آدمی جب ماں باپ کے لیے دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے تو اس کا رزق قطع ہو جاتا ہے۔(تحقیق)
خادم الحدیث سید محمد عاقب حسینامام ابنِ جوزی رحمہ اللہ (م597ھ) نے فرمایا:
أَنْبَأَنَا زَاهِرُ بْنُ طَاهِرٍ أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْبَيْهَقِی أَنْبَأَنَا أَبُو عبد الله مُحَمَّد ابْن عبد الله الْحَاكِمُ أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّيْبَانِی حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَرِّی حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ النَوْفَلِی حَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْبَصْرِی سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ إِذَا تَرَكَ الْعَبْدُ الدُّعَاءَ لِلْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يَنْقَطِعُ عَلَى الْوَالِدِ الرِّزْقُ فِی الدُّنْيَا۔
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی بندہ اپنے والدین کے لئے دعا کرنا چھوڑ دے تو اس کا رزق دنیا میں اس سے منقطع ہو جائے گا۔
(كتاب الموضوعات لابنِ الجوزی: جلد، 3 صفحہ، 86)
امام ابنِ الجوزی رحمۃ اللہ نے امام حاکم نیشاپوری رحمۃ اللہ کی سند سے اس کو روایت کیا جو کہ امام حاکم کی تاریخ میں موجود ہے۔
اسی طرح امام دیلمی رحمۃ اللہ نے بھی اس کو امام حاکم نیشاپوری رحمۃ اللہ کی سند سے روایت کیا۔
(كتاب زهر الفردوس: جلد، 1 صفحہ، 621)
اسی طرح امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ نے بھی امام حاکم رحمۃ اللہ کی سند سے اس کو نقل کیا۔
(كتاب اللآلئ المصنوعة فی الأحاديث الموضوعة: جلد، 2 صفحہ، 250)
(موضوع مسلسل بخمس علل)
1: امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ کا شیخ أبو جعفر محمد بن أحمد الرازی ضعیف الحدیث ہے۔
(لسان الميزان: 6380)
2: العباس بن حمزة النيسابوری مجہول الحال ہے۔
3: احمد بن خالد الشيبانی الجويباری یہ روایات گھڑنے والا کذاب خبیث راوی ہے اس کے بارے میں محدثین کا کلام ملاحظہ ہو:
امام شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہ نے کہا جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ گھڑنے میں اس کی مثال دی جاتی ہے۔
(ميزان الاعتدال: جلد، 1 صفحہ، 107)
(المغنی فی الضعفاء: صفحہ، 322 )
امام بیہقی رحمۃ اللہ نے فرمایا میں اس أحمد بن عبد الله الجويباری کو رسول اللہﷺ پر حدیث گھڑنے کے حوالے سے بہت اچھے سے جانتا ہوں اس نے نبیﷺ پر ایک ہزار سے زائد احادیث گھڑی ہیں۔
(مسائل عبد الله بن سلام للبيهقی: صفحہ، 215)
امام ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ رسول اللہﷺ پر جھوٹ گڑھتا ہے اس کی روایت ترک کردی جائیں
المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبی نعيم الأصفهانی: جلد، 1 صفحہ، 60)
امام دارقطنی رحمۃ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یہ جھوٹا ہے دجال ہے خبیث ہے یہ حدیث گڑھنے والا ہے اس کی روایت نہ لکھی جائے اور نہ انہیں بیان کیا جائے۔
[موسوعة أقوال الدارقطنی: صفحہ، 69)
صاحب مستدرک امام حاکم رحمۃ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یہ خبیث اور کذاب ہے اس نے کثیر روایات کو فضائل اعمال میں گڑھا ہے۔
(المدخل إلى معرفة الصحيح: صفحہ، 125 رقم: 15)
امام ابو حاتم بن حبان رحمۃ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یہ دجالوں میں سے دجال ہے اس کا ذکر کتابوں میں نہ کیا جائے سوائے اس پر جروحات نقل کرنے کے۔
(المجروحين لابنِ حبان: جلد، 1 صفحہ، 154)
خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں یہ ان مشہور راویوں میں سے ایک ہے جو احادیث گھڑتے ہیں۔
