Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

وبِہ نستعین

  امام ابنِ تیمیہؒ

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

وَبِہٖ نَسْتَعِیْنُ

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الْمُنْقِذِ مِنَ الضَّلَالِ الْمُرْشِدِ اِلَی الْحَقِّ، اَلْہَادِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
علامہ زماں ، فاضل دوراں ‘ امام ‘ عالم شیخ الاجل ؛ حافظ فقیہ‘ امام ربانی شیخ الاسلام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم بن عبدالسلام بن عبد اللہ بن ابی القاسم بن تیمیہ الحرانی رحمہ اللہ [اللہ تعالیٰ آپ کی قبر کو روشن کرے] فرماتے ہیں :
’’ تمام تر تعریفیں اللہ عزوجل کے لیے ہیں جس نے انبیاء کرام علیہم السلام کو خوشخبریاں دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر مبعوث فرمایا ‘ اور ان کے ساتھ کتابیں نازل کیں تا کہ وہ لوگوں کے مابین ان کے اختلافی مسائل میں کتب الٰہیہ کی روشنی میں فیصلے کرسکیں ۔ اور لوگوں کے درمیان اختلاف تو اسی وقت واقع ہوا جب ان کے پاس کھلی ہوئی کتابیں اور روشن دلائل آچکے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان میں سے جس کو چاہا حق کی طرف ہدایت دی ‘ اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت نصیب کرتے ہیں ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک اکیلا معبود برحق ہے ‘ اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ جیسا کہ اس کافرمان ہے :
﴿شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُواالْعِلْمِ قَآئِمًا بِالْقِسْطِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ
’’اللہ گواہ ہے کہ اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور فرشتے اوراہل علم بھی گواہ ہیں ؛ وہی قائم رکھنے والا ہے عدل وانصاف کو؛ اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں وہ زبردست ہے حکمت والا۔‘‘
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے وہ سچے رسول ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ ختم کردیا ؛ اور آپ کے ذریعہ سے اپنے اولیاء کو ہدایت نصیب فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ Oفَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم﴾
تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہارے نقصان کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمہارے فائدے کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ؛ایمانداروں کے ساتھ بڑے شفیق اور مہربان ہیں ۔پھر اگر وہ روگردانی کریں تو آپ فرما دیجئے کہ میرے لئے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے ۔‘‘

[کتاب ’’منہاج السنہ ‘‘ کی تالیف کا سبب]

’’میرے سامنے ایک معاصر شیعہ ’’ابن المطہر‘‘[ابن المطہر کا پورا نام حسن بن یوسف بن علی ابن المطہر المتوفی (۶۴۸۔۷۲۶) ہے، یہ نصیر الدین طوسی المتوفی (۵۹۷۔ ۶۷۲) کا شاگرد خاص اور شیعہ کے کبار علماء میں سے ایک ہے، اس کی تربیت ہی صحابہ و تابعین کرام کے بغض و عناد پر ہوئی تھی، جو صحابہ نے کار ہائے نمایاں انجام دیے اور دنیائے انسانیت جن کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، ابن المطہر اُن کو غضب آلود نگاہ سے دیکھتا ہے، ابن المطہر نے اپنی کتاب کے جو اوراق سیاہ کیے ہیں ، ان میں جگہ جگہ اس کی عداوتِ صحابہ کے مظاہر نظر آتے ہیں ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کتاب کا تار و پود بکھیر کر رکھ دیا ہے، اور اسے اولین و آخرین کے لیے سامان عبرت بنا دیا ہے۔]کی کتاب پیش کی گئی۔یہ کتاب اس نے شیعہ امامیہ کے مذہب کی ترویج واشاعت کے لیے تحریر کی تھی۔جس میں اس نے ان لوگوں کو رافضی مذہب کی دعوت پیش کی ہے جن حکمرانوں اور اہل جاہلیت وغیرہ تک اس کی پہنچ ہوسکی ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں علم اور دین کی بہت ہی کم معرفت ہوتی ہے ۔ اور انہیں مسلمانوں کے اصل دین کا کوئی علم نہیں ہوتا۔ اور اس پر مستزاد کہ وہ لوگ بھی اس کے مدد گار بنے جن کی عادت رافضیوں کی مدد کرنا ہے ۔ میری مراد وہ باطنیہ[تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہارے نقصان کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمہارے فائدے کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ؛ایمانداروں کے ساتھ بڑے شفیق اور مہربان ہیں ۔پھر اگر وہ روگردانی کریں تو آپ فرما دیجئے کہ میرے لئے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے ۔‘‘
[کتاب ’’منہاج السنہ ‘‘ کی تالیف کا سبب]
’’میرے سامنے ایک معاصر شیعہ ’’ابن المطہر‘‘[1]کی کتاب پیش کی گئی۔یہ کتاب اس نے شیعہ امامیہ کے مذہب کی ترویج واشاعت کے لیے تحریر کی تھی۔جس میں اس نے ان لوگوں کو رافضی مذہب کی دعوت پیش کی ہے جن حکمرانوں اور اہل جاہلیت وغیرہ تک اس کی پہنچ ہوسکی ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں علم اور دین کی بہت ہی کم معرفت ہوتی ہے ۔ اور انہیں مسلمانوں کے اصل دین کا کوئی علم نہیں ہوتا۔ اور اس پر مستزاد کہ وہ لوگ بھی اس کے مدد گار بنے جن کی عادت رافضیوں کی مدد کرنا ہے ۔ میری مراد وہ باطنیہ[2]اور ملحد ہیں جو اسلام کا اظہار تو کرتے ہیں مگر اپنے دلوں صبائیت ‘مجوسیت اور الحاد کو چھپائے ہوئے ہیں ۔[3]
