عالم یا طالب علم کے کسی بستی سے گزرنے پر اللہ تعالیٰ اس بستی کے قبرستان سے چالیس دن تک کے لئے عذاب اٹھا لیتا ہے۔(تحقیق)
خادم الحدیث سید محمد عاقب حسینیہ من گھڑت حدیث اکثر علماء اور طلباء کی فضیلت میں بیان کی جاتی ہے اس کے بارے میں ائمہ محدثین کا کلام درج ذیل ہے:
1: امام الفقہاء و المحدثین حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اس روایت کو بے اصل قرار دیا:
حديث إن العالم والمتعلم إذا مرا على قرية فإن الله تعالىٰ يرفع العذاب عن مقبرة تلك القرية أربعين يوما لا أصل له۔
ترجمہ: حدیث کہ جب عالم یا طالب علم کسی بستی گزرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس بستی کے قبرستان پر سے چالیس دن تک کے لئے عذاب دور فرما دیتا ہے امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔
(تخريج أحاديث شرح العقائد للسعد التفتازانی: صفحہ، 64)
2: سلطان المحدثین ملا علی قاری الحنفی رحمہ اللہ نے بھی اس بات کا اقرار کیا کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔
حديث إن العالم والمتعلم إذا مرا على قرية فإن الله تعالىٰ يرفع العذاب عن مقبرة تلك القرية أربعين يوما قال الحافظ الجلال لا أصل له۔
(كتاب المصنوع فی معرفة الحديث الموضوع: صفحہ، 57)
(كتاب الأسرار المرفوعة فی الأخبار الموضوعة: صفحہ، 80)
(فرائد القلائد على أحاديث شرح العقائد: صفحہ، 64)
3: اس بات کا اقرار علامہ عجلونی رحمہ اللہ اور مرعی کرمی رحمہ اللہ اور محمد بن خليل الحنفی رحمہ اللہ نے بھی کیا کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔
(كتاب كشف الخفاء ت هنداوی جلد، 1 صفحہ، 251)
(كتاب الفوائد الموضوعة فی الأحاديث الموضوعة: صفحہ، 131)
(كتاب اللؤلؤ المرصوع: صفحہ، 53)
4: امام ابنِ حجر المکی الہیتمی الشافعی رحمہ اللہ سے اس روایت کے بارے میں سوال کیا گیا:
وسئل ذكر التفتازانی فی شرح العقائد عن النَّبِیﷺ أنه قال إن العالم والمتعلم إذا مرا على قرية فإن الله يدفع العذاب عن مقبرة تلك القرية أربعين يوما هل لهذا الحديث أصل وهل رواه أحد من أصحاب السنن أو لا۔
ترجمہ: اور سوال پوچھا گیا کہ علامہ سعد الدین تفتازانی رحمہ اللہ نے شرح العقائد میں ذکر کیا: کہ نبیﷺ نے فرمایا جب عالم یا طالب علم کسی بستی گزرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس بستی کے قبرستان پر سے چالیس دن تک کے لئے عذاب ٹال دیتا ہے۔
کیا اس حدیث کی کوئی اصل موجود ہے؟ اور کیا اصحابِ کتبِ سنن میں سے کسی نے اسے روایت کیا ہے یا نہیں؟
فأجاب بقوله لم أر لهذا الحديث وجودا فی كتب الحديث الجامعة المبسوطة ولا فی غيرها ثم رأيت الكمال بن أبی شريف صاحب الإسعاد قال إن الحديث لا أصل له وهو موافق لما ذكرته۔
ترجمہ: تو امام ابنِ حجر المکی رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ میں نے یہ حدیث کتب احادیث جامع المبسوطہ میں نہیں دیکھی اور نہ ہی کسی دوسری کی کتاب میں پھر میں نے کمال الدین بن ابی شریف صاحب الإسعاد بشرح الإرشاد کو دیکھا تو انہوں نے فرمایا اس روایت کی کوئی اصل نہیں امام ہیتمی فرماتے ہیں یہ اس بات کے موافق ہے جو میں نے ذکر کی۔
(الفتاوىٰ الكبرى: جلد 1 صفحہ، 432)
اصول حدیث کا بڑا مشہور قاعدہ ہے کہ ہر وہ روایت جس کے بارے میں محدثین کرام فرمائیں:
لا أصل له، لم أقف عليه، لم أجده، لا أعرفه، اور کوئی دوسرا ناقد حدیث ان محدثین کا تعاقب نہ کرے تو اس روایت کی نفی کی جائے گی وہ روایت موضوع اور بے اصل قرار دی جائے گی ملاحظہ ہو:
امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ اپنی اصول حدیث کی کتاب التدریب الراوی میں نقل کرتے ہیں:
إذ قال الحافظ المطلع الناقد فی حديث لا أعرفه اعتمد ذلك فی نفيه كما ذكر شيخ الإسلام۔
ترجمہ: جب حافظ باخبر ناقد کسی حدیث کے بارے میں کہے لا أعرفه٬ لا أصل له٬ لم اقف عليه وغیرہ تو اس کی نفی پر اعتماد کیا جائے گا جیسا کہ شیخ الاسلام حافظ ابن5 حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ذکر کیا پھر خود آگے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأما بعد التدوين والرجوع إلى الكتب المصنفة، فيبعد عدم الإطلاع من الحافظ الجهبذ على ما يورده غيره فالظاهر عدمه۔
ترجمہ: مگر تدوین حدیث کے بعد اور کتب مصنفہ کی مراجعت کے بعد کسی ناقد حافظ کا کسی ذکر کردہ روایت پر مطلع نہ ہونا بعید ہے پس ظاہر یہی ہے کہ اس روایت کا وجود نہیں ہے.
(كتاب تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: جلد، 1 صفحہ، 349)
ہم اوپر محدثین کا کلام اس روایت کے تحت نقل کر آئے جنہوں نے اس روایت پر یہی کلام کیا ہے لا أصل له اور کسی دوسرے محدث نے کسی محدث کے کلام پر تعاقب نہیں کیا لہٰذا اس اصول کی روشنی میں یہ روایت بے اصل و باطل ہے اس کی نسبت نبیﷺ کی طرف کرنا حرام ہے۔
امام اسماعیل بن محمد العجلونی نے اس روایت کے ضمن میں اس مفہوم کی ایک ملتی جلتی روایت کا ذکر کیا جس کو امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں باسند نقل کیا سوچا کہ اس کی بھی تحقیق آپ حضرات کے پیش نظر کی جائے۔
امام احمد بن ابراہیم الثعلبی رحمہ اللہ متوفی427ھ نے فرمایا:
وأخبرنا أبو الحسن محمد بن القاسم بن أحمد قال أنا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن أيوب قال نا أبو عبد الله محمد بن صاحب قال نا المأمون بن أحمد قال نا أحمد بن عبد الله قال نا أبو معاوية الضرير، عن أبی مالك الأشجعی، عن ربعی ابن حراش، عن حذيفة بن اليمان رضی الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ إن القوم ليبعث الله عزوجل عليهم العذاب حَتۡمًا مَّقۡضِيًّا فيقرأ صبی من صبيانهم فی الكتاب اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ فيسمعه الله عزوجل ويرفع عنهم بذلك العذاب أربعين سنة۔
ترجمہ: حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا خدائے بزرگ و برتر نے جن لوگوں کو پیدا فرمایا ہے ان پر عذاب یقیناً مقرر ہوگا لیکن جب ان لوگوں کے بچوں میں سے ایک بچہ کلامِ پاک میں پڑھتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ اللہ عزوجل اسے سماعت فرماتا ہے اور پھر اس قوم کو چالیس سال تک کے لیے عذاب سے نجات عطا فرماتا ہے۔
(كتاب تفسير الثعلبی: جلد، 2 صفحہ، 267 حدیث، 143)
حالانکہ اس روایت کا اس روایت سے دور دور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں اس روایت میں عالم اور طالب علم کی فضیلت مذکور تھی جبکہ یہاں قرآنِ پاک پڑھنے کی فضیلت بیان کی جا رہی ہے اور امام ثعلبیؒ اس روایت کو لائے بھی سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں ہیں لیکن بہرحال پھر بھی ہم اس کی تحقیق پیش کرتے ہیں کہ یہ روایت بھی موضوع من گھڑت ہے۔
جلیل القدر ائمہ محدثین کا کلام اس روایت کے تحت:
1: امام الفقہاء والمحدثین امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اس کو من گھڑت قرار دیا چنانچہ فرماتے ہیں:
أخرجه الثعلبی فی تفسيره وهو موضوع قال الشيخ ولی الدين العراقی فی سنده أحمد بن عبد الله الجويباری ومأمون بن أحمد الهروی كذابان وهو من وضع أحدهما۔
ترجمہ: اس روایت کو امام ثعلبیؒ نے اپنی تفسیر میں نقل کیا اور یہ موضوع ہے امام شیخ ولی الدین عراقی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی سند میں احمد بن عبداللہ الجویباری اور مامون بن احمد الھروی ہیں اور یہ دونوں کذاب ہیں اور اس روایت کو ان دونوں میں سے کسی ایک نے گڑھا ہے۔
(كتاب نواهد الأبكار وشوارد الأفكار: جلد، 1 صفحہ، 253)
2: علامہ عبدالرؤف مناوی رحمہ اللہ نے بھی اس کو موضوع قرار دیا:
أخرجه الثعلبی فی تفسيره وهو موضوع۔
(كتاب الفتح السماوی: جلد، 1 صفحہ، 119)
جیسا کہ امام ولی الدین عراقی نے اس روایت کے موضوع من گھڑت ہونے کی وجہ بتا دی کہ اس کی سند میں دو کذاب احادیث گھڑنے والے راوی ہیں۔
1: أحمد بن عبد الله الجويباری۔
یہ وہ لعنتی شخص ہے جس نے نبیﷺ پر ایک ہزار سے زائد احادیث کو گڑھا ہے۔
امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے کہا جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ گھڑنے میں اس کی مثال دی جاتی ہے۔(ميزان الاعتدال: جلد، 1 صفحہ، 107)
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا اس نے نبیﷺ پر ایک ہزار سے زیادہ احادیث گڑھی ہیں۔
(لسان الميزان: جلد، 1 صفحہ، 194)
امام ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ رسول اللہﷺ پر جھوٹ گڑھتا ہے اس کی روایت ترک کر دی جائیں اور یہ ان میں سے ایک ہے جو روایات گڑھتے ہیں۔
(المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبی نعيم الأصفہانی: جلد، 1 صفحہ، 60)
امام دارقطنی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یہ جھوٹا ہے دجال ہے خبیث ہے یہ حدیث گڑھنے والا ہے اس کی روایت نہ لکھی جائے اور نہ انہیں بیان کیا جائے۔
(موسوعة أقوال الدارقطنی: صفحہ، 69)
امام ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ صاحب مستدرک امام حاکم رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا یہ خبیث اور کذاب ہے اس نے کثیر روایات کو فضائل اعمال میں گڑھا ہے۔
(لسان المیزان: جلد، 1 صفحہ، 194)
امام ابو حاتم بن حبان رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یہ دجال ہے اس کا ذکر کتابوں میں نہ کیا جائے۔
(المجروحين لابنِ حبان: جلد، 1 صفحہ، 154)
خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ان مشہور راویوں میں سے ایک ہے جو احادیث گھڑتے ہیں۔
(الزيادات على الموضوعات: جلد، 1 صفحہ، 124)
امام نسائیؒ اور ابو الحسن بن سفیان اور امام ابنِ عدیؒ نے اسے جھوٹا اور روایات گھڑنے والا کہا۔
(لسان الميزان: جلد، 1 صفحہ، 193)
(ميزان الاعتدال: جلد، 1 صفحہ، 106)
2: مأمون بن أحمد الهروی۔
یہ شخص بھی دجال احادیث گھڑنے والا ہے۔
امام ابنِ حبان رحمہ اللہ نے اس کے حوالے سے فرمایا کہ یہ دجالوں میں سے ایک دجال ہے اور یہ ایسے لوگوں سے روایت کرتا ہے جنہیں اس نے دیکھا تک نہیں اور یہ ثقہ راویوں پر احادیث گھڑتا ہے۔
(كتاب المجروحين لابنِ حبان ت حمدی: جلد، 2 صفحہ، 383)
امام ابن الجوزیؒ نے فرمایا کہ نہ ہی اس کا کوئی دین ہے اور نہ ہی اس میں کوئی خیر والی بات ہے بلکہ یہ احادیث گھڑنے والا ہے۔
(كتاب الموضوعات لابن الجوزی: جلد، 2 صفحہ، 48)
