جامع المعجزات مصنفہ محمد الواعظ الرھاری
محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحبجامع المعجزات مصنفہ محمد الواعظ الرھاری
اس کے مصنف کا نام محمد الواعظ الرھاری ہے اس کا ترجمہ علامہ عطاء المصطفی جمیل صاحب نے کیا ہے یہ کتاب قصہ جات اور کہانیوں پر مشتمل ہے مصنف چونکہ واعظ ہے اس لیے اکثر و بیشتر واعظین کی طرح اس نے بھی بات کو بنانے کی کوشش کی اور روایات کے صحیح اور غلط ہونے کا امتیاز پیش نظر نہ رکھا بلکہ بعض من گھڑت روایات و واقعات بھی درج کردئے گئے شیعہ اسی کتاب کا ایک واقعہ لے کر اہلِ سنت پر اعتراض کرتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کو جب سیدنا ابوبکرصدیقؓ نے "وصی رسول کہا ہے تو سنیو تم کیوں نہیں تسلیم کرتے؟ وصی رسول مانا بھی اور سیدنا ابوبکرؓ نے زبردستی خلافت پر قبضہ بھی کر لیا وغیرہ وغیرہ اصل عبارت (ترجمہ) ملاحظہ ہو۔
جامع المعجزات، معجزہ، مضر بن دارم کے حالات اور عجیب و غریب سوالات
رسول اللہﷺ کا وصال ہوا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑے آپﷺ کے وصال کو ابھی دس دن ہی گزرے تھے کہ ایک اجنبی مسجد نبوی کے دروازے پر آیا ہاتھ میں عصا پکڑے اس نے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپ رکھا تھا وہ دروازے سے ہی پکارا السلام علیکم اصحاب رسول اللہﷺ محمد رسولﷺ وصال فرما گئے ہیں تو کیا ہوا؟ رب محمدﷺ تو زندہ ہیں وہ حی لایموت ہے اللہ تم پر رحم فرمائے تمہارے آقاﷺ کی وفات سے تم پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے پھر اجنبی نے پوچھا حضورﷺ کے وصی کون ہیں؟ تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ ہیں وصی رسولﷺ۔
(جامع المعجزات صفحہ 12 تصنیف محمد الواعظ فرید بک سٹال لاہور)
قارئین کرام! سیدنا ابوبکر صدیق اکبرؓ کے بقول سیدنا علی المرتضیٰؓ کا وصی رسول ہونا کسی صحیح روایت میں اس کا اتہ پتہ نہیں ملتا یہ واقعہ کوئی کذب و افتراء ہے۔
اسی واقعہ کو شیعہ دلیل بنا کر پیش کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری اذان میں "علی وصی رسول اللہ" کے الفاظ کو تم سنیو اچھا نہیں سمجھتے حالانکہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے خود ان کا اعلان و اقرار کیا ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جامع المعجزات اہلِ سنت کی معتبر کتاب ہے بات یہ ہے کہ اس کا مصنف ایک واعظ ہے اور واعظین کی طرح یہ بھی اِدھر اُدھر کی مارتا ہے یہ واقعہ بھی اسی نوعیت کا ہے ایک اور جھوٹا قصہ سنیے جسے اس کے مصنف نے بھی معجزہ کا نام دیا ہے۔
جامع المعجزات معجزہ
حسنین کے صدقے سیدنا ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر تھا حضورﷺ کے پہلو میں سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ بیٹھے ہوئے تھے ایک شخص نے حضورﷺ کی خدمت میں ایک سیب پیش کیا آپﷺ نے قبول فرمالیا دونوں نواسوں میں سے ہر ایک نے چاہا کہ سیب اسے مل جائے لیکن حضورﷺ کو یہ پسند نہ تھا کہ ایک نواسے کو سیب دے کر دوسرے کو ناخوش کیا جائے اتنے میں جبرائیلؑ نے حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہﷺ دونوں سے کہیں کہ کُشتی لڑیں جو غالب آئے گا سیب اسی کا ہوگا حضورﷺ نے مسکرا کر حکم دیا تو دونوں بھائی کشتی لڑنے لگے سیدنا حسینؓ کو حضورﷺ داؤ پیچ سکھا رہے تھے اور سیدنا حسنؓ کو جبرائیلؑ کشتی طوالت پکڑ گئی دونوں بھائی برابر رہے جبرائیلؑ فورا جنت سے دوسرا سیب لے آئے ایک سیدنا حسنؓ کودیا اور دوسرا سیدنا حسینؓ کو۔
(جامع المعجزات صفحہ 82)
قارئین کرام یہ ایسا واقعہ ہے کہ اس کا کسی صحیح روایت میں ملنا تو درکنار راز روئے عقل بھی غلط اور باطل ہے اور من گھڑت ہے اگر ایک سیب کو دونوں صاحبزادے کھانا چاہتے تھے تو اس کی آسان صورت یہ تھی کہ اس کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے یا بازار سے ایک اور سیب لا کر تقسیم کر دیے جاتے جبرائیلؑ آئے، کشتی کرائی، حضورﷺ اور جبرائیلؑ نے داؤ سکھائے، کشتی برابر رہنے پر جنت سے سیب منگوا کر دونوں کو ایک سیب دینا ایک سے بڑھ کر ایک گپ اور من گھڑت ہے لہٰذا ایسی کتاب کو "اہلِ سنت کی معتبر کتاب" کہنا انتہائی بے وقوفی ہے۔