Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اوراق غم مصنفہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری:

  محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحب

اوراقِ غم مصنفہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری:

اس کتاب کے مصنف علامة الدهر محسن اہلِ سنت شیخ الحدیث و التفسير سید دیدار علی شاہ صاحب نور اللہ مرورۃ کے بڑے صاحبزادے ابو الحسنات سید محمد احمد صاحب ہیں ان کے چھوٹے بھائی فقیہ اعظم اور مفتی اعظم ابو البرکات محمد احمد صاحب ہیں اس گھرانے نے خطہ پنجاب میں خصوصاً اہلِ سنت کے عقائد و نظریات کی جڑیں مضبوط فرمائیں جید علماء پیدا کیے جن میں سے ایک کم ترین راقم الحروف محمد علی عفا اللہ عنہ بھی ہے اس گھرانے کی خدمات پر دنیائے سنیت ان کے احسانات نہیں بھول سکتی دونوں بھائی اکابر علماء اور افاضل میں شمار ہوئے تھے لیکن صاحبِ اوراقِ غم سید محمد احمدؒ کا زیادہ رجحان سیاست اور خطابت کی طرف تھا اسی رحجان کی وجہ سے اوراقِ غم میں بہت سی باتیں واعظانہ رنگ میں لکھ دیں جو عقائد اہلِ سنت کو مجروح کرتی ہیں اسی لیے جب قبلہ استادی المکرم مفتی اعظم قبل ابوالبرکاتؒ نے اس کی عبارات کو پڑھا تو سخت مغموم ہوئے اور اس کے مندرجات کی مخالفت کی بہرحال قبلہ ابو الحسنات کے سنی ہونے میں تو کوئی شک نہیں اور ان کی خدمات سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں جہاد کشمیر اور دیگر مختلف مواقع پر ان کی خدمات اہلِ پاکستان کو ہمیشہ یاد رہیں گی میرا مقصد اس وقت صرف یہ ہے کہ "اوراقِ غم" چونکہ غیر محتاط اور واعظانہ طریقہ پر لکھی گئی اس کا اکثر حصہ"خاکِ کربلا" سے ملتا جلتا ہے بلکہ بعض مقامات پر تو اس سے بھی بڑھ کر رُولانا اور چیخنے چلانے کا رنگ بھر دیا گیا ہے اس کتاب کا صرف ایک واقعہ نقل کرتا ہوں جس سے آپ میری تائید کریں گے اور مقصد صرف یہ ہے کہ کوئی شیعہ اپنے مذموم عقائد و اعمال کو ثابت کرنے کے لیے یہ نہ کہے کہ دیکھو تمہارے ایک بہت بڑے سنی عالم نے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے"اوراقِ غم" کی عبارات ہم اہلِ سنت کے خلاف حجت نہیں ہیں۔

   اوراقِ غم:

 سیدنا قاسم ابنِ حسنؓ کی کربلا میں شادی کا افسانه:

سیدنا حسنؓ نے وقت رحلت لکھ کر دیا تھا اور کہا تھا کہ بیٹا (سیدنا قاسمؓ اسے بازو پر باندھے رہو جب تمہیں سخت سے سخت فکر اور اشد ترین مصیبت نظر آئے تو اسے کھول کر پڑھنا اللہ اس پریشانی کو دور کر دے گا (سیدنا قاسمؓ نے سوچا اس مصیبت اور پریشانی سے بڑھ کر اور کون سی پریشانی ہوگی جو آنے والی ہے تعویذ کھولا دیکھا کہ سیدنا حسنؓ کے قلم مبارک کا ایک حکم ہے جس کا مضمون یہ ہے بیٹا سیدنا قاسمؓ جب تمہارے چچا کربلا میں شکار بلاؤ مصائب بنیں تو ان پر فدا ہو جانا اور اپنی جان صدقے کر دینا کہ تمہارے لیے ذریعہ سعادت ہوگی آپ اس کو پڑھتے ہی خوش ہوگئے اور اس نام کو لے کر خدمت سیدنا حسینؓ میں پہنچے اور عرض کی چچا جان اب تک اگر اجازت نہ دی تھی تو اب آپؓ کو اجازت دینی ہی پڑے گی یہ نامہ ملاحظہ فرمائیں سیدنا حسینؓ نے نامہ ہاتھ میں لیا تو دیکھتے ہی اپنے بھائی سیدنا حسنؓ کو یاد کر کے رونے لگے مضمون پڑھ کر فرمانے لگے اچھا بیٹا سیدنا قاسمؓ اب تم ضرور وصیت پر عمل کرو گے مگر ذرا ٹھہرو ایک وصیت مجھے یاد ہے اس کی تعمیل اب تک نہ کرسکا ہوں چنانچہ آپ سیدنا قاسمؓ کو لے کر خیمہ میں تشریف لائے اور جامه عروسی زیب تن کرایا اور اپنی صاحبزادی کا عقد اُن سے فرمایا اور پھر فرمایا بیٹا یہ تمہارے باپ کی امانت تمہارے سپرد ہے یہ کہہ کر باہر تشریف لائےسیدنا قاسمؓ دلہن کا ہاتھ تھامے ان کا منہ تکتے رہے کہ تھوڑی دیر میں لشکر سعد سے مبازر طلبی ہوئی آپؓ نے ہاتھ چھوڑ کر عزم میدان فرمایا دلہن نے دامن تھام لیا اور عرض کی۔

بگو کز زمین چرا می روی 

مرا می گزاری چرامی روی

(یعنی میرے قریب سے جا رہے ہو اور مجھے یہیں چھوڑ رہے ہو کیوں؟) 

سیدنا قاسمؓ نے فرمایا اے نور دیدہ عم مکرم میدان کارزار میں جا رہا ہوں اور تمہارے باپ پر فدا ہوکر عنقریب آرہا ہوں تمہارے میرے رشتے کا لطف قیامت کے دن آئے گا دلہن نے عرض کی قیامت کے دن آپ مجھے کہاں ملیں گے آپؓ نے فرمایا تمہارے باپ دادا کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور اپنی آستین کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر دیا کہ اس طرح وہاں میری آستین بریدہ دیکھنا اس کے بعد سیدنا قاسمؓ کی روانگی کے صدمہ نے اہلِ بیت حرم کو بے تاب کر دیا اس طرح رو رو کر سب کہنے لگے قاسما ایں چہ ظلم و بیدا دلیست ایں نہ آئین و رسم و دامادی است۔

 ( اے سیدنا قاسمؓ یہ کیسا ظلم ہے یہ قاعدہ اور رسمِ دامادی نہیں ہے)

(اوراقِ غم صفحہ 249-250 مطبوعہ رضوی کتب خانہ سرکلر روڈ اردو بازار لاہور) 

اوراقِ غم کی عبارت کا جائزہ:

