے میں ہم امام اہلِ سنت فاضل بریلویؒ کا فتاوی افریقہ سے ایک فتوی اور مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات سے عبارات پیش کر چکے ہیں سیدنا ابوبکرصدیقؓ کی افضیلت کا منکر اہلِ سنت میں سے نہیں اور یہ کہ وہ احمق اور ابو الفضول ہے صاحب کفایة طالب نے اس متفق علیہ عقیدہ کے خلاف روایت لکھ کر اپنی شیعت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے روایت مذکورہ کی تخریج تاریخ بغداد جلدسوم صفحہ 192 اور تہذیب التہذیب جلد 9 صفحہ 418 سے پیش کی گئی ہے ٹھیک ہےکے مزکورہ روایت ان کتابوں میں موجود ہے لیکن جس راوی سے اسے نقل کیے گیا ہے اسے کذاب تک کہا گیا ہے محمد بن کثیر ابو اسحاق قرشی کوفی اس کا اصل راوی ہے جسے بخاری منکر الحدیث اور الدوری عن ابنِ معین شیعی کہتا ہے پھر یہی روایت مختلف الفاظ سے صاحب کفایة الطالب نے نقل کی علی خیر البشر من ابی فقد کفر الفاظ تاریخ بغداد جلد 7 صفحہ 421 سے نقل کی اس حدیث کے راوی حسن بن محمد ہیں اور میزان الاعتدال میں اس حسن بن محمد کو جھوٹا اور شیعہ کہا ہے بہرحال یہ دیگر اسباب نہ بھی ہوں تو پھر بھی مذکورہ روایات اہلِ سنت کے عقائد و نظریات کے بالکل خلاف ہیں لہٰذا معلوم ہوا کہ محمد بن یوسف صاحب کفایة الطالب شیعہ ہے اور اس نے اپنی تصانیف میں شیعیت کا پرچار کیا ہے آخر میں ہم اس کتاب کی ایک اور عبارت نقل کرتے ہیں تاکہ اس کے مصنف کے بارے میں شیعہ یا سنی ہونے کا کوئی واضح ثبوت مل جائے ملاحظہ ہو۔
سیدنا علی المرتضیٰؓ کی موجودگی میں ان سے بڑھ کر خلافت کا حق کسی اور کو نہ تھا
عبارت 8 کفایۃ الطالب
وھو اھل کل فضیلۃ ومنقبة ومستحق لکل سابقہ ومرتبۃ ولم یکن احد فی وقتہ احق بالخلافة منہ۔
(کفایۃ الطالب صفحہ 253)
ترجمہ:
سیدنا علی المرتضیؓ ہر فضیلت اور منقبت کے اہل ہیں اور ہر مرتبہ اور بڑائی آپ کو زیب دیتی ہے آپ کے وقت میں آپ سے بڑھ کر کوئی دوسرا خلیفہ بننے کا حقدار نہ تھا۔
لمحہ فکریہ:
جب سیدنا علی المرتضیؓ کے ہوتے ہوۓ کؤی دوسرا خلافت کا حق دار نہ تھا تو آپ سے پہلے تینوں خلفاء (معاذاللہ) غاصب ٹہرے اور ناجائز خلیفہ رہے کیا یہ کسی سنی عالم کا عقیدہ بیان کیا جا رہا ہے آخر میں اس کتاب کے مقدمہ سے ایک اقتباس پیش کیا جا رہا ہے جس سے اس کے مصنف کی وابستگی کا بخوبی علم ہو جائے گا۔
مقدمة کفایةالطالب:
وقال ابو شامةالمقدس توفی29 من رمضان قتل بالجامع الفخر محمد بن یوسف بن محمد الکنجی وکان من اھل العلم بالفقہ والحدیث لکنہ کان فیہ کثرة کلام ومیل الی مذھب الرافضیة جمع لھم کتبا توافق اغراضھم وتقرب بھا الی الرؤساء منھم الدولتین الاسلامیة والتاتاریة ثم وافق الشمس القمی فیما فوض الیہ من تخلیص موال الغائبین وغیرھم فانتدب لہ من تاذی منہ والب علیہ بعد صلوة الصبح فقتل وبقر بطنہ کما قتل اشباھہ من اعوان الظلمة مثل الشمس بن الماسکینی وابن البغیل الذی کان یسخر الدواب الویل علی الروضتین صفحہ 208
