Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

تاریخ تدوین فقہ جعفریہ

  ابو عبداللہ

تاریخ تدوین فقہ جعفریہ

اس فقہ کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ سیدنا جعفرؒ کے نام سے منسوب ہے جس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ سیدنا جعفرؒ کے عہد میں آیا آپ کی زیرِ نگرانی اس فقہ کی تدوین ہوئی۔ مستند کتب شیعہ میں سیدنا باقرؒ تک فقہی اعتبار شیعہ کا دورِ جاہلیت ہی ثابت ہوتا ہے مثلاً

اصول کافی نمبر 2:

ثم كانا محمد على ابا جعفر و كانت الشيعته قبل ان يكون ابو جعفر وهم لا يعرفون مناسک حجهم وحلالهم و حرامهم حتىٰ كان ابو جعفر ففتح لهم وبين لهم مناسك حجهم و حلالهم و حرامهم حتى صار الناس يحتاجون اليهم من بعد ما كانوا يحتاجون الى الناس پھر امام باقر آئے ان سے پہلے تو شیعہ حج کے مناسک اور حلال و حرام سے بھی واقف نہیں تھے ۔ امام باقر نے شیعہ کے لئے حج کے احکام بیان کئے اور حلال و حرام میں تمیز کا دروازہ کھولا یہاں تک کہ دوسرے لوگ ان مسائل میں شیعہ کے محتاج ہونے لگے جب کہ اس سے پہلے شیعہ ان مسائل میں دوسروں کے محتاج تھے۔

 اس اعتراف سے ظاہر ہے کہ سیدنا باقرؒ سے پہلے شیعہ حلال و حرام سے واقف ہی نہیں تھے۔

سیدنا باقر کا سن وفات 113ھ ہے یعنی پہلی صدی اور دوسری صدی میں فقہ جعفریہ کا وجود ہی نہیں تھا۔ اس لئے کسی اسلامی سلطنت میں اس کے نافذ کئے جانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس زمانے میں خلافتِ راشدہ اور خلافت بنو اُمیہ کا اکثر حصہ شامل ہے، پس یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پہلی صدی میں فقہ جعفریہ کا نہ وجود تھا نہ کہیں اس پر عمل ہوتا تھا۔ اسلام کی دعوت کے ساتھ نبی کریمﷺ نے حلال و حرام کی نشاندہی فرما دی تھی جب دین مکمل ہو گیا تو حلال و حرام عبادت، معاملات و عقائد تمام چیزیں مکمل ہو گئیں۔ حضورﷺ نے نہ صرف سب کچھ بتا دیا بلکہ ان اصولوں پر ایک معاشرہ تیار کیا۔ خلافتِ راشدہ کے دور میں حلال و حرام کے ان مسائل پر عمل ہوتا رہا جو نبی کریمﷺ نے بتائے تھے ۔ مگر شیعہ کی معتبر ترین کتاب کے مؤلف صاحبِ اصول کافی کہتے ہیں کہ شیعہ کو حلال و حرام کا علم نہ تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ شیعہ کو حلال وحرام کے ان مسائل اور حج کے ان مناسک سے تعلق کوئی نہیں تھا جو اسلام نے اور داعی اسلام نے سکھائے تھے۔

سیدنا باقرؒ کے متعلق کتب شیعہ سے اس بات کا سراغ ملتا ہے کہ آپ نے شیعہ کو حلال و حرام کا احساس دلایا اور ان کو حدود سے روشناس کرایا لیکن اس کا کہیں سراغ نہیں ملتا کہ آپ کی زیرِ نگرانی کسی فقہ کی تدوین ہوئی۔

اس کے بعد سیدنا جعفرؒ کا دور آتا ہے آپ کی وفات 148ھ میں ہوئی چونکہ یہ فقہ ان کی طرف منسوب ہے اس لئے اس امر کی تلاش کی جائے آپ نے فقہ کی کوئی کتاب اپنی زیرِ نگرانی تیار کرائی۔ تاریخ میں اس کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ پھر اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آپ نے جو روایات اور احادیث بیان فرمائیں انہی فقہی ابواب کے تحت جمع کر لیا گیا۔ بنیادی طور پر وہ حدیث کی کتابیں شمار ہوں گی مگر چونکہ انکی تدوین فقہی عنوان کے تحت ہوئی اس لئے ان کتب کو فقہ جعفریہ کی بنیادی کتابیں تصور کر لینا چاہیئے۔اس نوع کی کتابیں چار ہیں ان کو صحاحِ اربعہ کہتے ہیں:

¹- الکافی ابو جعفریه کلینی 330ھ یعنی امام جعفر سے قریباً 180 برس کی تصنیف ہے۔

²- من لا یحضره الفقیہ محمد بن علی ابنِ بابویہ قمی 380 ھ یعنی امام جعفر سے قریباً 230 برس بعد۔

³- تہذیب الاحکام

⁴- استبصار محمد بن حسن طوسی 460 ھ یعنی امام جعفر سے قریباً 310 برس بعد ۔

 فقہ جعفریہ کی ان چاروں کتابوں کا ذرا تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی کتاب اصولِ کافی اس وقت لکھی گئی جب خلفائے عباسیہ کے اکیسویں خلیفہ المتقی باللہ کا دورِ خلافت تھا ۔ اور آخری کتاب کے مصنف کا سن وفات بتاتا ہے کہ اس وقت خلفائے عباسیہ کے بتیسویں خلیفہ القائم باہر الاللہ کا دورِ خلافت تھا ۔ گویا پانچویں صدی ہجری کے اواخر میں فقہ جعفریہ کامل طور پر وجود میں آئی اس لئے پانچویں صدی بلکہ سقوط بغداد تک اس فتنہ کا کسی اسلامی حکوت میں نافز ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اس کے بعد مصر میں عباسی خلافت مستنصر باللہ 659 ھ سے متوکل علی اللہ

ثالث 923ھ تک وہاں بھی اس فقہ کا نفاذ کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

پھر ترکان عثمانی کی خلافتِ عثمان اول 1288ھ سے 1924ء تک رہی جب مصطفیٰ کمال نے خلافت کا خاتمہ کر دیا اس عرصے میں بھی اس اسلامی سلطنت کے کسی حصہ میں بھی فقہ جعفریہ کے رائج ہونے کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا۔

مختصر یہ کہ کسی اسلامی حکومت نے کسی دور میں فقہ جعفریہ کو اپنے دستور یا قانون میں جگہ نہیں دی۔

فقہ جعفریہ کے متعلق تاریخی سروے تو ضمناً آ گیا ۔ بات یہ چل رہی تھی کہ سیدنا جعفرؒ کے بعد ایک سو اسی برس سے لیکر تین سودو برس بعد تک یہ کتابیں مدون ہو ئیں جو سیدنا جعفرؒ سے منسوب کر کے فقہ جعفریہ کی اصولی اور بنیادی کتابیں شمار ہوتی ہیں ظاہر ہے کہ اس عرصے میں سیدنا جعفرؒ کی روایات مختلف راویوں کے ذریعے ان محدثین کے پاس پہنچی ہوں گی اس لئے ان مسائل اور فقہ کی صحیح یا مشکوک ہونے کا انحصار ان رواة کی ثقاہت اور عدم ثقاہت ہے اس بناء پر ضروری ہے کہ جعفریہ فنِ رجال کے بیان کی روشنی میں اس حقیقت کا جائزہ لیا جائے۔

مشہور شیعہ مجتہد ملا باقر مجلسی نے اپنی مایہ ناز کتاب حق الیقین صفحہ 371 پراس حقیقت کا اظہار یوں کیا ہے:

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اہلِ حجاز و عراق خراسان و فارس وغیرہ سے فضلاء کی ایک جماعت کثیر حضرت باقر اور حضرت صادق نیز تمام آئمہ اصحاب سے تھی ۔ مفصل زرارہ محمد بن مسلم

 ابو بریدہ ابو بصیر شاہین ، حمران، جیکر مومن طاق امام بن تغلب اور معاویہ بن حمار کے اور ان کے علاوہ کثیر جماعت بھی تھی جن کا شمار نہیں کر سکتے اور کتب رجال اور علمائے شیعہ کی فہرستوں میں سطور و مذکور ہیں یہ سب شیعوں کے رئیس تھے ان لوگوں نے فقہ حدیث و کلام میں کتابیں تصنیف کر کے تمام مسائل کو جمع کیا ہے۔ ان لوگوں کا اختصاص آئمہ طاہرین کے ساتھ معلوم و تحقق ہے جیسا کہ ابوحنیفہؒ کے ساتھ ابو یوسفؒ اور اس کے شاگردوں کا اختصاص

یہ اقتباس ایک طویل بیان کا حصہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ:

¹- اصحاب آئمہ کی کثیر جماعت جس کا شمار نہیں ان کے مطابق تو کہا نہیں جا سکتا مگر جن کا شمار کیا جاسکتا ہے ان کے نام دیئے گئے ہیں اور وہ شیعوں کے رئیس ہیں۔

²- آئمہ سے ان اصحاب نے فقہ وحدیث کے مسائل جمع کئے ہیں۔

³- اگر یہ حضرات ثقہ ثابت ہو جائیں تو فقہ جعفریہ آئمہ سے ماخوذ ثابت ہو سکتی ہے اس فقہ کا ماخذ کتاب اللہ سے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ شیعہ عقیدہ کی رو سے یہ قرآن محرف ہے اور تحریف بھی پانچ قسم کی ہوئی ہے لہٰذا اس کا کیا اعتبار ! 

اب ہم ان روسائے شیعہ کے حالات شیعہ کتب رجال سے پیش کرتے ہیں :

¹- زرارہ

یہ صاحب تو آئمہ کے بھی رئیس ہیں یہاں تک کہ ان کی علمی فضیلت سیدنا جعفرؒ کے ہم پایہ ہے۔

 رجال کشی میں ہے:

قال اصحاب زراره من ادرک زراره بن اعین فقد ادرک ابا عبدالله

زرارہ کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ جس نے زرارہ بن

امین کو دیکھا تو گویا اس نے ابو عبد اللہ ( یعنی امام باقر) کو دیکھ لیا۔

ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ تعریف اور کیا ہوسکتی ہے مگر سوال تو امانت ودیانت اور کردار کا ہے سو اس کے متعلق رائے ملاحظہ ہو :

یہ حکم ایسی جماعت کے حق میں ہے جن کی ضلالت پرصحابہؓ کا اجماع ہے جیسا کہ زرارہ اور ابو بصیر (حق الیقین اردو صفحہ 722)

یعنی زرارہ اور ابو بصیر بالا جماع گمراہ ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ جو خود گمراہ ہے وہ دوسروں کی رہنمائی کیا کرے گا جس راہ پر خود چلا ہے دوسروں کو بھی اسی راہ پر چلائے گا۔

قال ای (امام نعم زراره شر من اليهود والنصارىٰ ومن قال ان مع الله ثالث ثلاثه

(رجال کشی صفحہ 107) 

امام جعفر نے فرمایا کہ زرارہ تو یہودی و نصاریٰ اور

تثلیت کے قائلین سے بھی برا ہے۔

امام جعفر کا زرارہ کو قائلین اور تثلیث سے بھی برا قرار دینا خالی از علت نہیں اور نہ نری شاعری ہے اس سے یہ مراد ہو سکتی ہے کہ امام نے زرارہ کے متعلق آگاہ کر دیا کہ جس طرح قائلین تثلیت نے دین حق سے منہ موڑ کر تثلیت کا عقیدہ گھڑا اور ایک مخلوق کو گمراہ کیا اسی طرح زرارہ بھی دینِ اسلام سے منحرف ہو کر ایسے عقائد گھڑے گا کہ ایک دنیا گمراہ ہو جائے گی اور واقعی امام کا خدشہ درست ثابت ہوا۔

امام جعفر نے فرمایا:

 ولعن اللہ زرارہ لعن الله زرارہ لعن الله زرارہ 

 (رجال کشی صفحہ 100)

یعنی امام جعفر نے تین مرتبہ فرمایا کہ اللہ لعنت کرے زرارہ پر۔

ظاہر ہے کہ جس فقہ کا رئیس اعظم ایسا ہو جس کو امام نے بتاکید ملعون قرار دیا ہو اس فقہ کی ثقاہت، افادیت اور افضیلت کا انکار کون کر سکتا ہے؟

امام تو آخر امام تھے اور امام بقول شیعہ معصوم ہوتا ہے اس لئے معصوم کے قول میں شک کی گنجائش کہاں؟ لہٰذا زرارہ کے ملعون ہونے کا انکار وہی کرے جو امام کا منکر ہو مگر دوسری طرف زرارہ کا ردِ عمل بھی نا قابلِ التفات نہیں۔

 زرارہ کہتا ہے:

فلما خرجت ضرطت لحيته لا يفلح ابدا

( رجال کشی صفحہ 106)

 یعنی جب میں باہر نکالا تو میں نے امام کی داڑھی میں پاد مارا اور میں نے کہا کہ امام کبھی نجات نہ پائے گا۔

 مقابلہ بڑا عبرت ناک ہے اور ایک طرف سے لعنت برسائی جاری ہے دوسری جانب سے عدم نجات کی بشارت سنائی جارہی ہے دیکھنا یہ ہے کہ جس امام کی داڑھی میں پاد مارنے والا اور جس امام کو نجات نہ پانے کی اطلاع دینے والا اسی امام سے منسوب کر کے دین وفقہ سکھائے تو ایسے دین وفقہ کی حیثیت ارباب دانش ہی سمجھ سکتے ہیں۔

²- ابوبصیره

حق الیقین میں زرارہ کے ساتھ گمراہی میں واحد حصہ دار ابو بصیر کو بتایا گیا ہے لہٰذا اسی کے متعلق پہلے بیان ہوتا ہے:

فقہ جعفریہ کے مسائل میں یہ شخص بھی میں شمار ہوتا ہے اس لئے سیدنا جعفرؒ کے متعلق اس کا عقیدہ معلوم کر لینا کافی ہے:

قال جلس ابوبصیر علی باب ابی عبدالله علیه

السلام ليطلب الازن ولم يؤذن له فقال لو كان معنا طبق لازن قال فجار كلب قشعر في وجه ابي بصير

(رجال کشی صفحہ 112)

راوی کہتا ہے، ابو بصیر امام جعفر کے دروازے پر بیٹھا تھا اندر جانے کی اجازت چاہتا مگر امام اجازت نہیں دے رہے تھے ابو بصیر کہنے لگا اگر میرے پاس کوئی تھال ہوتا تو اجازت مل جاتی پھر کتا آیا اور اس کے منہ میں پیشاب کر دیا

اس سے ظاہر ہے کہ: 

¹-ابو بصیر کی نگاہ میں امام جعفر بڑے طماع ، دنیا پرست تھے رشوت لیکر ملاقات کی اجازت دیتے تھے۔ ²-ابو بصیر خود اصحابہ آئمہ میں اس فضیلت کا مالک تھا کہ دروازے پر پڑا ر ہے تواس کو ملاقات کی اجازت ہی نہیں ملتی تھی ، اہمیت کا کیا کہنا

³-ابوبصیر چونکہ اندھا تھا کتے کو دیکھ نہ سکا مگر اتنا تو سوچتا کہ آنکھیں تو خدا نے بند کی تھیں منہ تو خود بند رکھتا آخر منہ کھول کے لیٹنے میں کون سی حکمت تھی، پھر کتا آخر جانور ہے مگر اتنی سمجھ تو اسے بھی تھی کہ پیشاب کرنے کے لئے موزوں جگہ کون سی ہے۔

⁴- یہ اتفاق سمجھئے یا قدرت کی طرف سے انتباہ کہ اس منہ سے گلفشانی کی توقع نہ رکھنا بلکہ جیسا کچھ اس منہ میں داخل ہو رہا ہے ایسی ہی پاکیزہ باتیں اس سے نکلیں گی۔

ظاہر ہے کہ ایسے مقدس منہ سے نکلے ہوئے مسائل کیسے پاکیزہ اور مقدس ہوں گے اور جس امام کے متعلق اس صحابی کی یہ رائے ہے اس سے منسوب کر کے جو مسائل بیان کئے گئے ہوں گے یا گھڑے گئے ہوں گے ان کے ثقہ اور معتبر ہونے میں کس احمق کو ہی شبہ ہوسکتا ہے۔

³- محمد بن سلم

اس کا دعویٰ ہے کہ امام باقر سے 30 ہزار حدیثیں سنیں اور امام باقر سے 16 ہزار حدیث کی تعلیم پائی۔(رجال کشی صفحہ 109)

عن مفضل بن عمر قال سمعت ابا عبدالله يقول لعن الله محمد بن مسلم كان يقول ان الله لا يعلم شياء حتىٰ يكون

 (رجال کشی 113)

مفصل کہتا ہے کہ میں نے سیدنا جعفرؒ سے سنا فرماتے تھےکہ محمد بن مسلم پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو یہ کہتا تھا کہ جب تک کوئی چیز وجود میں نہ آ جائے اللہ کو اس کے متعلق علم نہیں ہوتا

اول تو جس آدمی کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ ہوا اس کے تفقہ فی الدین کا طول و عرض آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے پھر جس کو سیدنا جعفرؒ کی طرف سے اللہ کی لعنت کا تحفہ یا سند ملے اس کی ثقاہت کا حال بخوبی معلوم ہو سکتا ہے۔ یہاں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے فقہ جعفریہ کی تیاری میں اس امر کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ ان اصحاب آئمہ کی روایات قبول کی جائیں جن کو آئمہ نے ملعون قرار دیا ہے۔

 فرق اتنا ہے کہ کسی کو اکیلی لعنت کسی کو لعنت ، لعنت ، یعنی(لعنت 3) مگر اپنا اپنا ظرف جو جتنے کے قابل ہواسے اتنا ہی ملتا ہے۔

 علامہ مجلسی نے جن تین اصحاب آئمہ کو سرِ فہرست رکھا ہے ان کے حالات سے اندازہ کر لیا جا سکتا ہے کہ جب اکابر کا یہ حال ہے تو اصاغر کس پائے کے ہوں گے ۔ اب ذرا ان اصحاب میں سے بھی ایک معروف شخصیت کا تعارف کرا دیا جائے جن کا علامہ مجلسی نے ذکر نہیں کیا مگر ہیں وہ بھی چوٹی کے اصحاب 

⁴-جابر بن یزید

محمد بن مسلم کا دعویٰ تو آپ نے پڑھ لیا کہ امام باقر سے تیسں ہزار احادیث لی تھیں یہ صاحب ان کے بھی استاد نکلے ان کا دعویٰ ملاحظہ ہو :

عن جابر بن يزيد الجعفى قال حدثني ابو جعفر بسبعين الف حديث

(رجال کشی صفحہ 128)

جابر کہتا ہے کہ میں نے امام باقر سے ستر ہزار حدیث تعلیم پائی ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا علمی مرتبہ محمد بن مسلم سے دو چند سے بھی زیادہ ہے اب اسی فضیلت مآب کی دیانت وامانت کا حال سنئے۔

عن زراره قال سئلت ابا عبدالله عن حديث جابر فقال مارايته عند ابي قط الامرة حدة ومادخل على قط

(رجال کشی صفحہ 126)

زرارہ کہتا ہے کہ میں نے سیدنا جعفرؒ سے جابر کی احادیث کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ یہ میرے والد سے صرف ایک مرتبہ ملا اور میرے پاس تو کبھی آیا ہی نہیں

یہ بات رئیس اعظم زرارہ بیان کر رہا ہے نہ جانے اسے اس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، ممکن ہے اس کا ستر ہزار احادیث کا دعویٰ سن لیا ہو گا ۔ تو اسے تعجب حسرت یا رشک پیدا ہوا ہو گا ۔ مگر جواب جو ملا اس سے زرارہ کی تشفی تو شاید ہوگئی ہو مگر

امام کے بیان نے تو عجائبات کا ایک باب کھول دیا ۔ مثلاً

¹- ایک ملاقات میں امام نے ستر ہزار حدیثیں تعلیم فرمادیں یعنی اگر ایک منٹ فی حدیث شمار کیا جائے تو 166 گھنٹے بنتے ہیں یعنی 48 دن سے کچھ زیادہ وقت بنتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا اتنی لمبی نشست کا تصور کیا جا سکتا ہے؟

 ²- اگر جابر صرف حدیثیں سنتا رہا تو اس کے حافظہ کا کمال ہے کہ ایک دفعہ سن کرستر ہزار حدیث یا دکر لیں۔

³- اگر یہ محال نظر آتا ہے تو پھر وہ ساتھ ساتھ لکھتا رہا اگر یہ صورت فرض کر لی جائے تو وقت کو اور بڑھانا پڑے گا دو چند سے کم کیا ہو سکتا ہے گویا یہ ایک ملاقات تین مہینے سے بھی تجاوز کر گئی اگر یہ نہ مانا جائے تو اور صورت کوئی نہیں کیونکہ اس زمانے میں شارٹ ہینڈ کے فن کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

⁴- اگر جابر کا دعویٰ تسلیم کیا جائے تو سب سے پہلے عقل اسے تسلیم نہیں کرتی اوراس سے بڑی بات یہ ہے کہ امام کو جھوٹا تسلیم کرنا پڑتا ہے۔

⁵-اگر امام کو سچا تسلیم کریں جیسا کہ ضروری ہے تو جابر کو پرلے درجے کا جھوٹا ماننا پڑتا ہے اور اس کے بغیر چارہ نہیں۔

اصحاب آئمہ میں سے کچھ مستند کتابیں 

حق الیقین میں کچھ غیر مذکور کے حالات نمونہ کے طور پر شیعہ کی کتب رجال میں سے پیش کئے گئے اب ذرا اس معاملے کو ایک اور زاویے سے دیکھئے:

¹-علامہ مجلسی نے تو فرمایا کہ یہ کثیر جماعت تھی جو سب شیعوں کے رئیس تھے

مگر آئمہ کا بیان اس سے مختلف ہے مثلاً (اصول کافی صفحہ 496 پر امام جعفر کا بیان ہے:

