Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تحقیق باغِ فدک (مولانا اللہ یار خانؒ)

  مولانا اللہ یار خانؒ

باغِ فدک

یہ مسئلہ شیعہ عقائد میں داخل ہے کہ نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد حضورﷺ کی بیٹی سیدہ فاطمہؓ کو وراثت سے محروم کر دیا گیا وہ اپنے والد گرامی کی جاگیر باغِ فدک کا مطالبہ لے کر خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئیں مگر انہوں نے مطالبہ پورا نہ کیا اس لیے وہ طعن کا نشانہ بن گئے۔

یہ بات اس لحاظ سے دین کا حصہ ہے کسی کو محروم الارث کر دینا ایک ظلم ہے اور ظلم کو عدل قرار دینا تو اس سے بڑا ظلم ہے پھر اس لحاظ سے اس کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے کہ اس فعل کی نسبت اس ہستی سے کی گئی ہے جسے سیدہ فاطمہؓ کے والد گرامیﷺ نے اپنی زندگی میں امت کا امام مقرر کیا تھا اوران کے شوہر سیدنا علیؓ نے اپنے عہد خلافت میں برسر منبر اعلان کیا

کہ یہ شخص ساری امت سے افضل ہے۔

 اس مسئلہ کا جائزہ لینے کے لیے اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنا ضروری ہے ۔

1۔ فدک کیا ہے۔

2۔ فدک کی حدود کیا ہیں۔

3۔ یہ حضورﷺ کے قبضہ میں کیونکر آئی۔ 

4۔ اس میں حضورﷺ کا تصرف مالکانہ تھا یا متولیانہ۔

5۔ اس کی سالانہ آمدنی کتنی تھی۔

6۔ حضورﷺ کے زمانہ میں اس آمدنی کا مصرف کیا رہا۔

7۔ سیدہ فاطمہؓ نے میراث کا مطالبہ کیا تھا یا ہبہ کا۔

8۔ اگر ہبہ کا مطالبہ کیا تو مضمون دعویٰ کیا تھا۔

9۔ کیا حضورﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کے حق میں اس کی وصیت کی تھی۔

10۔ کیا انبیاء کی میراث مالی ہوتی ہے یا علمی۔ 

11۔ سیدنا ابوبکرؓ نے اس مطالبہ پر جو فیصلہ کیا تھا وہ شریعت محمدیﷺ کے مطابق تھا یا اس کے خلاف ۔

12۔ خلیفہ اول کے بعد باقی تین خلفاء کے عہد میں اس کا مصرف کیا رہا۔ 

13۔ اگر انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی تو وہ اس جُرم سے بَری کیونکر قرار دئے جاسکتے ہیں یہ تمام پہلو زیرِ بحث آئیں گے۔

1۔ فدک کیا ہے اس کی حدود کیا ہیں:
مؤرخین کا فیصلہ:

واما فدك وهي بفتح الفاء والمهمنة بعدها كاف بلديبينها وبين المدينة ثلاث مراحل وكان من شانها ما ذكر اصحاب المغازي قاطبة ان اهل فدک كانوا من يهود فلما فتحت خيبر ارسل اهل فلك يطلبون النبیﷺ الأمان على ان تيركو البلد ويرهادن۔

فدک فا کی زبر سے ہے مدینہ سے تین منزل پر واقع ہے مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اہلِ فدک یہودی تھے جب خیبر فتح ہوا تو اہلِ فدک نے حضورﷺ سے امان طلب کی کہ انہیں بستی چھوڑ کر چلے جانے کی اجازت دی جائے۔

یعنی فدک مدینہ منورہ سے تین منزل کے فاصلے پر ایک گاؤں تھا جس میں یہودی آباد تھے لسانُ العرب میں لکھا ہے کہ فدک ایک گاؤں ہے جو حجاز میں واقع ہے "مراصد الاطلاع على اسماء الامكنة والبقاع" میں لکھا ہے کہ فدک حجاز میں ایک گاؤں ہے جو مدینہ طیبہ سے دو یا تین دن کی مسافت پر ہے اور اسے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو فَے کیا تھا صلحاََ حاصل ہوا تھا اس میں پانی کے چشمے اورکھجوریں تھیں۔ 

یعنی اہلِ لغت اہلِ تاریخ اور جغرافیہ دان اس بات پر متفق ہیں کہ فدک ایک گاؤں تھا جس میں یہودی آباد تھے۔ 

علمائے شیعہ کے نزدیک فدک کی حقیقت:

(1) شیعہ مجتہد ملاباقر مجلسی نے کتاب اِختصاص سے سیدنا جعفرؓ سے بسند معتبر فدک کی حدود بیان کی ہیں۔ 

(2) من روزے درخانۀ فاطمہؓ نشسته بودم کہو جبریلؑ نازل شد و گفت یا محمدﷺ خیز که خدا مرا امرکروہ است که ملک فلک را برائے تو خود کشم به بال خود پس حضرت برخاست درفت و باز در اندک زمان برگشت فاطمهؓ گفت کجا رفتی اے پدر فرمود که جبرئیلؑ برائے من ببال خود مملکت فدک راخط کشید و حدودش را بمن نمود ومرا امر کرد کہ تسلیم بتو نمائم پس حضرت فدک باد تسلیم کرد۔

(حياة القلوب جلد 2 صفحہ 503)

میں ایک روز سیدہ فاطمہؓ کے گھر بیٹھا تھا کہ جبریلؑ آئے اور کہا کہ اے محمدﷺ اُٹھئے مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ ملک فدک کی حدود کی نشاندہی کردوں پس حضورﷺ اٹھ کر چلے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد لوٹے سیدہ فاطمہؓ نے کہا ابا جان آپ کہاں گئے تھے فرمایا کہ جبرئیلؑ نے فدک کی سلطنت کی حدود بتانے کے لیے اپنے پروں سے ایک خط کھینچا اور مجھے حکم دیا ہے کہ یہ سلطنت تیرے حوالے کردوں چنانچہ حضورﷺ نے فدک کی سلطنت ان کو دے دی یعنی فدک ایک ملک تھا ایک سلطنت تھی۔ 

(3) ابنِ شهر آشوب روایت کرده است کہ حضرت رسولﷺ چوں متوجہ قلعہا سے فدک شدند ایشان را قلعه ہاۓ حصین خود متحصن شدند ایشان را آنجنابﷺ طلبید و گفت که چه خودید کرد اگر شمارا دریں قلعه بگذارم و جمیع قلاع شمارا بکشائم و اموال شمارا متصرف شوم ایشاں گفتند مادران قلعها محافظان داریم و کلید ہائے آنہا نزد ماست حضرت فرمود بلکہ کلید ہائے آنہارا بمن داده است و در دست من است و کلید ہائے بایشان نمود۔

(حياة القلوب جلد 2 صفحہ 503)

ترجمہ: ابنِ شہر آشوب نے روایت کی ہے کہ حضورﷺ نے جب فدک کے قلعوں کا رخ کیا تو وہ لوگ اپنے مضبوط قلعوں میں قلعہ بند ہوگئے حضورﷺ نے انہیں طلب کیا اور فرمایا کہ اگر میں تمہیں اس قلعہ میں بند رکھوں اور تمام قلعوں اور اموال پر قبضہ کر لوں انہوں نے کہا ہم نے ان قلعوں میں محافظ رکھے ہوئے ہیں اور ان کی چابیاں ہمارے پاس ہیں حضورﷺ نے فرمایا کہ ان کی چابیاں تو میرے پاس میں پھر حضورﷺ نے وہ چابیاں انہیں دکھائیں۔

 یہ روایت پہلی روایت کی تائید کرتی ہے کہ فدک ایک سلطنت تھی جس میں عظیم الشان قلعے تھے۔

(3) اصول کافی میں فدک کی تفصیل یہ درج ہے۔

لما ورد ابو الحسن موسیٰ عليه السلام على المهدى راٰه يرد المظالم فقال يا امير المؤمنين ما بال مظلمتنا لا ترد فقال له ما ذاك يا ابا الحسن قال ان الله تعالیٰ لما فتح على نبيهﷺ ما و الا هالم يوجف به ولاده ب نزل الله تعالىٰ على نبيهﷺ وأت ذا القربيٰ حقه فلم یدی رسول اللهﷺ من هم فراجع جبرئیلؑ دبه فاوحی الله الیه ان اوقع الى فاطمه فدعا رسول اللهﷺ فقال لها يا فاطمهؓ ان الله امرنی ان الدفع اليک فدك فقالت قد قبلت يا رسول اللهﷺ من الله ومنك فلم يزل وكلاءها في حياة رسول اللهﷺ فلما ولى ابوبكرؓ اخرج ابوبكرؓ وكلاءها عنها فاتته فسالته ان يردها عليها قال المهدى له يا ابا الحسنؓ حدِ هالی فقال حد منها جبل احد وحد منها عويش معمر وحد منها سيف البحر وحد منها دومتنا الجندل فقال له كل هذا قال نعم يا امیر المومنين هذا كله ان هذا كله مما لم يوجف۔

(اصولِ کافی صفحہ 354)

ترجمہ: جب ابوالحسن موسیٰ خلیفہ مہدی کے پاس یہ سن کر گئے کہ وہ مظالم لوٹا رہا ہے تو کہا امیر المؤمنین کیا وجہ ہے کہ ہمارے مظالم نہیں لوٹائے گئے پوچھا کون سے؟ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جب نبی کریمﷺ کے ہاتھوں فدک فتح کرایا تھا تو اس پر کوئی چڑھائی نہیں کی تھی تو حضورﷺ پر آیت وآت والقربیٰ الخ نازل ہوئی حضور اکرمﷺ کو علم نہیں تھا کہ قرابت دار کون ہیں اس لیے جبریلؑ سے پوچھا انہوں نے اللہ سے درخواست کی اللہ نے وحی کی کہ فدک سیدہ فاطمہؓ کو دے دیجیئے حضورﷺ نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ فدک تجھے دوں سیدہ فاطمہؓ نے کہا یا رسول اللہﷺ اللہ کی طرف سے اور آپ کی طرف سے میں نے قبول کیا پھر حضورﷺ کی زندگی میں سیدہ فاطمہؓ کے وکلاء اس باغ پر مقرر رہے جب سیدنا ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے وکلاء کو نکال دیا سیدہ فاطمہؓ سیدنا ابوبکرؓ کے پاس آئیں کہ فدک انہیں لوٹا دے مہدی نے کہا ابو الحسن فدک کی حدود تو بیان کیجئے جواب دیا اس کا ایک سرا جبلِ احد ہے دوسرا سرا عریش مصر ہے تیسری طرف سمندر کا کنارہ ہے اور چوتھی جانب دومۃ الجندل ہے مہدی نے کہا یہ سارا فدک ہے؟ کہا ہاں یہ سارا فدک ہے جس پر حضورﷺ نے گھوڑے نہیں دوڑائے۔

(4) اسی مضمون کی ایک روایت ملا باقر مجلسی نے اپنی کتاب بحارالانوار (جلد 8 صفحہ 101) کتاب الفتن میں بیان کی ہے اس میں فدک کی حدود یہ بیان ہوئی ہیں۔

 اس کی ایک حد عدن ہے دوسری سمر قند تیسری افریقہ چوتھی سمندر کا کنارہ ہے جو آرمینیا سے ملا ہوا ہے۔

ان روایات سے فدک کی وسعت کی تعیین ہوگئی نئی بات یہ معلوم ہوئی کہ حضورﷺ کی زندگی میں اس جاگیر پر سیدہ فاطمہؓ کے وکلاء مقرر تھے سیدنا ابوبکرؓ نے نکال دئے۔

(5) ملا باقر مجلسی نے فدک کی تفصیل اس طرح بھی دی ہے۔

حضرت در جمیع خانہ ہائے شہر ہائے ایشاں گرد یدپس جبریلؑ گفت که خدا این را مخصوص تو گرد اینده و بتو بخشیده۔

حضرت اس کے تمام شہروں کے تمام مکانات میں پھرے پھر جبریل نے کہا کہ یہ خدا نے آپکے لیے مخصوص کیا ہے۔

(حياة القلوب جلد 2 صفحہ 218)۔

(4) سید نعمت الله الجزائری لکھتے ہیں۔

واما حدودها فقال موسى بن جعفر عليه السلام ان حدها الأول عريش مصر والحد الثانی دومة الجندل والحد الثالث تيما و الحد الرابع جبل من المدينه۔

(انوار نعمانیه جلد 1 صفحہ 16) 

جہاں تک فدک کی حدود کا تعلق ہے سیدنا موسیٰ بن جعفر نے فرمایا اس کی ایک حد عریش مصر ہے دوسری دومۃ الجندل ہے تیسری تیما ہے اور چوتھی احد کا پہاڑ ہے۔

ان چھ روایات اور اِقتباسات کا ماحصل یہ ہے کہ:

(1) فدک ایک وسیع سلطنت تھی جو آرمینیا سے لے کر مصر تک پھیلی ہوئی تھی۔ 

(2) رسول کریمﷺ نے یہ سلطنت سیدہ فاطمہؓ کو ہبہ کر دی۔

(3) اس سلطنت میں کئی عظیم الشان قلعے تھے۔

(4) اس سلطنت میں کئی شہر تھے ۔

(5) اس سلطنت میں رسول کریمﷺ کی زندگی میں کئی وکلاء مقرر تھے جو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے نکال دئے۔

اہلِ لغت مؤرخین اور جغرافیہ دان کہتے ہیں فدک ایک بستی تھی یہ امر واقعہ ہو یا رائے بہرحال انسان کا مشاہدہ اور خیال ہی ہوسکتا ہے مگر ان چھ روایات سے ظاہر ہے کہ امام معصوم بیان کر رہے اور جبریل امینؑ نشاندہی کر رہے اور حضورﷺ ہبہ کر رہے ہیں لہٰذا اس کو رائے نہیں کہا جاسکتا بلکہ شیعہ کے نزدیک فدک ایک وسیع سلطنت تھی جو آرمینیا سے مصر تک اور عدن سے دومة الجندل تک پھیلی ہوئی تھی۔ 

اس حقیقت کے پیش نظر یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے جس فدک کا مطالبہ کیا تھا وہ اہلِ لغت کا خیالی نہیں بلکہ ائمہ معصومین کا بیان کردہ حقیقی فدک ہی مانگا ہوگا مگر تاریخ بتاتی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی سلطنت حجاز کے ایک چھوٹے سے حصے سے آگے نہیں بڑھی تھی پھر وہ سیدہ فاطمہؓ کا مطالبہ کیونکر پورا کرسکتے تھے اور سیدہ فاطمہؓ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ جان بوجھ کر سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے وہ چیز مانگ رہی ہیں جو ان کے قبضے میں نہیں کسی طرح قابل تسلیم نہیں اگر آج کوئی شخص صدرِ پاکستان سے مطالبہ کرے کہ مجھے افغانستان اور ایران بطور جاگیر دے دیا جائے صدر پاکستان بھلا اس کا مطالبہ کیونکر پورا کرسکتے ہیں اس پر اگر وہ شخص روٹھ جائے اور صدرِ پاکستان کو غاصب کہنے لگے تو اس کے متعلق کیا کہا جائے گا اس بنا پہ عقل کا فیصلہ یہی ہے سیدہ فاطمہؓ کا مطالبہ محض فرضی قصہ ہے جو لوگ اس مطالبہ کو صحیح تصور کرتے ہیں ان کا فرض ہے کہ تاریخ سے یہ ثابت کریں کہ مطالبہ کے وقت یہ علاقے سیدنا ابوبکرؓ کے قبضہ میں تھے اور اسلامی حکومت کی حدود میں داخل تھے اگر ایسا نہیں اور یقیناً نہیں تو مطالبہ کو فرضی قصہ اور جعلی داستان کہنا پڑے گا۔

(7) صاحب درۃ النجفیہ نے فدک کی تفصیل یہ دی ہے۔ 

ولفدك بفتحتين قرية من القرى اليهود بينھا

وبين المدينة النبی يومان۔ 

(صفحہ 329)

فدک یہودیوں کی بستیوں میں سے ایک بستی ہے جو مدینہ سے دو دن کی مسافت پر ہے۔

(8) اسی درۃ النجفیہ میں ہے۔

وردى انه كان فيها احدى عشر نخلة  غرسها رسول اللهﷺ بيده وكانت بنو فاطمةؓ يهدون ثمرها إلى الحجاج۔ 

(صفحہ 332) 

اور روایت کیا گیا ہے کہ باغِ فدک میں کھجور کے گیارہ درخت تھے جو حضورﷺ نے اپنے دست مبارک سے لگائے تھے ان کا پھل اولاد سیدہ فاطمہؓ حاجیوں کو ہدیہ دیا کرتے تھے۔

 درة النجفیہ کی روایات کے مطابق فدک کی سلطنت سمٹ کر بستی رہ گئی پھر اور سمیٹی تو کھجور کے گیارہ درخت اس کی کل کائنات ٹھہری کیا انہیں گیارہ درختوں والے زمین کی نشاندہی کے لیے جبریلؑ اپنے پروں سے کام لیتے رہے درخت تو بعد میں حضورﷺ نے لگائے پہلے تو وہاں کچھ نہیں تھا اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ سیدہ فاطمہؓ نے اتنی سی زمین اور گیارہ درختوں کے لیے اس اتنے جتن کئے اور بقول شیعہ عمر بھر خلیفۂ رسول سے ناراض رہیں یہ رویہ تو آج کا ایک خالص دنیا دار اور مادہ پرست انسان بھی اختیار نہیں کرتا سیدہ فاطمہؓ کو دنیا اتنی عزیز تھی کہ اس کی خاطر سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے اپنے والد کی حدیث سن لینے کے بعد بھی ناراض ہی رہیں یہ ایک عجیب معمہ ہے اس لیے یہ کہنا پڑے گا کہ سیدہ فاطمہؓ کا مطالبہ اسی فدک کےلئے ہوگا جو بہ سند معتبر گذشتہ چھ روایات میں بیان ہوا ہے اور جو اس وقت سیدنا صدیق ابکرؓ کی سلطنت میں شامل نہیں تھا۔

باغِ فدک کی آمدنی:

(1) پس اہلِ فدک بخدمت حضرت رسولﷺ آمدند و بایشاں مقاطعه نمود کہ ہر سال بست و چہار ہزار دینار بد بند بحساب ایں زمانہ تقریباً سہ ہزار وشش صد تومان باشد۔

(حياة القلوب جلد 2 صفحہ218) 

اہلِ فدک حضورﷺ کے پاس آئے ان سے طے ہوا کہ ہر سال 24 ہزار دینار دیں گے اس زمانہ کے حساب کے مطابق 3600 تومان بنتے ہیں۔

(2) تشئید المطاعن میں سید محمد قلی لکھتے ہیں کہ ایک لاکھ بیس ہزار دینار تھی اور اسی کتاب میں لکھا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں فدک کی آمدنی ایک لاکھ چالیس ہزار دینار سالانہ تھی۔

درۃ النجفیہ کی روایت میں بیان ہو چکا ہے کہ کل 11 درخت تھے جو حضورﷺ نے لگائے تھے اس روایت کی تعبیر میں کہا جاتا ہے کہ باغ تو بڑا وسیع تھا البتہ 11 درخت حضورﷺ نے لگائے تھے یہ تعبیر الفاظ کا ساتھ نہیں دیتی فیہا میں ھاضمیر کا مرجع زمین فدک ہے یعنی اس زمین میں کل 11 درخت تھے ورنہ عبارت یوں ہوتی کہ وسیع باغ تھا جس میں گیارہ درخت حضورﷺ نے خود لگائے تھے اس لیے روایت کے الفاظ کا صحیح مفہوم یہی ہے کہ اس باغ میں کل 11 درخت تھے اور وہ بھی حضورﷺ نے اپنے دست مبارک سے سے لگائے تھے۔

اب واقعات کی روشنی میں اس آمدنی کا جائزہ لینا چاہیے۔

(1) سن 7ھجری میں فدک کی زمین اسلامی سلطنت میں شامل ہوئی۔

(2) سن 10 ھجری میں حضورﷺ اس جہان سے رخصت فرما گئے۔

عام تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ کھجور کا درخت چار پانچ سال سے پہلے پھل نہیں دیتا پھر حضورﷺ نے کل 11 درخت جو لگائے تھے اس پر "وکلاء" کتنے اور کیوں مقرر کئے تھے جو سیدنا ابوبکرؓ نے نکال دیے اور پھل آنے سے پہلے ہی ان درختوں سے اتنی آمدنی کیسے ہوتی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ روایت بنانے میں ذرا اور احتیاط کی جاتی اور غرسها کی جگہ ابرھا لکھا جاتا تو کچھ بات بن جاتی کیونکہ پیوند شده کھجور دوسرے تیسرے سال پھل دینے لگتی ہے پھر دیکھنا یہ ہے 11 درخت ایک موسم میں کتنا پھل دے سکتے ہیں کہتے ہیں 20 سیر سے ایک من تک ایک درخت پھل دے سکتا ہے حساب یوں بنتا ہے کہ 11 من کھجور کی قیمت 120000 دینار یعنی 10909 دینار فی من یعنی 272 دینار فی سیر 17 دینار فی چھٹانک اور 1/2 .5 دینار فی تولہ اب دیکھنا یہ ہے کہ چھٹی صدی عیسوی میں کہیں اتنی مہنگی کھجور بھی بکتی تھی یہ تو سونے کے نرخ معلوم ہوتے ہیں آخر مبالغہ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور مبالغہ صرف شعروں میں چلتا ہے حسابی عمل میں مبالغہ کا کیا کام۔

