Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شواہدالنبوة مصنفہ عبدالرحمٰن جامی

  محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحب

شواہدالنبوة مصنفہ عبدالرحمٰن جامی

مولانا عبدالرّحمٰن جامی کی یہ کتاب مختلف مضامن پر مشتمل ہے حضورﷺ کے فضاٸل خلفاءراشدینؓ کے اوصاف اور بارہ اٸمہ کے حالات لکھے گئے ہیں علامہ جامی بہت بڑے فاضل تھے جن کا 898 ھ میں وصال ہوا ان کی شخصیت بھی شیعہ سنی کے درمیان متنازع ہے ویسے تو انہیں ہر شخص اہلِ سنت میں سے ہی شمار کرتا ہے ان کے کلام کو واعظین اور علما کرام بڑے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں ان کے اشعار میں جو محبتِ مصطفیٰﷺ اور آداب بارگاہِ رسالت ٹپکتے ہیں آدمی انہیں سن کرداد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا ہم نے اگرچہ اس سے قبل بھی ان کی مذکورہ تصانیف کا زکر کرتے ہوۓ لکھا ہے کہ ان کی یہ کتاب اہلِ سنت کے نزدیک معتبر نہیں ہے خاص کر علامہ موصوف کے اشعار جب عوام سنتے ہیں تو ان کے بارے میں قطعاً یہ سننا گوارا نہیں کریں گے کہ جامی کے بارے میں کوئی اعتراض کرے اس لیے ہم مختلف فیہ عقاٸد میں پہلے ان کے عقیدہ پر علماء کرام کا فیصلہ بمعہ ان کی اصل عبارت اور پھر اس کے نتاٸج پر گفتگو کریں گے تاکہ عوام تو عوام علماء بھی لعن و تشنیع کا بہانہ نہ بنا سکیں علاوہ ازیں ان کے بارے میں شیعوں کی عقیدت کا بھی زکر ہو گا ہم نے اس سے قبل جو بارہ اٸمہ کے بارے میں کچھ لکھا ہےاس میں علامہ جامی کی ہی عبارت سے ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے کچھ نظریات وعقاٸد شیعوں جیسے ہیں اس لیۓ ہم نے ان کی کتاب "شواہدالنوة" کو اپنی تصنیف "میزان الکتب" میں شامل کیا ہے علامہ جامی کے بارے میں بہت سے علمآء نے تحقیق ہے جس میں ان کا مسلک اہلِ سنت سے مختلف اور اہلِ تشیع کے قریب بلکہ ان کے جیسا نظر آتا ہے۔ جیسا کہ "شواہدالنبوة" کا مترجم لکھتا ہے کہ "شیعہ تذکرہ نگاروں نے آج تک حضرت جامی کے کمالات کا اعتراف صرف اس تعصّب میں ڈوب کر نہ کیا کہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مدّاح سرا ہیں لیکن دوسری طرف راست فکر شیعوں نے آپ کی محبت اہلِ بیتؓ کی روشنی میں شیعہ کہنے سے دریغ نہ کیا اور آپ کے کلام کو دل کھول کر خراجِ عقیدت پیش کیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح کو تقیہ پرمحمول کرتے رہے یہ عبارت بتاتی ہے کہ جامی نے اگرچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خصوصاً خلفائے اربعہؓ ک تعریف کی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے جہاں اپنے نظریات ذکر کیئے اس کے پیشِ نظر پختہ شیعوں نے انہیں شیعہ ہی کہا اور ان کی تعریفِ صحابہؓ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تقیہ پر محمول کیاہے یعنی صرف اہلِ بیتؓ سے محبت کی وجہ سے انہیں شیعہ نہیں کہاہے یہ تو ہر سنی کا جزءِ ایمان ہے فقیر بھی جہاں کہیں تقریر کرنے جاتا ہے شیعت کا رد میرا اوّلین مقصود ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی تقریر میں اہلِ بیتؓ کرام سے محبت اور عقیدت کا تذکرہ ابتداۓ تقریر میں ضرور کرتا ہوں ہمارے واعظین جو محبتِ اہلِ بیتؓ سے سرشار ہیں اور اس بنا پہ جب وہ اپنے خطاب میں مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہوں کہ جس کا حقیقت سے کوٸ تعلق نہ ہو انہیں صرف مبالغہ آمیزی کی بنا پر ہم شیعہ کہنے پر تیار نہیں صرف بے احتیاطی سے تعبیر کریں گے لیکن علامہ جامی میں صرف محبتِ اہلِ بیتؓ ہی کی بات نہیں بلکہ اس میں ان عقاٸد کا ذکر ہے جو شیعہ لوگوں کے عقاٸد ہیں آٸندہ حوالہ جات میں آپ خود اس بات کو دیکھیں گے کہ ہم جو کہ رہے ہیں اس میں کہاں تک صداقت ہے۔

"شواہدالنوة" کے مصنف علامہ جامی کے حالاتِ زندگی کتاب بنام جامی فارسی میں "اصغرحکمت" نے لکھے لیکن اردو میں تفصیلی حالات نہیں ملتے تھے اب مکتبہ العلمیہ نے اک کتاب شاٸع کی مترجم کا نام سیّد عارف نوشاہی ہے اس کتاب میں علامہ جامی کے فضاٸل و مناقب پر بہت زور دیا گیا اس کے باوجود اس کتاب میں "جامی کے مذہبی عقاٸد" کی سرخی لگا کر اس کے تحت چند حوالہ جات نقل کیۓ ہیں ہم ان حوالہ جات میں سے چند کو ذیل میں پیش کر رہے ہیں۔

حوالہ نمبر(1)

جامی کی کتاب "شواہدالنبوة" حضرت رسول اللّٰہ ﷺ کے حالات اور ان کی محبت کے دلاٸل پر مبنی ہے اس کے چھٹے رکن میں انھوں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین رسولﷺ اور اہلِ بیتؓ کے حالات و مناقب اور ان سے منسوب کمالات اور خوارقِ عادت بیان کیۓ ہیں اس رکن کی تدوین جس نہج پر ہوٸ ہے وہ جامی کے اس طرزِ فکر اور مذہبی رجحان کی کی ترجمان ہے کہ وہ شیعہ ماٸل سنی تھے (جامی صفحہ254)

مندرجہ بالا اِقتباس جامی کےذہبی میلان کو واضح کر رہا ہے کہ وہ تھے تو سنی لیکن شیعت کی طرف ان کا میلان تھا شیعہ ایک مسلک ہے ان کے نظریات ہیں شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف دراصل عقاٸد کا اختلاف ہے تو معلوم ہواکہ ان کے عقاٸد شیعوں سے ملتے جلتے تھے۔

حوالہ نمبر(2)

مختصر یہ کہ مذکورہ کتاب "شواہدالنبوة" کے مندرجات سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ اس کا مصنف ایک سنی ہے جس کا دل تعصب سے پاک ہے مگر ساتھ ہی وہ عقاٸد امامیہ کی طرف بھی راغب ہے (جامی صفحہ 254)

حوالہ نمبر(3)

جامی کے اشعار میں بھی خاندانِ رسالتﷺ کےمناقب بیان ہوے ہیں اگرچہ وہ اپنی ساتوں مثنویوں کے شروع میں خلفآءثلاثہ کی مدح لکھتے ہیں لیکن ان کی غزلیات اور قصاٸد میں امیرالمٶمنین سیدنا علی بن ابی طالبؓ سیدنا حسین بن علیؓ اور سیدنا علی بن موسیٰؒ کے مناقب بکثرت ملتے ہیں جو جامی کے افکار میں دونوں عقیدوں شیعہ سنی کے امتزاج کی دلیل ہے(جامی صفحہ 255)

حوالہ نمبر(4)

 جو ایرانی شیعہ جامی سے عقیدت رکھتے ہیں وہ جامی کو باطنی طور پر ایک خالص العقیدہ شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیںان کے خیال میں خلفاءثلاثہؓ کی مدح میں یہ مقالات اور اشعار جامی کا تقیہ ہیں چنانچہ سجتہ الابرار (مصنفہ جامی) کے مندرجہ قطعہ کے آخری شعر کو یہ حضرات خلفآءثلاثہ کی قدح اور امیرالمٶمنین سیدنا علیؓ کی طرف اشارہ کنایہ قیاس کرتے ہیں وہ شعر یہ ہے۔

پنجہ درکن اسداللّٰہ را

پوست برکن دوسہ رو باہی را

 (جامی صفحہ 256)

  ترجمہ شعر:

 اللّٰہ کے شیر کے پنجہ سے دو تین لومڑیوں کی کھال اتار دے۔

قاریٸن کرام: عقاٸد امامیہ سے کون واقف نہیں جامی کا ان کی طرف راغب ہونا کس طرف اشارہ کر رہا ہے؟ یونہی ان کے افکار میں شیعہ سنی دونوں کے نظریات و عقاٸد کا امتزاج جو ملتا ہے اسے ایرانی شیعوں نے یہ ثابت کیا کہ سنیوں کے نظریات جامی نے بر بناۓ تقیہ کہے ورنہ وہ درحقیقت شیعہ تھے ان کے تقیہ پر جس شعر سے استدلال لاۓ ہیں اس میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کا لقب "اسداللّٰہ" اس طرح ذکر کیا گیا ہے کہ ان کے مقابل "دوسہ روباہی" دو تین لومڑیاں کہہ کر اشارتاً اور کنایةً اصحابِ ثلاثہؓ کی توہین کی ہے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی افضلیت کا معاملہ اور ہےیہاں اصحابِ ثلاثہؓ کی توہین اور قدح پیشِ نظر ہے اور یہی مقصودِ شیعت ہے اس لیۓ جامی کو سنی نما شیعہ کہنے کے بجاۓ ایرانی شیعہ اور کٹر شیعہ کہاہے۔

حوالہ نمبر(5)

نویں صدی ہجریکے اواخر میں ہرات ایک ایسا شہر تھا جہاں خراسانی اور ایرانی شیعہ اور افغانستانی اور ترکستانی سنیوں کے عقاٸد کا امتزاج پایا جاتا تھا جامی جنہوں نے اپنی زندگی کا بہترین حصّہ اسی شہر میں گزارا وہ اس وقت کے مذہبی رجحانات کے اثر سے کیوں کر بچ سکتے تھے زمان و مکان کے اعتبار سے وہ اس موام پر کھڑے تھے جہاں طریقہ اہلِ سنت والجماعت سے منہ پھیر سکتے تھے اور نہ مبادیاتِ امامیہ کومکمل طور پر جھٹلا سکتے تھے(جامی صفحہ250 مکتبہ علمیہ لاہور)

قاریٸنِ کرام: مولانا جامی کےحالات جو "جامی" نامی کتاب میں علی اصغر حکمت نے درج کیۓ ہیں انہیں منصفانہ طور پر لکھنے کی کوشش کی اگرچہ اس مصنف نے زیادہ زور جامی کے فضاٸل و صفات میں لگایا لیکن مذکورہ پانچ عدد باتیں جو اس نے لکھیں ان میں اس نے تسلیم کیا ہے کہ جامی جن حالات میں رہتے تھے اور جس ماحول میں وہ تھے اس میں "مبادیاتِ امامیہ کو چھوڑا نہیں جا سکتا ہے اور نہ سنیت سے منہ موڑا جا سکتا ہے

 "مبادیاتِ امامیہ" کیا ہیں؟ ان میں سے اعلیٰ درجہ کی چیز مسلہ امامت ہے جس طرح شیعہ لوگ بارہ اماموں کے قاٸل ہیں اور ان کی خلافت کے معتقد ہیں کچھ ایسے بھی جامی نظریہ بیان کرتے ہیں اس عقیدہ کے پیشِ نظر شیعوں نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کو وصیِ رسولﷺ اور خلیفہ بلافصل خلیفہ اول کہا پھر سیدنا حسنؓ سیدنا حسینؓ سیدنا زین العابدینؒ محمدباقرؒ جعفرصادقؒ موسیٰ کاظمؒ، موسیٰ رضاؒ، تقیؒ نقیؒ، حسن عسکریؒ تک گیارہ امام ہیں اور بارہویں امام "مہدی" ہیں جن کے متعلق شیعوں کا نظریہ یہ ہے کہ وہ 258ھ کے لگ بھگ پیدا ہوۓ اور 265ھ "سرمن راۓ" غار میں چھپ گئے ان کی طرف سے اک سفیر مقرر ہوا جو 326 ھ تک ان کی باتیں لوگوں تک پہنچاتا رہا آخری سفیرعلی بن محمد پر سفارت ختم ہو گٸ اب اس بارہویں امام کی تشریف آوری کا شدید انتظار کیا جا رہا ہے اسی لیۓ شیعہ لوگ انہیں امام المنتظر امام الحجة الامام القاٸم امام مہدی اور قاٸم آلِ محمدﷺ ایسے القاب سے یاد کرتے ہیں ان تمام باتوں کو جامی نے "شواہدالنبوة" میں لکھا ہے مکمل تفصیل جو جامی نے لکھی اس کا ذکر کرنا باعثِ طوالت ہو گا اس لیۓ صرف چند عبارات بطورِ نمونہ ذکر کی جا رہی ہیں ان عبارات کو پڑھنے کے بعدآپ جامی کے عقاٸد و نظریات اور شیعوں کے معتقدات کا موازنہ کریں گے تو یقیناً آپ کو وہی کچھ نظر آۓ گا جس کی پچھلے پانچ حوالہ جات مں جامی نامی کتاب کے مصنف نے لکھا بلکہ جامی کی عقیدت میں واضح طور پر شیعت نظر آۓ گی۔

شواہد النبوة کی چند عبارت

   عبارت اوّل

ایک راہب کلیسا سے اتر کر امیر المومنینؓ کے حضور میں آیا اور سامنے کھڑے ہو کر پوچھا کیا آپ پیغمبر و رسل ہیں؟ امیرؓ نے فرمایا نہیں اس نے پوچھا کیا آپ ملکِ مقرب ہیں حضرت امیر نے فرمایا نہیں پس گفت توچہ کسے؟ فرمود برمن وصی پیغمبر مرسلم محمد بن عبداللّٰہ خاتم النبیین ﷺراہب گفت دست بیارکہ مسلمان می شوم حضرت امیر کرم اللّٰہ وجہہ دست بوی واو گفت اشھدان لّاالٰہ الّااللّٰہ واشھد انّ محمد عبدہ ورسولہ واشهد انک على وصى رسول الله ( شواهد النبوة صفحہ 164 ركن سادس مطبوعہ نامی نولکشور هند)

ترجمہ:اس نے پوچھا پھر آپ کون ہیں حضرات امیر نے فرمایا میں وصی پیغمبر مرسل جناب محمد بن عبداللہ خاتم النبیینﷺ ہوں راہب کہنے لگا ہاتھ بڑھائیے میں آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کروں حضرت امیر نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو راہب نے کیا اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله وأَشْهَدُ أَنَّكَ عَلَى وَصى رَسُولِ اللَّهِ۔ 

