مدفن سر حسین رضی اللہ عنہ کی بابت اختلاف کا سبب
حامد محمد خلیفہ عمانسر حسین رضی اللہ عنہ کی جائے، تدفین میں پیدا ہونے والے اختلاف کا سبب ان مشاہد و مزارات کی کثرت ہے، جنہیں مسلمانوں کے بلاد و امصار میں جا بجا قائم کر دیا گیا ہے۔ افسوس کہ یہ جملہ مشاہد ان ادوار میں قائم کیے گئے، جب اہل سنت نبویہ کمزور ہو چکے تھے اور ان میں صحیح عقیدہ کا اہتمام اور عقائد کے دشمنوں سے برسر پیکار ہونے کا جذبہ و ولولہ کمزور ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہونے کو تھا۔ سر حسین رضی اللہ عنہ کے مدفن کی بابت چند روایات کو ذیل میں اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے:
ایک روایت یہ ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک کربلا میں دفن ہے۔ (مواقف المعارضۃ للشیبانی: صفحہ 306) جبکہ ایک ثابت روایت میں مذکور ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے بعد، اہل کوفہ جناب حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو اپنے امیر ابن مرجانہ فارسیہ کے پاس لے گئے تھے۔ ابن مرجانہ سر مبارک کو ایک طشت میں رکھا اور ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو اس کے منہ پر مارنے لگا، یہ بد تہذیبی دیکھ کر سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ رہ نہ سکے اور فرمانے لگے: ’’یہ نبی کریمﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔‘‘ (صحیح البخاری: 3538)
ابن زیاد کے بعد سر مبارک کہاں لے جایا گیا؟ اس میں زبردست اختلاف ہے۔ چنانچہ جن روایات میں یہ مذکور ہے کہ ابن زیاد نے سر مبارک یزید کے پاس شام بھیج دیا تھا اور یزید ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو سر مبارک پر مارنے لگا، جس پر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے اٹھ کر یزید کے اس فعل پر نکیر کی، تو یہ جملہ روایات درجہ صحت کو نہیں پہنچتیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ نے ان روایات کے ضعیف ہونے پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم اس الم ناک واقعہ کے وقت موجود تھے، وہ تو سرے سے شام میں تھے ہی نہیں، وہ تو کوفہ میں تھے۔ (منہاج السنۃ: جلد، 4 صفحہ 557)
پھر اس روایت کے متن کے فاسد ہونے پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اس روایت کا متن روایات صحیحہ کے متن کے خلاف ہے، جو اس بات کو بالا تاکید ثابت کرتی ہیں کہ یزید نے آل حسین کے ساتھ ازحد حسن سلوک کیا تھا اور وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی آل کے قتل پر بے حد افسردہ اور غم زدہ ہو گیا تھا۔ (مواقف المعارضۃ فی خلافۃ یزید للشیبانی: صفحہ 308) جبکہ صحیح روایت میں صرف اس قدر ثابت ہے کہ سر مبارک کو ابن مرجانہ فارسیہ کے پاس لے جایا گیا، یہ ابن مرجانہ تھا، جس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے چہرۂ مبارک پر کمال سنگ دلی کا مظاہر کرتے ہوئے ہاتھ میں پکڑی چھڑی ماری تھی، جس پر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے برملا نکیر کی تھی (صحیح البخاری: 3537 منہاج السنۃ: جلد، 4 صفحہ 141) اور یزید کی طرف سر مبارک کے لے جائے جانے کی روایت باطل ہے، اس کی اسناد منقطع ہے (منہاج السنۃ: جلد، 8 صفحہ 142) اور یہ صحیح روایت کے مخالف بھی ہے۔
