وحیدالزمان غیر مقلد کی کتب
محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحبوحیدالزمان غیر مقلد کی کتب
شیعہ اور سنی دو متقابل نظریات میں شیعہ لوگ اہلِ سنت میں بریلویوں دیوبندیدں اور غیر مقلدوں (اہلِ حدیث) سبہی کو شمار کرتے اور سنی کہتے ہیں کیونکہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے عقیدت کا دعوٰی اور اس کا اظہار یہ سب لوگ کرتے ہیں دوسری طرف شیعہ وہ ہیں جو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو عموما اور خلفائے ثلاثہؓ کو بالخصوص غاصبین خلافت کہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ انہیں خارج از اسلام گردانتے ہیں شیعوں کا ایک اور گروہ جو تفضیلی شیعہ کہلاتا ہے وہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمر فاروقؓ پر فضیلت کا معتقد ہے جبکہ تمام سنی سیدنا ابو بکر صدیقؓ اور سیدنا عمر بن خطابؓ کی افضلیت کے معتقد ہیں شیعوں کا تیسرا ٹولہ وہ ہے جو سیدنا امیر معاویہؓ کا امیر المومنینؓ اور دوسرے با عزت الفاظ کی بجائے گستاخانہ الفاظ سے نام لیتے ہیں "دشمنان سیدنا امیر معاویہؓ" نامی اپنی تصنیف میں فقیر نے ان گستاخیوں کی فہرست دی جو فوری طور پر سامنے آگئے جب "میزان الکتب" کا مسودہ تیار کر رہا ہوں کہ جس میں اصل موضوع یہ ہے کہ کون کون سی کتب ایسی ہیں جنہیں شیعہ علماء اور مصنفین اہلِ سنت کی معتبر کتاب کے حوالہ سے پیش کرتے ہیں حالانکہ یا تو اہلِ سنت کی کتب ہی نہیں اگر ہیں تو وہ غیر معتبر ہیں اور پختہ اہلِ سنت کے مسلک کے آدمیوں کی تصنیف شدہ نہیں ہیں تو اس سلسلہ میں کچھ سنی اور دیوبندی مصنفین کا ذکر ہوا لہٰذا مناسب سمجھا کہ وحید الزمان غیر مقلد کا بھی کچھ ذکر ہو جائے کیونکہ شیعہ لوگ اسے بھی سنی کہتے اور سمجھتے ہیں اور اس تعلق کی بنا پر اس کی بعض عبارات اپنے مسلک کی تائید میں پیش کر کے ہم پر حجت قائم کرتے ہیں لہٰذا اس کی اپنی عبارات سے ہم بتانا چاہتے ہیں کہ یہ شخص غیر مقلدیت کے روپ اور اہلِ حدیث کے بہروپ میں شیعہ تھا اس امر کی وضاحت وحید الزمان کے سوانح نگار مولوی عبد الحلیم سے سنیئے اس نے وحیدالزمان نامی کتاب تصنیف کی۔
وحید الزمان:
اس مسئلہ میں قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے کہ سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ دونوں میں کون افضل ہے لیکن شیخینؓ کو اکثر اہلِ سنت سیدنا علیؓ سے افضل کہتے ہیں اور مجھ کو اس امر پر بھی کوئی دلیل قطعی نہیں ملتی نہ یہ مسئلہ کچھ اصول اور ارکان دین سے ہے زبردستی اس کو متکلمین نے عقائد میں داخل کر دیا ہے ایک اور مقام پر لکھتے ہیں سیدنا علیؓ اپنے تائیں سب سے زیادہ خلافت کا مستحق سمجھے تھے اور ہے بھی یہی آپ بلحاظ قرابت قریبہ اور فضیلت اور شجاعت کے سب سے زیادہ پیغمبر کی قائم مقامی کے مستحق تھے مگر چونکہ آنحضرتﷺ نے کوئی صاف و صریح نص خلافت کے باب میں وفات کے وقت نہیں فرمائی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی رائے اور مشورو سے بلحاظ مصلحت وقت سیدنا ابو بکرصدیقؓ کو خلیفہ بنا لیا آپ صبر کرکے خاموش ہو رہے اگر اس وقت تلوار نکالتے اور مقابلہ کرتے تو دین اسلام مٹ جاتا اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ پہلے سیدنا ابوبکرؓ خلیفہ ہوں پھر سیدنا عمرؓ پھر سیدنا عثمانؓ اور پھر سیدنا علیؓ اس میں یہ حکمت تھی کہ چاروں کو خلافت کی فضیلت مل جائے اگر سیدنا امیر معاویہؓ پہلے پہل خلیفہ ہو جاتے تو یہ تینوں حضرات اس فضیلت سے محروم رہتے ایک مقام پر سیدنا امیر معاویہؓ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں بھلا ان پاک نفسوں پر سیدنا امیر معاویہؓ کا قیاس کیونکر ہو سکتا ہے جو نہ مہاجرین میں سے نہ انصار میں سے نہ انہوں نے حضرت محمدﷺ کی کوئی خدمت اور جاں نثاری کی بلکہ آپ سے لڑتے رہے اور فتح مکہ کے دن ڈر کے مارے مسلمان ہو گئے پھر آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد سیدنا عثمانؓ کو یہ رائے دی کہ سیدنا علی اور سیدنا طلحہؓ اور سیدنا زبیرؓ کو قتل کر ڈالیں آگے لکھتے ہیں ایک سچے مسلمان کا جس میں ایک ذرہ برابر بھی پیغمبر صاحب کی محبت ہو دل یہ گوارا کرے گا کہ وہ سیدنا معاویہؓ کی تعریف اور توصیف کرے البتہ ہم اہلِ سنت کا یہ طریق ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سکوت کرتے ہیں اس لیے سیدنا معاویہؓ سے بھی سکوت کرنا ہمارا مذہب ہے اور یہی اصلاً اور قرین قیاس ہے مگر ان کی نسبت کلمات تعظیم مثل سیدنا معاویہؓ کہنا سخت دلیری اور بے باکی ہے اللہ محفوظ رکھے
(حیات وحید الزمان صفحہ 103 تا 109 مطبوعہ نور محمد آرام باغ کراچی پاکستان)
توضیح :
وحید الزمان غیر مقلد کے نظریات آپ نے پڑھے جن میں سے بعض کے پیش نظر وہ تفضیلی شیعہ نظر آتا ہے اور بعض سے وہ رافضی شیعہ دکھائی دیتا ہے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی افضلیت پر اس عقل و خرد کے اندھے کو کوئی دلیل نظر نہ آئی سب باتوں کو چھوڑئیے حدیث پاک "مروا ابابكرؓ فليصل بالناس" سیدناصدیق اکبرؓ کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اہلِ حدیث کہلانے کے باوجود یہ حدیث نظر نہ آئی اس وقت سیدنا علی المرتضیٰؓ وغیرہ موجود تھے جب حضورﷺ نےیہ ارشاد فرمایا تھا اس سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی افضلیت ثابت نہیں ہوتی تو اور کیا ثابت ہوتا ہے؟ رہا زبردستی متکلمین کا اس بات کو عقائد میں لانا اس سے بھی وحید الزمان کی شیعیت ٹپکتی ہے اکابرین اہلِ سنت اور مجددالف ثانیؓ وغیرہ حضرات نے سیدنا ابوبکرصدیقؓ کی افضلیت کو اجماعی مسئلہ قرار دیا اور اجماع بھی ان دلائل میں سے ایک ہے جو قطعی ہوتے ہیں خاص کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع وہ تو یقینا بالاتفاق قطعی ہے اس کے خلاف وحید الزمان سیدنا علی المرتضیٰؓ کو حقدار خلافت کہتا ہے اور اس کی نسبت خود سیدنا علی المرتضیٰؓ کی طرف کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے زیادہ حقدار خلافت سمجھتے تھے اور حقیقت بھی یہی ہے یہ بھی اس کے رفض کی دلیل ہے صواعق محرقہ صفحہ 60 مطبوعہ قاہرہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے کا ایک قول منقول ہے فرمایا جو مجھے سیدنا ابوبکر صدیقؓ پر فضیلت دیے میں اس مفتری کو بطور سزا کوڑے ماروں گا سیدنا امیر معاویہؓ کے بارے میں وہ گھٹیا زبان استعمال کی جو رافضی بھی نہ کر سکے وہ الزام دھرا جو ان کے بڑے سے بڑا دشمن بھی نہ دے سکا یعنی سیدنا عثمانؓ کو انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ سیدنا علیؓ سیدنا طلحہؓ اور سیدنا زبیرؓ کو قتل کرا دو اس قدر عظیم بہتان آج تک میری نظروں سے کیسی مکتبہ فکر کی کتاب میں نہیں گزار بہرحال دعوائے تو نہیں لیکن اپنے مطالعہ کی بنا پر یہ کہ رہا ہوں میں نے اگلے پچھلے شعیوں کے تمام اعتراضات کا تفصیلی مطالعہ کر کے ان کے جوابات لکھے جو تقریباً ستر مجلدات پر مشتمل ہیں یہ اعتراض آج تک کسی رافضی کو بھی نہیں سوجھا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رافضیوں سے بھی وحید الزمان بڑا رافضی ہے وحید الزمان اور اس کے چیلے چانٹوں کو میں چیلنج کرتا ہوں پر کسی ایک صحیح سند روایت کے ساتھ اس الزام کو ثابت کر دکھائیں اور ایک لاکھ انعام پائیں اگرچہ اس عبارت سے وحید الزمان کے چیلوں کو بہت تکلیف ہو گی لیکن میں انہیں خدا اور سولﷺ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جبکہ تمہارا دعوٰی ہے کہ ہم قرآن و حدیث کو ہی مانتے ہیں اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو عادل سمجھتے ہیں تو پھر وحید الزمان کی پیروی میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دشمنوں میں کیوں داخل ہو رہے ہیں؟ اگر کوئی مسند صحیح روایت لی جائے تو بے شک رافضیوں میں شامل ہو جائیں اور اگر نہ مل سکے توکم از کم اتنا تو تسلیم کریں کہ وحید الزمان کا مذکورہ عقیدہ اہلِ سنت کا عقیدہ نہیں ہے پھر لکھا کہ سیدنا امیر معاویہؓ نے حضورﷺ کی نہ کوئی خدمت کی نہ مہاجر تھے نہ انصار اور نہ ہی کوئی خوبی ان میں تھی وحید الزمان کو یہ بھی نظر نہ آیا کہ سیدنا امیر معاویہؓ کاتبانِ وحی میں سے ہیں یہ خوبی نہیں ہے؟ میری کتاب دشمنان سیدنا امیر معاویہؓ کا علمی محاسبہ میں آپ پڑھیں گئے کہ حضورﷺ نے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے مختلف دعائیں مانگیں ان کے ہاری اور مہدی ہونے کو دعا فرمائی انہیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کا بہت بڑا امین کہا جاتا تھا کیا یہ خوبیاں نہیں ہیں لیکن تعصب و رفض کا پردہ اٹھا کر دیکھا جاتا تو یہ خوبیاں روز روشن کی طرح نظر آتیں آخر میں جو وحید الزمان نے سیدنا امیر معاویہؓ کے متعلق اچھے اچھے الفاظ مثلاً حضرت امیر المومنینؓ لکھنے کو بہت بڑی دلیری کہا ہے یعنی خدا اور اس کے رسولﷺ سے مقابلہ کرنا ہے یہ عبارت اور عقیدہ بھی وحید الزمان کے کٹر شیعہ ہونے کا ثبوت ہے اہلِ سنت و