توہینِ باری تعالیٰ
ابو عبداللہتوہینِ باری تعالیٰ
حضرات اہلِ سنت کا بنیادی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شرک سے پاک اور ہر نقص سے پاک ہے اور اس کے شریک ٹھہرانے والے اور کسی نقص کو اس کے ساتھ شامل کرنے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں جب کہ اس کی برخلاف حضراتِ شیعہ کا عقیدہ ملاحظہ فرمائیں
کلینی ائمہ کی روایت زرارہ کے ذریعے تحریر کرتا ہے:
قال ما عبد اللہ بشئ مثل البداء
امام فرماتے ہیں اللہ کی عبادت کسی عبادت سے ایسی نہیں ہوتی ہے جیسی بداء کے عقیدے سے۔
(اصول کافی جلد1 صفحہ 142)
یہ عقیدہ بداء ہے کیا؟ اس کے متعلق شیعہ مؤلف اپنی کتاب اعلام الہدیٰ فی تحقیق البداء میں رقمطراز ہے:
کلام الطبرسی وھو ان معنی قولنا بداله تعالیٰ ان ظھر له من الامر ما لم يكن ظاهرالى خر ما نقر۔
طبرسی کا کلام بھی اس طرف تائید اشارہ کرتا ہےاور کہتا ہے کہ ہمارے اسی قول بدالہ تعالیٰ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے لیے کسی معاملے میں وہ بات ظاہر ہو گئی جو پہلے ظاہر نہ تھی۔
(بحوالہ تحفہ اثناء عشریہ اردو صفحہ287)
غرض یہ کہ عقیدے بداء کا مطلب ہے کہ اللہ معاذ اللہ بھول جاتا ہے اور اس کا علم نامکمل ہے اسی کے لیے کلینی رقم طراز ہے :
ما عظم اللہ بمثل البداء
یعنی کہ عقیدے بداء سے زیادہ اللہ کی تعظیم کسی چیز سے نہیں ہوتی۔
(اصول کافی جلد1صفحہ143)
اور ایک جگہ مزید رقم طراز ہیں کہ :
یقول ما بعثت اللہ نبیاقط الا بتحریم ان خمر وان یقر لله بالبداء
اللہ نے نبی صرف شراب کو حلال کرنے کے لیے اور بداء کا اقرار کرنے کے لیے بھیجے۔
( اصول کافی جلد1صفحہ147)
اور ابو محمد الحسن بن موسیٰ نو بختی یہی بات یوں رقم طراز ہے :
ان جعفر بن محمد الباقر نص علی امامة اسماعیل اینه واشار الیه فى حياته ثم ان اسماعیل مات مھو حی فقال :ما بداللہ فی شئ کما بداله فى اسماعیل انبی۔
ابو جعفر نے اپنی زندگی میں اپنے بڑے بیٹے اسماعیل بن جعفر کو اپنی امامت کے لیے نامزد کیا تھا کہ میرے بعد امام ہوں گے لیکن ان کے بیٹے اسماعیل کا تو ان کی زندگی میں انتقال ہو گیا تھا لوگوں نے اعتراض کیا(کہ آپ نے تو نے امام نامزد کیا تھا کیا آپ کو ان کے انتقال کا علم نہ تھا )تو آپ نے فرمایا مجھے ہی نہیں اللہ کو بھی علم نہ تھا اللہ بھی بھول گیا تھا۔
(فرق الشیعہ صفحہ47)
اللہ رب العزت کے متعلق اس عقائد کے حامل کلینی صاحب اپنے ماموں کے متعلق رقم طراز ہے :
الامام المطھر من الذنوب والمبرا من العیوب
امام ہر طرح کے گناہوں اور عیوب سے پاک ہوتا ہے۔
(اصول کافی صفحہ121)
یہی بات خمینی بھی رقمطراز ہے کہ:
لا نتصور فیھم السھو والغفلة
ان کے بارے میں سہو یا غفلت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
(الحکومتہ الاسلامیہ صفحہ91)
اس قسم کے عقائد اس وقت جنم لیتے ہیں جب لوگ خداۓ واحد کو چھوڑ کر اس کا شریک بنا لیتے ہیں کیونکہ جب وہ خالق کی صفات میں مخلوق کو شامل کرتے ہیں تو مخلوق عیوب میں بھی خالق کو شریک کر کے اپنے کو بڑا عادل سمجھتے ہیں یہ صرف زبانی بات نہیں ہے بلکہ میں اس پر کتب شیعوں سے ٹھوس حوالے پیش کروں گا جس سے شامِ غریباں میں تقریری توحید کا فریب بھی منکشف ہو جائے گا کلینی نے کافی میں ایک مستقل باب رقم کیا ہے :
ان الائمة نور اللہ عزوجل
آئمہ اللہ کے نور ہیں
(اصول کافی صفحہ117)
ابو بصیر کہتا ہے میرے ایک سوال کے جواب میں امام جعفر نے فرمایا:
اما علمت ان الدنیا والاخرة والکلام یضعھاحیث شاءویدفھاالی من یشاء
کیا تم کو معلوم نہیں کہ دنیا و آخرت امام کی ملکیت ہے وہ جس کو چاہیں دے دیں عطا فرما دے۔
(اصول کافی صفحہ259)
یہ بات خمینی اسی طرح رقم طراز ہے :
فان للاماممقام محموداً او درجةً سامیة وخلافة تکوینیة تخضع لولایتھا وسیطرتھاجمیع ذرات الکون امام کو وہ مقامِ محمود اور بلند درجہ اور تکوینی حکومت حاصل ہوتی ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی حکم و اقتداء کے سامنے سرنگوں اور تابع فرمان ہوتا ہے۔
(الحکومتہ الاسلامیہ صفحہ25)
کلینی محمد بن علی نقی سے حلال حرام سے متعلق ایک طویل روایت نقل کرتا ہے اور تخلیقِ کائنات کی قصہ کہانی سنا کر اماموں سے متعلق کہتا ہے کہ:
فاشھر ھم خلقھا واجریٰ طاعتھم علیھا وفوض امورھا الیھم فھم یحلون ما یشاؤون و یحرمون ما یشاؤون ولن یشاؤوا الا ان یشاءالله تبارک وتعالیٰ۔
پھر ان مخلوقات کی تخلیق پر انہیں گواہ بنایا اور تمام مخلوق پر ان کی اطاعت و فرمانبرداری فرض کی اور تمام معاملات ان کے سُپرد کر دیے تو یہ جس چیز کو چاہتے ہیں حلال کر دیتے ہیں اور جس چیز کو چاہتے ہیں حرام کر دیتے ہیں ایسا یہ نہیں چاہتے بلکہ اللہ چاہتا ہے۔
(اصول کافی صفحہ 278)
اسی اصول کافی میں ایک مستقل باب ہے جس کا عنوان ہے ان الائمة علیھم السلام یعلمون متی یموتون وانھم لا یموتون الا بااختیار منھم
آئمہ علیھم السلام جانتے ہیں کہ کب ان کی موت ہوگی اور ان کی موت ان کے اپنے اختیار ہی میں ہوتی ہے۔
(اصول کافی صفحہ158)
آخر میں اس روایت پر اس عقیدے پر حوالہ جات کا خاتمہ کرتا ہوں جو کلینی اور باقر مجلسی میں متفق علیہ ہے :عن ابی عبدالله علیھم السلام قال ولا یتنا ولایة الله التی لم یبعث بنی قط الابھا
امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ ہماری ولایت (حاکمیت) ایسی ہے جیسے اللہ کی ولایت (حاکمیت) ہے اور ہر نبی اس کا حکم لے کر مبعوث ہوا ہے۔
(اصول کافی صفحہ276, بحار الانوار جلد 26صفحہ281)