(شواهد النبوة مترجم صفحہ 287 مكتبه علميه لا هور)

 قارئین کرام : علامہ جامی نے سیدنا علی المرتضیٰؓ بارے میں واقعہ مذکورہ کے آخر میں راہب کی زبان سے "علی وصی رسول الله" نقل کیا یہ واقعہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے ساتھ جنگ صفین سے واپسی پر پیش آنا بیان کیا جا رہا ہے سیدنا علی المرتضیٰؓ کو "وصی رسول اللہ" کا کہنا شیعہ لوگوں کا بنیادی عقیدہ ہے کرامت کے ضمن میں اسے ذکر کرنے سے دراصل جامی یہ ثابت کر رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ کا وصی رسول اللہﷺ ہونا اللہ کی طرف سے مقرر ہے جس طرح مسلمان ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور حضورﷺ کی رسالت کی گواہی ضروری ہے اسی طرح سیدنا علیؓ کو حضورﷺ کا وصی تسلیم کرنا اور اس کی گواہی دینا بھی ضروری ہے اس بات پر جامی نے اشارةً یا کنایةً بے زاری کا اظہار بھی نہیں فرمایا بلکہ بڑے اہتمام سے کرامت کے طور پر ذکر کیابت شیعہ لوگوں کے کلمہ کی اس آخری جزء کی تحقیق اور و تفصیل میں نے عقائد جعفریہ جلد سوم میں بیان کر دیا ہے یہ کتاب چھپ کر بازار میں آچکی ہے ان کے تمام دلاٸل کا جواب اس کتاب کے تقریباً 89صفحات پر پھیلا ہوا ہے وہاں ملاحظہ فرمالیں لیکن یہاں ایک نئی دلیل کی تردید ضروری سمجھتا ہوں جیسے حال ہی میں غلام حسین نجفی نے ذکر کیا۔

رسالہ علی ولیُ اللہ:

اہلِ سنت کی معتبر کتاب لسان المیزان جلد 5 صفحہ 147 ذکر محمد بن حماد مٶلف احمد بن حجر العسقلانی اختصار کی خاطر ترجہ ہی ملاحظہ ہو راوی کہتا ہے کہ مجھے ہشام بن عبد الملک نے حجاز سے اپنے پاس شام بلوایا اور میں نے مقام بلقاء میں ایک سیاہ پہاڑ دیکھا جس پر کچھ لکھا تھا جومیں نہ پڑھ سکا میں شہر میں داخل ہوا اور لوگوں سے ایسے شخص کو دریافت کیا جو قبروں پر اور پہاڑوں پر پرانی تحریرات کو پڑھ سکتے مجھے ایک بہت بوڑھے شخص کے بارے میں نشاندہی کی گئی میں اس کے پاس پہنچا اور اس کو سوار کر کے اس پہاڑ پر لایا اور اسکو وہ تحریر دکھائی اس نے پڑھ کر تعجب کیا اور مجھے کہا کہ کوئی چیز لاؤ میں اس کا ترجمہ کر کے آپ کو دیتا ہوں میں ایک چیز لایا اس نے کہا کہ اس پتھر پر عبرانی زبان میں لکھا ہے لا اله الا الله محمد رسول اللهﷺ على ولى الله وكتبه موسى بن عمرام بیده کہ خدائی تعالی معبود برحق ہے اور محمد ﷺ اس کا رسول ہے اورعلی اس کا ولی ہے یہ کلمہ مو سیٰ بن عمران نے اپنے ہاتھ سے لکھا۔

(رساله علی ولی اللہ مصنفہ غلام حسین نجفی صفحہ7)

جواب:بڑے بڑے کذاب ہو گزرے لیکن غلام حسین نجفی نے سب کو مات کر دیا ہم اہلِ سنت کی کتاب لسان المیزان کا حوالہ لکھنے بیٹھا اور ترجمہ پر اختصار کا بہانہ بنایا اور مذکورہ کلمہ کو حضرت موسیٰؑ کا کلمہ بتایا لیکن حقیقت اس کے خلاف ہے اگر ایمانداری سے اس کتاب کی عبارت کا پورا ترجمہ ہی کر دیتا تو سب کو حقیقت حال کا پتہ چل جاتا آئیے صاحب لسان المیزان کے الفاظ میں مذکورہ روایت پڑھیں اس کا ترجمہ دیکھیں اور اس کے بارے میں خود صحاب لسان المیزان کا فیصلہ سنیں۔

لسان الميزان:

محمد بن حماد عن مقاتل بن سليمان وعنه على بن محمد الفارسي ذكر المؤلف في تَرْجَمَهِ مُقَاتِلٍ حَدِيثًا وَقَالَ وَضَعَهُ احَدٌ هُؤلاء الثلاثَةٍ قَالَ قَال محمد بن حماد اشخصني ہشام بن عبد الملك من الْحِجَاز إِلَى الشامِ فَاجْتَرْتُ بِالْبَلْقَاءِ فَرَأَيْتُ جَبَلاً أَسْوَدُ عَلَيْهِ كِتَابَةٌ لَا أَدْرِي مَا ھي فَطَلبتُ مَنْ یقْرَءهَا فَدَلَلتُ عَلَى شَيْخ كَبِيرٍ فَقَالَ هذَا عَلَيْهِ بِالْعَبْرَانِيَّةِ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ جَاءَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ بِلِسَانٍ عَرَبِي مُبِينٍ لا اله الا الله محمد رسول اللهﷺ واصحابه وسلم على ولي الله وكتب موسى بن عمران بيَدِهِ قَالَ ابْن عَسَاكِر هَذَا حَدِيث منكرواسنادہ مظلم ۔  

(لسان الميزان جلد 5صفحہ147محمد بن حماد حرف الميم)

ترجمہ: مقاتل بن سلیمان سے محمد بن حماد اور اس سے علی بن محمد فارسی نقل کرتا ہے۔ مؤلف نے مقاتل کے ترجمہ (حالات زندگی) میں ایک حدیث ذکر کی اور کہا کہ اسے ان تینوں میں سے کسی نے گھڑا ہے کہا کہ محمد بن حماد بیان کرتا ہے کہ مجھے ہشام بن عبد الملک کے حجاز سے شام بلوا یا میرا گزر مقام بلقاء سے ہوا وہاں میں نے ایک سیاہ پہاڑ دیکھا اس پر لکھی ہوئی تحریر ملی جسے میں نہ جانتا تھا۔ کہ یہ کیا لکھا ہوا ہے لہٰذا میں نے کسی ایسے شخص کو تلاش کیا جو اسے پڑھ سکتا ہے۔ مجھے ایک بہت بڑے بوڑھے آدمی کی نشاندہی کی گئی اس نے تحریر دیکھ کر کہا۔ یہ عبرانی زبان میں ہے جس کا مطلب یہ ہے اے اللہ! تیرے نام سے تیری طرف سے حق آگیا ہے واضح اور عربی زبان میں وہ یہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے محمدﷺ اس کے رسول ہیں علی اللہ کے ولی ہیں۔ اسے موسیٰ بن عمران نے اپنے ہاتھ سے لکھا ابنِ عساکر نے کہا کہ یہ حدیث منکر اور مظلم ہے۔

تبصره 

قارئین کرام جس روایت کو نجفی نے شیعہ کلمہ میں " علی ولی اللہ" ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا تھا اور بڑے فخر سے لکھا کہ اہلِ سنت کی معتبر کتاب میں اس کلمہ کا ثبوت موجود ہے اس حدیث کو محمد بن حماد کے ترجمہ میں صاف صاف موضوع کہا گیا اس کے گھڑنے والا تین راویوں میں سے کوئی ایک ہے جن کا اس کی سند میں ذکر ہے پوری کی پوری روایت من گھڑت من گھڑت روایت سے اتنا تو واقعی ثابت ہوتا ہے یہ شیعوں کا کلمہ، "علی ولی اللہ" من گھڑت ہے لیکن کمال چالاکی سے عوام کو اور اسما الرجال سے نا واقف کو دھوکہ دے کر یہ ثابت کر رہا ہے کر دیکھو جی سنیوں کی کتاب سے ہمارے کلمہ کا صیح ہونا ثابت ہے لعنت الله على الكاذبين مقام حیرت یہ ہے کہ نجفی چونکہ ہے ہی شیعہ اسے تو اپنا کلمہ کسی نہ کسی طرح ثابت کرنا ہی تھا جامی کو کیا مصیبت پڑی تھی کہ "علی ولی اللہ" کے الفاظ سیدنا علیؓ کی کرامت میں درج کر دیے جب یہ بات بالکل واضح ہے کہ شیعوں کا کلمہ من گھڑت ہے اور اس پر قدیم و جدید تمام علماء اہلِ سنت متفق ہیں تو جامی نے مذکورہ کرامت ذکر کرتے وقت اسے من وعن ذکر کر دیا اور اس پر کوئی تبصرہ نہ کیا جیسا کہ ابنِ عساکر نے مذکورہ حدیث و منکر اور مظلم کہہ کر اس کا من گھڑت ہونا واضح کر دیا اس سے معلوم ہوا کہ جامی شیعہ لوگوں کے بنیادی عقائد کی طرف مائل تھا کہ وہ درست ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو یقینا مذکورہ کرامت کے بعد اس کی تردید موجود ہوتی کہ یہ بے اصل اور غلط ہے لہٰذا اس سے کوئی دھوکہ نہ کھائے مذکورہ روایت کے اصل راوی مقاتل کے حالات زندگی پڑھنے ہوں تو صاحب لسان المیزان کی دوسری کتاب "تہذیب التہذیب" جلد 1 صفحہ 282۔284 ملاحظ فرمالیں سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ کسی نے مجھ سے اصحابِ کہف کے کتے کا رنگ پوچھا مجھے نہ آیا متقاتل کہنے لگا کہہ دیتے کہ وہ "ابقع" تھا اس پر کوئی اعتراض نہ کرتا یہ اس کی پہلی کذب بیانی ہے مقاتل نے کہا کہ اگر دجال 150ھ میں ظاہر ہوا تو جان لوکہ میں کذاب ہوں خلیفہ مہدی کو مقاتل نے کہا کہ اگر تو چاہے تو میں سیدنا عباسؓ کے بارے میں تیرے لیے کچھ احادیث گھڑلوں مہدی نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ابراہیم بن یقوب نے کہا کہ مہدی کذاب اور احادیث پر بڑا دلیر تھا سیدنا عباسؓ اپنے باپ سے بیان کرتا ہے میں نے مقاتل سے چند احادیث سنیں جو باہم متضاد تھیں نسائی نے کہا کہ چار آدمی حضورﷺ کی طرف سے حدیثیں گھڑتے تھے مدینہ میں ابراہیم بن یحییٰ، خراسان میں مقاتل شام میں محمد ابنِ سعید اور بغداد مں واقدی ایسے راوی کی روایت جسے خود لسان المیزان نے کہا ۔ کہ اس کی گھڑی ہوئی ہے اس سے بھی اپنا کلمہ ثابت کر رہا ہے۔ تو پھر ہم یہی کہ سکتے ہیں۔ کہ تمہیں مقاتل جیسے کذاب کا کلمہ مبارک ہو۔

عبارت دوم :

شواهد النبوة

امیرالمؤمنین علی بن ابی طالبؓ ولے امام اول است از اللہ اثنی عشر و کنیت ولے رضی اللہ عنہ ابوالحسن و ابوتراب است و ہیچ نامی ویرا از ابو تراب خوشتر نیامدی (شواہدالنبوه فارسی صفحہ 159) 

ترجمہ:سیدنا علی المرتضیٰؓ بارہ اماموں میں سے پہلے سیدنا علی المرتضیٰؓ ہیں کنیت ابو الحسن اور ابو تراب تھی اور انہیں "ابوتراب" سے زیادہ پسند اور کوٸ کنیت نہ تھی۔

 ہم بارہ اٸمہ کی تشریح کر چکے ہیں ان میں سب سے پہلے سیدنا علی المرتضیٰؓ ہیں امامت کے بارے میں شیعہ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ منصب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاہوتا ہے جس طرح نبوت ورسالت من جانب اللہ ہوتی ہے یہ شیعوں کا مشہورعقیدہ ہے جیسا کہ مشہور شیعہ مورخ محمد حسین لکھتا ہے۔

الشيعه في التاريخ :

أما الإمامَة وَهِيَ وَاجِبَةٌ عِنْدَ هُم و عند جمهور المسلمين فيعتبرها الشيعة مَنْصَبا الٰھينا كَمَنْصَب النُّبُوَّةِ قَالُوا إِنَّ الَّذِى عينَهُ رَسُولُ اللهﷺ وَنَصَبَهُ إِماماًونَايُبَا عَنْهُ هُوَ عَلَى بُن ابي طالبؓ لأنَّ الْعَصْمَةَ لَمْ تُوجَدُ في غَيْره والْعَصْمَةٌ وَالأَفْضَليَّة تَبَلتُ إمامة الحسن بن علىؓ وَإِمَامَهُ أَخِيهِ الحسين وإمامة زين العابدين علي بن حسين و إمامة محمد بن على الباقر و اما مة جعفر بن محمد الصادق وَإِمَامَةٌ مُوسى بن جعفر الكاظم و إمامة على بن موسى الرضا و إمامة محمد بن على الجواد و إمامة على بن محمد الهادي وإمامة الحسن بن على العسكرى وإمامة محمد بن الحسن المهدي وَهُوَ الإمام الثاني عشر هذهِ فِي الإِمَامَةُ ۔ 

(الشيعة في التاريخ صفحہ 31تا 33 محجل عقائد الشيعه)

 ترجمہ:امامت شیعوں کے نزدیک واجب ہے اور جمہور کے نزدیک بھی واجب ہے لہٰذا شیعہ منصب امامت کو منصب نبوت کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے معتبر سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں جسے رسول اللہﷺ نے منصب امامت و نیابت کے لیے معیّن فرمایا وہ سیدنا علی بن ابی طالبؓ ہیں کیونکہ ان کے علاوہ کسی دوسرے (صحابی) میں عصمت نہیں ملتی عصمت اور افضلیت نے ہی امامت کے لیے امامت ثابت کی پھر ان کے بھائی سیدنا حسینؓ کے لیے پھر زین العابدین کے لیے پھر محمد الباقر پھر جعفر صادق پھر موسی کاظم موسیٰ رضا محمد بن علی الجواد محمد بادی ،حسن عسکری اور بارہویں امام محمد بن حسن مہدی کے لیے ۔

 قارئین کرام :