پھر یہ ایک حقیقت ہے کہ کھجور کے درخت اس وقت تک پھل نہیں دے سکتے جب تک ان میں کوئی نہ کوئی نر درخت نہ ہو اگر فرض کر لیا جائے کہ ایک نر درخت تھا اور دس مادہ تو 10 درختوں کے پھل کی قیمت 120000 دینار یعنی 300 دینار فی سیر قیمت بنی۔

 خواب کی دنیا کی بات ہو تو تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر جیتی جاگتی اور حقائق کی دنیا میں اس بات کو وہی تسلیم کرے گا جسے عقل سے پیدائشی بیر ہو۔

فدک کی جاگیر حضورﷺ کے قبضہ میں کیسے آئی:

فتح الباری جلد 6 صفحہ 123 تفسیر کبیر اور فتوح البلدان میں مذکور ہے کہ جب خیبر فتح ہوچکا اور حضورﷺ واپس آرہے تھے تو آپﷺ نے سیدنا محیصہ بن مسعود انصاریؓ کو اہلِ فدک کی طرف بھیجا کہ انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں یہود کے رئیس یوشع بن نون نے فدک کی نصف آمدنی پر مسلمانوں سے صلح کرلی چونکہ جنگ کی نوبت نہ آئی اس لیے یہ آمدنی حضورﷺ کیلئے مختص رہی نبی کریمﷺ کے قبضہ میں مال آتے تھے قرآنِ کریم نے اس کی تین قسمیں بیان کی ہیں زکوٰة غنیمت اور فَے۔

زکوٰۃ پر لفظ صدقہ کا اطلاق بھی ہوتا ہے قسم اول یعنی صدقات کے اموال رسول کریمﷺ اور آلِ رسولﷺ کے لیے حرام تھے۔

 قسم دوم یعنی غنیمت کی حقیقت انفال کے نام سے اللّٰہ تعالیٰ نے بیان فرمادی اور اس کی تقسیم کا طریقہ بھی بیان فرما دیا۔

قسم سوم یعنی فَے کے متعلق قرآنِ مجید نے تفصیل بیان کر دی۔ 

ما أفاء الله على رسوله من احد القریٰ فلله وللرسول ولذى القربیٰ والبيتمىٰ والمساكين وابنِ السبيل۔

 فَے اس مال کو کہتے ہیں جو جنگ کئے بغیر صلح سے ہاتھ آئے اور فدک اسی طریقہ سے حضورﷺ کے قبضہ میں آیا تھا لہٰذا فدک کی جاگیر مال فے سے تعلق رکھتی ہے۔

مال فےَ پر حضورﷺ کے قبضہ کی نوعیت:

آیت مندرجہ بالا سے صاف ظاہر ہے کہ فدک کی جاگیر حضورﷺ کا قبضہ مالکانہ نہیں تھا بلکہ متولیانہ تھا یعنی آپﷺ فدک کی آمدنی کی تقسیم کے متولی تھے جیسے کسی حکومت میں وزیر خزانہ ہوتا ہے وہ خزانہ کا مالک نہیں بلکہ متولی ہوتا ہے اسی طرح فدک کا مالک حقیقی اللّٰہ تعالیٰ ہے اور رسول کریمﷺ کو اس مال کی تقسیم کے لیے متولیانہ تصرف اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ملا اگر قبضہ مالکانہ ہوتا تو ذی القربیٰ یتامیٰ مساکین اور مسافر اس میں شریک نہ کئے جاتے ان چار اقسام کے لوگوں کو مال فَے میں شریک کرنا ہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ مال حضورﷺ کی ذاتی ملکیت نہیں تھا بلکہ ان لوگوں کی خبرگیری کے لیے حضورﷺ کو متولیانہ تصرف کرنے کا حکم دیا گیا اگر رسول کریمﷺ کو مالک قرار دیا جائے تو آیت کی رو سے ان چار قسم کے لوگوں کو بھی مالک قرار دیا جائے اور میراث کا سوال اٹھا تو ان سب میں میراث تقسیم ہوگی۔

اب تقسیم کے دو ہی طریقے ہیں۔ 
اول باعتبار رقبہ: 

یہ صورت محال ہے کیونکہ مسکین کلی ہے خواہ نوع ہی ہو اسی طرح یتیم بھی کلی ہے مسافر بھی کلی ہے جن کے افراد لاتعداد ہیں پھر رقبہ کیسے تقسیم ہوسکے گا۔ 

دوم باعتبار آمدنی: 

یہ صورت ممکن ہے افرادِ بدل سکتے ہیں تقسیم ہوسکے گی اس صورت میں یہ مال کسی کی مملوکہ چیز نہ ہو گی تقسیم کرنے والا مہ متولی ہوگا مالک کوئی بھی نہ ہوسکے گا ہاں رقبہ کسی کے نام منتقل ہو تو اسے حقوق مالکانہ مل سکتے ہیں مگر یہ صورت یہاں ممکن نہیں اس جاگیر کے متعلق خلفائے ثلاثہؓ کے بعد جو صورت اختیار کی جاتی رہی اس کی تفصیل یوں ملتی ہے۔

قال القرطبي الاولى علی لم يغير هذا الصدقة مما كانت في ايام الشيخینؓ ثم كانت بعده بيد الحسنؓ ثم بيد الحسينؓ ثم بعيد علي بن الحسنؓ ثم بيد الحسن بن الحسن ثم بيد عبد الله بن الحسين ثم وليها بنو العباس علی ما ذكره الامام البرقاني في صحيحہ ولم يرد عن احد من هولاء انه تملكها و لا ورثها ولا ورثت عنہ۔

(فیض الباری جلد 4 صفحہ 462 عمدة القاری جلد 7 173 و كتاب الخمس ابو حفص بن شاہین)۔

 قرطبی کہتے ہیں کہ جب سیدنا علیؓ خلیفہ ہوئے تو فدک کا وہی نظام برقرار رہا جو شیخینؓ کے زمانہ میں تھا کچھ تغیر نہ کیا پھر سیدنا حسنؓ کے پاس آیا پھر سیدنا حسینؓ کے پاس پھر سیدنا زین العابدینؓ کے پاس پھر حسن بن حسن پر زید بن حسن پھر عبداله بن حسین پهر بنو عباس متولی ہوئے جیسا کہ برقانی نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے اور کسی نے ذکر نہیں کیا کہ یہ لوگ فدک کے مالک بنے ہوں یا وارث بنے ہوں۔ 

اس سے معلوم ہوا کہ فدک کی زمین پر شیخینؓ کے زمانہ جو قبضہ متولیانہ رکھا جاتا تھا وہی برتاؤ سیدنا علیؓ کے عہد میں کیا گیا پھر اولاد فاطمہؓ کے تصرف میں جب یہ جاگیر آئی تو ان کا قبضہ بھی متولیانہ رہا خلفائے اربعہؓ نے حضورﷺ کا عمل اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اس لیے وہی طریقہ اختیار کیا اور خلفائے اربعہؓ کی اتباع کرتے ہوئے اولادِ سیدہ فاطمہؓ میں سے مذکورہ بزرگوں نے اس پر قبضہ متولیانہ کی صورت برقرار رکھی علامہ قرطبی نے اولاد فاطمہؓ کے نام ذکر کر کے آخر میں دوسری صورت کی نفی کردی کہ کسی ایک فرد سے منقول یا ثابت نہیں کہ فدک پر ان کا قبضہ مالکانہ تھا یا اسے میراث بنایا گیا یا ان میں سے کوئی فرد اس جاگیر کا وارث ہوا۔ 

اس سلسلے میں جن الفاظ سے رسول کریمﷺ کی جانب اضافت کا وہم ہوتا ہے محدثین نے اس کی تردید کر دی ہے۔ چنانچہ فیض الباری جلد 4 صفحہ 46 اور وفاء الرفا سمودی میں "فان لله خمسه وللرسول" کے تحت بیان ہوا ہے۔ 

يريد به دفع الوهم الناشى من الاية انك جعلت الخمس الى راى الامام مع الدية تدل على كوفه ملكا لرسول اللهﷺ فازاعه بان اضافته الى رسول اللهﷺ للقسم دون الملك۔

اس کا مقصد اس وہم کو دور کرنا ہے جو آیتِ قرآنی کے مفہوم سے پیدا ہوتا ہے تو نے خمس کو امام کی رائے پر چھوڑ دیا مع دیت کے یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ یہ حضورﷺ کی ملکیت تھا پھر اسے اس بات سے رد کیا کہ یہ اضافت تقسیم کیلئے ہے ملکیت کے لیے نہیں۔

اور فیض الباری جلد 4 صفحہ 459 پر مذکور ہے۔

قدخص رسولهﷺ بان كانت الرسول اللهﷺ خالصۃ بالولاية دون الملك الى ان قال واعلم ان مخاصمة فاطمةؓ بنت رسول اللهﷺ من ابو بكرؓ كانت في التولية۔ 

رسول کریمﷺ کو فدک کے متولی ہونے میں مختص کیا مالک ہونے میں نہیں اور یہ بھی جان لو کہ سیدہ فاطمہؓ کا مطالبہ سیدنا ابوبکرؓ سے ولایت فدک کے لیے تھا میراث اور ملک کیلئے نہیں تھا۔

خلاصہ یہ کہ فدک مال فے تھا اور یہ مال کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتا اس لیے فدک بھی حضورﷺ کی ذاتی ملکیت نہیں تھا۔ 

شیعہ مفسر شیخ مقداد نے اپنی تفسیر کنز المعرفان میں مال غنیمت اور مال فے کے متعلق لکھا ہے۔

ان ما اخذ من الكفار ان كان من غير قتال فهو فئی وان كان مع القتال فهو غنيمة وهو مذهب اصحابنا۔ 

(صفحہ 84)

جو مال کفار سے جنگ کے بغیر حاصل ہو وہ فے ہے اور جو جنگی حاصل ہو وہ غنیمت ہے ہمارا مذہب یہی ہے۔

پھر اسی تفسیر کنز العرفان میں فے کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے۔

والصحيح ما قاله الباقر انها ما اخذ من دار الحرب بغير قتال كالذی استجلى عنها اهلها وهو المسمى فئی و ميراث من لاوارث له وقطائع الملوك اذا لم تكن مغصوبة والاجام وبطون الأودية والموات فان لله ولرسوله وبعده من قام مقامه ليصرفه حيث يشاء من مصالح۔

 (صفحہ 86)

صحیح بات وہ ہے جو سیدنا باقر سے منقول ہے کہ جو مال کفار دار الحرب سے بغیر لڑائی کے لیا جائے مثلاً اس ملک کے باشندوں کو جلا وطن کیا جائے وہ مال فے ہے اور میراث ہے اس شخص کی جسں کا کوئی دوسرا وارث نہ تھا اور بادشاہوں کی جاگیریں جو غضب شدہ نہ ہوں جنگلات اور وادیاں اور غیر آباد زمین خدا کی اور اس کے رسول کی ہیں رسول کے بعد اس کے قائم مقام خلیفہ یا نائب کی ہیں وہ خلیفہ ان میں اپنی صوابدید کے مطابق مصالح عامہ کے لیے تصرف کرے گا۔

سیدنا باقر کے قول کے مطابق مال فے کو میراث بھی کہتے ہیں اس میں رسولﷺ کے بعد نائب رسولﷺ ہی قبضه متولیانہ کے ذریعے مصالح عامہ کیلئے تصرف کا حقدار ہے۔ 

سید نعمت الله الجزائری لکھتے ہیں ۔

ان اولا من رد فدکا علی ورثہ فاطمہؓ سلام الله عليها عمر بن عبد العزيز وكان معاويةؓ اقطعها المروان بن الحكم و عثمان بن عفانؓ و یزید بن معاوية وجعلها بينهم ثلاث ثم قبضت من ورثة فاطمةؓ فردها سفاح ثم قبضت منهم فردها عليهم المامون وقبضت فردها عليهم المستنضرم قضت فردها عليهم المعوقد ثم قبضت منهم فردها عليهم المعتضد ثم قبضت فردها عليهم الراضی۔

(انوار نعمانیہ جلد 1 صفحہ 16)

پہلے شخص جنہوں نے فدک سیدہ فاطمہؓ کے ورثا کو لوٹا یا وہ عمر بن عبدالعزیزؒ تھے اور سیدنا امیر معاویہؓ سیدنا عثمانؓ اور یزید نے اس کے تین حصے کر دیے تھے اور سیدنا امیر معاویہؓ نے مروان بن الحکم کو ایک حصہ دے دیا تھا پھر ان سے لے لیا گیا اور خلیفہ سفاح نے لوٹایا پھر چھین لیا گیا پھر مامون نے لوٹایا پھر چھین لیا گیا پھر واثق نے لوٹایا پھر چھین لیا گیا پھر مستنصر نے لوٹایا پھر چھین لیا گیا پھر معتمد نے لوٹایا پھر چھین لیا گیا پھر معتفد نے لوٹایا پھر چھین لیا گیا پھر راضی باللہ نے لوٹایا۔

یہ روایت اور عینی فیض الباری اور قرطبی کی روایت کا مضمون ملتا جلتا ہے شیعہ سنی دونوں طرف کی روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام حکام خواہ بنو امیہ کے ہوں یا بنو عباس کے فدک کو میراث نہیں سمجھتے تھے۔ اس پر جس کا قبضہ رہا متولیانہ رہا مالکانہ نہیں اگر یہ کسی کی ذاتی ملکیت ہوتی تو خلفاء کے ہوتی تو خلفاء یقیناً اس کے قبضہ میں رہنے دیتے اس لیے اہلِ بیت کے جن افراد کو یہ لوٹایا گیا ان کا قبضہ متولیانہ تھا۔

انوار نعمانیہ کی روایت میں دو باتیں ایسی ہیں جنہیں غلط بیانی کہنا چاہیے ممکن ہے تقیہ کے طور پر ایسا کیا گیا ہو۔ اول یہ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ نے سیدہ فاطمہؓ کے ورثاء کو فدک لوٹا دیا تھا یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ مشکوہ باب الفئی میں اس کی تفصیل درج ہے بقدر ضرورت حصہ حدیث یہ ہے۔

ثم اقطعها مروان ثم صارت عمر بن عبد العزيز فدایت امرا منعه رسول اللهﷺ فاطمةؓ ليس لي بحق  وانی اشهد كم اني رودتها على ما کانت یعنی علی رسول اللهﷺ وابی بكرؓ وعمرؓ۔

پھر مروان نے باغ فدک کاٹ لیا تھا پھر عمر بن عبدالعزیزؒ کے قبضہ میں آیا تو انہوں نے کہا  میرا خیال ہے کہ جو فدک حضورﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو نہیں دیا تھا وہ خاص میرا حق کیسے بن گیا اس لیے میں تمہیں گواہ کرتا ہوں کہ میں فدک کو اسی طریقہ پر لوٹاتا ہوں جس پر رسول کریمﷺ کے زمانہ میں اور شیخینؓ کے زمانہ میں تھا۔

اس سے صاف ظاہر ہے کہ عمر بن عبدالعزیزؒ نے فدک کی آمدنی کی تقسیم کا معاملہ اس طریقہ کی طرف لوٹایا جو رسول کریمﷺ اور شیخینؓ کے زمانہ میں اختیار کیا جاتا رہا۔ 

فدک کے ٹکڑے کرنے کی نسبت سیدنا عثمانؓ کی طرف کرنا بھی غلط ہے اشعۃ اللمعات میں لکھا ہے۔

  وظاهر آں است که این در زمان سلطنت مردان شد۔

فدک کی آمدنی کی تقسیم کے لیے جو طریقہ کار رسول کریمﷺ نے اختیار فرمایا تھا اس کا شیخینؓ بلکہ خلفاء اربعہؓ نے کیا شیعہ کتب میں اس کی تائید ملتی ہے مثلاً۔

 وكان رسول اللهﷺ ياخذ غلتها فيدفع اليهم منها ما يكفيهم ثم فعلت الخلفاء بعده كذلك الى ان معاوية فاقطعها مروان ثلثها بعد الحسن ثم خصت له في خلافته وتداولها الى ان انتهت الى عمر بن عبدالعزيز فردها عليهم ابو العباس سفاح ثم قبضها والداه موسی و هارون فلم تزن في ابدي بني عباس إلى رمان المامون فردها الیھم وبغيب الى عهد الملوكا عبد اللّٰہ وروى انه كان فيها احدى عشر نخلت عرسها رسول اللهﷺ بیده فکانت بنو فاطمه يهدون ثمرها الی الحجاج۔ 

(حدیدی شیخ نهج البلاغه جلد2 صفحہ  296 درة النجفیه صفحہ 331)

اور حضورﷺ اس کا غلہ لے لیتے اور اہلِ بیت کو اس سے اتنا دے دیتے جو ان کے لیے کافی ہوتا پھر آپ کے بعد خلفاء نے بھی ایسا ہی کیا پھر امیر معاویہؓ حاکم ہوئے مروان نے اس کے کا ایک تہائی کاٹ لیا پھر اپنی خلافت میں اسے اپنے لیے مختص کر لیا اور اس میں دست اندازی کرتا رہا حتیٰ کہ عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے عہد میں اہلِ بیت کو یہ لوٹا دیا پھر سفاح نے قبضہ کیا پھر موسیٰ اور ہارون نے پھر مامون کے زمانہ تک بنو عباس کے پاس رہا اس نے اہلِ بیت کو لوٹا دیا اور متوکل کے عہد تک اسی طرح رہا۔ پھر عبداللہ نے قطع کر لیا۔ روایت کی گئی ہے کہ اس میں کھجور کے گیارہ درخت تھے جو نبی کریمﷺ نے اپنے ہاتھ  سے لگائے تھے اور بنو سیدہ فاطمہؓ ان درختوں کا پھل حاجیوں کو بطور تحفہ دیا کرتے تھے۔ 

اس روایت سے ظاہر ہے کہ خلفاء نے وہی طریقہ جاری کیا جو نبی کریمﷺ نے اختیار کیا تھا اور بعد میں حکام وقت باغ فدک میں تدادل کرتے اور ہاتھوں ہاتھ پھیلاتے رہے۔ یہ عمل اس امر کی بین سے دلیل ہے کہ فدک کسی کی ذاتی ملکیت میں نہیں تھا۔ اور اولاد سیدہ فاطمہؓ کو لوٹانا محض ان کی متولیانہ حیثیت سے ہوتا تھا اگر کسی کی ملکیت ہوتی تو اس میں میراث جاری ہوتی اور جس کے قبضہ میں جاتا اس کی اولاد میں شرعی طریقہ پر قسم کیا جاتا مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ حکام وقت دوسروں کی ملکیت میں ایسا عمل کیوں نہیں کرتے تھے صرف فدک کے معاملہ میں یہ رویہ اختیار کرنا عدم توریث کی بین دلیل ہے پھر اسی حدیدی شرح نہج البلاغه جلد 2 صفحہ 296 پر یوں تفصیل دی گئی ہے۔

وكان ابوبكرؓ ياخذ غلتها فيدفع اليهم منها ما يكفيهم ويقسم الباقي وكان عمر كذلك ثم كان عثمان كذلك ثم كان على كذلك فلما ولى الأمیر معاوية بن ابی سفیانؓ اقطعها مروان بن الحكم ثلثها واقطع عمر بن عثمانؓ ثلثها واقطع یزید بن معاوية ثلثها وذلك بعد موت حسن بن علیؓ فلم يزالوا يتداولونها حتىٰ خلصت كلها لمروان بن الحكم ايام خلافته۔

اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا طریقہ یہ تھا کہ فدک کی آمدنی اہلِ بیت رسولﷺ کی ضروریات پر خرچ کرتے تھے جو بچ رہتا وہ راہ خدا میں تقسیم کر دیتے پھر سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ کے عہد میں یہی معمول رہا پھر سیدنا امیر معاویہؓ کے عہد میں مروان نے تہائی فدک اپنے نام خاص کر لیا اور تہائی حصہ سیدنا عمر بن عثمانؓ نے اپنے لیے مخصوص کر لیا پھر تہائی یزید نے اپنے لیے خاص کر لیا یہ تمام حصے حسن بن علیؓ کی وفات کے بعد کئے گئے۔ پھر فدک دست بدست چلتا رہا حتیٰ کہ مروان کے عہد میں سارا فدک اس کے

قبضہ میں چلا گیا ۔

اسی قسم کا بیان فیض الاسلام شرح نہج البلاغہ مؤلفہ علی نقی جلد 5 صفحہ 960 پر ملتا ہے۔

خلاصہ: 

ابوبکرؓ غله و سودان آن را گرفته بقدر کفایت باہل بیت داد و خلفاء بعد هم بر آن اسلوب رفتار نمودند تازمان معاویہؓ که ثلث آں را بعد از امام حسنؓ بمروان داد۔

سیدنا ابوبکر صدیقؓ اس کا غلہ اہلِ بیت کو بقدر کفایت دیتے تھے ان کے بعد خلفاء نے یہی طریقہ طریقہ جاری رکھا سیدنا امیر معاویہؓ کے زمانے تک یہی طریقہ رہا پھر سیدنا حسنؓ کے بعد مروان نے ایک تہائی خود لے لیا۔

اسی طرح کی تفصیل شرح نہج البلاغہ میثم بحرانی صفحہ 543 پر ملتی ہے۔

صاحب درة النجفیہ ابنِ ابی الحدید علی نقی اور میثم بحرانی چاروں چوٹی کے شیعہ کے علماء نے شہادت دی کہ