[1] ابن المطہر کا پورا نام حسن بن یوسف بن علی ابن المطہر المتوفی (۶۴۸۔۷۲۶) ہے، یہ نصیر الدین طوسی المتوفی (۵۹۷۔ ۶۷۲) کا شاگرد خاص اور شیعہ کے کبار علماء میں سے ایک ہے، اس کی تربیت ہی صحابہ و تابعین کرام کے بغض و عناد پر ہوئی تھی، جو صحابہ نے کار ہائے نمایاں انجام دیے اور دنیائے انسانیت جن کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، ابن المطہر اُن کو غضب آلود نگاہ سے دیکھتا ہے، ابن المطہر نے اپنی کتاب کے جو اوراق سیاہ کیے ہیں ، ان میں جگہ جگہ اس کی عداوتِ صحابہ کے مظاہر نظر آتے ہیں ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کتاب کا تار و پود بکھیر کر رکھ دیا ہے، اور اسے اولین و آخرین کے لیے سامان عبرت بنا دیا ہے۔ [2] باطینہ شیعہ کا وہ گروہ ہے جو کتاب اللہ کی ہر ظاہری آیت کا ایک باطنی معنی قرار دیتے ہیں ۔ اور قرآن مجید کی ہر آیت کی غلط اور باطل تاویل کرتے ہیں ۔ علامہ شہرستانی نے (الملل والنحل ۱؍۱۷۲) پر تحریر کیا ہے کہ: بیشک باطنیہ ایک قدیم فرقہ ہے۔ ان کے کلام میں کچھ فلاسفہ کے کلام کی ملاوٹ ہوتی ہے۔ اور ہمارے دور میں باطنیہ اسماعیلیہ اور غالی شیعہ ہیں ۔ اور انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ : عراق میں انہیں باطنیہ ؛ قرامطہ اور مزدکیہ کہا جاتا ہے۔ اور خراسان میں تعلیمیہ اور ملحدہ کہا جاتا ہے۔ اور محمد بن حسن دیلمی نے اپنی کتاب ’’ قواعد عقائد آل محمد (مطبوع ۱۹۵۰ قاہرہ مصر) میں صفحہ ۳۴ پر کہا ہے: ان کے بذیل القاب ہیں : سبیعیہ خرمیہ؛ بابکیہ ؛ محمَّرہ ؛ مبارکیہ ؛ الاباحیہ ؛ زنادقہ ؛ والخر المدینیہ۔ اور ابن طاہر البغدادی نے الفرق بین الفرق ص ۱۹۶ پر اصحاب المقالات کے بارے میں کہا ہے : ’’انکا یہ کہنا کہ جن لوگوں نے باطنیہ کی بنیاد رکھی ہے؛ وہ ایک پوری جماعت تھے؛ ان میں سے ہی میمون بن دیصان المعروف القداح اور محمد بن الحسین الملقب بدندان بھی ہے۔[الملل والنحل ۱؍۱۷۰۔ ۱۷۸ ؛ الفرق بین الفرق ص ۱۶۹۔ ۱۸۸۔ الصراع بین الموالی و العرب تالیف دکتور محمدبدیع شریف ص ۵۷۔ ۶۵۔ القاہرہ ؛ ۱۹۵۴]]اور ملحد ہیں جو اسلام کا اظہار تو کرتے ہیں مگر اپنے دلوں صبائیت ‘مجوسیت اور الحاد کو چھپائے ہوئے ہیں ۔[صبائیت : امام رازی نے اپنی کتاب ’’اعتقادات فرق المسلمین والمشرکین میں ص ۹‘‘ پر کہا ہے: ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس کائنات کا خالق اور نظام کو چلانے والا سات ستارے ہیں ۔ اس لیے یہ لوگ ستاروں کی پوجا کرتے ہیں ۔ شہرستانی نے الملل والنحل میں ۱؍۲۱۰ ۔۲۱۱۔ پر کہا ہے: کہا جاتا ہے کہ جو فرقے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں موجود تھے ان کی دو اقسام ہیں : صبائی اور حنفاء ۔صبائی کا ایک عقیدہ ہے کہ ایک متوسط روحانی وجود کی بھی ضرورت ہے۔ یہ متوسط روحانی وجود ان میں سے بعض کے نزدیک ستارے ہیں اور بعض کے نزدیک بت ہیں ۔ ابن تیمیہ اکثر و بیشتر جب یہ کہتے ہیں کہ : فلاسفہ مشرک ]
یا پھر وہ فلسفی ہیں جو کہ حقیقت ِ اسلام اور مرسلین کی اتباع سے کوسوں دور ہیں ۔ جن لوگوں کے نزدیک اسلام کی اتباع واجب نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کی اتباع کو حرام سمجھتے ہیں ۔ بلکہ ان کے نزدیک تمام ملتیں اور مذاہب ایک سیاست ہیں جس میں کسی کی بھی اتباع کرنا جائز ہے ۔ اور نبوت بھی ایک قسم کی عادلانہ سیاست ہے جو دنیا میں لوگوں کی مصلحت کے لیے ہے۔ ان لوگوں کی تعداد اس وقت بڑھ جاتی ہے ‘ اور غلبہ حاصل ہوجاتا ہے جب جہالت اور اہل جاہلیت کی تعداد میں اضافہ ہوجائے۔ اور اس وقت کوئی ایسا عالم باقی نہ ہو جو علوم نبوت و سنت کا شناسا ہو ‘ اور اس نور نبوت سے کفر اور گمراہی کے اندھیروں کو ختم کرسکے۔ اور اس میں موجود کفر ‘ شرک اور گمراہی کو طشت از بام کرسکے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو مطلق طور پر نبوت کی تکذیب نہیں کرتے۔ بلکہ اس کے بعض احوال پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کے اس ایمان اور کفر میں مختلف درجات ہیں ۔ اسی وجہ سے نبوت کی تعظیم کا معاملہ بہت سے جاہل لوگوں پر ملتبس [خلط ملط] ہو جاتا ہے ۔ رافضی اور جہمی[صبائی ہیں ؛ اور آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ: فاریابی جب شہر حران میں آیا تو یہ شہر صبائی مشرکین کا مرکز تھا۔ یہ چوتھی صدی ہجری کا واقعہ ہے۔ اس نے صبائیوں سے علم سیکھا؛ اور فلسفہ کی تعلیم پائی۔ ثابت بن قرہ الحرانی نے بھی ایسے ہی کیا تھا ؛ جو کہ فاریابی سے پہلے گزر چکا ہے۔ تو ابن تیمیہ رحمہ اللہ مشرکین صبائی؛ جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورت حج کی آیت نمبر سترہ میں کیا ہے؛ اور موحدین صبائی جن کا ذکر سورت بقرہ کی آیت نمبر باسٹھ میں کیا ہے؛ کے مابین فرق کرتے ہیں ۔اس کی تفصیل اور مزید معلومات کے لیے دیکھیں : الرد علی المنطقیین ص ۲۹۰؛ ۴۵۴۔ منہاج السنہ ط:بولاق ۱؍۱۹۷؛ مجموعہ الرسائل و المسائل ۴؍۳۷۔ یہاں پر ابن تیمیہ نے انہیں صابیہ معطلہ کا نام دیا ہے۔  .... ۱۔ جہمیہ : وہ فرقہ ہیں جو جہم بن صفوان ابو محرز مولیٰ بنی راست کی طرف منسوب ہیں ۔ اس کا تعلق خراسان سے تھا۔ اور اس نے جعد بن درہم سے تعلیم پائی تھی۔ اور مقاتل بن سلیمان مرجئی کے ساتھ اس کے گہرے روابط تھے۔ اور خراسان کے ایک وڈیرے حارث بن سریج کا منشی تھا۔ اس کے ساتھ مل کر اس نے بنو امیہ کے خلاف خروج کیا۔ پھر شہر مرو کے مقام پر قتل ہوا۔ اور کبھی کبھار جہمیہ کا عمومی اطلاق ہوتا ہے اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات کی نفی کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ۔ اور کبھی اس سے مراد بطور خاص جہم بن صفوان کے پیروکار ہوتے ہیں ۔ دیکھو: مقالات از اشعری ۱؍۱۹۷۔ الفرق بین الفرق ۱۲۸۔ التبصیر فے الدین ۶۳۔ ۶۴۔ ۲۔ قرامطہ : باطنیہ شیعہ کا وہ فرقہ ہیں جو حمدان بن اشعث کی طرف منسوب ہیں ۔ جو کہ اپنے لیے قرمط لقب رکھتا تھا۔ اس نے حسین احوازی سے تعلیم حاصل کی جو کہ عبیداللہ بن میمون قداح کا سفیر اور نمائندہ اور داعی تھا۔] ان تمام گمراہیوں کے اسلام میں داخل ہونے کے لیے ایک مین گیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان ہی کے راستہ سے وہ تمام گمراہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی کتاب کی آیات کا انکار کیا۔ جیسا کہ گمراہی کے سر غنوں باطنی قرامطی ملحد اور دوسرے منافقین کے ہاں طے شدہ ہے ۔ 
جو آدمی یہ کتاب میرے پاس لیکر آیا اس کا کہنا تھا کہ جو بادشاہ اور دوسرے لوگ رافضی مذہب کی طرف مائل ہوئے ہیں ‘ اس کا اہم ترین سبب یہ کتاب ہے۔ ابن المطہر نے یہ کتاب ایک مشہور بادشاہ کیلئے تحریر کی جس کا نام اس نے خدا بندہ ذکر کیا ہے۔[خدا بندہ فارسی لفظ ہے عربی میں اس کے معنی ہیں ، عبداﷲ (اﷲ کا بندہ)۔خدا بندہ ایلخانی بادشاہوں میں سے آٹھواں ]

ان لوگوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اللہ کے بندوں کی نصرت کی خاطر اس کتاب میں موجود گمراہیوں اور باطل دعووں کو طشت از بام کروں ۔ اور ان افتراء پردازوں کے جھوٹے اقوال کی قلعی کھول کر رکھ دوں ۔ میں نے انہیں بتایا کہ اس کتاب کے بارے میں خواہ ان کے دعوے کیسے بھی کیوں نہ ہوں ؛ مگرخود یہ لوگ سب سے[ بادشاہ اور چنگیز کی چھٹی پشت میں سے تھا، اس کا اصلی نام الجایتو(المتوفی ۶۸۰۔۷۱۶) ہے۔ اس کا شجرہ نسب حسب ذیل ہے: ۱۔ الجایتوبن (۶۸۰۔ ۷۱۶) ۲۔ار غون ۹۶۰ھ ۳۔ابغاغون ۶۸۱ھ ۴۔ ہلاکو غون ۶۶۳ھ ۵۔ تولی غون ۶۲۸ھ ۶۔ چنگیز غون (۵۴۹۔ ۶۲۴) چنگیز کا لقب ایلخان تھا، یہ سلطنت اسی کی جانب منسوب ہے، خدا بندہ کا والد ارغون صنم پرست تھا، ارغون کا چچا نکودار بن ہلاکو سیاسی مصلحت کے پیش نظر مسلمان ہو گیا تھا اور اپنا نام احمد نکو دار رکھ لیا تھا۔ ارغون نے خراسان میں اسکے خلاف بغاوت کر کے ۶۸۳ء میں اسے قتل کر دیا اور اس کی سلطنت پر قابض ہو گیا۔ ارغون نے اپنے والد کے وزیر شمس الدین محمدی کے خلاف یہ بہتان باندھا کہ اس نے زہر دے کر اس کے والد کو ہلاک کر دیا ہے اس جرم میں وزیر اور اس کے چار بیٹوں کو ہلاک کر کے عنان سلطنت اپنے یہودی طبیب سعداﷲ کے سپرد کر دی، اور خود عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے لگا، جب یہودی طبیب ملک کا نظم و نسق سنبھالنے سے قاصر رہا اور ملک میں بد امنی کا دور دورہ ہوا تو اعمال سلطنت نے اسے تہ تیغ کر دیا چنانچہ ارغون ۶۹۰ھ میں بڑی بے کسی کی موت مرا، ارغون کے دو بیٹے تھے : ۱۔ الجایتو جسے خدا بندہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ۲۔ غازان المتوفی (۶۷۰۔ ۷۰۳)، چونکہ رعایا مسلمان تھی، لہٰذا یہ دونوں سیاسی مصلحت کے پیش نظر مسلمان ہو گئے۔ غازان نے اہل سنت کا مذہب اختیار کیا۔ جب۷۰۳ھمیں اس کا بھائی خدا بندہ اس کا قائم مقام قرار پایا۔ تو اس نے شیعہ مذہب اختیار کیا، اس کے امراء وخواص اکثر شیعہ تھے۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ خدا بندہ نے ایک روز اپنی بیوی سے ناراض ہو کر اسے طلاق دے دی پھر جلدی ہی نادم ہو گیا اور اسے گھر میں آباد کرنا چاہا، اہل سنت علماء نے متفقہ فتوی دیا کہ دوسرے خاوند سے نکاح کیے بغیر خانہ آبادی کی کوئی صورت ممکن نہیں ۔خدا بندہ کو بڑی مشکل پیش آئی، اس کے شیعہ خواص و امراء نے مشورہ دیا کہ شہر حلّہ کے مشہور شیعہ عالم ابن المطہر کو بلا کر مشورہ کیجئے، وہ اس کا کوئی حل پیش کرے گا۔ ابن المطہر حاضر ہوا تو سلطان نے صورت مسئلہ پیش کر دی۔ ابن المطہر نے پوچھا: کیا آپ نے دو عادل گواہوں کے سامنے طلاق دی تھی؟ سلطان نے کہا: نہیں !ابن المطہر نے کہا: چونکہ طلاق کے شرائط موجود نہیں لہٰذا طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اور سلطان حسب سابق اپنی بیوی کو آباد کر سکتا ہے۔ بادشاہ اس فتویٰ سے بہت خوش ہوا اور ابن المطہر کو اپنا خصوصی مصاحب بنا لیا۔ ابن المطہر کے بہکانے سے خدا بندہ نے دیار و امصار میں حکم ارسال کیا کہ منبر پر خطبہ دیتے وقت بارہ ائمہ کا نام لیا جائے۔ ائمہ کے نام سکول اور مساجد کی دیواروں پر کندہ کیے جائیں ، ابن المطہر کی حیلہ جوئی نے سلطان کو اس زحمت سے بچا لیا کہ اس کی بیوی عقد ثانی کے بعد اس کے یہاں لوٹ کر آتی، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت میں شیعہ مذہب نے پر پرزے نکالنے شروع کر دئیے، یہ خراسان و ایران میں سرکاری طور پر تشیع کی جانب پہلا قدم تھا، کہا جاتا ہے، کہ یہ واقعہ ۷۰۷ھ میں پیش آیا۔ اس واقعہ کے تین سو سال بعد شیعہ مذہب کی جانب دوسرا قدم اٹھا جس نے سلطنت صفویہ کے قیام سے پورے ایران کو تشیع کے آتشی کنویں میں دھکیل دیا۔ متقدمین شیعہ جن افکار و آراء کو غلو سے تعبیر کیا کرتے تھے، اور ان کے معتقد کی روایت کو تسلیم نہیں کیا کرتے تھے، سلطنت صفویہ ان کی پشت پناہی کرنے لگی، اور سب شیعہ غالی بن گئے، جو انکار و معتقدات متقدمین شیعہ کے یہاں غلو تصور کیے جاتے تھے، صفوی دور میں ان کو ضروریات مذہب میں سے سمجھا جانے لگا چنانچہ شیعہ کے دوسرے بڑے علامہ المامقانی المتوفی (۱۲۹۰، ۱۳۵۱) نے اپنی کتاب تنقیح المقال میں جو جرح و تعدیل میں بے حد اہم کتاب ہے خود اس کا اعتراف کیا ہے۔
بڑھ کر گمراہ اور بھٹکے ہوئے ہیں ۔ [ امامیہ خود جاہل اور علم دین سے بہت ہی کم واقفیت رکھنے والے ہوتے ہیں ] [صحابہ رضی اللہ عنہم نے سالار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سنت اخذ کی پھر ان کے ہاتھوں یہ مقدس امانت تابعین کرام تک پہنچی۔ جو بات بھی اس کے خلاف ہو وہ جاہلیت میں شمار ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی نظامات و احکام کسی زمان میں ہو یا کسی مکان میں ان کی دو ہی قسمیں ہیں : ۱۔ اسلام ۲۔ جاہلیت۔ صحابہ سے جو سنن و احکام ہم نے اخذ کیے وہ اسلام ہیں اور اس کے ماسوا جو کچھ بھی ہے وہ جاہلیت ہے قطع نظر اس سے کہ وہ جاہلیت کب ایجاد ہوئی یا اس کا گھڑنے والا کون تھا؟ ]

دلائل کی اقسام :

دلائل کی دو ہی قسمیں ہیں :

۱۔دلائل نقلیہ ۲۔دلائل عقلیہ

شیعہ لوگ اپنا مذہب بیان کرنے کے لیے عقلی اور نقلی دلائل پیش کرنے میں سب لوگوں سے بڑھ کر گمراہ ہیں ۔ یہ ان لوگوں کے مشابہ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَقَالُوْا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ﴾ [الملک۱۰]
’’اور کہیں گے کہ اگر ہم سنتے ہوتے یا عقل رکھتے ہوتے تو دوزخیوں میں سے نہ ہوتے۔‘‘
شیعہ نقلی دلائل پیش کرنے میں اکذب الناس ہیں [اس کی وجہ یہ ہے کہ مرویات و منقولات میں شیعہ کے یہاں ثقاہت و عدالت کا معیار حب اہل بیت اور بغض صحابہ ہے۔ جو شخص اپنے دل میں صحابہ کے لیے جس قدر زیادہ بغض و عداوت رکھتا ہو، وہ اسی قدر زیادہ مقبول الروایت ہے، جو اس ضمن میں نرمی برتتا ہے، اور سیدہ عائشہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہمااور دیگر صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم پر لعنت نہیں بھیجتا وہ اس مقبولیت سے محروم ہے۔]اور عقلی دلائل کے ذکر و بیان میں اجہل الناس۔[اجہل الناس ہونے کی وجہ یہ ہے کہ شیعہ مذہب کی اساس اباطیل و اوہام پر رکھی گئی ہے، چنانچہ آگے چل کر آپ اسی کتاب میں ملاحظہ فرمائیں گے، جہالت کی حدیہ ہے کہ شیعہ امامیہ کو دور حاضر میں اپنا بلا امام ہونا بھی تسلیم نہیں ، بخلاف ازیں وہ اپنے کو شیعہ امامیہ کہے جاتے ہیں اور اس امر کے مدعی ہیں کہ وہ امامیہ ہیں ، ان کا امام بارہ سو سال کی مدت مدید گزرنے کے باوصف ہنوز بقید حیات ہے، جوکہ سامرہ کے تہ خانہ میں پوشیدہ ہے، امامیہ شیعہ امام غائب کے خروج کے منتظر ہیں ، اور ان کے جلدی ظہور و خروج کے لیے دست بدعا رہتے ہیں ۔]
منقول میں سے ایسی چیزوں کی تصدیق کرتے ہیں جن کے متعلق علماء اضطراری طور پر جانتے ہیں یہ اباطیل (من گھڑت باتوں )میں سے ہیں ۔ اور ایسی روایات کی تکذیب کرتے چلے آئے ہیں جن کے متعلق علماء کرام حتمی طور پر جانتے ہیں کہ یہ روایات امت میں نسل در نسل تواتر کے ساتھ چلی آرہی ہیں ۔ شیعہ صاحبان اہل علم کی نقل کردہ روایات اور جھوٹ و باطل ؛ غلط اور جہالت پر مبنی خبروں میں معروف؛ من گھڑت خبریں پھیلانے والوں کی مرویات اور عادل حافظ ‘ ضابط اور علم ِ حدیث میں معروف محدثین کی روایات کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے ۔ اس بارے میں اصل میں یہ لوگ اپنے اسلاف کے مقلد ہیں ۔ خواہ یہ اپنی ان من گھڑت باتوں کو براہین [دلائل ] کا نام ہی کیوں نہ دیتے ہیں ۔
کبھی تو شیعہ حضرات معتزلہ اور قدریہ [قدریہ وہ فرقہ ہیں جو قدر کے مسائل میں بحث و مباحثہ کرتے ہیں او رتقدیر کا انکار کرتے ہیں ۔راجح قول کے مطابق اس فرقے کا پہلا انسان معبد الجہنی تھا جو ۸۰ؔہجری میں قتل ہوا۔[شرح مسلم از امام نووی ۱؍۱۵۰] پھر اس کے بعد ابن غیلان بن مسلم الدمشقی اس راہ پر چل پڑا؛ جسے عبد الملک بن مروان کے عہد میں قتل کیا گیا۔[الفرق بین الفرق ص۷۰] امام ابو الحسن اشعری نے مقالات میں اصول دین میں رافضیوں کا اختلاف ذکر کیا ہے ؛ اوریہ واضح کیا ہے کہ ان میں سے بعض قدریہ اور معتزلہ کی اتباع کرتے ہیں ۔ [مقالات ۱؍۱۰۵]]کی اتباع کرنے لگ جاتے ہیں ‘ اور کبھی مجسمہ[مجسمہ کاعقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اجسام میں سے ایک جسم ہیں ۔ اشعری نے مقالات میں ان کا ذکر کیا ہے[۱؍۱۰۲] اور پھر عصر کے پانچ شیعہ فرقوں کی آراء نقل کی ہیں ؛ یہ سارے فرقے اللہ تعالیٰ کے لیے جسم مانتے ہیں ۔ جیسا کہ ہشام بن الحکم کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی لمبائی اور چوڑائی برابر ہے؛اورچوڑائی او رگہرائی بھی یکساں ہیں (معاذ اللہ )۔پھر اشعری نے مقالات [۱؍۱۰۵]میں نقل کیا ہے کہ:یہ لوگ توحید میں معتزلہ اور خوارج والا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ جب کہ ان کے اولین لوگوں کا وہی تشبیہ والا عقیدہ تھا جیسا کہ ہم نے بیان کیاہے۔]اور جبریہ [جبریہ وہ فرقہ ہیں جو انسان کے لیے کسی کام کو ثابت نہیں مانتے؛ان کا عقیدہ ہے کہ انسان کو اصل میں کوئی قدرت یا اختیار حاصل نہیں ۔ وہ تمام تر افعال کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ہمارے علم کی حد تک جبریہ کی طرح جداگانہ عقیدہ رکھنے وا لا کوئی فرقہ نہیں پایا جاتا۔ اور دیگر امور میں یہ لوگ جہمیہ نجاریہ اور ضراریہ کی طرح کے عقائد رکھتے ہیں جن کا عقیدہ جبر اورنفی صفات الٰہی کا جامع تھا۔ [الملل والنحل ۱؍۷۹۔]] کے پیروکار بن جاتے ہیں ۔ یہ لوگ نظری علوم میں سب فرقوں سے بڑھ کر گمراہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عام اہل علم اور دین دار طبقہ کے لوگ انہیں اسلام میں داخل ہونے والے لوگوں میں سب سے جاہل گروہ کہتے چلے آئے ہیں ۔ ان میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جن کی وجہ سے دین اسلام کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا بخوبی اندازہ صرف رب العالمین ہی کو ہے۔
