Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اہل تشیع کی لڑکی سے نکاح کرنا، ان کے جنازہ میں شرکت کرنا، ان کو ووٹ دینا


شیخ القرآن حضرت مولانا محمد یعقوب شرودی دیوبندیؒ کا فتویٰ

فاضل دیوبند، تلمیذ رشید حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مسائل ذیل کے بارے میں

(1) کہ اہلِ سنت لڑکا کسی اثناء عشریہ امامیہ شیعہ لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے یا نہیں؟ اور اسی طرح بالعکس کوئی اثناء عشرہ امامیہ شیعہ لڑکا کسی سنی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے یا نہیں؟

(2) یہ کہ شیعہ اثناء عشریہ امامیہ اور اہلِ سنت مسلمان ایک دوسرے کے جنازے میں شرکت کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اور اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ تعزیت کرنا بھی جائز ہے یا نہیں؟ 

(3) ایک سنی مسلمان کسی اثناء عشریہ امامیہ سے ووٹ لے سکتا ہے؟ یا کوئی سنی کسی شیعہ امامیہ کو ووٹ دے سکتا ہے؟

جواب: (1) جس فرقے کا آپ نے پوچھا ہے ان کے بڑے گندے عقائد ہیں جو کفر کے حد تک پہنچے ہوئے ہیں۔ علمائے حق نے آج کل اُن ہی کے مستند و مسلّم کتابوں سے اُن کے مغلظات کو طشت ازبام کرلیا ہے۔ حضرت مولانا عبد الشکور لکھنؤیؒ اور مولانا منظور نعمانیؒ نے خاص طور پر اس سلسلہ میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی ہے۔ اور جہاں تک میرا علم ہے جن خبیث عقائد کی نشاندہی اور نسبت ان کی طرف کی گئی ہے کسی اثناء عشریہ فرد یا گروہ نے بھی ان عقائد سے اپنی بیزاری ظاہر نہیں کی ہے۔

حضرت مولانا مفتی ولی حسنؒ نے ان ہی خبیث عقائد کے بناء پر ان کے کفر پر ہند و پاک و بنگلہ دیش کے اکابروں میں شاہیر علماء حق سے دستخطیں لے لی ہیں۔ ان کے عقائد میں تین خبیث عقیدے بطور تمہید پیش خدمت ہے:

(1) وہ اپنے بارہ اماموں کو انبیاء و رسل علیہ السلام سے بھی بڑھ کر درجہ دیتے ہیں، ان سب کو معصوم مانتے ہیں، اور تمام اُمور تشریعیہ و تکونیہ میں اور ان کو مختار کل سمجھتے ہیں

(الحکومت الاسلامیہ: صفحہ، 52)

پس نہ صرف مشرک ٹہرے بلکہ ختمِ نبوت کے منکر اور کافر بھی ہو گئے۔

(2) وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر لعن و تبرا کرتے ہیں، حضرات شیخینؓ کی صحبت تو کجا بلکہ ایمان کے بھی منکر ہیں، کہتے ہیں فلعمری لقد نافقا قبل ذلک ور دًا علی اللّٰه جل ذکره کلامه وھزیا برسول اللّٰهﷺ وھما الکافران علیھما لعنة اللّٰه والملاںٔکة والناس اجمعین (کتاب الروضة: صفحہ، 62)

 اور اس عبارت کو منسوب کرتے ہیں اپنے ساتویں امام ابو الحسینی موسیؒ کی طرف۔

حضرات شیخینؓ کے متعلق ان کا امام خمینی ملعون لکھتا ہے: انھانیکه سالھادر طمع ریاست خودرا به دین پیغمبر چسپاندہ بودند (کشف الاسرار: صفحہ، 113)

بقول خمینی کہ یہ حضرات ایک دن کیلئے بھی (معاذالله) دل سے ایمان نہیں لائے تھے، نہ صرف حضرات شیخینؓ بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی مورد عنایت بنا کر کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے وفات کے بعد صرف چار اشخاص کے علاؤہ باقی سارے صحابہؓ مہاجرینؓ و انصارؓ سب مرتد ہوگئے تھے (معاذالله) سیدنا مقدادؓ، سیدنا ابوذرؓ، سیدنا سلمانؓ، اور غالباً سیدنا عمارؓ مستثنیٰ ہیں۔ 

(3) ان کے عقیدے کے مطابق خلفائے ثلاثہؓ اور یہ تمام مہاجرینؓ و انصارؓ (معاذالله) سب کافر تھے، سازشی و منافق تھے بلکہ (معاذالله) اس اُمت کے بھی خبیث ترین کافروں سے بدتر درجہ کے کافر و ملعون تھے۔(تحفة العلوم مقبول جدید: صفحہ، 422)

بس ان کا جمع کردہ مرتب اور شائع کردہ قرآن کریم کو کیسا وہ خدا تعالیٰ کی اصلی: منزل من السمآء کتاب مان سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے موجودہ قرآن کریم کو وہ ناقص اور تحریف شدہ مانتے ہیں

(دیکھیے اصول کافی: صفحہ، 262/267) 

مراد این است که بسیارے از قرآن ساقط شدہ (صافی شرح اصول کافی)

