Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ


صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں باغی، طاغی، مجرم، حکومت کا حریص اور ظالم جیسے الفاظ استعمال کرنے والے شخص کے انتظام و انصرام میں چلنے والے مدرسہ میں بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم کے لئے بھیجنے، ایسے شخص کو مقتدا ماننے، اس کی تقریر سننے تحریر پڑھنے اور اس کے دُروس میں شریک ہونے اور ایسے شخص کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا حکم:

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین درج ذیل امر کے بارے میں کہ لکھنؤ میں ایک مشہور عالم ہیں، جو پہلے ایک اہم ادارہ سے منسلک تھے، انہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس و محترم جماعت کو ایک عرصہ سے تنقیص کا نشانہ بنا رکھا ہے، ایک سال قبل جب ان کی تقریریں اور تحریریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں تو اہلِ حق علماء کی طرف سے ان کی تلبیسات و تدلیسات کے مدلل جوابات دے دیئے گئے تھے، جس سے الحمدللہ عوام کی بے چینی و بے قراری ایک حد تک دور ہو گئی تھی اور شبہات کا ازالہ ہو گیا تھا، پھر انہوں نے خود بھی بحث بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا، حالانکہ مشاجرات جیسے نازک موضوع کو موصوف ہی نے چھیڑا تھا اور حدود سے تجاوز کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت و تقدس کو سخت ٹھیس پہنچائی تھی اور نازیبا کلمات استعمال کرتے ہوئے بےجا جرح و تنقید کی تھی، اس اعلان کے بعد بھی وقتاً فوقتاً صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تنقیص پر مشتمل تقریریں کرتے رہے اور بعض کتابیں بھی شائع کیں۔ ادھر ایک ماہ قبل انہوں نے پھر مشاجرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو شدت سے اپنی تقریروں کا موضوع بنایا اور اس بار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس و مبارک گروہ کو پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ نشانہ بنایا اور بعض جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں برملا رکیک اور جارحانہ تبصرے کئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو عاصی، باغی، طاغی، مجرم، حکومت کا حریص اور ظالم تک کہہ دیا۔ (معاذ الله)

سیدناابوہریرہؓ جیسے جلیل القدر صحابی رسول کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے الزام لگایا کہ انہوں نے (نعوذ بالله) حدیثوں کا ایک ذخیرہ گول کر دیا تھا اور اس پر نہایت سخت لہجہ میں تبصرہ کیا کہ کسی کو حضور اکرمﷺ کی حدیثیں چھپانے کا حق نہیں ہے۔ اور سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی خلافت پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کئے اور صحابی کی تعریف و مصادق میں جمہور کی رائے چھوڑ کر ایک الگ راہ اختیار کر لی، اور صحابی کی معروف تعریف کو اہلِ سنت کا غلو اور دین میں تحریف قرار دیا۔ 

نیز یہ عالمِ اُمت کے اجماعی موقف الصحابة كلهم عدول سے شدید اختلاف کرتے ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جرح و تعدیل سے ماوراء قرار دیتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ منافق بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہر قسم کے اچھے اور برے لوگ تھے (معاذ اللہ) اہلِ سنت و الجماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت پر جن آیات و حدیث سے استدلال کرتے ہیں ان کو وہ غلط معانی پہنا کر عدالت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نظریہ کو بالکل غلط اور بے دلیل قرار دیتے ہیں۔