ملحدین اسماعیلیہ[۱۴۷ھ میں امام جعفر الصادق رحمہ اللہ کی وفات کے بعد شیعہ امامیہ کئی فرقوں میں بٹ گئے؛ ان میں سے دو فرقے بہت اہم تھے ؛ اسماعیلیہ اور موسویہ ۔ موسویہ کا عقیدہ تھا کہ امامت موسی کاظم بن جعفر الصادق کا حق ہے۔ جب کہ اسماعیلیہ کہتے تھے کہ : امامت اسماعیل بن جعفر کا حق ہے۔ پھر اسماعیلیہ دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ان میں سے پہلا فرقہ کہتاتھا کہ: امام اسماعیل مرے نہیں ؛ بلکہ انہوں نے تقیہ کرتے ہوئے موت ظاہری کی ہے؛ امام اشعری کے نزدیک یہ لوگ قرامطہ ہیں ۔ دوسرے فرقہ کا عقیدہ تھا کہ امام اسماعیل مر گیا ہے؛ اور اس کے بعد امام محمد بن اسماعیل ہے۔ اس فرقے کو بعد میں مبارکیہ شیعہ کہا جانے لگا۔ پھر اس کے بعد ان کے بھی دو گروہ ہوگئے: پہلا گروہ : جو امامت کو محمد بن اسماعیل پر موقوف سمجھتے ہیں ؛ ان کا عقیدہ ہے کہ امام محمد بن اسماعیل چھپ گیا؛ وہ دوبارہ لوٹ کر آئے گا اور کہنے لگے:اب امامت امام مستور میں ہوگی۔اور ان میں سے کچھ لوگوں کا یہ عقیدہ ہوگیا کہ ان میں سے بھی دو امام ظاہر ہوں گے۔ انہیں اسماعیلیہ باطنیہ کہا جانے لگا۔ [مقالات ۱؍۹۸۔۱۰۱؛ الملل والنحل ۱؍۱۴۹۔طائفہ اسماعیلیہ از ڈاکٹر کامل حسین طبع قاہرہ؛ ۱۹۵۹۔ محمد بن الحسن الدیلمی ’’کتاب قواعدو عقائد آل محمد الباطنیہ ؛دائرہ المعارف الاسلامیہ] ]باطنیہ اور نصیر یہ[یہ غالی شیعہ کا ایک گروہ ہے۔ جن کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فرقہ کے لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے الہ برحق ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔علامہ شہرستانی [الملل و النحل ۱؍۱۶۸۔۱۶۹] پر ] جیسے گمراہ فرقے اسلام میں شیعہ ہی کے دروازے سے داخل ہوئے۔ کفار و مرتدین بھی شیعہ کی راہ پرگامزن ہو کر اسلامی دیار و بلاد پر چھا گئے، وہاں مسلم خواتین کی آبرو ریزی کی؛ ان کا مال لوٹا اور ناحق خون بہایا۔اوران کی [کفار و مشرکین کی] مدد کی بدولت امت پر دین ودنیا کے وہ مصائب ٹوٹے جن کو صحیح معنوں میں اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے ۔
اس لیے کہ جب اس مذہب کی بنیاد رکھنے والے زندیق ملحد اور منافقین تھے۔ جنہیں امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں سزائیں دیں ‘ ان میں سے ایک گروہ کو آگ سے جلا ڈالا ‘ اور بعض کو قتل کرنا چاہا ‘ مگروہ آپ کی شمشیر بے نیام کے خوف سے بھاگ گئے۔ اور بعض افتراء پرداز لوگوں کے متعلق جب عجیب و غریب قسم کی خبریں ملیں تو انہیں کوڑوں کی سزا سنائی۔ اور کئی ایک اسناد سے آپ سے تواتر کے ساتھ روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے کوفہ کے منبر پرحاضرین کو سناکر ارشادفرمایا:
(( خَیْرُ ہَذِہِ الْاُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا اَبُوْبَکْرٍ ثُمَّ عُمَرُ )) [ان کی زبانی نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’اور بیشک ہم الہ ہونے کی خاصیت صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص مانتے ہیں ؛کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخصوص تائید و مدد حاصل تھی؛ جس کا تعلق باطن اور اسرار سے تھا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ میں ظاہر کے مطابق فیصلے کرتا ہوں ؛ اور باطن کا معاملہ اللہ تعالیٰ پرہے۔‘‘ گولڈتھیسر اپنی کتاب’’ العقیدۃ و الشریعۃ ‘‘ ص ۱۸۴ پر کہتا ہے: ’’ نصیریہ کے ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کم ہے؛ اس لیے کہ نصیریہ انہیں صرف حجاب قرار دیتے ہیں ۔یہی مصنف دوسری جگہ کہتا ہے: ’’ نصیریہ طرابلس اور انطاکیہ کے درمیان ایک علاقے میں رہتے ہیں ۔ ان کا اصلی مذہب اثنا عشری ہے؛ لیکن ان پر ان بت پرستوں کے افکار اور عقائد غالب آگئے جو اپنے ائمہ کو خدا مانتے ہیں ۔ اگر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ عصر حاضر تک بقید حیات رہتے تو انہیں یہ کہنے میں کوئی باک نہ ہوتاکہ شیخیت کشفیت اور بہائیت شیعہ مذہب کی کرشمہ سازی کا نتیجہ ہے، اور یہ شیعہ کی رکیک روایات ہی سے استدلال کر کے صراط مستقیم سے بھٹک گئے ہیں ۔  البخاری ۵؍۷۔سنن ابن ماجہ۔ المقدمۃ۔ باب فضل عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ(ح:۱۰۶) ۔]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہترین انسان ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘
آپ کے بیٹے محمد بن الحنفیہ نے بھی ایسا ہی جواب دیا تھا؛ جسے امام بخاری نے اپنی صحیح کے اندر اور دوسرے علماء ملت حنفیہ نے اپنی تصانیف میں ذکر کیا ہے ۔
