فرقہ آغا خانیہ باجماع المسلمین کافی ہے، وہ مسلمانوں کے کبھی خیر خواہ نہیں رہے ہیں، ان سے دوستی کرنا یا ان کے فاؤنڈیشن یا ان کی کسی انجمن میں شرکت بنصّ قطعی یہ حرام ہے
فرقہ آغا خانیہ باجماع المسلمین کافی ہے، وہ مسلمانوں کے کبھی خیر خواہ نہیں رہے ہیں، ان سے دوستی کرنا یا ان کے فاؤنڈیشن یا ان کی کسی انجمن میں شرکت بنصّ قطعی یہ حرام ہے
فرقہ آغا خانیہ باجماع المسلمین کافر ہے اور زندیق کے احکام اُن پر جاری ہوں گے، اس لئے کہ ہر وقت وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کو نقصان پہنچے، وہ کبھی مسلمانوں کے خیر خواہ نہ اس سے پہلے رہے ہیں اور نہ اب مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں بلکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اور دھوکہ دینا اُن کے نزدیک عین عبادت اور کارِ ثواب ہے۔
چنانچہ ابن کثیرؒ نے البداية والنهاية میں لکھا ہے کہ تاتاریوں نے جب دمشق پر حملہ کیا تھا تو ان اسماعیلیوں نے ان کا ساتھ دے کر مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کی ناکام کوشش کی تھی چنانچہ یہ فرقہ کبھی مسلمانوں کا دوست نہیں ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ جل شانہ اور رسولﷺ کا دشمن ہے۔
تو اب ظاہر ہے کہ ایک مسلمان کیلئے کس طرح ان سے دوستی یا ان کے فاؤنڈیشن یا ان کے کسی انجمن میں شرکت جائز ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے بنص قطعی یہ حرام کیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے
لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡؕ اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ ؕ وَيُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا ؕ رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ ؕ اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ اللّٰهِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۞ (سورۃ المجادله، آیت نمبر 22))
ترجمہ: تو نہ پائے گا کسی قوم کو جو یقین رکھتے ہوں اللہ پر اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ایسوں سے جو مخالف ہوئے اللہ کے اور اس کے رسول کے خواہ وہ اپنے باپ ہوں یا اپنے بیٹے بھائی یا اپنے گھرانے کے ان کے دلوں میں اللہ نے لکھ دیا ہے ایمان اور ان کی مدد کی ہے اپنے غیب کے فیض سے اور داخل کرے گا ان کو باغوں میں جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں ہمیشہ رہیں ان میں اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی وہ لوگ ہیں گروہ اللہ کا سنتا ہے جو گروہ ہے اللہ کا وہی مراد کو پہنچے۔ ؏
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّىۡ وَعَدُوَّكُمۡ اَوۡلِيَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ وَقَدۡ كَفَرُوۡا بِمَا جَآءَكُمۡ مِّنَ الۡحَـقِّ ۚ يُخۡرِجُوۡنَ الرَّسُوۡلَ وَاِيَّاكُمۡ اَنۡ تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ رَبِّكُمۡ ؕ اِنۡ كُنۡـتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِهَادًا فِىۡ سَبِيۡلِىۡ وَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِىۡ ۖ تُسِرُّوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ ۖ وَاَنَا اَعۡلَمُ بِمَاۤ اَخۡفَيۡتُمۡ وَمَاۤ اَعۡلَنۡتُمۡؕ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡهُ مِنۡكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيۡلِ ۞ (سورۃ الممتحنه، آیت نمبر 1)
ترجمہ: اے ایمان والو ! نہ پکڑو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست تم ان کو پیغام بھیجتے ہو دوستی سے اور وہ منکر ہوئے ہیں اس سے جو تمہارے پاس آیا سچا دین نکالتے ہیں رسول کو اور تم کو اس بات پر کہ تم مانتے ہو اللہ کو جو رب ہے تمہارا اگر تم نکلے ہو لڑنے کو میری راہ میں اور طلب کرنے کو میری رضا مندی تم ان کو چھپا کر بھیجتے ہو دوستی کے پیغام اور مجھ کو خوب معلوم ہے جو چھپایا تم نے اور جو ظاہر کیا تم نے اور جو کوئی کرے تم میں یہ کام تو وہ بھول گیا سیدھی راہ
وقال اللّٰه تعالیٰ:اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ تَوَلَّوۡا قَوۡمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمؕۡ مَّا هُمۡ مِّنۡكُمۡ وَلَا مِنۡهُمۡۙ وَيَحۡلِفُوۡنَ عَلَى الۡكَذِبِ وَهُمۡ يَعۡلَمُوۡنَ (المجادله: آیت نمبر 14)
ان آیتوں سے صراحتہً معلوم ہوا کہ مشرکین اور دین دشمن طبقہ سے دوستی رکھنا جائز نہیں اور نہ ان سے مالی امداد ہدیہ سمجھ کر قبول کرنا جائز ہے۔
حضرت سلیمانؑ کا واقعہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے مشرکین کے ہدیہ کو قبول نہیں فرمایا فَلَمَّا جَآءَ سُلَيۡمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوۡنَنِ بِمَالٍ فَمَاۤ اٰتٰٮنِۦَ اللّٰهُ خَيۡرٌ مِّمَّاۤ اٰتٰٮكُمۡۚ بَلۡ اَنۡـتُمۡ بِهَدِيَّتِكُمۡ تَفۡرَحُوۡنَ (سورۃ النمل، آیت نمبر 36)
بعض مرتبہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا انی لا اقبل ھدیة مشرک اور انی نھیت عن ھدیة المشرکة اور ان کی امداد قبول کرنا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ درحقیقت نہ ہدیہ ہے اور نہ امداد بلکہ مسلمانوں کو گمراہ اور بے دین بنانے کی سازش ہے جو عیسائیوں مشنریوں کی طرز پر چلائی جا رہی ہے۔
حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے ابوبکر رازیؒ کے احکام القرآن کے حوالے سے لکھا ہے کہ وقولھم فی ترک قبول توبة الزندیق یوجب ان لا یستتاب الاسماعیلیة و ساںٔر الملحدین الذین قد علم منھم اعتقاد الکفر کساںٔر الزنادقة وان یقتلوا مع اظھار ھم التوبة
(احکام القرآن جلد 1، صفحہ 54)
جب اسلام کی نظر میں ان کا توبہ اور اسلام بھی قبول نہیں تو ظاہر ہے کہ نہ ان سے مالی فوائد بصورت امداد و ہدیہ لینا جائز ہے اور نہ ان کی فاؤنڈیشن اور انجمن میں شرکت جائز ہے۔ دیگر کفار کی امداد پر بھی اس کو قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ امداد حکومتی سطح ملتی ہے اس سے عام مسلمانوں کی زندگی اور دین کے متاثر ہونے کا خطرہ نہیں ہے جبکہ مذکورہ امداد سے عام مسلمانوں کی انفرادی زندگی متاثر ہونے کا شدید خطرہ ہے اور مسلمانوں کے مرتد اور زندیق بننے کا قوی احتمال ہے۔ لہٰذا ان کے ساتھ شرکت اور ان کے امداد قبول کرنا حرام ہے۔
قال النبیﷺ من کثّر سواد قوم فھو منھم علماء اور عام دین داروں پر اس کا تدارک فرض ہے ورنہ وہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے ہاں جوابدہ ہوں گے۔
(تاریخ شیعیت جلد 2، صفحہ 695)