اے ابو بصیر اگر تم میں سے ( جو شیعہ ہو ) تین مؤمن مجھےمل جاتے جو میری حدیث ظاہر نہ کرتے تو میں ان سے اپنے حدیثیں نہ چھپاتا

یہ بیان کیا ہے حقائق کا ایک بحر ناپیدا کنار ہے، پہلی بات یہ ہے کہ سیدنا جعفرؒ کو عمر بھر میں تین مؤمن بھی نہ ملے۔

دوسری بات یہ ہے کہ مومنوں کی فوج نہیں کھڑی کرنی چاہتے تھے بلکہ اپنے علوم اور اپنی حدیثیں سنانا چاہتے تھے۔

تیسری بات یہ ہے کہ جب انہیں تین مؤمن نہ مل سکے تو انہوں نے اپنی حدیثیں کسی کو نہیں سنائیں جس سے منطقی طور پر یہ نتیجہ نکلا ہے کہ یہ کافی ،

 استبصار، تہذیب اور من لا یحضرہ الفقیہ کی صورت میں ہزاروں حدیثیں جو سیدنا جعفرؒ سے منسوب ہیں وہ ان سے بیزاری کا اعلان کر رہے ہیں اور یہ سب جھوٹ بناوٹی ذخیرہ ہے۔

چوتھی بات اگر اس کا نتیجہ یہی ہے اور دوسرا کوئی ہو نہیں سکتا تو فقہ جعفری کی قدر و قیمت تو امام نے خود متعین کر دی۔

پانچویں بات یہ ہے کہ امام کا مقصد صرف کسی محرم راز کو حدیثیں سنانا تھا حدیثیں پھیلانا مطلوب نہیں تھا اس لئے فرمایا ان تین مطلوبہ مؤمنوں کی صفت بیان کی جو میری حدیثیں ظاہر نہ کرتے ۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ امام کی حدیثیں ظاہر کرنے کی چیز نہیں چھپا کر رکھنے کی چیز ہے تو پھر فقہ جعفریہ کو بر سر منبر اور بر سردار لانے کے جتن کیوں ہورہے ہیں؟ یہ تو امام کی مخالفت کی تحریک ہے ان کی خلاف ایجی ٹیشن ہے یہ تو سٹرائیک ہے۔ امام جعفر نے اس سے آگے ایک قدم اور بڑھا کر فرمایا:

میں نے کوئی ایسا آدمی نہیں پایا جو میری وصیت قبول کرتا اور میری اطاعت کرتا سوائے عبداللہ بن یعفور کے۔

 (رجال کشی صفحہ 160)

لیجئیے امام نے ایک اور گتھی سلجھا دی۔

¹-امام جعفر کوئی شاعری نہیں کر رہے کہ شاعری کی ساری روش ہی مبالغہ سےہوتی ہے بلکہ وہ تو حقیقت بیان کر رہے ہیں ۔

²- جب سیّدنا جعفرؒ کی ذات موجود تھی ان کی اطاعت کرنے والا صرف ایک مرد میدان میں نظر آتا ہے تو آج سیدنا جعفرؒ کی طرف منسوب فقہ جعفریہ پر عمل کرانے اور اسےنافذ کرانے کی کیا مجبوری ہے۔

³-اطاعت شعار صرف ایک ہے تو یہی قابلِ اعتماد بھی ہوگا۔ اس لئے دین کی روایت جو اس سے چلی وہی معتبر ہوگی اس صورت میں دینِ شیعہ کا سارا حل خبرِ واحد پر استوار ہوگا۔ مگر اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بھی اپنے بھائیوں سے کچھ مختلف نہیں بلکہ

بات وہی ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ 460ھ تک فقہ جعفریہ کی کوئی کتاب مدون نہیں ہوئی تھی، وہاں احادیث کی یہ چار کتب وجود میں آگئی تھیں مگر ان میں جو روایات درج ہیں وہ اکثر ان اصحاب آئمہ سے مروی ہیں جن کو آئمہ نے گمراہ معلون ، یہود و نصاریٰ سے بھی بدتر مخلوق قرار دیا لہٰذا آئمہ کے بیان کے مطابق ان کتابوں کی روایات قابلِ اعتماد نہیں۔

پانچویں صدی ہجری میں مصنف تہذیب الاحکام اور استبصار کے بعد فقہ جعفریہ کے کام میں کوئی پیشِ رفت نہیں ہوئی اور ان کتابوں کی عام اشاعت بھی نہ ہوئی اور زیرِ زمین ہی کام ہوتا رہا۔ دین شیعہ تو سراسر راز اور اخفاء کی چیز سے اگر کسی وقت کسی نے اس عقیدہ کو عام کرنے کی کوشش کی تو اسے سرزنش کی گئی جیسا کہ