اس لیے پہلے زمانے کے شیعہ ‘ یا وہ لوگ جنہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمراہی کا شرف حاصل رہا وہ حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہماکی فضیلت کے بارے میں کوئی جھگڑا نہیں کرتے تھے۔ان کا جھگڑا حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہماکے مابین فضیلت کے مسئلہ پر تھا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا اعتراف اگلے اور پچھلے بڑے بڑے شیعہ علماء کو رہا ہے ۔
ابو القاسم بلخی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ : کسی سائل نے شریک بن عبد اللہ رحمہ اللہ سے سوال کیا اور پوچھا : ان دونوں میں سے کون افضل ہے ؟ ابو بکر یا علی [ رضی اللہ عنہما]؟آپ نے جواب دیا : ابو بکر رضی اللہ عنہ ۔
سائل نے کہا : کیا تم شیعہ ہوکر بھی ایسے کہتے ہو؟ آپ نے جواب دیا: ’’ ہاں ؛ اور جوکوئی یہ عقیدہ نہ رکھے وہ ہر گز شیعہ نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا ‘ وہ ان سیڑھیوں [منبر] پر چڑھے ‘ اور فرمایا:
’’آگا ہ ہو جاؤ!نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہترین انسان ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔‘‘
پھر ہم آپ کی بات کو کیسے رد کریں ‘ اور آپ کو کیسے جھٹلائیں ؟ اللہ کی قسم ! آپ ہر گز جھوٹے نہ تھے۔ یہ کلام عبد الجبار ہمدانی[قاضی عماد الدین ابو الحسن عبد الجبار بن احمد ہمدانی ؛ اپنے وقت میں معتزلہ کے بڑے عالم تھے۔ آپ کی کتاب ’’ تثبیت النبوۃ ‘‘ اس باب میں ایک لاجواب کتاب ہے ۔یہ جملہ دیکھنے کے لیے دیکھیں : ۲؍۵۴۹]نے اپنی کتاب ’’ تثبیت النبوۃ‘‘ میں نقل کیا ہے ؛اور کہا ہے : یہ کلام ابو القاسم بلخی نے جاحظ پر راوندی[اس کا نام ابو الحسین أحمد بن یحی بن اسحق الراوندی؛ متوفی ۲۹۸ہجری ہے۔ اس کا شمار معتزلہ کے ائمہ میں سے ہوتا تھا۔ پھر ان سے علیحدہ ہوکر ان کے مذہب پر حملہ زن ہوا۔ اور خود زندیق اورملحد ہوگیا۔ شہرستانی نے اسے شیعہ مصنفین میں سے شمار کیا ہے۔ [الملل النحل ۱؍۱۷۱۔ الفرق بین الفرق ۱۰۵۔ ۱۰۷۔ معجم الادباء ۱۶؍ ۷۴۔مقالات الاشعری ۱؍۱۲۷۔ الاعلام ۱؍۲۵۲۔]] کے اعتراض پر رد کرتے ہوئے ذکر کیا ہے ۔

کتاب کی اہمیت:

لوگوں نے مجھ سے گمراہی پر مبنی اس کتاب کا جواب لکھنے کے لیے اصرارکیا ؛ ان کا کہنا تھا کہ اس کا جواب اگر نہ لکھا گیا تو اس میں اہل ایمان کے لیے بہت بڑی سبکی ہوگی۔ اور اہل طغیان [سرکش اور دین سے باغی] لوگ یہ خیال کرنے لگیں گے کہ کوئی بھی اس کتاب میں موجود بہتان تراشیوں کا جواب دینے پر قادر نہیں ہے ۔
پھر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میں نے اس کا جواب لکھا جو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے گئے اس وعدے کے ساتھ وفاداری ہے جو اللہ تعالیٰ نے اہل علم و ایمان سے لیا تھا کہ وہ عدل کے ساتھ اللہ کے لیے گواہی دیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِہِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
’’اے ایمان والو! عدل پر مضبوطی سے جم جانے اوراللہ کی خوشنودی کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو وہ خود تمہارے اپنے یا اپنے والدین یاقرابت داروں کے خلاف ہو؛وہ شخص اگرامییا فقیر ہو تو دونوں سے اللہ کو زیادہ تعلق ہے؛پس تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینااور اگر تم نے کج بیانی کی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘
پہلو تہی : سے مراد گواہی کو بدلنا ہے۔اور اس سے منہ موڑنے سے مراد: گواہی کو چھپاناہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں سچ بولنے اور حق بیان کرنے کا حکم دیا ہے ؛ اور جھوٹ بولنے اور حق چھپانے سے منع کیا ہے؛ جن کی معرفت اور اظہار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((البیِعانِ بِالخِیارِ ما لم یتفرقا فِإن صدقا وبینا بورِک لہما فِی بیعِہِما وِإن کذبا وکتما محِقت برکۃ بیعِہِما)) [البخاری کتاب البیوع؛ باب إذا بین البیعان و لم یکتما.... ۳؍۵۸۔ مسلم کتاب البیوع ؛ باب البیعان بالخیار ما لم یتفرقا ۳؍۱۱۶۴۔ والحدیث في سنن الترمذي و ابن ماجۃ و ابي داؤد و مسند أحمد ؛ و النسائی۔]
’’ بیع کرنے والوں کو جدا ہونے تک اختیار ہے۔ پس اگر وہ دونوں سچ بولیں اور وضاحت کردیں تو ان کی بیع میں برکت دی جاتی ہے اور اگر انہوں نے جھوٹ بولا اور عیوب کو چھپایا تو ان کی بیع کی برکت مٹا دی جاتی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ ٰٓیا أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی﴾ (المائدۃ ۸)
’’اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جا ؤ؛کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے۔‘‘
یہی وہ سب سے بڑی گواہی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنایا ہے ‘ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے :
﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ﴾(البقرہ ۱۴۳)
’’اور ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایاتاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو جائیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَ جَاہِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ہُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَ ہُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ﴾ (الحج ۷۸)