نیز مذکورہ بالا عالم نے ترتیب نزولی پر قرآن کو مرتب کرکے اپنے ترجمہ کے ساتھ شائع کیا اور اسے عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے کہ ماضی میں بعض مستشرقین اور عنایت اللّٰہ مشرقی نے بھی ایسی کوششیں کی تھی۔ پہلے کی طرح اس بار بھی موصوف نے ساری بے راہ روی کی باتیں کرنے کے بعد اچانک بحث کو بند کرنے کا اعلان اس طور پر کیا کہ اب حق واضح ہو چکا ہے اور حجت تمام ہو چکی ہے اس لئے میں امت میں اتحاد قائم کرنے کے لئے اس بحث کو بند کرتا ہوں لیکن اپنی تقریروں سے نہ رجوع کا اعلان کیا اور نہ ہی اپنی مطبوعہ تحریروں کے بارے میں کوئی وضاحت جاری کی، اور نہ ہی اپنے آفیشیل اکاؤنٹ سے ان تقریروں کو ڈلیٹ کیا۔ سنجیدہ طبقہ کو اس بات سے سخت تشویش ہے کہ ان کی تقریریں اور تحریر میں عوام میں پھیل چکی ہیں اور سوشل میڈیا پر مسلسل وائرل ہو رہی ہیں جس سے واقعہ یہ ہے کی حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سلسلے میں لوگ نا دانستہ طور پر بدگمانیوں کا شکار ہو رہے ہیں اور اس پاکیزہ جماعت کے بارے میں اب تک امت مسلمہ میں جو عظمت و تقدس اور ان کی عدالت و ثقاہت کی فضا بنی ہوئی ہے، اس پر زَد پڑ رہی ہے، نوجوان طبقہ کا ذہن و دماغ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ ان کے محبین اور متعلقین کی ایک جماعت بھی تیار ہو گئی ہے جو مسلسل سبِ وشتم صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں مصروف ہے، اور موصوف اپنے افکار کے نہ صرف پُر زور داعی ہیں بلکہ اپنی تقریروں میں علماء کو کھلم کھلا چیلنج بھی کرتے ہیں اور اپنے محبین کے حلقے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے نظریات قرآن وحدیث کے عین مطابق ہیں، جو لوگ اس کو تسلیم نہیں کرتے وہ منکرِ حدیث ہیں اور عند اللہ ماخوذ ہوں گے اور روز قیامت شفاعت سے محروم رہیں گے۔

اس لئے ہمیں ناگزیر محسوس ہوا کہ محض اُمت مسلمہ کی خیر خواہی کے پیش نظر آپ حضرات کی خدمت میں ان مطبوعہ تحریروں کے منتخب اقتباسات مکمل سیاق و سباق کے ساتھ ارسال کرکے واضح حکم شرعی دریافت کریں۔ ہمیں امید ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقام و مرتبہ اور مشاجرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے نازک موضوع کے سلسلے میں امتِ مسلمہ کی صحیح رہنمائی کرتے ہوئے دلائل شرعیہ کی روشنی میں منسلکہ نظریات کا جو بھی شرعی حکم ہو بلاخوف لومة لائم واضح کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ موصوف کے افکار و نظریات کے مفصل رد کی حاجت نہیں ہے، اہلِ علم اس سے واقف ہیں قدیم و جدید کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے، ہمیں امید ہے کہ مذکورہ بالا عالم کے بارے میں آپ درج ذیل سوالات کے جوابات تحریر فرما کر امت مسلمہ کی بر وقت رہنمائی فرمائیں گے۔ 

(الف) اس عالم کے مذکورہ عقائد و افکار گمراہی شمار ہوں گی یا نہیں؟ اگر وہ عالم گمراہ ہے تو اس کی گمراہی کس نوعیت کی ہے؟ 

(ب)جو مدرسہ اس عالم کے انتظام و انصرام میں چلتا ہو اس میں اپنے بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم کیلئے بھیجنا درست ہے یا نہیں؟ خصوصاً اُس وقت جبکہ اُس مدرسہ میں پڑھانے والے اساتذہ اس عالم کے نظریہ سے بڑی حد تک واقف ہوں۔

(ج) ایسے عالم کے ساتھ مسلمانوں کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے؟ اس کی تقریروں مجلسوں اور دروس میں شرکت جائز ہے یا نہیں؟

(د) ایسے افکار کے حامل شخص اور ان کے مؤیدین کی اقتداء میں نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں؟