 اصول کافی صفحہ 140 پر ہے

قال ابو جعفر ولايته الله اسرها الى جبرئیل و اسرها

جبرائيل الى محمدﷺ واسرها محمد الى على و اسرها على الى من شاء تم انتم تذيعون ذالك

امام ابو باقر نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ولایت کا راز جبرائیل کو راز میں بتایا جبرائیل نے یہ راز محمدﷺ کو مخفی طور پر بتایا ۔ حضورﷺ نے یہ راز حضرت علیؓ کو کان میں بتایا پھر حضرت علیؓ نے جسے چاہا بتایا مگر تم لوگ اسے ظاہر کرتے پھرتے ہو۔

 گویا ولایت و امامت کا عقیدہ ہی راز کی چیز ہے اور شیعہ مذہب کی جان یہی عقیدہ تو ہے لہٰذا اسے ظاہر کرنا امام کو ناراض کرنے کے مترادف ہے۔

 آخر آٹھویں صدی ہجری میں ایک مجاہد اٹھا اس نے فقہ جعفریہ کی پہلی کتاب صحیح فقہی طرز پر لکھی۔ اس فقیہ کا نام محمد جمال الدین مکی ہے اور اس کتاب کا نام لمغردمشقیہ ہے اس سلسلے میں چونکہ یہ پہلی کوشش تھی اس لئے اس کی پذیرائی اور قدر افزائی ہونی ایک فطری بات ہے ۔ مگر حالات اس کے برعکس نظر آتے ہیں اسے واجب القتل قرار دے کر قتل کر دیا گیا ۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ اس کتاب کی تصنیف ہی ہو سکتی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ

 یہ کتاب کوئی علمی یا دینی خدمت نہیں سمجھی گئی بلکہ اس کے الٹ ہی کچھ سمجھا گیا اب اس کا نام جو چاہو رکھ لو ۔ مگر جعفریہ نے اسے شہید اول کا لقب دیا ۔

اس کے قتل سے عوام میں فقہ جعفریہ کی قدروقیمت کا ایک معیار تو قائم ہو گیا پھر حسبِ سابق جعفریہ زیرِ زمین ہی کام کرنے لگے ۔ رفتہ رفتہ دسویں صدی ہجری میں ایک اور مجاہد اٹھا اور اس نے فقہ جعفریہ کو عام فہم کرنے اور اسے پھیلانے کے لئے لمغردمشقيه كى شرح روضة البهیه کے نام سے لکھی اس کا نام علامہ زین الدین ہے جب متن لکھنے والا واجب القتل قرار دیا گیا تو اس کے شرح لکھنے والے کو کون سی جاگیر ملنی تھی چنانچہ اسے بھی واجب القتل قرار دے کر قتل دیا گیا۔ اور جعفریہ نے بھی حسبِ عادت اس کو شہید ثانی کا لقب دیا۔ فقہ جعفریہ کا علمی سرمایہ یہی کچھ ہے ان کتابوں پر ممکن ہے انفرادی طور پر نیک شیعہ عمل کرتے ہوں مگر اجتماعی طور پر کسی حکومت نے اس فقہ کو قابل سر پرستی اور قابلِ نفوذ نہ سمجھا۔

علامہ مجلسی نے اپنی کتاب حق الیقین میں جہاں یہ بیان کیا کہ ان لوگوں (یعنی آئمہ ) نے فقہ حدیث و کلام میں کتابیں تصنیف کر کے تمام مسائل جمع کیا یہ بات ایک تاریخی مغالطہ نظر آتا ہے زرارہ محمد بن مسلم ، ابوبصیرہ جن کے نام درج ہیں انہوں نے کوئی کتاب تصنیف نہیں کی بلکہ ان کے بعد قریباً دوصدیوں سے لیکر تین صدیوں تک لوگوں نے ان کے نام سے روایات جمع کر کے وہ چار کتابین تصنیف کیں

جن پر اوپر بحث کی جا چکی ہے۔

 پھر علامہ مجلسی نے فرمایا ان لوگوں کا اختصاص آئمہ طاہرین کے ساتھ معلوم و مستحق ہے جیسا کہ ابو حنیفہؒ کے ساتھ ابو یوسفؒ اور اس کے شاگردوں کا اختصاص ہے یہ تثنیہ اور تمثیل بھی خلافِ حقیقت ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں کے حالات تو یہ ہیں کہ انہوں نے چالیس ماہرین فن کی ایک مجلس مذاکرہ بنائی تھی ہر آدمی ایک خاص فن میں مہارت رکھتا تھا پھر جو نئے مسائل پیش آتے وہ قرآن وسنت اور تعامل صحابہؓ کی روشنی میں زیرِ بحث آکر طے ہوتے جب کسی نتیجے پر پہنچتے تو ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں سے امام شیبانی اسے لکھ لیتے چنانچہ امام محمد شیبانی کی چھ تصانیف فقہ حنفی میں کتب ظاہر الروایۃ کے لقب سے مشہور ہوئیں اور اسی دوران تصنیف ہوئیں اور ابو حنیفہؒ کے دوسرے شاگر دا بو یوسفؒ نے کتاب الخراج تصنیف کی اور فقہ حنفی باقاعدہ طور پر خلفائے عباسیہ نے اپنی سلطنت میں رائج بلکہ اور بھی اسلامی ممالک میں فقہ حنفی رائج رہی اس کے مقابلے میں علامہ مجلسی نے جن اصحاب آئمہ کو ابوحنیفہؒ کے شاگردوں سے تشبیہ دی ہے انہوں نے نہ تو کوئی کتاب تصنیف کی نہ قرآن وسنت تک پہنچے بلکہ صرف امام کی بات بلکہ امام سے منسوب کر کے اپنی بات بیان کرتے رہے اور بعد والوں نےان کی روایات کو جمع کر کے فقہ جعفریہ کا نام دے دیا۔

جہاں تک اس فقہ کے رائج ہونے کا تعلق ہے تو یہ بات خواب و خیال سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ 

خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں وہی فقہ رائج تھی جو رسول اللہﷺ نے کتاب اللہ کی روشنی میں اپنے ارشادات اور صحابہؓ کی عملی تربیت کر کے رائج فرمائی تھی ۔ سیدنا علیؓ نے اپنے عہد خلافت میں اس فقہ سے بال برابر بھی انحراف نہیں کیا یعنی انہوں نے بھی وہی فقہ رائج رکھی جو خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں رائج رہی ۔ اگر سیدنا علیؓ کوئی نئی فقہ رائج یا نافذ کرتے چاہے اس کا نام فقہ جعفریہ نہ ہوتا کوئی اور ہوتا یا بے نام ہوتی بلکہ اس فقہ سے مختلف جو خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں رائج رہی تو بعد میں آنے والوں کو بھی حق پہنچتا تھا کہ اس علوی فقہ کے نفاذ کا مطالبہ کرتے یا اس کی جدو جہد کرتے جس فقہ پر سیدنا علیؓ نے اپنا پورا عہدِ خلافت گزار دیا آج نام نہاد محبّانِ علیؓ کو اس فقہ سے بیر کیوں ہے؟ یہی وہ فقہ ہے جو خلفائے عباسیہ کے عہد میں آکر باقاعدہ فقہی تربیت سے مدون ہو کر فقہ حنفی کے نئے نام سے اسی پرانی صورت اور اسی نبوی اصول پر رائج ہوئی پھر قریباً تمام اسلامی سلطنتوں میں یہی فقہ رائج رہی اور حکومت کی طرف سےنافذ ہوتی رہی۔

انصاف کی بات تو یہ ہے کہ ان رؤسا شیعہ نے آئمہ سے جو روایات منسوب کی ہیں ان سے بڑھ کر آئمہ کی 

توہین کی کوئی صورت تصور میں نہیں آسکتی حالانکہ آئمہ کرام اہلِ سنت کے عقیدہ کے اعتبار سے اور حقیقت کے لحاظ سے نہایت پاک شستہ اور ظاہر و باطناً کتاب وسنت کے عامل ،کامل، اولیاء اللہ اور اس فقہ کے مطابق زندگی بسر کرنے والے تھے جو محمد

 رسول اللہﷺ نے اپنی 23سالہ نبوی زندگی میں صحابہؓ کو سکھائی اور جس پر حضورﷺ نے اپنے سامنے عمل کرایا اور جس پرخلفائے راشدینؓ سیدنا علیؓ سمیت عمل کرتے رہے۔

حضراتِ قارئین شیعت پر میں نے اپنے پورے مطالعہ کا حاصل ان چند صفحات میں آپ کے سامنے مختصر تحریر کر دیا ہے ان تمام باتوں کا مقصد آپ سے کوئی مطالبہ کرنا نہیں ہے بلکہ آپ کو صرف اس بات سے آگاہ کرنا ہے ک