امامت کا عقیدہ شیعہ لوگوں میں کیا مقام رکھتا ہے آپ نے ملاحظہ فرمایا انہی بارہ اماموں کے ماننے کی وجہ سے " اثنا عشری شیعہ" اپنا یہ نام کھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بارہ اماموں کی پیشن گوئی حضورﷺ نے دی ہے ہم نے اس مسلہ کی مکمل تحقیق عقائد جعفریہ جلد دوم میں کی ہے جو تقریبا چھ سو صفحات پر پھیلی ہوئی ہے شیعہ ان بارہ اٸمہ کو "صاحب الامر" بھی کہتے اور مانتے ہیں ان کے منکرین کو کا فرتک قرار دیتے ہیں خواہ وہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کی اولاد میں سے ہی کیوں نہ ہو اور جامی بھی جا بجا ان اٸمہ کے ساتھ "صاحب الامر" کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور انہیں معصوم بھی تسلیم کرتے ہیں بلکہ ان کی عصمت کے دلائل بھی جامی نے نقل کۓ ہیں اس کا ثبوت جامی کی تیسری عبارت پیش کر رہی ہے۔

عبارت سوم : شواہد النبوت

و از آن جمله است که روزی با حاضران مجلس سوگند داد که مهر که از رسول خداﷺ شنیده است که گفته "من کنت مولاه فعلی مولا" گواہی دید دوازده تن از انصار حاضر بودند گواهی دادند یکے دیگر که آن را از رسول اللہﷺ شینده بود اما گواهی نداد حضرت امیر کرم اللہ وجہه فرمود کر اے فلاں تو گواہی چزا ندادی؟ با نکه تو هم شنیده گفت من نیز شینده ام والا فراموش کرده ام امیردعا کرد کہ خداوند که اگرای شخص دروغ میگون سفیدی بر بشرہ دے ظاہر گردان که عمامه آنرا نپوشاند را وی گوید که والله من آن شخص را دیدم که سفیدی در میان دو چشم دے پیدا آمده و از آن جمله آنست که زید بن ارقمؓ گفته است که من در مهان مجلس یا مثل آں حاضر بودم و من نیز از آن جمله بودم که شنیده بودم اما گواهی ندارم و آن را پنہاں داشتم خدائے تعالی روشنائی چشم مرا بمیرد گویند که همیشه بر حضرت آن شهادت اظهار ندامت می کرد. و از خدائے تعالی آمرزش می خواست و از آن جمله انست که روز بر بالاۓ منبرگفت انا عبد اللہ والے رسول اللهﷺ وارث نبی الرحمه منم و ناکح سیدہ نساء ابل الجنه منم سیدا وصیاء و خاتم ایشان منم ہر کہ غیر از من میں دعوے کند خدائے تبارک و تعالیٰ و یرا ببدی گرفتار گرداند مردی از آن مجلس گفت کار کیست گر از دے خوش نیاید که گوید ا نا عبد الله واخو رسول اللهﷺ از جائے خود برنخاسته بود ویرا جنونے و فسادے در دماغ واقع شد چنانکه پائے ویرا گرفتند و از مسجد بیرون کشید مر بعد ازاں از قوم دے پر سیدند که هرگز و ویرا ایں عارضه بوده است گفتند کہ نے ۔

(شواہدالنوة فارسی صفحہ 168 حالات سیدنا علی المرتضیٰؓ مطبوعه نو لکشورلکھنٶ 298)

ترجمہ:سیدنا علی المرتضیٰؓ کی کرامات میں سے ایک یہ ہے کہ ایک دن آپ نے حاضرین مجلس کو قسم دی جس نے بھی حضورﷺ سے "من كنت مولاه فعلی مولاہ" سنا ہو وہ اس کی گواہی دے انصار سے بارہ افراد تھے کہ جنہوں نے گواہی دے دی لیکن اور شخص نے یہ جملہ حضورﷺ سے سنا تھا لیکن اس نے گواہی نہ دی سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اسے فرمایا کہ اے فلاں ! تو نے باوجود اس کے کہ مذکورہ جملہ سنا تھا گواہی کیوں نہ دی ؟ وہ کہنے لگا میں نے سنا ضرور تھا لیکن بھول گیا تھا سیدنا علی المرتضیٰؓ نے دعا کی اے اللہ اسی شخص نے جھوٹ بولا ہو تو اس کے چمڑے پر سفیدی ظاہر کر دے کہ اس کی پگڑی بھی اسے چھپا نہ سکے راوی کہتا ہے کہ خدا کی قسم میں نے اس شخص کو دیکھا ۔ کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان سپیدی ظاہر ہو گئی تھی۔

ان تمام کرامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سیدنا زید بن ارقمؓ بیان کرتے ہیں کہ میں بھی اس مجلس یا اس جیسی کسی اور مجلس میں حاضرتھا اور میں نے بھی حضورﷺ کی زبان اقدس سے مذکورہ جملہ سن رکھا تھا۔ لیکن گواہی نہ دی اور اسے چھپائے رکھا اللہ تعالیٰ نے میری آنکھوں سے روشنی ضائع کردی بیان کرتے ہیں کہ سیدنا زید بن ارقمؓ ہمیشہ گواہی نہ دینے پر اظہار ندامت کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کی معافی طلب کرتے رہے ان تمام کرامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک دن سیدنا علی المرتضیٰؓ نے منبر پر تشریف فرما ہوتے ہوئے فرمایا میں اللہ کا بندہ ہوں اللہ کے رسولﷺ کا بھائی ہوں نبی رحمت کا وارث ہوں جنتی عورتوں کی سردار کا خاوند ہوں تمام اوصیاء کا سردار اور ان کا قائم ہوں میرے سوا کوئی اور شخص اگر ان باتوں کا دعوے کرےگا اللہ تعالیٰ اس کو کیسی بدی میں گرفتار کر دے گا اس مجلس میں سے ایک شخص نے کہا کہ وہ کون ہے جس سے یہ باتیں اچھی نہ لگتی ہوں کہ وہ کہے کہ میں رسولﷺ کا بھائی اور اللہ کا بندہ ہوں وہ شخص ابھی اپنی مجلس سے بھی نہ اٹھا تھا کہ وہ دیوانہ اور فساد میں مبتلا ہو گیا اور اس کا دماغ چل گیا اس کے پاؤں سے پکڑ کر اسے مسجد سے با ہر کھینچ کر لایا گیا اس کے بعد اس کی قوم سے لوگوں نے پوچھا کہ کیا اس سے پہلے بھی یہ بیماری تھی ؟ انہوں نے کہا نہیں۔

تبصره 

جامی کی اس تیسری تحریر سے شیعہ لوگوں کا مرکزی عقیدہ ثابت ہو رہا ہے اور اس کی دلیل پیش کی جارہی ہے۔ وہ عقیدہ یہ کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ حضورﷺ پہلے خلیفہ ہیں یعنی خلافت بلافصل آپ کی ہے کیونکہ حضورﷺ نے فرمایا جس کا میں مولا ہوں اس کا سیدنا علیؓ بھی مولا ہے یعنی میری سرداری اور ولائت کے بعد سیدنا علی المرتضیٰؓ کی سرداری اور ولائت ہے اور سرداری سے مراد خلافت ہے لہٰذا حضورﷺ کا ارشاد گرامی اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ ہی خلیفہ بلا فصل ہیں شیعہ لوگ اسی عقیدہ کو بیان کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں خم غدیر کے موقع پر حضورﷺ نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع کر کے سیدنا علیؓ کی بیعت لینے کا ان کو حکم دیا تھا جب سب بیعت کر چکے تو حضورﷺ نے اس وقت فرمایا تھا "من كنت مولاه فعلى مولاه" علاوہ ازیں بہت سی شیعہ کتب میں بھی مذکور ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ کیا تم نے یہ حدیث حضورﷺ سے سنی ہے ؟ سب نے کہا جی سنی ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ ہی بلا فصل خلیفہ ہیں اس عقیدہ کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے جس کا فقیر نے تحفہ جعفریہ جلد اول میں صفحہ 38 تا 80 تک ایسا جواب دیاہے کہ قیامت تک ان شاء اللہ اس کا جواب اور اس کا رد کوئی شیعہ نہیں دے سکے گا ان کے تمام دلائل سے تحقیقی او تفصیلی جوابات کے لیے تحفہ جعفریہ کامطالعہ فرمائیں بہر حال ہم نے جامی نے اپنی کتاب میں وہی دلیل ذکر کی جسے شیعہ سیدنا علیؓ کی خلافت بلا فصل پیش کرتے ہیں اب شیعہ لوگ جامی کی مذکورہ عبارت پیش کر کےببانگ دہل کہہ سکتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ سنیوں کے بہت بڑے عالم نے اپنی کتاب میں حضرت علی المرتضےؓ کی خلافت بلا فصل کو ثابت کیا ہے۔

کیونکہ سیدنا علی المرتضیؓ کا اعلان فرما نا کہ جس نے " من كنت مولاه فعلی مولاہ" حضورﷺ سے سن رکھا ہے وہ اس کی گواہی دے ایک آدمی نے گواہی نہ دی اور بارہ نے گواہی دے دی گواہی نہ دینے والے نے بھولنے کا عذر پیش کیا آپ نے اس کے بہانے پر اسے بد دعا دی جو قبول ہوئی اور وہ برص کی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔

 اس واقعہ میں پہلی بات تو یہ ہے کہ "من کنت مولاہ" الخ والی بات حضورﷺ نے بیعت کے بعد نہیں فرمائی تھی بلکہ ہوا یوں کہ یمن کے کچھ باشندوں نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی کچھ شکایات کیں انہیں حضورﷺ نے مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے اس حدیث پاک میں مولا معنی دوست ہے نہ کہ سردار اور خلیفہ کہ جس سے خلافت بلافصل ثابت کی جائے اس کی تفصیل ہماری کتاب تحفہ جعفریہ میں مرقوم ہے دوسری بات یہ کہ آدمی بسا اوقات کوئی بات بھول جاتا ہے بھول تو حضرات انبیاء کرامؑ سے بھی وقوع پذیر ہوئی اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ شخص جان بوجھ کر گواہی نہیں دے رہا تھا تو بارہ گواہوں کے بعد اس کی گواہی نہ دینے سے سیدنا علیؓ کا کونسا کام رک گیا تھا کہ آپ نے اسے ایسی بد دعا دے دی کر عمر بھر وہ روگی ہو گیا بد۔دعا دینے کی بجائے آپ نے اس سے چشم پوشی فرمائی ہوتی جو آپ کے شایان شان تھی اس گھرانے کے اخلاق ہی ایسے تھے خود حضورﷺ کا فرمان ہے کہ اے اللہ ! اگر میں کسی کے لیے بد دعا کروں تو اسے قبول نہ فرمانا تا کہ میری امت کے کسی فرد کو میری وجہ سے نقصان نہ اٹھانا پڑے جامی نے اس واقعہ کو سیدنا علی المرتضیٰؓ کی کرامات کے تحت ذکر کیا گویا پہلی کرامت یہ کہ آپ کو بذریعہ کشف معلوم ہو گیا کہ ایک اور آدمی بھی یہاں موجود ہے جس نے یہ حدیث سن رکھی ہے لیکن اس نے گواہی نہیں دی دوسری کرامت یہ کہ آپ کو علم تھا کہ اس نے جھوٹ بولا ہے اور تیسری یہ کہ اس کے جھوٹ بولنے پر عوام کے سامنے اُسے ذلیل و رسوا کرنا تھا کہ آپ کی بددعا کی وجہ سے وہ برص کی بیماری میں گرفتار ہو جائے گا اور عمر بھر اپنے سر پر کپڑا نہ رکھ سکے گا کرامت کا کون منکر ہے لیکن کسی کرامت کا واقعہ رونما ہونا اور بات ہے سیدنا علی المرتضیٰؓ کرامات کے جامع اور منبع تھے لیکن اس قسم کی کرامت کا ثبوت اگر جامی کے چاہنے والوں میں سے کوئی ثابت کر دکھائے تو منہ مانگا انعام پائے ۔

واقعه دوم :

سیدنا حضرت زید بن ارقمؓ ایک جلیل القدر صحابی رسولﷺ ہیں جن کے گھر ابتداۓ دور نبوت میں رسول کریمﷺ تنہائی میں پروردگار عالم کی عبادت کیا کرتے تھے انہی کے گھر سیدنا عمر بن خطابؓ مشرف با اسلام ہوئے تھے ان کے بارے میں من گھڑت واقعہ بیان کیا گیا کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ولایت کی گواہی نہ دینے کی وجہ سے یہ آنکھوں سے محروم ہو گئے پھر ہمیشہ یہ اس گواہی کے چھپانے پر نادم رہے یہ واقعہ کسی بھی مسند روایت سے ثابت نہیں ہے علاوہ ازیں جلیل القدر صحابیؓ کی آنکھوں کا ضائع ہو جانے کا سبب یعنی سیدنا علیؓ کی ولایت کی گواہی چھپانا یہ بات ثابت کی جارہی ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ولایت کی گواہی نہ دینا اس قدر اللہ کے ہاں جرم ہے جس کی پاداش میں صحابی بھی بینائی سے محروم ہو گئے لہٰذا علی المرتضیٰؓ کی ولایت کا اعلان اور اس کا سر عام اقرار ہی ذریعہ رضائے باری تعالیٰ ہے یہی طریقہ شیعہ لوگ اختیار کرتے ہیں جسے جامی نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی کرامت کے ضمن میں ذکر کر دیا۔

واقعه سوم 

سیدنا علی المرتضیٰؓ کا بر سر منبر اعلان فرمانا کہ میں رسول اللہﷺ کا بھائی اور وارث ہوں سیدہ فاطمہؓ کا خاوند اور تمام اوصیاء کا سردار ہوں اور تمام او صیاء کا خاتم بھی ہوں اہلِ تشیع کا یہ عقیدہ ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ تمام اوصیاء کے سردار و خاتم ہیں رسول کریمﷺ کے سیدنا علی المرتضیٰؓ وصی تھے یہ بھی شیعوں کا عقیدہ ہے سیدنا علیؓ نے اپنے بعد سیدنا حسنؓ کو وصی مقرر کیا اور یہ وصیت یکے بعد دیگرے اٸمہ اہلِ بیت کی طرف منتقل ہوتی رہی اس کی تفصیل "الشیعہ فی التاریخ" کے حوالے میں گزر چکی ہے سیدنا علی المرتضیٰؓ کا اپنے آپ کو وہ خاتم الاوصیاء کہنا، اس کے بارے میں علامہ جلال الدین السیوطیؒ کا قول ملاحظہ ہو ۔

اللّآئی المصنوعه في احادیث الموضوعة:

حدثنا الحسن بن احمد بن حرب حدثنا الحسن بن محمد بن يحيى العلوى حدثنا محمد بن اسحاق القرشي حدثنا ابراهيم بن عبد الله حدثنا عبد الرزاق انبانا معمر عن محمد بن عبد الله الصامت عن الي زر مَرْفُوعًا كَمَا أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ كَذَا لِكَ عَلىؓ وَذُرِّيَّتُهُ يَخْتِمُونَ الْأَوْصِيَاء إلى يوم الدين مَوْضُوعُ العَدْرِي منكَرَ الْحَدِيثِ رافضي وَ إِبْرَاهِيمُ مَتْرُوك 

(اللآلي المصنوعه في احاديث الموضوعة جلد 1 صفحہ 187 مطبوعه حیدر آباد دکن۔رکن سادس)

ترجمہ:ہم سے حدیث بیان کی حسن بن احمد بن حرب نے ہم سے حدیث بیان کی حسن بن محمد بن یحیٰ علوی نے ہم سے حدیث بیان کی محمد بن اسحاق قریشی نے ہم سے حدیث بیان کیا ابراہیم بن عبد اللہ نے ہم سے حدیث بیان کی عبد الرزاق نے ہمیں خبر دی معمر نے محمد بن عبداللہ الصامت سے وہ ابو ذر سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں۔ (حضورﷺ نے فرمایا کہ جیسے میں تمام نبیوں کا خاتم ہوں اسی طرح سیدنا علیؓ اور اس کی ذریت قیامت کے دن تک تمام اوصیاء کے خاتم ہیں یہ حدیث موضوع ہے جسے علوی نے گھڑا وہ منکر الحدیث ہے رافضی ہے اور دوسرا راوی ابراہیم متروک ہے۔

قارئین کرام !

