ایک عورت اپنے ساتھ چار لوگوں کو جہنم میں لے کر جائے گی۔ (تحقیق)
خادم الحدیث سید محمد عاقب حسینیہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بیان کی جاتی ہے:
إذا دخلت امرأة إلى النار أدخلت معها أربعة، أباها وأخاها وزوجها وولدها۔
ترجمہ: جب عورت جہنم میں داخل ہوگی تو اپنے ساتھ چار لوگوں کو جہنم میں لے کر جائے گی اپنے باپ کو اپنے بھائی کو اپنے شوہر کو اور اپنے بیٹے کو۔
اسی طرح:أربعة يُسألون عن حجاب المرأة أبوها، وأخوها، وزوجها، وابنها۔
ترجمہ: چار لوگوں سے عورت کے حجاب کے متعلق سوال کیا جائے گا اس کے باپ سے اس کے بھائی سے اس کے شوہر سے اور اس کے بیٹے سے۔(موضوع)
اس روایت کا کسی بھی معتبر یا مستند کتاب میں وجود نہیں یہی اس کے موضوع من گھڑت ہونے کے لئے کافی تھا مگر یہ نصِ قطعی اور صحیح احادیث کے بھی خلاف ہے۔
یہ روایت نصِ قطعی اور شریعت کے اس اصول کے خلاف ہے کہ کوئی شخص دوسروں کے گناہوں کے عوض جہنم میں داخل ہو:
وَلَا تَكۡسِبُ كُلُّ نَـفۡسٍ اِلَّا عَلَيۡهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰى الخ۔
(سورۃ الانعام: آیت 164)
ترجمہ: اور جو شخص کوئی گناہ کرے گا تو وہ اسی کے ذمہ ہے اور ایک شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
اسی طرح فرمانِ رسولﷺ بھی ہے:
(سنن ابن ماجہ حدیث: 2669)
حدثنا ابو بكر بن ابی شيبة، حدثنا ابو الاحوص، عن شبيب بن غرقدة، عن سليمان بن عمرو بن الاحوص، عن ابيه، قال: سمعت رسول اللهﷺ يقول فی حجة الوداع الا لا يجنی جان إلا على نفسه، لا يجنی والد على ولده ولا مولود على والده۔
ترجمہ: عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: خبردار! مجرم اپنے جرم پر خود پکڑا جائے گا یعنی جو قصور کرے گا وہ اپنی ذات ہی پر کرے گا اور اس کا مواخذہ اسی سے ہو گا باپ کے جرم میں بیٹا نہ پکڑا جائے گا، اور نہ بیٹے کے جرم میں باپ۔(صحیح)
مذکور روایت کی تردید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویاں کافرہ تھی تو کیا ان کی وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کو گناہ ملے گا؟ نعوذ باللہ
متفقہ اصول:
ائمہ اور محدثین کا یہ متفقہ اصول ہے کہ جو بھی روایت اصولِ شریعت یا نصِ قطعی کے خلاف ہو اور تاویل کی گنجائش نہ ہو تو وہ موضوع ہے:
1: شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں:
ومِنها ما يُؤخَذُ مِن حالِ المروی كأنْ يكون منافقاً لنصِّ القرآن أَو السُّنَّةِ المُتواتِرَةِ أَو الإِجماعِ القطعی أَو صريحِ العَقْلِ حيثُ لا يَقْبلُ شیءٌ مِن ذلك التأويلَ۔
ترجمہ: موضوع حدیث کو اس کی حالت سے بھی پہچان لیا جاتا ہے جیسا کہ وہ قرآن کی نص یا سنت متواترہ یا اجماع قطعی یا صریح عقل کے اس طور پر خلاف ہو کہ وہ تاویل کو بلکل قبول نہ کرے۔
(نزهة النظر فی توضيح نخبة الفكر: صفحہ، 66)
2: خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَنَّ مِنْ جُمْلَةِ دَلَائِلِ الْوَضْعِ أَنْ يَكُونَ مُخَالِفًا لِلْعَقْلِ بِحَيْثُ لَا يَقْبَلُ التَّأْوِيلَ وَيَلْتَحِقَ بِهِ مَا يَدْفَعُهُ الْحِسُّ وَالْمُشَاهَدَةُ أَوْ يَكُونُ مُنَافِيًا لِدَلَالَةِ الْكِتَابِ الْقَطْعِيَّةِ أَوِالسُّنَّةِ الْمُتَوَاتِرَةِ أَوِ الْإِجْمَاعِ الْقَطْعِی أَمَّا الْمُعَارَضَةُ مَعَ إِمْكَانِ الْجَمْعِ فَلَا۔
ترجمہ: حدیث کے موضوع ہونے کے دلائل میں سے یہ بات شامل ہے کہ یہ عقل کے اس طرح خلاف ہو کہ اس کی توجیہ ممکن ہی نہ ہو اسی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حدیث میں کوئی ایسی بات کہی گئی ہو جو حس و مشاہدے کے خلاف ہو اسی طرح حدیث اگر قرآنِ مجید کی قطعی دلالت یا سنتِ متواترہ یا اجماعِ قطعی کے منافی ہو تو وہ بھی موضوع حدیث ہو گی اور اگر تضاد کو دور کرنا ممکن ہو تو پھر ایسا نہ ہوگا۔
(تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: جلد، 3 صفحہ، 204)
یہی بات امام احمد رضا خان فاضل بریلی رحمہ اللہ نے بھی فرمائی:
(فتویٰ رضویہ: جلد، 5 صفحہ، 460)
خلاصہ کلام:
اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچانا ہر انسان پر واجب ہے چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَاَهۡلِيۡكُمۡ نَارًا وَّقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ عَلَيۡهَا مَلٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعۡصُوۡنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمۡ وَيَفۡعَلُوۡنَ مَا يُؤۡمَرُوۡنَ ۞
(سورۃ التحریم: آیت 6)
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ۔
نبی کریمﷺ کا بھی فرمانِ عالیشان ہے:
حدثنا مؤمل بن هشام يعنی اليشكری، حدثنا إسماعيل، عن سوار ابی حمزة، قال ابو داؤد: وهو سوار بن داؤد ابو حمزة المزنی الصيرفی، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، قال: قال رسول اللهﷺ مروا اولادكم بالصلاة وهم ابناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم ابناء عشر سنين، وفرقوا بينهم فی المضاجع۔
(سننِ ابی داؤد حدیث: 495)
ترجمہ: عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر یعنی نماز نہ پڑھنے پر مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو۔
(صحیح)
لہٰذا اہل وعیال کو جہنم سے بچانے کے لئے اور شریعت کا پابند بنانے کے لیے بے اصل اور باطل روایات بیان کرنے کی کوئی حاجت نہیں نصِ قطعی اور احادیثِ صحیحہ موجود ہے۔
فقط واللہ اعلم ورسولہ اعلم بالصواب
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
(مؤرخہ یکم محرم الحرام 1442ھ)