حجۃ اللہ فی الارضین شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا یہ کذاب راویوں میں سے ایک ہے۔
(كتاب الدراية فی تخريج أحاديث الهداية: جلد، 1 صفحہ، 152)
امام ابن عراق الکنانی رحمہ اللہ نے فرمایا یہ کذاب خبیث احادیث گھڑنے والا راوی ہے۔
(كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة: جلد، 1 صفحہ، 98)
امام ابن حجر عسقلانیؒ نقل کرتے ہیں کہ امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوریؒ نے اس کی مرویات کو نقل کر کے فرمایا کہ جسے اللہ تعالیٰ نے زرہ برابر بھی علم سے نوازا ہے وہ اس کی مرویات کو دیکھ کر یہ گواہی دے گا کہ یہ نبیﷺ پر جھوٹ اور افتراء ہیں۔
(كتاب لسان الميزان: جلد، 5 صفحہ، 8)
اسی طرح امام ابو نعیم اصفہانیؒ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا یہ کذاب خبیث احادیث گھڑنے والا راوی ہے اور یہ ثقہ راویوں سے جھوٹی روایات بیان کرتا ہے۔
(كتاب لسان الميزان: جلد، 5 صفحہ، 8)
امام شمس الدین ذہبیؒ نے اس کو کذاب قرار دیا۔
(كتاب تنقيح التحقيق للذهبی: جلد، 1 صفحہ، 137)
امام ابو عبد اللہ الجوزقانیؒ نے اس کو کذاب خبیث احادیث گھڑنے والا قرار دیا۔
(كتاب الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير: جلد، 1 صفحہ، 445)
امام ابنِ قیسرانیؒ نے اس کو دجال احادیث گھڑنے والا قرار دیا۔
(كتاب معرفة التذكرة: صفحہ، 214)
اس تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ تفسیر ثعلبی کی روایت بھی بلاشک و شبہ موضوع من گھڑت ہے اس کی نسبت بھی نبیﷺ کی طرف کرنا حرام ہے۔
شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ اس روایت کا ایک شاہد کا ذکر کرتے ہیں الكاف الشاف فی تخريج أحاديث الكشاف: صفحہ، 3 پر جو کہ مسند الدارمی میں ضعیف سند سے منقول ہے۔
حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا رِفْدَةُ الْغَسَّانِی حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ عَجْلَانَ الْأَنْصَارِی قَالَ كَانَ يُقَالُ: إِنَّ اللَّهَ لَيُرِيدُ الْعَذَابَ بِأَهْلِ الْأَرْضِ فَإِذَا سَمِعَ تَعْلِيمَ الصِّبْيَانِ الْحِكْمَةَ صَرَفَ ذَلِكَ عَنْهُمْ قَالَ مَرْوَانُ: يَعْنِی بِالْحِكْمَۃ الْقُرْآنَ۔
(كتاب مسند الدارمی ت حسين أسد: 3388 إسناده ضعيف لضعف رفدة بن قضاعة وهو موقوف على ثابث)
(كتاب مسند الشاميين للطبرانی: جلد، 3 صفحہ، 293 ھو ضعيف أيضاً كما ذكر السابق)
ثابت بن عجلان انصاریؒ نے کہا یہ کہا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ زمین کو عذاب کا ارادہ کرتا ہے لیکن جب بچوں کو حکمت کی تعلیم لیتے سنتا ہے تو ارادہ بدل دیتا ہے مروان نے کہا حکمت سے مراد قرآن کی تعلیم ہے۔
یہ ایک ضعیف قول ہے اور حضرت ثابت بن عجلان رحمہ اللہ کا قول ہے اور اگر یہ ثابت بن عجلان ثابت بن عجلان حمصی أبو عبد الله الْأنصاری السلمی ہیں تو بقول ابو نصر احمد بن محمد کلا باذی یہ تابعی ہیں اور روایت حدیث مقطوع ہے اس کو بطورِ فضیلت بیان کیا جا سکتا ہے۔
(الهداية المعروف برجال صحيح البخاری: صفحہ، 131)
لیکن گزشتہ دو روایتوں کو نبیﷺ کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا حرام ہے کیونکہ وہ دونوں موضوع من گھڑت ہیں جیسا کہ ہم ثابت کر آئے۔
فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب
خادم الحدیث النبویﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی:
مؤرخہ 14 ذو الحجہ 1443ھ