 تیسرے واقعہ میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کی بددعا سے ایک شخص کو جنوں ہوگیا کیونکہ اس نے دو خاتم الاوصیاء وغیرہ اوصاف سیدنا على المرتضیٰؓ کی گواہی نہ دی تھی یہاں بھی ہم یہی عرض کریں گے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے کابددعا دینا عقل سلیم اسے ایسے ہی تسلیم نہیں کرتی اور یہ روایت ایک منکرالحدیث رافضی کی من گھڑت ہے جسے علامہ جامی نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی کرامت کے طور پر نقل کیا ہےسیدنا علی المرتضیٰؓ بلکہ پورا اہلِ بیت کا خاندان صبرورضا کا پیکر تھا "ویطعمون الطعام على حبه مسكينا ويتيما واسيرا" آیت کریمہ کی تفسیر میں شیعہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ اور آپ کا گھرانہ نہایت صابر و شاکر تھا یہاں ان کے صبر شکر کی بجائے ان کی بددعاؤں کو جامی ذکر کر رہے ہیں جو در حقیقت کرامت سیدنا علی المرتضیٰؓ نہیں بلکہ اہانت شیر خدا کی گئی ہے اسی طرح کے اور بہت سے واقعات جامی نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی کرامات کے تحت نقل کیے جن میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کی بد دعاؤں کا ذکر کیا گیا اور ان سے لوگوں کو مختلف پریشانیوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہذا بہتان عظیم۔

فاعتبر وايا أولى الابصار

عبارت چہارم:از شواہد النبوة:

وازآں جملہ آنست کہ بعد از قتل امیر المؤمنین حسینؓ محمد بن الحنفیةؓ پیش علی بن الحسینؓ آمد و گفت من عم توام وبسنی از تو بزرگ ترام و بامامت سزاوار ترم سلاح رسول اللهﷺ رابمن وہ علی بن حسینؓ گفت اے عم از خدائے تعالیٰ بترس ودعوٰے آنچہ حق تو نیست مکن دیگرے بار محمد ابن الحنفیہؓ مبالغہ کرو فرمود اے عم بیا کتاب پیش حاکم رویم کہ میان ما حکم کند گفت آں حاکم کیست فرمود کہ حجر اسود ہر دو پیش دے آمدند فرمود کہ اے عم سخن گو یخن گفت ہیچ جواب نیامد آزاں دست بدعا برداشت و خدائے تعالیٰ را باسمائے اعظام بخواند و طلب آں کرد کہ حجر الاسود را بسخن آورد پس روئے بحجر الاسود کرد و گفت بحق آں خدائے کہ مواثیق بندگان خودراور تو نہادہ است کر مارا خبر کن کہ امامت بوصایت بعد از حسین بن علیؓ حق کیست حجر الاسود برخوذ بجنید چنانکہ نزدیک بود کہ ازجاہائے خود بیفتد و زبان عربی فصیح گفت اے محمد ابن الحنفیہؓ مسلم دار کہ امامت و وصایت بعد از حسین ابن علیؓ حق علی ابن الحسینؓ است۔

 (شواہد النبوہ فارسی صفحہ 180 رکن سادس مطبوعہ منشی نو لکشور لکھنؤ)

 ترجمہ:ان تمام واقعات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سیدنا حسینؓ کی شہادت کے بعد سیدنا محمد ابنِ حنفیہؓ سیدنا زین العابدینؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے میں تیرا چچا بھی ہوں اور امامت کے لیے تجھ سے زیادہ سزا وار ہوں حضورﷺ کے ہتھیار مجھے دے دو سیدنا علی بن حسینؓ (زین العابدینؓ) نے کہا اے چچا! اللہ سے ڈر اور جس کا تجھے حق نہیں اس کا دعویٰ نہ کر دوسری مرتبہ سیدنا محمد بن حنفیہؓ نے اس بات کو مبالغہ سے بیان کیا اس پر سیدنا زین العابدینؓ نے کہا چچا! آؤ کسی حاکم سے اس بارے میں فیصلہ کرا لیں محمد ابن حنفیہ نے پوچھا وہ حاکم کون ہے کہاحجر اسود ہے دونوں اس کے پاس آگئے سیدنا زین العابدینؓ نے کہا چچا جان بات کرو انہوں نے بات کی لیکن حجر اسود سے کوئی جواب نہ آیا اس کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور اللہ تعالیٰ کے عظیم ناموں سے اُسے پکارا اور سوال کیا کہ حجر اسود کو بولنے کی طاقت عطا کر دے پھر حجر اسود کی طرف منہ کیا اور کہا اس خدا کی قسم! کہ جس نے لوگوں کے میثاق تجھ میں رکھے ہیں ہمیں بتا کے سیدنا حسین بن علیؓ کے بعد وصائت کی امامت کا حق کِسے ہے؟ حجر اسود ایسا کانپا کہ قریب تھا کہ اپنی جگہ سے گر جاتا اس نے فصیح عربی زبان میں کہا اے سیدنا محمد بن حنفیہؓ! اسے تسلیم کر لے کہ سیدنا حسین بن علیؓ کے بعد امامت و وصائت کا حق سیدنا زین العابدینؓ کو ہے۔

 تبصرہ

 شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حضورﷺ کے بعد سیدنا علی المرتضیٰؓ اور ان کے آخری بارہویں امام مہدی تک یہی وہ حضرات ہیں جو "امیر المومنین" کے منصب کے حقدار ہیں اس لیے خلفائے ثلاثہؓ سیدنا امیر معاویہؓ اور سیدنا عمر بن عبدالعزیزؓ کو یہ لوگ امیرمومنین نہیں تسلیم کرتے حالانکہ "امیرالمؤمنین" کا لقب مسلمانوں کے حاکم اور خلیفہ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ خلفائے ثلاثہؓ اور سیدنا امیر معاویہؓ و سیدنا عمر بن عبدالعزیزؓ تو مسلمانوں کے حاکم ہوئے لیکن بارہ ائمہ میں سے سیدنا حسنؓ تک یہ منصب صرف دو اماموں کو ملا بقیہ دس امام کسی ملک کے حاکم مقرر نہیں ہوئے اور ان دو حضرات کو بھی اپنے اپنے دور امامت و خلافت میں "امیر المومنین" کہا گیا سیدنا علی المرتضیٰؓ کو سیدنا صدیق اکبرؓ سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ کے بعد امیرالمومنین کہا جانے لگا لیکن شیعہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اگرچہ ظاہر میں ان کے خلافت غصب کی گئی تھی لیکن درحقیقت خلافت و امامت انہی کی تھی جامی نے سیدنا حسینؓ کے لیے "امیر المومنین" لفظ استعمال کیا جو واقعات و حقائق کے خلاف اور شیعوں کے موافق ہے باقی رہا قصہ یہ کہ سیدنا زین العابدینؓ اور ان کے چچا سیدنا محمد بن حنفیہؓ دونوں میں امامت و وصی ہونے میں جھگڑا ہوا جس کا فیصلہ حجر اسود نے کیا یہ قصہ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں شیعوں کے نزدیک امامت و وصی ہونا منصوص من اللہ ہوتا ہے یعنی یہ منصب اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے اور اس نے بارہ اماموں کو یہ منصب عطاء کیا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وصی و امامت کا فیصلہ حجر اسود نے کیا گویا سیدنا حسینؓ کے وصی سیدنا زین العابدینؓ ہیں ان کی کرامت تھی کہ ان کی امامت وصی ہونے کی گواہی حجر اسود نے دی جبکہ یہی حجر اسود سیدنا محمد بن حنفیہؓ سے گفتگو کرنے پر آمادہ نہ ہوا شیعوں نے سیدنا زین العابدینؓ کی امامت اور وصی ہونے کی ایک کرامت بیان کی جس کی تفصیل میری کتاب عقائد جعفریہ جلد دوم سیدنا زین العابدینؓ کی بحث میں دیکھی جا سکتی ہے؟ بہرحال سیدنا زین العابدینؓ نے سیدنا محمد بن حنفیہؓ کو کہا کہ امامت کا حقدار ہونے کا جو دعویٰ کر رہا ہے اس کے بارے میں خدا سے خوف کر الیٰ آخرہ۔ یہ واقعہ من گھڑت ہے مسئلہ امامت میں شیعہ نظریات کی تفصیل اور وصی ہونے کی تحقیق ہماری دوسری کتاب تحفہ جعفریہ جلد اول میں ملاحظہ فرمائیں ان شاء اللہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا تو معلوم ہوا کہ جامی نے اس واقعہ کو بھی جس رنگ اور جس پس منظر میں ذکر کیا اس سے ان کا شیعیت کی طرف رجحان پایا جاتا ہے اہلِ سنت کا یہ مسلک نہیں اور اگر کوئی شخص اس روایت جامی کو صحیح سمجھتا ہو تو ہمارا چیلنج ہے کہ صحیح اسناد سے ثابت کرنے کے بعد منہ مانگا انعام پائے۔ 

عبارت پنجم از شواہد النبوة:

وراز آں جملہ آنست کہ دیگرے گفتہ است کہ جعفر بن محمدؓ گفت کہ پدر من وصیت کرد چوں من بیمرم تو مراد فن کن وہ غسل دہ زیرآں کہ امام راجز امام نشوید و دیگر گفت کہ برادر تو عبداللہ زود باشد کے دعوی امامت کند۔ ومردم را بخود خواند ویرا بگذار کہ عمروے کوتاہ خواہد بود چوں پدر من وفات یافت من ویر اغسل کردم و برادر من عبداللہ دعویٰ امامت کر دو چنداں نہ زیست چنانکہ پدر گفتہ بود۔ 

(شواہد النبوة فارسی صفحہ 181 رکن سادس مطبوعہ نو لکشور لکھنؤ) 

ترجمہ: ان تمام باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ کسی راوی نے بیان کیا کہ سیدنا جعفر بن محمدؓ نے فرمایا کہ میرے ابا جان نے وصیت فرمائی کہ جب میں مروں تو تُو مجھے کفن دینا اور غسل بھی کیونکہ امام کو امام کے بغیر کوئی دوسرا غسل نہیں دیتا دوسری بات یہ فرمائی کہ تیرا بھائی عبداللہ بہت جلد امامت کا دعویٰ کرے گا اور لوگوں کو اپنی طرف بُلائے گا اسے اس کے حال پہ چھوڑ دینا کیونکہ اس کی عمر بہت تھوڑی ہوگی جب آپ نے انتقال فرمایا تو میں نے انہیں غسل دیا پھر میرے بھائی عبداللہ نے امامت کا دعویٰ کیا اور زیادہ دیر زندہ نہ رہا جیسا کہ میرے والد نے کہا تھا۔

تبصرہ:

شیعوں کا مسلک ہے کہ امام کو امام ہی غسل دیتا اور کفن پہناتا ہے اس کا ثبوت ان کی بکثرت کُتب میں موجود ہے سیدنا باقرؒ کی مذکورہ وصیت کہ جس میں دو باتیں مذکور ہیں یہ شیعہ مسلک کے مصنفین کی بہت سی کتابوں میں موجود ہے سیدنا باقرؒ کی امامت کے ضمن میں اسے درج کیا گیا اس میں پہلی بات تو وہی شیعہ اصل ہے یعنی امام کو غسل صرف امام ہی دے سکتا ہے اور دوسرا سیدنا باقرؓ کی کرامت کے انہوں نے اِنتقال سے قبل ہی خبردار کر دیا کہ عبداللہ دعوئے امامت کرے گا لیکن وہ بہت جلد انتقال کر جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا یہی دو باتیں جامی نے ذکر کیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ جامی کا مسلک بھی یہی ہے کیونکہ اس واقعہ کو من و عن نقل کر دینا اور اس پر کچھ بھی نہ کہنا اسی بات کا غماز ہے حالانکہ اہلِ سنت کا ہرگز ہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ امام کو امام ہی غسل دے اور کفن پہنائے کیونکہ امامت کا مسئلہ ہی من گھڑت ہے اس لیے جانے والے امام کا آنے والے کو وصی مقرر کرنا اور امامت سپرد کرنا سب کچھ شیعہ مسلک کی حکایات ہیں۔

عبارت ششم از شواہد النبوة:

و فرمود کہ سخن گوئے اے فرزند من باذن اللہ تعالیٰ گفت بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَنُرِيۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِيۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَنَجۡعَلَهُمۡ اَئِمَّةً وَّنَجۡعَلَهُمُ الۡوٰرِثِيۡنَۙ بعد ازاں دیدم کے مرغا نے سبز مارا فرو گرفتندا ابو محمدؓ یکے ازاں مرغان سبز را بخوا ندد گفت خذه فاحفظه حتى ياذن الله فيه فان الله بالغ امره از ابو محمدؓ پر سیدم کہ ایں مرغ کہ بود وایں مرغان دیگر کیا ند فرمود کہ آں جبرائیل علیہ السلام و دیگراں ملائکہ رحمت اند۔ 

(شواہد النبوۃ صفحہ 212 تا 213 رکن سادس در ذکر علی بن محمد بن الرضا یعنی سیدنا مہدیؒ مطبوعہ تو لشکور لکھنؤ)

