Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمیؒ کا فتویٰ شان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن و حدیث کی روشنی میں، اور گستاخانِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ اتحاد کرنے کا حکم


حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمیؒ کا فتویٰ

(استاذ دار العلوم دیوبند)

شان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن و حدیث کی روشنی میں، اور گستاخانِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ اتحاد کرنے کا حکم

شان صحابهؓ قرآن كريم ميں: 

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جس مقدس جماعت کا نام ہے وہ اُمت کے عام افراد کی طرح نہیں ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور اکرمﷺ اور امت کے درمیان ایک مقدس واسطہ ہونے کی حیثیت سے ایک خاص مقام و مرتبہ کے مالک ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ امتیاز الله تعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسولﷺ کی جانب سے عطاء ہوا ہے، ذیل میں اس امیتاز و خصوصیت کی تھوڑی سی تفصیل پیش کی جارہی ہے۔

(1) وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ وَاَعَدَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ تَحۡتَهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا‌ ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞ (سورۃ التوبه، آیت نمبر 100)

ترجمہ: اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو ان کے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ اللہ راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے اور تیار کر رکھے ہیں واسطے ان کے باغ کہ بہتی ہیں نیچے ان کے نہریں رہا کریں ان میں ہمیشہ، یہی ہے بڑی کامیابی۔

اس آیت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دو طبقے بیان کئے گئے ہیں، ایک سابقین اولین کا اور دوسرا بعد میں آنے والوں کا، اور دونوں طبقوں کے متعلق یہ اعلان کردیا گیا ہے کہ الله تعالیٰ ان سے راضی اور وہ اللّٰه تعالیٰ سے راضی ہیں، اور ان کے لئے جنت کا مقام و دوام ہے۔

حضرت شاہ عبد العزیزؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جو شخص قرآن پر ایمان رکھتا ہے، جب اس کے علم میں یہ بات آگئی کہ الله تعالیٰ جل شانہ نے بعض بندوں کو دوامی طور پر جنتی فرمایا ہے تو اب ان کے حق میں جتنے بھی اعتراضات ہیں سب ساقط ہوگئے، کیونکہ الله تعالیٰ جل شانہ عالم الغیب ہے وہ خوب جانتا ہے فلاں بندہ سے فلاں وقت میں نیکی اور فلاں وقت میں گناہ صادر ہو گا۔ اس کے باوجود جب باری تعالیٰ جل جلالہ یہ اطلاع دیتا ہے کہ میں نے اسے جنتی بنا دیا تو اس کے ضمن میں اس بات کا اشارہ ہوگیا کہ اس کی تمام لغزشیں معاف کردی گئیں۔ لہٰذا اب کسی شخص کا مغفور بندوں کے حق میں لعن طعن کرنا جناب باری تعالیٰ جل جلالہ پر اعتراض کرنے کے مرادف ہوگا، اس لئے کہ ان حضرات پر اعتراض کرنے والا گویا یہ کہہ رہا ہے کہ یہ بندہ تو گنہگار ہے پھر الله تعالیٰ جل شانہ نے اسے کیسے جنتی بنا دیا، اور ظاہر ہے کہ الله تعالیٰ جل شانہ پر اعتراض کفر ہے۔

(2) وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِيۡكُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰهِ‌ؕ لَوۡ يُطِيۡعُكُمۡ فِىۡ كَثِيۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيۡكُمُ الۡاِيۡمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ وَكَرَّهَ اِلَيۡكُمُ الۡكُفۡرَ وَالۡفُسُوۡقَ وَالۡعِصۡيَانَ‌ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الرّٰشِدُوۡنَۙ ۞ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَنِعۡمَةً  ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ ۞ (سورۃ الحجرات، آیت نمبر 7/8)

ترجمہ: اور جان لو کہ تم میں رسول ہے اللہ کا اگر وہ تمہاری بات مان لیا کرے بہت کاموں میں تو تم پر مشکل پڑے اللہ نے محبت ڈال دی تمہارے دل میں ایمان کی اور کھبا دیا اس کو تمہارے دلوں میں اور نفرت ڈال دی تمہارے دل میں کفر اور گناہ اور نافرمانی کی وہ لوگ وہی ہیں نیک راہ پر اللہ کے فضل سے اور احسان سے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے حکمتوں والا۔

