Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

عصر حاضر کی فکری اساس کیا ہے؟ نئی نسل کو سب سے بڑے کس فتنے سے خطرہ ہے؟

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

عصر حاضر کی فکری اساس کیا ہے؟

نئی نسل کو سب سے بڑے کس فتنے سے خطرہ ہے؟

دوسری جنگ عظیم 1939ء کے بعد جب سے دنیا میں صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا ہر طرف مادیت کے جرثوموں سے فکر و نظر کی وادیاں خشک ہو گئیں۔ اخلاق و ہدایت کی روشنی ماند پڑ گئی۔ فلاح و کامرانی کے ضابطے افادیت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

 یورپین، ایشیائی، افریقی، اور اشتراکی ملکوں میں اخلاق انسانی کی قدریں تبدیل ہو گئیں۔ اعلیٰ کردار اور عمدہ اطوار کی جگہ معاشی اقتدار نے لے لی۔ ہر جگہ خوراک، تجارت، صنعت، اور محنت کی اہمیت نمایاں ہوتی رہی۔

 مذہب کے پرکھنے اور نظریات کو جانچنے کے سارے معیار صرف "نان جویں" کے حصول کے گرد گھومنے لگے۔ ایک وقت تھا کہ کائنات عالم کے سب سے بڑے محسن سیدنا محمدﷺ اور آپﷺ کے خلفاءؓ کے کردار و اخلاق نے اس وقت کی دو سپر طاقتوں "ایران، روم" اور اقوام عالم کے تمام نظریات و افکار اور مذہب و ادیان کو خیرہ کر دیا تھا۔ عیسائیت و یہودیت اور مجوسیت مسلمانوں کے اخلاق کی تلوار سے اسلام کے آستانے پر جھک گئی تھی۔

 محمدی شریعت کے اعلٰی ضابطوں نے قیصر و کسرہ کی سلطنت اور ایک درجن سے زائد سلطنتوں کی عمارت کو زمین بوس کر دیا تھا۔

 1400 سال تک پورے عالم کی فکری اور نظریاتی اساس اعلٰی اخلاق اور بے مثال معاشرتی قوانین تھے۔ صنعتی دور نے یہ اساس یکسر اکھاڑ کر رکھ دی۔ انسانی سوچ اور فہم و ادراک کی بنیادیں ہی تبدیل کر دیں۔ عہد حاضر کی فکری اساس، معاشی تعمیر، اور اقتصادی برتری کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہر قانون، ہر ضابطہ، انسانی زندگی کے لیے کتنا ہی عمدہ اسلوب میں پیش کیا جائے، قوموں کی تعمیر اور انسانیت کی سرفرازی اور سربلندی کے لیے بڑی سے بڑی کاوش کے ذریعے کیسا ہی دستور تیار کیا جائے، خدائی احکام کی روشنی میں فطری قوانین کا کتنا ہی خوبصورت ڈھانچہ وضع کیا جائے، انسانوں کے محسن اعظم محمدﷺ کے ابدی اور لازوال ہدایات کا کیسا ہی خوبصورت منشور انسانوں کے قلوب میں اتارا جائے، مگر ہر جگہ آپ کو ایک ہی صدا ایک ہی پکار ایک ہی واویلا اور ایک ہی ضرورت کا اشتہار نظر ائے گا، اور وہ ہے "ضرورت اناج"۔ ہر انسان، ہر ملک، ہر قوم، ہر بستی، ہر قریہ، بھوک اور معاشی تنگدستی کے خاتمے کے لیے نبرد آزما ہے۔ ہر چیز تج کر اس نے روٹی، کپڑا، اور مکان کے حصول کو "محورِ زندگی" اور "متاعِ حیات" قرار دیا ہے۔

اقوام عالم کی فطری اساس کی اس تبدیلی نے انسانوں کو ایک مشینی جانور بنا دیا ہے وہ صرف مادی ضرورتوں کا غلام بن کر مالک حقیقی اور اس کے بتائے ہوئے مقصد کو فراموش کر بیٹھا ہے۔

 دنیا کے بیشتر ملکوں میں مادی ضرورتوں کے محلات تعمیر کر کے جب اندر کے انسان کو تلاش کیا تو وہ بے جان ہو چکا تھا۔ اس کی جمعیت کھو چکی تھی، اس کے ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذبہ مٹ چکا تھا، معاشرتی اقدار اور عمدہ اخلاق، حسن سلوک، والدین کا احترام، بچوں پر شفقت، بزرگوں کی عزت، دکھی انسانوں سے محبت کا فطری حسن عنقا ہو گیا تھا۔ اسلام نے اپنے اعلی تعلیمات سے انسانیت کو وحدت کی جس لڑی میں پرویا تھا وہ یہ تھا۔

