Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ارحج المطالب مصنفہ عبید اللہ امرتسری

  محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحب

ارحج المطالب مصنفہ عبید اللہ امرتسری

ان کتابوں میں سے ایک کتاب جو اہلِ سنت کے خلاف حجت کے طور پر پیش کی جاتی ہے ارحج المطالب بھی ہے اس کے مصنف کا نام عبید اللہ امرتسری ہے غلام حسین نجفی نے اپنی کتاب قول مقبول میں درجنوں اس کتاب کے حوالہ جات نقل کیے اور ہر حوالے سے قبل ناظرین کو متاثر کرنے کے لیے اہلِ سنت کی معتبر کتاب کہا یہی وہ کتاب ہے جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو عورت سیدنا علی المرتضیؓ کی دشمن ہو اس کو پاخانہ کی جگہ سے خون حیض آتا ہے اور جو مرد ایسا ہو وہ مفعولیت کے مرض میں گرفتار ہوتا ہے اس قاعدہ کو پھر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر فرضی مخالفت کے ضمن میں چسپاں کیا جاتا ہے صاحب ارحج المطالب کی مذہبی وابستگی اور نظریات عنقریب اس کی اسی کتاب سے ہم پیش کر رہے ہیں ان کے مطالعہ سے بخوبی پتہ چل جائے گا کہ یہ شخص سنی ہے یا تقیہ باز شیعہ لیکن پہلے قول مقبول کی ایک آده عبارت پیش کی جاتی ہے  

 قول مقبول :

اہلِ سنت کی معتبر کتاب ارحج المطالب صفحہ 638 میں جو عورت سیدنا علیؓ سے دشمنی رکھتی ہے اس کو پاخانہ کی راہ سے خون حیض آتا ہے ارحج المطالب کی عبارت ملاحظہ ہو 

 عن علیؓ قال قال لی رسول اللہﷺ لا يبغضك من النساء الا السلقلق وهي التي تحيض من دبرها قيل جاءت امراۃ الى عليؓ فقالت اني ابغضك قال فانت اذا سلقلق قالت من سىلقلق قال سمعت النبيﷺ الحديث وقلت يارسول اللهﷺ وما السىلقلق قال التي تحيض من دبرها قالت صدق رسول اللّٰهﷺ واللّٰه انا احيض من دبري ولا علم لا بواي اخرجه الديلمي صفحه638)

 ترجمہ

سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ‎ نے مجھے فرمایا کہ جو عورت آپ سے دشمنی رکھے گی وہ سلقلق ہوگی یعنی اس کو پاخانہ کی راہ سے خون حیض آتا ہوگا ایک عورت سیدنا علیؓ کے پاس آئی اور کہا کہ میں آپ سے دشمنی رکھتی ہوں آنجنابﷺ نے فرمایا کہ تو سلقلق ہے عورت نے پوچھا وہ کیا ہوتی ہے حضورﷺ ‎نے فرمایا وہ عورت ہوتی ہے جسے پاخانہ کی راہ سے حیض آتا ہو عورت نے کہا خدا کی قسم نبی پاک نے سچ فرمایا مجھے پاخانہ کی راہ سے حیض آتا ہے اور میرے والدین کو بھی اس بات کا علم نہیں ہے ۔

(حوالہ قول مقبول صفحہ 455)

 جواب:

صاحب ارحج المطالب 

مولوی عبید اللہ نے روایت مذکورہ بحوالہ دیلمی لکھی ہے کہ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے دیلمی کا تعارف کرایا جائے کیونکہ ارحج المطالب میں بہت سے حوالہ جات اس کی طرف سے نقل کیے گئے ہیں ابو محمد الحسن بن ابی الحسن محمد الدیلمی کے متعلق مشہور شیعہ کتاب الکنی والاقاب میں لکھا ہے کہ ارشاد القلوب اس کی تصنیف ہے اور ارشاد القلوب کے مصنف دیلمی کو شیعہ کتب اپنا آدمی کہتے ہیں علامہ الشیخ آقا بزرگ الطہرانی نے لکھا۔ 

 الذریعہ:

2527(ارشاد القلوب الی الصواب) المعنی من عمل به من اليم العقاب للشيخ الجليل ابي محمد الحسن بن ابي الحسن بن محمد الديلمي وهو معاصر لفخر المحققين ابن علامه الحلي الذي توفي في سنه 771 وينقل عن كتابه الشيخ ابو العباس احمد بن فهر الحلي في عدة الداعي الذي الف سنۃ 801

 (الزريعه جلد اول صفحه 517)

 ترجمہ

ارشاد القلوب جس کا معنی یہ ہے کہ یہ کتاب دلوں کو صواب کی طرف پھیرتی ہے اور جو اس کے مضامین پر عمل کرے گا وہ درد ناک سزا سے بچ جائے گا یہ کتاب شیخ جلیل ابو محمد الحسن بن ابی الحسن بن محمد دیلمی کی تصنیف ہے اور دیلمی فخر المحققیق ابن علامہ الحلی کا ہم زمانہ ہے جس کی موت 771ھ میں ہوئی اور اس کی کتاب سے ابوالعباس احمد بن الفہد المحلی نے اپنے کتاب عدۃ الدعی میں نقل کیا یہ کتاب 801ھ میں تصنیف کی گئی۔

