Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

توہین اہل سنت

  ابو عبداللہ

توہینِ اہلِ سُنّت

حضرات اہلِ سُنّت حضورﷺ کی سُنّت کو دل وجان سے زیادہ سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سُنّی کہلاتے ہیں مگر روافض (شیعہ) حضرات اہلِ سُنّت کیلیۓ ناصبی یا عامہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

محمد بن حسن طوسی جعفر بن محمد سے روایت کرتے ہیں:

انه لیس الناصب من نصب بن اہل البیت فانا لاتجدو ولایقول انا بغض اٰل محمد ولکن الناصب من نصب لکم وھو یعلم انکم تولوناوانتم شیعتنا

ناصبی وہ نہیں جو اہلِ بیت سے دشمنی رکھتا ہو کیونکہ کوئی شخص نہیں جو کہے کہ میں آلِ محمد سے بغض رکھتا ہوں ناصبی وہ ہے جو تم شیعوں سے دشمنی کرے۔

(الاستبصار جلد 4صفحہ10)

یہی بات حق الیقین میں تحریر کرنے کے بعد ملا باقر مجلسی مزید تحریر کرتا ہے:

 بخدمت امام علی النقی سوال كردندکه آیا محتاج ھیستم در دانستین ناصبی بر زیاد از ایں که ابوبکر و عمر را تقریم کند بر امیر المومنین واعتقاد بر امامت آنھا داشته باشد حضرت در جواب نوشت ھر که ایں اعتقاد داشته باشد او ناصبی است

 لوگوں نے سیدنا علی نقی سے سوال کیا کہ کیا ہمارے لیے اس سے زیادہ جانا ضروری ہے کہ ناصبی ابوبکرؓ و عمرؓ کو جناب امیر پر مقدم کرتا ہے اور ان کی امامت کا اعتقاد رکھتا ہے حضرت نے جواب میں لکھا جو شخص یہ اعتقاد رکھے وہ ناصبی ہے۔

   (حق الیقین جلد2صفحہ 521)

اسی طرح ایک طویل روایت محمد بن مسلم کی زبانی کلینی رقم طراز ہے جس کے درمیان میں یہ جملہ بڑا قابل غور ہے:

قال ثم خرج ابوحنیفہ من عندہ فقلت له جعلت فداک انی کرھت تعبیر ھذا الناصب

 اس کے بعد ابو حنیفہؒ ان کے پاس سے چلے گئے تو میں نے عرض کیا میں آپ پر فدا ہو جاؤں اس ناصبی (ابوحنیفہؒ) کی تعبیر مجھے اچھی نہیں لگی۔

(الجامع الکافی کتاب الروضہ صفحہ137)

اور کلینی کے اس کافی کے مترجم روافض کے ادیب اعظم سید ظفر حسن رقم طراز ہیں: 

ثم قال لعن الله ابا حنیفة

پھر فرمایا لعنت کرے اللہ ابو حنیفہ پر

(الشافی جلد 1صفحہ 61)

جب جماعت اہلِ سُنّت کے اکابرین کے ساتھ ان کا یہ رویہ ہے تو باقی جماعت کے ساتھ ان کے رویے کا آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں مگر اس کے باوجود میں شیعہ سُنّی اتحاد کے داعیوں کی عبرت کے لیے چند حوالے جات پیش کررہا ہوں

ابنِ بابویہ قمی رقم طراز ہے:

ولا بجوز الوضوء بسؤر الیھودی والنصرانی و ولدالزنا والمشرک وکل خالف الاسلام وأشد من ذلک سؤر الناصب

یہودی ،نصرانی ،حرامی اور مشرک جھوٹے سے وضو جائز نہیں اور سُنّی کا جھوٹا کافروں کے جھوٹے سے بھی زیادہ شدید ہے۔

(من لا یحضرہ الفقیہہ جلد 1صفحہ8)

محمد بن حسن طوسیٰ لکھتا ہے کہ کسی شخص نےسُنّی عورت سے نکاح کرنے سے متعلق جعفر صادق سے سوال کیا تو جعفر صادق نے جواب دیا: لأن الناصب کافر

 نہیں کیونکہ سنی کافر ہیں۔

(تہذیب الاحکام جلد7صفحہ303)

اور اگلی روایت میں اسی صفحے پر مزید رقم طراز ہیں کہ جعفر صادق کے سامنے:

ذکر الناصب فقال لاتنا کحمولا تأکل ذبیحتھم ولا تکن معھم

جب سنیوں کا ذکر آیا تو فرمانے لگے ان کے ساتھ نکاح کرنا اور ان کا ذبیحہ کھانا حرام ہے۔

 (تہذیب الاحکام جلد7صفحہ303) 

نعمت اللہ الجزائری رقم طراز ہے کہ:

الناصب الذی ورد فی الاخبار انه شر من الیہودی والنصرانی والمجوسی وانه کافر نجس باجماع علماء امامیة 

سُنیوں کے بارے میں ہماری احادیث میں ہے کہ سُنّی لوگ شیعوں کے اماموں کے نزدیک یہودی، نصرانی اور مجوسی اس سے زیادہ شریر اور ناپاک کافر ہیں۔

 (انوار النعمانیہ جلد 2صفحہ306)

اور یہی نعمت اللہ الجزائری اسی کتاب کی تیسری جلد میں لکھتا ہے:

 قوله علیہ السلام ما خالف العامة ففیه الرشاد مما لاریب فیه حتیٰ انه روی ان رجلا من اھل الا ھواز کتب علیه السلام وھو فی المدینة ان ربما أشکل علینا الحکم فی المسئلة التی یحتاج الیھاد ولا تصل الایدی الیک فی کل وقت فماذا نضع؟ فکتب الیه علیہ السلام اذا کان الحال علی ما ذکرت فأت القاضی البلد و سله عن تلک المسئلة فما قابل لک فخذ بخلافه فان الخیر (الحق خ) فی خلافھم 

حضرت علیؓ کا قول ہے کہ بے شک عامہ سُنّی کی مخالفت ہی میں خیر ہے روایت ہے کہ اہلِ اہواز (ایران) میں سے ایک شخص نے مدینہ میں حضرت علیؓ کے پاس خط بھیجا کہ آپ تک ہر وقت ہماری رسائی نہیں ہوتی اگر کسی مسئلہ میں ہمیں مشکل پیش آئے تو ہم کیا کریں ؟ حضرت نے جواب دیا کہ اگر اس طرح کوئی معاملہ درپیش ہو تو (سُنّی) قاضئ شہر سے اس مسئلے کے متعلق دریافت کرو وہ جو بتائے اس کے الٹ کرو اسی میں خیر ہے۔

(انوار النعمانیہ جلد 3 صفحہ 55)

اصول کافی کے فارسی ترجمے کے دیباچہ میں اس لیے حضراتِ اہلِ سُنّت کے خلاف اماموں کے خود ساختہ روایت نقل کی ہے کہ:

وعو ما وافق القوم فان الرشد فی خلافھم 

یعنی کہ تم ان کے (سُنیوں) کے ساتھ موافقت نہ کرو کیونکہ ان کی مخالفت ہی میں کامیابی ہے۔

(دیباچہ اصول کافی ترجمہ فارسی صفحہ 9)

اور باقر مجلسی تو اس مخالفت میں اتنا آگے نکل گیا کہ کہنے لگا کہ جب امام مہدی ظاہر ہوں گے تو:

پیش از کفار ابتداء به سنیاں خواھد کردہ باعلماء ایشاں و ایشاں راخوھد کشت

کافروں سے پہلے سُنیوں اور ان کے علماء سے کاروائی شروع کریں گے اور ان سب کو قتل کر دیں گے۔

 (حق الیقین صفحہ 257)

یہی باقر مجلسی ایک جگہ اپنے دل کی بھڑاس اس طرح بھی نکالتا ہے:

 حق تعالیٰ خلقے بدتر از سگ نیا فرید است و ناصبی نزد خدا خوار تر از سگ 

خدا نے کتے سے بدتر کوئی مخلوق پیدا نہیں کی مگر سُنّی خدا کے نزدیک کتے سے بھی بدتر ہے۔

(حق الیقین صفحہ 516)

اور کلینی اپنی فطرت یوں ظاہر کرتا ہے:

ان الناس کلھم اولاد بغایا ما خلا شیعتنا

بے شک شیعوں کے علاوہ تمام لوگ کنجریوں کی اولاد ہیں۔

( فروعِ کافی صفحہ 135)

اور اردو زبان میں شیعوں کی معروف کتاب میں نائب حسین نقوی تحریر کرتے ہیں کہ جب کسی سنی کے جنازے میں شامل ہو تو یہ دعا پڑھو:

 اللھم ازقه اشد عذابک فانه کان یو اعداءک ویعادی اولیاءک وبلادک اللھم اصلیه حر نارک 

اے اللہ اس کو بہت سخت عذاب میں مبتلا کر کیونکہ یہ تیرے دشمنوں سے دوستی رکھتا تھا اور تیرے دوستوں سے عداوت رکھتا تھا اور تیرے نبیﷺ کی اہلِ بیت سے دشمنی رکھتا تھا اے اللہ اسے اپنی گرفت میں لے لے اور اللہ اسے جہنم کی آگ میں پہنچا۔

(تحفتہ العوام صفحہ 225)

ان باتوں کے باوجود کوئی صاحب اگر یہ سوچتا ہے کہ حضرات روافض کے دل میں ہمارے خلاف اتنا تعصب ہے تو وہ لوگ ہمارے ساتھ میل ملاپ کیوں رکھتے ہیں تو اس کا جواب میں شیخ صدوق ابنِ بابویہ قمی سے نقل کر کے اس موضوع پر حوالہ جات کو ختم کرتا ہوں :

لیس بینکم و بین مخالفکم الالمضمر ،قیل فای اشئ المضمر؟ قال الذی تسمونہ بالبراءة ومن خالفکم و جارہ فابرؤا منه

یعنی تم میں اور تمہارے مخالفوں میں ظاہر میل ملاپ (تقیہ) کے وقت کوئی فرق نہیں رہنا چاہیے سوائے اسکے جو تمہارے دل میں مضمر (چھپا) ہوا ہو پوچھا یہ مضمر (چھپا) ہوا کیا ہے فرمایا ! وہی چیز جسکا نام تبراء ہے جو شخص تمہارا مخالف ہو اس سے ظاہری میل ملاپ(تقیہ) کی حالت میں بھی دل میں نفرت رکھو۔

(اعتقادیہ صدوق صفحہ 214)