Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

الفصول المہمہ مصنفہ علی بن محمد المعروف ابنِ صباغ

  محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحب

الفصول المہمہ مصنفہ علی بن محمد المعروف ابنِ صباغ

ان کتب میں سے جس کے مصنفین میں شیعیت پائی جاتی ہے ایک کا نام الفصول المہمة فی معرفة احوال الائمة علیہم السلام بھی ہے اور اس کتاب کو بھی کچھ شیعہ مؤلفین نے اہلِ سنت کی معتبر کتاب کے عنوان سے پیش کر کےاس کی عبارات سے اپنے نظریات ثابت کیے۔ یوں قارئین کرام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ اہلِ سنت اور شیعہ کا فلاں نظریہ مشترکہ ہے حالانکہ اس کتاب کا مصنف اہلِ سنت نہ ہونے کی وجہ سے سنیوں کے لیے کوئی دقعت نہیں رکھتا چناچہ غلام حسین نجفی نے اسی انداز فریبانہ کو پیش نظر رکھ کر قول مقبول میں لکھا ہے۔ 

قول مقبول

قالت ام سلمیؓ قال لی النبیﷺ قومی تنحی عن اھل بیتی فتنحیت۔

(بحوالہ الفصول المہمہ صفحہ25 مطبوعہ طہران)بحوالہ قوال مقبول صفحہ 159

ترجمہ

سیدہ ام سلمہؓ نے کہا مجھے نبی پاکﷺ نے فرمایا تو میری اہلِ بیت سے الگ ہو جا لہٰذا میں الگ ہو گئی۔

توضیح

الفصول المہمہ کی مزکورہ عبارت کو ذکر کر کے نجفی نے یہ ثابت کیا ہے کے اہلِ سنت کے نزدیک بھی ازواج مطہرات حضورﷺ کی اہلِ بیت میں شامل نہیں صاحب الفصول المہمہ کا تعارف بحیثیت مصنف اس کتاب کے ٹائٹل پر یوں کرایا گیاہے علی محمد بن احمد مالکی مالکی چونکہ امام مالک بن انسؒ کے مقلد کو کہتے ہیں اور ائمہ اربعہؒ اپنے مقلدین سمیت اہلِ سنت کہلاتے ہیں لہٰذا علی بن محمد احمد بھی سنی ہوا حالانکہ اس کی رفض و شیعت ہر دو مکتبہ فکر کے نزدیک ثابت ہے اس کی کتاب کے بعض مندرجات،کتب شیعہ میں اس کو اپنا مشائخ کہنا اور اہلِ سنت کا اس کی شیعت کی وضاحت کرنا یہ تین امور اس کے نظریات و متقدات کا فیصلہ کر دیتے ہیں سب سے پہلے ہم اس کی مذکورہ تصنیف سے چند اِقتباسات پیش کر رہے ہیں انہیں پڑھیں اور فیصلہ کریںکہ ان کا قائل کون ہے ۔

 عبارت نمبر (1)

وقد نسب بعضہم المصنف فی ذلک الی الترفض لما ذکرہ فی خطبتہ اولہ الحمد للّٰہ الذی جعل من صلاح ھذہ الامة نصب الامام العادل۔

(مقدمہ الفصول المہمہ صفحہ 6)

ترجمہ

(صاحب کشف الظنون نے کہا) بعض نے الفصول المہمہ کے مصنفین کو رافضیت کی طرف منصوب کیا اور اس پر دلیل اس کی کتاب کے خطبہ کے ان الفاظ کو بنایا تمام تعریفیں اللہ پاک کے لیے کہ جس نے اس امت کی اصلاح کے لیے امام عادل کو مقرر کیا خطبہ کی مذکور عبارت میں امامت کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف منصوص قرار دیا گیا اور یہی نظریہ اہلِ تشیع کا دربارہ امامت ہے اور اہلِ سنت کے ہاں مسئلہ امامت منصوص من اللہ نہیں لہٰذا مصنف الفصول المہمہ کا عقیدہ وہی ہے جو اہلِ رفض و تشیع کا ہے اس لئے یہ علمائے اہلِ سنت میں سے نہیں ہے۔

عبارت(2)