الذریعہ کے اس حوالے سے واضح ہوا کہ دیلمی صاحب ارشاد القلوب بہت بڑے شیعہ عالم ہے اور ابو العباس احمد بن فہد ایسے شیعہ اس کی عبارات کے ناقل ہیں لہٰذا مولوی عبید اللہ امر تسری کا دیلمی کے حوالے سے کسی روایت کو نقل کرنا یا تو اس کے حقیقی شیعہ ہونے پر دلالت کرتا ہے یا پھر بطور تقیہ اس نے اہلِ سنت کا لبادہ اوڑہ کر لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے 

 توضیح :

مولوی عبید اللہ امر تسری نے ارحج المطالب میں دیلمی کے علاوہ جن کتب سے حوالہ جات تحریر کیے ہیں ان کے کچھ نام یہ ہے فوائد المطین تزکرۃ الخواص الامہ ،ینابیع المودۃ، المناقب للخوارزی ،مروج الذھب، کفایۃالطالب،اور ابن حدید ان کتابوں اور ان کے مصنفین کے بارے میں ہم تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں ان میں کچھ تو کٹر شیعہ اور بعض میں شیعت کی ملاوٹ ہے لہٰذا ان کتب کے وہ حوالہ جات جو اہلِ سنت اور شیعہ کے مابین عقائد مختلفہ کے ضمن میں پیش کیے جاتے ہیں وہ ہم اہلِ سنت پر حجت نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ خود اس معاملے میں ایک طرف جھکے ہوئے ہیں ۔

باقی رہی یہ بات کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ سے بغض کے بارے میں پھر اہلِ سنت کا کیا نظریہ ہے تو اس کا واضح جواب موجود ہے کہ قرآن کریم نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے رحماء بینہم کا لفظ فرما کر ان کے درمیان باہمی بغض و عداوت اور کدورت کا دروازہ ہی بند کر دیا ہے ان حضرات کے درمیان جتنے بھی اختلافات و مناقشات نظر آتے ہیں ان میں بغض عناد نہیں بلکہ اجتہادی اختلاف رائے پایا جاتا ہے اس لیے اہلِ سنت ان حضرات کے درمیان اختلاف کو اسی نظریے سے دیکھتے ہیں اور شیعہ ان اختلافات کو بغض اور عناد کی بھینٹ چڑھا کر اپنے گندے قواعد و ضوابط ان پر چسپاں کرتے ہیں بہرحال ہم اب ذیل میں مولوی عبید اللہ امرتسری کی کتاب ارحج المطالب کے چند حوالہ جات نقل کر رہے ہیں جس سے اس کی نظریاتی وابستگی کا علم ہو سکے گا  

ارحج المطالب

 عبارت نمبر 1

 عن ابی سعیدالخدريؓ قال قال رسول اللهﷺ انا وعلي من نور واحد قبل ان يخلق الله اٰدم باربعۃ انا في عام فلما خلق الله تعالىٰ الخلق ركب ذلك النور في صلبه فلم يزل في شيء واحد حتىٰ افترقا في صلب عبد المطلب ففي النبوۃ وفي علي الخلافۃ اخرجه الديلمي۔

(ارحج المطالب صفحه 38) ذكر خليفہ رسولﷺ 

 ترجمہ

سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسولﷺ نے فرمایا میں اور سیدنا علیؓ ایک ہی نور سے ہیں اور آدمؑ کے پیدا کرنے سے چار ہزار برس پہلے ہمیں پیدا کیا گیا پھر جب اور لوگ پیدا کیے تو وہ نور ایک کی پشت پر سوار ہوا ایک میں لگاتار منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ جناب عبد المطلب کی صلب میں آکر جدا جدا ہو گیا لہٰذا مجھ میں نبوت اور سیدنا علیؓ میں خلافت ہے اس کو دیلمی نے اخراج کیا۔

 توضیح

روایت مذکورہ اول تو بےسند ہے لہٰذا قابل توجہ ہی نہیں اور دوسری بات یہ کہ اس میں مشہور شیعہ عقیدہ بیان کیا گیا ہے یعنی سیدنا علی المرتضیٰؓ حضورﷺ کے خلیفہ ہیں سیدنا علی المرتضیٰؓ کے خلیفہ ہونے کے یہاں دو مفہوم ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ آپ خلیفہ بلا فصل ہیں یہ اہلِ سنت کے عقیدے کے خلاف ہے کیونکہ اس سے خلفاء ثلاثہ معاذ اللہ غاصب ثابت ہوتے ہیں اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ خلافت سیدنا علی المرتضیٰؓ کی اولاد میں ہوگی یہ بھی ائمہ اہلِ بیت کی امامت اور خلافت کا ثبوت کرنا ہے اور پھر سیدنا حسنؓ کے بعد سیدنا امیر معاویہؓ کے خلافت اور امامت کا انکار کرنا ہے حالانکہ سیدنا حسنؓ نے اس کے حق میں دستبرداری فرما کر ان کے ہاتھ پر بیعت بھی کرلی تھی جس پر تو کتب اہلِ تشیع بھی گواہ ہیں سیدنا حسنؓ کے علاوہ کسی اور کو اولاد سیدنا علیؓ میں سے خلافت نہ مل سکی ۔