(1) رسول کریمﷺ فدک کی آمدنی سے اہلُ و عیال کی ضرورت کے مطابق مال لے لیتے تھے باقی تقسیم کر دیتے تھے۔

(2) سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ نے بالکل وہی طریقہ جاری رکھا۔

(3)سیدنا امیر معاویہؓ کے زمانے میں مروان نے تہائی حصہ اپنے قبضہ میں کر لیا۔

(4) سیدنا علیؓ اور سیدنا حسنؓ فدک کے معاملہ میں نبی کریمﷺ اور خلفائے ثلاثہؓ کے ساتھ کلی طور پر متفق رہے۔

اس لیے اگر خلفائے ثلاثہؓ کو فدک کے بارے میں مجرم قرار دیا جائے تو سیدنا علیؓ کو اس جرم سے بری قرار دینے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اس سلسلے میں حضرت انور شاہ کاشمیریؒ کا بیان خالی از فائدہ نہ ہوگا فرماتے ہیں۔

والحال ان علياؓ و عثمانؓ ايضا يمشيا على ما فعله الشيخان و حكى ان رافضيا ذهب عند السفاح الخليفة العباسی فقال انی مظلوم فاجرنی قال الخليفة من ظلمك قال ابوبکرؓ و عمرؓ في تركة النبیﷺ فسال الخليفة عند من الفدك بعد هما قال عند عثمانؓ قال ثم عند من قال عند علی وهكذا قال الخليفة فای خصوصية ابي بکر و عمی فسكت الرافضی الملعون فامر الخليفة بقطع رأسه فقطع وقد تكلم شراح البخاری في حديث الباب وقال السيد السمهودی ان نزاع فاطمةؓ لم يكن في تحصيل التركة و تملكها بل قول الوقف (عرف شندی 485) 

حال یہ ہے کہ سیدنا علیؓ اور سیدنا عثمانؓ بھی شیخینؓ کے طریقہ پر چلے اور بیان کیا گیا ہے کہ ایک شیعہ عباسی خلیفہ سفاح کے سامنے پیش ہوا اور فریاد کی کہ میں مظلوم ہوں میری داد رسی کیجئے خلیفہ نے پوچھا تجھ پرکس نے ظلم کیا ہے کہنے لگا سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ نے میراث نبویﷺ کے معاملے میں مجھ پر ظلم کیا خلیفہ نے پوچھا سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کے بعد فدک کس کے پاس گیا کہنے لگا سیدنا عثمانؓ کے پاس پو چھا پھر؟ کہا سیدنا علیؓ کے پاس اسی طرح پے در پے جن جن کے پاس پہنچا خلیفہ نے کہا پھر اس ظلم میں سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی خصوصیت کونسی ہے شیعہ سائل لاجواب ہوگیا خلیفہ نے اس کا سرقلم کرنے کا حکم دیا چنانچہ اس قتل کردیا گیا فدک کی حدیث میں بخاری کے شارحین نے کلام کیا ہے اور سید سمہودی نے کہا کہ سیدہ فاطمہؓ کا مطالبہ ترکہ کے حصول اور ملکیت کے بارے میں نہیں تھا بلکہ وقف کی تولیت کے بارے میں تھا۔

خلیفہ سفاح نے مظلوم کی داد رسی جس شکل میں کی اس کے متعلق تعجب تو ہوتا ہے مگر اس

کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ

(1) اس نے شیخینؓ پر بہتان لگایا اور انکی سیرت کو مجروح کیا۔

(2) اس کے اپنے بیان کے مطابق سیدنا علیؓ بھی مجرم ٹھہرتے ہیں۔

اور یہ حرکت قتل سے کم نہیں اس لیے اس کا قصاص لیا گیا اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فدک کے بارے میں شیخینؓ پر بہتان لگانا سیدنا علیؓ کو بھی اسی جرم کا مرتکب قرار دینا ہے خواہ ان کا نام نہ لیا جائے کیونکہ چاروں خلفاء کا رویہ اس سلسلے میں وہی رہا جو نبی کریمﷺ نے اختیار فرمایا تھا۔

انبیاء علیہم السلام کی میراث

نبوت کے اعتبار سے انبیاء علیہم السلام دو حیثتیں رکھتے ہیں اول ظاہری جو قالب ہے دوم باطنی جو قلب ہے باطنی پہلو سے ملائکہ اور وحی کے ذریعے احکام خداوندی حاصل کرتے ہیں اور ظاہری حیثیت سے وہ احکام مخلوق تک پہنچاتے ہیں ظاہر کے اعتبار سے وہ فرشی ہوتے ہیں اور باطن کے اعتبار سے عرشی ہوتے ہیں فرشی کی حیثیت سے وہ انسانوں سے مشابہ ہوتے ہیں کھانا پینا بیماری صحت اہل وعیال وغیرہ انسانی اوصاف ہیں اور عرشی ہونے کی حیثیت سے ملائکہ سے مشابہت رکھتے ہیں کہ ان کے قلوب پر نہ غفلت طاری ہوتی ہے نہ نیند ان کے قلوب کا تعلق رب العالمین سے ہر وقت وابستہ رہتا ہے اسی وجہ سے انہیں لامتناہی علوم نبوت کا خزانہ ملتا ہے جب دنیا اور دولت دنیا کی غلاظت سے ان کے قلوب ملوث نہیں ہوتے ملائکہ سے مشابہت کی وجہ سے ان کے قلوب غفلت معصیت اور مال و دولت کی محبت سے پاک ہوتے ہیں ایک دل میں دو متضاد محبتیں جمع نہیں ہوسکتیں انبیاء کا خزانہ اور ان کی دولت علوم نبوت ہیں دنیوی مال و دولت سے ان کا تعلق عارضی اور وقتی ہوتا ہے جو محض حفاظت بدن اور اہل وعیال کے لیے ہوتا ہے چنانچہ مشکوٰۃ شریف میں نقل کیا گیا ہے۔

عن جبير بن نفير مرسلا قال قال رسول اللهﷺ ما اوحى الى ان اجمع المال واكون من التاجرین ولكن اوحی الى ان سبح بحمد ربك وكن من الساجدين واعبد ربك حتىٰ ياتيك اليقين۔ 

(صفحہ 444)

حضور اکرمﷺ نے فرمایاکہ مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ مال جمع کروں اور تاجروں میں شمار ہو جاؤں بلکہ مجھ پر یہ وحی کی گئی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کر اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجا اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت کر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سابقہ امتوں کی ہلاکت کا سبب دولت کی فراوانی تھی۔

دولت کے نشہ نے انہیں خدا سے دور کیا اور خدا نے انہیں عذاب میں مبتلا کیا تو جو چیز اللہ سے دور کرنے والی ہو وہ انبیاء کی میراث کیونکر بن سکتی ہے مال کی ایک صورت ازواجِ مطہرات کے سکونتی مکان تھے یہ امہات المومنین کی ذاتی ملکیت تھے ان کی ملک میں ہبہ مع قبضہ دیے گئے تھے جس کا قرآن مجیدہ شاہد ہے۔ 

وقرن في بيوتكن 

اور اپنے گھروں میں جمی رہو۔

بیوت کی نسبت حضور اکرمﷺ کی طرف نہیں بلکہ ازواجِ مطہرات کی طرف کی گئی ہے قرآن کی بیان کردہ اس حقیقت سے مسلمان بخوبی واقف تھے چنانچہ باجماع سنی وشیعه ثابت ہے کہ قرب وفات کے وقت سیدنا حسنؓ نے سیدہ عائشہؓ سے اس امر کی اجازت طلب کی کر روضہ رسولﷺ میں دفن کئے جائیں یہ مطالبہ اسی وجہ سے تھا کہ وہ مکان سیدہ عائشہؓ کی ذاتی ملکیت تھا حضرت سلیمانؑ اور ملکہ سبا کے معاملے میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کفار بھی اس حقیقت سے واقف تھے کہ انبیاء علیہم السلام مال جمع نہیں کیا کرتے چنانچہ ملکہ نے حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں امتحاناً مال کثیر بھیجا تھا۔ 

انی مرسلة اليهم بھدية مناظرة بم يرجع المرسلون۔

اور اس کے جواب میں حضرت سلیمانؑ نے یہ فرمایا

اتمدون بمال فما اٰتنى الله خير مما اتاكم۔

لفظ میراث کے متعلق مختلف رائیں ظاہر کی گئی ہیں مثلاً 

1۔ لفظ میراث مشترک ہے مال علم اور منصب میں۔

2۔ میراث حقیقت لغوی ہے مال میں اور مجاز ہے علم میں۔ 

شیعہ حضرات کا مؤقف یہ ہے کہ وارثت مال میں حقیقت ہے اور علم میں مجاز ہے اور حقیقت کو ترک کر کے مجاز کی طرف جانے کی ضرورت نہیں۔ 

اہلِ سنت کہتے ہیں کہ یہ لفظ مشترک ہے مال علم اور منصب میں علامہ آلوسی کہتے ہیں۔

لا نسلم کون الميراث حقيقة لغوية في المال بل هی حقيقة فيما یعم وراثة العلم والمنصب (نبوت) والمال وانما صارت لغلبة الاستعمال في عرف الفقهاء مختصة بالمال كالمنقولات العرضية ولو سلمنا ان الميراث مجاز فی العلم فهو مجاز متعارف مشهور خصوصا فی استعمال القراٰن المجيد بحيث یساوى الحقيقة۔ 

(روح المعانی جلد 17صفحہ 67) 

وراثت کا حقیقت لغوی ہو ہم تسلیم نہیں کرتے بلکہ یہ حقیقت عام ہے جو علم منصب اور مال کو بھی شامل ہے بات صرف اتنی ہے کہ غلبۂ استعمال کی وجہ سے عرف فقہاء میں مال سے مختص ہو گئی ہے جیسے دوسری منقولات عرضیہ کا معاملہ ہے اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ میراث مال میں حقیقت ہے اور علم میں مجاز ہے تو پھر بھی وہ مجاز متعارف و مشہور ہے بالخصوص استعمال قرآنی میں تو حقیقت کے مساوی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ میراث کو مال سے مختص کرنا قرآن کے خلاف ہے مثلاً ارشاد ربانی ہے۔

1۔ ثم اورثنا الكتاب الذين اصطفينا من عبادنا۔

2۔ فخلف من بعدهم خلف ورثوا الكتاب۔

3۔ ان الذين اورثوا الكتاب من بعدهم۔

 ان آیات میں یہ لفظ علمی میراث کیلئے بولا گیا ہے اس کے علاوہ قبضہ ملکی پر بھی قرآنِ حکیم میں میراث کا لفظ استعمال ہوتا ہے جیسے۔

1۔ أن الارض لله يورثها من يشاء من عباده۔

2۔ لله ميراث السمٰوٰت والارض۔

شیعہ کا استدلال یہ ہے کہ میراث کا لفظ مال مکتب کیلئے بولا جاتا ہے جو وارث کو بلا کسب ملتا ہے اور علم کسبی چیز ہے مذکورہ بالا دو آیتیں اس استدلال کو رد کرتی ہیں آیت اول کسب کے قصے کی تردید کرتی ہے لفظ میراث موجود ہے مگر کسب موجود نہیں دوسری آیت پر شیعہ کے استدلال کی روشنی میں غور کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ زمین و آسمان کسی اور ہستی کے مال مکتسب تھے جس کے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کو بلا کسب وراثت میں ملے کیا کوئی ذی ہوش انسان یہ سوچ سکتا ہے معلوم ہوا کہ وراثت کا لفظ اس چیز پر بولا جاتا ہے جو بلا قیمت اور بغیر احسان کے حاصل ہو جائے۔ جیسا کہ امام راغب نے لکھا ہے۔

واستعمل لفظ الوراثۃ لكون ذلك بغير ثمن ومنۃ۔

(مفردات صفحہ 540)

شریف مرتضیٰ علم الهدی نے شافی میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ لفظ میراث جب مطلق بولا جائے تو مراد مالی میراث ہوتی ہے اس اصول کو صاحب اصول کافی نے رد کیا ہے

چنانچہ اصول کافی صفحہ53 پر لکھا ہے۔

قال ابو عبد اللّٰه عليه السلام ان سلیمانؑ ورث داؤدؑ وان محمد اورث سلیمانؑ۔

سیدنا جعفرؓ نے فرمایا حضرت سلیمانؑ حضرت داؤدؑ کے وارث ہوئے اور حضرت محمدﷺ حضرت سلیمانؑ کے وارث ہوئے۔

 یہاں لفظ ورث مطلق استعمال ہوا ہے اگر شریف مرتضیٰ کا استدلال درست ہے تو یہ بتایا جائے کہ حضرت سلیمانؑ سے صدیوں بعد حضور اکرمﷺ کو ان کا کونسا مال ورثے میں ملا تھا ظاہر ہے کہ اس سے مراد علومِ نبوت اور منصبِ نبوت ہے حقیقت یہ ہے کہ انبیاء علیہم اسلام کی علمی میراث پر متقدمین سنی اور شیعہ متفق ہیں بعد کے شیعہ نے انبیاء علیہم اسلام کی مالی میراث کا عقیدہ ایجاد کیا ہے چنانچہ اصول کافی صفحہ 8 باب العالم والمتعلم میں صاف لکھا ہے۔

1۔ عن ابى عبد الله قال قال رسول اللهﷺ أن العلماء ورثة الانبياء ان الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولکن اورثورا العلم فمن اخذ منه اخذ بحظ وافر۔

ترجمہ: سیدنا جعفر نے فرمایا نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں انبیاء درہم و دینار کا وارث نہیں بناتے لیکن علم کا وارث بناتے ہیں۔ جس نے علم حاصل کیا اس نے بہت بڑا حصہ حاصل کیا۔

 2۔ اصول کافی صفحہ 7 باب صفت العلم۔

عن ابی عبد الله قال ان العلماء ورثة الانبياء وذلك ان الانبياء لم يورثوا درهما ولا دينارا وانما اورثوا احادیث من احاديثهم فمن اخذ بشئ منه فقد اخذ خطا وافرا۔

سیدنا جعفر فرماتے ہیں کہ علماء وارث ہیں انبیاء کے یہ اس وجہ سے ہے کہ انبیاء کرام درہم و دینار کا وارث نہیں بناتے سوائے اس کے نہیں کہ وہ اپنی احادیث کا وارث بناتے ہیں پس جس نے حدیث سے کچھ لے لیا اس نے بڑا حصہ پالیا۔

3۔ من لا يحضره الفقيه جلد 2 صفحہ 346 سیدنا علیؓ نے اپنے بیٹے سیدنا محمد بن حنفیہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔

تفقه في الدين فان الفقها ورثة الانبياء ان الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكنهم ورثوا العلم فمن اخذ منه اخذ بخط وافر۔

بیٹا دین کا فہم حاصل کر حقیقت یہ ہے کہ فقہاء ہی انبیاء کے وارث ہوتے ہیں کیونکہ انبیاء درہم و دینار کا وارث نہیں بناتے لیکن علم کا وارث بناتے ہیں جسں نے علم حاصل کیا اس نے بہت بڑا حصہ حاصل کیا۔ 

ان احادیث میں دو لفظ خاص طور پر قابل غور ہیں اول "انما" جو کلمہ حصر ہے دوم "لکن" جو دفعہ وہم کے لیے ہے کیونکہ "ان الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما" سے یہ وہم پیدا ہوسکتا تھا کہ انبیاء کی کوئی میراث سرے سے ہوتی ہی نہیں اس لیے "لکن" سے اس وہم کو دور کیا گیا کہ میراث تو ہوتی ہے مگر مالی نہیں بلکہ علومِ نبوت اور ان کی احادیث یہاں ایک اور وہم پیدا کیا جاتا ہے کہ ہاں یہ درست ہے کہ نفی درہم و دینار کی ہے زمین مکان اور جائیداد کی نفی نہیں مگر "لکن" کے لفظ سے ہر قسم کے وہم کو دور کردیا گیا اگر زمین مکان وغیرہ انبیاء کی میراث ہوتی تو کلام یوں ہونا چاہیے تھا "ولکن اورثوا العلم والدار و الارض والبساتين" مگر حدیث میں "ولکن اورثوا العلم" کہ کر بات صاف کر دی کہ علم کے بغیر کوئی اور میراث ہوتی ہی نہیں۔ 

پھر عربی زبان میں لفظ "انما" حصر کے لیے بولا جاتا ہے یعنی اپنے متصل یا بعد کو اس کے ما بعد پر بند کر دیا ہے اس لیے "انما اورثوا احادیث من احادیثہم" میں میراثِ نبوت کو احادیث میں بند کر دیا یعنی میراث انبیاء ان کی احادیث کے علاوہ کوئی دوسری چیز سرے سے ہے ہی نہیں ورنہ انما کا حصر باطل ہوگیا اور اس کا کوئی مطلب ہی نہ رہا اس علمی جواب سے ہٹ کر اگر محض عقلی طور پر سوچا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ سونے چاندی کی نفی سے مراد دنیا کی ہر قسم کی دولت کی نفی ہے یہی دو چیزیں دولت دنیا کی اصل ہیں انہیں سے جائداد خریدی جاتی ہے اور جائداد بیچ کر سونا چاندی حاصل کرتے ہیں اس لیے سونا چاندی کی نفی سے دنیوی دولت سے دنیوی دولت کی نفی ہوگئی خواہ وہ جائیداد غیر منقولہ ہی کیوں نہ ہو۔ کیا سونا چاندی ہی دولت دنیوی ہیں اور مکان زمین جاگیر دولت اخروی ہیں اگر ایسا نہیں تو زمین اور جائداد کو دنیوی دولت سے مستثنیٰ کرنے کی آخر وجہ کیا ہے؟ ایک اور سوال اٹھایا جاتا ہے کہ علماء تو انبیاء کے علم کے وارث ہوتے ہیں مگر مال کے وارث ان کے قرابتدار ہوتے ہیں پہلی بات یہ ہے کہ انبیاء جب مالی میراث چھوڑتے ہی نہیں تو قرابتداروں کو مالی میراث ملے گی کیا؟ دوسری بات جو ذرا نازک ہی ہے کہ علوم نبوی جو جبریلؑ کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے ملتے ہیں وہ تو لے جائیں اغیار اور قرابتداروں کے حصہ میں وہ چیز آئے جو گھٹیا چند روزہ خدا سے دور کرنے والی اور تباہی کی طرف لے جانے والی ہے۔ یہ تقسیم کا اصول خاندان نبوت کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ 

اصول کافی کی احادیث سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ متقدمین شیعہ اس حقیقت پر ایمان رکھتے تھے کہ انبیاء کی مالی میراث کوئی نہیں ہوتی۔ بعد والوں نے ہنگامہ آرائی کیلئے اس میں ایک نئی راہ نکال لی چنانچہ شیعہ محدث سید نعمت اللہ جزائری نے انوار نمانیہ جلد 1 صفحہ 33 پر لکھا ہے۔

ان الانبياء من حيث النبوة لم يورثوا الا العلم واما من حيث الانسانية والبشرية فيجوز ان يخلفوا شيئا من الاموال۔

یقیناً انبیاء باعتبار نبوت کے علم کے بغیر کسی چیز کا وارث نہیں بناتے مگر باعتبار بشریت کے مالی ورثہ چھوڑ جاتے ہیں محدث صاحب کی نکتہ آفرینی قابل داد ہے مگر اس کے کئی پہلو قابل غور ہیں ۔ 

(1) محدث صاحب کا قول اصول کافی میں بیان کردہ احادیث کے مخالف ہے اور اصول کافی امام غائب کی مصدقہ کتاب ہے۔ 

(2) یہ نکتہ محدث صاحب کی ذاتی رائے ہے اور اصول کافی کی ایک روایت رسول خداﷺ کی حدیث ہے جس کے راوی سیدنا جعفر ہیں دوسری روایت سیدنا جعفر کا قول ہے۔

اور تیسری سیدنا علیؓ کا قول ہے اس لیے اگر محدث صاحب کا مقام رسول خداﷺ اور ائمہ معصومین سے بلند تر ہے تو اسے مان لو ورنہ اسے ٹھکرانا ہی پڑے گا۔

(3) نبوت اور بشریت پر غور کیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ بشریت پہلے تھی نبوت بعد میں ملی اور بشریت پر نبوت کا غلبہ ہوگیا اور ایسا ہونا چاہیے تھا اگر بشری اوصاف ہو تابع نفس بشری ہیں بعد نبوت بھی باقی رہیں  تو نبیﷺ سے نفسانی خواہشات کے تحت گناہ کا صدور مثلاً زنا چوری قتل جھوٹ حرام کھانا دھوکہ دینا عبادت میں کوتاہی کرنا وغیرہ کی تقسیم کرنا پڑے گا اگر یہ تسلیم نہ کیا جائے تو مال جمع کرنا جو تابع نفس بشری ہے اسے کیوں تسلیم کیا جائے اگر اول الذکر اوصاف نفسانی بدل گئے تو مال جمع کرنے کا نفسانی وصف کیوں نہ بدل گیا اس لیے حقیقت یہ ہے کہ اوصات بشری بدل گئے اوصاف ملکی پیدا ہوگئے مگر اوصاف کے بدلنے سے ذات اور ماہیت نہیں بدلی نبی بشر ہوتا ہے اور بشر ہی رہتا ہے مگر اس کے اوصاف بشری جو تابع نفس ہوتے ہیں بدل جاتے ہیں اس لیے جہاں دوسرے اوصاف بدلے وہاں مال جمع کرنے کا تابع نفس وصف بھی بدل گیا جب مال جمع کرنے کا وصف باقی نہ رہا تو مال پیچھے چھوڑ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

متأخرین شیعہ نے اصول کافی کی روایات کا توڑ ایک اور نکال لیا کہ حدیث کے رواۃ میں ایک راوی ابو البختری ہے اور وہ اکذب الناس ہے۔ اس لیے اس اس کی روایت کردہ حدیث بھی جھوٹی اور موضوع ہے قابل تمسک نہیں۔ صاحب فلک النجاۃ نے یہی بیان کیا ہے۔ 

یہ اصول تو درست ہے کہ راوی اکذب الناس ہو تو حدیث قابل تمسک نہیں ہوتی مگر اس اصول کا اطلاق یہاں نہیں ہو سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث اصول کافی میں پائی جاتی ہے اور اصول کافی کا مقام شیعہ دینیات میں یہ ہے۔

(1) یہ کتاب غیبت صغریٰ کے زمانے میں سفیروں کے ذریعے امام مہدی کے سامنے پیش کی گئی تھی اور امام نے اس کتاب کی تصدیق ان الفاظ میں کی کہ "ھذا کاف لشیعتنا" اس لیے خواہ راوی جھوٹا ہو اس کتاب میں درج شدہ روایت کی تصدیق جب امام نے کر دی تو اس کی تکذیب دراصل امام مہدی کی تکذیب ہے۔ اس لیے لوگ جو اصول کافی کی حدیث کی تکذیب کرتے ہیں وہ حقیقت میں امام مہدی کی تکذیب کرتے ہیں خدا جانے شیعہ امام معصوم کے انکار اور اس کی تکذیب کی جرات کیسے کرتے ہیں۔ 

(2) علامہ قزوینی نے اصول کافی کی حیثیت یوں بیان کی ہے۔

الحق کتاب کافی عمدہ کتب احادیث اہلِ بیت علیهم السلام است و مصنف آن ابو جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق رازی کلینی که مخالفاں نیز اعتراف بکمال فضیلت او نموده انداز روئے احتیاط تمام آنرا در بیست سال تصنیف کرده در زمان غیبت صغریٰ حضرت صاحب الزمان علیہ وعلی آلہ صلوات الرحمن که شعت ونہ سال بوده دوراں زمان مومناں عرض مطلب می کردند بتوسط اسفراء یعنی خبر آورندگان از آنحضرت و ایشان چهارکس بوده اند بترغیب ایشان و کلائے بسیار بوده اندکه اموال از شیعہ امامیه گرفتندومی رسانیدند ومحمد بن یعقوب در بغداد نزدیک بوده  و درسال فوت آخر سفرا ابو الحسن علی بن محمد السمری که سال سه صد وبیست و نو بجری با شد فوت شده یا یک سال قبل ازاں پس می تواند بود که این کتاب مبارک بنظر اصلاح آں حجت خدا تعالیٰ رسیده باشد۔

(صافی شرح اصول کافی جلد1 صفحہ 4)

حقیقت یہ ہے کہ "کافی" اہلِ بیت کی کتب احادیث میں سے عمدہ کتاب ہے اس کا مصنف ابوجعفر محمد بن بعد یعقوب رازی کلینی ہے جس کے کمال کا اعتراف اس کے مخالف بھی کرتے ہیں نہایت احتیاط سے 20 سال میں یہ کتاب مکمل کی غییت صغریٰ کے زمانے میں جو 69 برس تھا چار سفیروں کے ذریعے امام غائب سے لوگ بات چیت کرتے تھے محمد بن یعقوب بغداد میں سفراء کے پاس رہتا تھا آخری سفیر ابوالحسن علی بن محمد السمری کا سال وفات 321 ھجری ہے اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب امام غائب کے پاس بتوسط سفرا بھیجی گئی انہوں نے اس کی اصلاح کی اس طرح یہ کتاب در حقیقت خدا تعالےٰ کی طرف سے دین میں سند کی حیثیت رکھتی ہے۔

(2) من لا یحضر لا انعقیہ کی فارسی شرح کے مقدمہ میں فائدہ 11 کے تحت اصول کافی کے متعلق لکھا ہے۔

دہم چنیں احادیث مرسلہ محمد بن یعقوب کلینی و محمد بن بابویہ قمی بلکہ جمیع احادیث ایشان که در کافی و من لا یحضره الفقیه همه را صحیح می تواند خواند زیرا که شهادت این دو شیخ بزرگوار کمتر از شهادت اصحاب رجال نیست یقینا بلکه بنتر است.

اسی طرح محمد بن یعقوب کلینی اور محمد بن بابویہ قمی کی تمام احادیث جو کافی اور من لا یحضرہ الفقیہ میں ہیں سب کو صحیح کہا جا سکتا ہے کیونکہ ان دور مشائخ کی شہادت اصحاب رجال کی شہادت سے کم نہیں بلکہ یقیناً اس سے بڑھ کر ہے۔

اصول کافی کے متعلق ان دو عظیم گواہوں کی شہادت کافی ہے کہ اس کی کوئی حدیث غلط نہیں علامہ خلیل قزوینی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ محمد بن یعقوب کلینی خو دامام غائب کو ملا ہے ان سے احکام سنے ہیں معلوم ہوتا ہے خود یہ کتاب امام کے پیش کی تصدیق کرائی ۔

(کتاب الفصل جزو اول صفحہ 37)

وشاید این سه قول را مصنف رحمہ اللہ خوداز صاحب زمان شنیده باشدد ایں قصه را معلوم کرده شد و ظاهر سیاق کلام مصنف در کتاب الی آخر ایں است که مصنف بخدمت او علیه السلام رسیده باشد۔

شاید مصنف نے یہ تین قول امام غائب سے سنے ہوں گے اور یہ قصہ معلوم کر لیا ہوگا سیاق کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف خود امام غائب کی خدمت میں پہنچا ہے۔ مصنفِ اصول کافی کا یہ مقام کے سفراء کے واسطہ کے بغیر خود امام غائب سے ملاقات کی اور کتاب اصول کافی کا یہ مقام کہ امام صاحب الزمان نے اس کی تصدیق کی مہر ثبت کردی پھر اس کتاب کی کسی حدیث کی تکذیب کرنا درحقیقت امام مہدی کی تکذیب کرتا ہے۔ 

شیعہ محدثین اور متکلمین نے رواۃ حدیث کے مقام اور مرتبہ کے تعین کے سلسلے میں ایک اصول مقرر کیا ہے اس اصول کے تحت ابو البختری کی روایت تو صحیح چھو راصح ثابت ہوتی ہے اس اصول کا ذکر انوار نعمانیہ جلد 2 صفحہ384 میں ان الفاظ میں ہوا ہے۔

کما اتفق ذلك في كثير من خواص الأئمة محمد بن سنان و جابر جعفی ممن اتهمهم اهل الرجال بالغلو وارتفاع القول وذلك لان الأئمة عليهم السلام القوا اليهم من اسرار غلومهم مالم يحدثو اغيرهم من الشيعة فاستغرب الشيعة تلك الاخبار لونھم موافقة غيرهم لهم على روايتهم فطعنوا عليهم بهذا السبب وهذا السبب هو سبب رفعتهم وعلو درجاتهم عند مواليهم فما فيه الجرح فهو الذي فيه المدح وقد حققنا هذا المقام في شرح على الاستبصار۔

جیسا کہ یہ چیز اللہ سے بہت سے خواص میں واقع ہوئی ہے جیسے محمد بن مسنان جابر جعفی جن کو علمائے رجال نے غلو اور ارتفاع قول کے ساتھ متہم کیا ہے یہ اس وجہ سے ہے کہ ائمہ نے ان راویوں کو اپنے علوم کے ایسے اسرار بتائے تھے جو ان کے بغیر کسی شیعہ کو نہیں بتائے تھے شیعہ نے ان باتوں کو عجیب سمجھا کیونکہ وہ دوسروں کے اقوال کے مطابق نہیں تھیں اس وجہ سے ان پر طعن کیا۔ مگر یہی طعن ائمہ کے دوستوں کے نزدیک ان کی رفعت اور بلندی درجات کا سبب ہے  پس جس حدیث میں ان کی جرح یا قدرت یا ذم بیان ہوا درحقیقت وہی

ان کی مدح ہے جیسا کہ ہم نے شرح استبصار میں اس کی تحقیق کی ہے۔

رجال کشی میں یہ اصول ذرا وضاحت سے بیان ہوا ہے۔

عن عبد الله بن زرارة قال قال لي ابوعبدالله اقرأ منى على والدك السلام وقل له اني انا اعبيك وذالحامنى عنك فان الناس والمھد ويسارعون الى كل من قربناه وحمدنا مكانه  لاد خال الأذٰى في من نحبه ونقربہ ویرمونه بمجتناله وقربة ونوه منا ويرمون ادخال الأذٰى عليه وقتله ويحمدون كل من عيبناه نحن فانما اعيبك لانك رجل اشتهرت بنا وبميلك الينا وانت في ذلك مذموم عند الناس غير محمود الاثر بمودتك لنا و سيلك الينا فاجبت ان اعيبك ليحمد وأمرك في الدين و بعيبك و نقصك ويكون بذالك منا رافع شبرهم  عنك يقول الله تعالى اما السفنية فكانت لمساكين يعملون في البحر فاردت ان اعبيها الى ان قال تافهم المثل يرحمك الله فانك احب الناس إلى واحب اصحاب الى حيادميتا فانك افضل السفن ذلك البحر لقمقام الزاحزوان من ورائك ملكا ظلوما غصو با يرقب عبور كل سفينة سالحة نزد من بحر الهدی لیا خذ ها غصبا۔ (صفحہ 92)

ابنِ زرارہ سے روایت ہے کہ سیدنا جعفر صادق نے مجھے فرمایا کہ اپنے والد کو میرا سلام کہنا اور اسے کہنا کہ میں تیری مدافعت کے لیے تجھ پر عیب لگاتا ہوں کیونکہ عام لوگ اور دشمن اس شخص پر جپھٹتے ہیں جو ہمارے قریب ہو یا ہم اس کی تعریف کریں۔ ہم جس سے محبت کرتے ہیں یہ لوگ اسے ایذا دینے اور قتل کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں اور ہم جس کے عیب بیان کرتے ہیں اسے یہ لوگ اچھا سمجھتے ہیں۔ میں صرف میں صرف اسی وجہ سے تیرے عیب بیان  کرتا ہوں کہ تو ہماری محبت اور ہماری طرف قلبی میلان کے سلسلے میں مشہور ہوچکا ہے اس لیے لوگ تجھے برا سمجھتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تیرے عیب بیان کروں تاکہ لوگ تیری  تعریف کریں اور تجھے دینی اعتبار سے اچھا سمجھیں یہ چیز تمہیں ان کے شر سے بچانے کا کام دے گی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کشتی مسکینوں کی تھی جو سمندر میں مزدوری کرتے تھے میں نے چاہا اسے عیب دار بنا دوں الخ اللہ تجھ پر رحم کرے خوب سمجھ لے کہ تو بھی اس کی مانند ہے تو میرا اور میرے اصحاب کا محبوب ہے زندگی میں بھی اور بعد موت بھی تو اس بحر مواج میں بہترین کشتی ہے اور تیرے پیچھے ایک ظالم بادشاہ لگا ہوا ہے جو ہر اچھی کشتی کی تاک میں بیٹھا ہے جو ہدایت کے سمندر میں وارد ہوتی ہے تاکہ اس پر غاصبانہ قبضہ کرلے۔ 

زرارہ کے بیٹے کے ہاتھ امام نے جو پیغام زرارہ کے نام بھیجا ہے اس میں ابہام ہے دوسری روایت میں لفظ اعیبک کی تفصیل بیان ہوئی ہے مثلاً رجال کشی صفحہ 98۔99 سیدنا جعفر فرماتے ہیں۔

کذب على والله یكذب على لعن الله زراره لعن الله زراره لعن الله زراره۔

مجھ پر جھوٹ باندھا ہے مجھ پر جھوٹ باندھا ہے اللہ زرارہ پر لعنت کرے لعنت کرے لعنت کرے۔

پھر اسی کے صفحہ 107 پر لکھا ہے۔

عن ابی عبد الله عليه السلام قال (الراوى) دخلت عليه فقال متى عهدك بزراره قال قلت ما رأيته منذ ايام قال لا تبال وان مرض فلا تعده وان مات فلا تشهد جنازته قال قلت متعجبا مما قال نعم زراره شر من اليهود والنصاري ومن قال ان مع الله ثالث ثلاثه۔

راوی کہتا ہے میں سیدنا جعفر کے پاس گیا پوچھا زرارہ سے کب ملاقات ہوئی میں نے کہا کئی روز سے اسے نہیں دیکھا فرمایا کچھ پروا نہیں اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت نہ کرنا اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازہ میں شریک نہ ہونا میں نے تعجب سے پوچھا کس کی بات کر رہے ہیں فرمایا ہاں زرارہ کی بات ہے وہ یہود و نصاریٰ سے برا ہے اور تین خدا ماننے والوں سے بھی برا ہے۔

 پھر اسی رجال کشی کے صفحہ 106 پر ۔

قال (زراره) قلت التحيات والصلوة قال التحيات والصلوة فلما خرجت ضرطت في لحيته وقلت لا يفلح ابدا۔

زراره کہتا ہے میں نے امام سے کہا التحیاة والصلوة فرمایا التحیاة الخ جب میں باہر نکلا تو میں نے امام کی داڑھی میں پاد مارا اور کہا خدا تجھے کبھی فلاح نہ دے۔

پھر اسی کے صفحہ 107 پر ہے۔

فان زراره قال ليس من ديني ولا من دین آبائی۔

امام نے فرمایا زرارہ نہ میرے دین پر ہے نہ میرے آباء کے دین پر ہے۔

اور حق الیقین صفحہ 722 پر ملا باقر مجلسی نے لکھا ہے کہ زرارہ اور ابوبصیر دونوں شیعہ کے نزدیک اجماعی کافر ہیں اور سیدنا جعفر نے بروایت رجال کشی زرارہ کو ملعون اور دین ائمہ سے خارج قرار دیا یہ اعیبک کی تفصیل ہے تو اس کا ملعون ہوتا کافر ہونا یہود و نصاری سے بدتر ہونا دراصل اس کے فضائل ہیں جو عیب کے پردے میں بیان ہوئے ہیں اور لطف یہ ہے دین شیعہ کا قریباً 9/10 حصہ اسی زرارہ اور ابوبصیر کی روایات پر مبنی ہے جب ان اجماعی کافروں کی روایات قابل قبول ہی نہیں یا نہیں بلکہ سر آنکھوں پر تو ابوالہ البختری کے ایک وصف اکذب البریہ کی وجہ سے اس کی روایت کو رد کیوں کیا جائے کیا اس وجہ سے کہ اسے کافر اور ملعون نہیں کہا گیا اس لیے وہ نہ یادہ ثقہ نہیں؟ مگر اکذب البریہ کے وصف کو بھی معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔

یہاں ایک بات ذرا عجیب معلوم ہوتی ہے کہ جب زرارہ کو علم تھا کہ عیب کے پردے میں اس کی تعریف ہو رہی ہے تو امام کی داڑھی میں پاد کیوں مارا ممکن ہے یه ظاہر کرنا ہو کہ اسے امام سے محبت ہے اور یہ حرکت گویا عطر چھڑکنے کے مترادف ہو اور لا یفلح ابدا سے علوشان کا اظہار ہو۔ 

اس اصول کا ایک پہلو بھی قابل غور ہے کہ مخالفوں اور دشمنوں کے سامنے تو ان محبوب ہستیوں کے عیب بیان کرنا ان کے بچاؤ کی خاطر ہوسکتا ہے لیکن اپنوں کے سامنے ایسا بیان آخر کیا معنی رکھتا ہے۔

حاصل یہ کہ اصول کافی کی احادیث واضح کرتی ہیں کہ انبیاء کی مالی میراث نہیں ہوتی اور اصول کافی کی کسی حدیث کا انکار ائمہ کا انکار ہے ایک ابو البختری کا معمولی سا عیب کہ اکذب البریہ ہے کی حیثیت کو کم نہیں کر سکتا۔

قرآن حکیم اور وراثت انبیاء:

شیعہ حضرات ذیل کی آیات قرآنی انبیاء کی مالی میراث کی دلیل میں پیش کرتے ہیں۔

(1) يوصيكم الله فی اولادكم۔

(2) ولكل جعلنا موالى مما ترك الوالدان والاقربون۔

(3) وللنساء نصيب مما ترك الوالدان والاقربون۔

(4) و ورث سلیمانؑ داوؤد۔

(5) رب هب لی من لدنك وليا يرثنى ويرث من آل يعقوب۔

اصولاً ان آیات سے انبیاء کی مالی میراث ثابت نہیں ہوتی کیونکہ 

(1) جس بات پر کفر و ایمان کا مدار ہوتا ہے اس کے لیے دلیل قطعی کی ضرورت ہے جس دلیل میں کئی احتمال ہوں وہ دلیل نہیں بن سکتی۔

(2) دعوٰی خاص ہے کہ انبیاء کی مالی میراث نہیں ہوتی اور ان آیات میں دلیل عام ہے دلیل عام مستلزم دعوٰی خاص کو نہیں دعویٰ خاص کے لیے دلیل خاص لازمی ہے۔

(3) پہلی تین آیات میں انبیاء کا ذکر نہیں مال کا ذکر ہے باقی میں انبیاء کا ذکر ہے مال کا ذکر نہیں اس لیے یہ آیتیں دعویٰ خاص کی دلیل نہیں بن سکتیں۔

(4) یوصیکم اللہ میں خطاب امت کو ہے رسول خداﷺ کو نہیں اس لیے اصول کافی وغیرہ میں عدم میراث انبیاء کی حدیث از قبیل تعین خطاب ہے مخصص خطاب نہیں اور اگر مخصص مان لیں تو بھی ایک پہلو سے درست ہے کیونکہ آیت عام مخصوص البعض ہے مثلاً اولاد کافرکو میراث نہیں ملے گی۔ قاتل وارث نہ ہوگا مرتد وارث نہ ہوگا۔

ان تمام صورتوں میں آیت تخصیص پاچکی ہے تو انبیاء کی میراث تخصیص مان لینے میں کیا مانع ہے۔ 

(5) آخری دو آیتوں میں مطلق میراث کا ذکر ہے مالی میراث کا ذکر نہیں اگر یہ کہا جائے کہ آیت میں ورث یرث کے الفاظ سے مالی میراث ثابت ہوتی ہے کیونکہ وراثت مال میں حقیقت ہے اور علم میں مجاز ہے تو اس کی تحقیق گذشتہ صفحات میں گذر چکی ہے پھر ورث سلیمانؑ میں حضرت سلیمانؑ کے وارث ہونے کی خبر ہے جو ان کی تعریف اور مدح کی آئینہ دار ہے اگر وراثت مالی لیں تو اس میں مدح کا کوئی پہلو نہیں کیوں کہ تمام انسان اس میں شریک ہیں اس لیے مال کا وارث ہونا نہ کوئی کمال ہے نہ تعریف کا مقام اس بنا پر یہ تعریف لغو ہوگی اور کلام اللہ لغو سے پاک ہے۔ 

پھر یہ کہ حضرت داؤدؑ کے 19 بیٹے تھے ناسخ التوریخ جلد 1 صفحہ270) پر ان سب کے نام درج ہیں مالی میراث میں سب بیٹے شریک ہوئے تھے پھر حضرت سلیمانؑ کا خصوصیت سے ذکر کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ آیت کا باقی حصہ مالی میراث کی تردید کرتا ہے کہ وقال يا ايها الناس علمنا منطق الطیر اور صاف ظاہر ہے کہ یہ میراث علم اور منصب کی تھی۔

اس پر ایک سوال ہوتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کو حضرت داؤدؑ کی زندگی میں ہی علم مل گیا تھا پھر ان کے بعد علم کے وارث کیونکر بنے تو اس کا جواب یہ ہے کہ علم تو بیشک مل گیا تھا مگر نبوت اور منصب والد کے بعد ملے

اگر اس صراحت کے باوجود اسے مالی میراث ہی قرار دیں تو حضرت داؤدؑ کی دولت کا جائزہ لینا پڑے گا دیکھنا یہ ہے کہ جو شخص زرہیں بنا کر اپنا گذر اوقات کرے وہ کتنا ترکہ چھوڑ سکتا ہے جس کے لیے قرآنِ حکیم میں خاص اہتمام سے ذکر کیا گیا ہے۔ پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ حضرت سلیمانؑ کے ہاتھ جب وہ مال آیا تو انہوں نے اسے کہاں کھپایا کیونکہ وہ ٹوپیاں بنا کر اپنا گزارہ کرتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مفسرین لکھتے ہیں کہ میراث میں گھوڑے ملے تھے تو ظاہر ہے کہ وہ گھوڑے حکومت کے تھے جن پر حضرت سلیمانؑ کا تصرف مالکانہ نہیں بلکہ متولیانہ تھا حضرت سلیمانؑ کی معاش کے متعلق ایک شیعہ مترجم قرآن علامہ حسین نے ووھبنا الداؤد سلیمان کی تفسیر میں لکھا ہے۔

باوجود آں ملک و سلطنت زنبیل بافتے بجهت او معاش خود و به حصیر خواب کردے ولحظه از یاد خدا غافل نہ بودے۔

 اس وسیع حکومت کے باوجود اپنی معاش کے لیے زنبیل بنتے اور چٹائی پر سوتے تھے اور ایک لحظ میں یاد خدا سے غافل نہ ہوتے تھے اگر بقول شیعہ قرآن نے مالی میراث کا ذکر کیا ہے تو وہ کتنی تھی اور کہاں گئی جسے میراث ملی اس کا حال یہ ہے کہ ٹوکریاں بنا کر پیٹ پالتا ہے اور رات چٹائی پر بسر کرتا ہے۔

آیت کی تفسیر صافی جلد 2 صفحہ 73) پر یوں کی گئی ہے۔

و ورث سلیمان داؤد الملک والنبوة حضرت سلیمانؑ کو حضرت داؤدؑ سے ملک اور نبوت ورثہ میں ملے۔ 

شیعہ شارخین حدیث نے اس آیت کے متعلق لکھا ہے۔

عن ابي عبدالله قال ان سليمانؑ ورث داؤدوؑ ان محمدﷺ ورث سلیمانؑ وانا ورثنا محمدﷺ اوان عندنا علم التورةٰ والانجيل والزبور۔

سیدنا جعفر سے روایت ہے کہ حضرت سلیمانؑ ہے کو حضرت داؤدؑ کی وراثت ملی اور حضرت محمدﷺ کو حضرت سلیمانؑ کی وراثت ملی اور ہم حضرت محمدﷺ کے وارث ہوئے ہمارے پاس تورات انجیل زبور کا علم ہے۔

(صافی شرح اصول کافی جلد 1 صفحہ149) 

اور شرح صافی۔

گفت امام جعفر صادق بدرستیکہ سلیمان بمیراث

گرفت علم را از داؤد چنانچہ اللہ تعالیٰ گفته در سوره نمل وورث سلیمانؑ داؤد بدرستیکه محمد بمیراث برد علم را از سلیمانؑ و بدرستیکه ما اہل بیت محمد بمیراث برد علم را از محمدﷺ۔ 

  اور صافی شرح اصول کافی(جلد 1 صفحہ 71) پر ہے

قال ابو جعفر انا خزان الله في سمائه وارضه لا على ذهب ولا فضة الاعلى علمه۔ 

سیدنا جعفر فرماتے ہیں ہم زمین و آسمان میں اللہ کے خزانے ہیں سونے چاندی کے نہیں علم کے خزانے۔

شرح صافی۔

ماہر آئینه خازنان الله تعالیٰ در آسمان او و زمین اونه نقرہ بلکه بر علم او که نزد حاملان وحی از ملائکه است و نزد انبیاء علیهم السلام ورسل است۔ 

شیعہ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں حکومت اور نبوت کا ذکر کیا ہے اور شیعہ محدثین نے سیدنا جعفر کا قول نقل کیا ہے کہ یہ وراثت علوم نبوت کی تھی اس لیے امام کے مقابلے میں کوئی محقق یا مجتہد خواہ وہ کسی پایہ کا ہو کیا حقیقت رکھتا ہے۔

آیت 5 ایک دعا ہے اور مالی وراثت تو دعا کے بغیر ہی بیٹے کو ملتی ہے لہٰذا حضرت یعقوبؑ کی دعا کے الفاظ "یرثنی" سے مراد علم و نبوت کیلئے وارث کی درخواست ہے دوسرا پہلو یہ ہے کہ دعا تو قبول ہوگئی مگر حضرت یعقوبؑ اور حضرت زکریاؑ کے درمیان کوئی دو ہزار سال کا فاصلہ ہے یہ بعد زمانی بھی مالی میراث کی تردید اور علمی میراث کی تائید کرتا ہے۔

اس آیت کی تفسیر کتب شیعہ میں یوں ملتی ہے۔

(1) درة النجفيه شرح نهج البلاغہ جلد 1 صفحہ 64۔

وقيل اراد منصب الخلافة ويصدق عليه لفظ الارث كما صدق في قوله تعالىٰ حكاية عن زكريا عليه السلام يرثني ويرث من آل يعقوبؑ فانه اراد يرث علمى و مذهبى في النبرة فكانه اسم الميراث صادقا على ذلك۔

کہا گیا ہے کہ مراد منصب خلافت ہے اور خلافت پر میراث کا لفظ صادق آتا ہے جیسا کہ قرآن میں حضرت زکریا عليه السلام کے متعلق بیان ہے "یرثنی الخ" مراد میراث علمی اور منصب نبوت ہے گویا میراث کا لفظ اس پر صادق آتا ہے۔

 (2) الصانی شرح اصول کافی جلد 1 صفحہ 29 جزو سوم حصہ دوم۔ 

ثم مات زكريا عليه السلام فورثه ابنه يحيىؑ الكتاب والحكمة وهو صبي صغيرا ما تسمع لقوله تعالیٰ عزوجل يا يحيىؑ خذا الكتاب بقوة وٰتيناہ الحكم صبيا۔

پھر زکریاؑ فوت ہوگئے اور ان کے بیٹے یحییٰؑ کتاب و حکمت کے وارث ہوئے جبکہ وہ کم سن بچے تھے کیا تو نے اللہ کا فرمان نہیں سنا کہ اے یحییٰؑ کتاب کو مضبوط پکڑ اور ہم نے اسے بچپن میں حکمت دی تھی۔

شرح صافی۔

بعد ازاں مرد زکریاؑ پس میراث بردا ورا یحییٰؑ پسرشن کہ آخر اوصیائے موسیؑ بوده علم کتاب تورات۔

ان اِقتباسات سے ظاہر ہے کہ آج کے شیعہ جن آیات قرآنی سے انبیاء کی مالی میراث ثابت کرتے ہیں متقدمین شیعہ اور ائمہ نے یہی آیات انبیاء کی علمی میراث اور منصب نبوت کے لیے پیش کی ہیں یعنی متأخرین شیعہ نے ائمہ کی مخالفت کرتے ہوئے قرآن مجید میں معنوی تحریف کر کے اپنے ایجاد کردہ عقیدہ کو مستند قرار دینے کی کوشش کی ہے اگر یہ لوگ اپنے اللہ کے عقیدہ پر رہتے تو فدک کا مصنوعی قضیہ کھڑا کرنے اور اس کے لیے بناوٹی دلائل تیار کرنے کی زحمت نہ اٹھانا پڑتی۔

سیدنا ابو بکر صدیقؓ اور سیدہ فاطمہؓ کا مکالمہ

حدیث فدک بخاری میں چار مقامات پر بیان ہوئی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ سیدہ فاطمہؓ نے جب سیدنا صدیق اکبرؓ کے سامنے فدک کی بات چھیڑی تو خلیفہ رسولﷺ نے انہیں حضورﷺ کی ایک حدیث سنائی اور اس حدیث پر عمل کرنے کے سلسلے میں اپنی طرف سے یہ کہا۔

 لا ادع امرا رأیت رسول اللهﷺ يصنعه فيه الاصنعته۔ 

میں نے حضور اکرمﷺ کو جس طریقہ سے کوئی کام کرتے دیکھا اس طریقے کو میں نہیں چھوڑوں گا۔ 

دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں۔

لست نار کاشئیا كان رسول اللهﷺ یعمل به الا عملت به فانی اخشیٰ ان تركت شئیا من امره ان اضیع۔

میں وہ کام نہیں چھوڑوں گا جو سول کریمﷺ کرتے تھے میں صرف اسی پر عمل کروں گا اگر میں حضور اکرمﷺ کے کسی حکم کو چھوڑوں تو مجھے ڈر ہے کہ گمراہ ہو جاؤں گا۔ 

سیدنا صدیق اکبرؓ کے جواب سے ظاہر ہے کہ آپؓ نے وہی کچھ کیا جو ایک سچا مؤمن قرآن حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں کر سکتا ہے اور کرنا چاہیے مثلاً۔

1۔ ما كان المؤمن ولا مؤمنة اذا قضی الله ورسوله أمرا ان يكون لهم الخيرة من امرهم۔

2۔ فلا و ربك لا يؤمنون حتىٰ يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في انفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما۔

3۔فليحذر الذين يخالفون عن أمره إلى تصيبهم فتنة أو يصيبهم  عذاب اليم۔

 یعنی حضورﷺ کے فیصلے کو دل سے تسلیم کرنا اور اس کی مخالفت کا خیال ہی دل میں نہ لانا سیدنا ابوبکرؓ سے متعلق تو ایک سچے مؤمن کا رویہ ریکارڈ پر آگیا مگر دوسری طرف سیدہ فاطمہؓ کے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرنے اور پھیلانے کی کوشش کی گئی دیکھنا یہ ہے کہ سیدہ فاطمہؓ نے قرآنِ حکیم کی یہ آیات یا اسی مضمون کی دوسری آیات پڑھی ہونگی یا نہیں؟ پڑھی ہوں گی تو ان کا مفہوم بھی سمجھا ہوگا یا نہیں؟ اگر سمجھا ہوگا تو اس حکم کی تعمیل کی ہو گی یا نہیں اگر کہیں کہ تعمیل نہیں کی تو یہ سیدہ فاطمہؓ کے مقام سے ناواقفیت بلکہ ان کی توہین ہے اگر کہیں کہ تعمیل کی تو اس کی صورت کیا ہوسکتی ہے آدمی جتنا غور کرے اس کے بغیر کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ جب ان کے مطالبہ کے جواب میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنا کوئی فیصلہ نہیں سنایا بلکہ نبی کریمﷺ کی حدیث سنا دی اپنی طرف سے صرف اتنا کہا کہ مجھے اس حدیث پر عمل کرنا ہے اور سیدہ فاطمہؓ اس جواب سے ایسی مطمئین ہوگئیں کہ عمر بھر  اس مسئلہ کا ذکر تک نہیں کیا اب دیکھنا یہ ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ نے لا ادع امر کہ کر کس رویہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کیا تھا شرح نہج البلاغہ اور علامہ مقیم بحرانی صفحہ 543 پر اس کی تفصیل دی گئی ہے۔ 

كان رسول الله يأخذ من فدك قوتكم و يقسم الباقی و يحمل منه في سبيل اللہ ولك على الله ان اصنع بھاكما يصنع فرضیت بذلك واخذت العهد عليه به وكان يأخذ غلتها فیدفع اليهم منها ما يكفيهم ثم فعلت الخلفاء بعدہ کذالک الی ان ولی معاويةؓ۔

سیدنا صدیق اکبرؓ نے فرمایا کہ رسول کریمﷺ فدک کی آمدنی سے آپ اہلِ بیت کا خرچ الگ کر لیتے تھے جو آپﷺ کے لیے کافی ہوتا تھا باقی مساکین پر یا جہاد کی تیاری پر خرچ کرتے تھے اور اللہ کی  رضا کیلئے آپ کا مجھ پر حق ہے کہ میں فدک میں وہی طریقہ اختیار کروں جو حضور اکرمﷺ کرتے تھے یہ سن کر سیدہ فاطمہؓ راضی ہوگئیں اور  سیدنا صدیق اکبرؓ سے ایسا کرنے کا عہد لیا پھر آپؓ نے اپنے عہد میں  اہلِ بیت کو اسی طرح سال کا  خرچ دیتے رہے ان کے بعد خلفاء نے بھی وہی طریقہ جاری رکھا حتیٰ کہ سیدنا امیر معاویہؓ کا زمانہ آگیا ۔

علامہ میثم شارح منہج البلاغہ نے وضاحت کر دی کہ:

1۔ فدک کی آمدنی کی تقسیم جس طرح حضور اکرمﷺ  کرتے تھے سیدنا ابوبکرؓ نے وہی طریقہ جاری رکھنا چاہا۔

2۔ سیدہ فاطمہؓ سے کہا کہ آپ مجھے حضور اکرمﷺ کا طریقہ جاری رکھنے دیں۔ 

3۔ سیدہ فاطمہؓ اس پر راضی ہوگئیں اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو اس پر قائم رہنے کا عہد لیا۔ 

4۔ سیدنا ابوبکرؓ اس عہد پر قائم رہے اور ان کے بعد تمام خلفائے راشدینؓ بھی اسی عہد پر قائم رہے اور فدک کی آمدنی بالکل اسی طرح  تقسیم کرتے رہے جیسے رسول اللہﷺ کرتے تھے نہج البلاغہ کی ایک اور شرح درة النجفیہ میں صفحہ 331 پر بعینہ ہہی عبارت ہے اور سید علی نقی نے شرح نہج البلاغہ جلد 5 صفحہ 960 میں بلکل اسی طرح سیدہ فاطمہؓ کی رضا مندی کا ذکر کیا ہے۔

الحق الیقین  صفحہ 222 پر ملا باقر مجلسی نے ایک اور بات کا ذکر بھی کیا ہے کہ جب سیدنا علیؓ اور سیدنا زبیرؓ نے بیعت کی اور یہ فتنہ دور ہو گیا تو سیدنا ابوبکرؓ آۓ اور سیدنا عمرؓ کی سفارش کی پس سیدہ فاطمہؓ اس پر راضی ہو گئیں۔

 اب شیعہ کتب کے علاوہ دوسری کتب سے چند اِقتباسات دئے جاتے ہیں۔ 

1۔ تفسیر کبیر المدازی جلد 3صفحہ 57

والجواب ان فاطمة عليها السلام رضيت بقول ابى بكرؓ بعد هذه المناظرة والفقد الاجتماع على صحة ما ذهب الیہ ابوبكرؓ مسقط هذا السؤال۔

اور جواب یہ ہے کہ سیدہ فاطمہؓ اس مکالمہ کے بعد سیدنا ابوبکرؓ سے راضی ہوگئیں اور سیدنا ابوبکرؓ کے قول پر اجماع ہوگیا اور شیعوں کا یہ سوال ساقط ہو گیا۔

 2۔ ریاض النظرة مصری جلد 1 صفحہ 156

عن عامر قال جاء ابوبکرؓ الی فاطمةؓ وقد اشتد ھو صنھا فاستأذن علیھا فقال لھا علی ھذا ابوبکرؓ علی الباب یستاذن فان شئت ان تاذنی لہ قالت او ذاك احب الیک قال نعم فدخلنا غتذر الیھا وکلھا فرضیت عنہ۔

3۔ ریاض النظرة جلد 1 صفحہ 157

وعن الأوزعي قال بلغنى ان فاطمةؓ بنت رسول اللہﷺ غضبت على ابى بكرؓ تخرج ابوبكرؓ حتىٰ قام على بابها في يوم حار ثم قال لا أبرح مكانی حتىٰ ترضىٰ عنى بنت رسول اللهﷺ فدخل عليها علی فاقسم عليها الترضیٰ فرضيت اخرجہ ابن السمان في الموافقة۔

 امام اوزاعی فرماتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ سیدہ فاطمہؓ جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے رنجیدہ ہوئیں سیدنا ابوبکرؓ گھر سے نکلے ان کے دروازے پر جاپہنچے سخت گرمی کا دن تھا فرمایا میں یہاں سے نہیں ٹلوں گا جب تک سیدہ فاطمہؓ راضی نہیں ہوتیں سیدنا علیؓ نے سیدہ فاطمہؓ کو قسم دی کہ راضی ہوجائیں چنانچہ وہ راضی ہو گئیں۔

4۔ فیض الباری 

روى البھقی من الشعبي قال ما مرضت فاطمةؓ اتاها ابوبكرؓ فاستأذن عليها قال علىؓ يا فاطمةؓ هذا ابوبكرؓ ليستأذن عليك فدخل عليها ثم ترضاها حتىٰ رضیت ان الشعبی طلحہ من علیؓ۔ 

5۔کتاب اللخمس ابی حفص بن شاہین بیان کرتا ہے۔

دخل ابوبكرؓ على فاطمةؓ بنت رسول اللهﷺ لما قام ابو بكرؓ حتىٰ رضیت 

ان روایات سے سیدنا فاطمہؓ  کے راضی ہونے کے علاوہ ان کے باہمی تعلقات پر روشنی پڑتی ہے ۔

1۔ یعنی سیدہ فاطمہؓ کا راضی ہونا اور سیدنا ابوبکرؓکی کا عیادت کیلئے آنا، باہم خلوص اور عقیدت کا اظہار ہے۔

2۔سیدہ فاطمہؓ کا انہیں اندر آنے کی اجازت دینا ان کے دل کی صفائی اورخلیفۂ رسولﷺ کی قدر و منزلت کا اظہار کرتا ہے۔ 

3۔ سیدنا علیؓ کا سیدہ فاطمہؓ کے اس فعل کو پسند کرنا ظاہر کرتاہے کہ سیدنا علیؓ کے دل میں سیدنا ابوبکر کی قدر و منزلت تھی ۔

ایسے تعلقات تو صرف اپنوں کے درمیان ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے درمیان جو ایک دوسرے سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں دشمن تو ایسے موقع پر نہ عیادت کیلئے آتے ہیں اور نہ ایک دوسرے کو ملنا چاہتے ہیں۔ 

ان روایات کی حیثیت اہلِ فن کے نزدیک یہ ہے۔

البدایہ والنہایہ ابنِ کثیر جلد 5 صفحہ 289 میں رضا مندی فاطمہؓ کی روایت کو قومی در کیا جید سے بیان کیا ہے۔ اور طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 27 میں مدارج النبوۃ شیخ عبد الحق خدمت دہلوی جلد 2 صفحہ445 تا 446 سیرت حلبیہ کی روایت جو امام اوزاعی سے آئی اس کی تصدیق فرمائی فیض الباری میں امام شعبی کا خود سیدنا علیؓ سے رضا مندی سیدہ فاطمہؓ کو بیان کرنا لکھا ہے۔ 

علامہ ابنِ حجر عسقلانی نے امام شعبی کی روایت کو صحیح فرمایا ہے۔ 

صاحب دورة النجفیه، علامه میثم عمرانی، سید علی نقی وغیره متقدمین شیعہ علماء نے صاف ذکر کیا ہے کہ فرضیت فاطمہؓ مگر زمانہ حال کے شیعہ علماء نے اہلِ حدیث پر دو اعتراض کئے مولوی محمد اسماعیل نے اخبار صداقت میں اور مولوی محمد منظور نے تو شقیق منظوری میں لکھا ہے کہ

1- بائے موحدہ جب رضا کا صلہ ہو تو رضا بمعنی قناعت ہوتی ہے یہاں فرضیت بذلک ہے اور رضا اور قناعت مختلف چیز میں ہیں۔

یہ بات بظاہر وزنی معلوم ہوتی ہے مگر اہلِ لغت اس کی تائید نہیں کرتے مثلاً

لسان العرب جلد 8 صفحہ 297۔

قنع بنفسه قنعا و قناعة

القاموس جلد 3 صفحہ 21۔

القناعة الرضا بالقسم قناعت تقسیم سے راضی ہونے کا نام ہے۔

منتهی الارب جلد 3 صفحہ 556۔

قناعت کسمایت خورسندی

اہلِ لغت کے علاوہ قرآن مجید اس اعتراض کی تائید نہیں کرتا۔

لا یرجون لقاءنا ورضوا بالحياة الدنيا واطمانوا بھا یہاں رضا کا صلہ 'با'  ہے مگر مطلب رضا اور اطمینان ہے وہ قناعت نہیں میں میں مجبوری شامل ہو۔

پھر شیعہ لٹریچر میں اس کی تردید میں مثالیں ملتی ہیں۔

مثلا ناسخ التواریخ جلد سوم از کتاب دوم پر سیدنا علیؓ کے خطبہ میں یہ مصرعہ موجود ہے 

انا راضي بحجة الله وعملہ فيهم ومن حکمت خدا و امراد و حق ایشان خوشنودم۔

آگے اس کتاب کے صحفہ 31 پر ہے۔

وساقهم الشيطان لطلب ما لا يرضی اللہ بہ۔

شیطان انہیں اس چیز کی طلب میں لیے چلا جس سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہے۔

دونوں مقامات پر رضا کا مسلہ 'با' ہے مگر معنی رضا ہی کے ہیں قناعت کے نہیں۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ بحرانی کی روایت بصیغہ مجہول روی بیان ہوئی ہے اور یہ دلیل ضعف کی ہے۔

یہ محض دعویٰ ہے جو اصول حدیث کے خلاف ہے یشیعہ مذہب صیغہ مجمول روایت وحدیث کے غیر مشہور ہونے کی دلیل ہے ضعف کی دلیل نہیں اس پر سب شیعہ متفق ہیں کہ جو حکم یا حد میں مشہور ہے ظاہر ہے وہ غلط ہے اور جو یہ مشہور ہے زاویہ تقیہ اور کتمان میں ہے وہ حق ہے دیکھو اصول کافی باب التقیہ والکتمان ۔

اس لیے شدید اصول کے مطابق اس روایت کو ضعیف نہیں کہہ سکتے ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام نے تقیہ کر کے یا کتمان حق کر کے یا راوی نے ایسا کر کے بصیغہ مجہول بیان کیا ہے۔

اس اصول کی شہادتیں میں واقعات سے ملتی ہیں۔ 

(1)  سیدنا علیؓ نے خلفائے ثلاثہؓ کی بعیت تقیہ کر کے کی تھی اس لیے ظاہر تو باطل تھا مگر اندر عقیدہ حق تھا۔(2)  سیدنا علیؓ نے خلفائے کی اقتداء میں نماز  پڑھی اس لیے ظاہر نماز باطل دل کے اندر جو کچھ تھا وہ حق تھا آگے یہ سلسلہ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کا سیدنا امیر معاویہؓ کے عہد تک جاری رہا  کہ ان حضرات کے ظاہری حالات باطل تھے اور باطن حق تھا۔ اسی طرح یہ روایت تقیہ کر کے بیان ہوئی ہے شیعہ کے خوف کی وجہ سے واضح کر کے بیان نہیں کی۔

اس روایت پر ایک اور اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ علامہ میثم بحرانی نے یہ روایت ابنِ ابی الحدید شارح نہج البلاغۃ سے نقل کی ہے اور اس نے ابوبکر احمد بن عبد العزیز جوہری مصری کی کتاب سقیفہ و فدک سے نقل کی ہے اور یہ دونوں شیعہ نہیں ہیں۔

اس اعتراض کا مطلب یہ ہے کہ بات تو شیعہ عالم نے کی ہے مگر اس کا ماخذ غیر شیعہ عالم ہے اس لیے غیر معتبر ہے یہ محض بہانہ ہے اور حقائق اس کی تائید نہیں کرتے۔ وہ یوں کہ ابن ابی الحدید کے اعتزال سے تو کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا اور حدیدی میں جو عقائد اس نے بیان کئے ہیں وہ اس کے شیعہ ہونے پر شاہد ہیں پھر اس کے قصیدوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف شیعہ نہیں غالی شیعہ ہے پھر یہ کہ علمائے ایران، عراق اسے شیعہ لکھتے ہیں اتنا ضرور ہے کہ اس نے متکلمین شیعہ کی چند ایک روایات پر کلام کی ہے مگر اس کے ساتھ ہی متکلمین شیعہ کے بہت سے عقائد کی تائید بھی ہے۔

اعتراض کا دوسرا حصہ کہ علامہ بحرانی نے یہ روایت ابن ابی الحدید سے نقل کی ہے۔ غلط ہے کیونکہ بحرانی کی روایت اور ابن ابی الحدید کی روایت کے الفاظ میں اتنا تفادت ہے کہ اس کو نقل کرنا نہیں کہہ سکتے۔

تیسرا حصہ کہ کتاب سقیفہ و فدک سے نقل کی ہے یہ بھی محض دعویٰ ہے کیونکہ 

(1)۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اس نام کی کسی کتاب کا وجود پایا گیا ہے۔

(2)۔ اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اس نام کی کوئی تصنیف ابوبکر احمد بن عبد العزیز نے کی۔

(3)۔ ابوبکر احمد بن عبد العزیز نام کا اگر کوئی آدمی ہے تو وہ غیر معروف ہے کسی سنی عالم نے اس سے کچھ اخذ نہیں کیا نہ کسی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے اسمائے رجال کی کسی کتاب میں اس کا مستقل ترجمہ نہیں ملتا ہاں شیعہ علماء نے اس کا ذکر کیا ہے خصوصاً ابو الفرج اصفهانی شیعہ نے اس سے روایتیں لی ہیں جس سے اس شخص کا شیعہ ہونا صاف ظاہر ہے۔

(4)۔ شیخ طوسی نے امامیہ رجال کی فہرست میں ابوبکر احمد بن عبد العزیز کا ذکر کیا ہے اور شیعہ عالم محمد بن علی اردبیلی نے اپنی کتاب جامع الرواۃ ۱: ۵۲ پر اس کا ترجمہ مستقل عنوان سے لکھا ہے اور اس کا کوفی ہونا بیان کیا ہے کہ احمد بن عبد العزيز الجوهرى له كتاب السقيفه الكوفي .

لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ روایت ہر دور میں شیعہ علماء سے ہی نقل ہو کر آئی ہے نتیجہ ظاہر ہے کہ احمد بن عبدالعزیز بھی شیعہ تھا ابنِ ابی الحدید اور میثم بحرانی بھی شیعہ تھے۔ مذکورہ بالا روایات اور تاریخی حقائق نے ثابت کردیا کہ سیدہ فاطمہؓ مطمئن ہو گئیں اور سیدنا ابوبکرؓ سے راضی ہوگئیں اگر خالص عقلی پیمانے سے ناپا جائے تب بھی سیدہ فاطمہؓ کا راضی نہ ہونا محال نظر آتا ہے۔

(1)۔  ناسخ التواریخ جلد 4 صفحہ 239 از کتاب دوم۔ دنیا کی حقیقت یہ بیان ہوئی ہے۔

قال رسول اللّٰهﷺ جعلت فداها ابوها ثلاث مرات ليست الدنيا من محمدﷺ ولا من ٰال محمدﷺ ولو كانت الدنيا تعدل عند اللّٰه من الخير خام بعوضة ما استقى فيها كافر شربة ماء۔

اگر آل محمدﷺ میں دنیا کی محبت اس درجے کی ہو کہ حضورﷺ کی حدیث سننے کے باوجود چند کھجوروں کی خاطر جانشین رسولﷺ سے ناراض ہو جائیں اور پھر عمر بھر راضی ہونے کو نہ آئیں تو مندرجہ بالا حدیث رسولﷺ بےمعنی ہوکر رہ جائے گی کیا آل محمدﷺ میں سے صرف سیدہ فاطمہؓ ہی کو آپ اتنا بڑا دنیا دار ثابت کرنا چاہتے ہیں تو یہ آل محمدﷺ کی عزت نہیں بلکہ توہین ہیں ہے۔

شیعہ کتب میں سے سب سے پہلی کتاب سلیم بن قیس بلالی کی ہے۔ اس کے صفحہ 224 تا 225 پر اس کی تفصیل موجود ہے آخر میں ہے۔

فد خلا وسلما قالا ارض ما رضي اللّٰه عنك۔

یعنی سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ کا بیمار پرسی کیلئے جانا اور ان کو راضی کرنے کے لیے یہ الفاظ کہنا پھر بھی سیدہ فاطمہؓ کا راضی نہ ہونا حب دنیا اور فنافی الدنیا کی دلیل بنتی ہے پھر ناسخ التواریخ کی بیان کردہ حدیث کا کیا مطلب ہوا۔

(2) اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کا وصف بیان کیا ہے۔

 وَالۡكٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَالۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِ‌ؕ

اور وَاِذَا مَا غَضِبُوۡا هُمۡ يَغۡفِرُوۡنَ‌ۚ‏ -

اور فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُهٗ عَلَى اللّٰهِ‌ ۔

اور وَلَمَنۡ صَبَرَ وَغَفَرَ فاِنَّ ذٰلِكَ لمِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ۔

جبغصہ پی بجانا معاف کردینا عام مسلمانوں میں سے اللّٰہ کے خاص بندوں کا وصف ہے تو کیا آل محمدﷺ میں سے سیدہ فاطمہؓ کی ذات ہی ایسی ہے جو اس وصف سے خالی ہے ایسا تصور کرنا یا عقیدہ رکھنا سیدہ فاطمہؓ کی توہین کے علاؤہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ 

فتح الباری جلد 6 صفحہ 122 اس کی توجیہ بیان کی گئی ہے۔

واما سبب غضبها مع اجتماع ابی بكرؓ بالحديث المذكور فلا عتقادها تاويل الحدث على خلاف ما تسك به ابو بكرؓ وكانها لا نورث وى أمت ان منافع اعتقدت تخصيص العموم في قوله عليه السلام من ارض و عقاد لا یمتنع ان یورث عنه وتمسك ابوبكرؓ بالعموم واختلفا في امر محتمل للتاويل فلما ضمم على ذلك انقطعت عن الاجتماع به لذلك۔

حدیث سے اتفاق کرنے کے باوجود سیدہ فاطمہؓ کے غصے کی وجہ تاویل حدیث میں سے اختلاف تھا سیدہ فاطمہؓ عموم سے تخصیص کا عقیدہ رکھتی تھیں لانورث سے سیدہ فاطمہؓ یہ سمجھی تھیں کہ زمین کی آمدنی اور مکان کے منافع میں میراث جاری ہونے سے حدیث مانع نہیں ہے اور سیدنا ابوبکرؓ کا تمسک عموم الفاظ حدیث سے تھا دونوں کا اختلاف ایک امر احتمالی میں ہوا جب سیدنا ابوبکرؓ نے حدیث کے عمومی استدلال پر زور دیا تو سیدہ فاطمہؓ نے بحث ترک کر دی۔

سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا ابوبکرؓ دونوں مجتہد تھے اس لیے حدیث کے تمسک میں اختلاف ہوا اس استدلال میں جب سیدہ فاطمہؓ نے نے استدلال کا پہلو ترک کر دیا تو راوی کو ظن ہوا کہ انہوں نے کلام کرنا ہی چھوڑ دیا۔

سیدہ فاطمہؓ نے حدیث سے یہ سمجھا کہ اس میں درہم و دینار کی نفی ہے زمین کی نفی نہیں گویا انہوں نے تخصیص سمجھی اور سیدنا صدیق اکبرؓ نے عموم میرات کی نفی سمجھی اور یہی بات صحیح تھی اور اس پر صحابہؓ کا اجماع ہو گیا۔

حدیث کے تمام طرق پر نگاہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غضبت فاطمةؓ فهجرت ولم تکلم سب ظن راوی ہے۔

صحاح میں چودہ مقامات پر حدیث فدک مذکور ہے صرف سیدہ عائشہؓ ابو ہریرہؓ اور ابو الطفیل سے ناراضگی کا قول مذکور ہے اور یہ الفاظ سیدہ عائشہؓ کے نہیں بلکہ راوی کے ہیں پوری روایت یوں ہے۔

عن عائشةؓ ان فاطمةؓ والعباس عليهم السلام انا ابابكرؓ يلتمان میراثها من رسول اللّٰهﷺ قال فقال لهما ابوبكرؓ سمعت، رسول اللہﷺ يقول لا نورث ما تركناه صدقة انما ياكل آل محمدﷺ من هذا المال قال ابو بكرؓ واللّٰه لا أدع امرا رأیت رسول اللّٰهﷺ يصنع فيه الاصنعة قال فهجرته فاطمهؓ فلم تكلمہ حتىٰ ماتت.

سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا عباسؓ دونوں سیدنا ابوبکرؓ کے پاس حضورﷺ کی میراث کا مطالبہ لے کر آئے سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا میں نے حضورﷺ سے سنا آپﷺ نے فرمایا کہ نبی میراث نہیں چھوڑتے جو رہ جائے وہ صدقہ ہوتا ہے آل محمدﷺ اس مال سے کھائے گی سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا بخدا میں اس کام کو نہیں چھوڑوں گا جو حضورﷺ کیا کرتے تھے راوی کہتا ہے کہ سیدہ فاطمہؓ چلی گئیں اور مرتے دم تک ان سے بات نہ کی۔

حدیث کے آخر میں لفظ قال پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قول سیدہ عائشہؓ کا نہیں ورنہ قالت ہوتا پھر اسی قال سے ظاہر ہوتا ہے کہ مکالہ تو الاصنعتہ پر ختم ہو گیا آگے قال سے مراد قال الراوی ہے یعنی قال کے بعد کا حصہ راوی کا اپنا خیال یا رائے ہے اس میں بھی فلم تکلمہ کی بھی تصریح نہیں اس کی تصریح فیض الباری کے علاؤہ تاریخ ابنِ جریر طبری  جلد 2 صفحہ 448 پر کی گئی ہے۔

واما عدم کلام فاطمةؓ اياہ حتیٰ ماتت والمراد منه كلامها في امر فدك۔

عدم کلام سے مراد فدک کے بارے میں کوئ بات نہیں کی۔

شارحین بخاری نے تصریح فرما دی ہے کہ فلم تکلمہ سے مراد مطلق کلام نہیں کہ فلم تکلمہ فی تلك المال ہے نفی صرف خاص اور مقید کی ہے اور نفی خاص مقید کی عام مطلق کو مستلزم نہیں یہ ساری بحث راوی کے مقولے پر ہے جو حدیث کا حصہ نہیں مزید چھان بین کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ الفاظ کسی شیعہ راوی کے ہیں جو بھیس بدل کر واقعہ کی صورت بگاڑ گیا ہے چنانچہ الآلى المصنوعہ فی احادیث الموضوع جلد 2 صفحہ 473 ملاحظہ ہو۔

عن ابي الحينا قال انا والجاحظ وضعنا حديثا واد جلناہ على المشائخ او على الشيوخ ببغداد فقبلوه الا ابنِ ابى شيبه العلوی فانه قال لا یشبه اٰخر هذا الحدیث اوله وابی يقبله وكان ابو العينا يحدث بهذا بعد ماتاب۔

ابوالعیناء کہتا ہے میں نے اور جاحظ نے ایک حدیث وضع کی اور مشائخ بغداد کے پیش کی تمام نے قبول کر لی صرف ابنِ ابی شیبہ علوی نے اسے قبول نہ کیا اور کہا اس حدیث کی ابتداء اس کے آخری حصہ سے نہیں ملتی۔ ابوالعینا نے اس حرکت سے تائب ہونے کے بعد یہ واقعہ بیان کیا۔

اور علامہ ابنِ اثیر جزری نے صدر کتاب جامع الاصول فرع ثالث طبقات المجروحين میں بعینہ ان الفاظ میں یہ بات بیان کی ہے صرف یہ الفاظ زائد ہیں وضعت انا والجاحظ حديث فدك۔

حضرات شیعہ نے بھی دبی زبان سے اس حصہ حدیث کو وضعی تسلیم کیا ہے۔ شافی از شریف مرتضی علم الہدی صفحہ 413 طبع ایران

اخبرنا جماعة عن ابی عبد اللّٰه بن احمد بن ابى طاهر عن أبيه قال ذكرت لابی الحسین زید بن علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالبؓ کلام فاطمة عليها السلام عند منه ابي بکرؓ اياها فدك و قلت ان هؤلاء يزعمون موضوع لانه من كلام إلى العينا لان الكلام منسوق البلاغة

ایک جماعت نے ابی عبد اللّٰہ بن احمد بن ابی ظاہر سے خبر دی وہ اپنے باپ سے بیان کرتا ہے کہ میں نے ابی الحسین زید بن علی سے سیدہ فاطمہؓ کی بات کا ذکر کیا جب سیدنا ابوبکرؓ نے انہیں فلک نہیں دیا تھا میں نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات بناوٹی ہے کیونکہ یہ حدیث فدک ابو العینا کا کلام ہے اور یہ کلام بلیغ ہے ابو العینا خود بڑا بلیغ تھا۔

علم الہدی کی اس روایت اور صراحت سے معلوم ہوگیا کہ یہ کلام ابو العیناء کی ہے گویا سیدہ فاطمہؓ کے ناراض ہونے اور ترک کلام کا سارا قصہ ہی وضعی اور من گھڑت ہے غضبت فاطمہؓ کے وضعی اور من گھڑت قعد میں مزید رنگ بھرنے کیلئے ایک اور بات کی جاتی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ من أغضبها فقد اغضبني۔

اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ورود حدیث سیدنا علیؓ کے حق میں ہے دوسری بات یہ ہے کہ یہ دنیوی امور میں ہے اللّٰہ کی بات یا اللّٰہ کے رسولﷺ کی بات سننے سے کوئی ناراض ہوتا ہے تو وہ اس ضمن میں آسکتا ہی نہیں کیونکہ ایسے موقع پر ناراض ہونا بات سنانے والے پر ناراض ہونا نہیں بلکہ اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ سے ناراض ہوتا ہے بھلا کوئی مسلمان یہ جرأت کر سکتا ہے اور کسی مسلمان کے متعلق کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ اللّٰہ اس کے رسولﷺ سے ناراض ہے چنانچہ فتح الباری میں وضاحت کی گئی ہے۔

من اغضبها بطمع نفسه اى من جحة هوى النفس لا من جهة الشرع و اسمعها ابوبكرؓ حديث الرسول لا من جهة نفسه.

حضورﷺ کی مراد یہ ہے کہ جس نے اپنی ہوائے نفس کے تحت سیدہ فاطمہؓ کو ناراض کیا یا بوجه شرعیت کے اور سیدنا ابوبکرؓ نے تو حدیث رسولﷺ ہی سنائی تھی اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا تھا۔

 واقعات شاہد ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ کو کوئی ذاتی تمع نہیں تھا انہوں نے معاملے کی شرعی حیثیت بتائی وہ بھی اپنی طرف سے نہیں بلکہ حدیث رسولﷺ سنا کہ البتہ یہ ضرور کہا کہ ہیں رسول کریمﷺ کی مخالفت کرنے کی جرأت اپنے اندر نہیں پاتا اس کے باوجود اگر سیدہ فاطمہؓ کا ناراض ہونا تسلیم کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ معاذ اللّٰه رسول کریمﷺ سے ناراض ہوئیں کہ انہوں نے ایسا کیوں فرمایا سیدنا ابوبکرؓ سے اس لیے ناراض ہوئیں کہ انہوں نے اللّٰہ کے رسولﷺ کی مخالفت کرنے کا ارادہ کیوں نہ کیا اور یہ دونوں صورتی ایسی ہیں کہ سیدہ فاطمہؓ کی ذات سے ان کا منسوب کرنا ان کی توہین اور اپنے ایمان سے دست برداری کا اعلان ہے۔ 

اس سلسلے میں سیدنا ابوبکرؓ کو متہم کرتے وقت بھی یہ دیکھ لینا چاہیے کہ سیدنا علیؓ نے اپنے دور  اقتدار میں کیا فرمایا اور کیا رویہ اختیار کیا۔ شافی شریف مرتضیٰ صفحہ 231۔

فلھا وصل الامر الى على بن ابی طالبؓ كلم فی امر فدك فقال أنى لاستحیى من اللّٰه ان ارد شياً منه عنه ابوبكرؓ و اقضاه عمر۔

جب سیدنا علیؓ خلیفہ ہوئے تو فدک کے بارے میں بات کی گئی فرمایا مجھے اللّٰه تعالیٰ سے حیا آتی ہے کہ میں اس حکم کو رد کروں جس کا فیصلہ ابوبکرؓ نے کیا اور عمرؓ برقرار رکھا۔

اس بیان سے ظاہر ہے کہ سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کے فیصلہ اور سیدنا عمرؓ کے اس پر قائم رہنے کو اللّٰہ اور رسول کے حکم کے عین مطابق سمجھا اور نہ خدا سے حیا محسوس کرنے کا کیا مطلب اور سیدنا علیؓ کے متعلق وضاحت ہوچکی ہے کہ آپ نے فدک کے بارے میں اپنے دور اقتدار میں وہی طریقہ اختیار کیا جسے وہ حکم خدا کے مطابق سمجھتے تھے جو طریقہ سیدنا ابوبکرؓ نے اتباع نبوی کے تحت اختیار کیا تھا۔ اگر یہ جرم ہے تو کہنا پڑے گا۔ 

این گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند۔

مطالبہ میراث کے سلسلے میں سیدنا علیؓ کا کردار

اس واقعہ کا خلاصہ ملا باقر مجلسی نے اپنی کتاب "بحار الانوار" صفحہ 101 کتاب الفتن میں الاختصاص سے نقل کیا ہے۔  

عن عبد اللہ بن سنان عن ابی عبداللہ علیہ السلام لما قبض رسول اللہﷺ وجلس ابوبکرؓ مجلسہ بعث الی وکیل فاطمۃؓ فاخرجہ من فدک فاتتہ فاطمۃؓ الی ان قال ابوبکرؓ ان النبی لایورث فرجعت الی علیّؓ فاخبرتہ فقال ارجعی الیہ وقولی زعمت ان النبی لایورث و ورث سلیمان داٶد و ورث یحیٰی زکریا وکیف لا ارث انا ابی فقال عمرؓ انت معلمة قالت وان کنت معلمة فعلمنی ابن عمی علیؓ الی ان قالت ان فدک انما ھی صدق بھا علی رسول اللہﷺ ولی بذلک بنیة فجاءت ام ایمنؓ و علیؓ ثم خرجت وحملھا علی اتان علیہ کساء قد اربھا اربعین صباحا فی بیوت المھاجرین والانصار والحسنؓ والحسینؓ معھا فانتھت الی معاذ بن جبلؓ فقالت یا معاذؓ انی قد جٸتک مستنصرة قال وما یبلغ نصرتی وانا وحدی الی ان قال فانصرفت فقال علیؓ لھا ائیتی ابابکرؓ وحدہ فانہ ارق من الاخر وکلمتہ وقال صدقت قال فدعا بکتب فکتبہ لھا برد فدک فاطمۃؓ فخرجت والکتاب معھا فلقیھا عمرؓ فقال یا بنت محمدﷺ ما ھذا الکتاب الذی معک قالت کتاب کتب ابوبکرؓ یرد فدک فقال ھلمیہ الی فابت ان فدفعہ الیہ فضربھا برجلہ وکانت حاملہ بابن اسمہ المحسن فاسقطت المحسن من بطنھا ثم لطمھا فکانی انظر الی قرط کان فی ادنھا حین نقضھا ثم اخذ الکتاب فخرقہ فمضت ومکثت خمسۃ و سبعین یوما مریضة مماضربھا ثم قبضت انَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔ 

عبد اللہ بن سنان سیدنا جعفر صادق سے بیان کرتا ہے کہ جب رسولِ کریمﷺ دنیا سے رخصت ہوۓ اور سیدنا ابوبکرؓ ان کے جانشین ہوۓ تو انہوں نے سیدہ فاطمہؓ کے وکیل کو فدک سے نکال دیا تو وہ سیدنا ابوبکرؓ کے پاس فدک کے مطالبہ کے لیے آئیں سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے خلافتِ رسولﷺ سنائی کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے وہ سیدنا علیؓ کے پاس لوٹ گئیں انہیں بتایا کہا پھر جاؤ اور کہو کہ آپ کا خیال ہے نبی میراث نہیں چھوڑتے حضرت سلیمانؑ اپنے والد داؤدؑ کے وارث ہوۓ حضرت یحییٰؑ اپنے والد زکریاؑ کے وارث ہوۓ میں اپنے باپ کی وارث کیوں نہیں ہوسکتی سیدنا عمرؓ نے کہا تمہیں پڑھایا گیا ہے سیدہ فاطمہؓ نے کہا اگر ایسی بات ہے تو مجھے میرے ابنِ عم سیدنا علیؓ نے پڑھایا ہے فدک تو رسولِ کریمﷺ نے مجھے دے دیا تھا میرے پاس اس کا ثبوت ہے پھر سیدہ اُم ایمنؓ اور سیدنا علیؓ آۓ پھر آپؓ چلی گئیں پھر سیدنا علیؓ نے سیدہ فاطمہؓ کو گدھے پر سوار کیا جس پر ذرا سا کپڑا تھا اور چالیس روز تک مہاجرین و انصار کے دروازوں پر پھرایا سیدنا حسنینؓ ساتھ تھے سیدہ فاطمہؓ سیدنا معاذ بن جبلؓ کے ہاں پہنچیں امداد طلب کی کہا میں اکیلا مدد نہیں کرسکتا آپؓ لوٹیں تو سیدنا علیؓ نے کہا کہ سیدنا ابوبکرؓ کے پاس تنہائی میں جاؤ وہ دوسرے (سیدنا عمرؓ) کی نسبت زیادہ رقیق القلب ہے وہ گئیں بات کی سیدنا ابوبکرؓ نے ان کے حق میں لکھ دیا تحریر لے کر واپس آئیں تو راستے میں سیدنا عمرؓ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا اے دخترِ رسولﷺ سیدہ فاطمہؓ آپ کے پاس یہ کیا تحریر ہے کہا سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے مجھے فدک کی جاگیر لوٹا دی ہے کہا ادھر لاؤ مجھے دو سیدہ فاطمہؓ نے دینے سے انکار کر دیا سیدنا عمرؓ نے انہیں ٹھوکر ماری وہ حاملہ تھیں اسقاطِ حمل ہوگیا پھر انہیں تھپڑ مارے پھر وہ وثیقہ لے لیا پھاڑ ڈالا اور چل دیئے اس واقعہ کے بعد 75 روز تک سیدہ فاطمہؓ زندہ رہیں اسی مرض میں وفات پاگئیں إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔  

واقعہ کی اس تفصیل سے چند اُمور کی وضاحت ہوتی ہے۔

(1) جب سیدہ فاطمہؓ کو معلوم ہوا کہ ان کے وکیل کو فدک سے نکال دیا گیا ہے تو وہ مطالبہ لے کر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پاس اکیلی گئیں۔ 

(2) جب ناکام واپس آئیں تو سیدنا علیؓ نے ان کو دلائل بتاکر دوبارہ اکیلے بھیجا خود ساتھ نہیں گئے۔  

(3)  پھر سیدنا علیؓ گواہ کی حیثیت سے گئے مگر یہ ظاہر نہیں کہ انہوں نے شہادت کیا دی۔  

(4) سیدنا علیؓ نے سیدنا فاطمہؓ کو گدھے پر سوار کرکے نہایت ذلت آمیز صورت میں 40 دن تک مہاجرین اور انصار کے دروازوں پر پھرایا سیدنا حسنینؓ بھی ساتھ تھے۔

(5)  اس ذلت و رسوائی سے پھرانے کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ مہاجرین و انصار کے سامنے اپنی مظلومیت کا اظہار کر کے ان سے امداد طلب کی جاۓ۔ 

(6)  اس دوران انہوں نے سیدنا معاذ بن جبلؓ سے امداد طلب کی کہ فدک لے دیں۔  

(7)  واپسی پر پھر سیدنا علیؓ نے مشورہ دیا کہ صرف سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پاس جاؤ خود ساتھ  نہیں گئے۔ 

(8) سیدہ فاطمہؓ اس مرتبہ گئیں تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے وثیقہ لکھ دیا۔ 

(9) سیدنا عمرؓ سے سر راہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے وثیقہ چھین کر پھاڑ دیا۔

(10) اسی پر بس نہیں بلکہ سیدنا عمرؓ نے سیدہ فاطمہؓ کا  گریبان پکڑ کر کھینچا تھپڑ مارا پھر لات ماری جس سے اسقاطِ حمل ہوگیا۔ 

(11) واپسی پر سیدنا علیؓ کو سب ماجرا سنایا مگر ان پر کچھ اثر نہ ہوا ۔ 

ان اُمور سے یہ نتائج اخذ ہوتے ہیں:

(1) سیدنا علیؓ کو سیدہ فاطمہؓ کی عزت کا ذرا بھر خیال نہیں تھا۔ 

(2)  ان کی ذلت سے سیدنا علیؓ کا دل پسیجنے کا کوئی نشان نہیں ملتا جس سے ظاہر ہے کہ وہ خوش ہوتے تھے۔ 

(3)  سیدنا علیؓ کو سیدہ فاطمہؓ کا اتنا بھی خیال نہیں تھا جتنا ایک عام شوہر کو ہوتا ہے اس لیے بار بار انہیں اکیلے ہی بھیجا خود ساتھ نہ گئے۔ 

(4)  چونکہ انہیں "ماکان وما یکون" کا علم تھا اس لیے وہ جانتے تھے کہ اب کی بار سیدنا عمرؓ کے ہاتھوں انہیں یہ ذلت اُٹھانا پڑے گی پھر بھی انہیں خود اکیلے بھیجا صاف ظاہر ہے کہ انہیں اپنی بیوی کی ذلت و رسوئی سے خوشی ہوتی تھی اگر ایسانہیں تو "ما کان وما یکون" والی بات بناوٹی ہے ان میں سے ایک صورت لازماً تسلیم کرنی پڑے گی۔ 

(5) مہاجرین و انصار کی امداد کی کیفیت تو ایک دو دن میں بھی معلوم ہوسکتی تھی اس لیے یہ چلہ پورا کرنے میں انہیں ذلیل و رسوا کرنے کے علاوہ کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔ 

(6) شیر خدا ہونے کے باوجود اپنی بیوی سے ایک غیر آدمی کا یہ سلوک دیکھ کر ٹس سے مس نہ ہونا عجیب سی بات ہے کہ ایک عام آدمی کی بیوی سے بھی اگر یہ سلوک کیا جائے تو اس کی غیرت و حمیت جوش میں آجاتی ہے کیا شیر خدا میں اتنی غیرت اور حمیت بھی نہ تھی۔

(7)  سیدنا علیؓ کی سیدہ فاطمہؓ سے اتنی بیزاری ایسی بے رُخی اوراس قدر بیگانگی 

 دوسری طرف یہ نقشہ کہ بیوی جو خاتم الانبیاءﷺ کی لختِ جگر ہے کی توہین و تذلیل ہوتی ہے بلکہ خود کی جاتی ہے اسے مارا پیٹا جاتا ہے حتیٰ کہ اسقاطِ حمل ہو جاتا ہے مگر نہ خونِ حیدری جوش میں آتا ہے نہ ذوالفقار حیدری نیام سے باہر آتی ہے غیرت و حمیت کی ایسی مثال دنیا میں شاید ہی کہیں ملے۔ 

پھر خاتونِ جنت سے وہ الفاظ منسوب کیے جاتے ہیں کہ اپنے خاوند کو ان الفاظ سے مخاطب کرنا ایک جاہل گنوار اور پھوہڑ بیوی کے متعلق بھی تصور میں نہیں آسکتے۔

ان قابلِ احترام ہستیوں کی سیرت و کردار کا وہ بیان جو حقائق پر مبنی ہے اگر سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ روایات میں بیان کردہ تصویر کے دونوں رُخ یار لوگوں نے محض زیب داستاں کے لیے وضع کیے ہیں محبت اہلِ بیت کے دعویٰ کے ساتھ اہلِ بیت سے دشمنی کا حق ادا کر دیا۔

یہاں ایک اور عقدہ بھی کھل رہا ہے شیعہ حضرات نے یہ اتہام باندھا ہے کہ سیدہ فاطمہؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے ناراض ہو گئیں اور راوی کے اس قول "غضبت فاطمةؓ " کو اس اتہام کی بنیاد بنایا ہے ساتھ ہی یہ حقیقت ہے کہ سیدہ فاطمہؓ کا اپنا قول کہ میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے ناراض ہوں آج تک کوئی شیعہ پیش نہیں کرسکا صرف ایک راوی کے اپنے قول اور اپنی راۓ پر لوگوں نے یہ طوفان اُٹھایا ہے اب ذرا ان الفاظ پر غور کیجیۓ جو سیدہ فاطمہؓ نے سیدنا علیؓ کو مخاطب کرتے ہوۓ فرمایا ان الفاظ سے پیار جھلک رہا ہے یا غصہ اور ناراضگی پھر یہ الفاظ کسی راوی کے نہیں سیدہ فاطمہؓ کے اپنے الفاظ ہیں سیدنا ابوبکر صدیقؓ تو سیدہ فاطمہؓ کی فرضی ناراضگی کی وجہ سے متہم ٹھہرے سیدہ فاطمہؓ کی حقیقی ناراضگی کے اظہار سے سیدنا علیؓ کی سیرت کو کیسے بچاؤ گے۔

اس اندازِ گفتگو کو سیدہ فاطمہؓ کی طرف منسوب کرنا ان کی سیرت پر بہت بڑا حملہ ہے اس لیے اس داغ کو دھونے کی خاطر ایک تاویل کی گئی ہے۔

بحار الانوار صفحہ 123 کتاب الفتن اور حق الیقین۔

فاقول یمکن ان یجاب عنہا ھذہ الکلمات صدرت منھا لبعض المصالح ولم تکن وانھا منکرة لما فعلہ بل کانت راضیة وانما کان غوضھا ان یتبین للناس قبح اعمالھم وشناعة افعالھم وان سکوتہ لیس لرضاہ بما اتوابہ۔ 

میں کہتا ہوں ممکن ہے ان کی طرف سے یہ جواب دیا جاۓ کہ یہ کلمات کسی مصلحت کے تحت ان کی زبان سے نکلے حقیقت میں سیدہ فاطمہؓ کو سیدنا علیؓ کا رویہ نا پسند نہیں تھا بلکہ خوش تھیں ان کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمرؓ کے افعالِ قبیح کا اظہار کریں اور سیدنا علیؓ کا خاموش رہنا در حقیقت سیدنا فاطمہؓ کے رویہ پر رضامندی کے طور پر تھا۔ 

حق الیقین کی عبارت یہ ہے۔ 

مٶلف گوید کہ دریں مقام تحقیق بعض از امور ضرور است مادر جواب گوئیم کہ ایں معاوضہ محمول بر مصلحت است از براۓ آنکہ مردم بدانند کہ حضرت امیر ترک خلافت برضاۓ خود نکروہ و بغصب فدک راضی نبودہ۔

اس سے اونچی بات صاحب ناسخ التواریخ نے بتا دی کہ۔

مکشوف باد کہ اسرار اہلِ بیت مستور است از مدرکات امثال مامردم۔

خوب سمجھ لیجیۓ کہ اہلِ بیت کے اسرار ہم جیسے لوگوں کی سمجھ سے باہر ہیں۔

پہلی تاویل ایک ایسا معمہ ہے کہ اسے کھولنے بیٹھو تو اور پیچ پڑتے چلے جائیں گے مثلاً 

(1)  سیدنا علیؓ "ما کان و ما یکون" تھے دوسری مرتبہ سیدہ فاطمہؓ کو بھیجتے ہوۓ علم تھا کہ ان کی توہین و تذلیل ہوگی لہٰذا مصلحت یہی ہے کہ خود نہ جاؤ اپنی عزت بچاؤ دخترِ رسولﷺ کی بے عزتی ہوتی ہے تو ہونے دو۔

(2) اسی طرح ان کو علم تھا کہ مہاجرین وانصار کوئی مدد نہیں کریں گے پھر بیوی کو مسلسل 40 روز تک در بدر پھراتے رہنے میں کیا مصلحت تھی؟ 

(3) مہاجرین و انصار کے اعمال قبیحہ کا اظہار مقصود تھا تو گھر کی چار دیواری میں یہ الفاظ کہنے سے اظہار کیسے ہوا کس کے سامنے ہوا اگر صرف سیدنا علیؓ کے سامنے اظہار مقصود تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ خود سیدنا علیؓ حسن و قبح میں تمیز کرنے کی صلاحیت  نہیں رکھتے تھے سیدہ فاطمہؓ نے یہ کمی پوری کی اور اگر اظہار ہی مقصود تھا تو وہ غرض بھی پوری نہ ہوئی کیونکہ یہ بات توگھر میں کی گئی تھی سیدہ فاطمہؓ نے سرِبازار تھوڑا ہی کہا تھا۔

(4) یہ کیسے معلوم ہوا کہ سیدہ فاطمہؓ اس معاملے میں سیدنا علیؓ کے رویہ سے راضی تھیں؟ کس کو بتایا؟ کب بتایا؟ یہ راز کی بات اگر کسی کو بتائی نہیں تو صاحب ناسخ التواریخ نے یہ اجتہاد کس بنا پر کر لیا کہ دراصل وہ راضی تھیں یہ طعنے اور گالیاں محض بناوٹ تھی۔ بہرحال بڑی تلاش کے باوجود سیدہ فاطمہؓ کے اس اندازِ گفتگو میں کوٸی مصلحت نظر نہیں آتی البتہ ایک پہلو قابلِ غور ہے اگر اس اندازِ گفتگو سے یہ نہ سمجھا جاۓ کہ سیدہ فاطمہؓ سیدنا علیؓ سے ناراض تھیں بلکہ یہ تاویل کی جاۓ کہ یہ محض دکھاوا تھا اصل میں دل سے راضی تھیں تو "غضبت فاطمةؓ" کی یہ تاویل کیوں نہیں کی گئی کہ سیدہ فاطمہؓ کا سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے یہ رویہ محض ظاہری بات تھی اصل میں وہ دل سے راضی تھیں پھر ان دونوں حالتوں میں بہت بڑا فرق ہے "غضبت فاطمہؓ" راوی کا قیاس ہے اور سیدنا علیؓ کے حق میں نا موزوں الفاظ اور ناراضگی کا اظہار خود سیدہ فاطمہؓ کی زبانی ہو رہا ہے راوی نے اپنی راۓ کا اظہار کیا تو آپ نے فوراً مان لیا اور سیدہ فاطمہؓ خود اپنی زبان سے پکار پکار کر کہہ رہی ہیں تو آپ مانتے نہیں یہ رویہ نظر ثانی کا محتاج ہے۔ 

میراث کے معاملہ کو طویل اور پہلو دار بنانے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس میں ایک عجیب الجھن نظر آتی ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ شیعہ مذہب میں ایک اصول بیان ہوا ہے جس سے کسی کے کامل الایمان یا ناقص الایمان ہونے کی شناخت ہو سکتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ علامت مٶمن اور فاسق میں ما بہ الامتیاز ہے۔ 

(فروع کافی صفحہ 225 جلد 3 احتجاج طبرسی صفحہ 186 اور انوار نعمانیہ صفحہ 270 جلد 1)۔ 

عن عمر بن حنظلۃؓ قال سالت ابا عبد اللہ علیہ السلام عن رجلین من اصحابنا بینھا منازعة فی دین او میراث فتحاکما الی السلطان او الیٰ القضاة ایحل لک قال من تحاکم الیھم فی حق او باطل فانما تحاکم الی الجبت و الطاغوت المنھی عنہ وما حکم لہ بہ فانما یاخذ سختا وان کان حقا ثابتا لہ لانہ اخذہ بحکم الطاغوت ومن امر اللہ ان یکفر بہ قال تعالیٰ یریدون ان یتحاکموا الیٰ الطاغوت وقد امروا ان یکفروا بہ۔

سیدنا عمر بن حنظلہؓ کہتا ہے میں نے سیدنا جعفر صادق سے پوچھا کہ دو شیعہ مردوں میں قرض یا میراث کے معاملہ میں جھگڑا ہوجاۓ وہ اپنا دعویٰ بادشاہ  یاقاضی کے پاس لے جائیں کیا یہ جائز ہے امام نے کہا جو شخص حاکم یا قاضی (غیر شیعہ) کے پاس فیصلہ کی غرض سے جاۓ خواہ وہ حق پر ہو یا باطل پر اس کا جانا ایسا ہے جیسے بت یا شیطان کے پاس جانا اس کی ممانعت ہے اور اگر اس فیصلہ کے مطابق وہ شیعہ کوٸی چیز لے گا تو وہ حرام لے گا خواہ وہ اس کا حق ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس نے شیطان کے حکم سے لیا اور خدا کا حکم ہے کہ ان کی نافرمانی کرو۔

یعنی قانون یہ ہے کہ غیر شیعہ حاکم کے پاس اپنا مقدمہ لے جانا ایساہے جیسا شیطان کے پاس لے جانا ایسا حاکم اگراس کے حق میں فیصلہ کر دے تو اس مال سے نفع اٹھانا حرام ہے اور ظاہر ہے کہ جب ایسے حاکم کے پاس مقدمہ لے جانا حرام ہے تو ایسے مال سے نفع اُٹھانا لازماً حرام ہوا اور حرام کا مرتکب فاسق ہے۔ 

اس اصول کے ماتحت دیکھنا یہ کہ اگر سیدنا ابوبکرؓ حاکم  برحق نہیں (بقول شیعہ) سیدہ فاطمہؓ کا ان کے سامنے اپنا مقدمہ لے جانا اور سیدنا علیؓ کے مشورہ سے لے جانا ان دونوں کو کس مقام پر لاکھڑا کرتا ہے اس قانون کے تحت ایک نے فعل حرام کا ارتکاب کیا ایک نے ایسے کرنے کا مشورہ دیا اور فعل حرام کا مرتکب فاسق ہوتا ہے۔ اب شیعہ اصول کے تحت ان دونوں حضرات کی حیثیت متعین کیجئے۔

اس اُلجھن سے نکلنے کی دو صورتیں ہیں اگر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو خلیفہ برحق تسلیم کرو تو سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا علیؓ کامل الایمان قرار پاتے ہیں اور سیدنا ابوبکرؓ کو خلیفہ برحق تسلیم نہیں کرتے تو ان دونوں حضراتؓ کو فسق کا نشانہ بننے سے بچا نہیں سکتے کیونکہ اصول خود تم ہی نے مقرر کیا ہے عجیب معاملہ ہے کہ ائمہ کی عصمت کے دعویٰ سے سفر کا آغاز کیا اور چند قدم ہی چلے تھے کہ ائمہ کو فسق و فجور کا مرتکب قرار دے دیا اللہ تعالیٰ کج بینی اور کج رائی سے محفوظ رکھے۔

دعویٰ ہبہ فدک 

شیعہ علماء کا کہنا ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فدک کی زمین سیدہ فاطمہؓ کو ہبہ کر دی تھی۔

 اس دعویٰ کے ثبوت میں سید محمد قلی نے بھی پچیس کتابوں کا نام لکھا ہے کہ ان میں دعویٰ  ہبہ کاثبوت موجود ہے کتابوں کے نام یہ ہیں۔

روضة الصفات، حبيب السير معارج النبوة، مقصد اقصیٰ، براہین قاطعہ، صواعق محرقہ، صلاح الدین رومی به حاشیه شرح عقائد نسفی، جواہر العقدين، وفاء الوفا خلاصة الوغاً، شرح مواقف، فصل الخطاب، الكتاب الاكتفاء، رياض النظرة، التفسير كبير، نہاية العقول، محلی ابنِ حزم، معجم البلدان، کتاب المواقفه، الملل والنحل شہرستانی، مغنی عبد الجبار معتزلی، ابوبکر جوہری کوفی محبه مؤرخ عمر بن شیبہ، اپنی کتابوں کے نام گنوا دیے اور تشید المطاعن میں تحفہ کے جواب میں لکھی گئی ہے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ کسی معتبر کتاب میں صحیح مرفوع الاسناد حدیث میں دعویٰ ہبہ ثابت نہیں۔

اور علامہ فضل نے ابطال الباطل میں لکھا ہے۔

واما دعوىٰ فاطمهؓ فلم یصح فی الصحاح ويذكرونها بنله الاخبار من ارباب التواريخ ومجرد نقلھم لایصیر سببا القدح فی الخلفاء۔

اور جہاں تک ہبہ فدک کا تعلق ہے صحیح سند کے ساتھ صحاحِ ستّہ میں موجود نہیں ہاں مؤرخین اپنے طور پر نقل کرتے ہیں صرف ان لوگوں کا نقل کر دینا خلفاء کی قدح کا سبب نہیں بن سکتا۔

سید محمد قلی نے جن کتابوں کی فہرست دی ہے ان میں سے کسی ایک کتاب کے مصنف نے بھی کسی صحیح حدیث سے یہ بات پیش نہیں کی جب حدیث میں اس بات کا سراغ نہیں ملتا تو ظاہر ہے کہ وہ اقوال علماء سے ہے اور اقوالِ علماء کو روایت نہیں کہا جاتا بہر حال یہ بزعم خویش پیش کردہ روایات دو قسم کی ہیں اول جس  میں راویوں کے نام تفصیل سے مذکور ہیں دوسری وہ جن میں بعض راویوں کے نام متروک ہیں بعض جگہ صرف کتابوں کا نام ہے اب ہم دونوں قسم کی روایات کا جائزہ لیتے ہیں۔ 

قسم اول میں شیعہ علماء نے چار حدیثیں پیش کی ہیں۔

1۔ ابنِ مردویہ سے بیان کی ہے میں کا پہلا راوی ابوالفتح عبددس بن عبداللہ ہمدانی ہے آٹھواں راوی عطیہ کوفی اور نواں راوی ابوسعید۔

2۔ پہلا راوی سید ابوحمید مہدی بارہواں راوی فضیل بن مرزوق تیرہواں راوی عطیہ کوفی آخری راوی ابوسعید۔

3۔ پہلا راوی محمد بن سلیمان اعبدی نواں فضیل بن مرزوق دسواں عطیہ کوفی گیارہواں راوی ابو سعید۔

4۔ پہلا راوی محمد بن عباس پانچواں فضیل بن مرزوق چھٹا عطیہ کوفی ساتواں ابوسعید ان چاروں روایتوں میں ابوسعید پہ آکر بات ختم ہوتی ہے چاروں میں عطیہ کوفی موجود ہے تین میں فضیل بن مرزوق کا نام ہے اس لیے ان تینوں کا تعارف کرا دینا ضروری۔

ابو سعید کا نام محمد بن سائب کلبی ہے دوسرا

 نام حماد بن سائب کلبی ہے اسکی کنیتیں مختلف ہیں پہلی کنیت ابوسعید ہے اس کنیت سے عطیہ عوفی کوفی شیعہ اس سے روا یت کرتا ہے۔

دوسری کنیت ابو النصر ہے اس کنیت سے ابنِ اسحاق

 اس سے بیان کرتا ہے تیسری کنیت ابوالہشام ہے اس کنیت سے قاسم بن ولید اس سے بیان کرتا ہے اس کی پہلی کنیت ابوسعید کے ساتھ حذری کا لفظ بڑھا کر اپنوں اور بیگانوں سب کو دھوکا دیا جاتا ہے سنیوں کی کتابوں میں اسی ابوسعید کے ساتھ لفظ حذری بڑھا کر بڑے فریب سے روایات داخل کر دی گئی ہیں یہ تینوں حضرات خالص شیعہ اور تقیہ باز ہیں۔

علامہ سخاوی نے شرح رسالہ منظومہ جزری میں 

ابو سعید کا حال بیان کیا ہے

من اسماء مختلفة ونعوت متعددة محمد بن سائب كلبی المفسر هوا بوالنصر الذى روى عند ابنِ اسحاق وهو حماد بن سائب روى عنه ابو اسامه وهوا بو سعيد الذی روى عنه عطية الكوفى وهما انه الخدری وهشام روى عنه القاسم بن وليد مات سنة ماته دست اربعين۔

ہبہ فدک کے متعلق دوسری قسم میں پانچ روایات بیان ہوئی ہیں۔

1۔ یہ روایت کنز العمال اور تاریخ حاکم سے لی ہے اس کا سلسلہ روایت ابوسعید پر ختم ہوتا ہے۔

2۔ در منشور سے بلا سند نقل کی گئی ہے بعض شیعہ علماء نے اس روایت کے ساتھ یہ بھی بڑھا دیا ہے

 کہ اخرج البزار وابو يعلى فی مسندہ وابن ابی حاتم  وابنِ مردوية اس کا سلسلہ بھی ابو سعید پر ختم ہے ہوتا ہے۔

3۔ کتاب کا نام نہیں لیا صرف دو راوی فضیل بن مرزوق اور عطیہ کوفی بیان ہوئے ہیں یہ روایت بحار الانوار کی کتاب الفتن میں ہے۔

4۔ سنی کتاب کا نام نہیں مگر عطیہ کوفی بشر بن ولید، واقدی اور بشر بن غیاث راویوں کے نام مذکور ہیں یہ سب غالی رافضی ہیں۔

معارج النبوة اور مقصد اقصیٰ سے لی ہے سند مخدوف ہے۔

معارج النبوۃ ایک مولودی رسالہ ہے ایک شاعرانہ تخیل ہے تحقیق کے میدان میں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں اور مزے کی بات یہ ہے صاحبِ معارج النبوۃ نے خود اسے نا قابلِ اعتبار قرار دیا ہے۔

ان دونوں قسم کی روایات کی اسناد پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ۔

1۔ ایک دو کے بغیر سب کا سلسلہ اسی ابوسعید پر ختم ہوتا ہے جو محمد بن سائب کلبی ہے جو مانا ہوا کذاب اور رافضی ہے باقی روایات میں عطیہ کوفی اور فضیل بن مرزوق موجود ہیں جو اسی کلبی کے ہم مشرب ہیں۔

2۔ ہبہ فدک کے ثبوت میں کوئی ایک بھی ایسی حدیث نہیں پیش کی گئی جو صحیح اور مرفوع السند ہو اور نہ کوئی ایسی حدیث مل سکتی ہے۔

ہبہ فدک کی تفصیل اور اس کی تاریخ

شیعہ کا کہنا ہے کہ آیت وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ نازل ہوئی تو حضور اکرمﷺ  نے فدک کی زمین سیدہ فاطمہؓ کو ہبہ کر دی۔

تاریخ کے اوراق سے اس دعویٰ کی حقیقت کا سراغ لگانا چاہیے۔

1۔ اصولِ کافی صفحہ 160 اور صافی جلد 1 صفحہ 359 جز سوم حصہ دوم میں اس آیت کے نزدل کے سلسلے میں سیدنا باقرؒ کی روایت موجود ہے کہ

ان الله عز وجل انزل عليه فی سورة بنی اسرائيل بمکۃ 

وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا الخ

وچوں آیت واٰت ذا القربیٰ حقہ در مکه نازل شده چنانچه می آید در حدیث اول۔

صاف ظاہر ہے کہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مکّہ سے ہجرت کر جانے کے سات سال بعد کہ 7 ھجری میں فدک کی زمین حضورﷺ کے قبضہ میں آئی اب اس دعویٰ کے دونوں حصوں پر غور کیجیئے ۔

1۔ جب آیت وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى نازل ہوئی۔

2۔ تو حضورﷺ نے فدک کی زمین سیدہ فاطمہؓ کو ہبہ کر دی دعویٰ میں ”جب“ کے بعد "تو" آتا ہے اور تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس گتھی کو سلجھانا مشکل نظر آتا ہے کہ جو زمین ابھی قبضہ میں آئی نہیں وہ برسوں پہلے ہبہ کر دی گئی۔

2۔ حیاة القلوب جلد 2 صفحہ 503 پر آیت کے متعلق ایک اور بیان ملتا ہے ۔

حضرت پہ سید از جبریلؑ که ذا القربیٰ کیست و حق

 اوچسیت گفت ایں را بفاطمہؑ بده که میراث اوست از مادرش خدته مجرد خدیجہؓ وخوارش ہندا دخترابی ہاله۔

حضورﷺ نے جبرائیلؑ سے پوچھا ذوالقربیٰ

کون ہیں اور ان کا حق کیا ہے کہا کہ یہ سیدہ فاطمہؓ کو دے دیجیئے کہ اس کا ورثہ ہے اس کی والدہ سیدہ خدیجہؓ اور انکی بہن سیدہ ہندہؓ کے مال سے۔

اس روایت سے ظاہر ہے کہ:

1۔ فدک کی جاگیر حضورﷺ کی ملکیت نہیں تھی بلکہ سیدہ خدیجہؓ اور سیدہ ہندہؓ کی ملکیت تھی کیونکہ جبرائیلؑ نے ان کی میراث سیدہ فاطمہؓ کو دینے کا حکم پہنچایا۔

2۔ اس سے ہبہ کے دعویٰ کی نفی ہوگئی کیونکہ جس چیز کے حضورﷺ مالک نہیں تھے اسے ہبہ کرنے کا مطلب کیا ہوا۔

3۔ فدک کا یہود کی بستی ہونا بھی غلط ٹھہرا جب سیدہ خدیجہؓ اور سیدہ ہندہؓ اس زمین کی مالک تھیں تو کیا یہود اس جاگیر میں بطور مزارع کام کرتے تھے۔

4۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضورﷺ کو جبرائیلؑ سے پوچھنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ذا القربیٰ کون ہیں ان کا حق کیا ہے اس سے پہلے آپ یہ دونوں باتیں نہیں جانتے تھے۔ (معاذ اللہ)

تقسیم میراث کا معاملہ اتنے طویل عرصہ تک تاخیر کی نذر کیوں ہو گیا سیدہ خدیجہؓ تو مکہ میں انتقال فرما گئیں اور حضورﷺ  مکہ سے ہجرت بھی کر گئے سات برس گزر گئے تو اتنی دیر سے میراث کی تقسیم کا حکم ملا سیدہ فاطمہؓ کو تو ماں کے انتقال کے فوراً بعد جائیداد ملنی چاہیئے تھی ۔

لیجئیے اب واقعات  نیا رخ اختیار کرتے ہیں۔

حياة القلوب جلد 2 صفحہ 218 حضورﷺ فرماتے ہیں۔

و ما در تو خدیجہؓ مہرے بر من داشت ومن فدک 

را بعوض آں بتو بخشیدم کہ از تو باشد و بعد از تو 

بفرزنداں تو باشد۔

تیری والدہ سیدہ خدیجہؓ کا مہر میرے ذمہ تھا اس کے عوض میں نے فدک تجھے دے دیا اب تیرا مال ہے اور تیرے بیٹوں کامال ہے۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ

1۔ حضورﷺ  نے سیدہ خدیجہؓ کے انتقال تک مہر ادا نہ کیا۔

2۔ فدک کی زمین حضورﷺ کی ملکیت تھی مال فَے نہیں تھا۔

یہ حقیقت نہیں کھلی کہ اگر یہ مال فَے نہیں تھا تو حضورﷺ کے ہاتھ کیسے آیا۔

مگر اسی حیاة القلوب میں جلد 2 صفحہ 92 پر مہر کی بر وقت ادائیگی کا ذکر موجود ہے۔

تزویج کردم  بتوای محمدﷺ  نفس خود را 

مہر من در مال من است۔

یعنی مہر تو سیدہ خدیجہؓ  نے اپنے ذمہ لے لیا اس کی ادائیگی حضورﷺ کے ذمہ نہ رہی پھر مہر کی مقدار کے متعلق دو مختلف روایتیں ملتی ہیں۔

1۔ حياة القلوب جلد 2 صفحہ 91۔

بعد از وی(ای ہند) رسول خداﷺ و را 

مکبالۀ خود آورد و دواز ده اوقیه طلا مہر گردایند۔

2۔ حياة القلوب جلد 2 صفحہ 92پر ہے ۔

پس گواه باشید اے گروہ قریش که من

 تزویج کردم خدیجهؓ دختر را بمحمدﷺ بن عبد الله 

بچهار صد اشرفی مہر ۔

ان تمام روایات اور اس تاریخی تفصیل کا خلاصہ یہ ہوا کہ:

1۔ آیت وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ کے نزول کے وقت 

حضورﷺ نے فدک کی زمین سیدہ فاطمہؓ کو ہبہ

 کر دی(جو آیت کے نزول کے کم از کم سات برس بعد حضورﷺ کے قبضہ میں آئی)۔

2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیلؑ کے ذریعے حکم بھیجا کہ فدک کی زمین سیدہ خدیجہؓ اور ہندہ کی ہے اس کی وارث سیدہ فاطمہؓ ہے لہٰذا انہیں یہ میراث دے دی جائے ۔

3۔ حضورﷺ  نے سیدہ خدیجہؓ کے مہر کے بدلے فدک کی زمین سیدہ فاطمہؓ کو دی ۔

4۔سیدہ خدیجہؓ نے اپنا مہر خود اپنے ذمے لیا جس کا اعلان نکاح کے وقت کیا۔

5۔ مہر کی مقدار 12 اوقیہ سونا مقرر ہوئی ۔

6۔ مہر 400 اشرفی مقرر ہوا ۔

گویا ضرورت ہے ایک امیر خسرو کی جو یہ  بے جوڑ باتیں اور متضاد بیانات ایک ایسے مربوط شعر میں بیان کر دے کہ تضاد رفع ہو جائے۔

اعطائے فدک کی روایت شیعہ حضرات سنی مفسرین کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں مثلاً روح المعانی جلد 15 صفحہ 62۔

اخرجه البزار و ابو یعلی وابنِ ابي حاتم وابن مردويه عن ابی سعيد خدری۔

اور ابنِ کثیر جلد 13 صفحہ36۔

وقال الحافظ ابوبكر البزار حدثنا عباد بن يعقوب حدثنا يحيىٰ التميمي حدثنا فضيل بن مرزوق عن عطية عرابي سعيد قال لما نزلت واٰت ذا القربیٰ الخ دعا رسول اللهﷺ

فاطمہؓ فاعطالها فداك لو علم اسناده لان الاية مكية وفدك انه تحت مع خبير سنة سبع من الحجرة فكيف يلتم هذا مع هذا فھوا ذا حديث منكر ولاشية انه من وضع الروافضة۔

اور تفسیر مظہری جلد 5 صفحہ 433

اخرج ابنِ حاتم عن السدى واخرجه الطبرانی وغيره عن ابی سعيد الخدریؓ قال لما نزلت واٰت ذا القربیٰ الخ دعا رسول اللهﷺ فاطمةِؓ واعطاها فدك وروى ابن مردويه عن ابن عباسؓ مثله ای من فضيل بن مرزوق عن عطيه عن ابی سعيد الخدری۔

ان تینوں روایتوں میں بات ابوسعید پر ختم ہوتی ہے ۔ روح المعانی اور مظہری میں ابوسعید کے ساتھ خدری بھی ہے ابنِ کثیر میں ضرری نہیں ہے یہ ابو سعید وہی محمد بن سائب کلبی ہے لیکن فن کاروں نے کنیت کے ساتھ خدری لگا کر اصل آدمی کو چھپا دیا ہے مگر فضیل بن مرزوق اور عطیہ تو موجود ہیں یہ دونوں اس ابوسعید سے روایت کرتے ہیں جو محمد بن سائب کلبی ہے ابوسعید خدری سے روایت نہیں کیا کرتے۔ 

ابنِ کثیر نے اس کی سند سے صرف نظر کرتے ہوئے اس کے تاریخی تضاد کی وجہ سے اسے موضوع اور روافض کی کوشش کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

شیعہ علماء اس سلسلے میں جو روایتیں پیش کرتے ہیں ان کی کل تعداد گیارہ ہے اب ان کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

1۔ پہلی روایت تو شیعہ علماء اور مناظر پیش کرتے ہیں اس کے راوی بشر بن غیاث بشر بن ولید اور واقدی ہیں۔

2۔ اب مردویہ سے لی ہے جس میں فضیل بن مرزوق عطیہ اور ابو سعید خدری ہیں ۔

3۔ تفسیر مجمع البیان ہے اس میں فضیل بن مرزوق عطیہ اور ابو سعید ہیں۔

4۔ طبرسی نے تفسیر میں لی ہے اس میں فضیل بن مرزوق خ عطیہ اور ابوسعید ہیں۔

5۔ ملا باقر مجلسی اپنی کتابوں میں بیان کر تے ہیں اس میں یہی تینوں راوی ہیں۔

6۔ شیعہ عالم سید ابنِ طاؤس نے لی ہے اس میں یہی تنیوں راوی ہیں۔

7۔ شوستری نے احقاق الحق میں ابنِ مردویہ سے لی ہے اس میں یہی تینوں راوی ہیں۔

8۔ در منظور سے لی گئی ہے اسناد حذف کر دیا ہے۔

9۔ کنز العمال سے لی ہے اس میں سند کا سلسلہ 

ابو سعید پر ختم ہوتا ہے۔

10۔ روى السيوطي فی تفسیر إلها المنثور في ذيل تفسير واٰت ذا القربیٰ الخ واخرج البزار وابو یعلی و ابن ابی حاتم و ابن مردويه عن أبي سعيد الخدری۔

11۔ شیعلی سے نقلی کی واقعہ علی بن الحسین کا ہے کہ اس نے ذا القربیٰ سے قرابتِ رسولﷺ مراد لی ہے مگر اس میں فدک کا ذکر موجود نہیں ۔

ان روایات میں جن راویوں پر سند کا مدار ہے ان کے اوصاف یہ ہیں واقدی کذاب رافضی بشر بن غیاث زندیق کافر یہودی کا بیٹا تھا۔

 ابوسعید جو اصل ما خذا اور منبع ہے اس کے اوصاف بیان ہوچکے ہیں۔

 عطیہ کوفی شیعہ عباد بن يعقوب من غلاة الشيعة ورؤس البدع (ميزان الاعتدال) ان عباد بن يعقوب كان يشتم السلف وقال صالح حرزه كان عباد بن يعقوب يشتم عثمان وكان واعيا إلى الرفض ومع ذلك يروى امنا كبر من المشاهير فاستحق الترك فضيل بن مرزوق، قال النسائی ضعيف وكذا ضعفه سعيد قالت وكان معروف باالتشیع تقسیم و قال ابنِ الحبان منكر الحديث جد او يروى مر عض الموضوعات قلت عطيه اضعف منه۔

(میزان الاعتدال)

اس تفصیل سے ان روایات کے راویوں کا کردار سامنے آگیا اصول یہ ہے کہ سند کے حدیث میں اگر ایک راوی غیر معتبر ہو تو پوری حدیث غیر معتبر قرار دی جاتی ہے ان روایات میں تو سارے کے سارے راوی کذاب اور شیعہ ہیں جن کے نزدیک جھوٹ بولنا عبادت ہے بلکہ 9/10  حصہ دین تو اسی تقیہ میں پنہاں ہے پھر ان روایات پر اعتبار وہی کر سکتا ہے جو جھوٹ کو سچ سمجھتا ہو سوال یہ نہیں کہ فلاں فلاں کتابوں میں ہبہ فدک کا ذکر ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ دعویٰ ہبہ فدک کسی صحیح الاسناد  مرفوع حدیث سے ثابت ہے یا نہیں تو ظاہر ہے کہ کوئی ایسی حدیث موجود نہیں ہے۔

رہا علمائے متکلمین کا معاملہ تو اس کے متعلق شرع عقائد صفحہ 489 پر وضاحت موجود ہے۔

اما ادلة الشيعة فاما موضوعات او غير واضحة الدلالة فلا تعارض دين كشف هذا بالنظر في كتب الحديث لكن علماء الكلام بمع اھل من علم الحديث۔

شیعوں کے دلائل من گھڑت ہوتے ہیں یا غیر واضح الدلالت علی المطلوب ہوتے ہیں لہٰذا کوئی تعارض نہ رہا کتب حدیث پر نظر ہو تو یہ امر واضح ہو جاتا ہے لیکن متکلمین حضرات تو علمِ حدیث سے کوسوں دور ہیں۔

یعنی متکلمین کا کسی حدیث کے متعلق کچھ کہ دینا حجت نہیں ہوتا یہ فن محدثین سے تعلق رکھتا ہے پھر یہ کہ متکلمین میں سے بھی جو سنی مشہور ہیں حقیقت میں شیعہ ہوتے مثلاً شہرستانی جس کے متعلق امام ابنِ تیمیہؒ نے منہاج السنتہ میں لکھا ہے۔

بل يميل الشهرستاني كثيرا إلى اشياء من امورهم بل يذكر احيانا اشياء من كلام الاسماعيليه ولهذا اتهمه بعض الناس بانه من الاسماعيلية وقد يقال هو مع الشيعة وبالجملة فالشهرستانی يظهر الميل إلى الشيعة ولا يجتع به الا من جاھل وان هذا الرجل فينی الشهرستانی كان لہ بالشيعة المام واتصال وانه دخل في اهوائهم بما ذكره في هذا الكتاب يعنی الملل والنحل۔

علامہ شہرستانی بہت سے امور میں شیعوں کی طرف میلان رکھتا ہے بلکہ احیاناً شیعوں کے فرقہ اسماعیلیہ کے عقائد بیان کرتا ہے اسی لیے اسے اسماعیلیہ ہونے سے متہم کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے وہ شیعہ تھا مختصر یہ کہ شہرستانی کا رحجان شیعہ کی طرف ہے دلیل کے طور پر شہرستانی کا حوالہ صرف جاہل آدمی ہی دے سکتا ہے شہرستانی کو شیعہ سے خاص تعلق تھا الملل والنحل میں جو کچھ اس نے لکھا ہے اس سے ظاہر ہے کہ وہ شیعہ بدعات میں شامل تھا۔

شہرستانی متکلم کی حقیقت تو سامنے آگئی اس کے علاوہ جس متکلمین کا شیعہ علماء نے ذکر کیا ہے انہوں نے حدیث ہبہ فدک کی صحت اور معلوم صحت کی طرف توجہ ہی نہیں کی اگر وہ لوگ اصولِ حدیث کے مطابق اس حدیث پر بحت کرتے پھر ہبہ کا ذکر کرتے تو کوئی بات بھی تھی محض ان لوگوں کا ہبہ کی حدیث کا ذکر کر دینا کوئی حجت نہیں۔

صواعقِ محرقہ کا حوال پیش کرنا بھی کوئی مفید مطلب بات نہیں اس کتاب میں اور دوسری ایسی کتابوں میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر دعویٰ ہبہ فدک صحیح ہے تو جواب یہ ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر دعویٰ ہبہ فدک صحیح تسلیم کر لیا جائے تو جواب بنانے کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے۔