اکثر القول بتبجیلہ واستحسان فرایدہ من الحج المعاصرین استاذنا الاکبر الحجتہ الامام الشیخ محمد الحسین آلی کاشف الغطاء دامت فواضلہ ۔

(مقدمہ الفصول المہمہ صفحہ 8)

ترجمہ

کتاب الفصول المہمہ کی عظمت شان اور اس کے دلائل کی اچھائی مصنف کے ہم عصر علماء میں سے خاص کراستاد الاکبرالحجتہ الامام الشیخ محمد حسین نے بیان کی ہےجو صاحب الکاشف الغطاء ہیں قارئین کرام!شیخ محمد حسین آل کاشف الغطاء اہلِ تشیع کا بہت بڑا مجتہد ہےاس کی تصنیف اصل شیعہ واصولہا جیسا کہ اپنے نام سے ظاہر ہے مسلک شیعت کے اصول بیان کرنے پر لکھی گئی اور یہ کتاب دنیائے شیعت کی مسلمہ کتاب ہے اس سے صاف ظاہر کہ اگر الفصول المہمہ کا مصنف پکا سنی ہوتا تو اس کی کتاب کے دلائل و نظریات کو ایک بہت بڑا شیعہ مجتہد کیسے اچھے کہتا یوں محمد حسین آل کاشف الغطاء نے اس کی شیعت توثیق کر دی ادھر شیعہ یہ کہتے ہیں کہ جس راویت میں سنیوں کی موافقت نظر آتی ہو اسے چھوڑ دو ان دونوں باتوں کو پیش نظر رکھ کر آپ صاحب الفصول المہمہ کے بارے میں باآسانی فیصلہ کر سکتے ہیں ۔

عبارت 3

قلنا ان من اھمیت ھذا الکتاب الجلیل القدر ھو اعتماد مؤلفہ علی کتب الفریقن فی تثبیت امامة الائمة الاطہار (ع) ومن جملتیہا کتاب ۔

 (کفایت الطالب فی مناقب امیر المومنین علی بن ابی طالب) للشیخ العلامت فقیہ الحرمین الکنجی الشافعی المتوفی سنہ 658۔

(مقدمت الکتاب صفحہ 8) 

ترجمہ

ہم کہتے ہیں کہ اس عظیم القدر کتاب کی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس کے مصنفین نے فریقین کی کتب سے ائمہ اطہار کی امامت ثابت کی ہے اور ان کتابوں میں سے ایک کتاب کفایت الطالب فی مناقب امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالبؓ بھی ہے جس کے مصنف علامہ الشیخ فقیہ الحرمین الکنجی شافعی متوفی 658 ھ ہیں 

توضیح

کفایت الطالب کا تعارف چند اوراق قبل آپ ملاحظہ کر چکے ہیں دھوکہ دہی کے لیے اس کے نام کے آخر میں "شافعی" لکھا گیا ہے ورنہ درحقیقت یہ شخص پکا رافضی ہے اب فصول المہمہ کا ماخذ ایسی کتاب ٹھہری جس کا مصنف کٹر رافضی ہو تو پھر اس کا نظریہ خود آشکارا ہو جا تا ہے ایسی کتاب کو اہلِ سنت کی معتبر کتاب کہنا اور اس سے عقائد اہلِ تشیع کی توثیق پیش کرنا کس طرح درست ہو سکتا ہے

الفصول المہمہ کے چند ماخذ

عبارت4

  1.   المغازی لابنِ قتیبہ 
  2.  الفتوح لابنِ اعثم 
  3. الارشاد للشیخ مفید 
  4. الجوانح والجوامع للامام قطب الدین ابی سعیدھبت اللہ ابنِ الحسن نھاوندی 
  5. الدلائل للحمیری 
  6.  الوزیر السعید مویدالدین العلقمی 

(مقدمہ صفحہ 9)

توضیح

مندرجہ بالا چھ کتب کے مصنف بھی کفایة الطالب کے مصنف کی طرح رافضی ہیں اگرچہ اس کے مصنف کے نام کے آخر میں المالکی لکھا گیا ہے لیکن یہ صرف فریب دینے کے لیے کیا گیا ہے درحقیقت وہ اہلِ تشیع میں سے ہے۔

