Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

خطباتِ محرم مصنفه فقیه ملت مفتی جلال الدین امجدی

  محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحب

خطباتِ محرم مصنفه فقیه ملت مفتی جلال الدین امجدی:

اس سے قبل آپ اس واقعہ فرزندان سیدنا مسلمؓ و مولوی محمد شفیع اوکاڑوی کو کتاب شامِ کربلا سے پڑھ چکے ہیں اور اس میں جو رنگیلاپنی اختیار کی گئی ہے اس کو بھی پڑھ چکے ہیں اور اس زمانہ کے مقررین نے اب طریقہ بھی یہ ہی اپنایا ہے کہ جب اس واقع کو بیان کرتے ہیں تو اس واقعہ میں رنگینی پیدا کرنے اور غم و اندوہ کے حالات وکیفیات میں زیادتی کی خاطر ایسے ایسے اشعار لکھے جاتے اور پڑھے جاتے ہیں کہ ذی عقل و خرد ماتھا تھام کے بیٹھ جاتا ہے یہ واقعہ اگرچہ شہید ابنِ شہید خاکِ کربلا اور اوراقِ غم وغیرہ میں بھی مذکور ہے لیکن عجیب خیرت ہوئی جب میں نے یہی واقعہ اسی انداز میں خطباتِ محرم میں لکھا دیکھا اس کتاب کے ٹائٹل پر یہ الفاظ لکھے گئے ہیں محرم کے لیے بارہ واعظوں کا مستند مجموعه اس کتاب کے 369 تا 374 چھ صفحات اسی واقعہ کی نذر کیے گئے ہیں فقیر خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہے کہ میں حضرات اہلِ بیت کی محبت کو اپنا ایمان سمجھتا ہوں کیونکہ رسول کریمﷺ کی آل پاک سے محبت دراصل آپﷺ سے محبت ہوتی ہے لیکن حضورﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ میری طرف جو شخص ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی تو اُسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہئیے اس لیے لوگوں کو رُلانے اور اپنی بات کو رنگین و مؤثر بنانے کی خاطر بے اصل روایات کو ذکر دینا کسی طرح سے بھی درست قدم نہیں قرار دیا جاسکتا اور من گھڑت روایات و واقعات سے رُلانا ایک طرف جھوٹ باندھنا ہے اور دوسری طرف شیعوں کے مسلک کو تقویت پہنچانا ہے خطباتِ محرم کے مصنف فقیہه ملت مفتی جلال الدین امجدی ہیں ان کا ٹائیٹل پر تو دعویٰ یہی کہ کوئی واقعہ و روایت غیر مستند نہیں ہوگی لیکن سیدنا مسلمؓ کے صاحبزادوں کے واقعہ کے بارے میں کسی معتبر کتاب کا حوالہ تو درکنار کسی چلتی پھرتی کتاب تک کا حوالہ نہ دیا جس سے مطلب یہ ہوا کہ مفتی صاحب کا لکھ دینا ہی مستند ہے اب اس کی تائید کی کوئی ضرورت نہیں ہے مفتی صاحب کی مذکورہ کتاب کے چھ صفحات کی عبارت نقل کرنے کی بجائے اس کی فوٹو کاپی لف کی جارہی ہے تاکہ قارئین کرام خود ان کے الفاظ میں لکھا واقعہ پڑھ لیں۔

شہادتِ فرزندانِ سیدنا مسلمؓ:

