Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو وفات کے بعد غسل دیے جانے کی تحقیق مع غسل نہ دینے سے متعلق وصیت کی حقیقت

  مولانا مبین الرحمٰن

سوال: 

ایک مشہور ومعروف واعظ نے اپنے ایک بیان میں ایک روایت بیان فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وفات سے قبل ہی غسل کیا اور قبلہ رخ لیٹ گئیں اور خادمہ سے فرمایا کہ حضرت علیؓ سے کہہ دینا کہ میرا غسل ہوچکا ہے، اس لیے وفات کے بعد مجھے غسل نہ دینا۔  

اس روایت اور واقعہ کی کیا حقیقت ہے؟ 

(سائل: مولانا عاصم عمرصاحب راولپنڈی)

الجوابُ حامدًا ومصلیًّا:

اس مضمون کی روایات معتبر نہ ہونے کے ساتھ ساتھ صحیح روایات کے بھی خلاف ہیں، اس لیے ان کو بیان کرنا درست نہیں۔ اس معاملے میں صحیح اور معتبر بات یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو وفات کے بعد غسل دیا گیا ، ذیل میں اس حوالے سے روایات ذکر کرتے ہیں جس سے تفصیلی وضاحت ہو سکے گی:

  1.  اسماء بنت عُمَیس رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ نے وصیت کی کہ جب ان کا انتقال ہوجائے تو میں اور حضرت علی ان کو غسل دیں گے، چنانچہ ہم دونوں نے ان کو غسل دیا۔

☀ مصنف عبد الرزاق میں ہے:

عَنْ أُمِّ جَعْفَرِ بِنْتِ مُحَمَّدٍ عَنْ جَدَّتِهَا أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ قَالَتْ: أَوْصَتْ فَاطِمَةُ إِذَا مَاتَتْ أَنْ لَا يُغَسِّلَهَا إِلَّا أَنَا وَعَلِيٌّ، قَالَتْ: «فغَسَّلْتُهَا أَنَا وَعَلِيٌّ».

2: حضرت اسماء بنت عُمیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ نے مجھ سے کہا کہ جب میرا انتقال ہوجائے تو آپ اور علی مجھے غسل دیں گے۔ چنانچہ حضرت علی اور حضرت اسماء بنت عمیس نے ان کو غسل دیا۔

☀ السنن الکبریٰ بیہقی میں ہے:

6905- عَن عُمَارَةَ بْنِ الْمُهَاجِرِ عَنْ أُمِّ جَعْفَرٍ: أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَتْ: يَا أَسْمَاءُ، إِذَا أَنَا مِتُّ فَاغْسِلِينِى أَنْتِ وَعَلِىُّ بْنُ أَبِى طَالِبٍ. فَغَسَّلَهَا عَلِىٌّ وَأَسْمَاءُ رَضِىَ اللهُ عَنْهُمَا. 

3:اسی طرح دیگر روایات سے بھی یہ ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت علی اور حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہما نے غسل دیا۔

☀ مستدرک حاکم میں ہے:

4769- عَنْ أُمِّ جَعْفَرٍ زَوْجَةِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ قَالَتْ: غَسَّلْتُ أَنَا وَعَلِيٌّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللهِ ﷺ.

 مذکورہ بالا روایات سے ثابت ہونے والی باتیں: 

  1. حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو وفات کے بعد غسل دیا گیا۔
  2. حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وفات کے بعد غسل دینے سے متعلق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو وصیت فرمائی تھی کہ آپ اور حضرت علی مجھے غسل دیں گے، چنانچہ اسی وصیت کی پاسداری میں حضرت علی اور حضرت اسماء بنت عمیس نے ان کو غسل دیا۔
  3. ’’اسد الغابہ‘‘ اور ’’البدایہ والنہایہ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس غسل دینے میں حضرت اسماء بنت عمیس اور حضرت علی کے ساتھ ساتھ حضور ﷺ کی خادمہ حضرت سلمی رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔

☀ اسد الغابہ میں ہے:

7008- سلمى خادم رسول الله ﷺ:

ب د ع: سلمى خادم النبي ﷺ وهي مولاة صفية بنت عبد المطلب، وهي امرأة أبي رافع. ويقال: إنها أيضا مولاة للنبي ﷺ قابلة بني فاطمة بنت رسول الله ﷺ وقابلة إبراهيم بن رسول الله ﷺ التي غسلت فاطمة مع زوجها علي ومع أسماء بنت عميس. 

☀ البدایہ والنہایہ میں ہے:

وأما إماؤه عليه السلام ..... وَمِنْهُنَّ سَلْمَى وَهِيَ أُمُّ رَافِعٍ امْرَأَةُ أَبِي رَافِعٍ وَكَانَتْ قَابِلَةَ أَوْلَادِ فَاطِمَةَ وَهِيَ الَّتِي قبلت إبراهيم بن رَسُولِ اللهِ ﷺ، وَقَدْ شهدت غسل فاطمة، وَغَسَّلَتْهَا مَعَ زَوْجِهَا عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَأَسْمَاءِ بِنْتِ عُمَيْسٍ امْرَأَةِ الصِّدِّيقِ.

سیدہ فاطمہؓ کے غسل میں حضرت علیؓ کی شرکت کا مطلب:

ماقبل کی روایات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو وفات کے بعد غسل دینے میں شریک رہے، تو احناف کے نزدیک یا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غسل کے انتظامات اور نگرانی میں فرماتے رہے، یا یہ حضرت علی کی خصوصیت ہے کیوں کہ احناف کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ شوہر کا انتقال ہو جائے تو بیوی اس کو غسل دے سکتی ہے، جبکہ بیوی کا انتقال ہو جائے تو شوہر اس کو غسل نہیں دے سکتا اور نہ ہی اس کو چھو سکتا ہے، البتہ دیکھ سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شوہر کے انتقال کی صورت میں بیوی عدت میں ہوتی ہے، اور عدت میں کسی اور کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہوتا، کیوں کہ بعض وجوہات کی رو سے نکاح باقی رہتا ہے، جبکہ بیوی کے انتقال کی صورت میں دنیوی اعتبار سے بیوی شوہر کے لیے اجنبی ہو جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مرد کے ذمّے عدت نہیں بلکہ وہ بیوی کے انتقال کے بعد کسی بھی وقت نکاح کرسکتا ہے۔ جیسا کہ رد المحتار اور الدر المختار میں اس کی مدلل تفصیل ہے، ملاحظہ فرمائیں:

☀ در مختار میں ہے:

(وَيُمْنَعُ زَوْجُهَا مِنْ غُسْلِهَا وَمَسِّهَا لَا مِن النَّظَرِ إلَيْهَا عَلَى الْأَصَحِّ) «مُنْيَةٌ». وَقَالَت الْأَئِمَّةُ الثَّلَاثَةُ: يَجُوزُ؛ لِأَنَّ عَلِيًّا غَسَّلَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا. قُلْنَا: هَذَا مَحْمُولٌ عَلَى بَقَاءِ الزَّوْجِيَّةِ؛ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: «كُلُّ سَبَبٍ وَنَسَبٍ يَنْقَطِعُ بِالْمَوْتِ إلَّا سَبَبِي وَنَسَبِي» مَعَ أَنَّ بَعْضَ الصَّحَابَةِ أَنْكَرَ عَلَيْهِ، «شَرْحُ الْمَجْمَعِ» لِلْعَيْنِيِّ.

☀ اس کے حاشیہ رد المحتار میں ہے:

(قَوْلُهُ قُلْنَا إلَخْ) قَالَ فِي «شَرْحِ الْمَجْمَعِ» لِمُصَنِّفِهِ: فَاطِمَةُ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا غَسَّلَتْهَا أُمُّ أَيْمَنَ حَاضِنَتُهُ ﷺ وَرَضِيَ عَنْهَا، فَتُحْمَلُ رِوَايَةُ الْغُسْلِ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ عَلَى مَعْنَى التَّهْيِئَةِ وَالْقِيَامِ التَّامِّ بِأَسْبَابِهِ، وَلَئِنْ ثَبَتَت الرِّوَايَةُ فَهُوَ مُخْتَصٌّ بِهِ، أَلَا تَرَى أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ لَمَّا اعْتَرَضَ عَلَيْهِ بِذَلِكَ أَجَابَهُ بِقَوْلِهِ: أَمَا عَلِمْت أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «إنَّ فَاطِمَةَ زَوْجَتُك فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ»، فَادِّعَاؤُهُ الْخُصُوصِيَّةَ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْمَذْهَبَ عِنْدَهُمْ عَدَمُ الْجَوَازِاهـ. مَطْلَبٌ فِي حَدِيثِ: «كُلُّ سَبَبٍ وَنَسَبٍ مُنْقَطِعٌ إلَّا سَبَبِي وَنَسَبِي». قُلْت: وَيَدُلُّ عَلَى الْخُصُوصِيَّةِ أَيْضًا الْحَدِيثُ الَّذِي ذَكَرَهُ الشَّارِحُ وَفَسَّرَ بَعْضُهُمْ السَّبَبَ فِيهِ بِالْإِسْلَامِ وَالتَّقْوَى، وَالنَّسَبَ بِالِانْتِسَابِ وَلَوْ بِالْمُصَاهَرَةِ وَالرَّضَاعِ، وَيَظْهَرُ لِي أَنَّ الْأَوْلَى كَوْنُ الْمُرَادِ بِالسَّبَبِ الْقَرَابَةَ السَّبَبِيَّةَ كَالزَّوْجِيَّةِ وَالْمُصَاهَرَةِ وَبِالنَّسَبِ الْقَرَابَةَ النَّسَبِيَّةَ لِأَنَّ سَبَبِيَّةَ الْإِسْلَامِ وَالتَّقْوَى لَا تَنْقَطِعُ عَنْ أَحَدٍ فَبَقِيَتْ الْخُصُوصِيَّةُ فِي سَبَبِهِ وَنَسَبِهِ ﷺ، وَلِهَذَا قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ: فَتَزَوَّجْت أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِيٍّ لِذَلِكَ. وَأَمَّا قَوْله تَعَالَى: «فَلا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ» [المؤمنون: 101] فَهُوَ مَخْصُوصٌ بِغَيْرِ نَسَبِهِ ﷺ النَّافِعِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَأَمَّا حَدِيثُ «لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِن اللهِ شَيْئًا» أَيْ أَنَّهُ لَا يَمْلِكُ ذَلِكَ إلَّا إنْ مَلَّكَهُ اللهُ تَعَالَى فَإِنَّهُ يَنْفَعُ الْأَجَانِبَ بِشَفَاعَتِهِ لَهُمْ بِإِذْنِ اللهِ تَعَالَى فَكَذَا الْأَقَارِبُ، وَتَمَامُ الْكَلَامِ عَلَى ذَلِكَ فِي رِسَالَتِنَا «الْعِلْمِ الظَّاهِرِ فِي نَفْعِ النَّسَبِ الطَّاهِرِ».

فائدہ: اس مسئلہ کی مدلل تفصیل بندہ کی ایک تحریر ’’بیوی کے انتقال کے بعد کیا شوہر اس کو غسل دے سکتا ہے؟‘‘ میں موجود ہے۔

وفات کے بعد غسل نہ دینے سے متعلق حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وصیت کی حقیقت:

 جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وفات سے پہلے ہی غسل کر کے یہ وصیت فرمائی تھی کہ مجھے وفات کے بعد غسل نہ دیا جائے، تو واضح رہے کہ اول تو یہ بات صحیح روایات کے خلاف ہے جیسا کہ ماقبل کی تفصیلات سے معلوم ہوچکا ہے، دوم یہ کہ یہ بات بذاتِ خود بھی مستند نہیں جیسا کہ ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں ہے:

وَلَمَّا حَضَرَتْهَا الْوَفَاةُ أَوْصَتْ إِلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمِيس -امْرَأَةِ الصِّدِّيقِ- أَنْ تُغَسِّلَهَا، فَغَسَّلَتْهَا هِيَ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَسَلْمَى أَمُّ رَافِعٍ، قِيلَ: وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَمَا رُوِيَ مِنْ أَنَّهَا اغْتَسَلَتْ قَبْلَ وَفَاتِهَا وَأَوْصَتْ أَنْ لَا تُغَسَّلَ بَعْدَ ذَلِكَ فَضَعِيفٌ لَا يُعَوَّلُ عَلَيْهِ، وَاللهُ أَعْلَمُ.

مشہور محقق حضرت مولانا محمد نافع صاحب رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب’’بنات اربعہ‘‘ میں فرمایا ہے کہ ’’اس کے ضعف کی وجہ ابنِ اسحاق کا تفرد ہے۔‘‘