 ترجمہ:اور فرمایا اے میرے بیٹے اللہ تعالیٰ کے حکم سے بولو بس بیٹا بولا۔ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَنُرِيۡدُ الاية ہم ارادہ رکھتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں کمزور کر دیئے گئے ہیں اور ہم انہیں امام بنائیں اور ہم انہیں وارث بنائیں اس کے بعد میں نے دیکھا کہ سبز رنگ کے پرندوں نے ہمیں گھیرے میں لے لیا سیدنا ابو محمدؓ نے ان سبز پرندوں میں سے ایک کو بُلا کر فرمایا یہ لے لو اور اسے اس وقت تک محفوظ رکھنا جب تک اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیتا اللہ تعالیٰ بے شک اپنے حکم کو کر گزارنے والا ہے میں نے ابو محمدؓ سے پوچھا کہ یہ سبز پرندہ کون تھا اور دوسرے سبز پرندے کون تھے؟ فرمایا یہ جبرائیلؑ تھے اور وہ رحمت کے فرشتے تھے۔ 

تبصرہ:

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ گیارہویں امام حسن عسکری کا ایک ہی بیٹا تھا جس کی کنیت ابو محمد تھی اور اسی کو سیدنا مہدی بھی کہا جاتا ہے اس کی والدہ کا نام نرجس تھا یہ لڑکا 255ھ میں پیدا ہوا اور ان کی پیدائش سے تقریبا پانچ سال بعد 260ھ میں ان کے والد حسن عسکری کا انتقال ہو گیا پھر جب ان کی عمر نو برس ہو گئی تو یہ صاحبزادے ایک غار میں داخل ہوئے جس سے آج تک ان کے وکیل ان کو لوگوں کی خبریں سناتے اور لوگوں کو ان کی باتیں بتاتے رہے جب چوتھا وکیل فوت ہوا تو یہ کام بھی ٹھپ ہو گیا اس کے بعد امام مہدی بے خبری کے عالم میں بغداد کے نزدیک سرداب میں منتظر ہیں سرمن رائی بھی اس کو کہتے ہیں اصل قرآن بھی ان کے پاس ہی ہے قیامت سے نزدیک غار سے نکل کر سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو قبروں سے نکال کر سخت سزا دے گا امام مہدی کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہم نے اپنی تصنیف عقائد جعفریہ جلد دوم صفحہ 195 تا صفحہ 256 پر لکھ دی ہے اس کا مطالعہ ضرور کر لیجئے مختصر یہ کہ حسن عسکری کا کوئی لڑکا نہ تھا بلکہ وہ بے اولاد ہی انتقال کر گئے تھے شیعوں نے اس غائب امام کے بارے میں ایسے من گھڑت واقعات منسوب کیے جن سے دفتر بھر جانا ہے جنہیں پڑھ کر ایک عام ذہن کا آدمی بھی جان لیتا ہے کہ یہ من گھڑت واقعات ہیں اور انہیں کمال چالاکی سے اہلِ بیت کی مقدس ہستیوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے امام مہدی فرضی کے بارے میں چند باتیں عقائد جعفریہ کی ملاحظہ ہوں۔ 

  •   سیدنا علی المرتضیٰؓ کا قول ہے کہ امام مہدی کی غیبت چھ دن یا چھ ماہ یا چھ سال ہے۔

(اصول کافی جلد اول صفحہ 338 کتاب الحجة باب فی الغیبة مطبوعہ تہران طبع جدید) 

  • سیدنا باقرؒ فرماتے ہیں کہ امام مہدی کا ظہور 70ھ میں ہونا تھا لیکن قتل سیدنا حسینؓ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ غضبناک ہو گیا اور امام مہدی کا ظہور 140ھ تک مؤخر کر دیا۔ 

(اصول کافی جلد اول صفحہ 368 کتاب الحجۃ باب کراہیہ التوقیت مطبوعہ تہران طبع جدید)

 یہ بھی جب صحیح نہ نکلا تو سیدنا باقرؒ نے فرمایا کہ امام مہدی کے ظہور کا وقت نفس زکیہ کے قتل کے اور امام مہدی کے ظہور کے درمیان پندرہ دن سے زیادہ فیصلہ نہیں ہوگا کشف الغمہ جلد دوم صفحہ 460 فی علامات قیام القائم مطبوعہ تبریز طبع جدید اور نفس زکیہ 145ھ میں فوت ہوا ان تینوں باتوں کو بار بار پڑھیں نہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کی بات سچی نکلی نہ سیدنا باقرؒ کے وعدے سچے ثابت ہوئے کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے یہی کہاوت امام مہدی کے بارے میں نظر آرہی ہے ذرا غور فرمائیں امام حسن عسکری کا انتقال 260ھ میں اور امام مہدی کا تولد 255ھ میں تاریخ آئمہ کے اندر موجود ہے اس مہدی کے بارے میں سیدنا باقرؒ نے کہا کہ 70ھ میں اس کا ظہور ہوگا پیدائش 255ھ میں ہوگی اور غار سے امام مہدی 70ھ میں نکلے گا اور یہ کہا کس نے؟ سیدنا باقرؒ نے وہی سیدنا باقرؒ جو بارہ اماموں میں سے پانچویں امام ہیں اور امام کی پہچان یہ کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا بلکہ اللہ کے حکم سے بولتا ہے خدا کا خوف کیوں نہیں آتا اپنے ہی اماموں کی غلط باتوں سے جگ ہنسائی کرتے ہوئے شرم نہیں آتی خود شیعہ تسلیم کرتے ہیں کہ حسن عسکری کا کوئی بیٹا نہ تھا چنانچہ اصول کافی جلد اول صفحہ 505 اعلام الورٰی اور ارشاد شيخ مفيد وغیرہ میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ جب حسن عسکری کا انتقال ہوا تو اس وقت کے خلیفہ عباسی نے حکم دیا کہ حسن عسکری کی اولاد کی خوب تحقیق کرو اگر ان کا کوئی بیٹا ثابت ہو جائے تو اسے میراث دی جائے ایسا نہ ہو کہ ساری کی ساری میراث ان کی والدہ اور ان کے بھائی لے جائیں چنانچہ تفشیش بسیار کے بعد یہی رپورٹ دی گئی کہ حسن عسکری کا کوئی لڑکا نہیں ہے بلکہ ان کی لونڈی جو امید سے تھی اس پر نظر رکھی گئی کہ یہ کیا جنتی ہے مگر اس کے بطن سے بھی کوئی لڑکا پیدا نہ ہوا خود حسن عسکری کی والدہ نے خلیفہ کو بیان دی کہ میرے فوت شدہ لڑکے کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے اس پر ایک حوالہ ملاحظہ فرمالیں۔

 فرق الشيعه:

 قالت الفرقة الثامنة انه لا ولد للحسن اصلا لان قدامتحن ذلك وطلبناه بكل وجه فلم نجده ولو جاز لنا ان نقول في مثل الحسن وقد توفي ولا ولد له ان له ولدا خفيفا لجاز مثل هذا الدعوى في كل ميت عن غير خلف ولجاز مثل ذلك في النبيﷺ ان يقال خلف ابنا نبيا رسولا۔

 (فرق الشيعہ صفحہ 103 الفرقۃ الثامنہ مطبوعه حیدريه 1355ھ) 

ترجمہ: شیعوں کا آٹھواں فرقہ کہتا ہے کہ حسن عسکری کا بالکل کوئی صاحبزادہ نہ تھا کیونکہ اس بارے میں خوب چھان بین اور تحقیق کی گئی لیکن کوئی ثبوت نہ ملا اور اگر ہمارے لیے یہ کہنا جائز ہو کہ حسن عسکری کا ایک فرزند تھا جو ان کے انتقال کے بعد چھپ گیا تھا تو پھر ایسا دعویٰ ہر مرنے والے کے بارے میں کیا جانا درست ہوگا جو لاولد مرا اور اسی قول کی طرح حضورﷺ کے بارے میں کہنا بھی درست ہوگا کہ آپ نے بھی ایک چھپا ہوا بیٹا چھوڑا جو نبی اور رسول تھا قارئین کرام! امام مہدی کی فرضی حکایات آپ نے بھی ملاحظہ فرمائیں جب شیعوں کا امام مہدی ہی فرضی ہے تو اس کے آنے چھپنے اور ظاہر ہونے کے تمام واقعات کیا حقیقت رکھتے ہیں یہی فرضی امام ہے کہ جسے جامی نے بھی حسن عسکری کا صاحبزادہ بتایا اور ان کی بچپن کی زبان سے از روئے کرامت ایک آیت سنائی جو سورہ قصص پارہ 20 کی پانچویں آیت ہے اس سے ثابت یہ کرنا مقصود ہے کہ حسن عسکری نے اپنے چھوٹے سے بیٹے کو ایسی عمر میں بولنے کو کہا جس میں بولا نہیں جا سکتا ایسا اس لیے کیا گیا کہ حسن عسکری اپنی پھوپھی حکیمہ کو بتانا چاہتے ہیں کہ یہ بچہ صاحب امر اور امام وقت ہوگا دوسری یہ بات بتلانا چاہتے تھے کہ ہم سب امام تو ظاہری حکومت کیے بغیر کمزوروں کی سی زندگی بسر کر گئے لیکن یہ بچہ صاحب حکومت ہوگا اور پوری دنیا اس کے زیر تسلط ہوگی پھر حسن عسکری مزید تسلی دیتے ہوئے پھوپھی کو کہتے ہیں کہ ابھی جبرائیل امینؑ اور رحمت کے فرشتے سبز رنگ کے پرندوں کی صورت میں آئے تھے میں نے انہیں اپنے بیٹے کی حفاظت کا حکم دے دیا ہے اور یہی کچھ جامی کے پیش نظر بھی ہے ورنہ حقیقت میں آیت مذکورہ فرعون کے ظلم میں پسنے والوں کے لیے آئی ہے اللہ تعالیٰ ان سے وعدہ فرما رہا ہے کہ آج تم مظلوم ہو لیکن ایک وقت آئے گا کہ تم صاحب حکومت ہو گے چنانچہ ایسا ہی ہوا ایسے من گھڑت واقعات و حکایات کے سلسلے میں ملاعلی قاری حنفیؒ نے جو تردید کی ہم اس کی چند سطور ہدیہ ناظرین کرتے ہیں ملاحظہ ہوں۔

 مرقات

 وكذا المعتقد الطائفة الشيعة من الامامية ان المهدي الموعود وهو محمد بن الحسن عسكري كانه لم يمت بل هو مختف عن اعين الناس من العوام والاعيان وانه امام الزمان وانه سيظهر في وقته ويحكم في دولته وهو مردود عند اهلِ السنت والجماعة والادلة مستوفاة في كتب الكلامية الخ ثم جلس على العريكة القبطية بعد ان توفا الله علي ابن الحسن البغدادي القطب اليه وانه دفن في بغداد في الشونيز بروح وريحان وبقي في مرتبة النطبية تسع عشر سنة ثم توفاه الله اليه بروح وريحان انتهى۔ وقد نقل مولانا عبد الرحمن جامي هذا عنه في بعض كتبه واعتمد عليه في اعتقاده لكن لا يحفى ان الشيخ علاؤ الدولة ظهر بعد محمد بن حسن العسكري بزمان كثير ولم يسند هذا القول الى من كان في ذلك الوقت والظاهر انه يدعي هذا من طريق الكشف وكذا لا يمكن من غيره ايضا الا كذلك ولا يخفى ان مبنى الاعتقاد لا يكون الا على الادلة اليقينية ومثل هذا المعنى الذي اساسه على ذلك المبنى لا يصلح ان يكون من الادلة الظنية ولذا لم يعتبر احد من الفقهاء جواز العمل في الفروع الفقهية بما يظهر الصوفية من الامور الكشفية او من الحالات المنامية ولو كانت منسوبة الى لحظرة النبوية على صاحبها افضل الصلاة واكمل التحية لكن الاحاديث الوارده في احوال المهدي مما جمعه السيوطي رحمه الله وغيره ترد على الشيعة في اعتقاداتهم الفاسده وارائهم الكاسدة بل جعلوا تمام ايمانهم وبناء اسلامهم واركان احكامهم بان محمد بن حسن العسكري هو الحي القائم المنتظر وهو المهدي الموعود على لسان صاحب المقام المحمود والحوض المودود۔

(مرقات شرح مشکوۃ ملاعلی قاریؒ المتوفی 5014 جلد 10 صفحہ 179 تا 180 باب اشتراط السائمه فصل ثاني مطبوعه مكتبه امداديه ملتان) 

ترجمہ: یونہی امامیہ شیعوں کا ایک گروہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ جس امام مہدی کے بارے میں احادیث نبویہ میں اور بھی قیامت آنے کا وعدہ ہے وہ حسن عسکری کا بیٹا محمد ہے وہ پیدا ہونے کے بعد مرا نہیں بلکہ عوام و خواص کی آنکھوں سے چھپا ہوا ہے اور وہی امام الزمان ہے عنقریب اپنے وقت پر ظاہر ہوگا اور اپنی بادشاہت میں حکومت کرے گا لیکن یہ اہلِ سنت کے نزدیک مردود ہے اس بارے میں دلائل دیکھنا ہو تو علم عقائد کی کتب میں موجود ہیں(عروه الوثقىٰ میں شیخ علاء الدولہ سمنانی نے تصریح کی محمد بن حسن عسکری چھپ گیا تو پہلے ابدال کے دائرہ میں داخل ہوا کہ جب پھر اسی منصب پر رہا حتیٰ کہ کوئی ابدال باقی نہ رہا پھر ابطال یعنی چالیس آدمیوں کے دائرہ میں داخل ہوا یہاں تک اس کے سوا باقی سب انتقال کر گئے تو یہ سید الابطال ہو گیا پھر سات سیاحوں کے دائرہ میں داخل ہوا ان میں سے سب کے انتقال کے بعد سید السیاح کہلایا پھر اوتار کے دائرہ میں داخل ہوا جو پانچ افراد پر مشتمل ہوتا ہے ان کے انتقال کے بعد یہ باقی بچا رہا اور سید الاوتار کہلایا پھر تین اشخاص جو افزاز کہلاتے ہیں ان میں داخل ہوا جب اس کے سوا باقی دونوں انتقال کر گئے تو یہ سید الافزاز کہلایا) پھر قطبیت کی کرسی پر بیٹھا جب اللہ تعالیٰ نے علی بن حسن بغدادی کو فوت کر دیا جو اپنے وقت کا قطب تھا انہیں بغداد میں شرنیز مقام پر دفن کیا گیا۔ اور یہ مقام قطبیت پر باقی رہا انیس سال تک اسی منصب پر فائز رہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے فوت کر دیا مولانا عبدالرحمن جامی نے اس واقعہ کو "عروۃ الوثقى" سے اپنی کسی تصنیف میں ذکر کیا ہے اور اپنے اعتقاد کے لیے اس کو معتمد جانا لیکن مخفی نا رہے کہ شیخ علاؤ الدولہ سمنانی محمد بن عسکری کے کافی عرصہ بعد پیدا ہوئے انہوں نے اپنے اس قول کا اسناد اس دور کے کسی شخص کی طرف بھی نہیں کیا ظاہراً یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ دعوی ازروئے کشف کیا ہوگا یونہی کوئی دوسرا اگر اسے روایت کرتا ہے تو وہ بھی اسی طریقہ سے ہی ہوگا اور یہ امر بالکل واضح ہے کہ عقائد کا دارومدار دلائل یقینیہ پر ہوتا ہے اور یہ بات جو کشف کی بنیاد پر رکھی گئی۔ یہ دلائل ظنیہ بھی بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اسی لیے کسی مجتہد اور فقیہ نے فقہی فروعات میں ان پر عمل کرنا معتبر قرار نہ دیا۔ جو صوفیاء کرام پر کشف یا خواب میں ظاہر ہوتی ہیں اگرچہ وہ حضور سرور کائناتﷺ کی طرف ہی منسوب کیوں نہ ہوں لیکن وہ احادیث جو امام مہدی کے بارے میں وارد ہیں جنہیں علامہ السیوطی وغیرہ نے جمع فرمایا وہ ان شیعوں کے فاسد عقائد اور جھوٹی آراء کی تردید کرتی ہیں بلکہ ان شیعوں نے تو اپنے ایمان کا کمال اپنے اسلام کی بنیاد اور اپنے احکام کا رکن اس بات کو قرار دیا کہ محمد بن عسکری وہ زندہ ہے قائم ہے منتظر ہے اور وہ مہدی موعود ہے کہ جس کے حضورﷺ نے آنے کی خوشخبری دی ہے۔