(الزيادات على الموضوعات: جلد، 1 صفحہ، 125)
امام نسائی رحمۃ اللہ امام ابنِ عدی رحمۃ اللہ امام ابو یعلیٰ الخلیلی رحمۃ اللہ نے اسے جھوٹا اور روایات گھڑنے والا کہا۔
(لسان الميزان: جلد، 1 صفحہ، 299)
4: الحسن بن محمد البری مجہول ہے۔
5: يزيد بن عتبة بن المغيرة النوفلی بھی مجہول ہے
نیز یہ کہ امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ حافظ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علامہ طاہر پٹنی رحمۃ اللہ امام ابن عراق الکنانی رحمۃ اللہ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ ان تمام نے اس روایت کو اپنی اپنی کتاب الموضوعات جھوٹی روایات پر مشتمل کتاب میں درج کیا اور کوئی تعاقب یا روایت کا دفاع نہیں کیا یعنی ان ائمہ کے نزدیک یہ روایت موضوع ہے۔
(كتاب الموضوعات لابن الجوزی: جلد، 3 صفحہ، 86)
(كتاب اللآلئ المصنوعة فی الأحاديث الموضوعة: جلد، 2 صفحہ، 250)
(كتاب تذكرة الموضوعات للفتنی: صفحہ، 202)
(كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة: جلد، 2 صفحہ، 282)
(كتاب الفوائد المجموعة: صفحہ، 231)
خلاصہ کلام:
ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اس روایت سے استدلال کرنا قطعاً جائز نہیں کیونکہ یہ روایت موضوع ہے اس میں نسبت نبیﷺ کی طرف جوڑی جا رہی ہے جو کہ حرام ہے مگر والدین کے لیے دعا کرنا یہ نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے یعنی قرآنِ میں حکم آیا ہے:
وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا اِمَّا يَـبۡلُغَنَّ عِنۡدَكَ الۡكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوۡ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنۡهَرۡهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوۡلًا كَرِيۡمًا ۞
(سورۃ الاسراء: آیت 23)
ترجمہ: اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو۔
وَاخۡفِضۡ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارۡحَمۡهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِىۡ صَغِيۡرًا ۞
(سورۃ الاسراء: آیت 24)
ترجمہ: اور ان کے سامنے شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہو اور کہو اے میرے رب جس طرح انہوں نے مجھے بچپن سے پالا ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما۔
اسی طرح ایک اور مقام پر ہے:
رَبَّنَا اغْفِرْ لِىْ وَلِوَالِـدَىَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ (سورۃ ابراھیم: آیت،41)
ترجمہ: اے ہمارے رب! مجھے اور میرے ماں باپ کو اور ایمانداروں کو حساب قائم ہونے کے دن بخش دے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:
حدثنا يحيىٰ بن ايوب وقتيبة يعنی ابن سعيد وابن حجر قالوا حدثنا إسماعيل وهو ابن جعفر عن العلاء عن ابيه عن ابی هريرة ان رسول اللهﷺ قال إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة إلا من صدقة جارية او علم ينتفع به او ولد صالح يدعو له۔
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا جب مر جاتا ہے آدمی تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ کا دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں تیسرے نیک بخت بچے کا جو دعا کرے اس کے لیے۔
(صحیح مسلم: صفحہ، 4223)
قرآنِ مجید کی آیات اور صحیح حدیث سے ثابت ہوا کے والدین کے لیے دعا کرنا حکمِ الہٰی ہے مگر اس قسم کی موضوع روایات کو بیان کرنا قطعاً جائز نہیں کیونکہ یہ نبیﷺ پر جھوٹ ہے حضورﷺ نے فرمایا حدیثِ متواتر میں ہے جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
فقط واللہ و رسولہ أعلم بالصواب
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
(مؤرخہ یکم ربیع الاوّل 1442ھ )