مصنف مرحوم نے سیدنا حسنؓ کے صاحبزادے کی شادی کا ذکر کیا اور ان کی دلہن سیدنا حسینؓ کی صاحبزادی کو بنایا ہم گزشتہ اوراق میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ سیدنا حسینؓ کی صرف دو صاحبزادیاں تھیں سیدہ فاطمہؓ اور سیدہ سکینہؓ سیدہ فاطمہؓ کی شادی سیدنا حسنؓ کے بیٹے سیدنا حسن مثنیٰؓ سے اور سیدہ سکینہؓ کی شادی انہی کے فرزند سیدنا عبید اللہؓ سے واقعہ کربلا سے پہلے ہی ہوچکی تھی قابل غور یہ بات ہے کہ تیسری صاحبزادی کہاں سے آگئی کہ جس کا نکاح میدانِ کربلا میں پڑھا جا رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ قصہ از اول تا آخر من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی ہے سنی تو سنی شیعہ بھی اسے تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس شادی کی وہ بھی سخت تردید کرتے ہیں پھر اس واقعہ میں استعمالی کلمات تو دیکھیں کہ سیدنا حسینؓ جامۂ عروسی وہ مدینہ منورہ سے ساتھ لے کر آئے تھے ایسی شادی کا کیا فائدہ کہ جس کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے اور قیامت کے وعدے پر بات ختم ہوگئی یہ واقعہ سراسر اخترالی ہے جو رُونے رُلانے کے لیے گھڑا گیا ہے مشہور شیعہ مؤرخ صاحب ناسخ التواریخ اس واقعہ کے بارے میں لکھتا ہے۔

ناسخ التواريخ:

ذکر سیدنا حسن مثنیٰؓ کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا حسن مثنیٰؓ نے کربلا کے دن ابنِ سعد کے شکر کے ساتھ جہاد کیا اور کثیر زخم کھائے اور شہیدوں کے درمیان گر پڑے جبکہ سر تنوں سے جدا تھے اس وقت سیدنا حسن مثنیٰؓ کے جسم میں ابھی کچھ جان باقی تھی اسماء بن خارجه بن عتبہ بن حسین بن حذافہ بن البدر فزاری جس کی کنیت ابو حسان تھی اس نے سیدنا حسن مثنیٰؓ کے بارے میں سفارش کی کہ تم اس کو چھوڑ دو میں خود اس کو پیش کر دوں گا یہ ابو حسان کی سفارش اس لیے تھی کہ سیدنا حسنؓ کی والدہ سیدہ خولہ دختر منظور قبیلہ فزارہ سے تھیں جب عبید اللہ بن زیاد کو اس واقعہ کا علم ہوا اس نے کہا ابوحسان کو بھتیجا دیدو لہٰذا ابوحسان سیدنا حسنؓ کو کوفہ میں لے آئے اس کا علاج کیا یہاں تک کہ وہ صحت یافتہ ہوگئے پھر سیدنا حسن مثنیٰؓ مدینہ تشریف لے آئے مذکورہ حوالہ سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ حدیث دامادئ سیدنا قاسم بن حسنؓ درد کربلا ترویج کردن حسینؓ فاطمہؓ را باوازا کاذیب روایت است حسنؓ راوو دختران را فزوں نہ بو دے یکے فاطمہؓ زوجہ حسنؓ مثنیٰ وآں دیگرے سکینهؓ بود بعض گویندا ورا دختر دیگر بود که زینبؓ نام داشت و اگر با غبارنا استوار متوصل شوند که اور فاطمہؓ دیگر بودو مابنپر پریم خواهیم گفت که او فاطمهؓ صغریٰؓ است و أود در مدینہ جائے واشت اور انتواں و قاسم بن حسنؓ بست۔ ( ناسخ التواریخ در احوال سید الشہداءؓ جلد دوم صفحہ 222 تا 224 ذکر حال سیدنا حسن مثنیٰؓ مطبوعه تہران)

ترجمہ: سیدنا قاسم بن حسنؓ کو سیدنا حسینؓ کا اپنا داماد بنانا اور سیدہ فاطمہؓ نامی لڑکی کا ان سے عقد کرنا میدانِ کربلا میں جھوٹی روایت ہے سیدنا حسینؓ کی صرف دو صاحبزادیاں ہیں ایک سیدہ فاطمہؓ جن کی شادی سیدنا حسن مثنیٰؓ سے ہوئی اور دوسری سیدہ سکینہؓ تھی بعض کہتے ہیں کہ ان کی ایک اور صاحبزادی سیدہ زینب نام کی تھی اور اگر غیر معتبر روایات سے یہ ثابت بھی ہو جائے کہ سیدنا حسینؓ کی ایک تیسری صاحبزادی تھی ہم اسے قبول بھی کرلیں اور اسے سیدہ فاطمہ صغریٰؓ کہا جائے جو مدینہ منورہ ہی پیچھے رہ گئی تھیں تو پھر اس کا سیدنا قاسمؓ کے ساتھ نکاح کس طرح ہوگیا؟ 

قارئین کرام ناسخ التواریخ کی مذکورہ عبارت کا کچھ ترجمہ تھا اور خاص مقصد کے لیے جو اصل عبارت تھی وہ فارسی میں ہی ذکر کی گئی ہے صاحب ناسخ التواریخ نے ایک تو یہ ثابت کیا ہے کہ سیدنا عالی مقامؓ کی صرف دو صاحبزادیاں تھیں اور دوسری بات یہ لکھی کہ اگر تیسری صاحب زادی مان بھی لی جائے اوراس کا نام صُغریٰ بھی تسلیم کر لیا جائے اور اسے مدینہ منورہ ہی پچھے رہ جانا تسلیم کر لیا جائے تو ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے سیدنا عالی مقامؓ نے ان کا نکاح سیدنا قاسم بن محمدؓ کے ساتھ کیا یہ کس طرح درست ہوسکتا ہے؟ اس لیے سیدنا قاسم بن حسنؓ کی شادی کو ایک جھوٹ اور ناممکن عمل قرار دیا اصل حقیقت یہ ہے کہ سیدنا حسن مثنیٰؓ نے سیدنا حسینؓ کے ساتھ میدانِ کربلا میں یزیدیوں کے ساتھ جہاد کیا ان کی زوجہ سیدہ فاطمہؓ بھی کربلا میں موجود تھیں اسی سیدہ فاطمہؓ کو اگر سیدہ فاطمہ صُغریؓ کہا جائے تو ان کے خاوند یعنی سیدنا حسن مثنیٰؓ کے ہوتے ہوئے کسی اور سے سیدنا حسینؓ کا نکاح کر دینا کس قدر بہتان عظیم ہے اور اگر کوئی بدبخت یہ کہے کہ سیدنا حسن مثنیٰؓ کے ہوتے ہوئے سیدنا قاسمؓ سے سیدنا حسینؓ کا نکاح کردیا تو کس قدر بہتان عظیم ہے اور اگر کوئی بدبخت یہ کہے کہ سیدنا حسن مثنیٰؓ کی وفات کے بعد یہ نکاح ہوا یہ بھی غلط ہے کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ سیدنا حسن مثنیٰؓ واقعہ کربلا کے بعد کافی عرصہ تک زندہ رہے یعنی 37 سال تک کیونکہ ان کا وصال 97 ھ میں ہوا۔