سیدنا مسلمؓ نے گورنر ہاؤس کے گھر یا طوعہ کے گھر قیام کے وقت بچوں کو قاضی شریح کے یہاں پہنچا دیا تھا جب ابنِ زیاد کو معلوم ہوا کہ سیدنا مسلمؓ کے ساتھ ان کے دو بچے بھی آئے تھے تو اس نے پورے شہر کوفہ میں اعلان کروایا کہ جو شخص سیدنا مسلمؓ کے بچوں کو چھپائے گا اسے سخت سزادی جائے گی اور جوان کو ہمارے پاس لائے گا وہ انعام و اکرام پائے گا ابنِ زیاد کے اس اعلان کو سن کر قاضی صاحب گھبرا گئے فورا زاد راہ تیار کروایا اور اپنے بیٹے اسد سے کہا کہ آج باب العراقین سے ایک قافلہ مدینہ منورہ کی طرف جانے والا ہے ان بچوں کولے جاکر اس قافلہ میں کسی محب اہلِ بیت کے سپرد کر دو اور تاکید کردو کہ ان کو بحفاظت مدینہ منورہ پہنچا دے اسد جب ان بچوں کولے کر باب العراقین پہنچا تو معلوم ہوا کہ قافلہ تھوڑی دیر پہلے چلاگیا وہ بچوں کولے کر اس کی راہ پر تیزی کے ساتھ چلا اور جب قافلہ کی گرد نظر آئی تو بچوں کو گرد دکھا کر کہا دیکھو وہ قافلہ کی گرد نظر آرہی ہے تم لوگ جلدی سے جاکر اس میں مل جاؤ میں واپس جاتا ہوں یہ کہہ کر وہ واپس چلا آیا اور بچے تیزی کے ساتھ چلنے لگے مگر تھوڑی دیر بعد گرد غائب ہوگئی اور انہیں قافلہ نہ ملا ننھے بچے اس تنہائی میں ایک دوسرے سے گلے مل کر رونے لگے اور ماں باپ کو پکار پکار کر جی جان کھونے لگے ابنِ زیاد کا اعلان سن کر مال و زر کی ہوس رکھنے والے سپاسی بچوں کی تلاش میں نکلے سمجھے تھے تھوڑی دیر بعد انہوں نے بچوں کو پالیا پکڑ کر ابنِ زیاد کے پاس پہنچا دیا اس نے حکم دیا کہ ان بچوں کو اس وقت تک جیل میں رکھا جائے جب تک امیر المؤمنین یزید سے پوچھ نہ لوں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے جیل کا داروغہ مشکور نامی محب اہلِ بیت تھا اسے بچوں کی بےکسی پر بہت ترس آیا اس نے فیصلہ کرلیا کہ بچوں کی جان بہرحال بچانی ہے چاہے اپنی جان چلی جائے چنانچہ اس نے رات کے اندھیرے میں بچوں کو جیل سے نکالا اپنے گھر لاکر کھانا کھلایا اپنی انگوٹھی بطور نشانی دی اور شہر کے باہر قادسیہ کی راہ پر لاکر کہا کہ تم لوگ اسی راستے پر چلے جاؤ جب قادسیہ پہنچے جانا تو کوتوال سے ملنا ہماری انگوٹھی دکھلانا اور سارے حالات بتانا وہ ہمارا بھائی ہے تم لوگوں کو بحفاظت مدینہ منورہ پہنچا دے گا دونوں بچے قادسیہ کی راہ پر چل پڑے مگر چونکہ انہیں بھی اس عمر میں شہادت سے سرفراز ہونا تھا اس لئے وہ راستہ بھول گئے رات بھر چلتے رہے اور جب صبح ہوئی تو گھوم پھر کے اسی جگہ پہنچے کہ جہاں سے کوفہ کے باہر قادسیہ کے راستہ پر چلے تھے ننھا سا کلیجہ خوف سے دہل گیا کہ کہیں پھر نہ کوئی پکڑ کر ابنِ زیاد کے پاس پہنچادے قریب میں ایک کھوکھلا درخت نظر آیا وہیں ایک کنواں بھی تھا اسی درخت کی آڑ میں جاکر بیٹھ گئے تھوڑی دیر بعد ایک لونڈی پانی بھرنے آئی اور جب ان بچوں کو چھپے ہوئے بیٹھے دیکھا تو قریب آئی اور ان کے نورانی چہروں میں شان شہزاد گی دیکھ کر کہا شہزادو تم لوگ کون ہو اور یہاں کیسے چھپے بیٹھے ہو؟ انھوں نے کہا کہ ہم تیم وبیکس ہیں اور راہ بھٹکے ہوئے مصیبت زدہ مسافر ہیں لونڈی نے کہا تمہارے باپ کا نام کیا ہے؟ باپ کا لفظ سنتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اس نے کہا غالباً تم لوگ سیدنا مسلم بن عقیلؓ کے فرزند ہو اور اب وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اس نےکہا غم نہ کر میں بی بی کی لونڈی ہوں جو محب اہلِ بیت ہے آؤ چلو میں اس کے پاس لے چلتی ہوں دونوں صاحبزادے اس کے ساتھ ہولئے لونڈی ان کو اپنی مالک کے پاس لے گئی اور سارا واقعہ بیان کیا اسے صاحبزادوں کی تشریف آوری پر بے انتہا مسرت ہوئی اس خوشی میں اس نیک بی بی نے لونڈی کو آزاد کر دیا اور صاحبزادوں کے ساتھ بڑی محبت سے پیش آئی انہیں ہر طرح تسلی تشفی دی کہ فکر نہ کرو اور لونڈی سے کہا کہ ان کی تشریف آوری کا راز پوشیدہ رکھنا میرے شوہر حارث کو نہ بتانا ادہر ابن زیاد کو جب معلوم ہوا کہ مشکور داروغہ جیل نے دونوں بچوں کو رہا کر دیا ہے تو اس نے مشکور کو بُلا کر پوچھا کہ تو نے سیدنا مسلمؓ کے بچوں کو کیا کیا انہوں نے کہا کہ میں نے اللہ تعالیٰ رسولﷺ کی رضا اور خوشنو دی کیلئے ان کو رہا کر دیا ہے ابنِ زیاد نے کہا تو مجھ سے ڈرا نہیں انہوں نے کہا جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ کسی اور سے نہیں ڈرتا ابنِ زیاد نے کہا تجھے ان بچوں کے رہا کرنے میں کیا ملا ؟ انہوں نے کہا مجھے امید ہے کہ ان کو رہا کرنے کے سبب حضور پرنور سید عالمﷺ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن میری شفاعت فرمائیں گے البتہ تو سیدنا مسلم بن عقیل کو شہید کرنے کے سبب اس نعمت سے محروم رہے گا ابنِ زیاد اس جواب پر غضبناک ہوگیا اور کہا میں ابھی تجھے سخت سزا دیتا ہوں انہوں نے کہا ایک نہیں مشکور کی اگر ہزار جانیں ہوں تو سب ان پر قربان ہیں ابنِ زیاد نے جلاد سے کہا اسے اتنے کوڑے مارو کہ مرجائے اور پھر اس کا سرتن سے جدا کر دو جلاد نے جب کوڑے مارنے شروع کئے تو مشکور نے پہلے کوڑے پر کہا بسم الله الرحمنِ الرَّحِیم دوسرے پر کہا الہ العالمین مجھے صبر عطا فرما تیسرے کوڑے پر کہا خداوند مجھے بخش دے چوتھے پر کہا اله العَالَمِينَ مجھے اہلِ بيت نبوت کی محبت میں یہ سزا مل رہی ہے پانچویں کوڑے پر کہا یا الٰہی مجھے اپنے رسولﷺ اور انکے اہلِ بیت اطہار کے پاس پہنچا دے پھر اس کے بعد خاموش ہوگئے اور جلاد نے اپنا کام تمام کر دیا انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ادھر وہ نیک بی بی دل و جان سے بچوں کی خدمت میں دن بھر کی رہی اور ہر طرح سے ان کی دل جوئی کرتی رہی پھر رات میں کھانا کھلا کر ان کو الگ ایک کمرہ میں سُلاکر واپس آئی تھی کہ اس کا شوہر حارث آگیا عورت نے پوچھا آج دن بھر آپ کہاں رہے؟ حارث نے کہا داروغہ جیل مشکور نے سیدنا مسلم بن عقیلؓ کے بچوں کو قید سے رہا کر دیا تو امیر عبداللہ بن زیاد نے اعلان کیا ہے کہ جو شخص انکو پکڑلے گا اسے بہت انعام دیا جائے گا میں انہیں بچوں کی تلاش میں دن بھر پریشان رہا یہاں تک کر اسی بھاگ دوڑ میں میرا گھوڑا بھی مرگیا اور مجھے انکی تلاش میں پیدل چلنا پڑا عورت نے کہا اللہ سے ڈرو اور اہلِ بیت نبوت کے بارے میں اسطرح کا خیال دل سے نکال دور کہنے لگا چپ رہ تجھے کیا معلوم جو شخص ان بچوں کو پا جائیگا اسے ابنِ زیاد انعام واکرام سے مالا مال کر دے گا اس لئے اور بھی بہت لوگ ان بچوں کی تلاش میں دن بھرلگے رہےعورت نے کہا کتنے بد نصیب وہ لوگ جو دنیا کی خاطر ان یتیم بچوں کو دشمن کے حوالے کرنے کیلیئے تلاش میں لگے ہوۓ ہیں اور دنیا کے عوض اپنا دین برباد کر رہے ہیں کیا میدانِ حشر میں رسول خداﷺ کو کیا منہ دکھائینگے ان کا دل سیاہ ہوچکا تھابیوی سمجھانے کا اس پرکچھ اثر نہیں ہوا کہ نصیحت کی ضرورت نہیں نفع نقصان میں خود سمجھتا ہوں چل تو کھانا لا وہ کھانا لائی اور حارث بدبخت کھا کر سو گیا آدھی رات کے بعد بڑے بھائی سیدنا محمدؓ نے خواب دیکھا اور بیدار ہوکر چھوٹے بھائی کو جگاتے ہوئے کہا اٹھو اب سونے کا وقت نہیں رہا ہماری شہادت کا بھی وقت قریب آگیا ابھی میں نے خواب میں ابا جان کو دیکھا کہ وہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ سیدنا علی ہیں اور سیدہ فاطمہ اور سیدنا حسن مجتبیٰؓ کے ساتھ جنت کی سیر کر رہے ہیں حضرت محمد مصطفیٰﷺ ابا سے فرمارہے ہیں کہ تم چلے آئے اور اپنے بچوں کو ظالموں میں چھوڑ آئے ابا جان نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ وہ بھی عنقریب آنے ہی والے ہیں چھوٹے نے کہا بھائی جان میں نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا ہے کیا سچ مچ ہم لوگ کل صبح قتل کر دیئے جائیں گے ہائے ایک دوسرے کو ذبح ہوتے ہوئے ہم کیسے دیکھ سکیں گے یہ کہہ کر دونوں بھائی ایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈال کر لپٹ گئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ان کے رونے اور چیخنے سے حارث بدبخت کی آنکھ کھل گئی ظالم نے بیوی کو جگا کر پوچھا یہ بچوں کے رونے کی آواز کہاں سے آرہی ہے؟ عورت بے چاری سہم گئی اس نے کچھ جواب نہ دیا ظالم نے خود اٹھ کر چراغ جلایا اور اس کمرہ کی طرف گیا کہ جہاں سے آواز آرہی تھی جب اندر داخل ہوا تو دیکھا دو بچے روتے روتے بے حال ہو رہے ہیں پوچھا تم کون ہو؟ چونکہ وہ اس گھر کو اپنی جائے پناہ سمجھے ہوئے تھے اس لئے انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم سیدنا مسلم بن عقیلؓ کے یتیم بچے ہیں حارث یہ سنتے ہی غصہ سے بے قابو ہوگیا اور کہا میں سارا دن ڈھونڈتے ڈھونڈتے پریشان ہوگیا اور تم لوگ ہمارے ہی گھر میں عیش کا بستر جمائے ہو یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا اور نہایت بے رحمی کے ساتھ ان کو مارنا شروع کیا دونوں بھائی شدت کرب سے چیچنے لگے عورت بے تحاشا دوڑی ہوئی آئی اور حارث کے قدموں پر اپنا سر رکھ کر نہایت عاجزی کے ساتھ روتی ہوئی کہنے لگی کہ ارے یہ سیدہ فاطمہؓ کے راج دلارے ہیں ان کی چاند جیسی صورتوں پر رحم کھا تو میرا سر کچل کر اپنی ہوس کی آگ بجھالے لیکن سیدہ فاطمہؓ کے جگر پاروں کو بخش دے حارث بدبخت نے اسے اتنے زور کی ٹھوکر ماری کہ بے چاری ایک کھمبے سے ٹکرا کر لہولہان ہوگئی ظالم بچوں کو مارتے مارتے جب تھک گیا تو دونو بھائیوں کی مشکیں کس دیں اور زلفوں کو کھینچ کر آپس میں ایک دوسرے سے باندھ دیا اسکے بعد یہ کہتا ہوا کوٹھری کے باہر نکل آیا کہ جس قدر تڑپنا ہے صبح تک تڑپ لو دن نکلتے ہی میری چمکتی ہوئی تلوار تمہیں ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلادے گی صبح ہوتے ہی ظالم نے تلوار اٹھائی زہر میں بجھا ہوا خنجر سنبھالا اور خونخوار بھیڑے کی طرح کوٹھری کی طرف بڑھا نیک بخت بیوی نے دوڑ کر پیچھے سے اس کی کمر تھام لی حارث نے اتنے زور کا اس کو جھٹکا دیا کہ سر ایک دیوار سے ٹکرا گیا اور وہ آہ کر کے زمین پر گر پڑی اور جب وہ کوٹھری میں داخل ہوا تو ہاتھ میں تنگی تلوار اور چمکتا ہوا خنجر دیکھ کر دونوں بھائی کاپینے لگے بدبخت نے آگے بڑھ کر دونوں بھائیوں کی زلفیں پکڑیں اور نہایت بے دردی کے ساتھ انہیں گھسیٹتا ہوا باہر لایا تکلیف سے دونوں بھائی تلملا اٹھے رو رو کر فریاد کرنے لگے لیکن ظالم کو ترس نہ آیا سامان کی طرح ایک خچر پر لاد کر دریائے فرات کی طرف چل پڑا اور جب اس کے کنارے پہنچا تو انہیں خچر سے اتارا مشکیں کھولیں اور سامنے کھڑا کیا پھر میان سے تلوار نکالا ہی تھا کہ اتنے میں اس کی بیوی ہانپتی کانپتی اور گرتی پڑتی آپہنچی آتے ہی اس نے پیچھے سے اپنے شوہر کا ہاتھ پکڑ لیا اور خوشامد کرتے ہوئے کہا خدا کے لئے اب بھی مان جاؤ اہلِ بیت رسالت کے خون سے اپنا ہاتھ رنگین مت کرو دیکھو بچوں کی جان سوکھی جارہی ہے تلوار سامنے سے ہٹالو حارث پر شیطان پوری طرح سوار تھا ظالم نے بیوی پر وار کر دیا وہ زخمی ہوکر گری دور سے تڑپنے لگی بچے یہ منظردیکھ کر سہم گئے اب بدبخت اپنی خون آلود تلوار لے کر بچوں کی طرف بڑھا چھوٹے بھائی پر وار کرنا ہی چاہتا تھا کہ بڑا بھائی چینخ اٹھا خدا کے لئے پہلے مجھے ذبح کرو میں اپنے بھائی کی تڑپتی ہوئی لاش نہیں دیکھ سکوں گا اور چھوٹے بھائی نے سر جھکاتے ہوئے کہا کہ بڑے بھائی کے قتل کا منظر مجھ سے نہیں دیکھا جاسکے گا خدا کے واسطے پہلے میرا ہی سر قلم کرو ظالم کی تلوار چمکی دو ننھی چنخیں بلند ہوئیں اور یتیم بچوں کے کٹے ہوئے سر خون میں تڑپنے لگے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔

پھول تو دو دن بہار جانفزا دکھلا گئے 

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے 

قاتل کا انجام:

حارث بدبخت نے جب بچوں کو شہید کر دیا تو ان کی لاشوں کو دریائے فرات میں پھینک دیا اور سروں کو توبڑہ میں رکھ کرلے گیا اور ابنِ زیاد کے سامنے پیش کیا اس نے کہا اس میں کیا ہے؟ حارث نے کہا انعام و اکرام کیلئے آپ کے دشمنوں کا سرکاٹ کر لایا ہوں ابنِ زیاد نے کہا یہ میرے دشمن کون ہیں؟ کہا سیدنا مسلم بن عقیلؓ کے فرزند ابنِ زیاد یہ سنتے ہی غضبناک ہوگیا اور کہا تجھ کو قتل کرنے کا حکم کس نے دیا تھا کم بخت میں نے امیر المومنین یزید کو لکھا ہے کہ سیدنا مسلم بن عقیلؓ کے فرزند گرفتار کر لئے گئے ہیں اگر حکم ہو تو میں انہیں آپ کے پاس زندہ بھیج دوں اگر یزید نے زندہ بھیجنے کا حکم دیا تو پھر میں کیا کروں گا ؟ تو میرے پاس ان کو زندہ کیوں نہیں لایا؟ حارث نے کہا مجھے اندیشہ تھا کہ شہر کے لوگ مجھ سے چھین لیں گے ابنِ زیاد نے کہا اگر تجھے چھین لینے کا اندیشہ تھا تو کسی محفوظ جگہ پران کو ٹہرا کر مجھے اطلات کر دیتا میں سپاہیوں کے ذریعہ منگوا لیتا تو نے میرے حکم کے بغیر ان کو قتل کیوں کیا؟ پھر ابنِ زیاد نے مجمع پر نگاہ ڈالی اور ایک شخص جس کا نام مقاتل تھا اس سے کہا کہ اس بدبخت کی گردن مار دے بچنانچہ حارث کی گردن مار دی گئی اور وہ خسر الدنیا والأخرة کا مصداق ہوا۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم 

نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے 

قارئین کرام وہ خطباتِ محرم سے سیدنا مسلمؓ کے فرزندان کا واقعہ آپ نے پڑھا کس قدر دردناک لہجہ میں اس کو نقل کیا گیا جسے پڑھ کر ایک عقل مند یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر ابنِ زیاد کو اب ظلم کرنے سے کیا فائدہ مقصود تھا؟ بچوں کے قتل کرنے سے یزید کی خوشنودی کا کیا تعلق ہے؟ پھر ان بچوں کو بھگانے کے لیے قاضی شریح کا اپنے بیٹے کو حکم دینا کہ مدینہ کے قافلہ کے ساتھ انہیں ملا دو پھر ان کا دُھول میں گم ہو جانا راستہ نہ ملنا اور ادھر ابنِ زیاد کا اعلان کرنا کہ ان بچوں کو پکڑنے والے کو بہت سا انعام دیا جائے گا اس لالچ میں سپاہیوں کا پکڑ کر ان بچوں کو ابنِ زیاد کے پاس لانا ان کو قید سے داروغہ مشکور نامی کا رہا کرنا رات بھر بچوں کا چلتے رہنا راستہ نہ ملنا درخت کی اوٹ میں بیٹھ جانا لونڈی کا دیکھ کر انہیں اپنی مالکہ کے پاس لے جانا مالکہ کا محبت اہلِ بیت کی وجہ سے ان کی خدمت کرنا اس کے شوہر حارث نامی کا انعام کی لالچ کی خاطر ابن زیاد کے پاس قتل کرکے لانا وغیرہ یہ باتیں جس دردناک انداز سے لکھی گئیں آپ پڑھیں اور پڑھنے کے دوران آپ کے رونگٹے کھڑے ہوئے ہوں گے آنسوؤں سے آنکھیں تر ہوئی ہوں گی اور ہو سکتا ہے کہ زیاد تاثیر کی وجہ سے پیٹنے تک نوبت بھی آجائے آئیے اب ہم آپ کو تاریخ کی روشنی میں واقعہ کی حقیقت بیان کرتے ہیں۔

سیدنا مسلمؓ کا مدینہ منورہ سے اپنے بچوں کو ساتھ لے جانا:
الكامل في التاريخ:

 ثم دعا الحسينؓ مسلم بن عقيلؓ فستيره نحوا الكوفة وامره بتقوى الله وكتمان امرہ واللطيف فان رأى الناس مجتمعين له عجل اليه بذالك فاقبل المسلمؓ إلى المدينة فصلى في مسجد رسول اللهﷺ و ودعه و استاجر دليلين من قيس فاقبل به فولا الطريق وعطشوا فمات دليلام من العطش وقال المسلمؓ هذا الطريق الى الماء۔

(الكامل في التاريخ جلد 4 صفحہ 21 المطبوعه بيروت) ترجمہ: پھر (یعنی کوفیوں کے خطوط ملنے کے بعد سیدنا حسینؓ نے سیدنا مسلم بن عقیلؓ کو بلایا اور انہیں کوفہ کی جانب روانگی کا حکم دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ نہ چھوڑنا اور معاملہ کو پوشیدہ رکھنا اور لوگوں سے نرمی سے پیش آنا اگر دیکھو کر لوگ تمہارے اردگرد جمع ہوگئے ہیں تو مجھے جلدی سے بلالینا چنانچہ سیدنا مسلم بن عقیلؓ مدینہ منورہ میں رسول اللہﷺ کی مسجد شریف میں لے گئے اور نماز ادا کرنے کے بعد انہیں الوداع کیا گیا دو راستہ بتانے والے کہ جن کا تعلق قیس سے تھا کرائے پر لے کران کے ساتھ چل پڑے دونوں راستہ بتانے کی ذمہ داری پوری کرتے رہے راستہ میں سب کو بہت زیادہ پیاس لگی جس کی وجہ سے وہ دونوں مر گئے اور مرتے وقت سیدنا مسلمؓ کو پانی کا راستہ بتا گئے۔ 