 سیدنا ابوبکرؓ نے باغ فدک کے معاملہ میں غلطی کی

 ارحج المطالب " عبارت نمبر 2

سیدنا ابوبکر صدیقؓ مجتہد تھے مگر معصوم نہیں تھے بوجہ المجتهد ان سے فدک کے معاملہ میں خطا فی الاجتہاد واقع ہوگی 

۔سیرت شیخین (ارحج المطالب صفحہ 672)

 توضیح

جہاں تک باغ فدک کا معاملہ ہے تو اہلِ سنت کا نظریہ یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے جو کچھ کیا وہی حق اور سچ تھا ہاں شیعہ کہتے ہیں کہ یہ باغ دراصل سیدہ فاطمہؓ کی ملکیت میں آنا چاہیے تھا لیکن سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے باغ فدک انہیں نہ دے کر ان کا حق غضب کیا ہے یہی بات مولوی عبیداللہ امرتسری بھی کہہ رہا ہے لیکن انداز نرالا ہے سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے باغ فدک سیدہ کو نہ دے کر غلطی کی ہے لیکن یہ غلطی اجتہادی ہے یہاں اجتہاد کہاں سے آ ٹپکا سیدنا ابوبکر صدیق کے پاس تو رسول کریمﷺ کا ارشاد موجود تھا انبیاء کرامؑ وراثت مالی نہیں چھوڑتے نہ ان کا کوئی وارث اور نہ وہ کسی کے وارث اسی سے ملتی جلتی حدیث اصول کافی میں موجود ہے علاوہ ازیں نہج البلاغہ کی شرح ابنِ حدید میں زید ابنِ سیدنا حسنؓ کا قول منقول ہے کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ کی دادی صاحبہ کے ساتھ سیدنا ابوبکرؓ نے جو زیادتی باغ فدک کے بارے میں کی ہے یہ کیسی ہے ؟جواب دیا جو کچھ سیدنا ابوبکرؓ نے فیصلہ کیا اگر میرے سامنے وہ مقدمہ پیش ہوتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا اس معاملے میں اجتہادی خطا کا شوشہ چھوڑنا دراصل اپنی شیعیت ظاہر کرنا ہے ۔

 عبارت نمبر 3

ارحج المطالب :

سیدنا امیر شیخینؓ کو اکثر امور شریعت میں غلطی کرنے سے روکا کرتے تھے جو بتقاضہ بشریت ان سے سرزد ہو جایا کرتی تھی چنانچہ جن کی نسبت اکثر سیدنا عمرؓ کو لا علی لھلک عمر فرمایا کرتے تھے اس لیے سیدنا امیر نے سیرت شیخینؓ کے اتباع کا اقرار نہ کیا اور بخوف وقوع فساد امر خلافت سیدنا عثمانؓ پر منتقل ہوگیا لیکن اس میں کسی طرح شک نہیں ہے کہ حضرت امیر ہمیشہ اپنے خلافت کے خواہاں رہتے تھے اور ان کی خواہش اس غرض سے نہ تھی کہ ان کو دینوی سلطنت حاصل ہو جائے بلکہ ان کی منشا یہ تھی کہ امور خلافت میں کوتاہی جو بتقاضائے بشریت اکثر خلفاء سے ظہور میں آتی رہتی ہے احیا نا بھی وقوع میں نہ آ ئے ۔ 

(ارحج المطالب صفحہ 672)

 توضیح

عبارت درج بالا میں کمال چلاکی اور پھرتی کے ساتھ مولوی عبید اللہ امرتسری نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کے بارے میں اہلِ تشیع کے عقیدے کی ترجمانی کی وہ اس طرح کے خلفائے ثلاثہ بتقاضاۓ بشریت غلطی کرتے تھے اور ان کے مقابلے میں سیدنا علی المرتضیٰؓ سے غلطی کا صدور ممکن نہیں تھا اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ معصوم ہیں اگر عبیداللہ امرتسری کھلے طور پر سیدنا علی المرتضیٰؓ کی عصمت بیان کرتا تو شاید اس کا بھرم باقی نہ رہتا اس لیے اس نے دھیمی انداز میں اپنا عقیدہ عصمت سیدنا علی المرتضیٰؓ بیان کر دیا دوسرا اس عبارت سے یہ بھی ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اصل حقدار خلافت و امامت سیدنا علی المرتضیٰؓ تھے اس طرح تینوں خلفاءؓ خلافت کے اہل نہ تھے یہی وجہ تھی کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ان کی سیرت کا اتباع نہیں کیا یہ دونوں باتیں اہلِ سنت کے عقائد کے خلاف ہیں ہمارے ہاں عصمت صرف حضرت انبیاء کرامؑ کے لیے ہے کوئی خلیفہ یا امام معصوم نہیں اور خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت اصل اور برحق تھی سیدنا علی المرتضیؓ نے ان کی اقتداء میں نمازیں ادا فرمائی ان کے ہاتھوں پر بیعت کی اور ان کے حق میں کلمات خیر کہے لہٰذا یہ عبارت بھی عبید اللہ امرتسری کے شیعہ ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔

 عبارت نمبر 4

ارحج المطالب: 

 عن ام سلمهؓ قالت قال رسول اللهﷺ لو لم يخلق علي ما كان لفاطمهؓ كفوا اخرجه الديلمي

( ارجح المطالب صفحه 320)

 ترجمہ 

سیدہ ام سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا اگر سیدنا علیؓ پیدا نہ کیے جاتے تو پھر سیدہ فاطمہؓ کا کفو نہ ہوتا 

 توضیح

دیلمی کے تشیع کی بحث ابھی گزری یہ روایت اسی سے لی گئی بہرحال جہاں تک سیدہ فاطمہؓ کا ایک کفو کا معاملہ ہے تو سیدنا علی المرتضیٰؓ سمیت تمام قریش آپ کا کفو ہے اس کا اعلان خود رسولﷺ نے فرمایا تحفہ جعفریہ میں نکاح سیدہ ام کلثومؓ کی بحث میں ہم ذکر کر چکے ہیں کہ شیعوں کے نزدیک علوی اور غیر علوی کا کوئی فرق نہیں لوامع التنزیل جلد دوم میں علامہ حائری نے اس کی طویل بحث کی ہے اور ثابت کیا کہ اولاد سیدہ فاطمہؓ کا نکاح کمینے سے کمینہ آدمی ہو اس سے بھی ہو سکتا ہے لہٰذا فقہ جعفریہ میں تو کفو کا معاملہ ہی ختم ہے اہلِ سنت کے ہاں اس کا نکاح میں ہونا ضروری ہے حضورﷺ کے صریح ارشاد کے ہوتے ہوئے کہ قریش باہم کفو ہیں یہ کہنا کہ سیدہ کا سیدنا علی المرتضیٰؓ کے سوا کوئی اور کفو نہیں بالکل غلط ہے اور شیعی عقیدہ ہے مولوی عبید اللہ امرتسری اس عبارت سے سیدنا علی المرتضیٰؓ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر افضلیت ثابت کرنے کے درپہ ہیں اور یہ بارہا بیان ہو چکا ہے کہ اہلِ سنت کا مسلک یہ ہے کہ حضرت انبیاء کرامؑ کے بعد افضل ترین شخصیت سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں

 عبارت نمبر 5:

سیدنا علیؓ اس وقت موجود نہ تھے اور نہ ان سے رائے لینے کی مہلت ملی جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ وہاں سے لوٹے تو سرور عالمﷺ دفن ہو چکے تھے اس لیے شرکت جنازہ سے محروم رہے جس کا قلق ان کو تامدت العمر باقی رہا ذکر شیخین

(ارحج المطالب صفحہ 67)

 لمحہ فکریہ

مذکورہ عبارت بظاہر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی تعریف کرتی نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ نہیں بلکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ اب سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے ثقیفہ بنی ساعدہ میں اپنی خلافت کا اعلان کیا اور بیعت لی تو اس وقت انہوں نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کو اس بارے میں مشورہ دینے کے لیے نہیں بلایا سیدنا ابوبکر صدیقؓ ایک جھگڑے کو نمٹانے کے لیے وہاں تشریف لے گئے تھے لیکن وقت کی نزاکت کے پیش نظر سیدنا فاروق اعظمؓ نے فورا ان کے خلافت کا اعلان کر کے اپنا ہاتھ بڑھا کر بیعت کر لی سیدنا فاروق اعظمؓ کے اس عمل کی سب حاضرین نے تائید کی اور اگر اس معاملے میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کے آنے کا انتظار کیا جاتا تو بہت بڑے فتنے کے اٹھ کھڑے ہونے کا اندیشہ تھا یہاں تک کہ واقعات تو درست ہیں لیکن اس کے بعد مولوی عبیداللہ امرتسری کا یہ کہنا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ وہاں اتنے مشغول ہو گئے کہ حضورﷺ کے جنازے میں بھی شریک نہ ہو سکے یہ اس کے باطنی کوڑھ کی علامت ہے کیونکہ واقعات کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے دو مرتبہ بیعت لی ایک مرتبہ ثقیفہ بنی ساعدہ میں موجود لوگوں سے اور دوسری مرتبہ مسجد نبوی میں عام لوگوں سے پہلی بیعت چونکہ بہت کم لوگوں سے لی گئی اس لیے وہاں دو چار گھنٹے ہی صرف ہوسکتے تھے اور اسی بیعت کی مشغولیت کو جنازہ میں عدم شرکت کی وجہ بنایا جا رہا ہے تاریخ شاہد ہے کہ حضور سرور کائناتﷺ کا وصال مبارک پیر کے دن ہوا اور پیر کے دن سے لے کر بدھ کی نصف شب تک آ پ کا جنازہ ہوتا رہا سیدنا ابوبکر صدیقؓ اگر پیر سے لے کر بدھ کی رات تک وہاں بیعت لینے میں مشغول رہے تو پھر جنازے میں عدم شرکت مفقود لیکن عبیداللہ امرتسری وغیرہ کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ ثقیفہ بنی ساعدہ میں تین دن ٹھہرے رہے اور بدھ کی رات حضورﷺ کے دفنانے تک واپس نہیں آئے شیعہ خواں مخواہ اس بات کو اچھالتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ جنازہ رسولﷺ میں شریک نہ ہوئے حالانکہ خلیفہ وقت کی اجازت کے بغیر یہ کیسے ممکن تھا ۔