’’اور اللہ کی راہ میں ویسا ہی جہاد کرو جیسے جہاد کا حق ہے اسی نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی؛ دین اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام)کا قائم رکھو؛ اس اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔ اس قرآن سے پہلے بھی اور اس میں بھی؛ تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہو جائے اور تم تمام لوگوں کے گواہ بن جاؤ۔‘‘
جمہور علماء کرام رحمہم اللہ کے نزدیک اس آیت کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے نازل ہونے سے پہلے بھی اور قرآن میں بھی ان کا نام مسلمان رکھا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِ ﴾ (البقرۃ۱۴۰)
’’ اللہ کی طرف سے شہادت چھپانے والے سے زیادہ ظالم اور کون ہے؟‘‘
نیز فرمان الٰہی ہے :
﴿وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَکْتُمُوْنَہ﴾(آل عمران ۱۸۷)
’’اورجب اللہ نے اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْہُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ اُولٰٓئِکَ یَلْعَنُہُمُ اللّٰہُ وَ یَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَo اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا فَاُولٰٓئِکَ اَتُوْبُ عَلَیْہِمْ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْم﴾ (البقرۃ ۱۵۹۔۱۶۰)
’’جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کیلئے بیان کر چکے ہیں ، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور حق بیان کر دیں تو میں ان کی توبہ قبول کر لیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں ۔‘‘
اور خصوصاً اس وقت جب اس امت کے آخری لوگ پہلے لوگوں پر لعنت کرنا شروع کردیں ۔ جیسا کہ اثر میں ہے :
’’جب اس امت کے بعد میں آنے والے لوگ پہلے لوگوں پر لعنت کرنا شروع کردیں ‘ تو جس کے پاس علم ہو ‘ اسے چاہیے کہ اس کا اظہار کرے ۔ اس لیے کہ اس دن علم کو چھپانے والا بالکل اس آدمی کی مانند ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب کو چھپاتا ہے ۔‘‘[رواہ ابن ماجہ ‘۱؍۹۶؛ وھو ضعیف؛ المقدمۃ ؛ باب من سئل عن علم فکتمہ۔]
اس لیے کہ اس امت کے پہلے لوگ جنہوں نے تصدیق ‘ علم اور عمل اور تبلیغ کی بنیاد پر اس دین کو قائم کیا ‘ ان پر طعنہ زنی کرنا دین پر طعنہ زنی کرنا اور اس دین سے اعراض کا موجب ہے جو دین دیکر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو مبعوث کیا تھا ۔
شیعیت کی مصیبت پھیلانے کاپہلا ہدف ہی یہی تھا۔ اس لیے کہ ان کا مقصد لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے دین سے روکنا اور انبیاء و مرسلین کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائی ہوئی تعلیمات کو باطل قرار دینا تھا۔ اسی لیے یہ لوگ ملت [اسلامیہ ] میں [علمی وعملی] کمزوری کے حساب سے اپنے عقائد و خیالات کا اظہار کیا کرتے ہیں ۔
حقیقت میں ملحدین میں ان ہی گمراہ کن بدعات کا ظہور ہوا۔ لیکن ان میں سے بہت ساری بدعات نے ان لوگوں میں رواج پکڑا جو کہ خود ملحداور منافق نہ تھے۔ [ان بدعات کے پھیلنے کی] وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں میں شبہ اور جہالت پائی جاتی تھی جس کے ساتھ ہوائے نفس ملی ہوئی تھی؛ جس نے ان گمراہیوں کو قبول کرلیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَالنجم اِِذَا ہَوٰی oمَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی oوَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی oاِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی ....سے لیکرآگے تک....اَفَرَئَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰیoوَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی oاَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْاُنْثٰیo تِلْکَ اِِذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی oاِِنْ ہِیَ اِِلَّا اَسْمَآئٌ سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا اَنزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ اِِنْ یَتَّبِعُوْنَ اِِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْاَنْفُسُ وَلَقَدْ جَآئَ ہُمْ مِّنْ رَّبِّہِمُ الْہُدٰی﴾ (النجم۱۔۲۳) 
’’قسم ہے تارے کی جب وہ نیچے کوچلے۔ تمھاراساتھی (یعنی پیغمبر) نہ تو بہکا ہے نہ بھٹکا۔ اورنہ (اپنے دل کی) خواہش سے وہ (کوئی) بات کرتا ہے۔اس کی جو بات ہے و ہ وحی ہے جو (اس پر بھیجی جاتی ہے۔ ........[آگے تک ] (مشرکو!) بھلا بتلاؤ تو سہی! لات اور عزیٰ اور تیسرا ایک اور بت منات (یہ کس کام کے ہیں ۔تم کو تومردو(بیٹے )ملے اور پروردگار کوعورتیں (بیٹیاں )۔یہ تواگر ایسا ہو تویہ ایک بھونڈی تقسیم ہے۔یہ بت تو نرے نام ہی نام ہے ( جن کی حقیقت کچھ نہیں ) جوتم اورتمھارے باپ دادا نے (اپنے دل سے) تراش لئے ہیں اللہ نے تو انکے (معبود ہونے کی) کوئی سند نہیں اتاری۔ یہ کافر صرف گمان پر چلتے ہیں اور جون کے دل میں آتا ہے وہ کرتے ہیں حالانکہ ان کے مالک کی طرف سے ان کو (ٹھیک) راستہ بھی بتلایا جا چکاتھا۔‘‘
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے کج روی اور گمراہی؛ جہالت اور اتباع ہویٰ(خواہشات کی پیروی) سے اپنے رسول کی تنزیہ و پاکیزگی بیان کی ہے ۔ جیساکہ [عام انسانوں کے بارے میں ] اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَ حَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا﴾ (الأحزاب ۷۲)