قارئین کرام یہ حوالہ ایسی کتاب کا ہے جسے شیعہ سنی دونوں معتبر جانتے ہیں واقعہ آپ نے پڑھ لیا سیدنا مسلمؓ کو سیدنا حسینؓ نے کوفہ جانے کا حکم دیا وہ مسجد نبوی میں نماز پڑھ کر رخصت ہوئے قیس سے دوسیا نے ان کے ساتھ تھے راستہ میں پیاس کی وجہ سے یہ دونوں مر گئے اور سیدنا مسلم بن عقیلؓ کوفہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اس پورے واقعہ میں سیدنا مسلمؓ کا اپنے بچوں کو ساتھ لینا کہیں بھی مذکور نہیں نہ مسجد نبوی میں جاتے وقت نہ الوداع ہوتے وقت نہ راستہ میں پیاس کی حالت میں مرنے یا بیچنے والوں میں آخر اگر بچے ساتھ تھے تو کسی مرحلہ پر تو ان کا ذکر ہونا چاہیے ؟ خصوصاً پیاس کے وقت انکی حالت کا ذکر ہوتا۔

سارَ مُسْلِمُ فَدَخَلَ الْمَدِينَةَ فَصَلى فِي الْمَسْجِدِ وَوَدَعَ أَهْلَهُ الخ )  

(ابنِ خلدون جلد سوم صفحہ 27 مير الحسينؓ إلى الكوفة مطبوعة بيروت) 

ترجمہ: سیدنا مسلمؓ چل پڑے مدینہ منورہ میں مسجد میں جاکر نماز ادا کی اور اپنے گھر والوں کو الوداع کہا۔

بحار الانوار:

 وَوَدعَ الْحُسَيْنُؓ مُسْلِمَ بْنَ عَقِيلؓ فَسَرَهُ مَعَ قيس بن مسهر الصيداوى و عماره بن عبدالله وعبد الرحمٰن بن عبد الله الا ذدى وَأَمَرَهُ بِالتَّقْوَى وَكِتْمَانِ أَمْرِهِ وَ اللُّطْفِ فَإِنْ رأَى النَّاسَ مُجْتَمَعِينَ مُتَنرقنين عَجَلَ إِلَيْهِ بِذَالِكَ فَأَقْبَلَ مُسْلِمُ رَحِمَهُ اللَّهِ حَتّٰى إِلَى الْمَدِينَةَ فَصلَى فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللهﷺ وَ وَدَعَ مَنْ أَحَبَّ مِنْ أَهْلِهِ وَاسْتَاجَرَ جَلِيلَيْنِ۔ 

(بحار الانوار جلد 2صفحہ 335 باب ما جلی علیه بعد بيعة الناس مطبوعه تہران)

 ترجمہ: سیدنا حسینؓ نے سیدنا مسلم بن عقیلؓ کو بلایا اور انہیں قیس بن مسہر صیداوی عمارہ بن عبدالله سلولی اور عبد الرحمٰن بن عبدالله ازدی کے ساتھ روانہ کیا اور تقویٰ معاملہ چھپائے رکھنے اور مہربانی کرنے کا حکم دیا پھر وہاں پہنچ کر اگر دیکھیں کہ لوگ مضبوط طریقہ سے اکٹھے ہوگئے ہیں تو فوراً مجھے اطلاع کی جائے چنانچہ سیدنا مسلم بن عقیلؓ مسجد نبوی میں گئے وہاں نماز ادا کی اور اپنے گھر والوں میں سے محبوب ترین کو بهی الوداع کہا اور دو آدمی راستہ بتانے کے لیے کرایہ پر ساتھ لے لیے یہ کتاب (جس کا حوالہ ذکر کیا گیا شیعوں کی سب سے بڑی اور ضخیم کتاب ہے جو 10 جلدوں پر مشتمل ہے اس کے الفاظ بھی آپ نے پڑھے صرف سیدنا مسلمؓ کے ساتھ جانے والے تین اور شخصوں کا نام زائد ہے ورنہ وہی تحریر اور وہی واقعہ مذکور ہے جو الکامل فی التاریخ میں آپ نے پڑھا مدینہ منورہ سے روانگی کے وقت آپ نے اپنے محبوب ترین گھر کے افراد کو بھی الوداع کردیا اس کے بعد کا واقعہ بحارالانوار میں وہی ہے جو الکامل فی التاریخ میں ہے یعنی پیاس سے راستہ بتانے والے دونوں مرگئے اور مرتے مرتے سیدنا مسلمؓ کو پانی کا راستہ بتاگئے علی باقر مجلسی صاحب بحار الانوار نے بھی سیدنا مسلم بن عقیلؓ کے صاحبزادوں کے ساتھ ہونا اور پھر راستہ میں ان کے بارے میں کوئی واقعہ رونما ہونا کچھ بھی ذکر نہیں کیا 

ارشاد شیخ مفید:

 وَدَعَا الْحُسَيْنؓ مسلم بن عقيلؓ فسره مَعَ قیس الخ۔

 (ار شاد شیخ مفید صفحی 204 في نزول سیدنا مسلم بن عقيلؓ على الكوفة مطبوعه قُم) 

ترجمہ: اور سیدنا حسینؓ نے سیدنا مسلم بن عقیلؓ کو بلایا اور قیس وغیرہ کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا۔ 

ان کتب طرفین کے علاوہ بھی بہت سی کتب تاریخ میں کہیں بھی مذکور نہیں ہے کہ سیدنا مسلم بن عقیلؓ کے مدینہ منورہ سے روانہ ہوتے وقت آپ کے دونوں صاجزادے بھی آپ کے ساتھ تھے میں نے بطور نمونہ صرف چند حوالہ جات کتب معتبرہ سے لکھ دیئے ہیں سیدنا مسلم بن عقیلؓ کو جب شہید کردیا گیا تو مجھے کسی کتاب میں یہ نظر نہیں آیا کہ آپ نے وصیت فرمائی ہو کہ بچوں کو مدینہ منورہ پہنچا دینا سیدنا مسلمؓ نے شہادت سے قبل جو کہا تھا وہ الفاظ ملاحظہ ہوں۔ 

سیدنا مسلمؓ کی آخری لمحات میں وصیت کے کے کچھ الفاظ:
الكامل في التاريخ:

فَلَمَّا كَانَ مِنْ مُسْلِمٍؓ مَا كَانَ بَدَا لَهُ فَأَمَرَ بِهَا فِي حِينَ قُتِلَ مُسْلِمٌؓ فَأَخْرَجَ إِلَى السرْقِ فَضْرِبَتْ عُنْقُهُ قَتَلَهُ مَولىٰ تركی ابن زیاد وبعث ابن زياد برأسِهَا إِلىٰ يَزيدِ۔

(الكامل في التاريخ جلد چہارم صفحہ 36 مطبوعه بيروت) 

ترجمہ:پھر جب سیدنا مسلمؓ کے لیے جو ہونا تھا وہ ہوا تو ابنِ زیاد نے ہانی کو ان کے شہید کیے جانے کے بعد حکم دیا کہ بازار کی طرف ان کو لے جایا جائے وہاں ان کی گردن کاٹی جائے ہانی کو ابنِ زیاد کے ترکی غلام نے شہید کیا ابنِ زیاد نے ہانی اور سیدنا مسلم بن عقیلؓ کا سر یزید کے پاس بھیجا۔

البداية والنهاية:

ثُمَّ أَمَرَ ابْنُ زِيَادٍ مُسْلِمَ بْنَ عَقِيلَؓ فَأَصْعِدَ إِلَى أَعْلَى القَصْرٍ وَهُوَ يُكَبِّرُ وَ يُهْلِلُ وَيُسَبِّحُ وَيَسْتَغْفِرُ وَيُصَلِّى عَلَى مَلَائِكَةِ اللَّهِ وَيَقُولُ اللهُمَّ احْكُمُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِ غَرُونَ وَخَذَلونَا ثُمَّ ضَرَبَ عُنْقَهُ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ بُكَيْرُ بن حِمْرَانَ ثُمَّ الْقَى رَأْسُهُ إِلَى أَسْفَلِ القَصْرِ وَاتبِعَ رَأْسَهُ جَسَدُهُ ثُمَّ أَمَرَ بِهَانِي بن عروة فَضُرِبَتْ عَنقهُ بِسُوقِ الْغَنَمِ وَصُلِبَ بِمَكَانٍ مِنَ الْكُوفَةِ يُقَالُ لَهُ الكَنَاسَهثم ابن زياد قَتَلَ مَعَهُمَا أَنَاسٍ ٰاخَرِينَ ثُمَّ بَعَثَ بِرُوسُمِهَا إِلَى يزيد بن معاوية إلى الشَّامِ وَكَتَبَ لَهُ كِتَابًا صورَةٌ مَا وَقَعَ مِنْ أَمْرِهِمَا

