Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

بیعت یزید، شوریٰ، عقیدۂ مظلومیت اور عاشوراء

  حامد محمد خلیفہ عمان

ذیل میں ان تمام نکات پر علی الترتیب روشنی ڈالی جاتی ہے:

 بیعتِ یزید اور شوریٰ

اس وقت کے حالات اکابر اہل اسلام کے اجتہاد کے مطابق یزید کی بیعت کے سوا کسی دوسرے صورت کی اجازت نہ دیتے تھے۔ اس لیے ان حضرات نے امیر المومنین سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی وفات کے بعد کسی فتنہ گر کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقعہ فراہم نہ کیا۔ جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو خلافت سونپنے کا اقدام صرف اور صرف امت کو اختلاف و افتراق سے بچانے کے لیے کیا تھا، تاکہ امت کی وحدت برقرار رہے، جس کا نفع اور مصلحت سب کو پہنچنی تھی۔ چنانچہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’اے اللہ! اگر تو میں نے یزید کو اس لیے ولی عہد بنایا ہے کہ میں نے اس میں اس امر کی اہلیت دیکھی ہے، تو اسے میری امید کے مطابق فضل و اہلیت کے اس مقام تک پہنچا دے اور اس بارے اس کی مدد فرما اور اگر میں نے ایسا صرف ایک باپ کی اولاد پر شفقت و محبت کے جذبہ سے مجبور ہو کر کیا ہے اور جو امر میں نے اسے سونپا ہے، یہ اس کا اہل نہیں تو اسے اس امر تک پہنچنے سے قبل ہی موت دے دینا۔‘‘ (تاریخ الاسلام للذہبی: جلد، 1 صفحہ 522، 621 تاریخ الخلفاء للسیوطی: جلد، 1 صفحہ 182 خطط الشام لمحمد کرد علی: جلد، 1 صفحہ 137)

اہل باطل کے شکوک و اوہام کے تار عنکبوت کو تار تار کرنے کے لیے اور سنت نبویہ پر پے درپے حملہ کرنے والوں کے حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہم نے اس نازک میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ اور اس کی جرأت کی ہے وگرنہ ان مصائب پر قلم اٹھانے سے رکنا کس قدر آسان ہے، جو گزر چکے اور وہ لوگ اپنے رب کے حضور پہنچ چکے، اور وہی ان باتوں کا فیصلہ کرنے والا حقیقی حاکم ہے، جو دلوں کے بھید اور آنکھوں کی خیانت تک جانتا ہے۔ شاید ہماری یہ چند توضیحات خوابِ غفلت میں پڑے مسلمانوں کو بیدار کر دیں اور وہ بچ سکیں۔ یاد رکھیے! کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو دو دفعہ قتل کیا گیا اور تم دونوں دفعہ سوتے ہی رہ گئے۔ ایک اس وقت جب کوفہ کی غدار تلواروں نے ان کے معصوم خون کو مباح جانا اور دوسرے اس وقت جب حسینی پرچم جس کو لے کر سنت نبویہ کے دفاع کے لیے نکلا کرتے تھے، ان رافضیوں کے ہاتھ میں آ گیا، جنہوں نے یہی پرچم لے کر خادمانِ ملت و دین اور حامیانِ کتاب و سنت کا بے محابا خون کرنا شروع کر دیا، ان کی حرمتوں کو پامال کیا، ان کے مسلمات کا انکار کیا اور ان کے عقیدہ و منہج میں زبردست تحریف و تبدیلی پیدا کر دی۔

امام ابن خلدون لکھتے ہیں: 

’’جس چیز نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ خلافت کے منصب پر اپنے بیٹے یزید کو متمکن کریں نہ کہ کسی اور کو، وہ امت مسلمہ کی وحدت کی مصلحت کی رعایت تھی تاکہ لوگ اہل حل و عقد کی رائے سے ایک بات پر مجتمع ہوں۔‘‘

آگے لکھتے ہیں:

’’اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی عدالت اور ان کا شرفِ صحابیت کسی دوسرے امر کے گمان سے مانع ہے۔ پھر اس موقع پر اکابر صحابہ کی موجودگی اور ان کا اس بارے میں سکوت اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات شک سے بالاتر ہے اور جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے، جو حق کے معاملہ میں کسی مداہنت یا سہل انگاری کا شکار تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی عدالت اس گمان کے قائم کرنے سے مانع ہے۔‘‘ (المقدمۃ للقاضی ابن خلدون: صفحہ 210)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

’’سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو اس خوف کی بنا پر خلافت کے لیے نام زد کیا تھا، تاکہ مسلمانوں میں افتراق و انتشار پیدا نہ ہو، کیونکہ آپ جانتے تھے کہ بنو امیہ کسی اور کے خلیفہ بنائے جانے پر راضی نہ ہوں گے، چنانچہ اگر خلافت کسی اور کے حوالے کی گئی، تو بنو امیہ اس سے ضرور اختلاف کریں گے، مزید یہ کہ بنو امیہ یزید کے بارے میں نیک گمان رکھتے تھے، کسی کو یزید کی صالحیت میں شک نہ تھا اور نہ ہم جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ گمان کر سکتے ہیں کہ انہوں نے ایک غیر صالح شخص کو امت مسلمہ کی امارت و خلافت جیسے اہم ترین منصب کے لیے نام زد کیا تھا۔‘‘ (المقدمۃ: صفحہ 206)

ابن خلدون لکھتے ہیں:

’’مامون ہی کو دیکھ لیجیے کہ جب اس نے علی بن موسیٰ بن جعفر الصادق کو ولی عہد بنایا اور ان کا نام الرضا رکھا، تو بنو عباس نے کیسے اس پر انکار کیا اور اس کی بیعت توڑ کر مامون کے چچا ابراہیم بن مہدی کی بیعت کر لی، جس کے نتیجہ میں قتل و غارت اور اختلاف ظاہر ہوا، راستے لوٹے جانے لگے اور باغیوں اور خارجیوں کی کثرت ہو گئی، بے پناہ بگڑتی صورتِ حال دیکھ کر مامون فوراً خراسان سے بغداد جا پہنچا اور اس بغاوت کا سر کچلا اور ان کے امر کو ان کے عہد کی طرف لوٹایا۔ ہمیں مامون کے عہد میں اس کا اعتبار کرنا ہو گا۔ بے شک زمانے، ان میں ظاہر والے امور و حوادث اور قبائل و عصبیات کے اختلاف سے مختلف ہیں اور مصالح کے اختلاف سے مختلف رہے ہیں اور ہر زمانہ کا اس کے خاص حالات کے اعتبار سے ایک خاص حکم رہا ہے اور یہ اللہ کا اپنے بندوں پر لطف و احسان ہے۔‘‘

 (العبر و دیوان المبتدأ و الخبر لابن خلدون: جلد، 1 صفحہ 211)

ایسے اقدامات کے ضمن میں امت مسلمہ کی وحدت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ان میں امت کے استقرار و استحکام کی حفاظت اور امارت و خلافت جیسے منصب کے بارے میں نزاعات و خصومات کی پیش بندی ہوتی ہے۔ (العواصم من القواصم: صفحہ 228)

یہ بات روافض کو گھبرا کر رکھ دیتی ہے، اور ان کے کلیجے امت مسلمہ کی امن و سلامتی اور وحدت و یگانگت کو دیکھ کر منہ کو آنے لگتے ہیں۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ انہیں امت مسلمہ کی وحدت ایک آنکھ نہ بھائی اور یزید کے بارے میں بے تحاشا افواہیں اور جھوٹی باتیں پھیلا دیں، حتیٰ کہ عالم اسلام کا چپہ چپہ ان کذب بیانیوں سے بھر گیا، تاکہ یزید اور اس کے والیوں کے خلاف شورش برپا ہو، فتنہ سر اٹھائے اور سنت نبویہ پر غیرت رکھنے والوں کے جذبات میں انگیخت پیدا ہو۔

ان کوفیوں نے ایسا ہی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی کیا کہ خطوط کا ایک طومار لکھ بھیجا، لیکن عین وقت پر باطل کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے۔ سنت نبویہ کے سچے پیروکار حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اس بات کی مطلق خبر نہ تھی کہ اس سازش کے سارے تانے بانے بننے والے یہی کوفی تھے۔ بلاشبہ ان اعدائے صحابہ کا مقصد جناب حسین رضی اللہ عنہ کو غدر کر کے شہید کرنا ہی تھا، تاکہ سنت نبویہ کا ایک مظہر، کتاب اللہ کا ایک سچا عامل و پیکر اور دین محمدی کی اشاعت و سربلندی کا ایک سچا محب روئے زمین پر باقی نہ رہے۔

کیا یہ بات کوئی عاقل تسلیم کر سکتا ہے کہ ان کوفیوں کو جناب حسین رضی اللہ عنہ کا یہ سراپا قبول تھا، جس کے انگ انگ میں زہد و عبادت، تقویٰ و طہارت، سنت کے ساتھ شدت تمسک، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی محبت و عقیدت رچی بسی تھی؟ ہرگز بھی نہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے، تو بے جا نہ ہو گا کہ ان لوگوں کو جس بنیادی سبب و باعث نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکر و فریب کرنے پر آمادہ کیا تھا، وہ تھا جناب حسین رضی اللہ عنہ کا امت مسلمہ کی نظروں میں عقیدت و احترام پر مبنی مقام و مرتبہ، جو کتاب و سنت کی سچی پیروی پر مبنی تھا۔ ان رافضیوں کو دراصل کھٹکا اسی بات کا تھا کہ اگر امر خلافت جناب حسین رضی اللہ عنہ کے دست حق پرست میں آ گیا، تو یقینا وہ حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے نہج پر ہی امر خلافت کو چلائیں گے، جس میں دور دور تک بھی ان کے وجودوں کے باقی رہنے یا رکھنے کی گنجائش نظر نہ آتی تھی۔ چنانچہ ان لوگوں نے دوہری چال چلی کہ ایک طرف تو خود فتنہ بھڑکایا، پھر جناب حسین رضی اللہ عنہ جیسے اخیار و ابرار اکابر کی شخصیات کو اس فتنہ کو اور زیادہ بھڑکانے کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کیا۔ یوں ان لوگوں نے قتل حسین رضی اللہ عنہ کی مصیبت عظمیٰ کو جس کا پہلا سبب انھی کا مکر و غدر تھا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنت نبویہ اور وحدت امت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا ذریعہ بنا لیا۔