الجماعت کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں عنقریب اہلِ سنت کا عقیدہ آپ ملاحظہ فرمائیں گے سیدنا امیر معاویہؓ کے صحابی ہونے میں کسی کو بھی شک نہیں یہ اگر چہ فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ نے دونوں فریق (فتح مکہ سے پہلے اسلام لانے والے اور اس دن یا اس کے بعد ایمان لانے والے) کے ساتھ بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے برابر نہیں وہ لوگ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل ایمان قبول کیا اور اللہ کے راستہ میں خرچ کیا یہ لوگ ان لوگوں سے مرتبہ میں بڑھے ہوئے ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرما لیا ہے؟
(سورہ حدید آیت نمبر10)
سیدنا امیر معاویہؓ نے قبول ایمان کے بعد بہت سے معرکوں میں شرکت فرمائی اسلام کو پھیلایا غریبوں کی خدمت کی کیا مذکورہ آیت کریمہ کے مطابق سیدنا امیر معاویہؓ کے بارے میں بھلائی کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یا نہیں؟ اگر ان پر وعدہ صادق آتا ہے تو پھر ان کے حق میں اور ان کے اسم گرامی کے ساتھ حضرت، رضی اللہ عنہ وغیرہ الفاظ لکھنے دراصل وعدہ خداوندی کا مظہر ہے اور اسے "بہت بڑی دلیری،، کہنا خود بہت بڑی دلیری ہے جو کم از کم ایک مسلمان سے متوقع نہیں ہو سکتی اب ہم ایک عبارت ذیل میں درج کر رہے ہیں جو صحابہ کرام رضوسن اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اہلِ سنت کے عقیدہ کی ترجمان ہے۔
الكفاية في علم الرواية:
عَنْ أَنس بنْ مَالِكؓ قَالَ قَالَ رَسُولَ اللهِﷺ ان الله تعالىٰ إِخْتَارَني وَاخْتَارَ اصْحَابِي فَجَعَلَهُمْ أَصْحَاري وَجَلَهھم أَنْصَارِيُّ وَأَنَّهُ سَيَجِیئ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمُ يَنْقُصُونَهُمُ الأَ فَلَاتُنَاكِحُوهُم أَلَا فَلاتناكحوا إِلَيْهِمُ الَا فَلَا تُصَلُّوا مَعَهُمُ الَا فَلَاتُصَلُّوا عَلَيْهِمْ حلت اللعنة وَالأَخْبَارُ فِي هَذَا الْمَعَنَى تَتَّبِعُ وَ كُلَّهَا مُطَابِقَةً لِمَا وَرَدَ فِي نَص الْقُرْآنِ وَجَمِيعَ ذَالِكَ يَقْتَضِى طَهَارَةُ الصِّحَابِةِ وَالقَطعَ عَلَى تَقْدِيلُهُمْ وَنَزَاهَتِهِمْ فَلَا يُحْتَاجُ أَحَدٌ مِنْهُمْ بَعْدُ ما تعديل الله تعالىٰ المَطْلُعُ عَلَى بَوَاطِنِهِم إِلى تَعْدِيد أَحَدٍ مِنَ الْخَلْقِ لَهُ فَهُوَ عَلَى هُذِهِ الصَّفَةِ إِلَّا أَنْ يَثْبَتَ عَلَى أَحَدٍ إِرْتِكَابِ مَا لَا يَحْتَمِلُ إِلَّا قَصُدَ المَعْصَيَّةِ وَالْخَرُوجِ مِنْ بَابِ التَّأْوِيلِ فَيَحكُم سَقُوطُ الْعَدَالَةٍ وَقَدْ بَرَأهُمُ اللَّهُ مِنْ ذَالِكَ وَرَفَعَ أَقْدَارَهُمْ عَنْهُ عَلَى أَنَّهُ لَوْلَم يَرِد مِنَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُولِهِ مِنْهُمْ شَى مِمَّا ذَكَرنَاهُ لَا وَجَبَتِ الْحَالُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا مِنَ الهَجْرَةِ وَالْجَهَادِ وَالنُّصْرَةِ وَبَذَلَ المهج