(البداية والنهاية جلد 8 صفحہ 15 باب قصة الحسين بن علىؓ و سبب خروجه من مكة مطبوعة بيروت) 

ترجمہ: پھر ابنِ زیاد نے سیدنا مسلم بن عقیلؓ کو حکم دیا پھر انہیں ایک اونچے محل پر چڑھایا گیا وہ چڑھتے وقت تکبیرات تہلیلات ، تسبیحات اور استغفار کرتے تھے اللہ کے فرشتوں پر سلام بھیجتے تھے اور کہتے تھے اے اللہ ہمارے اور ان دھوکہ باز لوگوں کے درمیان فیصلہ فرما انہوں نے ہمیں رسوا کیا پھر ان کی گردن پر ایک شخص بکیر بن حمران نامی نے تلوار ماری اور کاٹ دی پھر ان کا سر نور محل کی بلندی سے نیچے پھینک دیا پھر اس کے بعد سارا جسم بھی پھینک دیا پھر ابنِ زیاد نے ہانی بن عروہ کے قتل کرنے کا حکم دیا ان کی گردن بھی "سوق الغنم" میں کاٹ دی گئی اور کوفہ کے ایک مکان میں ان کو لٹکا دیا گیا جسے کناسہ کہا جاتا تھا پھر ابنِ زیاد نے ان کے دوسرے بہت سے ساتھیوں کو قتل کروایا پھر ان کے سر یزید بن معاویہ کے پاس شام کی طرف بھیجے گئے اور اسے ابنِ زیاد نے ایک رقعہ لکھا جس میں ان دونوں کے قتل کیے جانے کے واقعات درج تھے۔ 

البدایہ والنهايه:

وَجَاؤُا بِبَغْلَةٍ فَأَوْكَبُوا عَلَيْهَا وَ سَلَبُوا عَنْهُ سَيْفَهُ فَلَمْ يَبْقَ يَمْلِكُ مِن نَّفْسِهِ شَيْئًا فَبَكَى عِنْدَہ ذَالِكَ وَعَرَفَ أَنَّهُ مَقْتُولٌ فَليْسَ مِن نَّفْسِهِ فَقَالَ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ فَقَالَ بَعْضُ مَنْ حَولَهُ إِنَّ مَنْ يَطْلُبُ مِثْلَ الَّذِی تَطْلُبُ لَا يَبْكِي إِذَا نَزَلَ بِهِ هَذَا فَقَالَ أَمَا وَاللهِ لَسْتُ ابْكِي عَلَى نَفْسِي وَلَكِن ابكی عَلَى الْحُسَيْنِؓ أَنَّهُ قَدْخَرَجَ إِلَيْكُمُ الْيَوْمَ أَوْ أَمْسِ مِنْ مَكَّةَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلى مُحَمَّدِ بْنِ الْأَشْعَثِ فَقَالَ إِنِ اسْتَلَعْتَ أَنْ تَبِعْتَ إِلَى الْحُسَيْنِؓ عَلَى لِسَانِي تَأْمُرُهُ بِالرُّجُوعِ فَافْعَلْ فبعث محمد بن الاشعت إِلَى الْحُسَيْنِؓ يَامُرُهُ بِالرُّجُوعِ فَلَمْ يُصَدِّقِ الرَّسُولُ فِی ذَالِكَ وَقَالَ كُلُّ مَاهَمَّ أَلا لَهُ واقع۔ 

(البدايه والنہايه جلد 8 صفحہ 156 قصه سیدنا حسین بن علیؓ و خروج سبيد مطبوعه بيروت)

ترجمہ:  لوگ ایک خچر لائے اس پر سیدنا مسلم بن عقیلؓ کو سوار کیا ان سے اُن کی تلوار چھین لی آپؓ کے پاس کوئی چیز باقی نہ چھوڑی سیدنا مسلمؓ اس وقت رو دئیے اور جان گئے کہ انہیں شہید کر دیا جائے گا اپنی زندگی سے ناامید ہوگئے اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا قریب سے کسی نے کہا کہ جو شخص وہ چاہتا ہو جو آپ کو مل رہی ہے (یعنی شہادت وہ روتا نہیں اس پر آپؓ نے فرمایا خدا کی قسم میں اپنی ذات پر نہیں رو رہا بلکہ سیدنا حسینؓ اور ان کی آل پر مجھے رونا آرہا ہے وہ آج یا کل تک مکہ سے اِدھر آنے کے لیے چل پڑیں گے پھر سیدنا مسلم بن عقیلؓ نے محمد بن اشعت کی طرف دیکھ کر اسے فرمایا اگر تو کرسکتی ہے تو کسی کو میرا پیغام دے کر سیدنا حسینؓ کی طرف روانہ کر دے کہ واپس تشریف لے جائیں محمد بن اشعث نے ایسے ہی کیا لیکن سیدنا حسینؓ نے پیغام لے جانے کی بات سچی نہ جانی اور فرمانے لگے اللہ جو ارادہ کرلیتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔

 اس حوالہ میں سیدنا مسلمؓ نے محمد بن اشعث کو جو وصیت کی وہ سیدنا عالی مقامؓ کی طرف واپسی کا پیغام پہنچانا تھا اگر سیدنا مسلمؓ کے ساتھ ان کے بیٹے بھی ہوتے تو ان کے بارے میں بھی محمد بن اشعث یا کسی دوسرے کو کچھ نہ کچھ فرماتے مگر یہاں ان کے بارے میں ذکر تک نہیں تو معلوم ہوا کہ سیدنا مسلمؓ کے ساتھ ان کے صاحبزادے نہیں گئے تھے۔

 كتاب الفتوح:

وَلَكِنْ إِنْ عَزَمْتَ عَلَى قَتْلِي وَلَا بُدَّلَكَ مِنْ ذَالِكَ فَاقِم إِلَى رَجُلَ مِنْ قَرْیش أُوصی إِلَيْهِ بِمَا أُرِيدُ فَوثبَ إِلَيْهِ عَمْر ابن سعد بن ابی وقاص فقال أَوص إِلَى بِمَا تُرِيدُ يَا ابْنَ عَقِيلٍؓ فَقَالَ أَوْصِيكَ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللّٰهِ فَإِنَّ التَّقْوَى فِيهَا الدَّرْكُ لِكُلِّ خَيْرٍ وَقَدْ عَلِمْتَ مَا بَيْنِی وَبَيْنَكَ مِنَ الْقَرَابَةِ وَلِي إِلَيْكَ حَاجَةً وَقَدْ يَجِبُ عَلَيْكَ لِقَرَابَتِی أَنْ تَقْضِی حَاجَتِی قَالَ فَقَالَ ابْنُ زِيَادٍ لَا يَجِبُ يَا ابْنَ عُمَرَ انُ تَقْضِى حَاجَةَ ابْنِ عَمِّكَ وَإِن كَانَ مُسْرِفا عَلَى نَفْسِهِ فَإِنَّهُ مَقْتُولُ لَا مَحَالَةٌ فَقَالَ عُمر بن سعد قل ما اجبْتَ يا ابن عقيلؓ فَقَالَ مُسلم رحمه الله حاجتي إِلَيْكَ أَنْ تَشْتَرِي فَرَسِي وَ سَلَاحِي مِنْ ھٰؤلاءِ الْقَوْمِ فَتَبِيعَهُ وَتَقْضِيَ عَنِّي سَبْعَةَ مِأَتِهِ دِرْهَمٍ استدنتها فِي مِصْرِكُمْ وَأَنْ تَسْتَرْهِبَ جُثني إِذَا قَتَلَنِي هَذَا وَتَوَارِينِي فِي التَّرَابِ وَأَنْ تَكْتُبَ إلَى الْحُسَيْنِ بن عَلِيِّؓ أَنْ لَا يَقْدِمَ فَيَنْزِلُ بِهِ ما نَزَلَ۔ (كتاب الفتوح تصنيف احمد بن عاصم الكو في صفحہ 99۔100جلد پنجم مطبوعه حیدرآباد دکن)