تبصرہ:

 سیدنا ملاعلی قاریؒ نے شیعوں کے اس عقیدہ کی تردید کی جو عقیدہ وہ مہدی موعود کے بارے میں رکھتے ہیں امام حسن عسکری کے بیٹے کو مدار ایمان بنائے احکام اور اعمال کی اصل قرار دینا بالکل غلط ہے کیونکہ ہر عقیدہ کی بنیاد دلائل ہے یقینیہ پر ہوتی ہے اور شیعوں کا مذکورہ عقائد عقیدہ دلائل یقینیہ تو دور کی بات ہے دلائل ظنیہ سے بھی ثابت نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا مدار محض خواب اور کشف پر ہے جو کسی عقیدہ کی بنیاد نہیں بن سکتے حسن عسکری کے بیٹے ہونے اور اس کے بارے میں مختلف مراتب کی گفتگو علاؤ الدولہ سمنانی نے کی اسی کو جامی نے "شواہد النبوۃ" میں نقل کر دیا لیکن جس طرح ملاعلی قاریؒ نے اس واقعہ کی تردید بھی لکھی جامی کا قلم اس سے خاموش رہا ان کی خاموشی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کا عقیدہ بھی یہی ہے اور علاؤ الدولہ کی تحریر کے مطابق جامی بھی اسے من و عن تسلیم کر رہے ہیں یاد رہے کہ ملاعلی قاریؒ نے علاؤ الدولہ کے مذکورہ عقیدہ کی تردید کی لیکن خود علاؤ الدولہ کی شخصیت پر انہوں نے کچھ نہ لکھا کہ وہ مسلک کے اعتبار سے کون تھا؟ صاحب عروۃ الوثقىٰ علاؤ الدولہ سمنانی کون ہے؟ حوالہ ملاحظہ ہو۔

 الزريعہ الى تصانيف الشيعہ:

 شیخ بزرگ آقائے طہرانی صاحب الذریعہ لکھتے ہیں۔ العروۃ الوثقى لشيخ الطريقه احمد بن محمد علاء والدولۃ السمناني يوجد في 

(الرضويه وعده في المجالس من عرفاء الشيعه) 

(الزريعه الى تصانيف الشيعه جلد 15 صفحہ 251 مطبوعہ بیروت) 

ترجمہ: صاحب ذریعہ آقائے طہرانی لکھتے ہیں کہ عروۃ الوثقى کہ مصنف احمد بن محمد علاؤ الدوله سمنانی ہیں ان کا تذکرہ "رضویہ" نامی کتاب میں موجود ہے اور مجالس میں اس کے مصنف کو ایسے شیعوں میں شمار کیا گیا ہے جو "عرفاء" تھے۔ 

نوٹ:

 مولانا جامی کی "شواہد نبوۃ" میں اکثر و بیشتر واقعات و حکایات ایسی ہیں جن کے راوی شیعہ اور جن کا مأخذ کتب شیعہ ہے ان کی نہ کوئی سند ذکر کی گئی اور نہ ہی اور کوئی ذریعہ ثبوت مہیا کیا گیا شیعہ مسلک کی بنیاد چار اشخاص پر ہے ان میں سے ایک "ابوبصیر" بھی ہے جس کے بارے میں شیعوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ نہ ہوتا تو آثار نبوت مٹ جاتے جامی نے اس شخص کے واسطہ سے بہت سی روایات کو اپنے کتاب میں جگہ دی جس سے ان کی عقیدت کا پتہ چلتا ہے مذکورہ چار کے ٹولے کا مقام ایک شیعہ کتاب سے سنیئے۔ 

رجال کشی:

عن جميل ابن دراج قال سمعت ابا عبد الله بشر المخبتين بالجنة۔ بريد بن معاويه العجلي وابا بصير الليث بن البختري المرادي ومحمد بن مسلم وزرارہ اربعة نجباء امناء الله على حلاله وحرامه لولا هؤلاء انقطعت اثار النبوة واندرست ۔

(رجال کشی صفحہ 152 حالات ابوبصیر مطبوعہ کربلا) 

ترجمہ: جمیل بن دراج کہتا ہے کہ میں نے ابو عبداللہ سیدنا جعفرؓ سے سنا فرمایا مخبتین کو جنت کی بشارت دے دو برید بن معاویہ عجلی ابوبصیر لیث بختری مرادی محمد بن مسلم زرارۃ یہ چار نجیب اللہ تعالیٰ کے حلال و حرام پر اس کے امین ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو نبوت کے آثار منقطع ہو چکے ہوتے اور مٹ گئے ہوتے۔ 

عبارت ہفتم از شواہد النبوۃ

وازآں جملہ آنست کہ امیر المومنین گفتہ است کہ یا رسول اللہﷺ بحدیقہ بگذ شتم گفتم یا رسول اللہﷺ چہ خوش است ایں حدیقہ رسول اللہﷺ گفت مرتر اور بہشت بہتر ازیں خواہد بود دہم چنیں ہر ہفت حدیقہ بگذ شتیم درہمہ گفتم کہ خوب است ایں حدیقہ و رسول اللہﷺ گفت مرتر اور بہشت خوبتر ازیں خواہد بود بعد ازاں رسول اللہﷺ آواز برداشت و آغاز گریہ کرد گفتم یا رسول اللہﷺ چہ می گریا ند ترا گفت کینہ ہائے کہ در قومی است از تو کہ آں را ظاہر می کرد ند بعد از من گفتم یا رسول اللہﷺ بسلامت گزرند گفت بسلامت دین۔

 (شواہد النبوۃ فارسی صفحہ 142 تا 143 قسم ثانی در رکن خامس مطبوعہ نولکشور لکھنؤ)

 ترجمہ:ان تمام واقعات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا کہ میں حضورﷺ کے ساتھ ایک باغ سے گزرا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ یہ باغ کتنا خوبصورت ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا اے سیدنا علیؓ! تیرے لیے بہشت میں اس سے کہیں بہتر ہوگا اسی طرح ہمارا سات باغوں پر سے گزر ہوا ہر باغ سے گزرتے وقت میں نے اس کی تعریف کی اور ہر مرتبہ حضورﷺ نے فرمایا جنت میں تمہارے لیے اس سے بہتر ہوگا اس کے بعد حضورﷺ نے آواز بلند فرمائی اور رونا شروع کر دیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! اپ کو کس بات نے رلایا؟ آپ نے فرمایا کہ وہ بغض و حسد جو تمہارے متعلق لوگوں کے سینوں میں ہے اور اسے میرے وصال کے بعد ظاہر کریں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! کیا وہ سلامتی کے ساتھ اس دنیا سے جائیں گے؟ فرمایا، ہاں سلامتی دین کے ساتھ جائیں گے۔ 

توضیح:

جامی کے منقولہ واقعہ کا اول و آخر متخالف ہے کیونکہ ابتداء میں یہ ذکر کیا گیا کہ حضورﷺ ایسے لوگ لوگوں (صحابہ کرامؓ خصوصاً خلفاء) کے طرز عمل سے رنجیدہ ہوئے جو سیدنا علی المرتضیٰؓ سے ولی بغض رکھتے ہیں یہ لوگ حضورﷺ کے زمانہ میں موجود تھے تبھی آپ نے فرمایا کہ میرے بعد ان کا ولی بغض ظاہر ہوگا اسی رنجیدہ دلی کی وجہ سے آپ بلند آواز سے رونا شروع ہو گئے اس سے معلوم ہوا کہ سرکار دو عالمﷺ کو اذیت پہنچی اور آپ کو اذیت پہنچانے والے قرآنی فیصلہ کے مطابق اِنَّ الَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمۡ عَذَابًا مُّهِيۡنًا جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ایذاء پہنچاتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت دنیا اور آخرت میں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے دنیا و آخرت میں ملعون اور جہنمی ہیں لیکن اسی واقعہ کے آخری حصہ میں حضورﷺ سے جب سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ان بغض و حسد کرنے والوں کے انجام کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا سلامتی دین کے ساتھ دنیا سے جائیں گے یہ حصہ ان کے جنتی ہونے پر دلالت کرتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ باہم متخالف واقعہ کن لوگوں پر منطبق ہوتا ہے تو صاف ظاہر کہ یہ لوگ اس وقت موجود تھے یعنی خلفاء ثلاثہؓ سیدنا امیر معاویہ سیدنا طلحہؓ سیدنا زبیرؓ اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ وغیرہ شیعہ لوگ بھی ان حضرات کے بارے میں یہی کچھ کہتے ہیں یہی روایت وہ بھی اپنی کتب میں نقل کرتے ہیں اور اس سے ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی پیش گوئی کے مطابق یہ لوگ معاذ اللہ جہنمی ہیں روایت کا آخری جملہ جامی نے نہ جانے کیوں کر نقل کر دیا حالانکہ یہ جملہ ابتدائی حصہ کے خلاف ہے اسی اختلاف کی وجہ سے شیعہ کتب میں اس روایت کے آخر میں مذکورہ حصہ نہیں ملتا اس سے جامی کے تقیہ کا پتہ چلتا ہے کیونکہ جامی کی انہیں عبارات کو شیعہ علماء نے تقیہ پر محمول کیا ہے جن میں حضرات خلفاء ثلاثہؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل مذکور ہیں ان میں ایک جملہ یہ بھی بطور تقیہ لکھ دیا ہو ہم ان شاءاللہ اس بحث کے آخر میں چند ایسے حوالہ جات کتب شیعہ سے نقل کریں گے جو جامی کی نظریاتی حیثیت کو متعین کرنے میں بہت ممدّ و معاون ثابت ہوں گے بہرحال جامی نے اس بے سند اور بے اصل روایت کو نقل کیا جو دراصل شیعوں کی روایت تھی نامعلوم اس سے جامی کیا فائدہ اٹھانے چاہتے تھے؟ ایسی روایت جس کی زد میں خلفائے ثلاثہ اور جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آتے ہوں اسے ذکر کرنا سنی قطعا سوچ بھی نہیں سکتا یہ روایت بے سند اور بے اصل ہونے کی وجہ سے من گھڑت ہے۔ 

عبارت ہشتم شواہد النبوۃ:

امیر معاویہؓ کا سیدنا حسنؓ کی زوجہ کے ذریعہ ان کو زہر پلوانا

شواہد النبوہ

آوردہ اند کہ ویرا زہر دا دند و در وقت وفات دے امیر المومنین حسینؓ برسر بالین وے بود فرمود کہ براد رمن گمان می برم کہ تراز ہردا وہ است گفت برائے آں می پرسی کہ ویرا بکشی گفت آرے فرمود کہ اگر آں کس باشد کہ من گمان می برم یاس و نکال خدائے تعالی ازہمہ سخت است و اگر بناشد دوست نمید ارم کہ بے گناہ را برائے من بکشند و مشہور آنست کہ ویرا خاتون وے جعدہ زہر داوہ است بفرمود معاویہ وفات وے ور اور رائل ربیع الاول بودہ است سن خمسین من الہجرۃ۔ 

(شواہد النبوۃ فارسی صفحہ 173 رکن سادس مطبوعہ نولکشور لکھنؤ) 

ترجمہ:بیان کرتے ہیں۔ کہ سیدنا حسنؓ کو زہر دیا گیا ان کی وفات کے وقت سیدنا حسینؓ ان کے سرہانے تشریف فرما تھے پوچھا بھائی جان! میرا گمان ہے کہ آپ کو زہر دیا گیا ہے؟ فرمایا! اس لیے پوچھتے ہو کہ زہر دینے والے کو مار ڈالو؟ کہا ہاں اسی لیے فرمایا اگر مجھے زہر دینے والا وہ ہے جس کے بارے میں میرا گمان ہے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور سزا تمام سے بڑھ کر ہے اگر وہ نہیں تو میں پسند نہیں کرتا کہ کسی بے قصور کو میری خاطر لوگ قتل کر دیں اور مشہور یہ ہے کہ سیدنا حسنؓ کو ان کی بیوی جعدہ نامی نے زہر دیا تھا اور اس کا حکم اسے سیدنا امیر معاویہؓ نے دیا تھا سیدنا حسنؓ کی وفات پچاس ہجری ماہ ربیع الاول کے ابتدائی دنوں میں ہوئی تھی۔ 

تبصرہ:

جامی کی منقولہ عبارت من وعن وہی ہے جو شیعہ ہم پر بطور اعتراض پیش کرتے ہیں اس کا تفصیلی جواب اور حقیقت حال میں نے تحفہ جعفریہ جلد پنجم میں دے دیا ہے وہاں مطالعہ کر لیجئے یہاں اس عبارت کو اس لیے نقل کیا گیا تاکہ قارئین کو بتایا جا سکے کہ جامی نے شیعیت کے حق میں کیسی کیسی من گھڑت روایات و حکایات درج کیں واقعہ مذکورہ میں سیدنا حسنؓ کو اپنے زہر دینے والے کے بارے میں حتمی اور یقینی علم نہیں اور نہ ہی آپ نے شک کے طور پر کسی کا نام لیا جس کی بنا پر آپ کے گھر کے افراد کو بھی کچھ علم نہ ہو سکا اس ایسے بے سروپا واقعہ کو جامی کا یوں بیان کرنا ہے کہ "مشہور یہ ہے کہ زہر ان کو بیوی نے سیدنا امیر معاویہؓ کے حکم سے دیا تھا" یہ شہرت صحیح ہے یا جھوٹی؟ سب کہیں گے کہ من گھڑت اور غلط ہے دوسری بات اس سے یہ بھی ثابت ہوئی کہ سیدنا امیر معاویہؓ کو سیدنا حسنؓ اور دیگر اہلِ بیت سے سخت دشمنی تھی دشمن اہلِ بیت کے متعلق میں اس سے قبل کئی مرتبہ اپنے شیخ اور مرشد روحانی پیر گیلانی کا واقعہ ذکر کر چکا ہوں بطور اختصار یہ ہے کہ آپ نے فرمایا مجھ سے سیدنا امیر معاویہؓ کے بارے میں کچھ نازیبا کلمات نکل گئے رات کے وقت خواب میں سیدنا علی المرتضیٰؓ اور سیدنا امیر معاویہؓ کی زیارت ہوئی دونوں حضورﷺ کی معیت میں تشریف لائے سیدنا علی المرتضیٰؓ فرمانے لگے سیدنا معاویہؓ سے جھگڑا میرا ہوا تھا یا تیرا؟ تم ہمارے بارے میں دخل اندازی کیوں کرتے ہو؟ جامی نے جو زہر دینے کی نسبت اور وہ بھی مشہور طریقہ سے سیدنا امیر معاویہؓ کی طرف کی جس سے یہی ثابت کرنا تھا کہ سیدنا امیر معاویہؓ کو خاندان اہلِ بیت سے محبت کی بجائے دشمنی تھی اور سیدنا حسنؓ کے قاتل سیدنا امیر معاویہؓ ہی تھے اس سے بڑھ کر شیعہ نوازی اور ان کی طرف داری کیا ہو سکتی ہے۔

 (فاعتبروا يا اولي الابصار)

جب تک کلیجہ کھانے والی کا بیٹا میرے سر سے نہیں کھیلے گا اس وقت تک میں دنیا سے رخصت نہ ہوں گا (سیدنا علی المرتضیٰؓ):

عبارت نہم از شواہد النبوۃ:

 وازآں جملہ انست کے روزے امیر معاویہؓ گفت چگو نہ تواں کرو کہ عاقبت کار خود را بدانیم حاضر ان مجلس گفتند کہ ماطریق دانستن ایں را نمی دا نیم گفت آں را من از علیؓ معلوم توانم کرو کہ ہرچہ بر زبان وے گزر و حق بودسہ تن از معتمدان خود را طلبید و گفت بایکدیگر بروید تا بیک مرحلہ ازکوفہ واز آنجاہر یک بعد از دیگرے بکوفہ در آئید و خبر مرگ مرا باز گوئید و لیکن می باید کہ ہمہ بایکد یگر متفق باشند در خبر بیماری روز مردن وساعت آں موضع قبر و گزا رندۂ نماز و غیرآں سہ تن چنانکہ امیر معاویہؓ گفتہ بود رواں شد ند چوں نزدیک کوفہ رسید ند یکے روز اول در آمد اہلِ کوفہ ازروئے پر سید ند کہ از کہ جامی رسی گفت از شام گفتند خبر بیسٹ گفت معاویہؓ وفات یافت پیش حضرت امیر کرم اللہ وجہہ برد ندوآں خبر را باز گفتند بآں التفات ننمود و بعد اذاں روز دیگر دیگرے آمد و وے نیز خبر وفات معاویہؓ گفت با امیر بگفتن آں ہیچ نگفت روز سوم دیگرے آمد ووے نیز موافق ایشاں گفت بامیرؓ گفتند کہ ایں خبر تحقیق شد و بصحت پیوست امروز کسے دیگر آمد و موافق آں دو کس نختن خبر وفات معاویہ باز گفت امیرؓ فرمود کہ کلا وے بمیرد و مادام کہ ایں و اشارت باریش خود کرد ازیں و اشارت سرِ خود کرد خضاب کردہ نشود و رنگین نگرد دو ابن آکلہ الاکباد ملاعبہ نکرد آں سہ تن ایں خبر را بمعاویہؓ بروند۔

 (شواہد النبوۃ فارسی صفحہ 169 مطبوعہ نولکشور لکھنؤ) 

ترجمہ:سیدنا امیر معاویہؓ اور سیدنا علیؓ:

ایک روز سیدنا امیر معاویہؓ کہنے لگے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم بالآخر اپنی عاقبت سے آگاہ ہو جائیں حاضرین مجلس نے کہا: ہم تو ایسے کسی طریقے سے آشنا نہیں سیدنا امیر معاویہؓ نے کہا: میں اس طریقہ کو سیدنا علیؓ سے معلوم کر سکتا ہوں کیونکہ وہ جو بھی کہیں سچ ثابت ہوتا ہے چنانچہ سیدنا امیر معاویہؓ نے تین با اعتبار اشخاص کو بلایا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ ایک دوسرے کے بعد اکیلے اکیلے کوفہ جائیں اور میری موت کی خبر مشہور کر دیں لیکن یہ امر ضروری ہے کہ تم میری بیماری یوم وفات، وقت اجل، جگہ، قبر اور نماز جنازہ پڑھانے والے کے تذکرہ میں باہم متفق رہو یہ سن کر وہ روانہ ہوئے کوفہ کے نزدیک پہنچے تو پہلے روز ایک آدمی کوفہ میں وارد ہوا اہلِ کوفہ نے پوچھا: کہاں سے آئے ہو؟ کہنے لگا: شام سے انہوں نے پوچھا: وہاں کے احوال و واقعات کیا ہیں؟ اس نے کہا: سیدنا امیر معاویہؓ وفات پاگئے ہیں اہلِ کوفہ نے سیدنا امیر علیہ السلام (علیؓ) کے پاس آکر سیدنا امیر معاویہؓ کی وفات کی خبر سنائی لیکن آپ نے اس طرف توجہ نہ فرمائی دوسرے روز دوسرا آدمی وارد کوفہ ہوا اس نے بھی سیدنا امیر معاویہؓ کی وفات کی خبر سنائی سیدنا علیؓ نے پھر اس طرف چنداں التفات نہ فرمایا تیسرے روز ایک اور آدمی آیا اس نے بھی ان کی طرح سیدنا امیر معاویہؓ کی وفات کی خبر دی سیدنا علیؓ کے متوسلین کہنے لگے اب یہ خبر پایۂ تحقیق و صحت کو پہنچ چکی ہے آج ایک شخص پھر آیا ہے جس نے پہلوں کی طرح سیدنا امیر معاویہؓ کی وفات کی خبر دی ہے سیدنا علیؓ نے اپنی داڑھی مبارک اور سر جس پر خضاب لگا ہوا تھا کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ فات پا جائیں جب تک کہ میری داڑھی اور سر رنگین نہ ہو جائیں اور ابنِ ابکتہ الابکاء ان سے ملاعبت نہ کریں ان تینوں نے اسی طرح سیدنا امیر معاویہؓ سے اهل آكلۃ لابقا وجالها۔ 

تبصرہ:

جامی کا ذکر کردہ یہ واقعہ بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے سیدنا امیر معاویہؓ کا تین آدمیوں کو سیدنا علیؓ کے پاس جھوٹ بولنے کے لیے بھیجا کیا کسی صحابی سے ایسے فعل کی توقع کی جا سکتی ہے؟ یہ سیدنا امیر معاویہؓ پر بہتان ہے دوسری بات یہ کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا کہ کلیجہ چبانے والی کا بچہ(سیدنا معاویہؓ) جب تک میرے سر اور داڑھی سے نہ کھیلے گا وہ مر نہیں سکتا یہ ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے وہ یہ کہ سیدنا امیر معاویہؓ کی والدہ سیدہ ہندہؓ نے سیدنا امیر حمزہؓ کی شہادت پر ان کا کلیجہ چبایا لیکن "کلیجہ چبائی کا بیٹا" جیسا پست لفظ اور پھر اسے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی طرف منسوب کرنا کتنی بڑی جسارت ہے علاوہ ازیں سیدہ ہندہؓ نے یہ کام قبل از ایمان کیا تھا بعد میں مشرف با اسلام ہوئیں تو اسلام گزشتہ دور کے گناہ مٹا دیتا ہے اسلام کے بعد ان کا شمار فقہاء صحابیات رضی اللہ عنہن میں ہوتا ہے ان کے فضائل و مناقب اگر تفصیل سے پڑھنے ہوں تو ہماری کتاب "دشمنان سیدنا امیر معاویہؓ کا علمی محاسبہ" میں ملاحظہ کریں قرآن کریم حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو "رحماء بينهم" کہے اور مذکورہ واقعہ انہیں آپس میں دشمن بتائے تو قرآن کریم کا فیصلہ بہرحال قابل قبول ہے اس واقعہ میں سیدنا امیر معاویہؓ پر جھوٹ باندھا گیا سیدنا علی المرتضیٰؓ کی طرف گھٹیا بات منسوب کی گئی اور مشرف باسلام ہندہ کے قبل از اسلام فعل کو اچھالا گیا یہ سب باتیں شیعوں کی ہیں کلیجہ چبانے کے واقعہ میں وحشیؓ نے سیدنا امیر حمزہؓ کو شہید کیا تھا یہی حبشی ہیں ان کے متعلق مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ وحشیؓ کے صحابی ہونے کی وجہ سے اویس قرنیؒ ان کا ہم مرتبہ نہیں ہو سکتے جب وحشیؓ کا قتل کرنا اسلام لانے کی وجہ سے معاف ہو گیا تو ہندہ کا فعل کیونکر باعث عار رہا ان تمام باتوں کے پیش نظر جامی کی یہ حکایت ذکر کرنا کس امر کی نشاندہی کرتی ہے؟ آپ اسے بخوبی جان چکے ہیں۔ 

نوٹ:

"شواہد النبوۃ" کے چند حوالہ جات کے بعد آخر میں ہم ملا جامی کے بارے میں کتب شیعہ سے ایک فیصلہ نقل کر رہے ہیں تاکہ اس سے آپ پر مزید بات واضح ہو جائے کہ وہ بھی انہیں اپنا کہتے ہیں ملاحظہ ہو۔ 

الکنی والالقاب:

المولى عبد الرحمن بن احمد بن محمد الدشتی الفارسي الصرفي النحوي الصرفی الشاعر الفاضل ويقال له الجامي لانه ولد ببلدۃ "جام" من بلاد ما وراء النمر 817 ه‍ وله سجة الابرار وشواهد النبوة في فضائل النبيﷺ والائمہ وهل هو من علماء السنة كما هو الظاهر منه بل من المتعصبين كما هو الغالب على اهل بلاد تركستان وما وراء النهر ولذا بالغ في التشنيع القاضي نور الله مع مذاقة الوسيع او انه كان ظاهرا من المخالفين وفي الباطن من الشيعة الخالصين ولم يبرز ما في قلبه تقية لما يشهد بذلك بعض اشعاره منها ما عن سجة الابرار۔ پنجہ درکن اسد اللبی را بسیغ برکن دوسہ رو باہی را و اعتضده السيد الرجل الامير محمد حسين الخاتون آبادي سبط العلامه المجلسی (وينقل) حكاية في ذلك مسندا و حاصلها ان الشيخ علي بن عبد العالي كان رفيقا مع الجامي في سفر زيارة ائمه العراق عليهم السلام وكان يتقيه فلما وصلوا الى بغداد ذهبا الى ساحل الدجله للتزه فجاء درويش قلندر وقراء قصيدة غراء في مدح مولانا امير المؤمنين عليه السلام ولما سمعها الجامي بكى وسجد وبكى في سجوده ثم اعطاه جائزة ثم قال في سبب ذلك اعلم اني شيعي من خلص الامامية ولكن التقية واجبة وهذه القصيدة مني واشكر الله انها صارت بحيث يقرءها القاري في هذا المكان۔ ثم قال الخاتون آبادي واخبرني بعض الثقاۃ من الافاضل نقلا عمن يثق به ان كل من كان في دار الجامي من الخدم والعيال والعشيره كانوا على مذهب الامامیۃ ونقلوا عنه انه كان يبالغ في الوصيه باعمال التقيۃ سيما اذا اراد سفرا والله العالم بالسرائر۔

(الکني والالقاب جلد دوم صفحہ 138تا 139 حالات الجامي مطبوعه تہران) 

ترجمہ: مولوی عبدالرحمن بن احمد بن محمد دشتی فارسی، صوفی، نحوی، صرفی ،شاعر اور فاضل تھے۔ انہیں جامی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ماوراء النھر کے ایک شہر "جام" میں 817ھ کو پیدا ہوئے ان کی ایک کتاب سجۃ الابرار اور دوسری شواہد النبوۃ ہے جو حضورﷺ کے فضائل اور ائمہ کرام کے اوصاف میں لکھی گئی ہیں کیا وہ سنی علماء میں سے ہیں؟جیسا کہ ان کی ظاہری حالت بتاتی ہے بلکہ وہ متعصب سنی ہیں جیسا کہ ترکستانی اور ماوراء النھر کے شہروں میں مشہور ہے اسی لیے انہوں نے قاضی نور اللہ پر سخت تشنیع کی۔ حالانکہ ان کی طبیعت میں اتنی سختی نہ تھی یا یہ کہ جامی بظاہر مخالفین (سنیوں) میں سے اور اندر سے خالص شیعوں میں سے تھے۔ اور جو ان کے دل میں تھا وہ ازروئے تقیہ ظاہر نہ کیا اس کی ان کے بعض اشعار گواہی دیتے ہیں ان میں سے ایک شعر سجۃ الابرار کا یہ ہے اللہ کے شیر والا پنجہ ذرا نکال اور دو تین لومڑیوں کو چیر پھاڑ دے اور اس بات کو امیر سید محمد حسین خاتون آبادی کی ذکر کردہ ایک حکایت سے مضبوطی حاصل ہوتی ہے یہ محمد حسین علامہ مجلسی کے نواسے تھے اس با سند حکایت کا خلاصہ یہ ہے شیخ علی بن عبدالعالی ایک مرتبہ سفر میں جامی کے ہم رکاب تھے جو عراق میں ائمہ کرام کی قبور کی زیارت کے لیے کیا گیا وہ تقیہ کرتے تھے جب یہ بغداد پہنچے تو دونوں دجلہ کے ساحل کی طرف چل دیے ایک درویش قلندر آیا اور اس نے ایک عمدہ قصیدہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کی تعریف میں پڑھا جب جامی نےیہ قصیدہ سنا رو پڑے اور سجدے میں پڑے روتے رہے پھر اس کو انعام دیا پھر اس کے بعد کہا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں خالص امامی ہوں لیکن تقیہ واجب ہے اور یہ قصیدہ میرا لکھا ہوا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ وہ قصیدہ اس مرتبہ کو اس نے پہنچایا کہ اس کو اس مقام پر پڑھا گیا ہے پھر خاتون آبادی نے کہا مجھے بعض ثقہ فاضلوں میں سے کسی نے بتایا وہ اس بات کو ثقہ لوگوں سے نقل کرتا ہے وہ بات یہ کہ جامی کے گھر کے تمام افراد خادم بال بچے اور خاندان کے لوگ مذہب امامیہ پر تھے لوگوں نے اس راوی سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ جامی تقیہ کرنے کے متعلق بہت زوردار وصیت کرتے تھے خاص کر جب وہ سفر کا ارادہ کرتے حقیقت حال اور دلوں کی بات کو اللہ بہتر جانتا ہے۔ 