عبارت5

لقد اعتمد المؤلف فی نقل الاحادیث الشریفۃ والاخبار فی فضائل آل البیت المیامین الاخیار علی روایت الائمۃ المعصومین علیھم السّلام ومن بعدھم علی الصحابت الکرام مثل ابنِ عباس و عبداللہ بن مسعود و ابو ذر غفاری الخ 

(مقدمہ صفحہ 9)

ترجمہ

مؤلف نے فصول المہمہ میں احادیث و اخبار جو کہ فضائل آلِ بیت کے متعلق میں نقل کرنے میں ان پر اعتماد کیا ہے جو ائمہ اہلِ بیت معصومین سے مروی ہیں اس کے بعد چند صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین مثل سیدنا ابنِ عباس ،سیدنا عبد اللہ بن مسعود اور سیدنا ابو ذر غفاریؓ سے بھی روایات کی ہیں۔

توضیح

فصول المہمہ کا مقدمہ تحریر کرنے والا کٹر شیعہ ہے اور اس نے صاحب الفصول المہمہ کے شیعہ ہونے کی تائید اس طرح کی کہ یہ بھی ائمہ اہلِ بیت کو معصوم سمجھتا ہے حالانکہ اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرامؑ کے علاؤہ کوئی اور معصوم نہیں ہے عصمت ائمہ دراصل اہلِ تشیع کا عقیدہ ہے لہٰذا اس سے بھی ثابت ہوا کہ صاحب الفصول المہمہ اہلِ سنت کا فرد نہیں بلکہ اہلِ تشیع کا ایک فرد ہے۔

عبارت6

قد اثبت الوصیت والامامت بعد رسول اللہﷺ لامیر المومنین (ع) فی موضوعات کتابہ ھذا۔

 (مقدمہ الکتاب صفحہ 16)

ترجمہ

مصنف نے اپنی اس کتاب میں وصیت اور امامت کو رسول اللہ ﷺ کے بعد سیدنا علی المرتضیٰؓ کے لیے ثابت کیا ہے یہ بات اس کتاب کے موضوعات میں سے ایک ہے۔

توضیح

قارئین کرام! اہلِ سنت کا عقیدہ اس بارے میں یہ ہے رسول اللہﷺ کے بعد خلافت بلا فصل اور امامت کا منصب سیدنا صدیق اکبرؓ کو ملا اس کے بر خلافت بلا فصل اور امامت بلافصل کو سیدنا علی المرتضیٰؓ لیے ثابت کرنے والا قطعاً سنی نہیں ہو سکتا۔

عبارت7

قال الشیخ کمال الدین طلحة توفیت فاطمتہ علیہا السلام لیلت الثلاثاء لثلاث خلون من شھر رمضان المعظم سنة احدی عشرة من الھجرۃ ودفنت بالبقیع لیلا صلی علیھا علی ابنِ ابی طالب وکبر علیھا خمس تکبیرات۔

(الفصول المہمہ فی ذکر البتول صفحہ 147) 

 ترجمہ

شیخ کمال الدین طلحہ نے کہا خاتون جنت سیدہ فاطمتہؓ کا گیارہ ہجری رمضان المبارک کی تین تاریخ منگل کو انتقال ہوا اور رات کے وقت جنت البقیع میں دفن کی گئیں سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ان کی نماز جنازہ پانچ تکبیرات سے پڑھائی ۔

توضیح

اہلِ سنت کی کتب مثلاً البدایہ والنہایہ اور تاریخ خمیس میں سیدہ فاطمہؓ کی نماز جنازہ پڑھانے والا سیدنا صدیق اکبرؓ کو لکھا گیا ہے اور انہوں نے چار تکبیرات کہیں لیکن صاحب الفصول نے امام اور تعداد تکبیرات میں اہلِ سنت کے قول کی مخالفت کی اور اہلِ تشیع کا مسلک ثابت کیا لہٰذا اسے سنی کہنا صرف دھوکہ دہی کے لیے ہو سکتا ہے ورنہ یہ اہلِ تشیع میں سے ایک کٹر شیعہ ہے۔