ایک جگہ لکھتے ہیں ان القرآن الذی جابه جبریل الی محمدﷺ سبعة عشرۃ آیة (اصول کافی: صفحہ، 671)

یہاں تک کہتے ہیں کہ موجودہ قرآن (معاذالله) کفر کے ستونوں کو مضبوط کرتا ہے ما یقیمون به دعاںٔم کفرھم (دیکھیٔے احسن الفتاویٰ: جلد، 1 صفحہ، 98)

اس مختصر و مجمل تمہید اس فرقۂ ضالہ کا کفر تو ظاہر ہوگیا۔ 

انھم یعتقدون کفر اکثر الصحابۃ ۔۔۔۔ فھم کفرۃ بالاجماع بلا نزاع (خمینی شیعت کیا ہے: صفحہ، 105)

واما من کفر جمیعھم فلا ینبغی ان یشک فی کفره لمخالفتة نص القرآن من قوله تعالیٰ وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ، الآیة الرافضی ان کا یسب الشیخینؓ ویلعنھما (والعیاذ بالله) فھو کافر و ھولاء القوم خارجون عن ملة الاسلام فاحکامھم احکام المرتدین (فتاویٰ عالمگیریه ونظیره فی رد المحتار: جلد، 2 صفحہ، 398)

ان مختصر وضاحت سے آپ کے سوالات کا جواب ہو گیا۔

سنّی مسلم کی کسی بھی مشرک اور رافضی سے نکاح نہیں ہو سکتا ولا یجوز تزوج المسلمة من مشرک ولا کتابی (عالمگیری: جلد، 2 صفحہ، 282)

البتہ ایک موحد مسلمان کتابیہ یا مشرکہ سے بصورت مجبوری نکاح کر سکتا ہے مگر کتابی مشرک وہ ہے جو کتاب کو منزّل من الله جانتا ہے البتہ اس میں باطل تاویلات کرتا ہو لقولھم وصح نکاح کتابة (وان کرہ تنزیلھا مؤمنة بنبی مرسل مقرۃ بکتاب منزّل) (ردالمختار علی ھامش الرد: صفحہ، 397)

اثناء عشریہ کے بارے میں اس شق کے جواز میں مجھے قدر تردّد ہے اس لیے کہ یہ لوگ اس کتاب کو منزل بھی تو نہیں مانتے ہیں بلکہ محرّف کہتے ہیں۔ شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ نے ان کو زندیق لکھا ہے۔

(شرح موطا: صفحہ، 110)

مگر مفتی رشید احمدؒ نے شامی کی عبارت بالا کے حوالہ سے ان کو کتابی کا فرمانا ہے، اور ظاہر ہے کہ کتابی کافرہ سے نکاح تو ہو سکتا ہے۔ (بحواله احسنه الفتاویٰ: جلد، 1 صفحہ، 88)

البتہ حضرت مولانا محمد کفایت اللہؒ کا فتویٰ اس طرح ہے کہ جو شیعہ حد کفر تک نہ پہنچے ہوں یعنی تفضیلی وغیرہ ہو اُن کے ساتھ مناکحت جاںٔز ہے۔ اور جو حد کفر تک پہنچ گئے ہوں اُن کے ساتھ رشتہ کرنا ناجائز ہے۔(کفایت المفتی: جلد، 1 صفحہ، 279)

اور چونکہ ان کے ہاں تقیہ کا مسئلہ ہے اس لئے ان کے عقائد کا پتہ لگانا مشکل ہے۔ احتیاط اسی میں ہے کہ ان سے رشتہ لینے میں بھی پرہیز کیا جاوے۔ 

(2) جب کوئی آپ کے عقیدے میں کافر ہو اور اسی عقیدۂ کفریہ پر مر گیا ہو تو اس کا جنازہ کیسا اور دعائے مغفرت کیسی؟ وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓى اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰى قَبۡرِهٖ ؕ اِنَّهُمۡ كَفَرُوۡا بِاللّٰهِ (سورۃ التوبہ: آیت نمبر، 84) ہاں اگر ان کے ہم عقیدہ لوگ موجود نہ ہو تو پھر انسانیت کے تقاضوں کے پیش نظر اس کی تجہیز و تکفین کرنا چاہئے اگر اس کا تشیع حد کفر کو پہنچا ہوا ہے تو رعایتِ سنت نہ کریں اور نہ نماز پڑھیں ویسے ہی اس کو دفن کریں (کذا فی کفایة السنتی: جلد، 1 صفحہ، 289۔)

(3) اسلامی اقدار کی بالادستی کیلئے کافر کو ووٹ دینا خود فریبی کے سوا کیا ہے؟ ہاں اگر کوئی اور سماجی خدمات کی انجام دہی کیلئے اس کو ووٹ دیتا ہے تو اس کی صلاحیت دیکھ کر دے سکتا ہے۔ باقی ووٹ لینے میں اگر کچھ اسلامی اور دینی اقدار قربان یا مجروح نہیں کرنا پڑتا ہے تو شاید کوئی حرج نہ ہو۔ بلکہ آپ ان سے لے لیں مگر یہ شرط بھی مشکل ضرور ہے۔

(ثمینة الفتاویٰ : جلد، 1 صفحہ، 9)