 نوٹ:

یاد رہے کہ آپﷺ کا جنازہ عام میت کی طرح نہ تھا بلکہ لوگ ٹولیوں کی شکل میں آتے اور صلاۃ والسلام پیش کرتے چلے جاتے اور یہی آپ کی صلاۃ جنازہ تھی کتب اہلِ سنت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ حضورﷺ کی مذکورہ نماز جنازہ سب سے پہلے ادا کرنے والے سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں ملاحظہ ہو . 

 البدایہ والنہایہ

 لما كفن رسول اللهﷺ ووضع على سريره دخل ابو بكر وعمر رضي الله عنهما ومعهما نفر من المهاجرين والانصاري بقدر ما يسع البيت فقال السلام عليك ايها النبي ورحمه الله وبركاته وسلم والالمهاجرين والانصار كما سلم ابو بكر وعمر ثم الصفو صفوفا لا يؤمهم احد فقال ابو بكر وعمر وهما في الصف الاول حيال رسول اللهﷺ اللهم انا نشهد انه قد بلغ ما انزل اليه البدايه والنهايه( جلدپنجم صفحه 265)كیفیۃ الصلاۃ عليه۔ 

 ترجمہ

  جب حضورﷺ کو کفن پہنا کر چارپائی پر رکھا گیا تو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ بمعہ انصار و مہاجرین کی جماعت کے اندر آئے یہ لوگ اتنے تھے جتنے گھر میں سما سکتے تھے دونوں نے عرض کیا السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پھر یہی الفاظ تمام موجود انصار و مہاجرین نے کہا ہے پھر انہوں نے صفیں باندھی لیکن ان کا امام کوئی نہ تھا سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ نے جو حضورﷺ کے بالکل قریب کھڑے تھے کہا کہ اے اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضورﷺ نے وہ سب کچھ پہنچا دیا جو ان کی طرف اتارا گیا ۔

قارئین کرام مولوی عبیداللہ امرتسری نے شیعوں کی ایجنٹی کا حق ادا کرتے ہوئے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی ذات پر کیچڑ اچھالا اور صاف صاف لکھ دیا کہ حضورﷺ کے دفن کرنے تک یہ لوگ خلافت کے جھگڑے میں مشغول رہے حالانکہ سب سے پہلے آپﷺ کی نماز جنازہ پڑھنے والے یہی ہیں یہ شیعوں کا پرانا اعتراض ہے جو عبیداللہ شیعی نے بھی نقل کر دیا اس کا تفصیلی جواب ہماری کتاب تحفہ جعفریہ میں موجود ہیں جہاں رسولﷺ کے جنازے کی بحث کی ہے وہاں ملاحظہ فرما لیں 

 عبارت نمبر 6

 روى محمد بن سيرين عن عكرمه قال لما كان بيعه ابي بكرؓ قعد علي في بيته فقيل لابي بكر قد كره بيعتك فارسل اليه فقال كرهت بيعنى قال لا قال ما اقعدك عني قال رايتى كتاب الله يزاد فيه فحدثت نفسي ان لا البس ردائ الا لصلوه حتى اجمعه قال له ابو بكر فانك نعم ما رايت قال محمد بن سيرين لعكرمة القوه كما انزل الاول فقال اجتمعت الانس والجن ان يؤلقوا هذا التعريف ما استطاعوا۔

رواه ابو داود محمد ابن سيرين کہا کرتے تھے اگر وہ قرآن مل جاتا جو امیر علیہ السلام نے جمع کیا ہے تو اس سے بہت علم حاصل ہو سکتا ۔

( ارحج المطالب صفحہ 138)

 ترجمہ

محمد بن سیرین نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ جب سیدنا ابوبکرؓ سے لوگوں نے بیعت لی اور سیدنا علیؓ سے کہلا بھیجا کہ کیا آپ نے میری بیعت سے کراہت کی تو آپ نے جواب دیا کہ نہیں پھر پوچھا کہ آپ کے گھر میں بیٹھ رہنے کی کیا وجہ ہے فرمایا میری یہ رائے ہوئی ہے کہ کتاب اللہ میں کچھ نہ کچھ ضرور زیادتی کی جائے گی لہٰذا میرے دل میں آیا کہ میں اپنی چادر سوائے نماز کے اور وقت نہ اوڑھوں جب تک کہ قرآن کو جمع کر لوں سیدنا ابوبکرؓ نے کہا آپ کی رائے بہت مناسب ہے محمد بن سیرین نے عکرمہ سے پوچھا کہ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قرآن اسی طرح سے تألیف کیا ہے جیسا کہ اول مرتبہ نازل ہوا تھا عکرمہ نے کہا اگر تمام انس و جن جمع ہو کر ویسے تالیف کرنا چاہیں تو ہرگز نہیں کر سکیں گے ۔