رہے وہ نام نہاد اہل سنت جو اس بات کا پروپیگنڈا کرتے نہیں تھکتے کہ اسلام میں ’’موروثی حکومت‘‘ کے نظام کے مؤسسِ اوّل جناب امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما تھے، تو دراصل ان لوگوں نے حالات و واقعات کا صرف ایک زاویۂ نگاہ ہی سے جائزہ لیا ہے، اسی یک طرفہ جائزے نے انہیں ایک ایسے صحابی رسول پر یہ تہمت لگانے پر ابھارا، جن کی سیاست نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ روئے زمین کے سب سے ذہین ترین آدمی تھے اور حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بعد سیاسی تدبر و شعور میں سب سے زیادہ قوت و مہارت اور دسترس رکھتے تھے۔

اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ یزید کی بیعت کو امر وراثت گمان کرتے ہوتے، تو انہیں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ، سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما اور دوسرے لوگوں کو اپنی رائے میں شریک کرنے کی کیا ضرورت تھی اور انہوں نے ان اکابر کے غصہ اور سختی کو کیوں برداشت کیا اور آخر یہ سب سہنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اکیلے ہی یزید کی نامزدگی کو کیوں کافی نہ سمجھا؟ اور کیا یہی نظامِ وراثت نہیں ہوتا؟ کہ والی کسی سے بھی مشورہ یا رائے لیے بغیر اکیلے ہی اپنے ورثاء میں سے کسی ایک کو اپنے بعد کے امر کا وارث قرار دے دیتا ہے۔

پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس بات کے شدید متمنی کیوں تھے کہ عام قبائل عرب اور امت کے اکابر کو بھی یزید کی بیعت میں شریک کریں؟ اور انہوں نے ہر خاص و عام، قریب اور دور کے آدمی سے اس بارے میں مشاورت کیوں کی؟ یا اس بات کو ہوا دے کر دراصل امت مسلمہ کے اکابر کی بابت بدگمانی کے زہر کو عام کر کے اعدائے صحابہ کے ہاتھوں کو مضبوط کرنا مقصود ہے؟ یوں اس شور و غوغا کا بدترین نتیجہ یہ نکلا کہ ہر بے اوقات اٹھ کر جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف محاکمہ کرنے اور ان کے خلاف عدالت قائم کرنے بیٹھ گیا اور اس کی جرأت بے جا اس حد تک جا پہنچی کہ وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنے تئیں صحیح بات کی فہمائش کرنے لگا، حالانکہ جناب معاویہ رضی اللہ عنہ تو ان عظیم ترین ہستیوں میں سے ہیں، جن کے اقوال و افعال کو آج تک مشعل راہ بنایا جاتا ہے اور قیامت تک بنایا جاتا رہے گا۔

پھر ان لوگوں کے لہجوں کی رعونت دیکھ کر یوں گمان ہونے لگتا ہے کہ غزوۂ قسطنطنیہ کے اصل بہادر اور شہ سوار یہی لوگ تھے، جو جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کے مبارک دور خلافت میں لڑی گئی تھی!!

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر نکتہ چینی کرنے والے ان نام نہاد عقل مندوں نے خود کو اہل عقل و خرد اور اربابِ حکمت و دانش کے نزدیک ’’ایک مذاق‘‘ بنانا گوارا کر لیا اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ ان کی زبانیں بھی انہی خرافات کے ذکر سے ہر وقت تر رہتی ہیں، جو روافض صحابہ کا وظیفۂ حیات ہیں کہ جناب معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت لے کر ایک بالکل غیر شرعی امر کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ اس میں وراثت کا شبہ ہے۔ جبکہ عین اسی وقت ان کا اپنا کردار یہ ہے کہ ان کے خود ساختہ دین کی ساری بنیاد اور مکمل ڈھانچہ ہی ’’وراثت‘‘ کے نظام پر قائم ہے اور یہ ان کی نری سیاست نہیں بلکہ ’’اصل دین‘‘ ہے۔ لہٰذا ان کے نزدیک امامت صرف اولاد حسین رضی اللہ عنہ میں ہی جاری ہو سکتی ہے، دوسرے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے بھی صرف اس اولاد میں امامت قائم اور جاری و ساری رہ سکتی ہے، جو جناب حسین رضی اللہ عنہ کی ایرانی لونڈی کے بطن سے چلی اور طرفہ تماشا یہ کہ سیّمدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر وراثت اور موروثی نظام حکومت کے بانی ہونے کی تہمت لگانے والے یہ حضرات، خود جناب حسین رضی اللہ عنہ کے دین حق کو مٹانے میں اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کرنے میں صدیوں سے لگے ہوئے ہیں۔ اس بات کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو گی کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ کی ذریت و اولاد آفاقِ عالم میں خوب خوب پھیلی ہوئی ہے، لیکن اہل بیت سے محبت جے دعوے دار یہ حضرات اور ان کی حکومتیں امامت و قیادت کو صرف اپنے اندر ہی جائز سمجھتے ہیں اور یہ حق اور منصب اپنے سوا کسی اور کو دینے کے لیے ہرگز بھی تیار نہیں۔ حتیٰ کہ امامت کے خود ساختہ جلیل القدر منصب کا یہ کسی ہاشمی عرب کو بھی اہل باور نہیں کرتے؟!!

ان لوگوں کے زبانی دعووں، دلی عقیدوں اور عملی رویوں سے یوں لگتا ہے کہ جیسے جس ’’بیت‘‘ کا یہ نام لیتے ہیں، وہ کسی اور ہی کا بیت ہے نہ کہ بیت نبوی ہے اور جس آل کا یہ نام لیتے ہیں، یہ آل رسول ہی نہیں؟!!

افسوس! کہ رافضیوں کے اس پروپیگنڈے کی زَد میں نام نہاد اہل سنت بھی آ گئے اور انہوں نے سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی رسول پر یہ طعن کرنا شروع کر دیا کہ انہوں نے خلافت کو وراثت میں بدل دیا۔ حالانکہ خود ان رافضیوں کے نزدیک خلافت صرف وراثت میں ہی ہے۔ یہ اولادِ حسین رضی اللہ عنہ کے سوا کسی میں بھی خلافت و امامت کو جائز نہیں سمجھتے۔ یہاں چند سوالات اٹھتے ہیں:

٭ آخر یہ کس نے کہا ہے؟

٭ اس پر کس نے عمل کیا؟

٭ اس قول کو کون تسلیم کرتا اور صحیح مانتا ہے؟

٭ کیا اس بات کی خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ وصیت اور حکم کر گئے تھے؟

٭ پھر انہوں نے خود سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی خلافت کا وارث کیوں نہ بنایا؟

٭ اور کیا یہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا قول ہے؟

٭ اگر خلافت و امامت صرف اولاد علی و حسین رضی اللہ عنہما ہی میں روا ہے، تو پھر خود جناب حسن رضی اللہ عنہ امر خلافت سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دست بردار کیوں ہوئے تھے اور مسلمانوں نے اس سال کا نام ’’عام الجماعت‘‘ (باہمی اتفاق و اتحاد کا سال) کیوں رکھا؟

جب ان نام نہاد الزامات و اتہامات کا تاریخ اسلام میں نام و نشان تک نہیں ملتا، تو ہم پر لازم ہے کہ ہم امت کے اسلاف اکابر اور ائمہ اعلام کی بابت شکوک و شبہات پیدا کرنے والے ان افکار کے پھیلانے والوں کو جانیں اور پہچانیں، اور اسلام کی ثابت اور کھری تاریخ کی بیخ کنی کرنے والی ان روایات کا سینہ سپر ہو کر مقابلہ کریں۔ جبکہ اس جعلسازی کا سنگین ترین پہلو یہ ہے کہ ان جعلسازوں کو ان جعلی روایات کی خطرناکی کی ذرا پروا نہیں۔ ضرورت ہے کہ امت مسلمہ کے حساس قلب و نظر رکھنے والے درد مند لوگ ان رافضیوں کی تاک میں رہیں اور ان کی ظاہری اور پوشیدہ ہر ہر حرکت پر کڑی نگاہ رکھیں۔ ان کی شخصیت، کردار اور عقیدہ و عمل کو قلم سے طشت از بام کریں، تاکہ خوابِ غفلت میں پڑے ہوؤں کو بیدار کریں۔

یہ روافض خود سے واقعات تراشتے ہیں ، اشعار گھڑتے ہیں اور انہیں امت مسلمہ کے اکابر و اشراف کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی برامکہ نے بھی کیا۔ ہارون الرشید نے انہیں قریب کیا، اپنا مصاحبِ خاص بنایا لیکن انہوں نے ان احسانات کا بدلہ غدر و خیانت کی صورت میں دیا اور خلافت کو عربوں سے چھین کر عجمیوں کے ہاتھوں میں دینے کی سرتوڑ کوشش کی۔

ان برامکہ نے دھونی دینے اور بھٹی جلانے کے نام پر مساجد میں مجوسیوں کی آگ کو داخل کیا۔ ’’العواصم من القواصم ‘‘ کا مؤلف برامکہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’یہ لوگ باطنیہ تھے، فلاسفہ کے عقائد رکھتے تھے۔ چنانچہ ان لوگوں نے دین اسلام کے خلاف گہری چال چلی اور مجوسیت کو دین کے نام پر حیاتِ نو بخشی، ان لوگوں نے مساجد کو دھونی دینے کی نیو ڈالی۔ اس سے قبل مساجد کو ’’خلوق‘‘ (خُلُوْق یا خِلَاق: ایک قسم کی خوشبو جس کا بیشتر حصہ زعفران ہوتا ہے۔ (القاموس الوحید: صفحہ 469)) سے معطر کیا جاتا تھا لیکن ان لوگوں نے مساجد کو آگ سے معمور کرنے کے لیے انگارے جلانے کو رواج دیا اور تو اور، ان لوگوں نے یہ تک گھڑ لیا کہ مساجد میں دھونی دینا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ یہ برامکہ عربوں کی حکومت کو عجمیوں کے ہاتھوں اور آزاد دین دار شرفاء کی حکومت کو ملحد بے دین غلاموں کے ہاتھوں برباد کروانے میں کامیاب رہے۔ ان لوگوں نے اپنے نفوس میں عربوں اور خلافت اسلامیہ کے خلاف کینہ پال رکھا تھا، ہر وقت اس کی بربادی کے منتظر رہتے تھے۔ چنانچہ ان لوگوں نے ہر کوڑھ مغز، بے لگام اور بے صبر بخیل کو اپنے گرد اکٹھا کیا، ان کے سامنے کھل کر فلسفیانہ نظریات کو رکھا، جو اب تک چھپاتے چلے آ رہے تھے۔ لوگوں کو قریب کرنے کے لیے ان پر داد و دہش کے دروازے کھول دئیے۔ یوں برامکہ نے اسلامی معاشرہ سے وہ لوگ چھانٹ چھانٹ کر الگ کر لیے، جن کو نیکی و راستی اور رشد و ہدایت سے کوئی سروکار نہ تھا، کسی نے صحیح کہا ہے:

عَنِ الْمَرْئِ لَا تَسْئَلْ وَ سَلْ عَنْ قَرِیْنِہٖ

فَکُلُّ قَرِیْنٍ بِالْمَقَارِنِ یَقْتَدِیْ

’’آدمی کے بارے میں نہ پوچھ بلکہ اس کے مصاحب و ہم نشین کے بارے میں پوچھ کہ آدمی ہمیشہ اپنے ہم مجلس اور ہم صحبت کی سیرت کو اپناتا ہے۔‘‘

ہم اپنے ذی شعور اور دانش مند قاریوں پر یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ روافض اپنے اس مکر پر آج تک جمے ہوئے ہیں۔ یہی ان کا عقیدہ ہے، گمراہی کے انہی ہتھیاروں سے لیس یہ سبائی اسلام کے خلاف محاذ آراء ہیں، یہ رافضی غیرتِ اسلامی اور دینی حمیت سے محروم غافل مسلمانوں کی بے خبری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے آتے ہیں اور اب تک بھی غیرت و حمیت اور صحیح دینی و تاریخی علم سے محروم طبقہ ہی ان کا آسان شکار بنتا چلا آ رہا ہے۔ سبائیوں نے بد اعتقادی اور مکر و فریب کے انہی ہتھیاروں سے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما پر حملہ کیا تھا اور جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی کردار کشی میں اپنی ساری صلاحیتیں خرچ کر دیں اور ان پر یہ بہتان باندھ دیا کہ انہیں اپنے بیٹے یزید کی بے دینی کا علم تھا، لیکن وہ یہ سمجھتے رہے تھے کہ یزید اپنے کرتوت لوگوں کے سامنے عیاں نہ کرے گا۔ حاشا و کلا کہ جنابِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے دل میں یا زبان پر یہ بات آئی ہو۔ افسوس کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف یہ دروغِ بے فروغ ان کی رحلت کے صدیوں کے بعد گھڑا گیا۔ یہ افترا پرداز اور دروغ باف کمال حیا باختگی سے یہ کہتے ہیں کہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید سے یہ کہا تھا:

فَبَاشِرِ اللَّیْلَ بِمَا تَشْتَہِیْ

فَاِنَّمَا اللَّیْلُ نَہَارُ الْاَرِیْبِ

کَمْ فَاسِقٍ تَحْسِبُہٗ نَاسِکًا

قَدْ بَاشَرَ اللَّیْلَ بِاَمْرٍ عَجِیْبٍ 

غَطّٰی عَلَیْہِ اللَّیْلُ اَسْتَارَہٗ فَبَاتَ

فِیْ اَمْنٍ وَ عَیْشٍ خَصِیْب

وَ لَذَّۃُ الْاَحْمَقِ مَکْشُوْفَۃٌ

یَشْفِیْ بِہَا کُلُّ عَدُوٍّ غَرِیْبٍ

’’رات کو جو چاہے کر لیا کرو کہ رات زیرک کا دن ہوتا ہے۔ کتنے ہی گناہ گار ہیں، جن کو تم بڑا عبادت گزار سمجھتے ہو لیکن وہ رات کو نہ جانے کیسے کیسے عجیب کام کرتے ہیں۔ رات کی تاریکی اس پر اپنے پردے ڈال دیتی ہے، یوں وہ رات کو کمال بے خوفی اور عیش و لذت میں گزارتا ہے۔ لیکن احمق سب کے سامنے گل چھرے اڑاتا ہے، جس سے دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع ملتا ہے۔‘‘

اگرچہ قاتلانِ حسین نے کذب بیانی اور افترا پردازی کی انتہا کر دی، لیکن رب تعالیٰ نے انہیں برسر بازار فضیحت و رسوائی سے دوچار کیا۔ یہ اشعار نہ تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں کہے گئے اور نہ ان کے بعد کہے گئے اور نہ ان اشعار کا سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ، یزید یا خلافت بنو امیہ سے کوئی تعلق ہی ہے۔ ان اشعار سے اہل بصرہ واقف تک نہیں۔ یہ تو یحییٰ بن خالد برمکی کے اشعار ہیں جو ہارون الرشید کے دور میں تھا اور یہ یزید کی وفات کے تقریباً سو سال بعد کا زمانہ ہے۔ (تاریخ دمشق: جلد، 65 صفحہ 403) کیا یہ ان رافضیوں کی کھلی بہتان تراشی نہیں؟!!

بہرحال آل بیت حسین رضی اللہ عنہ کی بابت خود ساختہ مظالم کی جو داستانِ ہوش ربا یزید کے دورِ خلافت کی طرف منسوب کر کے سنائی جاتی ہے، اس کا ’’سچ کی دنیا‘‘ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ان غداروں نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ جب تک جناب حسین رضی اللہ عنہ کوفیوں کی خط و کتابت کے بعد کوفہ کی طرف روانہ نہ ہوئے تھے، کسی نے بھی آپ کو یزید کی بیعت کر لینے پر مجبور نہ کیا تھا، لیکن جیسے ہی یزید کی بیعت کر لی گئی، تو ان حضرات کو سب سے زیادہ خدشہ امت میں وحدت و اتحاد کے قائم ہو جانے کا تھا، اس لیے انہوں نے بہتان تراشیوں اور فتنہ انگیزیوں کی آگ بھڑکا دی۔ ان کی جھوٹی افواہوں اور دغا بازیوں کو دیکھتے ہوئے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نہ کرنے کی بابت اپنا موقف تبدیل کر لیا اور اب آپ نے پرامن معارضہ کے بجائے اسلحہ اٹھا لینے کا فیصلہ کر لیا اور شاید اس کی دو وجوہات تھیں:

پہلی وجہ:

خلافت یزید کی بیعت کے لیے شوریٰ کی اس عملی شکل میںنے تشکیل نہ دی گئی تھی، جیسا کہ حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ادوار میں ہوتا تھا اور یہ حقیقت ہے۔ جبکہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد سے یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے یزید کی بیعت کے لیے شوریٰ منعقد کر لی ہے، وہ یوں کہ انہوں نے اقالیم، سربر آوردہ شخصیات،

والیان، لشکروں کے قائدین، قاضیوں اور علماء سے یزید کی بابت بیعت لے لی تھی۔ یوں انہوں نے اس طرح یزید کی بیعت کی بابت امت کی موافقت و تائید حاصل کر لی تھی۔ دوسرے اس وقت حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم جیسا ایسا کوئی فرد بھی تو نہ تھا کہ جس پر وحدتِ کلمہ کا انعقاد ہو سکتا۔ جیسا کہ حضرات انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ میں کیا کرتے تھے کہ جب وہ کسی کی بیعت کر لیتے تھے، تو باقی امت پر سمع و طاعت لازم ہو جاتی تھی کہ حضرات انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم اہل حل و عقد تھے۔

پھر اگر یزید کے علاوہ کسی کی بیعت کی جاتی، تو امر خلافت میں استقرار و استحکام اور استقامت منعقد نہ ہو سکتی تھی، کیونکہ اس وقت قوت و شوکت اور استقرار خلافت کے جملہ اسباب یزید کی تائید میں جاتے تھے اور کوئی دوسرا اس قوت و شوکت اور تائید و حمایت میں یزید سے آگے نہ نکل سکتا تھا، جس کا لازمی نتیجہ تشتت و افتراق اور متعدد اجتہادات کی صورت میں نکلتا اور صراع و نزاع کا آغاز ہو جاتا۔ اسی امر نے جلیل القدر اور سربرآوردہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سکوت اختیار کرنے اور امت کی وحدت اور امن و استقرار کی خاطر یزید کی بیعت کو تسلیم کر لینے پر آمادہ کیا، وگرنہ جملہ اصحابِ رسول اور ان کی اولادیں سب کے سب یزید سے ظاہر و باطن ہر اعتبار سے بہتر تھے۔ اسی بات کو حضرت یُسیر بن عمرو رضی اللہ عنہ نہایت بلاغت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ حمید بن عبدالرحمن روایت کرتے ہیں کہ ہم یزید کے خلیفہ بننے کے بعد حضرت یسیر بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو فرمانے لگے:

’’لوگ کہتے ہیں کہ یزید اُمت محمدیہ کا بہتر آدمی نہیں، میں بھی اسی بات کا قائل ہوں ، لیکن بات یہ ہے کہ رب تعالیٰ کا امت محمدیہ کے امر کو متحد رکھنا یہ مجھے اس کے متفرق و منتشر ہو جانے سے زیادہ عزیز ہے، نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے: ’’جماعت تیرے پاس خیر ہی لائے گی۔‘‘ (اسد الغابۃ لابن الاثیر، ترجمۃ یُسیر بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ : جلد، 3 صفحہ 131)

البتہ یہ بات ضرور یاد رہے کہ اس بات کا قائل کوئی بھی نہیں کہ غلبہ کے حصول کے لیے شوریٰ کا یہی منہج ہی سب سے درست ہے۔ حمید ہی سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ یزید کے خلیفہ بننے کے بعد ہم ایک صحابی رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ فرمانے لگے:

’’کیا تم لوگ یہ بات کہتے ہو کہ یزید اس امت کا نہ تو سب سے بہتر آدمی ہے، نہ سب سے زیادہ فقیہ ہے اور نہ سب سے زیادہ معزز ہی ہے؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں ۔ فرمانے لگے: میں بھی یہی کہتا ہوں ، لیکن اللہ کی قسم! مجھے امت محمدیہ کا اتفاق و اتحاد اس کے افتراق واختلاف سے زیادہ عزیز ہے، تمہارا اس دروازے کے بارے میں کیا خیال ہے جس میں ساری امت کے گزر جانے کی گنجائش ہو تو کیا ایک شخص اس میں داخل ہونا چاہے تو کیا داخل نہ ہو سکے گا؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں ۔ پھر فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر امت محمدﷺ کا ہر فرد یہ کہے کہ وہ اپنے بھائی کا خون نہ بہائے گا اور نہ اس کا مال ہی چھینے گا۔ کیا یہ اس کے بس میں ہے یا نہیں ؟ ہم نے کہا: ضرور۔ تو فرمایا: یہی وہ بات ہے جو میں تمہیں کہنا چاہتا ہوں۔ پھر فرمایا: نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے: ’’حیا سے تمہیں خیر ہی ملے گی۔‘‘ (تاریخ خلیفہ ابن خیاط: جلد، 1 صفحہ 164 مذکورہ حدیث ’’اسد الغابۃ: جلد، 1 صفحہ 60‘‘ میں موجود ہے)