والاموَالَ وَقَتُلَ الآبَاءِ وَالاولاد و المناصحة فِي الدِّينِ وَقُوةِ الْإِيمَانِ وَالْيَقِينِ القطع عَلَى عدالتهم والاعْتِقَادِ لِنَزَاهَتِهِمْ وَإِنَّهُم أَفْضَلَ مِنْ جَمِيعِ المُعدَّلِينَ وَالْمُزَكِّينَ الَّذِينَ يَجِيئونَ بَعدَهُمْ أَبَدًا الَّآ بِدِينَ هَذَا مَذْهَبَ كَافَةُ الْعُلَمَاءِ وَ مَنْ يَعْتَقِدُ بِقَوْلِهِ مِنَ الْفُقَهَا اَخْبَرَنَا أَبُو مَنْصُورَ محمد بن عينى الهمداني حدثنا صالح بن احمد الحافظ قالَ سَمِعْتَ أبا جعفر احمد بن عبدل يَقُولُ سَمِعْتُ احمد بن محمد بن سليمان التسترى يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا ذُرْعَه يَقُولُ إِذَا رَأَيْتَ الرَّجُلَ يَنْقَضَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِﷺ فَاعْلَمْ أَنَّہ زنَديقٌ وَذَالِكَ أَنَّ الرَّسُول اللهﷺ عِندَنا حق والقرآن حق وإنما ادى الينا هذا القرآن والسنن اصحاب رسول اللهﷺ وَإِنَّمَا يُرِيدُون ان يخرجوا شُهُودَنَا لِيَبْطِلُوا الكِتَابَ وَالسُّنَّةَ وَالْجَرْحُ بِهِمْ أَوْلَى وَهُمْ زَنَادِقِةٌ۔
( كتاب الكفايه في علم الرواية صفحہ 48 ۔ 49 باب ما جاء في تعديل الله ورسوله للصحابة مطبوعة علميه مدينه منوره)
ترجمہ: سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا تحقیق اللہ تعالیٰ نے مجھے پسند فرمایا اور میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پسند فرمایا انہیں میرے سسر بنایا اور میرا مددگار بنایا عنقریب زمانہ آئے گا کہ کچھ لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان کی تنقیص کریں گے خبردار تم ان لوگوں سے نکاح کرنا نہ انہیں نکاح دینا خبردار ! ان سے میل ملاپ نہ رکھنا ان کی نمازجنازہ نہ پڑھنا ان پر لغت ہے احادیث اس بارے میں بہت ہیں اور سب کی سب قرآن کریم کے مضمون کے مطابق ہیں یہ تمام روایات و احادیث اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سبھی پاکیزہ شخصیات تھیں اور ان کی عدالت یقینی تھی اور وہ ہر برائی سے دور رہنے والے تھے ان میں سے کوئی صحابی اللہ تعالیٰ کے انہیں عادل کہنے کے بعد کسی اور کی طرف سے عدالت کے اثبات کے محتاج نہیں رہے کیونکہ وہ ان کے باطن سے واقف ہے لہٰذا تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنائی گئی عدالت پر فائز ہیں ہاں اگر ان میں سے کسی سے یہ ثابت ہو جائے کہ اس سے ایسی حرکت سرزد ہوئی ہے جس نے انہیں اس صفت سے محروم کر دیا اور ان کی عدالت ختم ہو گئی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بری فرمایا ان کے مراتب بلند فرمائے علاوہ ازیں اگر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے مذکورہ صفت کے بارے میں کچھ بھی وارد نہ ہوتا تو پھر بھی ان کی ہجرت جہاد نصرت مال خرچ کرنا اپنے باپ اور اولاد کو خدا و رسولﷺ کے مقابل مار ڈالنا ایمان کی قوت اور یقین یہ سب باتیں ان میں ثبوت عدالت کے لیے کافی تھیں اور ان کے پاکیزہ ہونے کے عقیدہ کے لیے