  توضیح

مولوی عبیداللہ امرتسری نے روایت مذکورہ کی نسبت ابو داؤد کی طرف کی ہے لیکن ابوداؤد شریف میں ان الفاظ کے ساتھ ایسی کوئی روایت نہیں اصل مقصد اس روایت کے بیان کرنے کا یہ ہے کہ یہ ثابت کیا جائے یا کم از کم قارئین و ناظرین کے ذہن میں یہ خدشہ بٹھا دیا جائے کہ موجود قرآن مکمل نہیں اس میں کمی بیشی موجود ہے اصل اور مکمل قرآن وہ ہے جو سیدنا علی المرتضیٰؓ نے جمع کیا تھا اس مقصد کو بیان کرنے کا انداز اور ہے لیکن پس پردہ یہی شیعی عقیدہ کارگر ہے سیدنا علی المرتضیٰؓ کے حوالے سے یہ ذکر کرنا کہ یہ میری رائے یہ ہے کہ اس قرآن میں زیادتی کی جائے گی اس عقیدے کی نشاندہی کرتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر سیدنا علی المرتضیٰؓ کو جمع قرآن کے بارے میں بھروسہ نہ تھا اور جب سیدنا علی المرتضیٰؓ کا جمع کردہ نسخہ عام نہ ہوا تو پھر اپ کا یہ خدشہ عملی طور پر سامنے آگیا لہٰذا موجودہ قرآن میں بہت سی ایسی آیات اور کثیر تعداد میں ایسے کلمات ہیں جو خود ساختہ ہیں یہی شیعہ کہتے ہیں اور یہی بات عبیداللہ امرتسری بھی کہہ رہا ہے اس کی تفصیل کے لیے عقائد جعفریہ جلد سوم کا مطالعہ بہت مفید ہوگا روایت مذکورہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر وہ قرآن مل جاتا جس کو سیدنا علی المرتضیٰؓ نے جمع کیا تو بہت کچھ علم حاصل ہوتا اس سے عبید اللہ امرتسری یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے جمع کردہ قرآن میں اس موجود قرآن کی بنسبت زیادہ علم ہے اور یہ بات واضح ہے کہ علم کی زیادتی کے لیے الفاظ و آیات کی زیادتی ضروری ہے اگر سیدنا علی المرتضیٰؓ کا جمع کردہ وہ قرآن اور موجود قرآن آیات و کلمات کی تعداد کے اعتبار سے برابر ہوتے تو زیادتی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا کیونکہ قرآن کریم چاہے ترتیب نزولی پر مرتب و مؤلف کیا جائے یا موجود ترتیب پر آیات اور سورتیں برابر ہی رہتی صرف تقدیم اور تاخیر کا فرق پڑتا لیکن زیادتی علم کا پایا جانا اس کو متقاضی ہےکہ کچھ نہ کچھ اضافہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے جمع کردہ نسخے میں کیا تھا اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ موجود قرآن ناقص اور نامکمل ہے اور یہ بھی اہلِ تشیع کا عقیدہ ہے جیسے عبیداللہ امرتسری بیان کر رہا ہے علاوہ اس کے کہ اس روایت میں خود تضاد ہے (جیسا کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کا خدشہ کے لوگ اس قرآن میں زیادتی کر دیں گے اور یہ کہ آپ کا مرتب کردہ زیادہ آیات پر مشتمل تھا)یہ روایت اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اختیار پر بھی ضرب کاری لگا رہی ہے قرآن کریم کے بارے میں اس کا اعلان ہے انا لہ لحافظون ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں تو جب موجود قرآن کمی بیشی لیے ہوئے ہیں اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کا جمع کردہ کہیں نظر نہیں آتا تو پھر اللہ تعالیٰ کا حفاظت کرنا کہاں گیا؟معاذ اللہ اس کی حفاظت کا انتظام ناقص تھا سیدنا علی المرتضیٰؓ کو اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کی خبر نہ تھی یا اس کی حفاظت کرنے پر انہیں شک تھا ؟روایت مذکورہ کی روشنی میں بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صاحب ارحج المطالب مولوی عبیداللہ امرتسری شیعہ مسلک کا پیرو ہے اور ان کی نظریات کی تبلیغ و ترویج اس کا مطمع نظر ہے نہ یہ سنّی نہ اس کی تصنیف سنّی لہٰذا اس کا کوئی حوالہ ہمارے خلاف بطور حجت پیش نہیں کیا جا سکتا ۔