اس رائے کی درستی اس وقت ہمارے سامنے واضح ہوتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بے پناہ فضائل و مناقب اور شمائل و محامد کے مالک ہونے، امت محمدیہ میں عظیم تر رتبہ و مرتبہ اور لوگوں کی بے انتہا عقیدت و محبت رکھنے اور علم و فصاحت اور اعوان و انصار کی کثرت ہونے کے باوجود جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے اختیار کی ہوئی ایک بات کو بدلنے کی کوشش کی، تو ایسا نہ کر سکے اور نتیجہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت، شقاق اور فتنوں کے اضافے اور دار الاسلام میں ایک دوسرے کے خلاف اجتہادات کی کثرت کی صورت میں نکلا اور یہی وہ خطرات تھے، جن سے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ امت کو بچانا چاہتے تھے۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ ان کی دقت نظری، باریک بینی، بے پناہ دانائی اور اپنے دور کے حالات کی قرار واقعی تشخیص و تعیین میں غور و تدبر اور فکر و فراست کی راستی و درستی کو بتلاتا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس سیاست و تدبر کی شہادت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ان الفاظ کے ساتھ دیتے ہیں، وہ فرماتے ہیں :

’’میں نے نبی کریمﷺ کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑا سردار نہیں دیکھا۔ کسی نے کہا: کیا ابوبکر اور  عمر رضی اللہ عنہما بھی نہیں؟ تو فرمانے لگے کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ان سے بہتر تھے اور میں نے نبی کریمﷺ کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑا سردار نہیں دیکھا۔‘‘ (المعجم الکبیر: 13432 المعجم الاوسط للطبرانی: 5769 الآحاد و المثانی لابن عمرو الشیبانی: 516 منہاج السنۃ: جلد، 4 صفحہ 430 البدایۃ و النہایۃ: جلد، 7 صفحہ 133) یہ موقعہ ان مسائل کی تفصیل کا نہیں ۔ البتہ اس ذات کا حق پہچاننا بھی ضروری ہے، جس نے اپنے علم، حلم اور دینی غیرت و حمیت کی بدولت پراگندہ امت کی شیرازہ بندی کی اور آراء و اجتہادات کی محاذ آرائی ختم کر کے اعدائے صحابہ کی شورشوں اور یورشوں کے آگے بند باندھ کر رکھ دیا۔ پھر یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ان جملہ امور میں امت کی مصلحت و عافیت کی بابت مجتہد تھے۔ اس لیے جو دریدہ دہن بھی ان پر موت قریب آ جانے اور قرب و حساب کے سامنے آنے پر اولاد کی محبت کے ہاتھوں مغلوب و مجبور ہو جانے کی تہمت لگاتا ہے، تو بے شک وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ان گزشتہ حسنات پر گھناؤنی تہمت لگاتا ہے، جو انہوں نے جہاد فی سبیل اللہ کرنے، فتنوں کو پیوند خاک کرنے، امت کو متحد کرنے، اس میں امن کو عام کرنے اور اس کی اصلاح احوال کرنے کی راہ میں کی تھیں۔ میں ہرگز بھی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ جس شخص کا یہ حال ہو وہ کبھی محض اپنے جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر امت کی قسمت سے کھلواڑ کرنے کے لیے ایک غلط فیصلہ کرے، خواہ آلِ بیت کی محبت کی آڑ میں ہی سہی۔

دوسری وجہ

ان فتنہ گروں، دغا بازوں اور حضرات صحابہ کرام اور آل بیت رضی اللہ عنہم سے بے پناہ کینہ اور کھوٹ رکھنے والوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے حالات و واقعات کی خلافِ واقعہ منظر کشی کی اور بہتان و جعلسازی سے کام لیتے ہوئے تحریف کرنے اور بھڑکانے اور اکسانے میں بے پناہ مبالغہ کیا۔ ابو سعید مقبری بیان کرتے ہیں:

’’اللہ کی قسم! میں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھا، وہ دو آدمیوں کے درمیان چل رہے تھے، کبھی وہ اس آدمی کی بات پر اعتماد کرتے، تو کبھی اس دوسرے کی بات پر اور کبھی پھر اس پہلے کی بات پر، یہاں تک کہ مسجد میں یہ شعر پڑھتے ہوئے داخل ہو گئے:

لا ذعرت السوام فی غبش الصب

ح مغیرا و لا دعیت یزیدا

یوم اعطی مخافۃ الموت فیما

و المنایا یرصدننی ان احیدا

’’نہ تو مجھے منہ اندھیرے کسی غارت گر کا ڈر ہے اور نہ مجھے یزید کی بیعت کرنے کو کہا گیا ہے۔ مجھے ڈر ہے تو اس دن کا ہے، جب مجھے ظلم سے مار ڈالا جائے گا اور موت میری تاک میں ہے کہ میں کب تنہا ہوتا ہوں۔‘‘

ابو سعید کہتے ہیں:

’’میں سمجھ گیا کہ اب حضرت حسین رضی اللہ عنہ زیادہ دیر تک نہ ٹھہریں گے اور خروج کر دیں گے۔ پھر تھوڑا عرصہ بھی نہ گزرا کہ انہوں نے خروج کر دیا اور وہ مدینہ سے مکہ چلے گئے۔‘‘ (تاریخ الاسلام للذہبی: جلد، 2 صفحہ 83)

فتنہ گروں کی آپ سے ملاقاتیں بڑھتی گئیں۔ وہ آپ کے سامنے ظلم و ستم کے جھوٹے قصے بیان کر کر کے آپ کی حمیت دینی کو انگیخت کرتے رہے، حتیٰ کہ بالآخر انہوں نے سنت کی مدد کے نام پر -جس سے یہ ہمیشہ بیزار رہتے ہیں- آپ کی حمیت کو مہمیز کر ہی دیا اور ان مکار و عیار کوفیوں کے مزعومہ ظلم و باطل کے قلع قمع کے لیے آپ کو تیار کر ہی لیا، تو جنابِ حسین رضی اللہ عنہ سے کچھ ایسے امور سرزد ہونے لگے، جو آپ کی نیتِ خروج کی غمازی کرتے تھے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کی طرف سے بعض لوگوں کو آپ کی نشست و برخاست اور حرکات و سکنات پر نظر رکھنے کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ہی انہیں ان امور کی خبر دمشق لکھ بھیجی۔ انہی خطوط میں مروان بن حکم کا لکھا یہ خط بھی ہے، جس میں انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ

’’مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں حسین (رضی اللہ عنہ) فتنہ کا باعث نہ بن جائیں۔ میں حسین (رضی اللہ عنہ) کی بابت آپ لوگوں کا دن طویل دیکھ رہا ہوں۔‘‘

جس پر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو وعظ و نصیحت بھرا یہ خط لکھا:

’’جس نے اللہ سے اپنے داہنے ہاتھ سے کوئی عہد کیا ہو، وہ پور کیے جانے کے زیادہ لائق ہے۔ مجھے خبر ملی ہے کہ اہل کوفہ آپ کو شقاق و افتراق کی دعوت دے رہے ہیں۔ ان عراقیوں کو آپ آزما چکے ہیں، یہ وہی تو ہیں جنہوں نے آپ کے والد اور بھائی کے ساتھ بُرا کیا تھا۔ سو اللہ سے ڈریے اور عہد کو یاد رکھیے، جب آپ مجھے تھکائیں گے تو میں آپ کو تھکاؤں گا۔‘‘

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں یہ لکھ بھیجا:

’’آپ کا خط ملا۔ آپ کو میرے بارے میں غلط باتیں پہنچی ہیں۔ نیکیوں کی راہ اللہ ہی دکھاتا ہے۔ میرا آپ سے محاربہ کرنے یا آپ سے اختلاف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں اور اگر میں آپ سے جہاد ترک کرتا ہوں، تو رب کے حضور میرے پاس کوئی عذر نہ ہو گا اور میرے نزدیک اس سے بڑا فتنہ نہیں کہ آپ نے اس امت کے امر کی ولایت یزید کے ہاتھ میں دے دی ہے۔‘‘

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ خط پڑھ کر فرمایا:

’’ہم نے ابو عبداللہ پر ایک شیر کو ترجیح دی ہے۔‘‘(مختصر تاریخ دمشق، باب جوامع حدیث مقتل الحسین: جلد، 2 صفحہ 440 البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر: جلد، 8 صفحہ 175)

یہ جملہ نصوص بتلاتی ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور خلیفۃ المسلمین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان امور صراحت و باہمی خیر خواہی کی انتہا پر تھے۔ ہر ایک کو بات کی آزادی تھی۔ دورِ معاویہ رضی اللہ عنہ میں جنابِ حسین رضی اللہ عنہ کو کسی بات کا اندیشہ اور کھٹکا نہ تھا، وہ جو چاہتے تھے کہہ دیتے تھے، جس چیز پر چاہتے تنقید کر دیتے تھے۔ انہیں اخذ و ردّ میں آزادی تھی، ان کے قول و فعل کو اعتماد کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ان کو نہایت شائستہ نصیحت فرماتے تھے اور ان دونوں بزرگوں میں دقیق و عمیق امور میں خوب صراحت تھی اور ان دونوں بزرگوں میں یہی رویہ اخیر تک قائم رہا۔

جناب حسین رضی اللہ عنہ کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ سے زیادہ یہ سننے کو ملا کہ وہ خروج پر آمادہ ہیں اور اس کی وجہ بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو پہنچنے والی خبریں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے لکھ بھیجا کہ

’’میرا خیال ہے کہ آپ کے دماغ میں ایک خواہش ہے، میں اس کو معلوم کرنا چاہتا ہوں تاکہ میں وہ آپ کو معاف کر دوں۔‘‘ (مختصر تاریخ دمشق، باب جوامع حدیث مقتل الحسین: جلد، 2 صفحہ 440 البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر: جلد، 8 صفحہ 175)

یہ امر بتلاتا ہے کہ دورِ معاویہ رضی اللہ عنہ عفو و درگزر اور چشم پوشی کی سیاست کی انتہا پر تھا۔ شاید یہ جناب حسن رضی اللہ عنہ اور جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان منعقد ہونے والی عظیم تر صلح کا ثمرہ تھا اور یہی وہ صلح تھی، جس کی بدولت امت مسلمہ نے مودّت و محبت، اخوت و ہم دردی، باہمی اعتماد و ہم آہنگی اور نیکی و تقویٰ کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کے ثمرات کو چنا تھا۔

اس دور میں خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ اور آل بیت رضی اللہ عنہم کے درمیان تعلقات میں کسی قسم کی رنجش و تکدر کا شائبہ تک نہ تھا، جناب معاویہ رضی اللہ عنہ حضرات حسنین کریمین، حضرت ابن عباس اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کا اس قدر اکرام کرتے تھے کہ اتنا کوئی دوسرا نہ کرتا تھا۔ جبکہ یہ حضرات سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہر قسم کی خیر خواہی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتے تھے اور جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کا منشا پورا کرنے میں کسی ناگواری کا اظہار تک نہ کرتے تھے۔ بلکہ یہ حضرات تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حلم و بردباری اور لوگوں کے ساتھ ان کے حسن سلوک دیکھ کر ان پر رشک کرتے تھے، جو لوگوں کے دلوں میں ان کے بارے میں کسی کینہ کو باقی رہنے نہ دیتا تھا۔ البتہ کوفیوں کا معاملہ دوسرا تھا، وہ رب کے ہاں سے اور ہی دل لائے تھے جہاں خیر کا گزر تک نہ ہوتا تھا، ان کے دلوں کے کینوں سے امت مسلمہ کا کوئی بزرگ نہ بچ سکا۔ جبکہ دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ آل بیت رضی اللہ عنہم کو بے کھٹکے جو چاہتے تھے کہہ دیتے تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ خوب جانتے تھے کہ آل بیت رضی اللہ عنہم کا امت محمدﷺ میں کیا مقام و مرتبہ ہے اور ان بزرگ ہستیوں کو جناب رسول اللہﷺ سے کتنا قرب حاصل ہے۔ پھر آل بیت حسین رضی اللہ عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی چچیری اولاد بھی تھے۔ دونوں کا نسبعبد مناف پر جا کر ایک ہو جاتا تھا۔ اب اس بات میں کیا شک رہ جاتا ہے کہ جو دونوں بھائیوں اور دو چچوں میں صلح اور خیر کے ارادہ کے بغیر زبردستی جا گھسے، وہ دراصل شقاق و نفاق اور انتشار و افتراق کا داعی ہے جو رشتہ داریوں اور قرابتوں کو توڑنا چاہتا ہے۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تعاون و تواصل اور دلوں کی شفافیت کے اس ماحول اور حال کو باقی رکھنے پر بے حد حریص تھے اور آپ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ اہل کوفہ جو فتنوں اور شرارتوں کے سرغنہ ہیں، وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو خلافت کے حصول پر بھڑکانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیں گے اور آپ نے حالات کے تناظر سے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ بالآخر ایسا ہو کر رہے گا اور آپ کو یہ بھی بخوبی علم تھا کہ اس میں جناب حسین رضی اللہ عنہ اپنی نیک نیتی کی بنا پر عذر پر ہوں گے اور اس امر کے اصل مجرم جناب امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے قاتل، سکہ بند شریر کوفی ہوں گے۔

چنانچہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں اس بات کا شدید اہتمام رکھا کہ امت پر جناب حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کو خوب خوب اجاگر کریں اور کسی بھی طور پر ان کے ساتھ تصادم کی صورت پیدا نہ ہونے دیں۔ آپ کی شدید تمنا تھی کہ اس بات کا اہتمام پوری تاکید کے ساتھ آپ کی وفات کے بعد بھی رہے۔ چنانچہ آپ نے اپنے مرض الموت میں اپنے بیٹے یزید کو بلا کر اسے تاکید کے ساتھ وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

’’حسین بن علی، فاطمہ بنت رسول اللہﷺ کے لخت جگر کو دیکھنا۔ وہ لوگوں کو سب سے زیادہ محبوب ہیں، ان سے صلہ رحمی کرنا، نرمی کا برتاؤ کرنا، تمہارے لیے ان کا معاملہ درست رہے گا اور اگر ان سے کسی بات کا صدور ہو تو مجھے امید ہے کہ اللہ تمہیں ان سے ان لوگوں کے ذریعے سے کافی ہو جائے گا، جنہوں نے ان کے باپ کو قتل کیا اور ان کے بھائی کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔‘‘

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے پندرہ رجب 60 ہجری کو وفات پائی اور لوگوں نے ان کے بعد یزید کی بیعت کی۔ (مخصر تاریخ دمشق، باب جوامع حدیث مقتل الحسین: جلد، 2 صفحہ 440) سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے زندگی بھر اپنے سب والیوں اور گورنروں کے سامنے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی بابت اپنا یہی منہج قائم رکھا، اسی کی تاکید کے ساتھ یزید کو وصیت بھی کی اور یزید نے بھی اسی نہج کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی اپنی سی بھرپور کوشش کی۔ لیکن اس بات سے انکار بھی ممکن نہیں کہ یزید میں اپنے والد ماجد کا سا سیاسی تدبر، معاملہ فہمی، صبر و سیادت اور زمامِ حکومت سنبھالنے کا تکلف اور بناوٹ سے خالی سلیقہ اور طریقہ نہ تھا اور نہ لوگ اسے اس نگاہ سے دیکھتے تھے جیسے وہ اس کے والد کو دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے تین جلیل القدر صحابہ اور بزرگوں، سیدنا حسین، سیدنا ابن زبیر، اور سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہم نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے نزدیک یزید کا انتخاب شوریٰ کی حقیقت اورروح سے خالی تھا اور نہ حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سیرت سے میل ہی کھاتا تھا۔ ان حضرات نے امر خلافت کے لیے اپنی اولادوں کو آگے نہ کیا تھا۔ جبکہ باقی امت نے یزید کی بیعت کر لی جو معروف ہے۔

یزید کی خلافت کی بابت شوریٰ پر ہمارا یہ نقد برحق ہے خواہ اس میں جمہور امت بھی شامل تھی۔ لیکن یزید کا استخلاف اس تناظر میں نہ تھا بلکہ امت کی وحدت اور اس کی سلامتی کے تناظر میں تھا۔ اگر سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے اس اجتہاد کو کہ دو نقصانوں میں سے ہلکے کو اختیار کیا جائے، ترک کر دیتے تھے تو خلافت کے کئی امیدوار کھڑے ہو جاتے اور ہر ایک کو اعوان و انصار اور یار و مددگار بھی میسر آ جاتے۔ بھلا بتلائیے کہ ان سب کو ایک کون کرتا، اس پر مستزاد یہ کہ خوارج کب سے تاک میں بیٹھے تھے کہ جس طرح بھی بن پڑے امت مسلمہ کے عقیدہ و ایمان کے وجود میں بدعت و سبائیت کے پنجے گاڑ دئیے جائیں۔ اس لیے اگرچہ یزید کا انتخاب افضل نہ تھا لیکن ضرر میں کم اور وحدت امت کا ضامن زیادہ تھا۔ جیسا کہ سیدنا یسیر بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ بات مذکور ہو چکی ہے۔ اس لیے ہمارا یہ کہنا بے جا نہیں کہ یزید کے انتخاب کی بابت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر زبان چلانے والوں نے اس امر کا صرف ایک زاویہ سے ہی جائزہ لیا ہے۔ جبکہ وہ امت کی واقعیت اور حقیقت احوال سے جاہل ہیں بلکہ وہ امت کی گھات میں بیٹھے دشمن کوفیوں کی باطنیت اور مکر و ایہام سے تجاہل برت رہے ہیں۔ لیکن صحیح نتیجہ تک پہنچنے کے لیے کینہ، حسد، خود غرضی، نفس پرستی، خود رائی، لاچارگی اور جہل و بے علمی سے خالی ہونا بھی تو ناگزیر ہے۔

میرا پختہ یقین ہے کہ ایک دانا و بینا ذی ہوش مومن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی امت سے محبت اور اس کی وحدت کی شدید حرص کے دامن پر تہمت کا کوئی داغ لگانے کی جرأت ہرگز بھی نہ کرے گا اور یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ جیسے دو خلفائے راشدین کے بعد کس نے امت کو متحد کیا؟ کس نے امت کو دوبارہ اس کی عزت و رفعت پر متمکن کیا؟ کس نے از سر نو فتوحات کا وسیع تر سلسلہ جاری کیا؟ کیا تاریخ کسی ایسے شخص کا پتا بھی دیتی ہے جس نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی مصاحبت اختیار کرنے کے بعد ان سے اکتا کر اور دل آزردہ ہو کر انہیں اور جماعت کو چھوڑ دیا ہو؟ کیا ہمیں روزنِ تاریخ سے کوئی محتاج نظر پڑتا ہے، جس کی دورِ معاویہ رضی اللہ عنہ میں حاجت روائی نہ کی گئی ہو اور اس کی کسمپرسی اور لاچارگی کا مداوا نہ کیا گیا ہو؟ حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بعد جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کے سوا ایسا کون ہے، جس سے امت نے اس طرح محبت کی ہو جیسی اس نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے کی ہے؟ یہ اور نہ جانے اور کتنے فضائل و مناقب ہیں، جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نامۂ اعمال میں درج اور امت کے دلوں پر نقش ہیں جن کا انکار ممکن نہیں، اگرچہ یہ طعنہ زن زبان دراز سبائی سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مبارک دور کی طرف خود ساختہ کتنے ہی حوادث و مصائب کیوں نہ منسوب کرتے رہیں، جن کی حیثیت اس شور و شغب سے زیادہ کی نہیں، جو دیکھنے یا سننے کے لائق نہیں۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے اونچے اور جلیل القدر کردار پر انگلیاں اٹھانے والے اور شوریٰ شوریٰ کا نام لے کر ٹسوے بہانے والے اور جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف یہ غل مچانے والے کہ انہوں نے شوریٰ کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا تھا، خود کو یوں ظاہر اور پیش کرتے ہیں، جیسے امت کی شیرازہ بندی کا سہرا انہی کے سر ہے اور جیسے روم کی سرکشی اور خودسری کو کچل کر خاک میں ملانے والے یہی جغادری اور خون آشام معرکوں کے شہسوار ہیں اور ان کے یہ کارنامے سیّلدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے کارناموں سے کسی طرح کم نہیں جو روزِ قیامت تک کبھی فراموش نہ کیے جا سکیں گے، لیکن افسوس کہ یہ حضرات یہ بات یکسر بھول جاتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تو سب سے زیادہ شوریٰ پر عمل کرنے والے تھے اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت تو شوریٰ سے ہی تعبیر تھا۔ لیکن کوئی سچ بولنا اور انصاف کا دامن تھامنا بھی چاہے تو تب نا!!

کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کے انتخاب کی بابت کس کس سے مشورہ نہ کیا؟ کس کس دروازے پر دستک نہ دی؟ کیا ہر قبیلہ کی طرف وفود نہ بھیجے؟ کیا لوگوں سے رائے نہ لی گئی اور انہوں نے اپنی آراء پیش نہ کیں؟ کیا اقالیم و قبائل کے وفود نے آ آ کر اس مسئلہ میں شرکت نہ کی اور اپنی رضا کا اظہار کر کے برکت کی دعائیں نہ دی تھیں؟ تاریخ کی کتابیں ان کے ذکر سے معمور ہیں۔ (دیکھیں: تاریخ الطبری: جلد، 3 صفحہ 248)

ان واقعات کے تناظر میں برملا کہا جا سکتا ہے کہ یزید کا استخلاف شوریٰ سے تھا، جس میں اغلبیت کی رائے ثابت ہے گو اجماعِ تام نہیں ملتا۔ لیکن پھر بھی نکتہ چینوں اور طعنہ زنوں کے لیے انگشت نمائی کی گنجائش نہیں ملتی۔ لیکن اگر بات افضلیت کی کی جائے کہ اس وقت ولایت کے زیادہ لائق کون تھا، تو بلاشبہ اس وقت ایک نہیں ہزاروں بلکہ بے شمار ایسے ’’رجال‘‘ امت میں موجود تھے، جو ہر اعتبار سے یزید سے زیادہ امر خلافت کے اہل اور لائق تھے۔ لیکن امت نے اس فیصلے کو قبول کیا، اہل قوت و شوکت نے اس کی موافقت کی اور اس پر راضی رہے۔ اس مقام پر ہم بغیر صحیح معلومات کے غلط سلط باتیں پھیلانے والے کو صرف یہی کہہ سکتی ہیں کہ وہ کسی ثبوت کے بغیر بہتان طرازی، الزام تراشی، کردار کشی اور کسی بھی واقعہ اور حادثہ کی غلط عکاسی اور منظر کشی کرنے سے گریز کرے۔

جب حقیقت کا ان دونوں پہلوؤ ں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے قرار واقعی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جناب معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے علم و تجربہ، فراست و مہارت اور تدبر و سیاست کے ذریعے سے صحیح رہنمائی کی، لوگوں کو قریب کیا، ان سے مشورہ لیا اور انہیں مشورہ میں شریک کیا، جس پر لوگوں نے انہیں مشورہ دیا اور برکت کی دعا دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ فتنہ کا دروازہ کسی طور پر بھی کھلا نہ رہنے دیجیے گا۔ بعد کے واقعات جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے و فہم کی تصویب کرتے ہیں۔ چنانچہ جیسے ہی یزید راہی ملک عدم ہوا امت کی وحدت کی لڑی ٹوٹ کر بکھر گئی اور اطراف و اکناف میں فتنوں کی آگ بھڑک اٹھی اور اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ شوریٰ کے نظام کو یزید نے معطل کر دیا تھا، تو یزید کی وفات کے بعد اب شوریٰ نے آگے بڑھ کر اپنا کردار کیوں نہ ادا کیا اور امر خلافت کے لیے امت کے رجالِ خیر کو آگے کیوں نہ کیا؟ بالخصوص معاویہ بن یزید بن معاویہؓ کا کردار اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کی بنیاد ہی شوریٰ پر رکھی تھی۔

چنانچہ معاویہ (بن یزید) یزید کی وفات کے بعد ربیع الاول 64 ہجری میں خلیفہ منتخب ہوا۔ معاویہ کی کنیت میں اختلاف ہے، ابو عبدالرحمن، ابو یزید اور ابو لیلیٰ تین نام کتب تاریخ میں ملتے ہیں۔ جب معاویہ (بن یزید) کا انتقال ہونے لگا تو لوگوں نے کہا: آپ اپنے بعد کسی کو خلیفہ نام زد کیوں نہیں کر جاتے؟ تو کہنے لگا: ’’میں نے خلافت کی حلاوت تو چکھی نہیں اور اس کی تلخی جھیل نہیں سکا۔‘‘ (تاریخ الاسلام للذہبی: جلد، 1 صفحہ 565 تاریخ الخلفاء للسیوطی: جلد، 1 صفحہ 182)

اس کے بعد خلیفہ کے اختیاری معاملہ کو بالکلیہ طور پر امت کے حوالے کر دیا اور اپنے کسی قول و فعل سے خلیفہ کے اختیار و انتخاب میں دخل تک نہ دیا۔

معاویہ(بن یزید) نے خلیفہ بننے کے بعد اپنے باپ کے مقرر کیے کسی عامل کو ہرگز نہ بدلا۔ معاویہ ایک خوبرو، سرخ و سپید، نیک سیرت نوجوان تھا۔ اکیس سال کی مختصر سی زندگی پا کر داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔ عثمان بن عنبسہ بن ابی سفیان نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ جب بنو امیہ نے ابن عثمان کو خلیفہ بنانا چاہا، تو انہوں نے انکار کر دیا اور اپنے ماموں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے جا ملے۔ (اریخ الاسلام للذہبی: جلد، 1 صفحہ 565)

امر خلافت ایک بار پھر شوریٰ کے ہاتھ میں تھا۔ تو اب کی بار بھی شوریٰ نے خلافت کے لیے خیر امت کا انتخاب کیوں نہ کیا؟ جیسا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر حرف گیری کرنے والوں کا شب و روز کا وظیفہ ہے؟ یا ان لوگوں کو شوریٰ کی بابت چرب زبانی کرنے میں مزا آتا ہے اور وہ بھی ان باتوں کے علم کے بغیر کہ

شوریٰ کے رجال کون ہوتے ہیں؟

شوریٰ کی مجلس کیسی ہوتی ہے؟

شوریٰ کے اخلاق و ضوابط کیا ہیں؟!!

ان لوگوں نے خلافت اسلامیہ کے شورائی نظام کو معاصر انتخابات جیسا سمجھ لیا ہے جو نظریاتی ہیں، جن میں امت کی اور دین کی کسی مصلحت کی رو رعایت نہیں ہوتی۔ کیا آج مشرق یا مغرب میں کوئی شخص جماعتی، ملکی اور مفاد پرستانہ جذبات سے خالی اور پاک ہو کر بھی انتخابات لڑ سکتا ہے؟ کیا آج انتخابات کا کوئی امیدوار اِن سیاسی اور فکری ہلاکت آفرینیوں کی دلدلوں میں گھسے بغیر بھی اپنی مراد تک پہنچ سکتا ہے؟ کیا آج کے ہر ضابطۂ اخلاق سے آزاد انتخابات خلافت اسلامیہ کے نظامِ شوریٰ سے ادنیٰ سی بھی مماثلت رکھتے ہیں؟!!

بلاشبہ شوریٰ حکومت اسلامیہ کے وسائل میں سے ایک وسیلہ ہے، لیکن شوریٰ اس وقت ہی سود مند ہے جب ایک اسلامی معاشرہ حدود شرعیہ اور امت کے بلند تر مصالح کی رو رعایت کرنے پر بھی آمادہ ہو۔ روایتی شوریٰ اور نظریاتی انتخابات نے امت مسلمہ کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے، اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ کتنے ہی سنگ دل، بے رحم، سرکش، ہٹ دھرم، باغی و طاغی سرکش رہنما نظریاتی انتخابات کی راہ سے اقتدار تک پہنچے اور امت کی قسمت پر براجمان ہو کر بیٹھ گئے۔ حالانکہ وہ لوگ شوریٰ اور آزادانہ انتخابات کے بدترین مخالف ہوتے ہیں۔ ان لوگوں نے امت کے سینے میں جو چرکے لگائے تاریخ کے اوراق ان کی داستانوں سے معمور ہیں۔

اس بنا پر واجب ہے کہ حکومت کے وسیلہ کی منہجیت کا مدار اولویت ہو، نہ کہ اولویت حکومت تک پہنچنے کے وسیلہ کا مدار ہو، ایک مسلمان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی حکومت شرعی حکومت ہو جو عقیدہ و دین کی نصوص پر کاربند ہو، نہ یہ کہ ایک حاکم نام کا تو مسلمان ہو لیکن اس کا طرزِ حکومت لا دین، ملحدانہ اور لبرل وغیرہ ہو۔ دوسرے یہ کہ اولویت دستور اسلامی کو مستحکم کرنے اور اس کو نافذ العمل بنانے کے لیے ہو جبکہ حکومت کا حصول اور حاکم کی آزادی اس کے نزدیک ثانوی درجے میں ہو۔ نظام شوریٰ کو جہاں نظامِ اسلام کے حصول و تنفیذ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، وہیں اس کو جماعت، وطن، قوم قبیلہ اور فرقہ کی نصرت و حمایت کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نصوص شرعیہ پر مشتمل دستورِ اسلامی کے ساتھ، جس میں رعایا حکام کی گردنوں پر مسلط ہو، ایک ایسی امت میں کھلواڑ کرنا ممکن نہیں جو اپنے عقیدہ کا احترام کرتی ہو اور اپنے اہداف و مقاصد کو جانتی پہچانتی اور سمجھتی ہو۔ اسلام میں شوریٰ کا حقیقی ہدف یہی ہے۔ امت پر لازم ہے کہ وہ اس کو سیکھے، سمجھے، اس سے محبت کرے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالے۔

اس سب کے بعد ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری یہ تمنا ہے کہ کاش اس مرحلہ میں امت شوریٰ کی تطبیق کر سکتی اور ایک ایسے شخص کو مسند خلافت پر بٹھاتی جو ہر اعتبار سے یزید سے بہتر اور معزز و موقر ہوتا تو یقینا پوری امت اس پر راضی بھی ہوتی اور وہ شخص فتنوں اور مصائب سے امت کی آڑ اور ڈھال بھی بنتا۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔

تب پھر ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں اور انہی الفاظ کے ساتھ ان حالات و واقعات اور مصائب و حوادث کی تعزیت کر سکتے ہیں کہ امت نے تو اپنا زور پورا لگایا اور نہ شوریٰ نے کوئی کوتاہی کی، لیکن جو تقدیر میں لکھا تھا وہ ہو کر رہا۔

یہی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی شدید خواہش تھی کہ امت ان کے وفات پا جانے کے بعد اسی پر کاربند رہے۔ اس کی تائید و تاکید اس خط سے ہوتی ہے جو یزید نے مدینہ کے والی ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کو لکھا تھا کہ

’’لوگوں کو بیعت کی دعوت دو، ابتدا قریش کے اشراف سے کرنا۔ لیکن ان میں سے بھی پہل حسین بن علی سے کرنا۔ کیونکہ امیر المومنین معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے مجھے ان کے ساتھ نرمی کرنے اور حسن سلوک کرنے کی وصیت کی تھی۔‘‘ (مختصر تاریخ دمشق، باب جوامع حدیث مقتل الحسین: جلد، 5 صفحہ 440)

ولید نے یزید کا خط ملتے ہی نصف شب کو سیّدنا حسین (رضی اللہ عنہ) اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو بلوا بھیجا اور انہیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر دے کر یزید کی بیعت کر لینے کا مطالبہ کیا۔ دونوں نے جواب میں صبح تک مہلت مانگ لی کہ دیکھیے، صبح کو لوگ کیا کرتے ہیں اور نکل گئے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے نکلتے ہوئے یہ کہا:

’’ہم یزید کو جانتے ہیں، نہ اس میں حزم و احتیاط ہے اور نہ مروت۔‘‘

ولید نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے ذرا سختی سے بات کی تھی، جس کے جواب میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اسے برا بھلا کہا اور اس کا عمامہ پکڑ کر سر سے اتار پھینکا، جس پر ولید کہنے لگا:

ہم نے ایک شیر کو برانگیختہ کیا ہے۔‘‘

جب ولید گھر پہنچا، تو اس کی بیوی اسماء بنت عبدالرحمن بن حارث بن ہشام کہنے لگی: کیا تم نے حسین (رضی اللہ عنہ) کو گالی دی؟ ولید نے کہا: ابتدا انہوں نے کی تھی۔ جس پر اسماء کہنے لگی: اچھا چلو حسین (رضی اللہ عنہ) کی گالی کا جواب تم نے ان کو گالی دے کر دے دیا، لیکن اگر وہ تیرے باپ کو گالی دیں، تو کیا تم بھی ان کے باپ کو گالی دو گے؟ ولید نے کہا: نہیں!

سیدنا حسین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اسی رات مکہ کو نکل گئے۔ صبح لوگوں نے یزید کی بیعت کر لی۔ جب سیدنا حسین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو طلب کیا گیا، تو معلوم ہوا کہ وہ دونوں تو راتوں رات مکہ نکل گئے ہیں۔ مکہ پہنچ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے گھر جا اترے۔ (تہذیب الکمال للمزی: جلد، 6 صفحہ 415 تاریخ دمشق لابن عساکر: جلد، 14 صفحہ 207)

یہ روایات بیان کرتی ہیں کہ خلافت کا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے مطالبہ اور معاملہ بے حد نرمی کا تھا جس کا ثبوت مدینہ کے والی کے رویے سے ہوتا ہے، جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھائی اور نئے خلیفہ کا چچا تھا، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس کے سر سے عمامہ اتار پھینکا، لیکن اس نے جواب میں کچھ نہ کہا اور نہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر ان کا کوئی مواخذہ کیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو امیہ کے دل آل بیت رسول کی بابت سلامتی سے معمور تھے اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اہل ایمان کے درمیان اختلاف رائے جائز ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس دور کے خاص و عام سب کے سب جناب حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ سے بخوبی واقف تھے، لیکن افسوس کہ اعدائے صحابہ نے مسلمانوں کی باہمی صلہ رحمی اور مودت و محبت کو ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔

جب یزید کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ضرور خروج کریں گے، تو اس نے انہیں اس ارادہ سے باز رکھنے کی نہایت بلیغ کوشش کی اور اس غرض کے لیے اس نے کبار اہل بیت کو بھی جناب حسین رضی اللہ عنہ پر اثر انداز ہونے کو کہا، لیکن یزید اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ چنانچہ یزید نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مکہ خروج کر جانے کی خبر لکھ بھیجی۔ یزید کا خیال تھا کہ مشرق کے لوگوں نے انہیں آ کر خلافت کی طمع دلائی تھی۔ یزید نے لکھا کہ آپ ان میں صاحب علم و تجربہ ہیں۔ اگر تو حسین (رضی اللہ عنہ) نے خروج کا ارادہ کیا ہے، تو انہوں نے قرابت کو قطع کیا ہے، آپ اہل بیت کے بڑے اور سب کے منظور نظر ہیں، انہیں تفرقہ سے باز رکھنے کی کوشش کیجیے، اور چند اشعار بھی لکھ بھیجے، جن میں خروج نہ کرنے کا نہایت بلیغ مطالبہ تھا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب میں یہ لکھ بھیجا:

’’میں امید کرتا ہوں کہ حسین (رضی اللہ عنہ) کا خروج کسی ایسے امر کے لیے نہ ہو گا، جو تمہیں ناگوار ہو اور جس بات سے بھی الفت اور اتحاد پیدا ہوتا ہو اور شورش ختم ہوتی ہو، میں اس بات کی انہیں ضرور نصیحت کروں گا۔‘‘

اس کے بعد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو رات گئے تک سمجھاتے رہے اور یہ کہا:

’’میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ کہیں کل کو تم بے یار و مددگار ہلاک نہ ہو جاؤ، عراق تو ہرگز مت جاؤ اور اگر تمہیں یزید کے خلاف خروج کرنا ہی ہے تو حج ختم ہونے تک ٹھہرے رہو، تب لوگوں سے ملو جلو، ان کی رائے معلوم کرو، پھر اپنی رائے دیکھنا۔ یہ 10 ذی الحجہ 69 ہجری کی رات تھی۔ لیکن سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بات نہ مانی اور عراق کی طرف عازمِ سفر ہو گئے۔‘‘ 

(تہذیب الکمال: جلد، 6 صفحہ 419 تاریخ دمشق: جلد، 14 صفحہ 209 بغیۃ الطلب لابن ندیم: جلد، 3 صفحہ 27)

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے مدینہ قاصد بھیجا۔ اس قاصد کے ساتھ بنی عبدالمطلب کے مردوں، عورتوں اور بچوں پر مشتمل انیس افراد مکہ آ پہنچے، جن میں آپ کی اور آپ کے بھائی کی اولاد اور خواتین بھی شامل تھیں۔ ان کے پیچھے محمد بن حنفیہ بھی چلے گئے اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے مکہ آ ملے۔ محمد نے کہا کہ میرے رائے میں ابھی یزید کے خلاف خروج کا وقت نہیں۔ لیکن جناب حسین رضی اللہ عنہ نے ان کی بات نہ مانی، جس پر محمد نے اپنی اولاد کو ساتھ نکلنے سے روک دیا اور ان میں سے کسی کو بھی نہ نکلنے دیا، جس کا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو قدرے رنج تھا۔ انہوں نے فرمایا: کیا تم اپنی اولاد کو ادھر جانے سے روک رہے ہو، جہاں مجھے شہادت ملے گی؟ محمد نے جواب دیا: مجھے اس کی حاجت نہیں کہ آپ شہید ہوں اور آپ کے ساتھ یہ بھی شہید ہوں، گو میرے لیے آپ کی مصیبت ان کی مصیبت سے بڑی ہے۔ ادھر عراقیوں نے خط پہ خط لکھ مارے اور قاصدوں کا تانتا بندھ گیا، جو عراق چلے آنے کی دعوت دے رہے تھے۔ چنانچہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ عراق کے ساٹھ شیوخ اور اپنے اہل بیت کے ساتھ بروز سوموار دس ذی الحجہ 60 ہجری کو عراق کی طرف روانہ ہو گئے۔ (تہذیب الکمال: جلد، 6 صفحہ 422 تاریخ دمشق، باب جوامع حدیث مقتل الحسین: جلد، 14 صفحہ 211، جلد، 2 صفحہ 444)

ان جملہ نصوص کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس سارے فتنہ کی آگ کا پہلا ایندھن اہل کوفہ تھے، جن کی فتنہ انگیزیوں کا سلسلہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ میں شرکت سے شروع ہو کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دھوکے سے مار ڈالنے، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زخمی کرنے اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ غداری کر کے انہیں شہید کرنے پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ اگرچہ جغرافیائی اور اعتقادی اعتبار سے اس جرم کی شناعت میں تعمیم ہے، جو عراقی عوام سب کو شامل ہے بالخصوص معاصر عراق پر بھی جو اپنے افکار اور کینوں میں اہل کوفہ کی تاریخی بداعتقادی و بداطواری سے شدید متاثر ہے۔ لیکن اس کی تاریخی ذمہ داری کی تحدید اہل کوفہ تک محدود ہے، جنہوں نے آل بیت کے قتل کا ارتکاب کیا اور وہ بھی ان کی مدد و نصرت کے نعروں کی آڑ میں کیا۔

جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ عراق کی طرف عازم سفر ہو گئے اور بعض والیوں کو بھی اس کی خبر مل گئی، تو انہوں نے ابن زیاد کو سختی کے ساتھ خبردار کرتے ہوئے خطوط لکھے، جن میں اسے اس بات سے ازحد ڈرایا کہ وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو معمولی سی گزند پہنچانے کا بھی نہ سوچے اور خوب سمجھ لے کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ لوگوں کو سب سے

زیادہ محبوب ہیں۔ چنانچہ مروان بن حکم نے عبیداللہ بن زیاد کو لکھا:

’’اما بعد! حسین بن علی (رضی اللہ عنہما) تیری طرف آ رہے ہیں۔ یاد رکھنا کہ یہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لخت جگر ہیں، جو خود جگر گوشہ رسول ہیں ۔ اللہ کی قسم! ہمیں حسین (رضی اللہ عنہ) سے زیادہ کوئی محبوب نہیں۔ خبردار جوش میں آ کر ایسا کوئی کام نہ کر بیٹھنا جس کی تلافی تم کر نہ سکو، نہ عوام اس کو بھلا سکیں اور نہ اس کے ذکر کو کبھی ترک کر پائیں ۔ و السلام!‘‘ (تہذیب الکمال: جلد، 6 صفحہ 422 تاریخ دمشق، باب جوامع حدیث مقتل الحسین: جلد، 14 صفحہ 211، جلد، 2 صفحہ 444)

جبکہ عمرو بن سعید بن عاص نے عبیداللہ ابن مرجانہ فارسیہ کو ان الفاظ کے ساتھ فہمائش کی:

’’اما بعد! حسین تمہاری طرف آ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ یا تو حسن سلوک کیا جاتا ہے یا ان کے درپے آزار نہیں ہوا جاتا۔‘‘

اسماعیل بن علی خطبی کہتے ہیں:

’’سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا مکہ سے عراق کی طرف جانا تب ہوا، جب بارہ ہزار کوفیوں نے مسلم بن عقیل بن ابی طالب کے ہاتھ پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی اور انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ چلے آنے کی دعوت پر مشتمل بے شمار خطوط بھی لکھ دئیے ہوئے تھے۔ چنانچہ خطوط اور قاصدوں کی آمد اور اہل کوفہ کے بیعت کر لینے کے بعد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تھے۔‘‘ (المعرفۃ و التاریخ: جلد، 1 صفحہ 361 اس روایت کی سند چاہے جیسی بھی ہو لیکن اہل کوفہ کی تاریخی حقیقت یہی ہے)

لیکن افسوس کہ اہل کوفہ نے ان تنبیہات اور تاکیدات کو ذرا درخورِ اعتنا نہ سمجھا اور وہ ایسا کرتے بھی کیوں؟ غدر و خیانت اور جفا و بے وفائی تو ان کی رگ رگ میں پیوست تھی۔ بھلا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سب و شتم کرنے والوں کو بھی آخرت کے انجام بد اور شریعت کی مخالفت کا کوئی اندیشہ یا ڈر خوف ہو سکتا ہے؟!!

یہ بات معروف اور معلوم ہے، جس کی شہادت خود شیعہ مآخذ و مصادر بھی دیتے ہیں کہ کوفہ عراق تمام شرور اور فتنوں کا گڑھ تھا۔ جس قدر سازشوں کے جال یہاں بنے جاتے تھے کسی دوسرے شہر میں اس میدان میں کوفہ کی ہم سری کرنے کی تاب نہ تھی۔ اسی لیے امت مسلمہ کے اخیار و ابرار نے کوفہ کی بے حد مذمت بیان کی۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں:

’’شیطان نے کوفیوں میں انڈے دئیے، ان کو سینچا اور ان سے بچے نکالے۔‘‘

پھر فرمایا:

’’اے اللہ! ان کوفیوں نے مجھ پر امر کو ملتبس کر دیا، تو بھی ان پر امر کو ملتبس کر دے اور ان پر ایک ثقفی نوجوان مسلط کر، جو ان کے نیکوں کو قبول نہ کرے اور ان کے بروں سے درگزر نہ کرے۔‘‘ (المعرفۃ و التاریخ: جلد، 1 صفحہ 361 اس روایت کی سند چاہے جیسی بھی ہو لیکن اہل کوفہ کی تاریخی حقیقت یہی ہے)

سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ان کوفیوں پر مطلق اعتبار نہ کرتے تھے اور نہ ان کے آئے کسی خط کی طرف التفات ہی فرماتے تھے، کیونکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے بخوبی دیکھ لیا تھا کہ پہلے انہوں نے ان کے والد ماجد کے ساتھ دغا بازی کی، پھر خود ان کے ساتھ بھی فریب کاری سے دریغ نہ کیا۔ یزید الاصم بیان کرتا ہے:

’’سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما مدائن اترے، قیس بن سعد بن عبادہ (رضی اللہ عنہ) مقدمہ میں تھے۔ پھر ’’انبار‘‘ اترے۔ وہاں ان لوگوں نے کدال کا وار کر کے انہیں زخمی بھی کیا اور خیمہ بھی لوٹ لیا۔‘‘

یزید اصم کہتا ہے:

’’ایک موقعہ پر میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھا کہ کوفیوں کا ایک خط آیا۔ آپ نے اس کی مہر کھول کر حتیٰ کہ اس کے عنوان تک کو دیکھنا گوارا نہ کیا اور خادمہ سے سلفچی منگوا کر اس خط کو اس سلفچی میں پانی سے دھو کر صاف کر ڈالا۔‘‘

یزید کہتا ہے:

میں نے پوچھا: اے ابو محمد! یہ کن کے خطوط تھے؟ تو فرمانے لگے: یہ ان کے خطوط تھے جو حق کی طرف پلٹ کر نہیں آتے اور باطل سے دست کش نہیں ہوتے، یہ عراقیوں کے خطوط تھے، جن کو میں نے دھو کر مٹا ڈالا۔ (المعرفۃ و التاریخ: جلد، 1 صفحہ 361)

یہ تھا سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ان کوفیوں کے بارے میں دو ٹوک موقف جو پکار پکار کر بتلاتا ہے کہ جناب حسن رضی اللہ عنہ کو ان کوفیوں پر ذرا بھروسہ نہ تھا اور وہ ان کوفیوں کو بڑی گہرائی سے جانتے تھے، کیونکہ انہیں ان کوفیوں سے بڑے تلخ تجربات ہوئے تھے۔ جناب حسن رضی اللہ عنہ کو اس بات کا قطعی یقین تھا کہ یہ پرلے درجے کے غدار اور دغا باز ان خطوط میں آل بیت کی جس محبت کو خوب بڑھا چڑھا کر ذکر کرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ یہ نامراد آل بیت رسول سے کینہ، نفرت اور بغض رکھتے ہیں اور ہر وقت ان کا خون بہانے کے درپے رہتے ہیں۔

امت مسلمہ کے صلحاء لوگوں کو کوفہ جانے سے منع کرتے تھے اور دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ! ہمیں اس کوفہ سے نجات دے۔ چنانچہ سفیان ’’فرات القزاز‘‘ سے روایت کرتا ہے، وہ کہتا ہے:

’’سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب کوفہ جانے کا ارادہ کیا، تو جناب کعب احبار نے انہیں ان الفاظ کے ساتھ کوفی فطرت پر متنبہ کیا: کوفہ نافرمانوں کا مرکز اور ہر لاعلاج بیماری کا گڑھ ہے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ ’’لا علاج بیماری‘‘ سے کیا مراد ہے؟ تو کہنے لگے: نفس کی وہ خواہشات جن سے شفا نہیں ملتی۔‘‘

ابو صالح حنفی کہتے ہیں:

’’میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے مصحف اٹھا کر اپنے سر پر رکھا یہاں تک کہ میں نے اس کے اوراق کو ہلتے دیکھا۔ پھر فرمانے لگے: اے اللہ! ان لوگوں نے مجھے امت میں اس کی خیروں کے ساتھ رہنے سے روک دیا، پس تو مجھے امت کا ثواب عطا فرما۔ اے اللہ! میں ان سے اور وہ مجھ سے تنگ ہیں، مجھے ان سے اور انہیں مجھ سے نفرت ہے، ان لوگوں نے مجھے میری طبیعت، عادت اور ان اخلاق کے خلاف پر ابھارا جن کو میں پہچانتا نہیں۔ اے اللہ! تو مجھے ان سے بہتر لوگ عطا فرما اور انہیں مجھ سے بھی برا دے۔ اللہ! ان کے دلوں کو یوں فنا کر دے جیسے نمک پانی میں گھل کر فنا ہو جاتا ہے۔‘‘

راوی ابراہیم بیان کرتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مراد اہل کوفہ تھے۔ (کنز العمال للمتقی الہندی، رقم: 36571 البدایۃ و النہایۃ: جلد، 13 صفحہ 170)

خلیفہ چہارم امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’اے اللہ! میں ان سے اور یہ مجھ سے اکتا گئے ہیں ، میں ان سے اور یہ مجھ سے آزردہ ہیں، پس تو مجھے ان سے اور ان کو مجھ سے راحت دے دے۔ ان کے بدبخت ترین نے میرے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے اور ان کو میری داڑھی پر رنگنے سے گریز نہ کیا۔‘‘ (المصنف للصنعانی، رقم: 20637 الآحاد و المثانی: صفحہ 156)

تاریخ شاہد ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مختلف لوگوں کو اختلاف رہا۔ حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے متعدد لوگوں سے معرکے بھی ہوئے لیکن جناب امیر سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے سوائے کوفیوں کے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ مروی نہیں کہ انہوں نے اس کے حق میں ایسی آزردگی، دل گرفتگی اور رنجیدگی کے ساتھ بددعا کی ہو۔ ہاں صحیح روایات سے اگر ثابت ہے تو صرف ان کوفیوں پر بددعا کرنا ثابت ہے، جو دھڑلے سے جناب امیر رضی اللہ عنہ سے محبت کے بلند بانگ دعوے بھی کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ گھناؤ نی سازشوں کے دام ہم رنگ زمین بھی آپ کی راہوں میں بچھاتے تھے۔ حتیٰ کہ بالآخر آپ رضی اللہ عنہ کو دھوکے سے عین مسجد میں وارکر کے شہید بھی کر دیا۔

کیا ان کوفیوں کے ایسے شرم ناک کردار کے بعد یہ لوگ اس قابل ہو سکتے ہیں کہ ان پر اعتماد کیا جائے؟ اور ان پر اعتماد کی کوئی سبیل ہو بھی کیونکر کہ جب امیر المومنین جناب علی رضی اللہ عنہ صاف صاف ان سے نفرت اور کراہیت کا اظہار فرما رہے ہیں؟!!

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ان کوفیوں پر ان الفاظ کے ساتھ بھی ایک بددعا منقول ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’اے اللہ ان کے گھروں میں ذلت گھسا دے، ان کے سینے ہیبت سے بھر دے، ان کے دلوں کو مٹا دے جیسے نمک پانی میں مل کر مٹ جاتا ہے۔‘‘

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’جس نے ان کوفیوں کے ذریعے سے حملہ کیا اس نے ایک چوک جانے والے تیر سے حملہ کیا۔‘‘

عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ جناب علی رضی اللہ عنہ کو قصر سے باہر ہاتھ میں درہ پکڑے دیکھا۔ جناب عمرو رضی اللہ عنہ نے آپ کو سلام کیا، تو آپ نے سلام کا جواب دینے کے بعد فرمایا:

’’اے عمرو! میں اس سے قبل یہ سمجھتا تھا کہ یہ والی لوگ عوام پر ظلم ڈھاتے ہیں، لیکن یہ کیا کہ یہاں تو عوام والیوں پر ستم کرتے ہیں۔ اے اللہ! میرے اور ان کے درمیان تفریق کر دے اور ان پر مجھ سے بھی برا مسلط کر دے۔‘‘ (المعرفۃ و التاریخ للفسوی: جلد، 1 صفحہ 360)

جب ان کوفیوں کا جناب علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہ رویہ تھا حالانکہ وہ صاحب سلطنت و شوکت اور لشکروں کے قائد تھے، معاملات کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں تھیں لیکن پھر بھی یہ کوفی متمرد و سرکش تھے اور اتنے نافرمان کہ جناب علی رضی اللہ عنہ نے فرطِ غیظ سے ان پر بددعائیں کیں، تو بھلا ان نامرادوں نے جناب حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ کیا کیا نہ کیا ہو گا، جن کے پاس نہ حکومت تھی اور نہ قوت و شوکت، نہ لشکر تھے اور نہ مادی و عددی غلبہ؟ ہاں آپ کے پاس تھا تو صرف ایمان اور گنتی کے چند مخلص جاں نثار و وفادار۔

ایسی کسمپرسی میں ان سبائیوں نے جناب حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ غدر و خیانت کا ارتکاب کیا، قتال میں پہل کی اور بالآخر رسول اللہﷺ کے پھول کو مسل کر شہید کر ڈالا۔

ان پر کن الفاظ کے ساتھ بددعا کی جائے؟

رب کا کون سا قہر و عتاب ان کے لائق ہو؟

جگر گوشۂ رسولﷺ کو بے یار و مددگار چھوڑ کر انتہائی بے دردی سے انہیں مار ڈالنے والوں کا دین کیا ہو سکتا ہے؟

آخر وہ کس شرعی، اخلاقی اور عرفی قدروں پر قائم ہیں؟

جن کے آل بیت رسول اللہﷺ کے ساتھ بغض اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ نفرت کو ناپا نہیں جا سکتا؟!!

ہاں جنہوں نے جناب رسول اللہﷺ کے اس محبوب ترین نواسے کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے، جس سے آپﷺ کو خود بھی بے پناہ محبت تھی اور رہتی دنیا تک کے لیے اپنی امت کو بھی ان سے محبت کرنے کی بلیغ ترین تاکید فرما گئے!!