Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا امیر معاویہؓ اپنی زندگی میں یزید کو ولی عہد بنا کر مسلمانوں کے خون سے کھیلے

  مولانا محمد علی

سیدنا امیر معاویہؓ اپنی زندگی میں یزید کو ولی عہد بنا کر مسلمانوں کے خون سے کھیلے

سیدنا معاویہؓ نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بناکر ایک تو خلفائے راشدینؓ کی سنت کی مخالفت کی اور دوسرا مسلمانوں کے باہم لڑنے اور قتل و غارت کا ایسا دروازہ کھول دیا کہ آج تک امتِ مسلمہ متحد نہ ہو سکی سانحہ کربلا بھی اسی کے اثرات میں سے ایک بہت بڑا اثر تھا جس میں اہلِ بیت کا قتل عام ہوا۔

جواب: طعن مذکورہ میں دراصل تین باتیں ذکر کی گئیں۔  

1۔ سیدنا امیر معاویہؓ نے یزید کو ولی عہد بنا کر خلفائے راشدینؓ کی سنت کی مخالفت کی۔

2۔ یزید کی ولی عہدی سے سیدنا امیر معاویہؓ نے قصداً اہلِ بیتؓ کے قتل کا راستہ نکالا۔

3۔ اگر سیدنا امیر معاویہؓ ایسا نہ کرتے تو واقعہ کربلا بھی پیش نہ آتا اور مسلمان باہم شیر و شکر رہتے ہم ان تینوں امور کی بالترتیب تردید کرتے ہیں اور ہم ہی نہیں بلکہ خود اہلِ تشیع کی کتب بھی ان کی تردید کرتی ہیں لیجیے سنیئے۔,

تردید امر اول:

بادشاہ کو ولی عہد بنانا ممنوع نہیں سیدنا علیؓ نے بھی سیدنا حسنؓ کو ولی عہد بنایا:

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کسی معتبر اور مستند سند حدیث سے کوئی ایک آدھ ایسا حوالہ نہیں ملتا نہ ہی کسی امام کا قول بالتصریح ایسا ملتا ہے جس میں یہ کہا گیا ہو یہ کسی امام و خلیفہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے کسی رشتہ دار کو اپنا ولی عہد یا جانشین نہیں بنا سکتا اگر ایسا کرے گا تو اس کا یہ عمل خلافِ اسلام ہوگا بلکہ اس کے برعکس ولی عہدی کا ثبوت موجود ہے کتب شیعہ اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ سیدنا علیؓ نے اپنی زندگی میں سیدنا حسنؓ کو ولی عہد مقرر کر دیا تھا۔

كشف الغمة:

إِنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَامُ أَوْصٰى بِهَا إِلَيْهِ وَافَاضَ رِدَآئَهَا عَلَيْهِ فَهُوَ عَلَيْهِ السَّلَامُ مَسْئلَةُ إِجْمَاعٍ فَقَدْ سَلِمَ الْمُدَّعَى إِمَامَتِهِ عَنِ النِزَاع.

(کشف الغمہ فی معرفة الائمه جلد 1 صفحہ 531 فی امامته عليه السلام مطبوعه تبریز)

ترجمہ:سیدنا علیؓ نے اپنی زندگی میں ہی سیدنا حسنؓ کو اپنا وصی اور ولی عہد بنا دیا اور خلافت کی چادر بھی انہیں پہنا دی لہٰذا سیدنا حسنؓ کی خلافت ایک اجماعی مسئلہ ہے اور ہر قسم کے تنازعات سے پاک ہے (کیونکہ یہ دورِ خلافت اس زمانے میں شامل ہے جس کی حضورﷺ نے پیش گوئی فرماتے ہوئے میں تئیس (23) سالہ قرار دیا تھا)۔

لہٰذا معلوم ہوا کہ جب سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنا کر سنتِ خلفائے راشدینؓ کی مخالفت نہیں کی تو سیدنا معاویہؓ نے بھی یزید کو ولی عہد بنا کر مخالفت نہیں کی بلکہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے طریقہ کی اتباع کی ہے۔

تردید امر دوم:

سیدنا معاویہؓ کی یزید کو سیدنا حسینؓ کے متعلق وصیت

یہ کہنا کہ سیدنا معاویہؓ نے یزید کو ولی عہد بنا کر اہلِ بیتؓ کے قصداً قتل کا دروازہ کھول دیا پہلے امر کی طرح غلط اور بے اصل ہے اس کی تردید بھی اہلِ تشیع کی کتب سے ملاحظہ فرمائیں۔

مقتل ابی مخنف:

والرابع الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِیؓ فَإِنَّ النَّاسَ تَدْعُوهُ حَتٰى يَخْرُجَ عَلَيْكَ فَإِنْ ظَفَرْتَ بِهِ فَاحْفَظُ قَرَابَتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِﷺ وَاعْلَم يَا بُنَى أَن ابَاهُ خَيْرٌ مِّنْ أَبِيكَ وَجَدٌَهُ خَيْرٌ مِّن جَدِّكَ وَأَمَّهُ خَيْرٌ مِّنْ أُمِّكَ وَلِلْمَرْءِ مَا بِقَلْبِكَ وَ هَذه وَصِيَّتِی إِلَيْكَ وَالسَّلام وَ طَوَى الكِتَابَ وَسَلَّمَہ لِلضحَاكِ بْنِ قَيْسِ الْفِهْرِي وَ امَرَہ أَنْ يُسَلِّمَهُ إلى وَلَدِهِ ثُمَّ أَنَّهُ لَم يلبثُ حَتى هَلَكَ وَ ذٰلِكَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِن رجب سنة ستين من الهجرة وضجت دمشق لموتِهِ.

( مقتل ابی مخنف صفحہ 8 مقدمہ مطبوعہ مجمع الشرود)

ترجمہ:سیدنا معاویہؓ نے یزید کی عدم موجودگی میں وصیت لکھواتے ہوئے دیگر امور کے علاوہ چار آدمیوں کا ذکر بھی کیا کہ وہ یزید کے مقابلہ میں شاید آجائیں تو ان سے مقابلہ کے وقت اے یزید تجھے کیا کرنا چاہیے یہ تحریر کیا ان چار میں سے ایک سیدنا حسینؓ بھی تھے ان کے بارے میں وصیت لکھی کہ چوتھے آدمی سیدنا حسین بن علیؓ ہیں جن کو کوئی لوگ دعوت دیں گے حتیٰ کہ وہ (سیدنا حسینؓ) تجھ پر خروج کریں گے تو اگر تو ان کو پکڑنے اور شکست دینے میں کامیاب ہوجائے تو رسول اللہﷺ سے ان کی قرابت ضرور ذہن میں رکھنا بیٹا تجھے معلوم ہونا چاہیئے کہ سیدنا حسینؓ کا باپ تمہارے باپ اس کے نانا تمہارے نانا اس کی والدہ تمہاری والدہ سے کہیں بہتر ہیں اور آدمی کے لیے وہی ہے جو تیرے دل میں ہے والسلام اس کے بعد وصیت نامہ لپیٹ دیا اور ضحاک بن قیس النہری کے سپرد کرتے ہوئے حکم دیا کہ یہ وصیت نامہ میرے بیٹے کو دے دینا اس وصیت کے بعد سیدنا امیر معاویہؓ بہت جلد دنیا سے رخصت ہوگئے یہ رجب کی پندرھویں رات سن 60 ہجری کا واقعہ ہے پورا دمشق سیدنا امیر معاویہؓ کی موت پر کانپ اٹھا۔

 مذکورہ حوالہ سے درج ذیل امور ثابت ہوئے:

1۔ سیدنا امیر معاویہؓ کو فراستِ ایمانی اور سیاستِ جہانگیری سے یہ بخوبی معلوم تھا کہ کوفی شیعہ سیدنا حسینؓ کو یزید کے خلاف خروج پر ضرور ابھاریں گے۔

2۔ آپؓ نے فرمایا اگر سیدنا حسینؓ سے اے یزید تیرا مقابلہ ہو ہی جائے تو امام موصوف کی قرابت کو نہ بھولنا نہ تیرا باپ ان کے باپ جیسا نہ تیرا نانا ان کے نانا جیسا اور نہ ہی تیری ماں ان کی ماں جیسی ماں ہے لہٰذا کوئی نازیب حرکت نہ ہونے پائے۔

3۔ سیدنا امیر معاویہؓ کی وصیت کے الفاظ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یزید سے سیدنا حسینؓ کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنانہ کرنا پڑے جبکہ یزید ان کے اَباؤ اجداد کے مقام و مرتبہ کو دیکھ کر درگزر کرے اور حُسن سلوک سے پیش آئے۔

امالی صدوق:

عَنْ لمى قَالَ سَأَلْتُ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدِ ابْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَقُلْتُ حَدِثَنِی عَنْ مَقْتَلِ ابْنِ رَسُولِ اللهِﷺ فَقَالَ حَدَّثَنِی أَبِي عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ مُعَاوِيَةَؓ الْوَفَاهُ دَعَا ابْنَهُ يَزيَدَ لَعْنَهُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَأَجْلَسَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ لَهُ يَا بُنَيَّ إِنِّي قَد ذَللْتُ لكَ الرِّقَابَ الصفات وَ وَهَدتُ لكَ البَلادَ وَجَعَلْتُ الْمُلْكَ وَ مَا فِيهِ لَكَ طُعْمَةً و إِنِّی أَخْشىٰ عَلَيْكَ مِنْ ثَلَثَةِ نَفَرٍ يُخَالِفُونَ عَلَيْكَ بِجُهْدِهِمُ وَ هُوَ عَبْدُاللهِ بْن عُمَرَ بْنِ الْخَطَابِؓ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ الزُّبَيْرِؓ وَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلیؓ فَامَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَؓ فَهُوَ مَعَكَ فَالْزِمه وَلَا تَدْحهُ وَأَمَّا عَبْدُاللهِ بْنُ الزُّبَيْرِؓ فَقَطْعُهُ إِنْ ظَفَرْتَ بِهِ ارْبًا أَرْبًا فَإِنَّهُ يَجتُوا لَكَ كَمَا يَجْثوا الأَسَدُ لِفَرِيسَتِهِ وَيُوَارِبُكَ مَوَارِبَةَ الثعْلَبِ لِلْكَلْبِ وَأَمَّا الْحُسَيْنُؓ فَقَدْ عَرَقْتَ حَظة مِنْ رَسُولِ اللهﷺ وَهُوَ مِنْ لَحم رَسُولِ اللهِﷺ وَدَمِهِ وَ فَقَدْ عَلِمْتَ لَا مَحَالَةَ أَنَّ أَهْلَ الْعِرَاقِ سَيُخْرِجُونَهُ إِلَيْهِمُ ثُمَّ يَخْذُلُونَهُ وَيُضِيعُونَهُ فَإِنْ ظَفَرْتَ بِهِ فَاعْرِفْ حَقَّهُ وَ مَنزِلَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِﷺ وَ لَا تُؤَاخِذُهُ بِنِعْلِهِ وَمَعَ ذَلِكَ فَإِنَّ لَنَا بِهِ خَلْطَةً وَ رَحْمًا وَ إِيَّاكَ أَنْ تَنَالَهُ بِسُوءٍ وَ يَرَى مِنْكَ مَكْرُوها۔

1۔ (الامالي والمجالس الشيخ الصدوق صفحہ 92 المجلس الثلاثون مطبوعه قم)

2۔ (بحار الانوار جلد 10 صفحہ 190 باب تاریخ حسین بن علیؓ طبع ایران قدیم)

ترجمہ: لمی روایت کرتا ہے کہ میں نے سیدنا جعفرؓ سے پوچھا مجھے سیدنا حسینؓ کے قتل کے بارے میں کچھ بتلائیے؟ انہوں نے فرمایا کہ میرے والد نے اپنے والد سیدنا زین العابدینؓ سے روایت کی کہ جب سیدنا امیر معاویہؓ کے انتقال کا وقت قریب آگیا تو انہوں نے اپنے بیٹے یزید (لعنۃ الله) کو اپنے پاس بلوایا آنے پر اُسے اپنے سامنے بٹھا کر کہا بیٹا میں نے بڑے بڑے جفادریوں کو تیرے لیے سرنگوں کر دیا اور شہروں کو تیرے ماتحت کر دیا اور ملک کی تمام دولت تیری جھولی میں ڈال دی اس کے باوجود میں تین آدمیوں سے تیرے بارے میں پریشان ہوں وہ پوری طاقت سے تیری مخالفت کریں گے وہ یہ ہیں۔ 

(1)سیدنا عبداللہ بن عمر بن الخطابؓ (2) سیدنا عبدالله بن الزبیرؓ (3) سیدنا حسین بن علیؓ ان میں سے سیدنا عبداللہ بن عمرؓ تیرے ساتھ ہے اُسے ضرور ساتھ رکھنا سیدنا عبدالله بن الزبیرؓ جہاں کہیں داؤ لگے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا کیونکہ وہ تجھ پر اس طرح گھات لگا کر حملہ کرے گا جس طرح شیر اپنے شکار پر حملہ کرتا ہے اور لومڑی کی طرح تیرے ساتھ مکر و فریب کرے گا جس طرح لومڑی کتے سے فریب کرتی ہے اور سیدنا حسین بن علیؓ تو ان کا تعلق جو رسولﷺ سے ہے اس کو اچھی طرح جانتا ہے وہ حضورﷺ کے جسم اور خون کا حصہ ہیں اور میں بخوبی جانتا ہوں کہ عراقی انہیں اپنے ہاں بلانے میں کامیاب ہو جائیں گئے اور پھر انہیں خوب ذلیل کریں گے اور انہیں شہید کر دیں گے تو اگر تجھے ان پر دسترس حاصل ہو جائے تو حضورﷺ کے ساتھ ان کے مقام و مرتبہ کا ضرور خیال رکھنا ان کے کسی کام پر ان کی گرفت نہ کرنا اس عظمت کے علاوہ ان کی ہمارے ساتھ رشتہ داری اور قرابت بھی تو ہے میں تجھے خبردار کرتا ہوں کہ تجھ سے ان کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے اور نہ ہی وہ تیری طرف سے کسی برائی میں گرفتار ہوں۔

مذکورہ حوالہ سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے:

1۔ سیدنا امیر معاویہؓ کے ہاں سیدنا حسینؓ کی بہت عزت و منزلت تھی اسی لیے فرمایا کہ آپ حضورﷺ کے گوشت اور خون کا حصہ ہیں۔

2۔ عراقی شیعہ سیدنا حسینؓ کو جب اپنے ہاں بُلا کر یزید سے مقابلہ کرانا چاہیں تو سیّدنا امیر معاویہؓ نے فرمایا بیٹا ایسے میں سیدنا حسینؓ کے مقام و مرتبہ کا ضرور خیال رکھنا ان کے کسی فعل پر گرفت نہ کرنا۔

3۔ سیدنا حسینؓ اور سیدنا امیر معاویہؓ کے درمیان خونی و نسبی رشتہ بھی تھا اس رشتہ کی وجہ سے بھی سیدنا امیر معاویہؓ نے یزید کو بدسلوکی کرنے سے منع کیا۔

حاصل کلام:

اہلِ تشیع کی دو کتابوں کے حوالہ سے ہم نے جو سیدنا امیر معاویہؓ کی وصیت کے الفاظ ذکر کیے ہیں یہی مضمون ان کی بہت سی دیگر کتب میں بھی موجود ہے وصیت کے ان الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ خود سیدنا امیر معاویہؓ سیدنا حسینؓ کی بہت زیادہ عزت فرمایا کرتے تھے اور اس کی اپنے بیٹے کو بھی وصیت کی جس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ سیدنا امیر معاویہؓ نے یزید کو جب ولی عہد مقرر کیا تو اس کی تقرری اس وجہ سے نہ ہوئی کہ اس سے سیدنا حسینؓ کو ذلیل کرنا اور ان کی مخالفت کرنا مقصود تھی اس ثبوت کی مضبوطی روایت مذکورہ کے راویان کی وجہ سے اور بڑھ جاتی ہے مالی صدوق کی روایت میں حضرات ائمہ اہلِ بیت راوی ہیں اور اہلِ بیت کے ان مقتدر اماموں سے کذب بیانی کی تو فضول بحث ہے اس لیے میں اہلِ تشیع کو دعوت دیتا ہوں کہ روایت مذکورہ کے پڑھنے کے بعد اب تمہارے لیے دو ہی راستے ہیں۔

1۔ یہ کہو سیدنا جعفرؒ سیدنا باقرؒ اور سیدنا زین العابدینؒ نے محض سیدنا امیر معاویہؓ کو راضی کرنے کے لیے غلط بیانی اور دروغ گوئی سے کام لیا اگر ایسا ہے تو پھر تمہیں ایسے اماموں سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہیے پھر مزید یہ کہ فقہ جعفریہ ہے ہی ان کی روایات کا نام اگر یہی جھوٹے ہیں تو ساری فقہ جعفریہ جھوٹ کا پلندہ ٹہری۔

2۔ یا مان لو کہ حضرات ائمہ کرام نے سیدنا امیر معاویہؓ کی وصیت کو حق اور سچ سمجھ کر نقل کیا اور ہونا بھی یہی چاہیے کیونکہ تمہاری کتابیں ببانگ دہل کہہ رہی ہیں کہ اہلِ بیت کا ہر ایک امام علمِ کلی جانتا ہے تو پھر ان ائمہ سے یہ بات کیونکر چھپی رہ سکتی ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ کا اپنے بیٹے یزید کو وصی بنانا اور پھر اسے وصیت کرنا کہ اہلِ بیت کی تعظیم و تکریم میں کسر اٹھا نہ رکھنا غلط ہے۔

لہٰذا معلوم ہوا کہ جو لوگ سیدنا امیر معاویہؓ پر الزام دھرتے ہیں کہ انہوں نے یزید کو وصی اور ولی عہد بنا کر اہلِ بیت پر ظُلم و ستم کے دروازے کھول دیئے بالکل کذب و افتراء ہے حقیقت اس کے اُلٹ ہے یعنی یہ کہ سیدنا امیر معاویہؓ نے بتاکید وصیت فرمائی کہ بیٹا خبردار سیدنا حسینؓ اور دیگر اہلِ بیت کی تعظیم و تکریم میں کمی نہ آنے پائے ان کی باتوں سے درگزر کرنا اور ان کی رسول اللہﷺ سے قرابت تمہارے لیے واجب الاحترام ہے انہیں ستانے کی قطعاً کوشش نہ کرنا۔

(فاعتبروا یا اولی الابصار)۔

تردید امر سوم:

سیدنا امیر معاویہؓ قتل سیدنا حسینؓ سے لاتعلق ہیں:

سیدنا امیر معاویہؓ پر یہ الزام لگانا بھی قطعاً بے بنیاد ہے کہ آپ اگر یزید کو ولی عہد اور وصی مقرر نہ کرتے تو واقعہ کربلا وقوع پزیر نہ ہوتا کیونکہ قرآنُ و حدیث اس کے واضح تردید کر رہے ہیں قرآنِ کریم میں ہے اِذَا جَاءَ اَجَلُھَا لَا یَسْتَاخِرُوْنَ سَاَعۃً جب لوگوں کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ایک لمحہ کے لیے آگے پیچھے نہیں ہو سکتے خود اہلِ تشیع کے کتب کہتی ہیں کہ جب سیدنا حسینؓ کی شہادت کا وقت قریب آگیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کے لیے آسمانوں سے فرشتے بھیجے لیکن فرشتوں کے آنے سے قبل ہی سیدنا حسینؓ جامِ شہادت نوش فرما چکے تھے مقصد یہ ہے کہ تقدیر کا بہرحال وقت مقرر ہے ہزاروں لاکھوں تدابیر و اسباب دہرے کے دہرے رہ جاتے ہیں۔

واقعہ کربلا کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے کہ کوفیوں نے ایک دو نہیں تقریباً 18 ہزار لگاتار خطوط لکھے آپؓ ایک آدھ خط ملنے پر ہی کوفہ جانے کو تیار نہیں ہوگئے تھے بلکہ خطوط کا انبار لگنے پر اس بارے میں غور و فکر کیا کہ یہ خطوط وفاداری کی علامت ہیں یا غداری کی۔ پھر مزید تحقیق کے لیے اپنے بھائی سیدنا مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ بھیجا ان کی آمد پر 18 ہزار کے لگ بھگ کوفی آپ کی بیعت میں آگئے حالات کا جائزہ لے کر سیدنا مسلم بن عقیلؓ نے سیدنا حسینؓ موصوف کو خط لکھا کہ اہلِ کوفہ قابلِ اعتماد لوگ ہیں آپ تشریف لے آئیں اس کے بعد جب اہلِ مدینہ کو علم ہوا کہ سیدنا حسینؓ موصوف کوفہ جانے کی تیاری میں ہیں تو سیّدنا عبداللہ بن عمرؓ عبداللہ بن زبیؓر عبداللہ بن عباسؓ اور محمد بن الحنیفہؓ ایسے صاحبانِ فراست نے بہت سمجھایا کہ کوفی بے وفا ہیں انہوں نے آپؓ کے والد سے بھی غداری کی آپؓ وہاں جانے کا ارادہ ترک کر دیں لیکن آپؓ نے اپنے اجتہاد پر عمل پیرا ہوکر ان کی بات نہ مانی کوفہ روانہ ہوگئے اور اہلُ و عیال کو بھی اس اعتماد پر ساتھ لے لیا۔

سیدنا حسینؓ نے کوفیوں پر اجتہادی طور پر اعتماد کر لیا لیکن وہ انتہائی درجہ کے بے وفا نکلے ان کی بے وفائی پر سیدنا حسینؓ کے اجتہاد پر اعتراض تو نہیں کرنا چاہیے بعینہٖ اسی طرح سیدنا امیر معاویہؓ نے اجتہاد فرمایا کہ میرے بعد میرا بیٹا خلیفہ بن کر میری وصیت پر عمل کرے گا اور اہلِ بیت کی تعظیم و تکریم کا شیوہ اپنائے گا لیکن یزید نے ایسا نہ کیا تو اس سے سیدنا امیر معاویہؓ کے اجتہاد پر اعتراض کیوں؟۔

سیدنا امیر معاویہؓ کے یزید کو ولی عہد بنانے کی حقیقتِ حال:

سیدنا امیر معاویہؓ کا یزید کو ولی عہدی اور تفویضِ خلافت کا معاملہ ایک باپ ہونے کی حیثیت سے ہرگز نہ تھا نہ ہی اس میں خاندانی اقتدار انتقال کی کوئی وجہ مخفی تھی سیدنا امیر معاویہؓ نے اپنے دور میں مسلمانوں کے مابین دو خوفناک جنگیں دیکھی تھیں ایک جنگِ جمل اور دوسری جنگِ صفین ان دونوں لڑائیوں میں 90،80 ہزار کے لگ بھگ مسلمان شہید ہوگئے ان حالات میں سیدنا امیر معاویہؓ کیسے سوچ سکتے تھے کہ میرے جانے کے بعد پھر وہی حالات پیدا ہوجائیں گے کہ مسلمان باہم دست و گریباں ہوں آپ نے اس مسئلے پر غور و خوض کے لیے اہلِ حل و عقد کو بلایا ان سے مشورہ لیا کہ آئندہ باہمی قتل و غارت اختلاف و انتشار کے انسداد کے لیے کیا کرنا چاہیے تو کثرت رائے سے طے پایا کہ چونکہ بنی امیہ کا اس وقت پورے ملک پر تسلط ہے اصلی قوت اور طاقت کا مرکز ہیں اور حقیقت یہ تھی کہ یہ لوگ یزید کے سوا کسی دوسرے کے خلیفہ اور ولی عہد بننے پر ہرگز رضامند نہ تھے اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت یزید سے بڑھ کر صاحبانِ فراست و سیاست موجود تھے لیکن لوگوں کی سوچ تھی جس پر لگام ڈالی نہیں جاسکتی تھی لیکن ان اچھے لوگوں کو نظر انداز صرف اسی بنا پر کیا گیا کہ ان کے خلیفہ بننے سے انتشار و افتراق پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا تو کثرتِ رائے سے یزید کو ہی خلیفہ بنانے کا فیصلہ ہوا لیکن اس کے باوجود سیدنا امیر معاویہؓ نے یزید کو انتہائی سخت وصیت لکھی کہ اہلِ بیت کا ہر طرح خیال رکھنا جیسا کہ گزشتہ حوالہ جات میں ہم ذکر کر چکے ہیں سیدنا امیر معاویہؓ نے کثرتِ رائے سے فیصلہ کے بعد اللہ کی بارگاہ میں اس لعنتی کے لیے دعا مانگی جس کے الفاظ یہ ہیں۔

البدایۃ النہایۃ:

رویبا عن معاویۃؓ انه قال یوما فی خطبتهٖ اللّٰھم ان کنت تعلم انی ولیته لانه فیما اراہ اھل لذالک فاتمم له ما ولیته و ان کنت ولیته لی انی احبه فلا تتمم له ما ولیته۔

(البدایۃ النہایۃ جلد 8 صفحہ 80 ثم دخلت سنۃ ست و خمسین مطبوعہ بیروت)۔

ترجمہ:سیدنا امیر معاویہؓ سے روایت ہے کہ آپ نے ایک دن دورانِ خطبہ یہ دعا مانگی اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے اس کو اس کی اہلیت کی بناء پر ولی عہد اور خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا تو میری اس تمنا کو پورا فرما دے اور اگر میں نے اسے اس لیے ولی عہد بنایا کہ مجھے اس سے پیار و محبت تھی تو اے اللہ اس کو ولی عہدی میں ناکام بنا دے اور اس کی تکمیل نہ فرما۔

نبراس:

وانما نصبه معاویۃؓ ظنا بصلاحه کما روی عنه انه قال اللھم ان کان یزید علی ما اظنه و الا فعجل موته وقد استجیب دعاءہ فلم یطل ملکه۔

(نبراس شرح شرح العقائد صفحہ 541 مطبوعہ ملک دین محمد لاہور)

ترجمہ: سیدنا امیر معاویہؓ نے یزید کو اس کی اہلیت و استعداد کے پیش نظر خلیفہ بنایا جیسا کہ خود ان سے مروی ہے دعا کی اے اللہ اگر یزید ویسا ہی ہے جیسا اس کے بارے میں میرا گمان ہے تو بہت بہتر اور اگر ویسا نہیں تو اس کو جلدی موت دے دے اللہ تعالیٰ کے حضور سیدنا امیر معاویہؓ کی دعا مقبول ہوئی اس یزید کو زیادہ دیر خلافت کرنا نصیب نہ ہوا۔

لمحۂِ فکریہ:

قارئینِ کرام اور حق و صداقت کے متلاشی اہلِ تشیع یزید کے ولی عہد بنانے پر سیدنا امیر معاویہؓ کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہم نے اس الزام کی کتب شیعہ سے تردید پیش کر دی اور اس پر مزید یہ کہ حضرات ائمہ اہلِ بیت کی روایات کے مطابق ان وصایہ کا بھی ذکر کر دیا گیا جو سیدنا امیر معاویہؓ نے بوقت انتقال یزید کو کی تھی ان تمام حوالہ جات اور شہادتوں کے مطالعہ کے بعد سیدنا امیر معاویہؓ پر وارد کیے گئے طعن کی تردید ثابت ہوچکی تھی لیکن پھر اس کے بعد اہلِ سنت کی مشہور و متدادل کتاب نے نبراس سے سیدنا امیر معاویہؓ کی برسر عام اس دعا کا ہم نے تذکرہ بھی کر دیا جو ائمہ اہلِ بیت کی روایات کی پوری پوری تائید کرتی ہے۔

ان تمام باتوں سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ نے یزید کے ولی عہدی اس ارادہ سے ہرگز نہ تھی کہ اس کے ذریعے اہلِ بیت کے ساتھ جنگ و جدل کی نوبت آئے گی بلکہ کھلے دل اور صاف الفاظ میں آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں یا اللہ اگر میں نے یزید کو محض قرابت اور شفقتِ پدری کی بنا پر خلافت دینے کا ارادہ کیا تو ہرگز ہرگز اس کو پورا نہ ہونے دے اور اگر مفاداتِ عامہ اور امت کی بھلائی کے پیش نظر ایسا کیا تو اس کو کامیاب و کامران بنا سیدنا امیر معاویہؓ کی خلوصِ نیت کا یہ عالم تھا کہ ان کے عزائم پر پورا نہ اترنے کی صورت میں اس کے لیے موت تک کی دعا کر ڈالی صاحبِ نبراس کے مطابق چونکہ یزید کا وطیرہ اس کے بالکل الٹ تھا جو سیدنا معاویہؓ نے اس سے وابستہ سمجھ رکھا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرفِ قبولیت عطا فرمایا اور یزید بہت جلد اس دنیا سے اٹھ گیا اور تادیر خلافت قائم نہ رہ سکی۔

ان تمام دلائل و شواہد کی صورت میں سیدنا امیر معاویہؓ کا دامن ان الزامات و اعتراضات سے بالکل پاک ہے جو معترض ان پر لگاتا ہے کیونکہ ان کی برأت ائمہ اہلِ بیت کی روایات بھی کر رہی ہیں اور خود ان کی وصیت اور دعا بھی اس کی شاہد ہے لہٰذا مذکورہ طعن جھوٹ اور فریب کا ایک پلندہ ہے اور دھوکہ دہی کی ایک نہایت گھناؤنی کوشش ہے جسے ہر ذی عقل سلیم جان سکتا ہے۔

(فاعتبروا یا اولی الابصار)۔