ترجمہ: اور اگر تو میرے قتل کا پکا ارادہ کر ہی چکا ہے اور تجھے یقینا ایسا کرنا ہی ہے تو کوئی قریشی میرے پاس بھیج دے تاکہ میں اُسے جو چاہتا ہوں وہ

وصیت کر دوں پس عمر ابنِ سعد بن ابی وقاص جلدی سے اٹھا اور کہنے لگے اے سیدنا ابنِ عقیلؓ جو وصیت کرنا چاہتے ہو مجھے کر دو سیدنا مسلمؓ نے فرمایا میں تجھے اپنے اور تیرے لیے اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں تقویٰ میں ہر بھلائی کے حصول کی طاقت ہے تو بخوبی جانتا ہے کہ میرے اور تیرے درمیان کیا رشتہ ہے مجھے تم سے ایک اور کام ہے اور رشتہ داری کی بنا پر تجھ پہ لازم ہے کہ میری ضرورت کو پورا کرے ابنِ زیاد نے کہا اے ابنِ عمر تجھ پر اپنے چچا زاد بھائی کی حاجت برآری کوئی واجب نہیں ہے اگر اس نے اپنے اوپر زیادتی کی تو بھی اسے ابھی شہید کیا جاتا ہے عمر بن سعد نے کہا اے سیدنا ابنِ عقیلؓ جو چاہتے ہو وہ کہو پس سیدنا مسلم ابنِ عقیلؓ نے فرمایا تیری طرف میری حاجت و ضرورت یہ ہے کہ تو میرا گھوڑا اور میرے ہتھیار اس قوم سے لے کر بیچ ڈال اور تمہارے شہر میں سے میں نے جو سات سو درہم قرض لیے وہ ان پیسوں سے ادا کر دینا اور دوسری بات یہ کہ جب مجھے شہید کر ڈالیں تو میرا جسم ان سے لے لینا اور مٹی میں چھپا دینا اور تیسری وصیت یہ کہ سیدنا حسینؓ کی طرف رقعہ لکھ دینا کہ وہ نہ آئیں کہ ان پر وه آفت نہ آن پڑے جو مجھ پر آن پڑی ہے۔ 

الكامل في التاريخ:

قَالَ فَدَعْنِي أُوصِی إِلى بَعْضِ قَوْمِی قَالَ افْعَلُ فَقَالَ لِعُمر بن سعد إِنَّ بَيْنِی وَبَيْنَكَ قَرَابَةٌ وَلِی إِلَيْكَ حَاجَةٌ وَهِی سِرٌ فَلَمُ يُمْكِنُهُ مِنْ ذِكرِهَا فَقَالَ لَهُ ابن زياد لَا تَمْنَعُ مِنْ حَاجَةِ ابْن عَمِكَ فَقَامَ مَعَهُ فَقَالَ إِنَّ عَلَيَّ بِالْكُوفَةِ دَين اسْتَدَنْتُهَا مُنْذُ قَدِمُتُ الْكُوفَةَ سَبْعَ مِأتَهُ دِرْهَم فَاقضِهَا عَنِّي وَأَنظُرُ حُثتِي فاسْتَوهُبهَا فوَارِهَا وَابْعَثُ إِلَى الْحُسَيْنِؓ مَن يَرُدُّہ۔

 (1۔الكامل في التاريخ جلد چہارم صفحہ 34 ذکر الجز عن راسته الكوفين مطبوعة بيروت)

(2 مقتل سیدنا حسينؓ مصنفه ابو المؤيد خوارزمی صفحہ 212 في مقتل سیدنا مسلم بن عقیلؓ مطبوعه ایران قم)

(3 تاریخ طبری جلد 1 صفحہ 212 سن 60 هجری مطبوعه بيروت)

 ترجمہ: سیدنا مسلمؓ نے ابنِ زیاد کو کہا کہ مجھے اپنی قوم کے کسی آدمی سے وصیت کرنے کی اجازت دے اس نے کہا کیجئے آپؓ نے عمر بن سعد کو فرمایا میرے اور تیرے درمیان رشتہ داری ہے اور مجھے تجھ سے ایک کام ہے اور پوشیدہ بتانے والا ہے لیکن وہ کام نہ بتا سکے اس پر ابنخ زیاد نے کہا اپنے چچا زاد بھائی کی ضرورت پوری کرو وہ اُن کے ساتھ ہو لیا تو سیدنا مسلمؓ نے تنہائی میں فرمایا میں جب سے کوفہ آیا ہوں تو میں نے یہاں کے لوگوں سے سات سو درہم قرض لیے وہ ادا کر دینا اور میرے شہید کیے جانے کے بعد میرا جسم مٹی میں دبا دینا اور کسی کو بھیج کر سیدنا حسینؓ کو واپس لوٹا دینا۔ 

ناسخ التواريخ:

فَقَالَ لَهُ مُسْلِمٌؓ إِنْ قَتَلْتَنِي فَلَقَدْ قَتَلَ مَنْ هُوَ شَرَّ مِنكَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي قَالَ يَا عُمَرُ إِنَّ بَيْنِی وَبَيْنَكَ قَرَابَةٌ وَلِی إِلَيْكَ حَاجَةٌ وَقَدْ يُحِبُّ عَلَيْكَ ونَجُح حَاجَتِی وَهِيَ سِر فَقَالَ أَوَّلُ وَصِيَّتی شَهَادَةٌ أَن لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَإِنَّ عَلِيًّاؓ وَلِيُّ اللهِ الثَّانِيهِ تَبِيعُونَ دِرْعِی هَذَا وَ تُوْفُونَ عَنِى الْف دِرھم اقْتَرَضتُهَا فِي بِلادكُم هذا الثالثة أَنْ تَكْتُبُوا إِلى سَيدِي الْحُسَيْنِؓ أَنْ یرْجِعَ عَنْكُمْ فَقَدْ بَلَغَنِی أَنَّهُ خَرَجَ بِنِسَائِهِ وَأَوْلَادِه فَيُصِيبُه مَا أَصَابَنِي۔

(ناسخ التواريخ جلد 2 صفحہ 98 سیدنس مسلمؓ در مجلس ابنِ زیاد مطبوعه تہران طبع جدید)

ترجمہ: سیدنا مسلمؓ نے ابنِ زیاد کو کہا اگر تو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے تو تحقیق تجھ سے بُرے نے مجھ سے بہتر کو قتل کیا ہوا ہے پھر کہا اے عمر میرے اور تیرے درمیان قرابت ہے اور مجھے تجھ سے ایک ضروری کام ہے وہ پوشیدہ ہے اور تجھے وہ لازماً کرنا ہے فرمایا میری پہلی وصیت یہ ہے کہ اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ کے سواء کوئی معبود برحقیقی نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جناب محمدﷺ اللہ کے خاص بندے اور اس کے رسول ہیں اور بیشک سیدنا علی المرتضیٰؓ اللہ تعالیٰ کے ولی ہیں وصیت یہ ہے کہ تم میری یہ زرہ بیچ کر میرے ایک ہزار درہم ادا کر دینا جو میں نے تمہارے اس شہر کے لوگوں سے لیے ہیں تیسری وصیت یہ ہے کہ سیدنا حسینؓ کی طرف کسی کو بھیج دینا کہ وہ واپس تشریف لے جائیں کیونکہ مجھے پختہ خبر ملی ہے کہ وہ اپنے بال بچوں سیمت آرہے ہیں ایسا نہ ہوکہ انہیں بھی وہی کچھ تکلیف پہنچے جو مجھے پہنچنے والی ہے۔ 

توضیح:

کتابُ الفتوح کی مذکورہ عبارت میں جویہ منقول ہے کہ سیدنا مسلمؓ نے ابنِ زیاد کو کہا میرا گھوڑا اور میرا سامان بیچ کر سات سو درہم کوفیوں کا قرض ادا کر دینا اس کا مطلب یہ ہے کہ میری ان اشیاء کی ان لوگوں سے قیمت لگوا کر خود خرید لینا اور ان دراہم سے میرا قرضہ ادا کر دینا اصل میں خریدنے والے عمر بن معبد اور بیچنے والے سیدنا مسلمؓ ہیں گویا سیدنا مسلمؓ وصیت فرما رہے ہیں اور ناسخ التواریخ میں سیدنا مسلمؓ نے جو یہ فرمایا کہ تجھ سے بُرے نے مجھ سے اچھے کو شہید کیا ہے اس سے مراد سیدنا علی المرتضیٰؓ ہیں اور یہ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ شریر لوگوں کا یہ وطیرہ چلا آرہا ہے کہ وہ اچھے لوگوں کو تنگ کرتے ہیں اور قتل بھی کر دیتے ہیں لہٰذا تجھ سے یہ بات کوئی بعید نہیں کیونکہ تو بھی شریروں میں سے ایک شریر ہے۔ 