 عبارت نمبر7

 قال الحافظ ابو عبد اللّٰه محمد بن يوسف الكنجي الشافعي هكذا ذكر الشيخ محي الدين النووى وقال ابو بكر النقاش انها نزلت في بيان الولاية لعلي وقال الامام فخر الدين الرازي وهو قول ابنِ عباس والبراء بن عازب ومحمد بن علي بن الحسين ابنِ علي و ابو سعيد الخدري( ۔ارحج المطالب صفحه 75)

 ترجمہ

حافظ ابوعبداللہ محمد بن یوسف الکنجی شافعی کفایة الطالب میں لکھتے ہیں کہ امام نووی شارح صحیح مسلم نے بھی اس طرح پر ذکر کیا ہے اور ابوبکر نقاش کہتے ہیں کہ یہ آیت جناب امیر کی روایت کی نسبت نازل ہوئی اور امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں کہ غدیر خم کے روز اس آیت کے شرف نزول کی نسبت عبداللہ بن عباس ، برا بن عازب اور جناب محمد بن علی بن الحسین بن علی کا قول ہے ۔

 توضیح

جس آیت کریمہ کے بارے میں مذکورہ اقوال لکھے گئے وہ یہ ہے یا ایہا الرسول بلغ ما انزل اليك من ربك الخ اس آیت کا شان نزول ولایت سیدنا علی المرتضیٰؓ کے لیے ہوا یہ عقیدہ سراسر شیعہ عقیدہ ہے اس کی تفصیلی بحث ہم نے تحفہ جعفریہ جلد اول اور عقائد جعفریہ جلد دوم میں کر دی ہے سبب نزول یوں بنایا گیا کہ حضورﷺ کو حج کے دوران میدان عرفات میں جبرائیلؑ آمین نے یہ پیغام دیا کہ یہاں تم سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ولایت کا اعلان کرو آپ نے اعلان نہ کیا اور اپنے تحفظ کی اللہ تعالیٰ سے ضمانت طلب کی دوسری طرف منٰی میں جبرائیلؑ حاضر ہو گئے پھر یہی سوال جواب ہوئے تیسری مرتبہ مکہ کے قریب ملاقات ہونے پر جبرائیلؑ نے عرض کیا پھر وہی طلب ضمانت کا جواب چوتھی مرتبہ خم غدیر پر پہنچ کر آپ پر مذکورہ آیت اتاری گئی جس میں تنبیہ کی گئی اگر ٹال مٹول کیا تو رسالت کی تبلیغ ناقص بلکہ کلعدم ہو جائے گی یہ اول تا آخر شیعہ عقائد کی کہانی ہے پھر اسے محمد بن یوسف الکنجی صاحب کفایة الطالب کے حوالے سے پیش کرنا سونے پر سہاگہ کے مترادف ہے عبیداللہ امرتسری نے رعب ڈالنے کے لیے ابو نقاش کا نام لیا جس کی کوئی سند ذکر نہ کی امام رازیؒ کو اپنا ہم نوا ثابت کیا حالانکہ امام رازیؒ نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں دس عدد روایات پیش کیں آخری یہ کہ نزلت الايتہ في فضل علي ابنِ ابي طالب یعنی یہ آیت کریمہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کی فضیلت میں اتری کیا فضیلت اور امامت لازم ملزوم ہیں ۔؟امام رازیؒ نے اس آیت کریمہ کا مفہوم جو راجح طور پر بیان کیا وہ یہ ہے اور یہی ان کا مسلک ہے 

 تفسیر کبیر:

 اعلم ان هذه الروايات وان كثرت الا ان الاولى حمله على انه تعالى امنه من مكراليهودوالنصارى وامره باظهار التبليغ من غير مبالاة من هوبهم وذلك لان ماقبل هذه الاية بكثير وما بعدها بكثير لما كان كلاما مع اليهود والنصارى امتنع القاء هذه الايۃ الواحدة في البين على وجه تكون اجنبيه عما قبلها وما بعدها

( تفسیر کبیر جلد 12 صفحہ 50)

 ترجمہ

مذکورہ آیت یا ایہا الرسول بلغ انزل الیک الخ کے مفہوم پر اگرچہ بہت سی روایات ملتی ہیں مگر بہتر یہ ہے کہ اسے اس بات پر محمول کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری کے مکر و فریب سے آپ کو امن میں رکھنے کا اعلان فرمایا اور بے دھڑک تبلیغ کرنے کا حکم دیا یہ معنی اس لیے بہتر ہے کیونکہ اس سے پہلے کی بکثرت آیات اور اس کے بعد کی بہت سی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری سے گفتگو کی لہٰذا اس آیت کو ماقبل اور مابعد سے کاٹ کر اجنبی مضمون پر محمول کرنا ممتنع ہے ۔ 

قارئین کرام! عبید اللہ امرتسری شیعی کا ارحج المطالب میں امام رازی صاحبؒ کا قول اپنے مسلک کی تائید میں ذکر کرنا کہاں تک درست ہے ؟آ پ نے امام رازیؒ کی تفسیر سے ان کا اپنا مسلک ملاحظہ کر لیا سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ولایت و امامت کا ان کے مسلک میں اس آیت سے ثابت نہیں تو اس طرح عبید اللہ امرتسری نے اس عبارت کے ذریعے بھی شیعت کا پرچار کیا خم غدیر پر سیدنا علی المرتضیٰؓ کی امامت کا اعلان ہونا شیعی مسلک ہے جس کا نتیجہ یہ کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا بطور خلیفہ و امام انتخاب غلط تھا اسی مسلک کی تبلیغ صاحب ارحج المطالب بھی کر رہا ہے 

 عبارت نمبر 8:

عن حذيفهؓ قال قال رسول اللهﷺ‎ عليؓ خير البشر من ابى فقد كفر اخرجه ابنِ مردويه ۔

(ارحج المطالب صفحه 46 )

 ترجمہ 

سیدنا حذیفہؓ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ فرماتے تھے سیدنا علیؓ خیر البشر ہے جس نے انکار کیا وہ کافر ہوا 

 توضیح

ابنِ مردویہ اور سیدنا حذیفہؓ کے درمیان تین چار صدیوں کا طویل زمانہ ہے کیونکہ سیدنا حذیفہؓ صحابی رسولﷺ ہیں اور ابنِ مردویہ نے 410ھ میں انتقال کیا صاف واضح کے ان دونوں میں ملاقات نہ ہوئی لہٰذا کئی واسطوں سے یہ روایت ابنِ مردویہ تک پہنچی ہوگی وہ واسطے کیا ہے کتنے ہیں کیسے ہیں؟ کوئی علم نہیں اس لیے تحقیق کے میدان میں یہ روایت قابل احتجاج ہرگز نہیں اب اس کے مضمون کی طرف ہم آتے ہیں وہ بھی نہایت عجیب ہے بلکہ کفر تک پہنچانے والا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ خیر البشر سے مراد مطلقا ہر بشر وہ انسان سے بہتر ہے تو پھر سیدنا علی المرتضیٰؓ کی افضلیت تمام انبیاء کرامؑ حتیٰ کہ حضورﷺ‎ پر بھی تسلیم کرنا پڑے گی اسے تسلیم کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہےاور اگر خیر البشر سے مراد صرف حضورﷺ‎ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین لیے جائے تو اجماع امت کے مخالفت لازم آتی ہے کیونکہ امت محمدیہ میں سیدنا صدیق اکبرؓ کی افضلیت پر اجماع منعقد ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ کچھ مسلمان علماء سیدنا علی المرتضیٰؓ کی افضلیت کے قائل ہیں تو ہم کہیں گے کہ ان علماء نے عبیداللہ امرتسری کی طرح اس افضلیت کے منکر کو کافر ہرگز نہیں کہا آخر میں ہم خود عبیداللہ امرتسری کے منہ سے اس کا اپنے بارے میں امامی ہونا ثابت کر کے بحث کو ختم کر رہے ہیں ملاحظہ ہو 

 مولوی عبیداللہ امرتسری کا اپنی زبان سے اپنا شیعہ ہونے کا اقرار

 ارحج المطالب

 ہمارے نزدیک سبِّ شیخینؓ نہایت امر شینع ہے ہم اپنے امامیہ مذہب کے ساتھ ہرگز اس میں اتفاق نہیں کر سکتے۔

 (ارحج المطالب صفحہ 673)

 توضیح

مولوی عبیداللہ امرتسری تسلیم کرتا ہے کہ میں اِمامی ہوں لیکن ساتھ ہی اِمامیہ مسلک کے ایک عقیدے سے اتفاق کرنے سے پہلو تہی کی جا رہی ہے پہلی تو بات یہ ہے کہ اِمامیہ فرقہ کے نزدیک سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو برا بھلا کہنا ضروری ہے اس کے بغیر کوئی پکا اِمامی نہیں بن سکتا اس لیے اگر عبیداللہ امرتسری اِمامی کہلانے میں عار نہیں محسوس کرتا تو پھر اس عدم اتفاق کے اعلان کی ضرورت کیوں؟؟ممکن ہے کہ کچھ دوسرے نام نہاد سنّیوں کی طرح اس نے بھی تقیہ سے کام لیا ہو اور یہ عدم اتفاقی اسی کا ثمرہ ہو دوسری بات یہ ہے کہ صرف شیخینؓ کے برا بھلا کہنے میں اس کے بقول اسے دوسرے امامیوں سے اتفاق نہیں دیگر تمام عقائد و نظریات میں ان سے اتفاق ہے اب اس سے بڑھ کر اِمامی شیعی ہونے کا ثبوت کیا ہو سکتا ہے مختصر یہ کہ ہم نے آٹھ عدد عبارات ایک عدد قول مقبول سے غلام حسین نجفی کی عبارت اور آخری حوالہ جس میں عبیداللہ نے اپنے اِمامی ہونے کا صراحتاً اقرار کیا کل 10 حوالہ جات نقل کیے ہیں ان کے مطالعے کے بعد کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مولوی عبیداللہ امرتسری صاحب ارحج المطالب سنی عالم تھا اور نہ ہی اس کی تصنیف ارحج المطالب کو معتبر سی کتاب کہا جا سکتا ہے 

 والله اعلم بالصواب

 فاعتبروا يا اولى الابصار