جن روایات میں سرمبارک کے شام لے جائے جانے کا ذکر ہے، ان میں سے کوئی روایت بھی البدایہ و النہایہ میں مذکور ہونے کے باوجود درجہ صحت کو نہیں پہنچتی، (البدایۃ و النہایۃ: جلد، 11 صفحہ 570) جیسا کہ امام ذہبیؒ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (تاریخ الاسلام: صفحہ 106)
اب ذیل میں کسی قدر اختصار کے ساتھ ان شہروں کا ذکر کیا جاتا ہے جن میں سر حسین رضی اللہ عنہ کے دفن ہونے کی بابت روایات منقول ہیں:
کربلا
اگرچہ اس بارے میں ایک بھی معتبر روایت نہیں ملتی، جس میں اس بات کا ذکر ہو کہ سر حسین رضی اللہ عنہ کربلا میں دفن ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایسی روایات کی کثرت ہے اور لطف یہ ہے کہ یہ جملہ روایات انہی شیعوں سے مروی ہیں۔ کچھ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چالیس دن بعد ان کے سر مبارک کو دوبارہ کربلا لایا گیا اور اسے جسد حسین رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔ (مواقف المعارضۃ للشیبانی: صفحہ 213)
اس روایت کے اختراع کا مقصد صرف یہی تھا کہ ایک مشہد قائم کر کے اسے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بغض و نفرت کے اظہار کا مرکز بنا لیا جائے۔
اس روایت کے باطل ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ اس روایت کو بیان کرنے والے اس روایت میں متفرد اور یہ روایت دلیل سے تہی دست و دامن ہے اور اس کے راوی حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے غداری کرنے والے ہیں۔ جبکہ صحیح روایت تاکید کے ساتھ یہ بیان کرتی ہیں کہ جسد حسین رضی اللہ عنہ کا مدفن غیر معروف ہے اور جو لوگ اس کی معرفت کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت پر افترا پردازی کرتے ہیں۔ (تاریخ بغداد: جلد، 1 صفحہ 143-144 ترجمۃ حسین، رقم الترجمۃ: 276)
ابن جریر وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ کے آثار مٹ چکے ہیں، حتیٰ کہ اب کوئی اس جگہ کی تعیین سے آگاہ نہیں رہ گیا۔ (البدایۃ و النہایۃ: جلد، 11 صفحہ 570)
بے پناہ قیل و قال کے باوجود حقیقت یہی ہے، جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنی شہادت کے بعد ایک مجسم قبر کا نام اور مقام نہیں، بلکہ وہ تو ایک روحانی قدر اور معنوی پیغام ہیں، جو اپنے مدعیان محبت کو اس بات کا درس دے رہے ہیں کہ اصل عزت و شرافت کتاب و سنت سے تمسک میں ہے اور مومن وہ ہے، جو کتاب و سنت کے دشمنوں سے ہوشیار اور خبردار رہے۔
دمشق
اسے بیہقی نے ایک بلا اسناد روایت میں ذکر کیا ہے کہ سر حسین رضی اللہ عنہ دمشق میں دفن ہے، بے شک یہ ایک سرگشتہ قول ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں۔ (المحاسن و المساوی للبیہقی: صفحہ 84 لیکن یہ روایت بلا اسناد ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں۔ دیکھیں: مواقف المعارضۃ للشیبانی: صفحہ 313)
ایک روایت اس بارے میں ابن عساکر نے بھی نقل کی ہے، لیکن وہ روایت مجہول ہے۔ (دیکھیں: مواقف المعارضۃ: صفحہ 313 علمی دنیا میں مجہول روایت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی) لہٰذا یہ روایت ساقط الاعتبار ہو گی، جو کسی بھی حال میں معتمد و معتبر نہ ہو گی۔ (مواقف المعارضۃ: صفحہ 313)
ذہبیؒ نے بھی ایک روایت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سر حسین رضی اللہ عنہ دمشق میں دفن ہے لیکن یہ روایت بے حد ضعیف ہے (سیر اعلام النبلاء: جلد، 3 صفحہ 314 سمط النجوم العوالی: جلد، 3 صفحہ 82) جس کا سیاق صحت و مصلحت دونوں کے منافی ہے۔
رقہ
(سوریہ عربیہ کے مشرق میں فرات کے کنارے آباد ایک شہر۔ ہارون الشرید گاہے گاہے یہاں صرف آرام کرنے کے لیے آیا کرتا تھا)
دور حاضر میں روافض اس بات پر بے پناہ پیسہ اور قوت خرچ کر رہے ہیں کہ عامۃ الناس کا رخ کسی نہکسی طرح اس شہر کی طرف موڑ دیا جائے۔ اس روایت میں سبط ابن جوزی منفرد ہیں، جن پر رافضی ہونے کی تہمت ہے۔ سبطِ ابن جوزی نے یہ روایت کسی سند و حجت کے بغیر ذکر کی ہے، جو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ سر حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر بنایا جانے والا یہ مقبرہ جعلی ہے، جس کا مقصد امت مسلمہ کے ساتھ عداوت کا اظہار، اسے عداوت صحابہ کی دلدل میں دھکیلنا اور کینہ و فتنہ کی تہذیب کی ترویج کے ذریعے سے اس پر کتاب و سنت کو ملتبس کرنا ہے۔ (مواقف المعارضۃ للشیبانی: صفحہ 314 شخصیات اسلامیۃ للعقاد: جلد، 3 صفحہ 298) ان روافض کا وتیرہ خلاف واقعہ روایات و اخبار کی ترویج ہے۔ (مواف المعارضۃ: صفحہ 314) اسی لیے یہ سبط ابن جوزی جیسے حضرات کے گرویدہ اور اس کی روایات پر فریفتہ ہیں۔ چنانچہ ذہبی سبط ابن جوزی کے بارے میں کہتے ہیں: ’’میں نے اس کی ایک کتاب دیکھی ہے جو اس کے رافضی ہونے پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد، 23 صفحہ 264)
عسقلان
ان روایاتِ مکذوبہ میں ایک نام عسقلان کا بھی ملتا ہے، محققین کی ایک جماعت نے اس خبر کا انکار کیاہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک فلسطین کے شہر عسقلان میں دفن ہے۔ ان محقق علماء میں ایک نام علامہ قرطبی کا بھی ہے، جنہوں نے سر حسین رضی اللہ عنہ کی بابت جملہ افسانوں کا قرار واقعی تعاقب کر کے ان کی جعل سازی کی قلعی کھولی ہے۔ علامہ قرطبی کہتے ہیں:
’’سر حسین رضی اللہ عنہ کے عسقلان میں مدفون ہونے کی بابت منقول روایت سراسر باطل ہے۔‘‘ (التذکرۃ للقرطبی: جلد، 2 صفحہ 295)
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ نے بھی اس روایت پر انکار کیا ہے۔ (تفسیر سورۃ الاخلاص لابن تیمیۃ: صفحہ 264)
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ نے بھی شیخ الاسلام رحمۃ اللہ کی متابعت میں ’’البدایۃ و النہایۃ‘‘ میں سر حسین رضی اللہ عنہ کے عسقلان میں مدفون ہونے کی روایت کو رد کر دیا ہے۔ (البدایۃ و النہایۃ: جلد، 11 صفحہ 582)
قاہرہ
حاقدین اسلام نے اس بات کو بھی خوب تشہیر دی ہے کہ قاہرہ سر حسین رضی اللہ عنہ کا مدفن ہے۔ چنانچہ عبیدیوں نے مصر پر اپنے ایام حکومت کے دوران میں لوگوں کی عقلوں سے خوب کھلواڑ کیا اور کسی شعبدہ باز اور مداری کی طرح لوگوں کو بے وقوف بنایا اور انہیں یہ باور کروایا کہ سر حسین رضی اللہ عنہ قاہرہ میں مدفون ہے۔ اس سے ان کی ایک غرض تو خود حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی حرمت کو پامال کرنا تھا، دوسرے صلیبیوں کے ساتھ اپنے خفیہ مراسم کی پردہ پوشی کرنا بھی مقصود تھا تاکہ کسی کا اس طرف خیال بھی نہ جائے کہ بالآخر ان عبیدیوں نے صلیبیوں کے سامنے انتہائی قابل مذمت پسپائی کیوں اختیار کی۔
چنانچہ جب 549 ہجری میں صلیبیوں نے عسقلان پر قبضہ کر لیا، تو عبیدی وہاں سے ایک موہوم سر لے کر آئے اور اسے خلیفہ اور ارکان دولت کی موجودگی میں مشہد حسین کے قریب خان خلیل میں ایک معروف قبر میں بڑی دھوم دھام سے دفن کیا گیا (مواقف المعارضۃ: صفحہ 316) اور عوام کو یہ باور کروایا کہ وہ اس سر کو عسقلان جا کر اپنے صلیبی بھائیوں سے فدیہ کی بھاری رقم دے کر چھڑا کر لائے ہیں۔ (ایضاً)
اس سراسر خود تراشیدہ افسانے کی اصل غرض و غایت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے بناوٹی محبت کے اظہار کی آڑ میں، ان سے غداری کرنے والے اصل مجرموں کی پردہ پوشی اور امت مسلمہ پر ازحد تنگی کرنا تھی، جو جناب حسین رضی اللہ عنہ اور آل بیت رسول سے سچی محبت کرنے والے ہیں۔
کتاب و سنت سے عداوت اور فتنوں کی نشر و اشاعت سے والہانہ محبت رکھنے والے متاخرین میں سے ایک صاحب قلم و قرطاس اور محقق فاضل جناب حسین محمد یوسف بھی ہے، جس نے اس بات کے اثبات میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے کہ سر حسین واقعی مشہد حسینی میں مدفون ہے، یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے نہ کہ وہم اور باطل خیال۔ اپنے اس مبنی بر جزم دعویٰ کی دلیل میں موصوف لوگوں کے بیان کردہ چند منامات اور رؤیا (خوابوں )کو پیش کرتے ہیں۔ (مواقف المعارضۃ: صفحہ 217 الحسین سید شباب اہل الجنۃ لحسین محمد یوسف: صفحہ 149)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جن روایات کی بنیاد پر عسقلان میں سر حسین کا جو عظیم الشان مقبرہ بنایا گیا ہے، وہ روایات موضوع اور جھوٹے اور وہمی خوابوں پر مبنی ہیں۔ جن کو حاکم مصر مستنصر باللہ عبیدی اور وزیر مملکت بدر الجمالی کے دورِ حکومت میں گھڑا گیا تھا۔ چنانچہ بدر الجمالی نے چند خوابوں کو سن کر ان کی بنیاد پر عسقلان میں ایک عظیم الشان مشہد تعمیر کروا دیا۔ (مواقف المعارضۃ: صفحہ 316 نور البصائر: صفحہ 121 الشبلنجی) بدر الجمالی کے بعد افضل عبیدی نے اس جگہ سے وہ سر نکلوا کر عسقلان ہی میں ایک اور جگہ دفن کروا دیا اور اس پر پہلے سے بھی بڑا مشہد تعمیر کروایا۔ (المقریزی اِتّعَاظ الحنفاء: جلد، 3 صفحہ 22)
عبیدیوں کی یہ حرکات اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ انہیں اپنے اس جرم کا پورا پورا شعور و ادراک تھا کہ وہ اپنے آپ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کر کے امت مسلمہ کے ساتھ خیانت اور مکر و فریب کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ وگرنہ دراصل یہ تنکے کی آڑ لے کر خود کو چھپانے کی ایک نامعقول اور نالائق کوشش تھی۔ ان حرکات سے عبیدیوں کا پہلا بنیادی مقصد اپنے نسب، اپنے عقائد کے مآخذ اور فلسطین پر صلیبیوں کے قبضہ کی بابت ان کے ساتھ اپنے خفیہ تعلقات سے لوگوں کی توجہ ہٹانا تھا۔ جبکہ دوسرا بنیادی مقصد کتاب و سنت پر قائم بلاد شام کی سکونتی ترکیب میں زبردست تغیر پیدا کر کے وہاں کتاب و سنت سے انحراف و اعراض اور بدعات میں اشتغال کی فضا کو پیدا کرنا تھا۔
ان باطل و فاسد اغراض کے لیے ان عبیدیوں نے پرلے درجے کے بے ضمیر، ایمان فروش اور بے اوقات لوگ منہ مانگے داموں خریدے، جنہوں نے اعدائے صحابہ کو لبھا لبھا کر ان علاقوں میں لا بسایا، شبانہ روز کاوشوں سے لوگوں کی زبردست ذہن سازی کر کے، ان جعلی مشاہد کی بابت عبیدیوں پر سے افترا کے شبہات کو مٹایا اور عامۃ الناس کے سامنے ان جعلی مشاہد کو خوب مزین و آراستہ کر کے پیش کیا۔
آج بھی ان مذموم مقاصد کے حصول کے لیے بے پناہ دولت خرچ کی جا رہی ہے، تاکہ لوگوں کو کتاب وسنت کے منہج سے ہٹایا جا سکے۔ (مواقف المعارضۃ: صفحہ 319 النجوم الزاہرۃ للاتابکی: جلد، 5 صفحہ 57)
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ نے لکھا ہے کہ
’’یہ مزعومہ سر جو عسقلان میں مدفون ہے اور اسے سر حسین رضی اللہ عنہ باور کیا جاتا ہے، یہ تو ایک عیسائی راہب کا سر ہے۔‘‘ (مواقف المعارضۃ: صفحہ 320 رأس الحسین لابن تیمیۃ: صفحہ 187)
امت مسلمہ کے سربرآوردہ علماء نے مصر میں سر حسین کے دفن ہونے کی روایت کا انکار کیا ہے۔ (مواقف المعارضۃ: صفحہ 320 رأس الحسین لابن تیمیۃ: صفحہ 186)
باوجود اس کے کہ قاتلان حسین کا دامن اس کھلی بدنامی کے داغ سے آلودہ ہے، لیکن پھر بھی اپنے اسی جرم کو ہتھیار بنا کر امت مسلمہ کے سامنے حقائق کو مسخ کرنے کی ان کی خو آج تک قائم ہے۔ چنانچہ امام ابن کثیر رحمۃ اللہ لکھتے ہیں:
’’ایک جماعت جو خود کو فاطمی (عبیدی) کہلواتی ہے، جس کی 400 ہجری سے قبل سے لے کر 560 ہجری تک مصر پر حکومت رہی، اس بات کی مدعی ہے کہ سر حسین دیار مصر میں پہنچا تھا، جس کو انہوں نے دفن کر کے اس پر ایک عظیم مشہد تعمیر کیا یہ لوگ مصر کے اس مشہور مشہد کو ’’تاج الحسین‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ مشہد 500 ہجری کے بعد تعمیر کیا گیا تھا۔ متعدد اہل علم اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ یہ بالکل بے اصل بات ہے۔ ان لوگوں نے یہ بات صرف اس باطل دعویٰ کو عام کرنے کے لیے پھیلائی ہے کہ یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد ہیں۔ بلاشبہ اپنے اس دعوی میں یہ عبیدی دروغ گو اور خائن ہیں۔ قاضی باقلانی اور دیار مصر کے دوسرے متعدد علماء نے صراحۃً بیان کیا ہے کہ عبیدیوں کا ’’فاطمی‘‘ ہونے کا دعویٰ باطل ہے۔ میں کہتا ہوں کہ خود عوام نے بھی اس باطل دعویٰ کو عام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ چنانچہ یہ لوگ ایک فرضی سر لے کر آئے اور اسے اس مذکورہ مسجد میں دفن کر کے مشہور کر دیا کہ یہاں سر حسین دفن ہے اور آج یہ بات زبانِ زد خلائق اور ان کے اعتقاد کا جزو لا ینفک بن چکی ہے۔ (البدایۃ و النہایۃ: جلد، 11 صفحہ 582) اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ پر غیرت کھانے والے لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔ چنانچہ ان لوگوں نے اکثر دیار و امصار میں آل بیت رسولﷺ کے ساتھ کیے جانے والے اس سانحہ پر کسی ولولہ و انگیخت کا مظاہرہ نہ کیا اور روافض کو دن رات کے اس تماشے سے روکنے کے لیے تنکا بھی نہ توڑا۔‘‘
جبکہ دوسری طرف روافض نے ان مشاہد کی آڑ میں حرمت حسین رضی اللہ عنہ کو پامال کرنے کے ساتھ ساتھ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بے دریغ سب و شتم کی راہ بھی ہموار کی۔ افسوس کہ امت مسلمہ کے عوام و خواص اب تک غفلت کی نیند سوئے ہیں اور استراحت کی اس چادر کو اپنے پر سے نہ جانے کب اتاریں گے؟!!
مدینہ منورہ
مذکورہ بالا تفصیل سے عیاں ہے کہ سر حسین رضی اللہ عنہ کی جائے تدفین کی تعیین کی بابت کوئی صحیح اور ثابت روایت نہیں ملتی اور جو روایات ملتی ہیں، ان کی حیثیت اوہام، خیالات، اندازوں اور تخمینوں سے زیادہ کی نہیں، جو دراصل حضرات کی ان جھوٹی تمناؤ ں کی غماز ہیں، جن کی بنا پر ان خدا ناترسوں نے کتاب و سنت کے صحیح عقیدہ کے خلاف صدیوں سے جنگ برپا کر رکھی ہے۔
ابن سعد نے ذکر کیا ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک قبرستان بقیع (مدینہ منورہ) میں سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک کے پاس دفن ہے۔ (طبقات ابن سعد: جلد، 5 صفحہ 238 تاریخ الاسلام، حوادث سنہ (60-81ھ))
یہی قول امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کا بھی ہے۔ (راس الحسین لابن تیمیۃ: 183) حافظ ابو یعلی ہمدانی کہتے ہیں کہ اس باب میں اصح ترین قول یہی ہے کہ سر مبارک قبرستان بقیع میں سیّدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک کے پاس مدفون ہے۔ (التذکرۃ للقرطبی: جلد، 2 صفحہ 295) زبیر بن بکار اور محمد بن حسن مخزومی کا بھی یہی قول ہے۔ (التذکرۃ للقرطبی: جلد، 2 صفحہ 295)
ابن ابو المعالی اسعد بن عمار نے اپنی کتاب ’’الفاصل بین الصدق و المین فی مقر رأس الحسین‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ علماء کی ایک جماعت نے، جن میں ابن ابی الدنیا، ابو الموید الخوارزمی اور ابوالفرج بن الجوزی جیسے بڑے بڑے علماء کے نام آتے ہیں، اس بات کو تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک قبرستان بقیع میں مدفون ہے۔ (مواقف المعارضۃ: صفحہ 323) اسی قول کو علامہ قرطبی نے بھی لیا ہے۔ (التذکرۃ للقرطبی: جلد، 2 صفحہ 295)
زرقانی کہتے ہیں: ابن دحیہ کا قول ہے کہ اس قول کے سوا دوسرا کوئی قول صحیح نہیں۔ (مواقف المعارضۃ: صفحہ 324)
ان اقوال کی روشنی میں یہ بات مؤکد ہو جاتی ہے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا میں شہید کیا گیا اور بعد میں امت کو اعتقادی تشتت و انتشار کا شکار کرنے کے لیے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سر حسین رضی اللہ عنہ کے مدفن کے نام پر جا بجا مشاہد و مزارات تعمیر کر دیے گئے۔
بہرحال ان تفصیلات کی روشنی میں خلاصہ یہ سامنے آتا ہے کہ سر حسین رضی اللہ عنہ اور خود جسد حسین رضی اللہ عنہ کی تدفین کی بابت میسر اور منقول روایات کا زیادہ تر حصہ جعلی ہے اور ان روایات کے پیچھے لگنا سراب کے پیچھے دوڑنے کے مترادف ہے۔ ان روایات کو تراشنے کا مقصد جہاں امت مسلمہ میں فکری و اعتقادی فتنہ انگیزی پیدا کرنا ہے، وہیں آل بیت رسولﷺ سے جھوٹی محبت و عقیدت کے اظہار کی آڑ میں لوگوں کے احساسات و جذبات کو مہمیز کر کے دنیا بھر سے حرام کا مال بٹورنا اور حسین مظلوم رضی اللہ عنہ کی مدد کے نام پر امت مسلمہ کی آبرو سے کھیلنا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کا ذرا پاس و لحاظ نہیں کرتے، بالخصوص آل بیت رسولﷺ کی مقدس و مطہر خواتین کے بارے میں ایسی ایسی رسوائے زمانہ باتوں کی تشہیر کرتے ہیں، جن کو سن کر ایک غیرت مند مسلمان کا سر مارے شرم کے جھک جاتا ہے۔ یہ لوگ صرف عامۃ الناس کے جذبات کو ہوا دیتے ہیں، جن میں سرے سے کوئی فکری و عملی استعداد ہی نہیں ہوتی۔
ان لوگوں نے شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے الم ناک واقعہ کو اپنے مقاصد کے حصول کا قوی ذریعہ بنا رکھا ہے۔ چنانچہ لوگ ان کی زبانوں سے اس المیہ کی حزن و الم پر مبنی فرضی تفصیلات سن کر بے خود ہو جاتے ہیں اور نصرتِ حسین کے نام پر اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں جو صرف اور صرف جد حسین رضی اللہ عنہ حضرت رسالت مآبﷺ کی سنت پر لعنت کرنے اور اس سنت سے محبت رکھ کر اس پر سچائی کے ساتھ عمل کرنے والوں پر لعنت کرنے سے تعبیر ہے۔ ان کوفیوں نے میدانِ کربلا میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی لاش پر رقص کیا اور اسی نہج پر چلتے ہوئے ان کے جد اعلیٰ حضرت رسالت مآبﷺ کے دین کو بدلا اور یہی ان رافضیوں کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ امت کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر مال بٹورنے کے لیے یہ کسی شروع و اخلاق کی پابندی نہیں کرتے۔
غرض سر حسین رضی اللہ عنہ کی جائے تدفین کی تعیین کی بابت اقرب ترین روایت قبرستان بقیع کی ہے، اکثر ثقہ علماء نے اسی قول کو لیا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ روایت جزم و وثوق اور یقین و قطعیت کا فائدہ نہیں دیتی اور شاید اسی میں رب تعالیٰ کی حکمت اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی تکریم تھی کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ کی لاش اور سر مبارک کا مدفن غیر متعین، غیر قطعی اور مجہول ہی رہے تاکہ لوگ ان مقامات کو رب کے سوا عبادت کا مرکز نہ بنا لیں اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر تسویلات اور محرمات و اعراض کے ساتھ نہ جڑا رہے۔ چنانچہ کربلا کے میدان میں روافض کے مزعومہ مشاہد پر مردوں عورتوں کے بے محابا اختلاط، زینت کے اظہار اور تبرج کے ارتکاب کے جو مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ ان قبروں پر اباحیت، معاصی کے ارتکاب اور سنت کے اِمحاء کے پورے پورے اسباب و وسائل باضابطہ طور پر میسر کیے جاتے ہیں اور یہ سارا کھیل حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر کھیلا جاتا ہے اور یہ کہنا بالکل بے جا نہ ہو گا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر بنائے گئے مشاہد و مزارات پر جن گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے اس کی مثال کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔ کیا محبان حسین رضی اللہ عنہ کے یہی اخلاق ہوتے ہیں؟
ان مشاہد و مزارات کو جابجا بنانے والے جانتے ہیں کہ وہ صرف اٹکل کے تیر چلا رہے ہیں اور یہ ان کی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے شہادت پا جانے کے بعد ان پر اسی طرح جرأت و جسارت ہے، جس طرح انہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ان کے خون سے ہاتھ رنگ کر ان پر جرأت و جسارت کی تھی۔ اس سے زیادہ حیرت کی بات اور کیا ہو گی کہ انہوں نے ایسی ایسی جگہوں پر مشاہد و مزارات بنا ڈالے ہیں، جہاں جناب حسین رضی اللہ عنہ نے کبھی قدم بھی نہ رکھا تھا۔