بہت تھیں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے بعد آنے والے تمام مزکین اور معدلین سے کہیں زیادہ افضل تھے یہ مذہب تمام علماء کرام کا ہے ہمیں ابو منصور محمد بن عیسیٰ ہمدانی نے خبر دی ہمیں صالح بن احمد حافظ نے بتایا وہ کہتے ہیں میں نے ابوجعفر احمد بن عبدل سے سنا وہ کہتے تھے میں نے احمد بن محمد بن سلیمان تستری سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے جناب ابو زرعہ کو کہتے سنا فرمایا جب تو کسی شخص کو کسی صحابی رسولﷺ کی شان میں نقص بیان کرتے دیکھے تو اسے زندیق یعنی بے دین جاننا یہ اس لیے کہ رسولﷺ ہمارے نزدیک حق ہیں قرآن حق ہے یہ قرآن اور آپ کی سنتیں ہم تک پہنچانے والے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں یہ بہتان تراش لوگ ان پر جرح کر کے یہ چاہتے ہیں کہ کتاب و سنت کو باطل کر دیں اس کے مقابلہ میں خود ان لوگوں کو مجروح قرار دینا بہتر ہے کیونکہ وہ بے دین ہیں۔
کفایۃ فی علم الروایۃ کے مذکورہ حوالہ سے درج ذیل امور ثابت ہوئے۔
1 - اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو چن لیا ہے۔
2- بعض صحابہ کرام کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپﷺ کے سسرال بنے جیسا کہ سیدنا ابو بکرصدیقؓ سیدنا عمر بن خطابؓ اور سیدنا سفیانؓ۔
3_ ان کی اولاد کو حضورﷺ کے سالے بنایا مثلاً سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سیدنا عبد الرحمن بن ابی بکرؓ اور سیدنا امیر معاویہ بن سفیانؓ۔
4_ کچھ لنعتی لوگ پیدا ہوں گے جو صحا بہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان گھٹائیں گے خبردار ! ان سے نکاح نہ کرنا نہ ان سے میل ملاپ رکھنا نہ ان کی نماز جنازہ ه پڑھنا۔
5_ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جب اللہ تعالیٰ نے عادل فرمایا تو اس کے بعد وہ کسی سے عادل ہونے کا فیصلہ لینے محتاج نہیں۔
6_ ان کی عدالت اسی صورت میں ختم ہو سکتی ہے جبکہ ان سے کوئی ایسا فعل سرزد عدالت کو ختم کر دیتا ہو لیکن ان سے ایسا فعل سرزد نہیں ہوا ۔
7_ بقول ابوزرعہ حضورﷺ کے کسی صحابیؓ کی تنقیصِ شان کرنے والا زندیق ہے ایسے زندیق کا مقصد صحابی کی گستاخی کرنا نہیں بلکہ مسمانوں کا قرآن وسنت سے اعتبار اٹھا دینا ہے کیونکہ یہ چیزیں ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ ہم تک پہنچیں ہے ان امور کے پیش نظر وحید الزمان کی خرافات کو دیکھیں سیدنا امیر معاویہؓ کے بارے میں جو کچھ اس نے کہا جناب ابوزرعہ کے فتوٰی کے مطابق وہ بے دین اور زندیق ہو گیا صحابی ہونا ہی ایک ایسی فضیلت ہے جس کے سامنے دیگر فضائل کم نظر آتے ہیں مجدد الف ثانیؓ فرماتے ہیں کے ادنی درجہ کے صحابی سیدنا وحشیؓ وہ مقام رکھتے ہیں کہ ان کے مقام و مرتبہ کو اویس قرنی ایسے بزرگ بھی نہیں پہنچ پاتے امر تعالی ہمیں صحیح عقیدت عطا فرمائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی گستاخی سے بچائے رکھے۔
فاعتبروا يا اولى الابصار