Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سنی، شیعہ اور اسماعیلی اتحاد کی تحریک ایک تنقیدی جائزہ


حضرت مولانا مفتی محمد زہیرؒ کا فتویٰ

(مفتی جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی)

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین درج ذیل پمفلٹ کے بارے میں جس کا عنوان ہے سنی، شیعہ اور اسماعیلی اتحاد اس پمفلٹ کے مندرجات کچھ یوں ہیں ہم سب سنی، شیعہ اور اسماعیلی ایک اللّٰہ، ایک رسولﷺ اور ایک قرآن پر ایمان رکھتے ہیں۔ 

نادرن ایریا میں ہم سب کا تعاون و محبت مدتوں سے مثالی رہا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی عبادت گاہوں میں اپنی اپنی نمازیں ادا کرتے رہے ہیں لیکن گزشتہ چند ماہ سے اسلام دشمن سازشوں کے جال میں پھنس کر ہمارے درمیان جو قتل و غارت گری ہوئی ، ہم سب اس پر شرمندہ اور معذرت خواہ ہیں۔ 

علامہ عارف الحسینی کے قتل کی تفتیش اور ملزمان کی گرفتاریوں سے ہم سب کو یقین محکم ہو گیا ہے کہ جس طرح ایک ملزم نے افغانستان سے چھ لاکھ روپے کے عوض علامہ عارف الحسینی کو قتل کیا ہے، اسی طرح افغانستان اور روسی سازشوں کے تحت ملک کے اس انتہائی اہم اور حساس سرحدی علاقے میں بھائیوں کو بھائیوں سے لڑایا گیا ہے۔ خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف بہتان طرازیاں اور امام باڑے یا جماعت خانے کا جلایا جانا سب کچھ گھناؤنی سازش کا نتیجہ تھا جس کا ہم سب شکار ہوئے۔ ہم سب اپنی اپنی غلطیوں پر نادم اور شرمندہ ہیں اور ایک دوسرے کو کھلے دل سے معاف کر کے گلے لگاتے ہیں۔ قرآن مجید میں دوسرے مذاہب کے بتوں تک کو بُرا کہنے سے منع کیا گیا ہے کہ وہ جواب میں اللہ تعالیٰ کو برا کہیں گے۔ افواہیں یہاں تک پھیلی ہوئی ہیں کہ ہم میں سے بعض مکاتبِ فکر نے قرآن مجید میں تحریف کی سازش کی ہے، تا کہ ہم کو ایک دوسرے سے بدظن کر کے لڑایا جا سکے، ہم سب مشترکہ طور پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی تحریف کرنے والا بھی اسلام کے دائرہ سے خارج ہے۔

(1) دشمنانِ اسلام اور پاکستان کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے ہم سب نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام مساجد، امام باڑے اور جماعت خانوں کے دروازے سب سنی، شیعہ اور اسماعیلیوں کے لئے کھلے رہیں گے، کسی بھی مکتب فکر کا مسلمان کسی بھی عبادت گاہ میں جا کر اپنے مسلک سے نماز ادا کر سکتا ہے۔

(2) قرآن مجید میں تحریف کے الزام کو رد کرنے کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ مساجد میں، امام باڑوں اور جماعت خانوں میں قرآن مجید کے مخلوط مدارس قائم کئے جائیں، جہاں سب مکاتب فکر کے بچے اور بڑے حضرات قرآن مجید پڑھیں۔

(3) خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تبرّا بھیجنے والوں کا محاسبہ خود شیعہ برادری بھی کرے گی اور سنی حضرات پُر امن و عزّاداری کو یقینی بنانے میں پوری مدد دیں گے، کیونکہ کسی کے بھی بزرگوں یا شعائر مذہب کی تضحیک لازماً کشیدگی پیدا کرے گی۔

(4) اگر آپ اپنی آبادی کی مساجد ، امام باڑے، جماعت خانے میں قرآن مجید کا مخلوط مدرسہ قائم کرنا چاہیں تو ہم ہر طرح کا مالی اور اخلاقی تعاون پیش کریں گے۔

(5) اگر آپ اپنی آبادی کی مسجد، امام باڑے، جماعت خانے میں ڈسپنسری قائم کرنا چاہیں تب بھی ہماری ممکنہ امداد حاضر ہے۔ 

(6) کسی بھی مکتب فکر کے لوگوں کو دوسرے مکتب فکر سے کوئی شکایت پیدا ہو تو وہ راست اقدام سوچنے کی بجائے زیرِ دستخطی سے رابطہ کریں، تا کہ متعلقہ مکتب فکر کے بزرگوں سے مل کر شکایت کنندہ کی تکلیف دور کی جا سکے۔ یقین کیجئے کہ ہر مکتب فکر کے بزرگ انتہائی دردمند اور خدا خوفی والے لوگ ہیں۔

اس کے ثبوت میں ہم علی آباد ( ہنزہ) میں مسجد قباء کی مثال پیش کرتے ہیں جہاں اسماعیلیوں کی شکایت پرسنی منتظمین نے فورا امامِ مسجد کو علیحدہ کر دیا۔ اسی طرح علامہ آغا حامد، دشمنانِ اسلام کی سازشیں نا کام بنانے اور اخوت و رواداری کی فضاء کے لئے بے چین ہیں ، ہم سب کو دشمنانِ اسلام کے سامنے مذاق نہیں بننا چاہئے۔ اور مل کر اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور متفرق نہ ہو جاؤ پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ 

مندرجہ بالا پمفلٹ کی عبارت کے مضمون تحریک اور ایسے عمل پر کیا حکم ہے؟ مزید یہ کہ جو صاحب ایسے امور کو لے کر چلے اور رجوع نہ کرے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: منسلکہ پمفلٹ سنی شیعه اسماعیلی اتحاد کے مضمون کا حکم بیان کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تین اُمور کا تذکرہ ہو جائے تا کہ اس پمفلٹ کے بارے میں ایک عام آدمی کو بھی نتیجہ اخذ کرنے میں سہولت ہو، اور وہ امور ثلاثہ یہ ہیں

(1) فرقہ شیعہ فرقہ اسماعیلیہ آغا خانی کے مختصر عقائد اور پھر اہلِ سنت کے عقائد سے موازنہ۔

(2) اس پمفلٹ کے مندرجات پر نقد و تبصرہ۔  

(3) اتحاد کے لئے شرائط۔ 

نوٹ: آخری امر کا تذکرہ اس لئے ضروری ہے کہ عام لوگوں کا تاثر یہ ہے کہ اختلاف چھوٹے طبقے کے پیدا کردہ ہیں، ہر طبقہ کے بڑے اس بات کے متمنی ہیں کہ اتفاق و اتحاد رہے۔ 

شیعہ کے عقائد: 

ان کے بنیادی عقائد ثلاثہ یہ ہیں۔ 

(1) عقیدۀ امامت:

 اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے انبیائے کرام علیہم السلام مبعوث من الله اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہوتے ہیں ایسے ہی ائمہ معصومین بھی۔ ان پر وحی نازل ہوتی ہیں اور ان کو حسبِ منشاء قرآن پاک میں تبدیلی کرنے کی اجازت ہوتی ہے (العیاذ بالله)

(2) بُغض صحابةؓ:

ان کا دوسرا بڑا عقیدہ یا اصول صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض و عداوت ہے۔ ان کے نزدیک تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ما سوائے سیدنا مقدادؓ سیدنا ابو ذرغفاریؓ اور سیدنا سلمان فارسیؓ کے، بعد وصال النبیﷺ مرتد ہو گئے تھے. اور ان تین حضرات نے بھی بشمول سیدنا علیؓ کے طوعاً و کرہاً ایک مرتد سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی بیعت کرلی تھی (العیاذ بالله)

(3) تحریف قرآن:

تیسرا بنیادی عقیدہ جو پہلے دو کا نتیجہ ہے وہ ہے تحریفِ قرآن۔ ان کے نزدیک موجودہ قرآن سیدنا عثمان غنیؓ کا تحریف کردہ ہے (العياذ بالله) اور اصلی قرآن ائمہ کے پاس ابا عن جد منتقل ہوتا رہا ہے اور اب امام مہدی کے پاس ہے، اس کے چالیس پارے ہیں اور وہ ایک غار سر من راہ میں اس قرآن کو لئے بیٹھے ہیں، اپنے ظہور کے بعد اس کو لائیں گے اور نافذ کریں گے۔

 اسماعیلیوں کے عقائد:

اسماعیلیوں کے عقائد شیعہ ہی کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ آگے ہیں۔ اسی بناء پر بعض شیعہ نے بھی ان کو اپنے میں شمار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ان کے عقائد کو بھی ہم مذکورہ بالا انداز سے لے لیتے ہیں ۔ 

(1) عقیدۀ امامت:

آغا خانی اپنے امام حاضر کو صرف معصوم ہی نہیں مانتے بلکہ یہ بھی مانتے ہیں کہ ان کا امام حاضر ہے، خدا کا مظہر ہے، خدا تعالیٰ اپنی تمام الہٰی طاقتوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے امام حاضر میں حلول کرتا ہے۔ اس لئے ان کے نزدیک امام حاضر ہی خدا ہے، وہی مستحق دعا و عبادت ہے۔ (العیاذ بالله)

(2) بُغضِ صحابہؓ:

 اس عقیدہ میں اسماعیلی بھی شیعہ ہی کی طرح ہیں۔ کیونکہ وہ بھی اکابر اصحاب ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو غاصب، ظالم اور خائن کہتے ہیں ( العیاذ بالله )

(3) تحریف قرآن:

 ان کے نزدیک بھی قرآن پاک میں (معاذ اللہ) سیدنا عثمان غنیؓ نے تحریف کی ہے، اصل قرآن تو چالیس پارے ہیں تیس تو موجودہ اور باقی دس پارے امام حاضر کی زبان ہے (العیاذ بالله)

 ہم نے مذکورہ دونوں فرقوں کے تین بنیادی عقیدوں کو تو ذکر کیا ہے لیکن کلمہ کا نہیں، کیونکہ وہ تو عقیدے کا مظہر ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اب طرداً للباب اس کا بھی ذکر کئے دیتے ہیں۔ 

شيعہ كا كلمه:

لا الٰه الا الله محمّد رسول اللّٰه علىّ ولىّ الله وصى رسول الله وخليفته بلا فصل یہ کلمہ دینیات برائے نہم و دہم کے جدا شیعہ نصاب۔ جاری کردہ حکومت پاکستان سے لیا گیا ہے۔ لیکن انہی کا کلمہ ایرانی رسالہ وحدت اسلامی کے سالنامہ 1984ء میں یوں درج ہے لا الٰه الا الله محمّد رسول الله على ولى الله خميني حجة الله

اسماعیلی کلمہ:

 اشهدان لا اله الا الله واشهدان محمد رسول الله واشهدان على الله 

اب دوسری طرف اہلِ سنت کے ہاں نہ تو عقیدۀ تحریفِ قرآن ہے اور نہ بُغضِ صحابہ رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین اور نہ ہی امامت کا تصور بلکہ یہ سب چیزیں ان کے نزدیک دائرۀ اسلام سے خارج کرنے والی ہیں۔ اہلِ سنت کے ہاں صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین مثل النجوم ہیں، ان کی اقتداء ہی میں ہدایت مضمر ہے۔ وہ موجودہ قرآن پاک ہی کو منزل من اللّٰه: جانتے ہیں۔ اوراسی بناء پر ان کے ہاں بنیادی عقیدہ توحید ورسالت کا ہے، اور تمام صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین على حسب المراتب شرف صحابیت سے مشرف ہونے کے باعث ان کے سر کے تاج ہیں۔ 

لہٰذا یہ بات ثابت ہوئی کہ اہلِ سنت کے ساتھ ان دونوں گرہوں کا اختلاف اصولی ہے اور کفر و اسلام کا اختلاف ہے، کوئی فروعی اختلاف نہیں ۔ کیونکہ تحریف قرآن کا قائل اور سیدنا صدیق اکبرؓ کی صحابیت کا منکر، باجماعِ اہلِ اسلام کافر ہے۔

ایک بات کی وضاحت:

یہاں ایک بات کا تذکرہ مفید ہو گا وہ یہ کہ جب اُمت مسلمہ قادیانیوں کو ایک مرزا کے نبی ماننے پر کافر و مرتد کہتی ہیں تو شیعہ اور آغا خانی تو بطریق اولیٰ اس کے مستحق ہوں گے، کیونکہ وہ تو بارہ اماموں کو نبی، بلکہ ان سے بھی بڑھ کر مانتے ہیں۔

اگر کسی خیر خواہ کو یہ اشکال ہو کہ وہ تو اِن عقائد سے برأت کا اظہار کرتے ہیں تو اس سلسلہ میں واضح ہو کہ ان دونوں فرقوں کے مذہب کا بنیادی جزو ہے تقیہ جس کے معنیٰ ہے اپنے عقائد کو چھپانا۔ تو وہ اس اظہار برأت میں اس تقیہ سے کام لیتے ہیں۔ ویسے بھی جب کوئی شخص کسی مذہب کا متبع و پیرو کار ہے تو اس کی بات کا اعتبار نہیں ہوتا بلکہ اس مذہب کے ائمہ مجتہدین کی بات دیکھی جاتی ہے۔ 

لہٰذا مذکورہ دونوں فرقوں کے اماموں اور بڑے علماء کی باتوں کو دیکھا جائے گا، جیسا کہ صاحب اصول کافی جس کے بارے میں ملت شیعہ کا خیال ہے کہ اس نے گیارہوں بارہوں امام کا زمانہ پایا ہے، یا موجودہ دور میں خمینی اور پیشوا ملا باقر مجلسی ملعون۔ اگر کوئی ان سے برأت کا اظہار کرے تو وہ شیعہ یا اسماعیلی ہی نہیں اور اس کا ان کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنا صحیح نہیں ۔ لہٰذا برأت کا عذر عذر لِنگ ہے۔

منسلکہ پمفلٹ کی حقیقت:

منسلکہ پمفلٹ جھوٹ کا پلندہ، کذب و افتراء کا طومار اور اہلِ سنت عوام کو دھوکہ دینے کے لئے تقیہ کی سیاہ نقاب ہے۔ یہ اہلِ سنت کی تحریک ہرگز نہیں ہو سکتی، کیونکہ اگر شیعہ اوراسماعیلی اپنے کفریہ عقائد کو چھوڑ دیں تو وہ خود اسلام میں داخل ہو جائیں گے اور اس صورت میں اس تحریک اور اتحاد کو سنی ، شیعہ، اسماعیلی اتحاد قرار دینا غلط ہو گا، بلکہ اس کو انتقال الشيعة والاسماعيليين الى اهل السنة کہنا ہو گا۔ اور اگر انہوں نے اپنے عقائد کو نہیں چھوڑا، جیسا کہ پمفلٹ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے اور اس کا نام بھی اس کی طرف مشعر اور اس کے لئے مثبت ہے تو پھر یہ کفر و اسلام کے اتحاد کی کوشش ہے۔ کیونکہ شیعیت اور آغا خانیت خالص کفر ہے، جیسا کہ ان کے عقائد سے واضح ہو چکا ہے۔ 

اور جہاں تک اس کے مندرجات پر تفصیلی جائزہ کی بات ہے تو اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ پہلا پیرا گراف تو سفید جھوٹ ہے۔ کیونکہ نادرن ایریا میں مسلمانوں شیعوں و آغا خانیوں کے مابین دشمنی تو مثالی کہی جاسکتی ہے، ان کے مابین محبت کا دعویٰ کرنا روز روشن کو شب تاریک قرار دینے کے مترادف ہے۔ 

پھر دوسرے پیرا گراف میں سازشوں کو فقط روس اور افغانستان کی طرف منسوب کرنا گویا عام مشاہدہ کا انکار کرنا ہے۔ کیونکہ سرکاری تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ایسے واقعات میں ایران ملوث ہے، جیسا کہ مرحوم صدر ضیاء الحق نے اپنے ایک بیان میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔

 تیسرے پیرا گراف میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف بہتان تراشی کو سازش کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے، حالانکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ دشمنی اور بُغضِ صحابہؓ، شیعہ اور آغا خانیوں کا جزوِ ایمان ہے۔ اب اگر یہ سازش ہے تو پمفلٹ لکھنے والوں کو گویا اس کا اقرار ہے کہ شیعہ اور آغا خانی مذہب خود اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف ایک گھناؤنی سازش ہے۔ 

چوتھے پیراگراف میں تحریف قرآن کی سازش پر افواہ کا اطلاق کیا گیا ہے، جو پرلے درجے کی جہالت اور جھوٹ ہے، اس لئے کہ شیعوں کے امام ملا باقر مجلسی نے تو تذکرۃ الائمہ میں ان سورتوں کو بھی نقل کیا ہے جو اس کے زعم میں قرآن سے نکال دی گئی تھیں۔ اور خمینی موجودہ شیعہ امام اسی ملا باقر مجلسی کو اپنی کتاب کشف الاسرار میں اپنا امام و مقتدا لکھتا ہے۔ اب اگر یہ لوگ مجبور ہو کر ایسے شخص کو جو تحریف قرآن کا قائل ہو، اسلام سے خارج قرار دیں تو پھر انہیں ملا باقر مجلسی، خمینی اور دیگر شیعہ مجتہدین اور آغا خانی مصنفین کو بھی کافر کہنا ہو گا، حالانکہ وہ اس کے قائل کبھی نہیں ہو سکتے، اور اگر بغیر تقیہ کے اس کے قائل ہو جاتے ہیں تو پھر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ کفر کی مختلف وجوہ میں سے ایک وجہ ان میں نہیں رہی۔ اب اگر وہ مزید وجوہ کفر کو بھی چھوڑ دیں تو اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔ ورنہ ہزار خداؤں کو ماننے والا اور دو خداؤں کو ماننے والا کفر میں برابر ہیں ۔

آخر پمفلٹ میں مختلف تجاویز اور فیصلے دیئے گئے ہیں، ان میں سے پہلا فیصلہ تو یہ ہے کہ سنی، شیعہ اور اسماعیلی، ہر ایک کو اجازت ہو گی کہ دوسرے کے عبادت خانے میں جا کر عبادت کرے۔ معلوم نہیں اس پر عمل کہاں ہوا؟ یہاں کراچی میں تو اسماعیلی جماعت خانوں میں داخلے پر پابندی تو ویسے ہی ہے جیسے کہ پہلے تھی اور جملہ حقوق داخلہ بحق متبعین آغا خان محفوظ ہیں۔ اب اگر اس کو عقلاً بھی دیکھا جائے تو نا ممکن نظر آتا ہے۔ کیونکہ جب عقائد دونوں فریقوں کے جدا اور طرز عبادت جدا ہے، اور دونوں کے درمیان کفر و اسلام کا فاصلہ ہے تو پھر کیسے ایک جگہ عبادت کی جاسکتی ہے؟ 

اور جہاں تک مخلوط مدارس و مکاتب کا تعلق ہے تو اس میں سادہ لوح اہلِ سنت کو تو اپنے بچوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ باقی شیعہ اور آغانی تو اس کے علاؤہ اور چاہتے ہی کیا ہیں۔ یہ روزمرہ کے مشاہدے کی بات ہے کہ شیعہ اور اسماعیلی کا بچہ بچہ اپنے عقائد سے بخوبی واقف ہوتا ہے، جبکہ اہلِ سنت کے بڑے حضرات بھی اس سے واقف نہیں ہوتے۔ پھر تبرّا بازی کے انسداد کے لئے شیعہ خود محاسبہ کریں گے تو بہت اچھا! سب سے پہلے تو موجودہ امام خمینی کا محاسبہ کریں، کیونکہ اس کی کتابیں مثلا کشف الاسرار اور المحكومة الاسلاميه ان خرافات سے بھری پڑی ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو محاسبہ کیسا ہو گا؟

باقی یہ کہنا کہ سنی پُرامن عزّاداری کو یقینی بنائیں گے۔ عزّاداری پُر امن ہی کہاں ہوتی ہے؟ کیونکہ عزّا داری کا ڈھونگ پہلے دن ہی سے اہلِ سنت کے خلاف خونی ڈرامہ کھیلنے کے لئے رچایا گیا ہے۔ چنانچہ یہ جلوس ہمیشہ چھریوں اور خنجروں سے لیس قاتلوں پر مشتمل ہوتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ کئی سال کے واقعات گواہ ہیں، اور اگر بالفرض والمحال یہ جلوس پُرامن ہوں بھی تو ان کا جواز شرعی کہاں سے ثابت ہے؟ خود شیعہ کی کتابوں میں اس کو ناجائز لکھا ہے مثلاً ملا باقر مجلسی اپنی کتاب جلاء العیون کے صفحہ 123 پر لکھتا ہے کہ ماتم کی ابتداء قاتلانِ سیدنا حسینؓ نے کی، تا کہ اپنے جرم پر پردہ ڈال سکیں۔

اس کے علاؤہ جو فیصلے اور تجاویز ہیں وہ خود فریبیوں کے سوا کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔

اب بدیہی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان فرقوں کے عقائد واقعتاً ایسے ہی ہیں تو پھر ان پر حکومت گرفت کیوں نہیں کرتی؟ اور ان کو کافر کیوں قرار نہیں دیتی جبکہ یہ ایک اسلامی مملکت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے ملکی قانون میں اسلام اور اس کے بنائے ہوئے طریقوں سے انحراف قابلِ مواخذہ نہیں ہے۔ یہ بات اثر حسین ایڈووکیٹ نے سندھ ہائی کورٹ میں دورانِ بحث کہی تو عدالت نے اس پر سکوت اختیار کیا۔

آخر میں ہم تیسرے امر کا تذکرہ کرتے ہیں۔ کیونکہ ہر تھوڑی سی دینی سوچ و فکر رکھنے والا دنیا دار اتحاد بین المسلمین کے لئے اپنے آپ کو بے چین ظاہر کرتا ہے اور انتشار و اختلاف کو علماء کے سر ڈالتا ہے۔ 

اتحاد کی شرط:

شیعہ آغا خانی اور اہلِ سنت کے اتحاد کی دعوت جو اس پمفلٹ میں دی گئی ہے غلط اور بے ہودہ ہے۔ اتحاد کی شرط، بشرطیکہ دوسرے فرقے بھی راضی ہوں اور مخلص ہوں تو فقط ایک ہی ہے اور اس شرط پر عمل کئے اور اس صورت کو اپنائے بغیر اہلِ حق کا ان لوگوں سے اتحاد نا ممکن ہے۔

اور وہ شرط یہ ہے کہ شیعہ اور آغا خانی اپنے تمام عقائد باطلہ سے برأت کا اظہار کریں اور ہر اُس شخص کو جو ان عقائد کا حامل ہو، کافر قرار دے دیں، چاہے وہ شخص ان کا امام ہی کیوں نہ ہو۔ اگر اتحاد کی یہ شرط نہ پائی جائے تو یہ کفر و اسلام کا اتحاد ہو گا، جو نہ صرف نا ممکن، بلکہ محال ہے اور اس کی دعوت کفر کو برداشت کرنے کی دعوت کے مترادف ہو گی۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ اس شرط پر عمل کر کے حقیقتاً تو وہ شیعہ اوراسماعیلی نہیں رہیں گے، بلکہ اہلِ سنت میں داخل ہو جائیں گے، لیکن اس کے سوا اتحاد کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، کیونکہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اتحاد بین المسلمین نہیں، بلکہ اتحاد بین المنافقین ہو گا ۔ 

اب آخر میں ہم سائل کے سوالات کے جواب کی طرف آتے ہیں:

(1) مذکورہ بالا تفصیل کو دیکھنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہ پمفلٹ اور تحریک و عمل کسی چالاک اور منافق شیعہ ذہن کی پیداوار ہے، جس کا مقصد اہلِ سنت کو بے غیرت بنانا اور ان کو ایک سازش کے تحت گمراہ کرنا ہے۔ 

لہٰذا یہ تحریک و عمل قطعاً ناجائز و حرام ہے، کوئی عقلِ سلیم رکھنے والا اس کو صیح نہیں کہے گا، چہ جائیکہ علماء کرام۔ اور یہ تحریک و عمل اُس انسان کو جو اس پر عمل پیرا ہو کم از کم اہلِ سنت سے ضرور خارج کر دے گا، لہٰذا اس پمفلٹ کا مضمون بلا مبالغہ زندقہ اور عیاری پر مبنی ہے۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ ایک شخص سنی بھی ہو اور شیعہ بھی ہو وغیرہ پھر وہ دوسرے کے عقائد کو جانتے ہوئے اس کے ساتھ اتحاد کر لے۔ یہ پمفلٹ سراسر گمراہی ہے عوام کو اس سے و متنبہ کیا جائے ۔ 

(2) اس تحریک کو لے کر چلنے والا اگر اسلام اور عقیدۀ اہلِ سنت کا مدعی ہے تو اس پر لازم ہے کہ فوراً توبہ کر لے اور اپنے ایمان کو بچانے کی سعی کرے، ورنہ اس تحریک کے سبب سے وہ اہلِ سنت سے خارج ہو جائے گا۔ رہا یہ کہ وہ پھر کسی زمرہ میں شمار ہو گا؟ مذکورہ بالا تقریر کی روشنی میں ادنیٰ فہم رکھنے والا شخص بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔ کیونکہ اہلِ سنت کے نزدیک کفر و اسلام کے درمیان ایسی کوئی گھاٹی نہیں، جس سے آدمی اہلِ سنت کے زمرے سے نکل کر بھی خالص مسلمان رہ جائے۔ 

اور اگر وہ شخص منع کرنے کے باوجود اور شیعہ و آغا خانیوں کے عقائد سے مطلع ہونے کے باوجود اپنی اس تحریک پر جما رہے اور اصرار کرتا رہے تو یہ شخص دینِ اسلام اور مسلمانوں کا غدار شمار ہو گا۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اس سے قطع تعلق کر لیں، کیونکہ ایسے شخص سے تعلق آدمی کے ایمان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور حضوراکرمﷺ اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ناراضگی کا سبب تو ہے ہی۔ 

(فتاوىٰ بينات: جلد، 1 صفحہ، 185/195)