توضیح:

شیخ عباس قُمی نے مذکورہ عبارت میں جامی کا سنی یاشیعہ ہونا اس پر بحث کی شروع میں سنی ہونے کی یہ دلیل دی کہ جامی متعصب سنی اس لیے تھا کہ اس نے قاضی نور اللہ کو برا بھلا کہا تھا اگر شیعہ ہوتا تو اپنے مسلک کے ایک بزرگ کو برا نہ کہتا اور اس کا متعصب سنی ہونا ہی ترکستان اور ماوراء النھر کے لوگوں میں مشہور تھا اور شیخ قمی نے جامی کے شیعہ ہونے کی دلیل یہ دی کہ اس کے بعد اشعار اور عبارات شیعوں کے نظریات سے ملتی جلتی ہیں اور جو کچھ جامی نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دوسرے سنیوں کی تعریف کی وہ تقیہ پر محمول تھی ورنہ حقیقتاً یہ امامی شیعہ تھے اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ خاتون آبادی کے سامنے خود جامی نے امامی شیعہ ہونے کا اقرار کیا اور شیعہ ملنگ سے سنا قصیدہ اپنا بتایا تیسری دلیل یہ کہ ان کے گھر کے اور خود جامی تقیہ کی پرزور تبلیغ کیا کرتے تھے یہ باتیں سند صحیح اور معتبر سے خاتون آبادی نے ذکر کیں۔

نوٹ: شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ نے تحفہ اثنا عشری میں لکھا ہے کہ بہت سے شیعہ اپنے آپ کو سنی کہلا کر اور تصانیف لکھ کر اپنے شیعی مسلک کی تقویت کرتے رہے لہٰذا ایسے سنی نما شیعوں کو اور ان کی کتابوں سے باخبر رہنا چاہیے شاہ صاحبؒ کی اس بات سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ شیخ عباس نے جامی وغیرہ کو جو شیعہ تھے ان کو سنی ثابت کرتے ہوئے ان کی عبارات کو اپنے مسلک کے لیے تائید بنایا ہو تاکہ شیخ عباس قُمی کی عبارات کو دھوکا پر محمول کیا جائے بلکہ اس کے برعکس اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ جامی وغیرہ ہمارے شیعہ ہیں تو تقیہ کرتے ہوئے سنی بنے رہے اس لیے شاہ صاحبؒ کی عبارت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے یعنی اس نے اپنی اس کتاب میں ان سنی نما شیعوں کا تذکرہ کیا جو سنی بن کر سنیوں کو دھوکہ دیتے رہے اور حقیقت میں وہ ان شیعوں کے اپنے آدمی تھے ایسے آدمیوں کا نام ان کی تصانیف کا ذکر الکنی والالقاب میں کیا گیا اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہر مکتبہ فکر والا اپنے ساتھی کو خوب پہچانتا ہے دوسرے تو دھوکہ میں آسکتے ہیں لیکن اپنوں کو تو علم واقعی اور حقیقی ہوتا ہے اور انہیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ کس نے تقیہ کا سہارا لے کر کہاں کہاں وقت گزارا اور تقیہ کرتے ہوئے کون کون سی کتابیں لکھیں اب دیکھیے کہ شیخ عباس قُمی جامی کے بارے میں کیا کہہ را ہے اور کن پردوں کو اٹھا رہا ہے اس نے صاف صاف لکھا کہ ملا باقر مجلسی کے نواسے سے مستند روایات سے ثابت ہے کہ جامی امامی شیعہ تھا اور تقیہ کا خوگر تھا اور اس کے تمام اہلِ خانہ امامی شیعہ تھے وہ بظاہر سنی بنا رہا جو اس کے تقیہ کی واضح علامت ہے تو معلوم ہوا کہ جامی دراصل امامی شیعہ اور تقیہ باز شخص تھا اس لیے اس کی کوئی تحریر ہم اہلِ سنت کے خلاف اور شیعہ اپنے حق میں پیش کر کے اپنا غلط نظریہ ثابت نہیں کر سکتے۔ 

عقائد جامی کے بارہ میں دیوان جامی کی چند عبارات:
دیوان کامل جامی:

و بعضی بر انند کہ مولوی نخست بطریق سنت و جماعت بودہ ودر و اخر عمر مذہب تشیع اختیار نمودہ و قصیدہ ئی کہ ور جتن ورود بہ نجف ور مدح امیر المومنین گفتہ کہ دوبیت آنرا ند کورمی نماید مشاہد ارند اصبحت زارا لک یا شحنۃ النجف بہر نثار مقدم تو نقد جان بکف من بوسم آستانہ قصر جلال تو دردیدہ اشک عذر ز تقصیر ما سلف۔

(دیوان کامل جامی صفحہ 193 بخشش دہم مذہب جامی مطبوعہ ایران) 

ترجمہ: بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جامی ابتدا اہلِ سنت و الجماعت کے طریقہ پر تھے اور آخری عمر میں مذہب تشیع اختیار کیا تھا اور اس پر دلیل جامی کا وہ قصیدہ لاتے ہیں جو انہوں نے نجف میں وارد ہوتے وقت سیدنا علی المرتضیٰؓ کی تعریف میں کہا اس کے دو بیت یہ ہیں "اے نجف کے سردار! میں صبح سویرے آپ کی زیارت کے لیے اپنی جان اپنی ہتھیلی پر لیے آپ پر قربان کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں میں آپ کے روضہ مبارکہ کے آستانہ کو چومتا ہوں اور میری آنکھوں میں گزری عمر کی تقصیر کے عذر کے آنسو ہیں 

(2) دیوان کامل جامی:

(کچھ لوگوں نے جامی کو تقیہ باز شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کی) محمد حسین حسینی خاتون آبادی کہتا ہے کہ جامی کی وہ عبارات جو ان کے ناصبی (اہلِ سنت) ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان کو تقیہ پر محمول کیا جائے گا اور اس حمل کی دلیل وہ پیش کرتا ہے وہ آنکہ حکایت برائے تائید ایں مدعا نقل میکند از قول علی بن عبدالعالی بچند روایت کر دے گوید کہ در سفر نجف بجامی ہمسفر بودم ومن تقیہ کردہ ازروئے عقیدہ خود را پنہاں می اشتم تاداد بغداد شدیم و روز ےساحلش بیروں شدہ برائے تفریح برلب دجلہ نشتے الخ۔

(دیوان کامل جامی صفحہ 194 بخشش دہم) 

ترجمہ:اس مدعا پر جو حکایت نقل کرتے ہیں وہ یہ کہ علی بن عبدالعالی کہتا ہے کہ نجف کے سفر میں جامی کے ساتھ میں بھی شریک تھا اور میں نے اپنا عقیدہ تقیہ کر کے چھپا رکھا تھا حتی کہ ہم بغداد میں داخل ہوئے ایک دن دجلہ کے ساحل کی طرف ہم نکل پڑے الخ 

نوٹ:یہ واقعہ ہم اس سے قبل شیخ عباس قُمی کی کتاب الکنی والا القاب سے نقل کر چکے ہیں۔

 (3) دیوان کامل جامی:

دراوا فر عہد تیموریان آخرین سلطان بزرگ ایں سلسلہ یعنی سلطان حسین بایقر اتما یلی شدید بشیر داشت وہنگام نیز برآں شد کہ آں روتں را پزیرہ شو داتا وزیر بزرگ او میر علی شیر ما نعش گروید بعض پسینیں شاعر نامدار و بزرگ ایں عصر یعنی نور الدین عبدالرحمن جامی نیز متمایل بمذہب شیعہ بود۔

 (دیوان کامل جامی صفحہ 88 بخشش چہارم مذہب و تصوف جامی) 

ترجمہ: تیموری خاندان کے آخری فرماں روا سلطان حسین بایقرا شیعیت کی طرف بہت زیادہ جھکاؤ رکھتا تھا اور حالات بھی اس بات کے قبول کرنے کا تقاضا کرتے تھے لیکن اس کا ایک بڑا وزیر میر علی شیر اس میں اڑے ایثا اس کے بعد ایک مشہور اور بزرگ شاعر نور الدین عبدالرحمن جامی بھی شیعہ مذہب کی طرف میلان رکھتے تھے۔ 

(4) دیوان کامل جامی:

 (جامی کے زمانہ میں صوفیاء اور فقہاء کے درمیان اختلاف زوروں پر تھا اور عقائد کی بے ثباتی کی وجہ سے جامی کی روش یہ تھی گامے ازسر تعصب قتل عام بیدنیاں و نابا وران مذہب را تجویز میکندو گاہے ازدے رندو قلندرانہ از چنگ مذاہب اظہار تنفر کردہ واز سنی وشیعہ ہر دو بد میگوئید اے مغبچہ وہر بہ دہ جام میم کہ آمد نر نزاع سنی و شیعہ بہم گویند کہ جامیاں چہ مذہب داری صد شکر کہ سگ سنی وخر شیعہ نیم۔

 (دیوان کامل جامی صفحہ 89 مذہب و تصوف جامی) 

ترجمہ:کبھی تو وہ تعصب کی بنا پر بے دینوں اور مذہب کو نہ ماننے والوں کے قتل کرنے کو جائز قرار دیتے اور کبھی ازروئے رند و قلندری مذہب کے چنگل سے نفرت کا اظہار کرتے اور شیعہ سنی دونوں کو برا کہتے اے شرابی! مجھے شراب کا پیالہ دے کیونکہ میں شیعہ سنی کے جھگڑے سے بیزار ہو چکا ہوں لوگ پوچھتے ہیں کہ جامی تیرا کون سا مذہب ہے؟ تو وہ جواب دیتے اللہ کا لاکھ شکر کہ میں نہ سنی کا کتا اور نہ شیعہ کا گدھا ہوں۔ 

قارئین کرام! مولانا عبد الرحمن جامی کا مسلک خود ان کی تحریرات سے چونکہ واضح اور صراحتاً ملتا ہے لیکن ان کی عبارت دونوں مکتبہ فکر کے عقائد و نظریات کی حامل ہیں یہی وجہ ہے کہ مولانا جامی کے بارے میں ناقدین نے کسی ایک مسلک پر اتفاق نہیں کیا ان کے عبارت کو دیکھا جائے جن میں انہوں نے خلفائے ثلاثہؓ کے فضائل و بیانات بیان کیے اور خود ان کے سلسلہ بیعت کے معاملہ میں غور کیا جائے تو اہلِ سنت کے بہت بڑے عالم کی صورت میں نظر آتے ہیں ایمان ابی طالب کی بحث بھی اسی کی تائید کرتی ہیں اس صورتحال کے پیش نظر بعض ناقدین نے یہ کہا کہ جامی ابتداء میں سنی اور آخر میں شیعہ ہو گئے تھے اور بعض نے کہا کہ جامی شیعہ تھا سنیوں والی عبارات اس نے ازروئے تقیہ لکھیں بہرحال شیعہ تو تقیہ کر سکتا ہے لیکن سنی کو تقیہ زیب نہیں دیتا اس لیے جامی کی وہ عبارات جو شیعیت پر دلالت کرتی ہیں یا شیعہ عقائد کی تائید میں ملتی ہیں یہ عبارات اگرچہ انہوں نے اپنے دور میں شیعوں کے خوف کے پیش نظر لکھی ہوں اس سے پتہ یہ چلتا ہے کہ جامی عند اللہ تو سنی ہوگا اور اس کے اہلِ سنت ہونے کا احتمال "احتمال بعید" ہوگا لیکن بظاہر کٹر سنی نظر نہیں آتا اس لیے جامی کی کتب مثل شواہد النبوۃ وغیرہ غیر معتبر اور غیر مسلم ہیں ان کی کوئی عبارت ہم اہلِ سنت پر حجت نہیں بن سکتی۔

فاعتبروا يا اولي الابصار

مصنف کی طرف سے علامہ جامی کے بارہ میں ایک تاویل:

 یاد رہے کہ جامی کے بارے میں اس وقت تک جو کچھ آپ نے پڑھ لیا ہے اس بات پر واضح دلیل ہے کہ جامی خالص سنی نہیں ہے لیکن اس کے حالات زندگی بتاتے ہیں کہ اس نے ایک ایسے شہر میں زندگی بسر کی ہے کہ جس کو شیعوں کا شہر قرار دیا جاتا ہے جیسا کہ اعیان الشیعہ میں رات کو شیعوں کا شہر قرار دیا جاتا ہے جیسا کہ اعیان شیعہ میں ہراۃ کو شیعوں کا شہر قرار دیا گیا ہے اس کے پیش نظر یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ شیعوں نے اس کی کتب میں مذکورہ عبارات داخل کر دی ہوں دوسرا اکابرین اہلِ سنت پیر مہر علی مجدد الف ثانیؒ ملا علی قاریؒ وغیرہ نے بڑے اچھے الفاظ سے جامی کا نام لیا ہے یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ مذکورہ عبارات جامی کی نہیں ہیں تو اس صورت میں جامی کی مذکورہ عبارات کی وجہ سے اس کو شیعہ نہیں کہا جا سکتا اس مذکورہ تاویل کی رو سے جامی سنی ثابت ہوا بہر صورت جامی کی کتب سے کوئی شیعہ اپنا مسلک ثابت کرتے ہوئے اہلِ سنت پر حجت قائم نہیں کر سکتا کیونکہ جامی کی کتب میں ایسی عبارات کثیر تعداد میں پائی جاتی ہیں جو اہلِ تشیع کے مسلک کی تائید کرتی ہیں جن کا تفصیلی ذکر آپ پڑھ چکے ہیں جب فرض کر لیا جائے کہ حجت ہی اہلِ تشیع کی مدخولہ ہیں تو اہلِ سنت پر حجت کیسے ہو سکتی ہیں؟

 والله اعلم بالصواب