عبارت8

فصل فی ذکر وفاتہ ومدۃ عمر وامامتہ قال ابو علی الفضل بن الحسن الطبرسی فی کتابہ "اعلام الوری " بعد ان ثم الصلح بین الحسن و معاویۃ وخرج الحسن الی المدینۃ واقام بھا عشر سنین سقته زوجته جعدۃ بنت الاشعت بن قیس الکندی السم وذلک بعد ان بدل لھا معاویۃ علی سمہ ماۃ الف درھم فبقی مریضا اربعین یوما۔

(الفصول المہمہ فی ذکر البتول صفحہ 146)

 ترجمہ

امام حسن کی وفات ان کی عمر اور مدت خلافت کی فصل میں مؤلف نے ذکر کیا کہ ابو علی فضل بن حسن طبرسی نے اپنی تصنیف"اعلام الوری" میں لکھا کہ جب سیدنا امیر معاویہؓ اور سیدنا حسنؓ کی صلح ہوگئی اور سیدنا حسنؓ مدینہ کی طرف تشریف لے گئے وہاں کچھ سال آپ نے قیام فرمایا پھر ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث نے انہیں زہر کھلایا اور اس زہر کھلانے کے لیے سیدنا امیر معاویہؓ نے ایک لاکھ درھم خرچ کیے تھے چناچہ اس زہر کے اثر سے چالیس دن بیمار رہ کر سیدنا حسنؓ نے انتقال فرمایا۔

توضیح

قارئین کرام! اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے اور کتب شیعہ میں بھی اس کی تائید موجود ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ سے جب سیدنا حسنؓ کی صلح ہوگئی تو سیدنا امیر معاویہؓ انہیں خطیر رقم سالانہ بطور وظیفہ دیتے رہے اس کی تفصیل تحفہ جعفر جلد چہارم میں وضاحت سے مذکور ہوچکی ہے رہا زہر دینے کا معاملہ تو خود حسنین کریمینؓ کو بھی علم نہیں تھا چہ جائیکہ کسی دوسرے کو اس بارے میں علم ہو صاحب الفصول کا سیدنا امیر معاویہؓ پر یہ الزام دھرنا کہ انہوں نے سیدنا حسنؓ کو زہر کھلانے کے لیے بہت سے دراھم خرچ کیے اہلِ تشیع کی ترجمانی کرتا ہے صحابی رسول اور کاتب وحی پر ایک بہتان عظیم بھی ہے علاوہ ازیں جس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے اس کا مصنف بہت بڑا شیعہ مجتہد بلکہ اس کے شاگردوں میں سے نو شاگردوں کی اجتہادی عظمت کا تذکرہ اعلام الوری میں یوں مذکور ہے۔ 

  1.  الشیخ محمد بن علی شھر آشوب السروی انمازنہ رانی۔
  2.  ولدہ الذاکی رضی الدین الحسن بن الفضل ابوانصر ابطرسی۔
  3. الشیخ منتجب الدین علی بن عبید اللہ بن الحسن المقلب بحسکا الرازی من احفاد ابن باابویه القمی۔
  4. الشیخ سعید بن ھبة اللہ ابو الحسین المعروف بالقطب الراوندی۔
  5.  الشیخ عبداللہ بن جعفر الدوریستی ۔
  6.  الشیخ شاذان بن جبرئیل القمی۔ 
  7.  السید مھدی بن نزار ابو الحمد الحسینی القائبنی۔
  8.  السید شر فشاہ بن محمد بن زیادۃ الافطسی 
  9.  السید فضل الدین علی بن عبیداللہ الحسنی ضیاء الدین راوندی۔

(علام الوری صفحہ 5 ترجمۃ المؤلف)

قارئین کرام! یہ تو کتب وہ ہیں جن پر شیعت کی چکی گھومتی ہے اور یہ ان لوگوں کی تصانیف ہے جن کو شیعت میں اعلیٰ مقام حاصل ہے ان کے استاد اور ان کے مربی فضل ابنِ عباس طبرسی کے شیعہ ہونے میں کس کو اعتراض ہے جب پورا ٹولہ "گروہ شیعہ" سے تعلق رکھتا ہے تو پھر ان کی کتب کو اہلِ سنت کی مشہور و معتبر قرار دینا کس قدر جہالت ہے یہ چند حوالہ جات کتاب "الفصول المہمہ"سے ہم نقل کیے ہیںان کے علاؤہ خود اہلِ تشیع نے اس کا تعارف "اپنا آدمی"کے طور پر کرایا ہے