( عمدۃ الطالب کے حاشیہ پر صفحہ 10 پر ذکر سیدنا حسن مثنیٰؓ)

 اور سیدنا قاسمؓ کی شہادت کربلا میں ہوئی تو جب سیدنا قاسمؓ سیدنا حسن مثنیٰؓ کی موجودگی میں شہید ہوئے تو پھر الٹا یہ کہنا کہ سیدنا حسن مثنیٰؓ کے وصال کے بعد سیدنا قاسمؓ کی سیدہ فاطمہ صغریٰؓ سے شادی ہوئی کتنا بڑا جھوٹ اور صریح بہتان ہے اور پھر کمال ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے ان باتوں کی نسبت سیدنا عالی مقامؓ کی طرف کی جارہی ہے ان اکاذیب کا جواب ان سنی واعظین وغیرہ محتاط مصنفین کے ساتھ ساتھ سیدنا حسینؓ کی محبت میں مرنے والے شیعہ ذاکرین کو رب کے حضور کل قیامت کو ضرور دینا پڑے گا انہی اکاذیب کے پیش نظر مرزا تقی مزید لکھتا ہے کہ اگر سیدہ فاطمہ صغریٰؓ مدینہ میں تھیں اور سیدنا قاسمؓ میدانِ کربلا میں تھے دونوں کا نکاح سیدنا حسینؓ نے باندھا یہاں تک تو بات بنتی نظر آتی ہے لیکن نکاح کے بعد سیدنا قاسمؓ اپنی بیوی کا ہاتھ تھامے کربلا میں کھڑے ہیں یہ بیان کیا جاتا ہے تواس کا صاف صاف مطلب یہ کہ سیدہ فاطمہ صغریٰؓ بھی مدینہ کی بجائے کربلا میں تھیں اگر کربلا میں تھی تو سیدنا عالی مقامؓ کا ان کا مدینہ میں نکاح پڑھانا کیا ایک ہے ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ میدانِ کربلا میں سیدنا قاسمؓ کی شادی کا واقعہ از اول تا آخر جھوٹ پر مبنی ہے۔

نوٹشیعہ ذاکرین اور سنی نام نہاد واعظین اس قسم کے قصہ جات بیان کرتے ہیں اور اپنی تصانیف میں ذکر کرتے ہوئے اس کا پس منظر کیا ہے؟ جب کہ دونوں طرف کی معتبر کتب تاریخ ایسے واقعات سے خاموش نہیں بلکہ تردید کرتی ہیں آئیے ہم آپ کو اس کا پس منظر بتاتے ہیں جس دور میں ایسے فرضی واقعات گھڑے گئے اس میں ذاکرین و واعظین نے لوگوں میں یہ مشہور کر رکھا ہے کہ جو ذاکر یا واعظ سیدنا عالی مقامؓ کی مظلومیت بیان کرے گا وہ سیدھا جنتی ہوگا مظلومیت کے بیان کرنے کے لیے انہیں فرضی واقعات و حکایات کا سہارا لینا پڑا تاکہ عوام کو خوب رلائیں اور سیدنا عالی مقامؓ کی مظلومیت ثابت کرکے خود کو جنت کا مستحق سمجھیں ایسے من گھڑت واقعات لوگوں نے سن سن کر یاد کر لیے پھر ایسے ذہن نشین ہوگئے کہ انہیں جب بھی وہ سنتے یا کسی کتاب میں رقت آمیز لہجے میں لکھے گئے پڑھتے تو خوب روتے جب عوام کے جذبات اس قدر پختہ اور آگے بڑھ چکے تھے تو راسخ علماء نے اسے ضرور بھانپا لیکن مخالفت کی وجہ سے انہیں بھرپور طریقے سے روک نہ سکے اور کچھ چپ سادھ لی پھر انہیں دیکھا دیکھی مختلف لوگوں نے ایسے واقعات فرضیہ کی کتابیں لکھ ماریں بعد میں آنے والے ذاکرین و واعظین کے لیے انہیں کتابوں کے واقعات و انداز بیان عوام سے داد وصول کرنے کے لیے بہترین سرمایہ تھے ایسے واقعات کو بیان کرکے سامعین کو رلانا اور نوحہ وغیرہ پر ابھارنا ان کی من پسند روش ہوگئی یہ سب کچھ کسی اور طریقہ سے ممکن نہ تھا پھر ایسا دور آیا کہ واعظین و ذاکرین میں سے انہی باتوں کو بیان کر کے روتا رلاتا ہے اس کی بکنگ دوسروں کی نسبت زیادہ ہوگئی اور جو زیادہ رقت بھرے انداز میں ایسے فرضی واقعات بیان نہیں کرتا اس کی بکنگ دوسروں کے مقابل میں کم ہوگئی اور یوں یہ لوگ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوئے اور ہو رہے ہیں سیدنا قاسمؓ کی شادی سیدہ فاطمہ صغریٰؓ کا رونا اور واویلا کرنا گھوڑا اور اس کے پاؤں تھامنا وغیرہ ایسے ہی واقعات میں سے ہیں جن کی کوئی اصل نہیں بلکہ ایک کتاب بنام "روضۃ الشہداء" جو ملا حسین کاشفی کی تصنیف ہے اس میں یہ جھوٹی کہانیاں اور افسانے ایسے رنگین انداز میں لکھے جنہیں پڑھ کر قاری مضمون کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے اور اس کی آنکھیں بے اختیار اشکبار ہوجاتی ہے ایسا شخص سنی کہلاتا ہے لیکن مسلکاً شیعہ یا اس کے قریب ہے اس کی صحیح حقیقت ہماری اسی کتاب میزان الکتب کے کئی مقامات پر واضح ہوچکی ہے ہم نے ان پیشہ وار واعظین و ذاکرین کا جو طرز عمل بیان کیا ہے اس کی ایک جھلک شیعہ مجتہد شیخ عباس قمی کی زبانی سنئیے۔

منتہى الامال:

ایک حدیث میں اس قسم کے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے جو دنیا کو آخرت کے بدلے طلب کرتے ہیں ان کی اس قسم کی حرکات یہ ثواب عظیم سے محرومی کا ان کے لیے سبب نہیں کیونکہ شیطان پوری طرح تمام انسانوں کا دشمن ہے لہٰذا جس عمل میں وہ انسان کا نفع سمجھتا ہے تو شیطان اس کو فاسد کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے جیسا کہ سیدنا حسینؓ کے توسل سے بحسبِ ضرورت دین اور ائمہ طاہرین کی اخبار و دنیا و آخرت میں نجات کا باعث ہے اور ہر عمل جو دنیا کے واعظ کا موجب ہو اس پر نا اہلوں کی توجہ ماتم اور ہجوم عام ہوتا ہے جیسا کہ ذکر مصائب کو یہ ایک دنیاوی معاش کا معتبر ذریعہ ہے اور عبادت کی جہت اس میں بہت ہی کم ملحوظ ہے تو ان ذاکرین نے اس ذکر مصائب کو آہستہ آہستہ اس مقام پر پہنچا دیا کہ علماء مذہب کے مجمعوں میں انہوں نے صریح جھوٹے ان مصائب کا ذکر شروع کر دیا اور وہ علماء ان کو منع نہ کر سکے لہٰذا کچھ ذاکرین نے رلانے پٹانے کے لیے واقعات کی اختراع کی کوئی پرواہ نہ کی اور یہاں تک کہ انہوں نے یہ ظاہر کرنا شروع کر دیا کہ "من ابکی فله الجنة" جس نے رلایا پٹایا اس کے لیے جنت ہے جوں جوں زمانہ گزرتا گیا ان جھوٹے قصوں نے تالیفی صورت اختیار کرلی اور جب بھی کوئی فاضل اور امانت دار محدث اس طرح کی جھوٹی باتوں سے روکتا ہے کیسی مطبوع کتاب یا کسی مسموع کلام سے نسبت پکڑتا ہے یا حدیث پر مستقل دلائل سے تمسک کرتا ہے یا ضعیف روایات روکنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بہت سی قوموں کی طرف سے ملامت اور توبیخ کا نشانہ بنتا ہے مثل ایسے جملوں کے جوکہ کتب جدیدہ میں مشہور واقعات کے بارے میں ہیں اور اہلِ علم الحدیث کے نزدیک ان واقعات کی کوئی اہمیت نہیں مانند عروسی قاسمؓ در کربلا که در کتاب روضته الصفاء تالیف فاضل کاشفی نقل شدہ جیسے کہ سیدنا قاسمؓ کی شادی کربلا میں جوکہ فاضل کاشفی کی کتاب روضتہ الصفاء میں نقل کی گئی ہے۔ 

(منتهی الامال جلد اول صفحہ 55 در نسخ و تکالیف سلسله جلیلیہ مطبوعه تہران)

 قارئین کرام! شیخ عباس قُمی نے واقعہ کربلا کے ضمن میں رونے رلانے اور پیٹنے کے لیے من گھڑت واقعات کا پس منظر بڑی خوبی سے بیان کیا اور حقیقت بھی تقریباً یہ ہی ہے ابتداءً شیعہ ذاکرین نے پیسے بٹورنے کی خاطر رونے پیٹنے کے واقعات گھڑے پھر زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ من گھڑت واقعات کتابوں میں لکھے جانے گئے انہی واقعات میں سے ایک سیدنا قاسمؓ کی میدانِ کربلا میں شادی کا واقعہ بھی ہے اس طرح ہر آنے والے نے من گھڑت واقعہ میں مزید اضافہ کیا اور بات کا بتنگڑ بنا دیا پھر شیعوں کی کتابوں مثلاً فاضل کاشفی سے جھوٹے واقعات اہلِ سنت واعظین نے بھی اسی غرض کے پیش نظر بیان کرنے اور لکھنے شروع کر دیئے اور یوں ان نادانوں نے نادانستہ طور پر شیعیت کے اصول کو مضبوط کرنے میں بہت کردار ادا کیا اور خوب دنیا کمائی ان سنی واعظین نے مسلک اہلِ سنت کو نقصان عظیم پہنچایا شیعہ ذاکرین کی جگہ اب ان سنی واعظین نے لے لی اور خوب دنیا سمیٹ رہے ہیں ہم نے ان کی کُتب اور ان کے طرز خطابات کو اس لیے بیان کیا تاکہ بعد میں آنے والی نسلیں بھٹکنے سے بچی رہیں وہ یوں کہ اگر کوئی شیعہ رُلانے اور پیٹنے کے متعلق ان واعظین کے کیسٹ یا ان کی تصانیف پیش کرکے اسے ثابت کرے اور کہے کر دیکھو تمہارے سنی عالم نے یہ کہا ہے یہ لکھا تو ہم ان کے بارے میں صاف صاف لکھ دیتے ہیں کہ ایسے واعظ اور ان کی ایسی تصانیت مسلک اہلِ مختص کے ہاں معتبر نہیں ہیں اس لیے ان کا کوئی حوالہ ہمارے لیے قابل قبول نہ ہوگا ۔

فاعتبروا يا اولى الابصار

مروجہ محافلِ محرم کے متعلق شیعہ مجتہد عباس قمی کا فتویٰ:
تنبيه:

محافل حسین میں جو من گھڑت روایات بیان کی جاتی ہیں ان کا شرعی فیصلہ منتہی الامال مصنفه شیعه مجتهد شیخ عباس قمی کی طرف سے نقل کیا جاتا ہے درج ذیل فوٹو کاپی لف کی جارہی ہے ملاحظہ فرمائیں۔

منتہی الآمال کی عبارات:
عبارت1:

و بالجمله اخبار ایک باب بسیار است و ایں مختصررا گنجائش بیش ازیں نست پس شائسته است که شیعان و ذاکرین خصوصا متفت شده در این سوگواری رو عزاداری بروجہی سلوک کنند که زبان نواصب و رازنه شود و اقتصار بر واجبات و مستحبات کرده از استعمال محرمات از قبیس مناکۃ غالبا نوحہ ہائے لطمه خالی ازآں نیست و ازا کاذیب مفتعله و حکایات ضيفه مظنونة الكذب که درجمله ای از کتب غیر معتبره بلکه نقل از کتبی کہ مصنف آبها از متدینین اہل علم و حدیث نیست احتراز نماید و شیطان را درایں عبادت بزرگ که اعظم شعائر الله است راه تدهند و از معاصی کثیره که روحِ عبادت را میبرد پرہیز و خصوصاً ریاد کذب و غناء که درایں عمل ساری و جاری شده است و کم تر کسی از او مضمون است و صواب چنان است که درایں مقام چند خبری در بزرگی عقاب ہریک مذکور شود شاید اگر کیسی خدائے نخواسته مبتلا باشد مرترع شود۔  

(منتهی الأمال جلد اول صفحہ 44 در ذکر پاره از احادیث اہلِ سنت و مذمت زیاد و دروغ و عذاب دردغگو مطبوعه تہران طبع جدید) 

ترجمہ: مختصر یہ کہ اس بارے میں روایات بہت سی ہیں اور اس مختصر کتاب میں اس سے زیادہ لکھنے کی گنجائش نہیں لہٰذا مناسب یہ ہے کہ تمام شیعہ حضرات اور خصوصاً ذاکرین حضرات توجہ کریں کہ سیدنا حسینؓ کی سوگواری اور عزاداری میں ایسا طریقہ اپنائیں جس سے خارجیوں کی زبان سے لعن طعن سے چھوٹ جائیں صرف واجبات اور مستحبات پر ہی اقتصار کریں اور محرمات کے استعمال سے بھی جیسا کہ گانا مرثیہ خوانی کرنا جو غالباً نوحہ جات سے خالی نہیں ہوتا اور من گھڑت حکایات اور ضعیف واقعات جن پر جھوٹ کا فن ہو جو ان کتابوں میں ذکر کی گئیں جو غیر معتبر ہیں بلکہ ان کتابوں سے انہیں نقل کیا گیا ہے جن کے مصنفین دین دار اہلِ علم اور حدیث کی سوجھ بوجھ رکھنے والے نہ تھے ایسی حکایات و واقعات کے بیان کرنے سے دریغ کرنا چاہیے اور شیطان کو اس عبادت میں جو اللہ تعالیٰ کے عظیم شعائر میں سے ہے داخل نہ ہونے دیں اور بہت سے ایسے معاصی سے جو عبادت کی روح کو ختم کر دیتے ہیں پرہیز کرنا چاہئیے خاص کر ریاء جھوٹ اور گانا کہ یہ کام اب عام طور پر جاری وساری ہیں اور بہت کم مجلسیں ایسی ہیں جن میں یہ باتیں نہ ہوتی ہوں اور درست طریقہ یہ ہے کہ ایسے مقامات پر چند ایسی روایات بھی ضرور ذکر کرنی چاہئیں جوان میں سے ہر ایک عذاب و سزا پر مشتمل ہوں کیونکہ خدا نخواستہ اگر کوئی ان کاموں کا عادی ہوچکا ہو تو وہ اپنا رویہ تبدیل کرے شیعہ مجتہد نے یہ واضح کر دیا کہ سیدنا حسینؓ کی تعزیت کی مجالس میں افعال حرام بہت سے داخل ہوچکے ہیں ان میں جھوٹی روایات مرثیہ خوانی اور نوحہ جات کا دور دورہ بھی ہے ان حرام کاموں کی وجہ سے وہ بجائے ثواب کے اُلٹا عذاب اور گناہ بن کر رہ گئیں لہٰذا ذاکرین اور شیعہ علماء کو ان محرمات کے بارے میں جن روایات واحادیت میں وعیدیں آئی ہیں انہیں ذکر کرنا چاہئیے تاکہ ان کاموں سے محافلِ سیدنا حسینؓ پاک ہوجائیں جب تک ان محافل کو ان محرمات سے پاک نہیں کیا جاتا ان میں جانا گناہ ہے۔

محافل حسین میں جھوٹی روایات اور من گھڑت کہانیاں:
عبارت 3:منتهى الأمال:

 در کافی مروی است از امام محمد باقرعلیه السلام کو فرمود اول کسی که تکذیب میکند دروغ گورا خدا وند عزوجل است پس ازآں دو فرشته کہ او مقرب اند بعد ازاں خودش که اشتباه ندارد و میداند دروغ گفته و هم در آنجا و در کتاب الاعمال از آنجناب مروی است که فرمود حق تعالیٰ برائے شروبدیها قفلها مقرر کردہ و کنید آں قفلہا را شراب قرار واده و دماغ بدتراز شراب و نیز در کافی از امیرالمؤمنین علیه السلام روایت شده که فرمود والله نخواہد چشید مزه و طعم ایمان راتا آنگاه که ترک کند دروغ راچه از روئی جدبا شده یا مزاح و خوش طبعی در جامع الاخبار از رسول خداﷺ روایت کرده که فرمود هرگاه دروغ گوید مومن بدون عذر لعنت کند او راہفتاد ہزار ملک و ازدل او بوی گندی بیروں آید و بالا رود تابعرش رسد پس لعنت کند اوراحمله عرش وحق تعالیٰ بواسطه آں یک دروغ ہفتاد زنا براو تولید که آساں ترآنہا مثل آنست که کسی با مادرِ خود زنا کند و از حضرت امام حسن عسکری عیلہ السلام روایت است که تمام خبائث رادر خازای گزاشته اند و در دروغ راکلید آں قرار داده اند۔ 

(منتهی الامال جلد اول صفحہ 545)

ترجمہ:  سیدنا محمد باقرؓ سے کافی میں مروی ہے کہ جھوٹے کی سب سے پہلے تکذیب کرنے والا خود اللہ تعالیٰ ہے پھر وہ دو فرشتے جو اللہ تعالیٰ کے نہایت مقرب ہیں پھر خود جھوٹا کہ جسے بلاشک و شبہ یہ معلوم ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اسی مقام پر کتاب الاعمال میں بھی سیدنا محمد باقرؓ سے ایک اور روایت مذکور ہے فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام شر اور برائیوں کے تالے مقرر کیے ہیں ان تمام کی کنجی شراب ہے اور جھوٹ تو شراب سے بھی بدتر ہے کافی میں بھی سیدنا علیؓ سے روایت آئی ہے فرماتے ہیں خدا کی قسم جب تک کوئی شخص جھوٹ کو ترک نہیں کرتا وہ ایمان کا مزہ اور ذائقہ حاصل نہیں کرسکتا وہ جھوٹ چاہے بطور خوش طبعی مزاح یا جان بوجھ کر بولا جائے جامع الاخبار میں رسول اللہﷺ سے مروی ہے آپﷺ نے فرمایا جب کوئی ایمان دار بلا عذر جھوٹ بولتا ہے تو اس پر ستر ہزار فرشتے لعنت کرتے ہیں اور اس کے دل سے بد بود باہر نکلتی ہے اور عرش تک پہنچ جاتی ہے پھر عرش کو اٹھانے والے فرشتے اس جھوٹے پر لعنت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس جھوٹے کے ایک جھوٹ کے بدلے ستر زنا لکھ دیتا ہے ان میں سے کم ترین زنا ہے جو کوئی اپنی سگی ماں سے کرے سیدنا حسن عسکریؓ سے روایت ہے کہ تمام خباثتوں کو ایک گھر میں بند کر کے رکھتے ہیں اور جھوٹ ان سب کی کنجی ہے۔ 

خلاصہ:   صاحبِ منتہی الآمال یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیدنا حسینؓ کے نام پرمنعقد کی گئی محفل میں اگر سچی حکایات و واقعات بیان کیے جائیں اور آپؓ کی شہادت کے متعلق صحیح روایات ذکر کی جائیں سیدنا حسینؓ کے اعمال واقوال بیان کیے جائیں اور کربلا کے میدان میں آپ کی استقامت علی الحق اور دین پروری کے سچے واقعات سنائیں جائیں تو یہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ ثواب کا باعث بھی ہیں اور عوام کے لیے باعثِ ہدایات و تقلید بھی ہیں لیکن جو لوگ ان حقائق کی بجائے جھوٹی روایات من گھڑت قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں (جیسا کہ سیدنا قاسمؓ کی مہندی گھوڑے کا رونا وغیرہ) تو یہ اتنا عظیم جرم ہے جو ایک بار نہیں ستر بار زنا کرنے سے بھی زیادہ بُرا ہے جس کا ادنیٰ ترین گناہ اپنی سگی والدہ سے زنا کے برابر ہے یہ سے پھراس راوغ گو پراللہ کی لعنت ستر ہزار عام فرشتوں کی لعنت حاملین عرش مخصوص فرشتوں کی لعنت بھی ہوتی ہے اسی لیے اس مقام پر لکھتے لکھتے شیخ قمی یہاں تک لکھ گیا ایسی محفل میں ہرگز نہیں جانا چاہیے وہ لکھتا ہے کہ سیدنا جعفر صادقؓ سے دریافت کیا گیا کہ۔ 

از قصه خوانان که آیا گوش دادن بایشاں حلال است حضرت فرمود حلال نیست 

ترجمہ: یعنی ایسی محفلوں میں جاکر ذاکروں سے غلط سلط روایات سنا جائز ہے آپ نے فرمایا جائز نہیں۔

 مزید فرمایا۔

 پس آن گوش کننده ابلیس را پرستیده ایسی غلط مرثیہ خوانی سننے والا دراصل شیطان کا پجاری ہے اور فرمایا۔

امامِ اہلِ سنت احمد رضا خاں بریلوی کی طرف سے محافلِ حسین کا شرعی فیصلہ:
عبارت نمبر (1) فتاویہ رضویہ مسئلہ ثالثہ:

کیا ارشاد ہے علماء دین متین کا اس مسئلہ میں کہ مجالس میلاد شریف میں شہادت نامہ کا پڑھنا جائز ہے کہ نہیں؟ بینوا وتوجروا۔

(الجواب):

شہادت نامہ نظم نشر جو آجکل عوام میں رائج ہیں اگر روایات باطلہ و بے سروپا سے مملو اور اکاذیب موضوعہ پر مشتمل ہیں ایسے بیان کا پڑھنا سننا وہ شہادت نامہ ہو خواہ کچھ اور کتاب ہو مجلس میلاد مبارک ہو خواہ کہیں اور مطلقاً حرام و ناجائز ہے خصوصاً جبکہ وہ بیان ایسے خرافات کو متضمن ہو جس سے عوام کے عقائد میں زلل آئے تو اور بھی خطرناک ہے ایسے ہی وجوہ پر نظر فرما کر حجتہ الاسلام محمد غزالی قدس سترہ وغیرہ آئمہ کرام نے حکم فرمایا شہادت نامہ پڑھنا حرام ہے سیدنا علامہ ابنِ حجرمکی قدس سترہ المکی صواعق محرقہ میں فرماتے ہیں قال الغزالی وغیرہ یحرم علی

الْغَاعِظِ وَغَيْرِهِ رِوَايَةُ مَقْتَلِ الْحَسَنِؓ وَالْحُسَيْنِؓ وَحِكَايَاتِهِ الخ پھر فرمایا ما ذَكَرَ مِنْ حُرْمَةِ الرِّوَايَة القتل الحسينؓ وما بعده لا يُنَافِي مَا ذَكَرْتُهُ فِي هَذَا الْكِتَاب لان هذا البيان الحق الَّذِي يَجِبُّ اعْتِقَادُهُ مِنْ جَلَالَةِ الصِّحَابَةِ وَبَرَاء تِهِمْ مِنْ كُلِّ نَقْصٍ بِخِلَافِ مَا يَفْعَلُهُ الوعاظ الْجَھلَة فانهم يأتون باالاخبار الكاذبة والموضوعة ونحوها ولا يبتينون المحامل والحق الذى يجب اعتقادة الخ۔ 

یونہی جبکہ اس سے مقصود غم پروری و تصنع حزن ہو تو یہ نیت بھی شرعاً محمود شرع مطہر نے غم میں صبر و تسلیم اور غم موجود کو حتی المقدور کو دل سے دور کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ غم معدوم بتکلف ولا درناہ کہ بتصنع و زور بنانا نہ کہ اسے باعثِ قربت و ثواب ٹھہرانا یہ سب بدعات شیعه روافض ہیں جن سے سنی کو احترام لازم خاشاللہ اس میں کوئی خوبی ہوتی تو حضور پرنور سید عالمﷺ کی وفات اقدس کی غم پروری سب سے زیادہ اہم و ضروری ہوتی دیکھو حضور اقدسﷺ کا ماه ولادت و ماه وفات وہی ماه مبارک ربیع الاول شریف ہے پھر علماء امت و حامیانِ سنت نے اسے ما تم وفات نہ ٹھرانا بلکہ موسم شادی ولادت اقدس بنایا امام ممدوح کتاب موصوف میں فرماتے ہیں 

ايَاهُ ثم ايَاهُ أَن يَشْغلَهُ رَأَى يَوْمَ عَاشُورًا بِبدَعِ الرَّافِضَةِ وَنَحوهِم مِنَ الندْبِ والفيَاحَةِ وَالْحُزْنِ إِذْ لَيْسَ ذَالِكَ مِنْ أَخْلَاقِ الْمُؤْمِنِينَ وَالا لكَانَ يَوْمُ وَفَاتِهِﷺ أولى بذالك واحراى الخ۔ 

عوام مجلس خواں اگرچہ باالفرض صرف روایات صحیحہ بروجہ صحیحہ پڑھیں بھی تاہم جو ان کے احوال سے آگاہ ہے خوب جانتا ہے کہ ذکر شہادت شریف پڑھنے سے ان کا مطلب ہی بہ تصنع رونا بتکلف رلانا اور اس رونے رلانے سے رنگ جمانا ہے اس کی شناعت (یعنی برا ہونے) میں کیا شبہہ ہے (فتاوی رضویہ جلد دهم صفحہ 88 کتاب الحظر والا باخن مصفه امام اہلِ سنت مولانا احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی شریف مطبوعه اداره تصنیفات امام احمد رضا کراچی)

قارئین کرام اعلیٰ حضرت عظیم البرکت احمد رضا خان کے اس جواب سے چند چیزیں ثابت ہوئیں۔ 

1- اس وقت اکثر روایات جو عوام میں رائج ہیں جن کو واقعہ کربلا میں بیان کیا جاتا ہے یہ بے اصل باطل محض چھوٹی موضوعہ روایات ہیں ان کا پڑھنا سننا قطعاً حرام اور ناجائز ہے۔

2۔ اگر ان سے عوام کے عقائد میں کچھ تزلزل پیدا ہو تو ایسی روایات کا ذکر کرنا زہر قاتل ہے یعنی عوام کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ ہمارے مقرر نے جس انداز میں بیان کیا ہے جس سے ساری دنیا چیخیں مار مار کر رورہی ہی اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا حسینؓ کا جو شیعہ ماتم کرتے ہیں اس کے جائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔

3۔ جن واعظین کا صرف مقصد غم پروریرغم پروری تصنع بناوٹی رونا ہو تو اس طرح کرنا بھی شرعاً ممنوع ہے کیونکہ شرع نے صبر اور تسلیم کا حکم دیا ہے جو حتی المقدور دل سے درد کو دور کر دیتی ہے۔

4۔ مجلس خواں باالفرض صحیح روایات بھی بیان کریں لیکن سننے والے یہ جانتے ہیں کہ اس مجلس خواں کا مطلب بناوٹی رُونا رُلانا ہے اور اس رُونے رُلانے سے رنگ جمانا ہے اس کے بُرا اور قبیح ہونے میں کیا شک ہے۔

عبارت نمبر (2) فتاوٰی رضویہ: 

کُتب شہادت جو آجکل رائج ہیں اکثر روایات موضوعہ و روایات باطلہ پرمشتمل ہیں یوں ہی مرثیے ایسی چیزوں کا پڑھنا سننا سب حرام ہے حدیث میں ہے۔ 

نَهَى رَسُولُ اللهِﷺ عن المراثي 

رسول اللہﷺ نے منع فرمایا۔

 رواة ابو داؤد والحاكم عن عبد الله ابی اوفیؓ ایسے ہی ذکر شہادت کو امام حجتہ الاسلام وغیره علماء کرام منع فرماتے ہیں۔ 

ما ذكره الامام ابن الحجر المكي في الصواعق المحرقة ۔ ہاں اگر صحیح روایات بیان کی جائیں اور کوئی کلمہ کسی نبی یا ملِک یا اہلِ بیت یا صحابی کی توہین شان کا مبالغہ مدح وغیرہ میں مذکور نہ ہو نہ وہاں بین یا نوحہ یا سینہ کوبی یا گریبان دری یا ماتم با تصنع یا تجدیدِ غم وغیرہ منوعات شرعیہ ہوں تو ذکر شریف فضائل و مناقب سیدنا حسینؓ کا بلاشبہ موجبِ ثواب و نزول رحمت ہے۔ (فتاوی رضویہ جلد 10 صفحہ 114 کتاب الحظر رو الاباحته مطبوعه ادارہ تصنیفات احمد رضا کراچی)

عبارت نمبر (3) فتاوی رضویہ:

(ایک سوال کا جواب لکھتے ہوئے اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں) افعال مذکورہ سخت کبائر میں اور ان کا مرتکب سخت فاسق و فاجر مستحق عذاب یزدان غاضب رحمان اور دنیا میں مستوجب ہزاراں ذِلت و بتوان خوش آوازی خواه کسی علت نفسانی کے باعث اسے منبر و مسند پر کہ حقیقتاً مسند حضور پرنور سرکار دو عالمﷺ ہے تعظمیاً بٹھانا اس سے مجلس مبارک پڑھوانا حرام ہے تبیین الحقائق وفتح الله المبين وطلحطاوی علی مراقی الفلاح وغیرھا میں ہے کہ فی تقدیم الفاسق تعظیم وقد وجب عليهم اہانته شرعاً روایات موضوعہ پڑھنا بھی حرام سننا بھی حرام اور ایسی مجالس سے اللہ عزوجل اور حضور اقدسﷺ کمال ناراض ہیں ایسی مجالس اور ان کا پڑھنے والا اس حال سے آگاہی پاکر بھی حاضر ہونے والا سب وبال شدید میں جُدا جُدا گرفتار ہیں اور ان سب کے وبال کے برابر اس پڑھنے والے پر وبال ہے اور اس کا اپنا گناہ اس پر علاوہ اور ان حاضرین و قاری سب کے برابر گناہ ایسی مجلس کے بانی پر ہے کہ اور اپنا گناہ خود طره مثلاً ہزار شخص حاضرین مذکور ہوں تو ان پر ہزار گناہ اور اس کذاب قاری پر ایک ہزار ایک ()گناہ اور بانی پر دو ہزار دو ()گناہ ایک ہزار حاضرین کے اور ایک ہزار ایک اس قاری کے اور ایک فرد اپنا پھر یہ شمار ایک ہی بار نہ ہوگا بلکہ جس قدر روایات موضوعہ جس قدر کلمات نامشروعہ وہ قاری جاہل جری پڑھے گا ہر روایت هر کلمہ پر یہ حساب و بال و عذاب تازہ ہوگا مثلاً فرض کیجیئے ایسے سو کلمات مردودہ اس مجلس میں اس نے پڑھے توان حاضرین میں ہر ایک پر سو سو گناہ اور اس قاری علم و دین سیاری پر ایک لاکھ ایک گناہ اور بانی پر دو لاکھ دو سو گناه وقس على هذا۔

(فتاوٰی رضویہ جلد 10 صفحہ 244 کتاب المحظر والاباحة مطبوعہ ادارہ تصنیفات امام احمد رضا کراچی) قارئین کرام ! اس صدی کے مجدد اور اہلِ سنت کے امام اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب قادریؓ کے فتاویٰ رضوی سے میں اقتباسات ہم نے پیش کیے ان میں درج ذیل امور صراحتہ بیان فرمادیئے ہیں۔ 

1۔ شہادت وغیرہ کے بارے میں روایات باطلہ، جھوٹ سے بھری پڑی حکایات بیان کرنا مشننا مطلقا حرام و نا جائز ہیں۔

2۔ عقائد حقہ اہلِ سنت پر جن حکایات و روایات باطل سے زد پڑےاور انہیں جڑ سے ہلا کر رکھ دیں ان کا ذکر کر نا زہر قاتل ہے۔ 

3۔ واعظین اور خطباء کا اگر مقصد بناوٹ کے طور پر لوگوں کو رونا اور غم واندوہ میں ڈالتا ہے تو ایسا خطاب ووعظ بھی شرعاً ممنوع ہے۔ 

4۔ اگر بالفرض روایات صحیح ہی ہوں کے بیان کرنے سے وہی رُولانا اور غم زدہ کرنا ہے تو پھر بھی قبیح ہے۔ 

5۔ چونکہ روایات باطله ذکر کرنا حرام ان کا سننا حرام انہیں گانے اور سردر کے طور پر بیان کرنا حرام ہے اس لیے اس سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس کے محبوبﷺ کی بیزاری واضح ہے اس لیے ایسا وعظ کرنے والے اور خطاب دینے والے کو مسند و عظ و خطابت پر بٹھانا بھی شدید حرام ہے۔

6۔ ایسے واعظین اور خطباء کو بُلانے والے ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے سب جرم کے برابر کے شریک اور تمام کے مجموعی گناہ سے بڑھ کر واعظ و خطیب گناہوں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔

 امام اہلِ سنت نے اپنے دور کے کچھ خطباء اور واعظین کی بات فرمائی ہم نے اس دور کے چند ممتاز علماء کی زیارت کی بھی اور اُن کے خُطابات سننے کا بھی شرف حاصل ہواحضرت علامہ ابوالبرکات سید احمد محدث مفتی اعظم پاکستانؒ ابوالفضل محمد سردار احمد لائلپوریؒ بحکیم الامت مولانا احمد یار خاں صاحبؒ گجراتی اور غزالی زمان مولانا احمد سعید صاحب کاظمیؒ ملتان یہ وہ حضرات تھے کہ ان کی تقاریر کا ایک ایک لفظ محتاط ہوتا لیکن آجکل جن خطباء اور واعظین کی شہرت ہے اگر انہیں اعلیٰ حضرت سن لیتے اور ان کے اندازِ خطابت و وعظ کو دیکھ لیتے تو آپ خود اندازہ فرمائیں آپؓ کیا فتویٰ دیتے؟ حاشا و کلا میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں نہ مخالفت برائے مخالفت ہے بلکہ اصل مقصد وہی ہے جیسے اعلیٰ حضرت نے بیان فرمایا ایسی محافل لوگوں میں جذبہ شہادت پیدا کرنے کے لیے اور خاندان اہلِ بیت کی استقامت فی الدین اور مصائب میں صبر و ہمت دکھانے کے لیے ہوتی ہیں نہ کہ ان حضرات کی بے صبری اور لوگوں کو رُولانے اور غم زدہ کرنے کے لیے منعقد ہوتی ہیں میں نے اسی لیے جانبین کی کُتب سے رُونے رُولانے اور پیٹنے وغیرہ کے ممنوع ہونے پر بہت سے حوالہ جات تحفہ جعفریہ جلد دوم میں ذکر کیے ہیں انہیں بیان کیا جائے۔ 

قارئین کرام میرا مقصد یہ تھا کہ میں ان تمام کُتب کا حتی المقدور ذکر کردوں جنہیں شیعہ لوگ اہلِ سنت کی معتبر کتاب کے عنوان سے پیش کر کے ان کے اقتباسات لکھتے اور عام سنیوں کو بہکانے کی کوشش کرتے ہیں اور میں نے اس کے لیے بہت سی کُتب کا مطالعہ کیا ان کُتب کے بارے میں لکھا کہ وہ اہلِ سنت کی ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو معتبر بھی ہیں یا غیر معتبر؟ اس بحث کے اختتام پر ایک دن مرشدی بسیدی قبلہ سید محمد باقر علی شاہ صاحب مدظلہ العالی فرمانے لگے مولوی صاحب آجکل جو ہمارے واعظ اور خطیب واقعہ شہادت کے ضمن میں بیان کر رہے ہیں اور نت نئے مصنف جو اپنی تصانیف میں درج کر رہے ہیں جن سے عقائد اہلِ سنت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان کا بھی کچھ ذکر کرو اس بارے میں جو تحقیق ہے وہ پیش کرو یہ نہ دیکھو کرکس کو رگڑا پھرتا ہے رافضیوں کی طرح ان رُونے رُولانے واعظین اور محافل میں رنگ جمانے کے لیے واقعات گھڑنے والے لوگوں کے لیے بھی کچھ اوراق لکھو میں نے سیدی و مرشدی کے حکم کے مطابق اس کا بھی بیڑا اٹھایا موجودہ دور کے تمام واعظین مصنفین کا میں نے ذکر نہیں کیا کیونکہ چند واقعات من گھڑت سب نے اپنی اپنی تصانیف میں لکھے جب اس واقعہ کی تردید اور حقیقت سامنے آئے گی یوں اُن کی کتب کی تردید بھی ہو جائے گی مثلاً سیدہ سکینہؓ کا سیدنا عالی مقامؓ کے گھوڑے کے کُھر پکڑنا سیدہ فاطمہ صغریٰؓ کا دردناک واقعہ سیدنا مسلمؓ کے صاحبزادوں کے دل دُکھا دینے والے واقعات فرضیہ سیدنا عالی مقامؓ کے گھوڑے کا آپ کی شہادت کے بعد عجیب و غریب حالت دکھانا وغیرہ وغیرہ یہ سب واقعات چونکہ موضوع اور جھوٹ کے پلندے ہیں اس لیے جس جس کتاب میں ایسے باطل اور مومنوع واقعات درج ہیں اُن کا کوئی حوالہ اور کوئی عبارت شیعہ پیش کر کے وہ اہلِ سنت کی معتبر کتاب کے حوالہ کے طور پر پیش کر کے اپنا باطل مقصد پورا کرنا چاہئے تو یہ قابل قبول نہ ہو گا کیونکہ ایسی کتابیں بالکل نامعتبر ہیں آخر میں یہ عرض کروں گا کہ میرا مقصد وہی ہے کہ عقیدہ اہلِ سنت کا تحفظ اور دفاع کرو اور حقانیت واضح کردو یہی بات اعلیٰ حضرت کے پیش نظر تھی اگر میری کسی عبارت کو ناظرین کرام اعلیٰ حضرت کے مقصود و مدعا کے خلاف پائیں تو مجھے اس کی نشاندہی فرمائیں میں شکر گزار ہوں گا اور اگر ان سے متفق پائیں تو ان وعیدات سے خود بچیں عوام کو بچائیں خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ 

نوٹ: اس صدی کے مجدد اور ایسے محقق کامل کہ جن کی اپنوں غیروں میں کوئی مثال نہیں ملتی ان کے ارشادات آپ نے پڑھے ایسے ہی چند کڑوی باتیں ایک شیعہ مجتہد اپنے ذاکروں کے لیے بھی کہہ گیا ہے شیخ قمی اپنی تصنیف منتہی الآمال میں ذکر کرتا ہے اس وقت ہمارے زمانہ میں مجالس سیدنا حسینؓ میں جھوٹی روایات ذکر کی جاتی ہیں جیسا کہ سیدنا قاسمؓ کی مہندی وغیرہ یہ اتنا عظیم جرم ہے کہ ایک بار جھوٹ بولنے والے پر فرشتے ستر ہزار بار لعنت بھیجتے ہیں اس کے منہ سے ایسی بدبو نکلتی ہے جو عرش تک جاتی ہے پھر عرش اٹھانے والے فرشتے اس جھوٹے پر لعنت بھیجتے ہیں اللہ تعالیٰ اس جھوٹ بولنے والے کے بدلہ ستر زنا لکھتا ہے ان میں کم ترین زنا اپنی ماں سے زنا کرنا ہے منتہی الآمال جلد اول صفحہ 545 اس کی تفصیل ہماری کتاب فقہ جعفریہ جلد سوم صفحہ 172 تا 181 پر ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔

خلاصہ کلام: یہ کہ شہادت سیدناؓ عالی مقام کی محافل و مجالس میں جھوٹی روایات موضوع حکایات سے اجتناب انتہائی ضروری ہے اور ہر صورت میں قرآن کریم اور احادیث مقدسہ کے ارشادات پیش نظر رہنے چاہئیں اہلِ بیت کی عقیدت اور ان کی استقامت فی الدین کو بیان کیا جائے ان کے صبر وایثار اور جذبہ شہادت کو بیان کیا جائے ایسے خطابات اور واعظ سننے اور بیان کرنے سے اللہ اور اس کے محبوبﷺ اور آپ کی اہلِ بیت خوش ہوں گے ان کی خوشنودی ہی اصل سرمایہ ہے میں نے چند کُتب کا جو نام لیا وہ بھی صرف ان حضرات کی رضا جوئی اور اپنے پیر و مرشد کے ارشاد کی تکمیل کرتے ہوئے ایسا کیا ہے کسی کی دل آزاری نہ مقصود اور نہ یہ میرا معمول ہے۔ 

وما علينا الا البلاغ المبين