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ بلا استثناء تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں ایمان کی محبت اور کفر و فسق اور نافرمانی سے نفرت و کراہت منجانب الله راسخ کردی گئی تھی۔ اور لفظ الی سے مستفاد ہوتا ہے کہ یہ ایمان کی محبت اور کفر وغیرہ سے کراہت انتہا درجے کو پہنچی ہوئی تھی، کیونکہ الی عربی میں انتہا اور رعایت کا معنیٰ بیان کرنے کیلئے وضع کیا گیا۔ نیز اسی آیت پاک سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جو لغزشیں صادر ہوئی ہیں وہ ضعف ایمان اور فسق و عصیان کو مستحسن سمجھتے ہوئے صادر نہیں ہوئی ہیں بلکہ ان کا صدور تقاضائے بشریت ہوا ہے، اس لئے ان لغزشوں کو بنیاد بنا کر ان حضرات کی شان میں لعن طعن کرنا اور ان کے بارے میں تنقید و تنقیص کا رویہ اختیار کرنا جہالت و زندقہ ہے۔ 

(3) وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَهَاجَرُوۡا وَجٰهَدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا‌ ؕ لَّهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ ۞ (سورۃ الانفال، آیت نمبر 74)

ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور اپنے گھر چھوڑے اور لڑے اللہ کی راہ میں اور جن لوگوں نے ان کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہی ہیں سچے مسلمان، ان کے لئے بخشش ہے اور روزی عزت کی۔

اسی سورت کے شروع میں ارشاد خداوندی ہے

 الَّذِيۡنَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَؕ ۞اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ‌ؕ لَهُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ وَمَغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ‌ۚ ۞ (سورۃ الانفال، آیت نمبر 3/4)

ترجمہ: وہ لوگ جو کہ قائم رکھتے ہیں نماز کو اور ہم نے جو ان کو روزی دی ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ وہی ہیں سچے ایمان والے، ان کے لئے درجے ہیں اپنے رب کے پاس اور معافی اور روزی عزت کی۔

ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ حضرات مہاجرین و انصار کے اعمال ظاہرہ نماز، حج، روزہ، زکوٰۃ، جہاد وغیره قطعی طور پر نفاق و مکر کی بناء پر نہیں تھے، ان کا ایمان الله تعالیٰ جل جلالہ کے نزدیک متحقق و ثابت تھا، اس لئے حضرات کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بالخصوص خلفائے ثلاثہؓ کی جانب نفاق کی نسبت کرنا خدائے بزرگ و برتر کے ساتھ معارضہ کرنا ہے۔

 مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ‌ ؕ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡۖ ‌ تَرٰٮهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًا‌ۖسِيۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ‌ ؕ ذٰ لِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ ۛ ۖۚ وَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ ۛۚ كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ يُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ‌ ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا ۞ (سورۃ الفتح، آیت نمبر 29)

ترجمہ: محمد رسول اللہ کا اور جو لوگ اس کے ساتھ زور آور ہیں کافروں پر، نرم دل ہیں آپس میں تو دیکھے ان کو رکوع میں سجدہ میں ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشی، نشانی ان کی ان کے منہ پر ہے سجدے کے اثر سے یہ شان ہے ان کی تورات میں اور مثال ان کی انجیل میں جیسے کھیتی نے نکالا اپنا پٹھا پھر اس کی کمر مظبوط کی پھر موٹا ہوا پھر کھڑا ہوگیا اپنی نال پر خوش لگتا ہے کھیتی والوں کو تاکہ جلائے ان سے جی کافروں کا وعدہ کیا ہے اللہ نے ان سے جو یقین لائے ہیں اور کئے ہیں بھلے کام معافی کا اور بڑے ثواب کا۔ ؏

امام قرطبیؒ اور عامہ مفسرین کہتے ہیں کہ والذین معہ عام ہے، اس میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین داخل ہیں، اس آیت کریمہ میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت، ان کی پاک باطنی اور مدح و ثنا خود مالک کائنات نے فرمائی ۔

حضرت ابو عروه زبیریؒ فرماتے ہیں کہ ایک دن امام مالکؒ کی مجلس میں ایک شخص کے متعلق یہ ذکر آیا کہ وہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہتا ہے۔ امام مالکؒ نے یہ آیت لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَؕ تک تلاوت کی اور پھر فرمایا کہ جس شخص کے دل میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کے متعلق غیظ ہو وہ اس آیت کی زد میں ہے، یعنی اس کا ایمان خطرہ میں ہے، کیونکہ آیت ہے میں کسی صحابیؓ سے غیظ، کفار کی علامت قرار دی گئی ہے۔

(5) لِلۡفُقَرَآءِ الۡمُهٰجِرِيۡنَ الَّذِيۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِيَارِهِمۡ وَاَمۡوَالِهِمۡ يَبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًا وَّيَنۡصُرُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ‌ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصّٰدِقُوۡنَ‌ۚ ۞ (سورۃ الحشر، آیت نمبر 8)

ترجمہ: واسطے ان مفلسوں وطن چھوڑنے والوں کے جو نکالے ہوئے آئے ہیں اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے ڈھونڈتے آئے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی رضا مندی اور مدد کرنے کو اللہ کی اور اس کے رسول کی وہ لوگ وہی ہیں سچے

(6) وَالَّذِيۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالۡاِيۡمَانَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ يُحِبُّوۡنَ مَنۡ هَاجَرَ اِلَيۡهِمۡ وَلَا يَجِدُوۡنَ فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَيُـؤۡثِرُوۡنَ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ وَلَوۡ كَانَ بِهِمۡ خَصَاصَةٌ ؕ وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَـفۡسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‌ۚ ۞ (سورۃ الحشر، آیت نمبر 9)

ترجمہ: اور جو لوگ جگہ پکڑ رہے ہیں اس گھر میں اور ایمان میں ان سے پہلے سے وہ محبت کرتے ہیں اس سے جو وطن چھوڑ کر آئے ان کے پاس اور نہیں پاتے اپنے دل میں تنگی اس چیز سے جو ان (مہاجرین) کو دی جائے اور مقدم رکھتے ہیں ان کو اپنی جان سے اور اگرچہ ہو اپنے اوپر فاقہ اور جو بچایا گیا اپنے جی کے لالچ سے تو وہی لوگ ہیں مراد پانے والے

 (7) وَالَّذِيۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَـنَا وَلِاِخۡوَانِنَا الَّذِيۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِيۡمَانِ وَلَا تَجۡعَلۡ فِىۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ ۞ (سورۃ الحشر، آیت نمبر 10)

ترجمہ: اور واسطے ان لوگوں کے جو آئے ان کے بعد کہتے ہوئے اے رب بخش ہم کو اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے داخل ہوئے ایمان میں اور نہ رکھ ہمارے دلوں میں بیر ایمان والوں کا اے رب تو ہی ہے نرمی والا مہربان۔ ؏

ان آیات میں اللّٰه تعالیٰ جل شانہ نے عہد رسالتﷺ کے تمام موجود اور آئندہ آنے والے مسلمانوں کو تین کے طبقوں میں تقسیم کر کے ہر طبقہ کا الگ الگ ذکر کیا ہے۔

پہلا مہاجرین کا طبقہ ہے جنہوں نے محض الله تعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسولﷺ کے لئے ہجرت کی کسی دنیوی فرض کے لئے ان کی ہجرت نہیں تھی جیسا ک خود الله تعالیٰ جل شانہ ان کی شان میں فرما رہے ہی اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ۔ یعنی یہ حضرات اپنے قول ایمان اور فعل ہجرت میں سچے ہیں۔