"المؤمن للمؤمن كجسد واحد"

 ترجمہ: "مومن مومن کے لیے ایک جسم کی طرح ہے" 

مادی دنیا میں یہ تمام ضابطے ہار گئے تھے گویا کہ انسانیت اپنی نشونما کھو چکی ہے۔ پورے عالم کو وحدت امت اور ایک دوسرے کے غم میں شریک ہونے کا جو درس اسلام نے دیا تھا وہ سبق جدید دور کی مادی ہوس نے فراموش کر دیا ہے۔ عورت کے اصلی زیور "حیا" کو اس کے جسم سے اتار کر اسے آزادی کے نام پر "برہنہ" کر کے چوراہے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اسے انسانوں کی بستی میں تجارت کے ایک سودے کی شکل میں شوروم میں آویزاں کر دیا گیا ہے۔ حریت نسواں کے نام پر اس کی نسوانیت اور حیا کے اصلی زیور کو چند ٹکوں کے عوض فروخت کر دیا ہے۔

 آج کے دور میں سب سے بڑا فتنہ "دہریت" "لا مذہبیت" اور "دین سے بغاوت" ہے. اگرچہ بیسویں صدی کے آغاز میں مذہب سے بغاوت کرنے والے آج خود ہی مذہب کی طرف واپسی کی راہ پر گامزن ہیں۔ لیکن اس کا زہر ہر شعبے اور سوسائٹی میں ایسے طریقے سے سرایت کر چکا ہے جس کے لیے زود اثر تریاق کی ضرورت ہے۔ فکر اسلامی کے گہرے شعور اور دین محمدی کی اعلٰی تعلیمات کا فروخت ناگزیر ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جس طرح امت مسلمہ کی اکثریت نے فرانسیسی اور برطانوی استعمار کا جوا اتارا ہے۔ اس کا تقاضہ ہے کہ وہ "لا مذہبیت کے عفریت" سے اپنا دامن بچا کر اسلام کے آراستہ حسن اور قرآنی تعلیمات کے جمال صباحت سے ہم آغوش ہو جائے۔

انسانوں کی تعمیر کے لیے جس روحانی غذا کی ضرورت ہے انہیں بہم پہنچائی جائے۔ ان کی فکری اساس کو ان کے فطری نظریات سے ہم آہنگ کیا جائے۔ مادیت اور لامذہبیت کے دیو نے پورے عالم کو جس طرح اپنے خون خوار پنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہمیں بہت محنت کرنا ہوگی۔ امت مسلمہ کا ہر فرد ایک داعی اور مبلغ کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اکناف عالم کی گمراہیوں اور خدا اور رسولﷺ سے بغاوت کرنے والے ماحول میں خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اس پر لازم ہے کہ وہ نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ اٹھ کھڑا ہو۔ معصیت و کفران کے طوفانوں میں ثابت قدم رہنے کے لیے اس کا جس جذبے سے سرشار ہونا ضروری ہے۔ وہ جذبہ ہمیں انگریزی، فرانسیسی، اور اشتراکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے سے میسر نہیں آ سکتا۔ اس ولولے کے لیے ہمیں عالم اسلام کے پورے نظام تعلیم کو خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ ،اور اہل بیت عظامؓ، کے افکار سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ اسلام کی عملی تصویر کے اس دور خلافت کو اس گرمی نفس اور جنبش فکر سے آراستہ کرنا ہوگا۔ جو نصف صدی تک دنیا کی دو سپر طاقتوں کے مقابلے میں محمدی آفتاب کے ذریعے ایک جہاں کو منور کر چکا ہے۔ عہد حاضر کی یونیورسٹیوں اور کالج ہمیں محمد بن قاسمؒ، یا طارق بن زیادؒ، نہیں دے سکتے۔ انگریزی تعلیم سے آراستہ تعلیم گاہیں صلاح الدین ایوبیؒ، محمود غزنویؒ اور ٹیپو سلطانؒ، پیدا نہیں کر سکتی۔ اسلام کا نام لینے والا اگر غیر اسلامی تعلیم سے آراستہ ہو کر اسلام کے غلبے کا نعرہ بلند کرے گا تو اس سے بڑا اسلام سے کوئی مذاق نہ ہوگا۔

 آج کی فکری اساس کو تبدیل کرنے کے لیے عالم اسلام کے ہر مفکر اور مجتہد کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ لادینیت کا چنگھاڑتا ہوا دیو ہماری تہذیب اور کلچر پر پنجے گاڑ چکا ہے۔ مذہب سے بغاوت اور دین سے دوری میں اسلام کے کئی لال و گہر چھین لیے ہیں۔ مسلمانوں کی فکری اساس صرف معاشی ترقی کی بجائے اخروی کامیابی اور دنیاوی تعمیر کے اسلامی اصولوں کی آئینہ دار ہونی چاہیے۔ یہ اساس کیسے تبدیل ہوگی۔۔۔؟ یا نئ بنیاد کیوں کر استوار ہوگی۔۔۔؟ نیا ڈھانچہ کس زاویے سے تیار ہوگا۔۔۔؟ اس کے لیے غیر اسلامی افکار کا ہر سوتا بند کرنا ہوگا۔ لادینی نظریات کے ہر دریچے پر قفل لگانا ہوگا۔ مسلمانوں کو منافق یا تقیہ باز بننے کے بجائے سچا اور کھرا مسلمان بننا ہوگا۔ مسلمان کہلا کر کفر کے ارتکاب اور اسلام کا حامل ہو کر لادینیت کے فروغ کا فریب ہر سطح پر بند کرنا ضروری ہے۔ 

مسلمانوں کی فطری اساس مادیت کے طوفانوں میں باقی رہ سکتی تھی۔ لیکن کیوں کر اقوام عالم کی خامہ فرسائیوں اور ظلمت دہر کے تھپیڑوں میں بھی اس کر فروزاں کیا جا سکتا ہے۔ مگر کیسے۔۔۔؟ جدید ترقی اور خالص دہریت زدہ سوچ کی موجودگی میں بھی یہ چراغ روشنی دے سکتا ہے مگر کس سبب سے۔۔۔؟ ہاں اگر امت مسلمہ قرآن و حدیث کے متن کی تفہیم میں پہلے ہی عہد کو کسوٹی بناتی، قرآن کے اولین مخاطبین کے طرز زندگی کو حرز جاں قرار دیتی، صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیہم اجمعین، خلفائے راشدینؓ، اور اہلِ بیت عظامؓ، سے فہم قرآن و سنت کے لیے یوزہ گری کرتی۔۔۔ جاہلیت جدیدہ سے نبرد آزما ہونے کے لیے جاہلیت قدیمہ سے ہم کلام ہونے والوں سے رہنمائی حاصل کرتی، ہر قانون کی یادداشت، ہر ضابطے کی عملی تصویر، ہر مشک کا پریکٹیکلی نمونہ، ہر متن کی اصلی تعبیر، ہر جمال کی حقیقی تفصیل، ہر نقطے کا اصلی حل، اسی آئینے سے حاصل کرتں جس نے آفتاب نبوت کی تابش ضیا سے براہ راست لمعہ افروزی کی تھی۔ محمدی چراغ کی روشنی سے احاطہ عالم کو منور کیا تھا۔ خدا اور رسول اللہﷺ کی تعلیمات کے نور سے صحن چمن کو جگمگ کیا تھا۔ بنجر قلوب کو فطری اصولوں کی روشنی سے راحت زا بنایا تھا۔ انسانوں کی فکری "اساس" کو مادیت و مغربیت اور دہریت و لادینیت سے محفوظ رکھنے کے لیے محمدی رفقاء (صحابہ کرامؓ) کی عالمگیر اور آفاقی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔

 اہلِ سنت والجماعت ایک طرف انسانوں کی فکری "اساس" کے اس حقیقی مرکز کو ہر قوم اور ملک کے سامنے متعارف کرا رہی ہے۔ دوسری طرف اس اساس کو منہدم اور مضمحل کرنے والے اسباب و علل کو مٹانا چاہتی ہے۔ فکری تباہی کے گرداب میں جان بلب دنیا کا ہر مسلمان اسلام کا دامن تھام کر ہی زلالتوں کے طوفان سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ لیکن دامن اسلام کو تھامنے اور قرآن و سنت سے سچی رہنمائی کے لیے ذاتی خیال اور رائے کی بجائے فہم اسلام کے لیے (صحابہ کرامؓ) پہلے لوگوں ہی کو وجدان، ادراک و معیار بنایا جائے۔

 اس طرح ایک طرف کم مائیگی کی گمراہی سے ہر شخص محفوظ ہوگا دوسری طرف قرآن و سنت کے حقیقی حکم کی بجا آوری بھی ہو سکے گی۔

1: فان آمنوا بمثل مآ امنتم به فقدا هتدوا (القرآن)

 ترجمہ:"اگر وہ صحابہ کرامؓ کی طرح ایمان لائیں تو ان کا ایمان معتبر ہے ورنہ گمراہی ہے"

2:(عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين) (الحديث)

 ترجمہ: "تم پر میری اور میرے خلفاء کی سنت کا پکڑنا لازم ہے"

3: (اصحابى كاالنجوم بايهم اقتديتم اهتديتم) (الحديث)

 ترجمہ: "میرے صحابہؓ ستاروں کی طرح ہیں جس کے پیچھے چلو گے کامیاب ہو جاؤ گے"