ثم ذکر محنتہ الیونینی وھو من معاصریہ فقال وورد کتاب المظفر الی دمشق فی شھر رمضان یخبر بالفتح وکسرالعدو ویعدھم لوصولہ الیھم ونشر المعدلة فیھم فساروالعوام بدمشق وقتلوا الفخر محمد بن یوسف ابن محمد الکنجی فی جامع دمشق وکان المذکور من اھل العلم لکنہ کان فیہ شر ومیل الی مذھب الشیعة وخالطہ الشمس القمی الذی کان خضر الی دمشق من جھتہ ھولاکم ودخل معہ فی اخذ اموال ایغیاب عن دمشق فقتل ذیل مراة الزمان جلد 1 صفحہ 360 ولم یکتف بھذاوانما عاد فذکرہ فی موضع الخرفی کتابہ فقال الفخر محمد بن یوسف الکنجی کان رجلا فاضلا ادیبا ولہ نظم حسن قتل فی جامع دمشق بسبب دخولہ مع نواب الترذیل مراة الزمان جلد 1 صفحہ 392 وذکرہ ابن کثیر فی تاریخہ بقولہ وقلت العامة وسط الجامع شیخا رافضیا کان مصانعا للتتار علی اموال الناس یقال لہ الفخر محمد ابن یوسف ابن محمد الکنجی کان خبیث الطویة مشرقیا ممالیا لھم علی اموال الناس فبحہ اللہ و قتلوا جماعة من المنافقین البدایة والنھایة جلد 13 صفحہ 321 وتنجج ابن تفری برد بالفعلة الدنیئة فقال فسر عوام دمشق وکان المذکور من اھل العلم لکنہ کان فیہ شر وکان رافضیا خبیثا وانضم علی التتار.
(النجوم الظاھرہ جلد 9 صفحہ 80)
ترجمہ:
ابوشامہ مقدسی نے کہا ایک محمد بن یوسف گنجی 29 رمضان کو دمشق کی جامع مسجد میں قتل کیا گیا یہ فقہ اور حدیث کا عالم تھا لیکن اس میں منطق کا غلبہ تھا اور رافضی مذہب کی طرف میلان تھا ان کی اعراض کے پیش نظر ان کے لیے اس نے کتابیں لکھی اور تصنیفات کے ذریعے رافضی ستاروں کا تقرب حاصل کیا جن میں اسلامی اورتاتاری دونوں طرح کے سردار تھے پھر الشمس القمی نے اس کی مؤافقت کی کہ دونوں مل کر غائب لوگوں کے اموال ان کے سپرد کریں ان پر ان لوگوں نے شور مچایا جنہیں اس سے تکلیف ہوئی تھی نماز صبح کے بعد اس پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا اس کا پیٹ چاک کیا گیا اسی طرح اس کے ساتھی دوسرے ظالموں اور مددگاروں کو کیا گیا جیسا کہ شمس بن ماسکینی اور ابن بخیل جو گھوڑوں کی تربیت کا ماہر تھا پھر اس مصنف کا تذکرہ مخة الینونینی نے کیا ہے کہ جو اس کا ہم عصر تھا اس نے کہا کہ جب مظفر کا خط 28 رمضان کو دمشق میں پہنچا جس سے دشمنوں کے تباہ ہونے کی خوشخبری تھی اس خط میں اس نے وعدہ کیا کہ وہ وہاں پہنچے گا اور عدل کرے گا لہٰذا عوام نے دمشق پر حملہ کر دیا اور جامع دمشق میں محمد بن یوسف گنجی کو قتل کر دیا محمد بن یوسف گنجی اہلِ علم سے تھا لیکن اس کی ضمیر میں شرارت تھی اس کا مذہب شیعہ کی طرف میلان تھا اس کے ساتھ ساتھ اسے شمس قمی کی ہم نشینی حاصل تھی جو دمشق میں ہلاکو خان کی طرف سے غائب لوگوں کے اموال پکڑنے پر شریک تھا لہٰذا وہ بھی وہاں قتل ہوگیا اور یونینی نے اس پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس نے اپنی کتاب میں ایک جگہ پر اس کا ذکر کیا لکھا ہے کہ محمد بن یوسف گنجی ادیب اور فاضل آدمی تھا اور نظم بخوبی کہتا تھا وہ جامعہ دمشق میں قتل کیا گیا کیونکہ تاتاری نواب کے ساتھ یہاں آیا تھا ابنِ کثیر نے اپنی تاریخ میں اس کا ذکر ان الفاظ سے کیا ہے کہ اس کو عام اہلِ سنت نے جام دمشق میں قتل کیا یہ رافضی شیخ تھا تاتاریوں کے لیے لوگوں کے مال لوٹا کرتا تھا یہ خبیث ضمیر اور لوگوں کا مال جمع کرنے والا تھا اللہ نے اسے ذلیل کیا اس کو منافقین کی طرح لوگوں نے قتل کیا ابنِ تعزی نے فخر کرتے ہوئے اس کے گھٹیا فعل کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے قتل پر اہلِ دمشق نے بہت خوشیاں منائی اسے جامع دمشق میں قتل کیا گیا یہ اہلِ علم میں سے تھا لیکن طبعا شرارتی تھا اور ذلیل قسم کا راوی تھا اس کا جوڑ توڑ تاتاریوں کے ساتھ تھا
حرفِ آخر:
کفایة الطالب کے مقدمہ میں چار معتبر کتب کے مصنفین نے محمد بن یوسف گنجی کو بد مذہب گمراہ اور ذلیل شیعہ کہا ہے یہ ہلاکو خان کا ساتھی تھا جس نے بغداد کے اہلِ سنت کے ساتھ بہت مظالم ڈھائے اس کے شیعہ ہونے کی وجہ سے اس کا شمس قمی نام شیعی سے گہرا تعلق تھا رافضی سرداروں کو خوش کرنے کے لیے کتابیں لکھنا اس کا مشغلہ تھا اہلِ سنت کے مال کو لوٹنا جائز قرار دینے والا تھا یہی وجہ ہے کہ بعد یہ آیت نقل کی ہے کہ صاحب البدایہ ونہایہ نے اس کے حالات کے بعد یہ آیت نقل فقطع دابر القوم الذین ظلموا والحمدللہ رب العالمین ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں ان حوالہ جات اور مصنف کی اپنی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن یوسف گنجی شیعہ تھا اس نے اسی مذہب کی اشاعت کی لہٰذا اس سے اہلِ سنت کا عالم اور اس کی کتاب کو اہلِ سنت کی معتبر کتاب کہنا بہت بڑا دھوکہ ہے غلام حسین نخفی وغیرہ شیعہ مصنف نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کی خاطر اس سے اہلِ سنت میں لا کھڑا کیا ورنہ حقیقت حال وہی ہے جو گزشتہ صفحات میں آپ ملاحظہ کر چکے ہیں۔
نوٹ:
کتاب کفایة الطالب کے بیرونی صفحہ ٹائٹل پر اس کے مصنف کا تذکرہ ان الفاظ سے کیا گیا ہے ابی عبداللہ محمد بن یوسف بن محمد القرشی الکنجی الشافعی اس آخری لفظ الشافی کو محض دھوکہ دینے کے لیے لکھا گیا اگر یہ واقعی شافی اہلِ سنت ہوتا تو پھر اس کتاب میں اہلِ تشیع کے عقائد مذمومہ کی تردید ہوتی اور پھر مطبوعہ حیدریہ نجف اس کے چھاپنے کی جرات نہ کرتا۔
فاعتبروا یا اولی الابصار: