Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اگر تمام لوگ محبت علی رضی اللہ عنہ پر جمع ہو جاتے تو اللہﷻ جہنم کی تخلیق ہی نہ کرتا۔ (تحقیق)

  خادم الحدیث سید محمد عاقب حسین

یہ روایت اکثر روافض کی طرف سے پیش کی جاتی ہے اور بعض اہلِ سنت کے لبادے میں چھپے ہوئے نیم رافضی بھی بیان کرتے ہیں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں جو غُلُو پر مبنی ہے آج ہم اس روایت کی اپنی تحریر میں تحقیق پیش کریں گے۔
امام ابو شجاع دیلمی (م 509ھ) رحمۃ اللہ نے فرمایا:
عن ابْن عَبَّاس لَو اجْتمع النَّاس على حب علیؓ بن أبی طَالب لما خلق الله تَعَالىٰ النَّار۔
(الفردوس بمأثور الخطاب: جلد، 3 صفحہ، 373)
الفردوس بمأثور الخطاب کے نسخہ میں اسناد حذف ہیں اس کو امام ابو منصور دیلمی (م 558ھ) سے باسند امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا:
الديلمی أخبرنا أبی أخبرنا أبو طالب الحسينی حدثنا أحمد بن محمد بن عمر الفقيه الطبرج حدثنا أبو المفضل محمد بن عبد الله الشيبانی حدثنا ناصر بن الحسن بن علی حدثنا محمد بن منصور عن عيسىٰ بن طاهر اليربوعی حدثنا أبو معاوية عن ليث عن طاوس عن ابن عباس قال قال رسول اللهﷺ لو اجتمع الناس على حب علیؓ بن أبی طالب لما خلق الله النار۔
ترجمہ: حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر لوگ علیؓ بن ابی طالب کی محبت پر جمع ہو جاتے تو اللہ تعالیٰ جہنم کو پیدا نہ کرتا۔
(الزيادات على الموضوعات: جلد، 1 صفحہ، 260)
اس طرح علامہ الموفق بن أحمد الخوارزمی (م 584ھ) نے بھی اپنی کتاب میں اس کو باسند نقل کیا:
وأخبرنی شهردار هذا اجازة أخبرنا أبی حدثنا أبو طالب الحسينی حدثنا أحمد بن محمد بن عمر الفقيه الطبری حدثنی أبو الفضل محمد بن عبد الله الشيبانی حدثنا ناصر بن الحسين بن علی حدثنا محمد بن منصور عن يحيىٰ بن طاهر اليربوعی حدثنا أبو معاوية عن ليث بن أبی سليم عن طاوس عن ابن عباسؓ قال قال رسول اللهﷺ لو اجتمع الناس على حب علیؓ بن أبی طالب لما خلق الله النار۔
(مناقب أمير المؤمنين علیؓ بن أبی طالب: جلد، 1 صفحہ، 68 رقم، 39 )
یہ روایت عندالتحقیق مَن گھڑت ہے دونوں اسناد میں علت ایک ہی ہے اور امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ کے نزدیک بھی یہ روایت مَن گھڑت ہے کیونکہ آپ نے اس کو "زیادات علی الموضوعات" میں نقل کیا ہے جو کہ موضوع احادیث پر مشتمل کتاب ہے جیسا کہ خود امام سیوطی رحمۃ اللہ نے مقدمے میں فرمایا: (جلد، 1 صفحہ،31)
امام شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہ نے اس روایت کو موضوع قرار دیا حضرت مولائے کائنات اور اہلبیتِ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فضیلت میں گھڑی گئی موضوع روایات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہی :
وكذلك قوله لو اجتمع الناس على حب علیؓ لم تخلق النار۔
ترجمہ: اور اسی طرح یہ روایت بھی موضوع کہ اگر لوگ حبِ علی رضی اللہ عنہ پر جمع ہو جاتے تو جہنم کی تخلیق نہ ہوتی۔
(كتاب المنتقى من منهاج الاعتدال: صفحہ، 318)
اس حدیث کی سند میں درج ذیل علتیں ہیں:
1: أبو طالب الحسينی المحسن بن الحسين بن أبی عبد الله محمد المعروف بابن النصيبی یہ مجہول الحال ہے
2: أبو المفضل محمد بن عبد الله الشيبانی یہ احادیث گھڑنے والا راوی ہے اور اس سند میں آفت یہی راوی ہے۔
اس راوی کے حوالے سے ائمہ کا کلام:
1: امام جرح و تعدیل حافظ شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہ امام خطیب بغدادی رحمۃ اللہ کا کلام اس کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:
قال الخطيب كتبوا عنه بانتخاب الدارقطنی ثم بأن كذبه فمزقوا حديثه وكان يعد يضع الأحاديث للرافضة۔
ترجمہ: محدثین نے امام الدارقطنی رحمۃ اللہ کو منتخب کر کے اس کی روایات کو لکھا پھر جب اس کا جھوٹا ہونا واضح ہوگیا تو انہوں نے اس کی روایات کو پھاڑ دیا اور ان کو باطل کرار دیا اور کہا کہ یہ روافض کے لیے احادیث گھڑتا ہے۔ 
(ميزان الاعتدال: رقم، 7802)
2: شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ نے عبيد الله بن أحمد الأزهری کا قول اس کے حوالے سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا یہ دجال اور کذاب راوی ہے۔
اور حمزة بن محمد بن طاہر کا قول نقل کیا کہ انہوں نے کہا یہ احادیث گھڑنے والا ہے۔
(لسان الميزان: جلد، 5 صفحہ،231)
3: امام ابنِ عراق رحمۃ اللہ اس کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ یہ احادیث گھڑنے والا دجال ہے:
محمد بن عبد الله بن المطلب أبو الفضل الشيبانی الكوفی عن البغوی وابن جرير دجال يضع الحديث۔
(تنزيه الشريعة المرفوعة: رقم، 166)
کیونکہ یہ واضح ہو گیا کہ اس راوی نے اس روایت کو گھڑا ہے لہٰذا اور علتیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ورنہ اور علتیں بھی ہیں سند میں باقی شیعہ حضرات کی کتب میں یہ روایت کثرت سے موجود ہے ہم نے ثابت کیا کہ یہ روایت اہلِ سنت کے نزدیک مَن گھڑت ہے سیدنا علی المرتضیٰؓ کے فضائل میں احادیث متواترہ وارد ہوئی ہیں اور کثرت سے احادیثِ صحیحہ آپ کے فضائل میں ہیں لہٰذا مَن گھڑت روایات بیان کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جتنے فضائل کسی صحابی کے احادیث میں وارد نہیں ہوئے:
امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری م405ھ رحمۃ اللہ اپنی سند صحیح کے ساتھ روایت کرتے ہیں:
سَمِعْتُ الْقَاضِی أَبَا الْحَسَنِ عَلِی بْنَ الْحَسَنِ الْجَرَّاحِی وَأَبَا الْحُسَيْنِ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُظَفَّرِ الْحَافِظِ، يَقُولَانِ سَمِعْنَا أَبَا حَامِدٍ مُحَمَّدَ بْنَ هَارُونَ الْحَضْرَمِی يَقُولُ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ مَنْصُورٍ الطُّوسِی يَقُولُ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ مَا جَاءَ لِأَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِﷺ مِنَ الْفَضَائِلِ مَا جَاءَ لِعَلِیؓ بْنِ أَبِی طَالِبٍ۔
إمام الدنيا ثقة ثبت فی الحديث احمد بن حنبل رحمۃ اللہ نے فرمایا کہ نبیﷺ کے کسی صحابی کے احادیث میں اتنے فضائل وارد نہیں ہوئے جتنے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہوئے ہیں۔
(كتاب المستدرك على الصحيحين للحاكم: ط العلمية: 4572 وسندہ صحیح)
حسن صحیح اسانید کے ساتھ جتنے فضائل حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مروی ہیں اور کسی صحابی کے مروی نہیں۔
خاتم الحفاظ امام الفقہاء والمحدثین حافظ جلال الدین سیوطی (م911ھ) رحمۃ اللہ نقل کرتے ہیں:
قال أحمد والنسائی وغيرهما لم يرد فی حق أحد من الصحابة بالأسانيد الجياد أكثر مما جاء فی على وكـأن السبب فی ذلك أنه تأخر ووقع الاختلاف فی زمانه، وكـثر محاربوه و الخارجون عليه فكان ذلك سببًا لانتشار مناقبه لكثرة من كان يرويها من الصحابة ردا على من خـالفـه وإلا فالثلاثة قبله لهم من المناقب ما يوازيه ويزيد عليه۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ اور امام احمد بن شعیب النسائی رحمۃ اللہ اور دیگر ائمہ نے فرمایا کسی بھی صحابی کے جید اسانید کے ساتھ اتنے فضائل مذکور نہیں جتنے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ہیں گویا اس کا سبب یہ ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد تک حیات رہے آپ کا زمانہ متاخر تھا اور اس زمانہ میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف واقع ہوا اور آپ کے خلاف بغاوت کرنے والے اور جنگ کرنے والوں کی کثرت ہو گئی تھی آپ کے مناقب کے پھیلنے کا یہی سبب تھا کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کثرت سے آپ کی مخالفت کرنے والوں کے جواب میں آپ کے مناقب روایت کیا کرتے تھے ورنہ جہاں تک خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب کا تعلق ہے تو وہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مناقب کے موازی بلکہ ان سے بھی زیادہ ہیں۔
(التوشيح على الجامع الصحيح: جلد، 3 صفحہ، 435)
حجۃ اللہ فی الارضین شیخ الاسلام والمسلمین امیر المؤمنین فی الحدیث حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
وكان سبب ذلك بغض بنی أمية له فكان كل من كان عنده علم من شئی من مناقبه من الصحابة يثبته۔
ترجمہ: سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مناقب کا کثرت سے مروی ہونے کا سبب بنو امیہ کا آپ سے بغض رکھنا ہے تو جس بھی صحابی کو حضرت علیالمرتضیٰؓ کے مناقب میں سے جو معلوم ہوتا وہ اس کو ظاہر کرتے تاکہ لوگ بغض چھوڑدیں۔
(كتاب الإصابة فی تمييز الصحابة: جلد، 4 صفحہ، 465)
جس نے حضرت علیؓ سے محبت کی اس نے رسول اللہﷺ سے محبت کی جس نے سیدنا علیؓ سے بغض رکھا اس نے رسول اللہﷺ سے بغض رکھا۔
عن أمِّ سلمةَؓ قالتْ: أَشهدُ أنِّی سمعتُ رسولَ اللهِﷺ يقولُ من أحبَّ علياؓ فقد أحبَّنی ومَن أحبَّنی فقد أحبَّ اللهَ عزَّوجلَّ ومَن أَبغضَ علياؓ فقد أَبغَضَنی ومن أَبغَضَنی فقد أَبغضَ الله۔
ترجمہ: ام المؤمنین حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں گواہی دیتی ہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا جس نے علیؓ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے علیؓ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔
(كتاب المعجم الكبير للطبرانی: جلد، 23 صفحہ، 380 وسندہ حسن )
(كتاب المخلصيات: جلد، 3 صفحہ، 150)
(كتاب مسند البزار، البحر الزخار، جلد، 9 صفحہ، 323)
(حکم الحدیث، حسن صحیح)
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے محبت مؤمن کرے گا اور بغض منافق رکھے گا:
قَالَ علیؓ: وَالَّذِی فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِی الأُمِّیﷺ إِلَی أَنْ لَا يُحِبَّنِی إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِق۔
ترجمہ: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم ہے اس کی جس نے دانہ چیرا پھر اس نے گھاس اگائی اور جان بنائی رسول اللہﷺ نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ نہیں محبت رکھے گا مجھ سے مگر مؤمن اور نہیں بغض رکھے گا مجھ سے مگر منافق۔
(صحیح مسلم: رقم الحدیث، 240)
(كتاب المصنف ابنِ أبی شيبة، ت الحوت: رقم الحدیث، 32064)
(كتاب السنن الكبرىٰ النسائی، ط الرسالة: رقم الحدیث: 8431)
(حکم الحدیث: صحیح)
خلاصہ کلام: پوری تحقیق کا حاصل کلام یہ ہوا کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بے شمار صحیح اور حسن احادیث موجود ہیں لہٰذا آپ کے فضائل میں اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل میں صحیح اور حسن احادیث بیان کی جائیں تاکہ رافضیوں اور ناصبیوں کو ان عظیم ہستیوں کی ذاتِ بابرکات پر طعن و تبراء کرنے کا موقع نہ ملے۔
فقط واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
خادم الحدیث النبویﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
(مؤرخہ 16 ربیع الثانی 1442ھ)