نوٹ: عالم موصوف کی مطبوعہ کتابوں، مثلاً علمائے اہلِ سنت سے چند سوالات لفظ صحابہ کے بارے میں غلط و فہمیاں اللہ تعالیٰ کے بے لاگ قوانین اور فیصلے، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب اور تهذيب علوم الحدیث کے بعض ضروری صفحات اور تقریروں کے منتخب اقتباسات منسلک ہیں۔ 

المستفتی عرفان نصر فاروقی ندوی لکهنؤ (یوپی) ( 20:9:2020) 

جواب: اس سلسلے میں پہلے چند بنیادی اور اصولی باتیں سمجھنا ضروری ہے۔ 

(1) محدثین کے نزدیک صحابی کی صیح و مقبول اور معتمد تعریف یہ ہے من لقى النبيﷺ‎ مؤمنا ومات علی الاسلام یعنی جس نے حضور اکرمﷺ‎ سے ایمان کی حالت میں ملاقات کی ہو اور اسلام کی حالت میں اس کا انتقال ہوا ہو۔

محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمٰن اعظمیؒ لکھتے ہیں کہ حافظ ابن حجرؒ نے الاصابہ فی تمیز الصحابہ میں اس تعریف کے بارے میں لکھا ہے اصبح مما وقفت علیه بی تیح ترین تعریف ہے۔ اور فتح الباری میں اس کو جمہور محدثینؒ کا قول قرار دیا ہے۔ صاحب مواهب لدنیہ اور اس کے شارح علامہ ورزقانیؒ نے بھی اس تعریف کو راجح اور جمہور محدثینؒ اور اصولیین کا مذہب بتایا ہے۔ شیخ عوامہ نے تدریب الراوی کے حاشیہ میں علامہ عراقی کی شرح الافیہ کے حوالہ سے اس تعریف کو راجح قرار دیا ہے۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے بھی هداية الشیعہ میں صحابی کی یہی تعریف بیان کی ہے۔ 

اس تعریف کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صحابی ہونے کے لئے صحبت کی کوئی مدت معین نہیں ہے، جس نے بحالت اسلام و ایک نظر بھی حضور اکرمﷺ کو دیکھ لیا اور ایمان کی حالت ہی میں اس کا انتقال ہوا اس کو صحابی کہا جائے گا۔ حافظ ابو القاسم ہبۃ اللہ طبریؒ نے شرح اصول اعتقاد اهلِ سنت والجماعة میں حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا واضح قول ذکر کیا ہے کہ صحبت کے لئے کوئی مدت متعین نہیں ہے، جس نے بھی حضور اکرمﷺ کی صحبت اختیار کی ہو خواہ ایک سال یا ایک ماہ یا ایک دن یا ایک ساعت یا آپﷺ کو ایک نظر دیکھ لیا ہو تو اس کو صحابی کہا جائے گا۔ مذکوره تعریف کے علاؤہ صحابی کی دوسری تعریفات محدثین کے نزدیک مرجوع ہیں۔ 

(2) اگرچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان باہم درجات فضائل میں بہت کچھ تفاوت ہے لیکن اہلِ سنت و الجماعت کے نزدیک ایک عقیدہ سب کے بارے میں بِلا استثناء اور بلا اختلاف اجتماعی ہے، وہ یہ ہے کہ الصحابة كلهم عدول یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب کے سب عادل وثقہ ہیں، اس سے جس کسی نے بھی اختلاف کیا ہے، وہ ہمیشہ سے مسترد ہوا ہے۔ صدیوں سے یہ عقیدہ بالتواتر مسلّم ہے اور جزءِ ایمان ہے، جس کے بارے میں از سر نو تحقیق کی نہ ضرورت ہے، نہ گنجائش ہے۔ 

امام خطیب بغدادیؒ نے المكفاية في علم الروايه میں مستقل باب قائم کیا ہے باب ماجاء فی تعديل الله ورسوله للصحابة وانه لا يحتاج للسؤال عنه اس کے تحت کئی قرآنی آیات اور احادیث و رسولﷺ سے عدالت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ثابت کیا ہے۔ حافظ ابنِ حجرؒ نے الاصابة في تميز الصحابة میں خطیب بغدادیؒ کی مذکورہ بحث ذکر کی ہے صحیح ابنِ حبان میں بھی عدالت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مستقل عنوان ہے ذكر الخبر الدال على ان اصحاب رسول الله كلهم ثقات عدول مقدمه صحيح ابن حبان میں مشہور حديث ألا ليبلغ الشاهد منكم الغائب سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت کو ثابت کیا ہے، اور شیخ عوامہ نے خطوات منهجية في اثبات عدالة الصحابة کے صفحہ نمبر 41 میں حدیث کے مذکورہ جملہ کو متواتر ثابت کیا ہے۔ علامہ شاطبیؒ نے بھی الموافقات میں آیت قرآنی وكذلك جعلناكم امة وسطاء کے تحت عدالت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تفصیل سے ثابت کیا ہے محد ثین اور فقہاء کی عبارات اس سلسلے میں صریح اور قاطع ہیں۔ الفقہ الاکبر میں حضرت امام اعظم امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ ہم ہر صحابی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تذکرہ خیر ہی کے ساتھ کرتے ہیں۔

امام طحاویؒ نے المعقيدة الطحاویہ میں جو اصول دین کی مستند کتاب ہے، اہلِ سنت والجماعت کے عقیدے کی تفصیل ذکر کی ہے، فرماتے ہیں کہ ہم تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کرتے ہیں کسی کی محبت میں کمی نہیں کرتے ہیں، نہ کسی سے اظہار براءت کرتے ہیں، ہاں جو ان سے بعض رکھتا ہے یا خیر کے علاؤہ کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر کرتا ہے، تو ہم اس سے بغض رکھتے ہیں، ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تذکرہ خیر ہی کے ساتھ کرتے ہیں، ان کی محبت دین و ایمان اور احسان کی علامت ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض رکھنا کفر، نفاق اور سرکشی کی علامت ہے۔ 

علامہ ابنِ الہمامؒ نے مسایرہ میں لکھا ہے کہ اہلِ سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تزکیہ یعنی گناہوں سے پاکی بیان کی جائے اس طرح کہ اُن سب کو عادل مانا جائے اور ان پر کسی قسم کا طعن کرنے سے پرہیز کیا جائے اور ان کی مدح و ثنا کی جائے۔ علامہ محب اللّٰہ نے مسلم الثبوت میں عدالت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اہلِ سنت کا مسلک قرار دیا ہے۔ 

ابنِ امیر حاج نے التقرير والتحبير میں علامہ تاج الدین سبکیؒ کے حوالے سے اس سلسلے میں نہایت نفیس بحث ذکر کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں قول فیصل یہ ہے کہ ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت کا بلاتردّد یقین کرتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللّہ علیہم اجمعین پر طعن و تشنیع کرنے والا شخص گمراہی اور کھلے خسارے میں ہے۔ آل تیمیہ کی المسودہ فی اصول الفقه میں ہے کہ اسلاف امت اور جمہورِ خلف کا اس پر اتفاق ہے؟ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے ان کی تعدیل فرمائی ہے۔ 

حافظ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ اہلِ سنت کے اصول عقائد میں یہ بات بھی داخل ہے کہ وہ اپنے دلوں اور زبانوں کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معاملے میں صاف رکھتے ہیں۔ 

حافظ ابنِ الصلاحؒ نے مقدمے میں اور قاضی ابو الولید باجی نے احکام الفصول : میں لکھا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین میں سے کسی کی عدالت کے بارے میں سوال بھی نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ یہ ایک طے شدہ مسئلہ ہے، قرآن و سنت کی نصوصِ قطعیہ اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ 

حافظ ابن حجرؒ نے الاصابہ میں ایک خاص فصل اسی مقصد کے لئے قائم کی ہے اور اس کے تحت لکھا ہے کہ تمام اہلِ سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل ہیں، اس عقیدے کی مخالفت سوائے چند مبتدعین کے کوئی دوسرا نہیں کرتا۔ مزید لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعظیم اگرچہ ان کی ملاقات حضور اکرمﷺ سے تھوڑی دیر ہی رہی ہو خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک ایک مقرر اور مانی ہوئی بات تھی ۔

امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب کے سب عادل ہیں، جو اختلافات کے فتنے میں مبتلا ہوئے وہ بھی اور دوسرے بھی ۔ امام سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ عدالت کا تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں عام ہونا ہی جمہور کا قول ہے اور یہی معتبر ہے۔

علامہ عراقیؒ نے شرح الفیہ میں اس کو ترجیح دی ہے کہ بلا استثنا تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عادل ہونا ہی جمہور اہلِ سنت والجماعت کا مسلک ہے۔

امام غزالیؒ نے المستصفی میں اور امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں جمہورِ اہلِ حق امت کا اس پر اجماع نقل کیا ہے۔

ملا علی قاریؒ نے شرح فقہ اکبر میں لکھا ہے کہ جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب کے سب عادل ہیں، سیدنا عثمان غنیؓ اور سیدنا علیؓ کے دور میں پیش آنے والے اختلافات سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ۔

(3) سیدنا علیؓ سے قِتال کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو (نعوذ بالله) فاسق قرار دینا معتزلہ کی رائے ہے۔ علامہ ابنِ کثیرؒ نے الباعث الحیثیت میں اور علامہ ابن الاثیر جزریؒ نے جامع الاصول میں معتزلہ کے قول کو دلائل کے ساتھ باطل اور مردود قرار دیا ہے۔ 

(4) تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت رکھنا، ان کا ادب و احترام کرنا، ان کی تعظیم و تکریم اور ان کی اقتدا واجب و ضروری ہے، کسی بھی صحابیؓ کو برا کہنا اور ان پر طعن و تشنیع کرنا قطعا جائز نہیں ہے۔ 

امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کہنا حرام ہے، یہ سخت ترین محرمات میں سے ہے، خواہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی فتنے کی حالت سے دو چار ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ، سب کا حکم ایک ہی ہے، اس لئے کہ ان اختلافات میں سب کا مبنی اجتہاد اور تاویل تھا۔ 

قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں کہ کسی بھی صحابیؓ کو بُرا کہنا گناہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ ہمارا اور جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ایسے شخص کی تعزیر کی جائے گی۔

 حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا صرف ذکر خیر ہی کریں گے، وہ ہمارے دینی امام اور مقتدا ہیں، ان کو بُرا کہنا حرام ہے اور ان کی تعظیم ہم پر واجب ہے۔

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ یقیناً صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت بھی انبیاء کرام علیہم السلام کے حکم میں ہو گی، پس جس طرح کسی نبی پر تنقید نہیں کی جا سکتی اور ان کی بات واجب التسلیم ہوتی ہے، بوجہ دلائل قطعیہ یقینیہ کے، اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر بھی تنقید کرنے کی نیت تک کرنا بد دینی اور کھلی ہوئی گمراہی ہے۔ 

خطیب بغدادیؒ نے الکفایة میں سند نقل کیا ہے کہ امام ابو زرعہؒ نے فرمایا کہ جب تم کسی کو دیکھو کہ کسی صحابیؓ کی تنقید کرتا ہے تو جان لو کہ وہ بددین ہے۔ 

ابنِ عساکرؒ نے حضرت امام احمدؒ سے بسند نقل کیا ہے، جس کو علامہ ابنِ تیمیہؒ نے بھی اپنے رسالہ حکم سبِّ الصحابة میں ذکر کیا ہے کہ جب کسی کو دیکھو کہ کسی صحابیؓ پر تنقید کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ اس کا دین مشکوک ہے۔

حضرت امام احمدؒ سے دریافت کیا گیا کہ کوئی شخص سیدنا امیر معاویہؓ یا سیدنا عمرو بن العاصؓ کی تنقیص کرتا ہے، کیا اس کو رافضی کہا جائے گا؟ فرمایا ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تنقیص کی جراءت وہی کر سکتا ہے جو بد باطن ہو، کوئی بھی شخص کسی بھی صحابی رسول سے اگر بُغض رکھتا ہے تو یہ اس کے بد باطن ہونے کی علامت ہے۔ 

ابنِ عساکرؒ نے بسند نقل کیا ہے اور حافظ مزیؒ نے بھی تهذیب الکمال میں حضرت امام نسائیؒ کے ترجمے کے تحت لکھا ہے کہ حضرت امام نسائیؒ سے سیدنا امیر معاویہؓ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اسلام کی مثال اُس گھر کی سی ہے جس کا ایک درواز ہو، پس اسلام کا دروازہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں، جو شخص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تکلیف پہنچائے ، گویا وہ اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے، جیسے کوئی شخص دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے تو گویا وہ گھر کے اندر داخل ہونا چاہتا ہے۔ لہٰذا جو شخص سیدنا امیر معاویہؓ کو تنقید کانشانہ بنا رہا ہے تو اس کا اصل نشانہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی ہیں۔ 

حضرت امام وکیعؒ سے منقول ہے کہ جس طرح دروازے کا کنڈا ہلانے سے پورے دروازے میں حرکت ہوتی ہے، اسی طرح سیدنا امیر معاویہؓ کی مثال ہے، جو ان کو نشانہ بنائے گا، ہم ان کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں بھی اس کو متہم سمجھیں گے۔ 

علامه مرتضی زبیدیؒ شرح احیاء میں لکھتے ہیں کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عدالت کے ذریعہ تزکیہ کرنا اور ان پر کسی طرح کا بھی طعن کرنے سے بچنا واجب ہے اور دیندار کے لئے زیبا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جس حال میں عہد نبوی ﷺ میں تھے، اسی حال پر آخر تک ان کو باقی رکھنے والا اعتقاد کرے، پس اگر کوئی لغزش نقل کی جائے تو عاقل کو چاہئے کہ اس نقل پر غور کرے، اگر وہ کمزور ہو تو اس کو رد کر دے اور اگر ایسا نہ ہو اور روایت آحاد میں سے ہو تو بھی امرِ متواتر میں اور جس چیز کی شاہد نصوص ہوں وہ نقل کوئی قدح پیدا نہیں کر سکتی۔

حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن دیوبندیؒ ایک سوال کہ ایک شخص سیدنا امیر معاویہؓ کی شان میں الفاظ دغاباز خائن، جھوٹا، خاطی، آلِ رسولؐ کا دشمن کہتا ہے، ایسے شخص کے لئے کیا حکم ہے؟ کے جواب میں لکھتے ہیں کہ ایسا شخص گنہگار اور فاسق ہے، اس کو فوراً توبہ کرنی چاہئے، کسی صحابیؓ کی شان میں ایسی گستاخی کرنا کسی مسلمان کا کام نہیں، بہت سے بہت یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ سے اجتہادی غلطی ہوئی ، جس سے ان کی شان صحابیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

نیز ایک دوسرے سوال کہ جس کتاب میں سیدنا امیر معاویہؓ کی عظمت و عزت کا لحاظ نہ کیا گیا ہو، بلکہ ایک قسم کی توہین ٹپکتی ہو اس کتاب کا پڑھنا اور جس کا عقیدہ اُس کے موافق ہو اس کا امام بنانا کیسا ہے؟ کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ سیدنا امیر معاویہؓ جو کہ صحابی کا تب وحی تھے اور حضور اکرمﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی جیسا کہ کتب احادیث سے ظاہر ہے، ان کی شان میں ایسے الفاظ لکھنا نہایت سوءِ ادبی اور لکھنے والے کے فساد عقیدہ کی دلیل ہے۔ پس ایسی کتاب کا دیکھنا اور اس پر عقیدہ رکھنا درست نہیں اور جس کا عقیدہ ایسا ہو وہ لائق امام بنانے کے نہیں ہے، اور اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں اور اس کو معزول کر دیں۔

فقیه الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ لکھتے ہیں کہ جن مقدس ہستیوں کو رسول اکرمﷺ نے امین قرار دیا، آج ان کے متعلق یہ بحث کرنا کہ ان سے گناہ صادر ہوئے تھے اور انہوں نے فلاں فلاں گناہ کئے ہیں، در حقیقت ان کی امانت و ذمہ داری کو مجروح کر کے ان سے بے اعتمادی پیدا کرنا ہے جس کی زد حضور ا کرمﷺ پر جا کر پڑتی ہے کہ (معاذ اللہ) آپﷺ نے نا اہلوں پر اعتماد فرمایا اور اتنی بڑی امانت کی ذمہ داری ان کے سر ڈالی جس کے وہ اہل نہیں تھے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سارا دین مخدوش و ناقابل اعتماد ہو جائے گا۔ نیز فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں بے ادبی اور گستاخی نہ کی جائے کہ ایمان کے لئے خطرہ ہے۔ 

(5) مشاجرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اہلِ سنت کا مذہب یہ ہے کہ ان کے درمیان جو کچھ واقعات پیش آئے ، وہ اجتہاد پر مبنی تھے، اس کی بنیاد پر کسی کی تفسیق و تنقیص کرنا قطعاً جائز نہیں ہے، ان کے بارے میں سکوت اختیار کرنا چاہئے اور ان کی شان میں کوئی ایسی بات ہرگز نہیں کہنی چاہئے جس سے ان کی تنقیص ہوتی ہو ۔ 

حافظ ابنِ حجرؒ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ اہلِ سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو مشاجرات ہوئے، ان کی وجہ سے کسی پر طعن کرنا ممنوع ہے اگرچہ یہ جان لیا جائے کہ ان میں سے حق پر کون تھا۔ اس لئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے وہ جنگیں اجتہاد کی بنیاد پر کیں اور اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اس شخص کو معاف کیا ہے جس سے اجتہاد میں خطا ہو جائے ، بلکہ یہ ثابت ہے کہ اس کو ایک اجر ملے گا اور درست اجتہاد کرنے والا دوہرے اجر کا مستحق ہو گا۔ اسی طرح کی بات علامہ عینیؒ نے بھی لکھی ہے۔ 

علامہ ابن الہمامؒ لکھتے ہیں کہ سیدنا علیؓ سیدنا امیر معاویہؓ کے درمیان جو جنگیں ہوئیں وہ اجتہاد پر مبنی تھیں۔ امام غزالیؒ نے بھی احیاء علوم الدین میں اسی طرح کی بات لکھی ہے۔ 

علامہ ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو اختلافات ہوئے ان کے بارے میں اہلِ سنت سکوت اختیار کرتے ہیں۔

امام قرطبیؒ نے اس سلسلے میں اہلِ سنت کے مسلک کی بہترین رہنمائی کی ہے، لکھتے ہیں کہ یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابیؓ کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے، اس لئے کہ ان سب حضرات نے اپنے طرزِ عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اور سب کا مقصد اللہ تعالیٰ جل شانہ کی خوشنودی تھی، یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے باہمی اختلافات سے کف لسان کریں اور ہمیشہ ان کا ذکر بہترین طریقے سے کریں، کیونکہ صحابیت بڑی حرمت عظمت کی چیز ہے اور نبی کریمﷺ نے ان کو بُرا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے انہیں معاف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے۔

ملا علی قاریؒ نے شرح فقہ اکبر میں لکھا ہے کہ مشاجرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں جو باتیں باطل اور جھوٹی ہیں ان کی طرف کوئی التفات نہیں کیا جائے گا اور جو باتیں صحیح و ثابت ہیں ان کے بارے میں اچھی تاویل کی جائے گی۔ (6) پوری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی معرفت ان کے درجات اور ان میں پیش آنے والے باہمی اختلافات کا فیصلہ کوئی عام تاریخی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ معرفت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین تو علم حدیث کا ایک اہم جزء ہے جیسا کہ مقدمه اصابہ میں حافظ ابنِ حجرؒ نے اور مقدمه استیعاب میں حافظ ابن عبدالبرؒ نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی تفاضل و درجات اور ان کے درمیان پیش آنے والے اختلافات کے فیصلہ کو علمائے امت نے عقیدہ کا مسئلہ قرار دیا ہے اور تمام کتب عقائد اسلامیہ میں اس کو ایک مستقل باب کی حیثیت سے لکھا ہے، ایسا مسئلہ جو عقائد اسلامیہ سے متعلق ہو اور اسی مسئلہ کی بنیاد پر بہت سے اسلامی فرقوں کی تقسیم ہوئی ہو، اس کے فیصلے کےلئے بھی ظاہر ہے کہ قرآن وسنت کی نصوص اور اجماعِ امت جیسے شرعی حجت درکار ہیں، اس کے متعلق اگر کسی روایت سے استدلال کرنا ہے تو اس کو محدثانہ اصول تنقید پر رکھنا واجب ہے، اس کو تاریخی روایتوں میں ڈھونڈنا اور ان پر اعتماد کرنا اصولی اور بنیادی غلطی ہے، وہ تاریخیں کتنے ہی بڑے ثقہ اور معتمد علمائے حدیث ہی کی لکھی ہوئی کیوں نہ ہوں، اس کی فنی حیثیت ہی تاریخی ہے جس میں صحیح و سقیم روایات جمع کر دینے کا عام دستور ہے۔ 

سلف و خلف اور متقدمین و متاخرین اصولیین، فقہاء اور اکابر کی مذکورہ واضح تصریحات سے معلوم ہوا کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت و ثقاہت اور ان کا جرح و تنقید سے بالاتر ہونا قرآنی آیات اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے اور یہ نصوص اپنی دلالت میں صریح و محکم ہیں، یہ اہلِ سنت والجماعت کا ایک مسلّمہ عقیدہ ہے، جس پر جمہور امت کا اجماع ہے؟ اوران کے درمیان جو اختلافات رونما ہوئے، ان کو اجتہادی قرار دیتے ہوئے سکوت اختیار کرنا اور کسی بھی صحابیؓ کی شان میں منفی تبصرہ کرنے سے احتراز کرنا بھی اہلِ سنت کا مذ ہب ہے۔ 

مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

(الف) سوال نامے کے ساتھ تحریر و تقریر کے جو اقتباسات منسلک کئے گئے ہیں، ان کو پڑھنے سے واضح ہے کہ مذکورہ شخص کے عقائد و نظریات جمہور اہلِ سنت والجماعت کے قطعاً خلاف ہیں اور موجب فسق ہیں اور منسلکہ صفحات میں جن نصوص سے استدلال کیا گیا ہے، وہ قطعاً درست نہیں ہے، یہ محض کم علمی اور کج فہمی سے عبارت ہے۔ 

بر ملا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں باغی، طاغی، مجرم، حکومت کا حریص اور ظالم جیسے الفاظ استعمال کرنا اور ان کی تنقیص تفسیق براهِ راست ایمان کے لئے نہایت خطرناک ہے، ایسے نظریات کا حامل شخص کوئی بھی ہو بلاشبہ خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کی بھی ضلالت کا سبب ہے، نفوس سلیمہ ایسی باتوں کو کبھی قبول نہیں کر سکتے، اگر کسی کو ایسی باتیں بھلی معلوم ہوتی ہیں تو خود اس کے اندر زیغ ہے۔

(ب) ایسے شخص کے انتظام و انصرام میں چلنے والے مدرسہ میں بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم کے لئے بھیجنا فسادِ عقیدہ کے اندیشہ کی وجہ سے قطعاً جائز نہیں ہے۔ 

(ج) مسلمانوں کے لئے ایسے شخص کو مقتدا ماننا، اس کی تقریر سننا تحریر پڑھنا اور اس کے دُروس میں شریک ہونا نہ صرف یہ کہ ناجائز ہے بلکہ ایمان کے لئے سخت خطر ناک اور نقصان دہ ہے۔ 

(د) ایسے شخص کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔

(12:2:1442 ھجری بمطابق 2020:9:30عیسوی)