’’اور اسے انسان نے اٹھا لیا بیشک وہ بڑا ظالم بڑا نادان تھا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿لِّیُعَذِّبَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَ الْمُشْرِکٰتِ وَ یَتُوْبَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ (الأحزاب ۷۳)
’’تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم نماز میں یوں دعا کیا کریں :
﴿صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ oغَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ﴾ (الفاتحۃ ۶۔۷)
’’ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا نہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔‘‘
گمراہ وہ ہے جو حق بات کو نہ جان سکے ‘ جیسا کہ عیسائی ہیں ۔ اور مغضوب (جس پر غضب نازل ہوا ہو ) سے مراد وہ بھٹکا ہوا سرکش ہے جو حق بات کو جان لے ‘مگر پھر بھی اس کے خلاف عمل کرے۔ صراط مستقیم ان دونوں چیزوں کو متضمن ہے کہ حق بات کی معرفت حاصل کی جائے ۔ اور پھر اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ اسی لیے ماثور دعاؤوں میں سے ایک یہ بھی ہے:
(( اللہم أرني الحق حقاً و وفقني اتباعہ ‘ و أرني الباطل باطلاً ووفقني اجتنابہ ‘ و لا تجعلہ مشتبہاً عليَّ فأتبع الہوی۔))
’’ اے اللہ مجھے حق کو حق کردیکھا اور پھر مجھے اس کی اتباع کرنے کی توفیق دے ‘ اور مجھے باطل کو باطل کر دیکھا ‘ اور پھر اس سے بچ کر رہنے کی توفیق دے ‘ اور مجھ پر اس کو مشتبہ نہ کردینا کہ میں خواہشات نفس کی پیروی کرنے لگ جاؤں ۔‘‘
صحیح مسلم میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کی نماز کے لیے بیدار ہوتے تو ان الفاظ میں دعا فرمایا کرتے :
(( اَللّٰہُمَّ رَبَّ جِبْرَآئِیْلَ وَمِیْکَائِیْلَ وَاِسْرَافِیْلَ فَاطِرَ السّٰمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَ الشَّہَادَۃِ اَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ اِہْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِکَ اِنَّکَ تَہْدِیْ مَنْ تَشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ))
(مسلم )
’’اے اللہ! اے پروردگار جبرائیل اور میکائیل اور اسرافیل کے پیدا کرنے والے آسمانوں اور زمین کے! جاننے والے چھپی اور ظاہر باتوں کے توہی فیصلہ کرے گااپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا جس میں اختلاف کرتے رہے تھے ، ہدایت دے مجھے، حق کی ان باتوں میں جن میں اختلاف ہوگیا ہے اپنے حکم کے ساتھ یقیناً تو ہی ہدایت دیتا ہے جسے چاہے صراط مستقیم کی طرف ۔‘‘
جو کوئی راہ ِ حق سے نکل جاتا ہے ‘ وہ اپنے خیالات کی پیروی کرتا ہے؛ اور اسی چیز کے پیچھے چلتا ہے جو اس کے جی میں آتی ہے۔ اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت کو چھوڑ کر اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرنے لگ جائے۔بیشک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتے۔ کتاب و سنت کے مخالفین اہل بدعت کا یہی حال ہے ۔ اس لیے کہ وہ لوگ اپنے خیالات کی پیروی کرتے ہیں ؛ اور اسی چیز کے پیچھے چلتے ہیں جو کچھ ان کے جی میں آتی ہے۔ان میں جہالت اور ظلم کی انتہاء ہے ۔ خاص کر رافضیوں میں ۔ بیشک یہ لوگ جہالت اور ظلم کی وجہ سے سب سے بڑھ کر گمراہیوں کا شکار ہوتے ہیں ۔
انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے بہترین لوگوں سابقین اولین اولیاء اللہ [صحابہ کرام ]؛ اور ان کے بعد آنے والے تابعین عظام سے دشمنی رکھتے ہیں ؛ اور کفار و مشرکین ‘ یہو د و نصاری اور اہل شرک اورملحدین جیسے نصیریہ ‘اسماعیلیہ اور دیگر گمراہ فرقوں سے دوستی رکھتے ہیں ۔آپ انہیں یا ان کے اکثر لوگوں کو دیکھیں گے کہ جب دو فریقوں کفار اور مؤمنین کا اپنے رب کے بارے میں جھگڑا ہو ‘ اور لوگ اللہ تعالیٰ کے انبیاء کرام کی لائی ہوئی تعلیمات کے بارے میں اختلاف کرنے لگیں ‘ اور ان میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئیں اور کچھ کفر کی راہ پر چل پڑیں ‘خواہ یہ اختلاف قولی ہو [جیسے مناظرہ وغیرہ ] یا عملی [جیسے اہل اسلام اور اہل کفر کی جنگ ] ۔یہ رافضی [اپنے دل میں چھپے بغض کی وجہ سے]کتاب و سنت کے متوالوں اہل اسلام کے خلاف کفار و مشرکین کا ساتھ دیتے ہیں ۔ لوگوں کو بار ہا اس کا تجربہ ہو چکا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے خراسان‘ عراق‘ جزیرہ اور شام وغیرہ کے ممالک میں اہل اسلام کے خلاف تُرک مشرکین کی مدد کی۔اورچوتھی اور ساتویں صدی ہجری کے عظیم ترین حوادث میں بارہا مصر اور شام میں مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کا ساتھ دیا۔ جب کفار نے بلادِ اسلامیہ پر دھاوا بولااور اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جن کی صحیح تعداد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ‘ اس کڑے وقت میں مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن اور کفار کے سب سے بڑے مدد گار یہی لوگ تھے۔ ایسے ہی مسلمانوں کے خلاف ان کا یہودیوں کا ساتھ دینا بھی مشہور و معروف ہے ۔ یہاں تک کہ لوگ [ان کی یہودیوں کی خدمت کی وجہ سے ] انہیں یہودیوں کے گدھے کہہ کر پکارنے لگے۔