Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعت کی تخریب کاریاں تاریخ کے آئینہ میں

  ابو عبداللہ

شیعت کی تخریب کاریاں تاریخ کے آئینہ میں

اسلام کی پوری تاریخ کا مطالعہ کر لیں خلافتِ راشدہ ہو خلافتِ بنو اُمیہ ہو یا خلافتِ عباسیہ اور دورِ خلافت عثمانیہ ہو یا تاریخ بر صغیر اسلام کی پوری تاریخ میں ان شیعہ رافضیوں کی فتنہ انگیزی ظلم و شقاوت اور بلیک میلنگ واضح نظر آئے گی اگر ہم ان کی تفصیل لکھنے بیٹھ جائیں تو بہت سے دفاتر بھی کم پڑ جائیں گے اس لئے مختصراً چند تاریخی حقائق بیان کیئے دیتے ہیں عہدِ بنواُمیہ میں تو اس فتنہ کی دانست میں حادثہ کر بلا اور فتنہ مختار ثقفی ہی اس کے بہت بڑے کارنامے ہیں مگر اس کے بعد بھی اس فتنہ نے زیرِ زمین کام جاری رکھا اور عربوں میں باہمی تعصب پیدا کر کے دولت بنواُمیہ کی جڑیں کھوکھلی کر دیں اور شاہ ایران کے بھی نمک خوار ابو مسلم خراسانی نے نہ صرف ہزاروں عربوں کو تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا بلکہ بنواُمیہ کی گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا دے کر خلافتِ عباسیہ کا محسن بن بیٹھا اس نے اپنے اثر و رسوخ کی بدولت حادثہ کربلا کو آڑ بنا کر ایران میں ایک بھی عربی کو سلامت نہ چھوڑا ابو مسلم خراسانی کے بعد اور بھی چھوٹے بڑے بہت سے فتنے اٹھتے رہے مگر کوئی فتنہ آلِ برمک سے زیادہ شدید نہ تھا، چونکہ یہ بھی آتش کدہ ایران کے فرزند تھے اس لئے بڑے ساحرانہ انداز میں خلافتِ عباسیہ کو بلیک میل کر کے پورے اسلامی معاشرے کو ایرانی مجوسی رنگ میں رنگنے کے لئے زندیقیت کو فروغ دیا اور خلافتِ عباسیہ کو ختم کرنے کی کوشش کی اس کے لئے انہوں نے اپنے تمام وسائل اور اختیارات کو استعمال کیا تا کہ اسلامی ثقافت اور عقائد کی عمارت زمین بوس ہو جائے مگر ابو مسلم خراسانی کی طرح آلِ برمک بھی اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوئے آلِ برمک کے بعد بھی اس فتنہ پرور گروہ نے خلافتِ عباسیہ کو اپنی تلبیسانہ کاوشوں سے کبھی تو شیعی اور کبھی معتزلی فلسفہ کی طرف راغب کرنا چاہا مگر مستقل کامیابی نہ ملنے کی صورت میں کھلی دہشت گردی کے ذریعے بویہہ خاندان نے نئے خلیفہ کو یرغمال بنالیا یہ لوگ نسلاً ایرانی اور ذات کے ماہی گیر تھے آتش انتقام انہیں وراثت میں ایران سے ملی تھی اسی لئے یہ لوگ انتہائی متعصب شیعہ تھے اور ان کا تقریبا سوا سو سالہ دورِ اقتدار ظلم و بربریت کی تاریخ ہے انہوں نے بغداد میں لاکھوں سنیوں کو قتل کیا اور یومِ عاشورہ بزور جبر تمام کاروبار بند کر کے مسلح ماتمی اور تبرائی جلوس نکالنے اور عیدِ غدیر جیسی بد نام زمانہ مجوسی رسوم مسلط کرنے کی کوششیں کیں یہی دور تھا جب شیعی عقائد کی پہلی کتاب اصول کافی، شیعہ فقہ کی پہلی کتاب فروغ کافی اور آئمہ کی تاریخ اور مواعظ پر پہلی کتاب روضة الکافی مشہور شیعہ عالم ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی نے لکھیں۔