کتب شیعہ سے صاحب الفصول المہمہ علی بن محمد کا تعارف

الذریعہ

الفصول المہمۃ فی معرفۃ الائمۃ الاثنی عشر وفضلھم ومعرفۃ اولادھم ونسلھم للشیخ نور الدین محمد علی بن محمد الصباغ المبلکی المکی المتوفی 855 متد اول اقلہ (الحمدللہ الذی جعل من صلاح ھذہ الامۃ نسب الامام العادل) عدۃ فی رسالۃ (مشائخ الشیعۃ) منھم مع انہ من اعاظم المالکیۃ ولذا قال فی (کشف الظنون) انہ نسب بعضھم المصنف الی الرفض لما ذکرہ فی خطبتہ ۔(الذریعہ جلد 16صفحہ 246 در حروف فاءصاد واؤ مطبوعہ بیروت)

ترجمہ

فصول المہمہ کتاب جس میں بارہ اماموں بنکے فضل اور ان کی اولاد و نسل کی معرفت کا تذکرہ ہے اس کے مصنف شیخ نور الدین علی بن محمد الصباغ مالکی ہیں جن کا انتقال 755ء میں ہوا مشہور و معروف کتاب ہے اس کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے "الحمدللہ الذی جعل من صلاح ھذہ الامۃ نصب الامام العادل" رسالہ مشائخ شیعہ میں اس مصنف کو شیعہ مشائخ میں شمار کیا گیا حالانکہ یہ مالکی مسلک کے بڑے عالم تھے اس لیے کشف الظنون میں ہے کہ بعض نے اس کے مصنف کی طرف رافضی ہونے کی نسبت کی کیونکہ اس کی کتاب کے خطبہ میں مذکورہ الفاظ اس کے رفض کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

الکنی والالقاب

وقد یطلق ابنِ الصباغ علی نور الدین علی بن محمد بن الصباغ المکی المالکی صاحب کتاب الفصول المہمہ فی معرفۃ الائمۃ قال الکاتب الحلبی وقد نسبہ بعضہم الی الترفض لما ذکر فی اول خطبتہ الحمد للّٰہ الذی جعل من صلاح ھذہ الامۃ نصب الامام العادل الخ توفی سنۃ855 (الکنی والالقاب جلد 1 صفحہ 336)

ترجمہ

ابنِ الصباغ نور الدین علی بن محمد الصباغ کو بھی کہا جاتا ہے جو مکی اور مالکی ہے اور کتاب الفصول المہمہ کا مصنف ہے کاتب الحلبی نے کہا کہ اسے بعض علماء نے رافضی ہونے کی طرف منسوب کیا کیونکہ اس نے اسی مذکورہ کتاب کے شروع میں یہ لکھا ہے کہ تمام تعریفیں اس ذات کے لیے جس نے امت کی اصلاح کے لیے امام عادل کھڑا کیا 855 ء میں اس کا انتقال ہوا ۔

توضیح

قارئین کرام! صاحب الفصول المہمہ کے بارے میں دو عدد ایسی کتب شیعہ سے ہم نے حوالہ جات پیش کیے جن پر دنیائے شیعیت کو مکمل اعتماد ہے ان میں سے ایک نے بحوالہ کاتب حلبی اس کی رافضیت کو بیان کیا لیکن اس پر جرح نہ کر کے یہ تاثر دیا کہ کاتب حلبی کی بات درست ہے درست کیوں نہ ہوتی آخر مشائخ شیعہ کے مصنف نے اسے صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ مشائخ میں سے لکھا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ ابنِ الصباغ علی بن محمد اہلِ سنت علماء میں سے نہیں بلکہ شیعہ ہے اور اس کتاب مذکورہ کا کوئی حوالہ ہم اہلِ سنت پر حجت نہیں ہو سکتا ۔

فاعتبروایا اولی الابصار