دوسرا طبقہ حضرات انصار کا ہے جن کے صفات بیان کرتے ہوئے الله تعالیٰ جل شانہ نے فرمایا ہے کہ یہ مہاجرین سے محبت رکھتے ہیں اور ان پر حسد نہیں کرتے ہیں۔ ان صفات کے ذکر کرنے کے بعد فرمایا فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

تیسرا طبقہ ان مؤمنین کا ہے جو مہاجرین و انصار کے بعد قیامت تک آنے والا ہے، اس طبقے کے بارے میں فرمایا کہ یہ مہاجرین وانصار کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں، اور اس بات کی بھی دعا کرتے ہیں کہ اے الله تعالیٰ ہمارے دلوں میں ان کی طرف سے کینہ و عداوت نہ ڈالئے، یقیناً آپ مہربان اور رحمت کرنے والے ہیں، لہٰذا اپنے فضل و رحمت سے ہماری دعا قبول کر لیجئے۔

ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ فلاح پانے والے وہی لوگ ہیں جو حضرات مہاجرین سے محبت رکھتے ہیں اور ان کی شان میں طعن و تشنیع نہیں کرتے، کیونکہ طعن و تشنیع تقاضائے محبت کے خلاف ہے، جس سے معلوم ہوا کہ خلفائے اربعہ جو مہاجرین اولین میں یقینی طور پر شامل ہیں کی محبت فلاح کی ضامن اور ان سے بغض و عناد کسر ان کا سبب ہے۔

اسی طرح تیسری آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کیلئے دعائے خیر کرتے ہیں اور ان کے سے بغض و عناد کو برا سمجھتے ہوئے اس سے محفوظ رہنے کی بارگاہ خداوندی میں دعا کرتے ہیں، وہی زمرہ مؤمنین میں داخل ہیں، اس کے برعکس جو گروہ اس مقدس جماعت سے محبت کے بجائے عداوت رکھتا ہے اور ان کے حق میں دعائے خیر کے بجائے لعن وطعن کی زبان دراز کرتا ہے وہ اہل اسلام کے زمرے سے خارج ہے، کیونکہ ان آیات میں مستحقین غنیمت کے جن تین طبقوں کا الله تعالیٰ جل شانہ نے ذکر فرمایا یہ لعن و طعن کرنے والے، ان سے خارج ہیں۔ 

اس موقع پر بغرض اختصار ان پانچ آیات پر اکتفا کیا جا رہا ہے ورنہ قرآن مجید میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل و مناقب سے متعلق سینکڑوں آیات موجود ہیں۔

شان صحابهؓ حديث شریف میں:

حضور اکرمﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بالخصوص حضرات خلفائے ثلاثہؓ سیدنا صدیقِ اکبرؓ سیدنا فاروقِ اعظمؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ کے فضائل و مناقب و خصوصیات اس کثرت و شدت اور تواتر و تسلسل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں کہ ان سب کو جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

لہٰذا ان بے شمار احادیث میں سے چند کو یہاں نقل کیا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلے اُن احادیث کو پیش کیا جائے گا جن سے پوری جماعت صحابہؓ کی منقبت و فضیلت ثابت ہوتی ہے، پھر خلفائے ثلاثہؓ کے فضائل میں وارد احادیث ذکر کی جائیں گی۔

(1) عن جابرؓ قال قال رسول اللهﷺ ان الله اختار اصحابي على الثقلين سوى النبيين والمرسلين حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ حضرات انبیاء ومرسلین علیہم السلام کے علاؤہ الله تعالیٰ نے میرے اصحاب کو تمام انسانوں و جناتوں پر فضیلت دی ہے۔

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ تمام حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین الله تعالیٰ جل شانہ کے منتخب و برگزیدہ ہیں، نبیوں اور رسولوں علیہم السلام کے بعد انسانوں اور جناتوں میں سے کوئی بھی ان کے مقام و مرتبہ کو نہیں پاسکتا۔

(2) عن انسؓ قال قال رسول الله اصحابى فى امتى كالملح في الطعام لا يصلح الطعام الا بالملح حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں میرے صحابہؓ کا مقام ایسا ہے جیسے کھانے میں نمک، کہ کھانا بغیر نمک کے بہتر نہیں ہوتا۔

اس ارشاد عالیہ کے ذریعہ حضور اکرمﷺ نے اُمت مسلمہ کے سامنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اہمیت ایک مثال کے ذریعہ سے واضح فرمائی ہے کہ جس طرح لذیذ سے لذیذ تر کھانا بے نمک کے پھیکا اور بے مزہ ہوتا ہے، بعینہ یہی حال امت کا ہے کہ اس کی اصلاح و فلاح اور اس کا تمام شرف و مجد انہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس جماعت کا مرہون منت ہے، اگر اس جماعت کو درمیان سے الگ کر دیا جائے تو اُمت کے سارے محاسن و فضائل بےحیثیت ہو جائیں گے۔ ان کے دو حدیثوں کے بعد وہ احادیث نقل کی جارہی ہیں جو خاص طور پر خلفائے ثلاثہؓ کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں۔

(1) حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ و فاروقِ اعظمؓ نبیوں اور رسولوں کے علاؤہ درمیانی عمر کے تمام اگلے و پچھلے جنتیوں کے سردار ہیں۔

اس حدیث شریف سے صاف طور پر ثابت ہو گیا کہ حضور اکرمﷺ کے بعد سیدنا صدیقِ اکبرؓ و سیدنا فاروقِ اعظمؓ تمام لوگوں سے افضل ہیں۔ یہی بات قرآن مجید اور دیگر احادیث نبوی، آثار صحابہؓ و تابعین سے بھی ثابت ہے۔ اور اسی پر اہلِ سنت و الجماعت کا اجماع ہے۔ 

(2) ایک حدیث شریف میں حضور اکرمﷺ نے فرمایا میرے بعد ابوبکرؓ و عمرؓ کی اقتداء کرو کیونکہ یہ دونوں الله تعالیٰ کی دراز شدہ رسی ہیں، جس نے ان دونوں کو پکڑ لیا اس نے مضبوط حلقہ تھام لیا۔

اس سے معلوم ہوا کہ حضرات شیخینؓ کا طریقہ معیار دین ہے اور ان کے طریقے پر چلنا در حقیقت دین اسلام پر چلنا ہے۔

(3) ایک موقع پر حضورﷺ نے ارشاد فر مایا بیشک الله تعالیٰ نے حق کو عمر کے زبان اور دل پر رکھ دیا ہے۔

(4) حضور اکرمﷺ نے فرمایا ہر نبی کیلئے جنت میں ایک ساتھی ہے اور میرے جنت کے رفیق عثمانؓ ہے۔

اس حدیث شریف سے سیدنا عثمان غنیؓ کا نہ صرف جنتی ہونا ثابت ہوتا ہے بلکہ ان کی بلندی درجات پر بھی یہ حدیث شریف دلالت کر رہی ہے۔

(5) امام احمدؒ اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب حضور اکرمﷺ نے لشکر کی تیاری اور سامانِ جنگ کی فراہمی کا کام شروع فرمایا تو سیدنا عثمان غنیؓ نے ایک ہزار اشرفی لے کر خدمت نبویﷺ میں حاضر ہوئے اور حضور اکرمﷺ کی گود مبارک میں ڈال دیا۔ راوی حدیث بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُس وقت دیکھا کہ حضور اکرمﷺ مسرت سے ان اشرفیوں کو الٹ پلٹ رہے تھے، اور زبان وحی ترجمان پر یہ الفاظ جاری تھے ماضر عثمان ما عمل بعد اليوم مرتین عثمان آج کے بعد جو کام بھی کریں گے وہ ان کیلئے مضرت رساں نہیں ہو گا، حضور اکرمﷺ نے اس جملہ کو بطور تاکید دو مرتبہ فرمایا۔

اس حدیث پاک میں سیدنا عثمان غنیؓ کے صدقہ کی قبولیت کی بشارت کے ساتھ ان مخالفین اور ناقدین کے خیالات کی تردید بھی فرمادی گئی ہے جو مفسدین کی افتراء پروازیوں سے متاثر ہو کر یا اپنی کجروی کے زیر اثر سیدنا عثمان غنیؓ کی شان اقدس میں طعن و تشنیع کرتے ہیں۔

جس کا حاصل یہ ہے کہ سیدنا عثمان غنیؓ ان تمام اتہامات سے پاک اور بَری ہیں جو معاندین ان پر ناحق تھوپ رہے ہیں، لیکن بالفرض یہ باتیں اگر کسی حد تک ثابت بھی ہوجائیں تو آپ کی عظمت شان اور کثرت طاعات کی بنا پر کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گی۔

الله تعالیٰ جل شانہ اور حضور اکرمﷺ کے ان فرمودات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان و اخلاص اور فضائل و مناقب کی جو تصویر پیش کی گئی ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے اُن قدسی صفات ہستیوں کے بارے میں خمینی کی ہرزہ سرائیوں کو ایک بار پھر پڑھ جائیں، اس کے بعد خود فیصلہ کیجئے کہ قرآن و حدیث کے علی الرغم جس فرد یا جماعت کے خیالات و عقائد حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق اس طرح کے ہوں، کیا ایمانی تقاضوں کو باقی رکھتے ہوئے ایک لمحہ کیلئے بھی اس کے ساتھ۔ اتحاد عمل ممکن ہے؟ اور کیا اس کے عسکری اور فوجی غلبہ کو اسلامی انقلاب کہنا درست ہے؟

صحابہ کرامؓ کی تنقیص کرنے والوں کا حکم:

(1) اصطخریؒ بیان کرتے ہیں کہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا اے ابوالحسن! جب تم کسی کو دیکھوں وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر برائی سے کرتا ہے تو اس کے اسلام کو مشکوک سمجھو۔

(2) عمدة المفسرین محقق ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں کہ عذاب الیم ہے اُن لوگوں کیلئے جو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا ان میں سے بعض سے بغض رکھے یا انہیں برا بھلا کہے، ایسے لوگوں کا ایمان بالقرآن سے کیا واسطہ جو ان حضرات کو بُرا کہتے ہیں۔ جن سے الله تعالیٰ جل شانہ نے راضی ہونے کا اعلان کر دیا۔

(3) علامہ ابنِ تیمیہؒ اپنی مشہور تصنیف الصارم المسلوم میں لکھتے ہیں کہ قاضی ابو یعلی نے کہا ہے کہ اس پر تمام فقہائے کرام متفق ہیں کہ جو شخص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی برائی کو حلال و جائز سمجھتے ہوئے ان کی برائی کرے وہ کافر ہے اور جو حلال نہ سمجھتے ہوئے انہیں برا بھلا کہے وہ فاسق ہے۔

(4) علامہ ابنِ ہمام حنفیؒ لکھتے ہیں کہ جو سیدنا علیؓ کو خلفائے ثلاثہؓ (سیدنا صدیقِ اکبرؓ سیدنا فاروقِ اعظمؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ) پر فضیلت دے وہ بدعتی ہے اور جو شخص سیدنا صدیقِ اکبرؓ یا سیدنا فاروقِ اعظمؓ کی خلافت کا انکار کرے وہ کافر ہے۔

(5) فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ رافضی جب شیخینؓ کو برا بھلا اور لعن طعن کرتا ہو تو کافر ہے اور اگر سیدنا علیؓ کو سیدنا صدیقِ اکبرؓ پر فضیلت دیتا ہے تو کافر نہیں ہو گا، ہاں اس صورت میں وہ بدعتی قرار پائے گا۔

(6) حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے تنقیص صحابہؓ کے متعلق ایک نہایت قیمتی اور قابل قدر نکتہ تحریر فرمایا جو قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے اس نکتہ پر یہ بحث ختم کی جاتی ہے، لکھتے ہیں کہ اس موقع پر یہ نکتہ سمجھ لینا چاہئے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی برائی اور ان کی شان میں لعن طعن اس وجہ سے سے حرام و کفر ہے کہ طعن کا سبب یعنی گناہ اور کفر ان بزرگوں میں پائے نہیں جاتے اور تعظیم و توقیر اور تعریف و توصیف کے اسباب ان حضرات انبیاء کرام علیہم السلام میں پورے طور پر موجود ہیں اور جب مسلمانوں میں کوئی ایسی جماعت ہو جس کے اندر تعظیم کے اسباب موجود ہوں اور اس کے گناہوں کی مغفرت نص قرآنی سے ثابت ہو گئی ہو تو یقینی طور پر اس جماعت کی برائی، اہانت اور تحقیر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی اہانت تحقیر کے حکم میں ہو گی، بس صرف فرق یہ ہو گا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام میں اسباب تحقیر سرے سے موجود نہیں ہیں اور اس جماعت میں یہ اسباب پائے جانے کے بعد ختم ہو گئے، گناہوں کے وجود کے بعد ان کا (مغفرت وغیرہ کے ذریعہ) معدوم اور ختم ہوجانا معدوم اصلی کے حکم میں ہے (یعنی مغفرت کے بعد مغفور ایسا ہو جاتا ہے گویا کہ سرے سے گناہ سرزد ہی نہیں ہوا ہے) اس بنا پر گناہ سے توبہ کر لینے والے کو اس گناہ پر عار دلانا حرام ہے۔

اور پوری امت میں صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ مرتبہ حاصل ہے کہ ان کے گناہوں کی مغفرت اور بخشش کا قطعی اور یقینی علم ہمیں وحی ربانی اور کلام الٰہی سے معلوم ہو گیا ہے، اور ان کی طاعات (عبادات) کی قبولیت اور ان کے اعمال کے ساتھ الله تعالیٰ جل شانہ کی رضا کا تعلق بھی متیقین ہوچکا ہے۔ لہٰذا حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تنقیص، اہانت اور ان کی برائی حرام و کفر ہو گی۔

علمائے امت کی ان تصریحات کے آئینہ میں خمینی اور ان کے ہم نواؤں کو اپنا چہرہ دیکھنا چاہئے، کیا اسلام کے اولین فدا کاروں اور محبوب رب العالمین کے جان نثاروں کو (العیاذ بالله) منافق و مرتد، خائن و غدار کہنے والوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ ثورة اسلاميه لا شيعة ولا سنية كا منافقان نعرہ بلند کریں؟ نیز اسلامی جماعتوں کے ان مفکروں کو بھی ان تصریحات کی روشنی میں اپنے زاویہ فکر و نظر کو درست کرلینا چاہئے جو آج بھی کعبۃ الله کے تقدس کو پامال کرنے والے خمینیوں کو شہید کی اعزازی ڈگری دے رہے ہیں۔

حاصل بحث:

اب تک کی بیان کردہ تفصیلات سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ خمینی اور ان کی جماعت، وحدانیت، رسالت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق جن عقائد و نظریات کی پابند ہے وہ قرآن کریم، احادیث نبوی اور جمہور امت کے چودہ سو سالہ متوارث عقیدے کے بالکل متضاد اور مخالف ہیں، نیز جس قسم کی بدعات اور خرافات پر وہ عمل پیرا ہے اُن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس لئے بصورتِ موجودہ عام امت کا ان سے اتحاد کسی بھی طرح ممکن نہیں، بلکہ اس کے بر عکس علمائے اسلام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خمینی اور ان کی جماعت کے اسلام مخالف عقائد و نظریات سے اُمت مسلمہ کو واقفیت بہم پہنچائیں اور ان کے باطل عقائد کی بنیاد پر شریعت کا ان کے بارے میں جو فیصلہ ہے، اس کا پوری وضاحت کے ساتھ اظہار فرما دیں تاکہ ملت اسلامیہ ان کے پُر فریب پروپیگنڈوں سے متاثر ہو کر اسلام کی سیدھی راہ سے بھٹک کر خمینیت کی بھول بھلیوں میں نہ پھنس جائے۔

(خمینیت حصر حاضر کا عظیم فتنه، صفحہ 79)