Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

توہینِ صحابہؓ و اہلِ بیتؓ و اطہار

  ابو عبداللہ

توہینِ صحابہؓ و اہلِ بیتؓ و اطہار

حضراتِ اہلسنت کا یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺ کے پورے دورِ نبوت میں جو جماعتِ صحابہؓ نبیﷺ کے زیرِ تربیت تیار ہوئی اور ہر آزمائش میں نبیﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہی جن سے راضی ہونے کی بشارتیں قرآن میں جا بجا وارد ہوئیں جن کو دیکھ کر نبیﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی رہتی تھیں وہ گروہِ صحابہؓ معیارِ ایمان ہیں اور ان کے ایمان پر شک شکی کے بے ایمانی کا ثبوت ہے حضراتِ اہلسنت کے اس عقیدہ کے بر خلاف حضراتِ شیعہ کے عقیدے کے بارے میں باقر مجلسی رقمطراز ہے: 

 واعتقاد مادر برات آنست که بیزاری جویند از بت ھاۓ چھار گانه وزنان چھارگانه یعنی عائشه وحفصه و ھند وام الحکم وازجمیع ایشاع واتباع ایشاں وآنکه ایشاں بدنزخلق خدااند

اور تبراء کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ ان چار بتوں سے بیزاری اختیار کریں یعنی ابوبکر و عمر و عثمان اور معاویہ سے اور چار عورتوں سے بیزاری اختیار کریں یعنی عائشہ و حفصہ و ہند اور اُم الحکم سے اور ان کے تمام پیروکاروں سے اوریہ کہ یہ لوگ خدا کی مخلوق میں سب سے بدتر ہیں۔

(حق الیقین صفحہ 519)

کبار صحابہؓ اور اُمہاتُ المومنینؓ کے معاملے میں جنکا عقیدہ یہ ہو تو پھر دیگر صحابہؓ کے تو کیا کہنے اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ تو لاتعداد بے ہودہ اور کفریہ خرافات جن کو روایات کا نام دے کر اہلِ بیتؓ اطہار کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ دراصل حضراتِ اہلِ بیتؓ اطہار کی شخصیت کو مجروح کرنے کے لیے ان پر بہتان ہیں اور ملتِ روافض کے خلاف بہت بڑا ثبوت ہیں مگر اسکے باوجود میں چند مختصر روایات ضرور پیش کروں گا جس سے حقیقت کو منکشف کرنے میں بڑی مدد ملے گی ۔

کلینی رقمطراز ہے کہ حنان بن سدیر اپنے والد سے نقل کرتا ہےکہ امام باقر نے فرمایا:

قال کان الناس اھل ردةٍ بعد النبیﷺ الا ثلاثة فقلت من الثلاثة ؟ فقال المقداد بن الاسود و ابوذرالغفاری و سلمان فارسی رحمة الله علیھم وبرکاته

فرمایا کہ جناب رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد سب صحابہ مرتد ہو گئے تھے صرف تین کے علاوہ میں نے پوچھا وہ تین کون تھے؟ تو فرمایا مقداد بن الاسود، ابوذرغفاری ،اور سلمان فارسی اللہ کی ان پر رحمتیں اور برکتیں ہوں۔

(فروعِ کافی کتاب الروضہ جلد 3صفحہ115)

یہی بات علامہ کشی رجال کشی کی روایت نمبر24 میں ذکر کرنے کے بعد اسی روایت میں اور روایت نمبر 23 اور 40 میں ان تین صحابہؓ کے بھی گمراہ ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں اور یہی علامہ کشی اسی کتاب میں حضورﷺ اور سیدنا علیؓ کے چچا سیدنا عباسؓ اور ان کے بیٹے سیدنا عبداللہ بن عباسؓ اور سیدنا عبید اللہ بن عباسؓ کو روایت نمبر 103میں کھلا کافر اور گمراہ کہتا ہے حالانکہ ان حضرات کا شمار کبار صحابہؓ میں ہوتا ہے اور خمینی نے تو اس موضوع پر پوری کتاب کشف الاسرار تحریر کر ڈالی، اس میں اس نے دیگر صحابہؓ پر تو جو بہتان اور فتوے لگائے الگ بات ہے اس نے اس کتاب میں دو عنوان:

  مخالفت ہاۓ ابوبکر بانصی قرآن اور مخالفت عمرباقرآن خدا 

قائم کر کے اسی کتاب کے صفحہ نمبر 119میں کذّب بیان کرتا ہےکہ:

ایں کلام یاوہ که ازاصل کفر زندقه ظاھر شدہ

ان کا یہ کلام دراصل اس کے باطن کے کفر اور زندیقیت کا اظہار تھا۔

(کشف الاسرارصفحہ119)

صرف کبار صحابہؓ ہی نہیں بلکہ اہلِ بیت نبوت بھی ان کے بغض و انتقام سے نہیں بچ سکے باقر مجلسی اس سلسے میں رقمطراز ہے:

پس حضرت بجانب خانہ برگر دید وحضرت امیر انتظارمصاودت اورمیکشید چوں بمنزل شریف قرار گرفت از روئے مصلحت خطا بھائے شجاعانہ درشت باسیداوصیاء نمود کہ مانند جنسین در رحم پردہ نشین شدہ و مثل خائناں درخانہ گریختہ وبعد از شجاعان وھر رابر خاکھلاک افگندی مغلوب این نامرداں گریدہ

جب سیدہ فاطمہؓ(مہاجرین و انصار سے بحث کے بعد) گھر واپس آئیں تو سیدنا علیؓ ان کے منتظر تھے سیدہؓ جب گھر میں داخل ہوئیں تو جناب علیؓ سے مخاطب ہوئیں کہ ہم بچے کی طرح شکمِ مادر میں پردہ نشین ہو گئےاور بزدلوں اور ذلیل لوگوں کی طرح بھاگ کھڑے ہوئے تم نے زمانے میں کئ بہادروں کو پِچھاڑا لیکن خود ان بزدلوں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

(حق الیقین صفحہ 267)

کلینی رقمطراز ہے:

عن یعقوب بن شعیب قال لما زوج رسول فاطمہ علیھا السلام دخل علیھا وھی تبکی فقال لھا ما یبکیک فواللہ لو کان فی اھلی خیر منہ ما زوجتکہ واما انا ازوجہ لکن اللہ زوجک واصدق عنک الخمس ما دامت السمٰوٰت والارض۔

یعقوب بن شعیب کا بیان ہے کہ جب نبی کریمﷺ سیدہ فاطمہؓ کے پاس تشریف لے گئے تو وہ رو رہی تھیں آپﷺ نے فرمایا کیوں رو رہی ہو؟ واللہ اگر میرے خاندان میں علی سے بہتر کوئی ہوتا تو تیرا نکاح علی سے نہ کرتا تیرا نکاح میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ یہ نکاح اللہ نے کیا ہے اور خمس کو تیرا مہر مقرر کیا ہے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں۔

(فروعِ کافی جلد 2صفحہ 157)

محمد بن حسن طوس رقمطراز ہیں:

وکان نقش خاتم امیر المومنین الملک اللہ وکان فی یدہ ایسریٰ ویستنجی بھا          

سیدنا علیؓ کے بائیں ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی جس پر لکھا تھا (الملک اللہ) سب اللہ کی مملکت ہے آپ اسی سے استنجا کرتے تھے۔

 (الاستبصار جز اول صفحہ 26)

باقر مجلسی ایک جگہ مزید رقمطراز ہے:

بسند حسن از صادق علیہ السلام روایت کردہ است کہ غیرتےدر حلال روانیت بعد از آنکہ حضرت رسالت بعلی وفاطمہ علیھماالسلام درشب زناف گفت کہ کاری میکند تامن نزدشمابیایم

صحیح سند کے ساتھ امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ حلال چیز کے بیان میں شرم نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ حضور رسالتِ مآبﷺ نے شبِ زناف سیدنا علیؓ اور فاطمہؓ سے فرمایا جب تک میں نہ آؤں کام نہ کرنا (جلال العیون جلد 1صفحہ 194)

اس قسم کی لاتعداد روایات سے شیعہ کتب بھری پڑی ہیں یہ تو صرف ان کی ایک جھلک ہے اب آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کی ان روایات سے کن کن کی شخصیت پر حرف آتا ہے مگر اپنی تلبیسانہ فطرت سے مجبور یہ لوگ اس سے قطعاً بے پرواہ ہیں۔