خلاصه کلام:

شیعہ سنی دونوں طرف کی کُتب تاریخ میں سیدنا مسلمؓ کی تین عدد وصیات ملتی ہیں۔ (1) قرضہ ادا کرنا (2) شہادت کے بعد میرا جسم لے کر خاک میں دبا کر دفن

دینا (3) کسی کو بھیج کر سیدنا حسینؓ کو واپس جانے کا پیغام پہنچانا ان تین عدد وصیتوں کے علاوہ چوتھی اور کوئی وصیت نظر نہیں آتی اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہر آدمی کو اپنی اولاد عزیز تر ہوتی ہے خود شیعہ ذاکرین و سنی واعظین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سیدنا مسلمؓ کو اپنے بچوں سے انتہائی پیار تھا اسی وجہ سے وہ انہیں بھی کوفہ ساتھ لے آئے تو کیا بچوں سے پیار کا یہی تقاضا ہے کہ جب آخری لمحات میں عمر بن سعد کو اور وصیتیں فرمارہے ہیں بچوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں فرمایا؟ مگر نوحہ خواں مولوی اور ذاکر یوں بیان کرتے ہیں کہ سیدنا مسلمؓ نے آخری وقت قاضی شریح کو وصیت کی کہ میری شہادت کے بعد میرے بچوں کو مدینہ جانے والے قافلہ کے ساتھ کر دینا وغیرہ وغیرہ ان تمام من گھڑت باتوں کا کسی معتبر تاریخ میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا لہٰذا ثابت ہوا کہ سیدنا مسلمؓ کا اپنے ساتھ اپنے بچوں کو کوفہ لانا اور پھر یہاں ان بچوں کے بارے میں سارے قصے کہانیاں سنانا بالکل بے اصل ہیں انہیں نوحہ خوانوں نے خود بنایا اور اپنا کاروبار چمکانے کی خاطر درد ناک لہجہ میں بیان کرتے ہیں۔

سیدنا مسلمؓ کے بچوں کے واقعہ پر مرزا تقی ناسخ التواریخ کا تبصرہ:
ناسخ التواريخ:

 مکشوف بادکه شہادت محمدؓ و ابراہیمؓ پر ہائے مسلمؓ را کمتر در کتاب پیشینیاں دیده ام الا آں کہ عاصم کوفی می گوید گاہے کہ ابنِ زیاد ہانی را محبوس داشت چنانکه مرقوم شد و مسلمؓ از سرائے ہانی بیرون شتافت و شیعان خودرا فراهم کرو تابر دارالاماره جمله افکند پسر ہائے خود رانجانه شریح قاضی فرستاد تادر حمایت اول سلامت مانند دیگر نه نام ایشان یادمی کندونه از شہادت ایشان می گویند ودر جلد ہفدهم اوالم مسطوراست که بعد از قتل حسینؓ چون اہلِ بیت را اسیر کردند پسریائے صغیر مسلمؓ درمیان اسرای بودند ابنِ زیاد ایشان رابگرفت و محبوس نمود شرح شہادت ایشان در کتاب روضتہ الشہداء مسطوراست و اگر صاحب حبیب السیر سخن باختصار میرا ندهم سند بروضة الشہداء میرساند ومن بنده ایں قصه را از روضة الشہداء منتخب میدارم وبرمی نگارم زیر آن که برد سیاقت مؤرخان و محدثان سخن میراند و مانند نوحه گران و سوگواراں مرثیه میخوانند و کلمات فضول که مر ذودعقول است بکارمی بندند اگر چندایں گونه تلفیق و تخمیق از برائے نوحہ گراں زیبا است تابر مردماں بخواند وگریه بستاند لیکن مؤرخ و محدث نتواند از آنچه دست بدست رسیده نکیتے بفزائد یا کلمات برباید الا آنکه ای۔ تواند کرد که سخن نه رسائی را ببلاغت بیان کند و کلام نا پسندیدی را بفصاحت ادا فرمائید۔

(ناسخ التواریخ جلد دوم صفحہ 110 ذکر شہادت محمدؓ و ابراہیمؓ پسر ہائے مسلم بن عقیلؓ مطبوعه تہران) 

ترجمہ:واضح ہو کہ سیدنا مسلمؓ کے صاحبزادے سیدنا محمدؓ و سیدنا ابراہیمؓ کی شہادت کا ذکر میں نے پہلے مصنفین کی کتابوں میں بہت کم پایا مگر عاصم کوفی اسے بیان کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ ابنِ زیاد نے ہانی کو قید میں ڈالا جیسا کہ لکھا جاچکا ہے تو سیدنا مسلمؓ اس کی سرائے سے باہر نکل گئے اور اپنے شیعوں کو دارالامارہ کے قریب جمع کرنا شروع کر دیا اپنے صاحبزادوں کو قاضی شریح کے گھر بھیج دیا تاکہ ان کی حمایت میں سلامتی سے رہیں دوسرے مؤرخین نہ تو ان صاحبزادوں کا نام ذکر کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی شہادت کا واقعہ لکھتے ہیں والم نامی کتاب کی سترہویں جلد میں لکھا ہوا ہے کہ سیدنا حسینؓ کی شہادت کے بعد جب اہلِ بیت کو قیدی بناکر لایا گیا تو سیدنا مسلمؓ کے چھوٹے صاحبزادے ان کے ساتھ قیدی تھے ابنِ زیاد نے انہیں لے لیا اور قید خانے میں ڈال دیا ان کی شہادت کی تفصیل روضة الشہدا میں موجود ہے اگر صاحب حبیب السیر ان کے بارے میں کچھ لکھتا ہے تو وہ بھی روضة الشہداء کی سند سے ہی لکھتا ہے اور میں نے بھی اس قصہ کو روضة الشہداء سے ہی نقل کیا ہے کیونکہ صاحب حبیب السیر ایسی باتیں لکھ دیتا ہے جو مؤرخین و محدثین کے ہاں قابلِ اعتراض ہوتی ہیں اور وہ نوحہ گروں اور سوگواروں کی طرح مرثیہ لکھتا ہے اور ایسے فضول کلام لکھتا ہے جنہیں عقل قطعاً قبول نہیں کرتی اگرچہ نوحہ گروں اور سوگواروں کےلیے جھوٹ موٹ کی باتیں اور گپ شپ مفید ہوتی ہیں تاکہ وہ ان باتوں سے لوگوں کو خوب رُولائیں اور آہ و بکا کا ماحول بنائیں لیکن ایک مؤرخ و محدث ایسا نہیں کر سکتا کہ کسی روایت و حکایت سے خواہ مخواہ اِدھر اُدھر کے نکتے نکالے یا ان میں بعض باتوں کا اضافہ کر دے ہاں اگر وہ بلاغت و فصاحت کے اظہار کے کسی ناپسندیدہ بات کو لکھ دیتے ہیں تو یہ اور بات ہے۔ 

مذکورہ عبارات کا خلاصہ:

 1۔ سیدنا مسلمؓ نے آخری وقت جو وصیتیں فرمائیں اُن میں کیسی کے اندر اپنے بچوں کے بارے میں ایک لفظ تک بھی نہیں ملتا۔

2۔ سیدنا مسلمؓ کے صاحبزادوں سیدنا محمد ابراہیمؓ کی شہادت کا واقعہ معتبر ومتداول کتب تاریخ میں نہیں ملتا۔

3۔ پہلے مؤرخین میں سے صرف عاصم کوفی نے کچھ ان کا تذکرہ کیا وہ بھی نام لیے بغیر لیکن ان کی شہادت کی کوئی بات ذکر نہیں کی۔ 

4۔ شہادت سیدنا حسینؓ کے بعد گرفتار شدہ اہلِ بیت میں سیدنا مسلمؓ کے صاحبزادے بھی تھے جنہیں ابنِ زیاد نے الگ کر لیا۔ 