یہی وہ فسادی تھے جنہوں نے ایک ایرانی مجوسی لوہار کے لڑکے کو اپنی شعبدہ بازی کے ذریعے فاطمی بنا کر خلافتِ عباسیہ کے مقابل ابو محمد عبید اللہ المہدی سے لیکر العاضد لدین اللہ تک تقریباً پونے تین سو سال تک عبیدی حکومت قائم کی اس حکومت کی چیرہ دستیوں اور تعصب کی وجہ سے لاکھوں مسلمان شہید کئے گئے کتنے ہی مسلمانوں کو بزور جبر شیعہ بنا گیا اس حکومت کے اسلام دشمن رویہ کی وجہ سے عیسائیوں کو صلیبی جنگوں کا حوصلہ ہوا انہیں کی شہ سے عیسائیوں نے 494ھجری میں بیت المقدس میں ہزاروں مسلمانوں کو ذبح کیا یہی وہ منحوس حکومت تھی جس نے اپنے سر خلافت کا خود ساختہ تاج پہن کر عیسائیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اسلام کی شکل بگاڑنے اور نظامِ خلافت کی مرکزیت ختم کرنے کی بھر پور کوششیں کیں اسی نے شام کے رشید الدین سنسان اور فاطمین مصر نے صلاح الدین ایوبیؒ کے مقابلے میں ہمیشہ عیسائیوں کی مدد کی ۔ عباسی دور کو وہ دلخراش منظر بھی دیکھنا پڑا جب لا تعداد مسلمانوں کا قاتل بد باطن ابو طاہر قرمطی14ذالحجہ 317ھجری کو بہت سے حجاج کو شہید کر کے حجرا اسود اکھاڑ کر لے گیا اور 4 دن کم بائیس سال بعد 10محرم 339ھجری کو بوجہ مجبوری واپس کیا اور بعض روایات کے مطابق تیس ہزار دینار کے عوض واپس کیا اسی ہی خلافتِ عباسیہ کے آخری دور میں ایک ایسا شیعی فتنہ پیدا ہوا جس کی مثال پوری تاریخ اسلام میں نہیں مل سکتی یہ فتنہ ایران کے شہر رے کا مجوسی النسل حسن بن صباح تھا اس نے بہت سے شیعوں کو اکھٹا کر کے اپنا طاقتور گروہ بنایا تھا۔ 

اس نے سازشوں، فریب اور دہشت گردی سے چھوٹے بڑے بہت سے قلعوں اور قلعه الموت پر قبضہ کر کے حکومت کے اندر اپنی الگ حکومت قائم کی اور قلعہ الموت میں خود ساخته جنت بنائی اس نے تاریخ میں ظلم و بربریت کی وہ داستانیں چھوڑیں ہیں جنہیں یاد کر کے آج بھی تاریخ لرز جاتی ہے جو اس کے پیر و فدائی کہلاتے ہیں انہوں نے مسلمانوں کے ناقابلِ فراموش قائدین اور عظیم روحانی ہستیوں کو قتل کیا اور صلاح الدین ایوبیؒ اور امام فخر الدین رازیؒ کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی مگر بفضلِ خدا کامیاب نہ ہو سکے صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے اعلانیہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے مقابلےمیں عیسائیوں کی مدد کی یہ فتنہ ایک طویل مدت تک مسلمانوں کے لئے بلائے بے درماں بنا رہا غرضیکہ ان کوفی اشرار نے اہلبیتِ اطہار کو آڑ بنا کر کبھی تو زیرِ زمین سازشوں، بلیک میلنگ کہیں یرغمال بنا کر اور کبھی دہشت گردی کے ذریعے اور کبھی جعلی فاطمیوں کے سر خود ساخته خلافت کا تاج منڈھ کر رافضی حکومت قائم کرنے اور خلافت کی مرکزیت ختم کرنے کی بہت کی ناکام کوششیں کیں بالاخر خلافتِ عباسیہ کو کھوکھلا کر کے عباسی خلیفہ کے بد نام زمانہ شیعہ وزیر ابنِ علقمی نے ہلاکو خان کے مشہور اسلام دشمن وزیر خواجہ نصیر الدین طوسی سے ساز باز کر کے عروس البلاد بغداد کو تاتاریوں کے حوالے کر دیا تاتاریوں نے نہ صرف خلیفہ کے پورے خاندان کو ہلاک کر دیا بلکہ عظیم الشان شہر کو ایک کروڑ سے زائد مسلمانوں کا قبرستان بنا دیا جس میں جگہ جگہ لاکھوں مسلمانوں کی کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے اور صدیوں کے علمی سرمائے نے دریائے دجلہ کو ہفتوں سیاہ رکھا اسی قیامت صغریٰ میں خواجہ نصیر الدین طوسی ملعون کی بدولت صرف شیعوں کے محلے محفوظ رہے اور اس ملعون کے متعلق رہبر رافضی انقلاب خمینی اپنی کتاب الحکومت اسلامیہ کے صفحہ 46 پر بڑی ڈھٹائی سے رقمطراز ہے:

نصیر الدین کا تاتاریوں سے اشتراک اور ان کی خدمت اگر چہ بظاہر استعمار کی خدمت نظر آتی ہے مگر در حقیقت وہ اسلام اور مسلمانوں کی مدد تھی۔

مدد کے اس ہی منافقانہ فلسفہ کے تحت:

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے خلاف مصر کے جعلی فاطمین اور شام کے رشید الدین سنان نے عیسائیوں کی مدد کی۔

سلطان محمود غزنوی کے خلاف ملتان کے ابوالفتح رافضی نے ہندو راجہ جے پال کی مدد کی۔

 بر صغیر میں باقاعدہ پہلی اسلامی سلطنت کے بانی سلطان شہاب الدین غوری کو شہید کیا۔ 

 اسلام کے عظیم سپوت شاہان سلجوق کی راہ میں ہمیشہ انہوں نے کانٹے بچھائے اور شاہان سلجوق کو شہید اور مفلوج کیا۔

ترکی کے عثمانی خلفاء اسلام جب بھی یورپ پر اسلام کا پرچم لہرانے نکلے تو لاکھوں سنیوں کے قاتل اور جبراً شیعہ بنانے والے صفوی شیطانوں نے ہی ان کی پیٹھ پر وار کیا۔

ایران کی اسلام دشمنی کی ایک ایسی ہی مثال ہمیں تاریخ برصغیر میں اس وقت نظر آتی ہے کہ جب 1797ء میں سلطان ٹیپو کی فرمائش پر بادشاہ افغانستان احمد شاہ ابدالیؒ کے پوتے شاہ زمان شاہ نے اپنی فوجیں سلطان کی مدد کے لئے روانہ کیں جو لاہور پہنچ چکیں تو احمد آباد ( انڈیا ) کے ایک شیعہ عالم مہدی علی کی خواہش پر ایران کے مجوسی النسل صفوی شیطانوں نے افغانستان پر حملہ کر دیا جس کی وجہ سے ٹیپو تنہا رہ گیا اور اس کے بعد میر صادق شیعہ نے نمک حرامی کی وہی تاریخ دہرائی جو اس کے ہم عصر میر جعفر شیعہ نے انگریز سے ملکر سراج الدولہ سے غداری کر کے دہرائی تھی جس سے انگریز حکومت انتہائی مضبوط ہو گئی اور اس کے بعد بھی سامراج کے ان ایجنٹوں نے عیسائی سامراج سے بہت وفاداری کی مگر کی نوابی سے ذیادہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا اور اودھ میں انہوں نے اہلِ سنت کے ساتھ وہی برتا ؤ روا رکھا جو مجوسی النسل فاطمین مصر نے مسلمانوں کے ساتھ رکھا تھا مگر اس دور میں بھی جماعت مواحدین ہی تھی جس نے سامراج کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور مواحدین کا وقار قائم رکھا۔ یہ تو تاریخ اسلام کی ہلکی سی جھلک ہے موجودہ دور میں اس کا تسلسل مملکت کو دولخت کرنے والے عیاش شیعہ حکمران یحییٰ سنیوں کے ملک کے شام میں مسلم کش سفاک شیعه حکم ان حافظ الاسد لبنان کی مسلم کش شیعہ امل ملیشیاء اور خانہ کعبہ پر حملہ کرنے والے خمینی ملعون اور اعلیٰ عہدوں پر فائز شیعوں میں بھرے ہوئے تعصب کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ ہر سال نظم مملکت درہم برہم کر کے اور پورا شہری نظام مفلوج کر کے چھری چاقوں سے مسلح ہو کر نکلنے والے جلوسوں سے یہ دہشت گرد اپنے تخریبی عزائم کی جس طرح تجدید کرتے ہیں اس کی مثال ایران میں بھی نہیں مل سکتی۔

ان خون آشام چمگادڑوں کی فریب کاریوں کے شکار اتحاد بین المسلمین کے ڈھنڈر وچیوں ٹھنڈے دماغ سے سوچو انہوں نے کیا کیا گل نہیں کھلائے سیّدنا فاروقِ اعظمؓ کا قاتل جن کا ہیرو ہو جن کے ہاتھ سیدنا عثمان غنیؓ و سیّدنا علیؓ کے خون سے رنگین ہوں، جن کے دامن پر شہداء کربلا کے خون کے چھینٹے ہوں، جن کی تلواریں لا تعداد مسلمانوں کا خون پی کر بھی پیاسی ہوں، جو ہر دور میں اسلامی اقتدار کے لئے وبال جان بنے رہے جنہوں نے کبھی تاتاری اور کبھی نصرانی اقتدار کی پالکیوں کو کندھا دیا۔

شر جن کے شریر پر فخر کر کے اسلام کی نفی جن کا عقیدہ ہو تخریب اسلام جن کے لئے راحت ہو، بغض، کینہ حسد و انتقام جن کا سرمایہ ہوان کے ساتھ اتحاد کا راگ الاپنے والوں اگر تمہارے دل میں ایمان کی ذرا بھی رمق موجود ہو تو ذرا سوچوان کے ساتھ دوستی کہیں اسلام کی دشمنی تو نہیں؟