5۔ روضتہ الشہداء تصنیف ملاحسین کاشفی اور اس کی اتباع میں صاحب حبیب امیری ان دونوں صاحبزادوں کی شہادت کا واقعہ لکھا۔

 6۔ صاحب حبیب السیر کا طریقہ بیان نوحہ خوانی اور سوگواروں کا ہے جیسے محدث اور مؤرخ کے علاؤہ صاحب عقل سلیم بھی درست نہیں سمجھتے۔ 

گویا اصل کتاب اس سلسلہ میں روضتہ الشہداء ہوئی کہ جس نے سب سے پہلے سیدنا مسلمؓ کے صاحبزادوں کا واقعہ لکھا لیکن اس کا انداز تحریر نوحہ خوانوں اور سوگواروں کا نہ تھا یہ طریقہ اس واقعہ میں صاحب حبیب السیر نے اپنایا روضتہ الشہداء کیسی کتاب ہے کن کی ہے اور اس کے مندرجات کس مرتبہ کے ہیں؟ اس کا کچھ ذکر ہم نے روضتہ الشہداء کے تحت کر دیا ہے یہاں صرف ایک شیعہ مصنف کا حوالہ ذکر کر دینا کافی ہے جسے شیعہ لوگ ثقة المؤمنین ناصر الملة والدین وغیرہ القاب سے یاد کرتے ہیں اصل نام شیخ عباس قمی ہے اور متأخرین میں سے ہے وہ اپنی تصنیف منتہی الامال جلد اول صفحہ 551 پر در مذمت غنا و عدمِ جواز غنا کی طب میں لکھتا ہے۔

اہلِ علم اور اہلِ حدیث کے نزدیک ایسے بے اصل واقعات مانند عروسی قاسم کربلا که در کتاب روضته الشهداء تالیف فاضل کاشفی نقل کردہ شدہ یعنی میدانِ کربلا میں سیدنا قاسمؓ کی شادی جیسے بےاصل واقعات ذکر کرنا فاضل کاشفی صاحب روضتہ الشہداء کا من پسند طریقہ ہے شیخ عباس قمی دراصل اس موضوع پر اظہار کر رہا ہے کہ واقعاتِ کربلا میں جھوٹ کی آمیزش اور من گھڑت روایات کس طرح داخل ہوئیں تو چلتے چلتے ان کتابوں میں سے "روضتہ الشہداء" کو لیا کہ یہ بھی من گھڑت واقعات سے بھری پڑی ہے بلکہ اس کی روایات تقریباً ستر فیصد باطل اور جھوٹ پر مبنی ہیں جب اس پہلی کتاب کا یہ حال ہے کر جس نے سیدنا مسلمؓ کے بیٹوں کی شہادت ذکر کی تو پھر اسے حبیب السیر والے نے اور رتک بھر کر لکھا اس سے ہی آگے تمام غیرمحتاط لوگوں نے اس واقعہ کو لکھنا اور بیان کرنا شروع کیا ورنہ اس کی اصل کوئی نہیں۔ 

سوال:

آپ نے سیدنا مسلمؓ کے صاحبزادوں کا آپؓ کے ساتھ کوفہ جانے کا انکار کیا ہے حالانکہ اہلِ سنت کے ایک مشہور عالم صدرالافاضل علامہ مولانا نعیم الدین صاحب مراد آبادیؒ نے ان صاحبزادوں کا اپنے باپ کے ساتھ کوفہ جانا اور وہاں جامِ شہادت نوش فرمانا ذکر کیا ہے اس لیے انکار درست نہیں صدرالافاضل مرحوم کا حوالہ ملاحظہ ہو۔

سوانح کربلا:

چنانچہ یہ لوگ سیدنا مسلمؓ کو بمع ان کے دونوں صاحبزادوں کے عبید اللہ ابنِ زیاد کے پاس لےکر روانہ ہوئے اس بدبخت نے پہلے سے ہی دروازہ کے دونوں پہلوؤں سے اندر کی جانب تیغ زن چھپا کر کھڑے کر رکھے تھے اور حکم دے رکھا تھا سیدنا مسلمؓ دروازہ میں داخل ہوں ایک دم دونوں طرف سے ان پر وار کیا جائے سیدنا مسلمؓ کو ان کی کیا خبر تھی؟ اور آپ اس مکاری اور کتیاری سے کیا واقعت ھے؟ آپ آیت کریمہ"ربنا افتح بيننا و بين قومنا بالحق الخ" پڑھتے ہوئے دروازے میں داخل ہوئے داخل ہونا تھا کہ اشقیا نے دونوں طرف سے تلواروں کے وار کیے اور بنی ہاشم کا مظلوم مسافر اعدائے دین کی بےرحمی سے شہید ہوا انا لله وانا اليه راجعون دونوں صاحبزادے آپ کے ساتھ تھے انہوں نے اس بےکسی کی حالت میں اپنے شفیق والد کا سر ان کے مبارک تن سے جدا ہوتے دیکھا تھا چھوٹے چھوٹے بچوں کے دل غم سے پھٹ گئے اور اس صدمہ میں وہ بید کی طرح لرزنے اور کانپنے لگے ایک بھائی دوسرے بھائی کو دیکھتا تھا اور ان کی سرمگیں آنکھوں میں خون اشک جاری تھے لیکن اس معرکہ ستم میں کوئی ان نادانوں پر رحم کرنے والا نہ تھا ستم گروں نے ان نونہالوں کو بھی تیغ ستم سے شہید کر دیا۔

(سوانحِ کربلا صفحہ 102 مطبوعه فاروق آباد شیخوپور)

جواب:

صدر الافاضلؒ واقعی سنیت کے عظیم لُسن تھے انہوں نے اپنی دینی خدمات سے اہلِ سنت سے مسلک حقہ کو جلا بخشی اس کا کوئی منکر نہیں ہے آپ تفسیر قرآن اور علوم حدیث و فقہ وغیرہ علوم شرعیہ میں کامل دسترس رکھتے تھے جس پر ان کی کتب و حواشی شاہد ہیں لیکن تاریخ ان کا موضوع نہ تھا لہٰذا اس موضوع پر سوانحِ کربلا کے نام سے واقعاتِ کربلا آپ نے لکھ دیئے اور ان میں و تحقیق و تدقیق نہ فرمائی جو دیگر علوم میں آپ کا طرۀ امتیاز ہے اگر کوئی شخص سوالیہ انداز میں پوچھتا کہ سیدنا مسلمؓ کے بچوں کا اصل واقعہ کیا ہے؟ وہ اپنے والد گرامی کے ساتھ کوفہ گئے تھے یا نہیں؟ قاضی شریح کو سیدنا مسلمؓ نے ان کے بارے میں کوئی وصیت فرمائی؟ ان کی شہادت کی حقیقت کیا ہے؟ تو پھر آپ اس کی تحقیق فرما کر اس کا جواب لکھتے لیکن آپ کا سوانحِ کربلا میں بعض واقعات چلتی پھرتی کتابوں سے بغیر تحقیق درج فرما دینا کوئی عقلاً بعید نہیں ہے جیساکہ کُتب صحاح میں بھی کچھ روایات بے اصل موجود ہیں پھر ہم ان واعظین و ذاکرین سے پوچھتے ہیں کہ صدرالافاضل نے جن الفاظ میں ان کا واقعہ شہادت بیان کیا اس میں رُلانے اور پیٹنے پٹانے کا انداز کہاں ہے؟ آپ کی تحریر سے ان نوحہ خوانوں اور رُولانے والوں کے لیے صدر الافاصل کی تحریر سے کچھ نہیں ملتا میں یہ چاہتا ہوں کہ واقعہ کربلا پر لکھی گئی چند کُتب کا صرف نام لکھ دوں ان کی عبارات واقعات ذکر کرنے سے بہت طوالت ہوجائے گی ان کا نام اس لیے ضروری لکھا جاتا ہے کیونکہ یہ اہلِ سنت علماء کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے خود ہمارے لیے نقصان دہ اور شیعوں کے بعض عقائد کی ترجمانی کرتی ہیں اس لیے نامعتبر کتابوں کی نشاندہی ضروری ہونی چاہئیے تاکہ آئندہ نسل کے لیے یہ بات کارآمد ہو اور ان کا کوئی حوالہ پیش بھی کرے تو نامعتبر ہونے کی وجہ سے اُن کے جوابات کے لیے مغزخوری نہ کرنی پڑے۔ 

فاعتبروا يا اولى الابصار: