شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد مظلومیت کا عقیدہ
حامد محمد خلیفہ عمانسیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دینے کے بعد یہ کوفی ایک ایسا عقیدہ اور نظام بنانے میں کامیاب ہو گئے جس نے ایک ایسی حکومت کو قائم کیا جس کی بنیادیں کتاب و سنت سے عداوت، اُمت مسلمہ سے محاذ آرائی اور جیسے بھی بن پڑے اُمت مسلمہ کے دشمنوں کے ساتھ اتفاق و اتحاد اور قرب و ولاء پر رکھی گئی تھی۔ پھر اس گھناؤ نے منصوبے نے مساجد، علماء، حفاظ، قراء، فاتحین، محدثین، مفسرین، اصحاب رسولﷺ اور حضرات تابعین رحمہم اللہ کے خلاف خفیہ اور علانیہ ہر قسم کی جنگ کا اعلان کر دیا۔
یہ سب کچھ نفرت و کینہ اور بغض و حسد سے معمور ان نعروں کی چھاؤ ں میں کیا جانے لگا، جن کو ’’مظلومیت‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس عقیدہ کی بنیاد اس مشہور مثل پر رکھی گئی ہے: مارا بھی خود ہی، پھر خود ہی رونے لگا اور جا کر شکایت بھی لگا ڈالی،
اگر بات مظلومیت کی ہی ہے تو پھر سب سے مظلوم خود اُمت مسلمہ کے جلیل القدر صحابہ اور ائمہ اعلام ہیں، جن کو نہایت بے دردی اور دھوکے سے شہید کر دیا گیا تھا۔ جو سیدنا فاروق اعظم، سیدنا عثمان بن عفان، سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم ہیں۔
پھر جنگ جمل اور صفین کے مظلوم مقتولوں اور شہیدوں کے نام آتے ہیں۔ ان کے بعد جناب حسن رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملے، پھر جناب معاویہ رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملے اور سیّدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ والی مصر کے نائب حضرت خارجہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا نام آتا ہے۔ ان سب کے بعد جناب حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ غداری کرنے اور بدترین وسائل کو اختیار کر کے انہیں ان کے اہل بیت سمیت شہید کر دئیے جانے کا نام آتا ہے۔
غور سے دیکھا جائے، تو غدر و قتل کے ان واقعات میں سے اکثر مساجد میں اور نماز فجر کے اوقات میں پیش آئے جو اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ ان رافضیوں سبائیوں کے نزدیک مساجد، نمازیں اور شعائر اسلامیہ کی کوئی وقعت نہیں۔ ان لوگوں نے امت کے دلوں میں رِستے اس زخم کو کبھی بند نہ ہونے دیا۔ چنانچہ انہوں نے یزید بن علی کے ساتھ بھی غداری کر کے انہیں قتل کر ڈالا اور آل بیت رسولﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اپنے بغض و کینہ کا کھل کا اظہار کیا۔ کوفیوں کے بعد یہ سبائی رافضی قرامطہ کی شکل میں امت کے سامنے آئے اور امت کے ساتھ فتنوں اور خیانتوں کی انتہا کر دی، یہ لوگ ڈاکے ڈالتے، رستے لوٹتے، مسافروں کو قتل کر دیتے، راہ گیروں کو ڈراتے دھمکاتے تھے، حتیٰ کہ مشہور عابد و زاہد شافعی عالم اور وزیر ’’نظام الملک‘‘ کو دھوکے سے قتل کر ڈالا جو مدارس اسلامیہ کے مشہور نظام ’’مدارس نظامیہ‘‘ کا بانی مبانی تھا۔ نظام الملک نے مدارسِ نظامیہ کی بنیاد بغداد میں رکھی، جنہوں نے اپنے زمانہ میں رافضیت کے سیل رواں کے آگے بند باندھ دیا تھا۔
قرامطہ کے بعد علاقمہ نے رفض و سبائیت کا منصب سنبھالا اور تاتاریوں کے ساتھ مل کر رقعۂ اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ علاقمہ نے دولت عباسیہ کے سقوط میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ان لوگوں نے بنو عباس کو تہِ تیغ کرنے میں اس بات کا بھی پاس لحاظ نہ رکھا کہ ان میں بنو ہاشم کی خواتین اور چشم و چراغ بھی ہیں۔
علاقمہ کے بعد عبیدیوں نے سبائیت کے مشن کو جاری و ساری رکھا جنہوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف فلسطین میں صلیبیوں کا ساتھ دیا اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے قتل کی خفیہ تدبیر میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ آج بھی بغداد اور کابل کے سقوط میں انہیں رافضیوں نے آگے بڑھ بڑھ کر صلیبیوں کا ساتھ دیا ہے، جو سب کو معلوم ہے اور ان رافضیوں نے یہ سب کچھ علانیہ کیا ہے۔
ان سب کے علاوہ کتاب و سنت کو مشکوک بنانے، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کافر قرار دینے، اُمت مسلمہ کے عقیدہ کو مطعون بنانے اور امت کے اخیار و ابرار کو قتل کرنے اور ان کی عزت و آبرو کو پامال کرنے کا مشن رافضیت نے کسی دور میں بھی ترک نہیں کیا۔
رافضیت اور سبائیت کے مظلومیت کے جھوٹے پرچار کے بالمقابل یہ ہے اہل کتاب و سنت کی وہ مظلومیت جو رافضیت کی باطنی اور خارجی جماعتوں کی گردن پر ہے۔ اس مظلومیت کی سنگینی کا قرار واقعی ادراک حاصل کرنا امت پر لازم ہے جس پر خاموشی بے حد طول پکڑ گئی ہے، جس سے امت مسلمہ کے عقائد و عواقب پر بے حد گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور ضرورت ہے کہ ان خطرات کا فوراً علم حاصل کیا جائے اور ان رافضیوں کی وجہ سے امت مسلمہ کے عقائد کی دیواروں میں جو دراڑیں پڑ گئی ہیں، ان کو پُر کیا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ان قاتلوں کے مکر کا سینہ سپر ہو کر مقابلہ کیا جائے اور ان رافضیوں سے اور ان کے دوستوں سے براء ت و بیزاری کی ثقافت تشکیل دی جائے۔
یاد رہے کہ یہ اعدائے صحابہ ہی ہیں، جنہوں نے امت مسلمہ پر بے پناہ ستم ڈھائے ہیں، جبکہ ان پر امت مسلمہ نے نہ ماضی میں اور نہ اس کے بعد کبھی کوئی ظلم کیا ہے۔البتہ نبی کریمﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے کسریٰ کی فارسی مجوسی حکومت کو اس کی جہالت اور ظلم و طغیان سمیت ختم ضرور کیا تھا، کیونکہ کسریٰ کی مجوسی حکومت نے انسانیت پر ظلم و ستم اور جہالت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ افسوس کہ آج یہ رافضیت مظلومیت کے نام پر ایک بار پھر اسی مجوسیت، جہالت اور ظلم کو زندہ کرنا چاہتی ہے۔
یہی حقیقت بھی ہے، امت مسلمہ کے اعدائے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں قتل و کراہیت کے اکثر واقعات اسی ایک نکتہ کے گرد گھومتے ہیں کہ یہ رافضی اسی مجوسی سلطنت کے معنوی وارث ہیں اور اپنے سوا دوسری تمام اُمتوں سے افضل اور بہتر سمجھتے ہیں۔ اسی لیے انہیں عرب دنیا سے بے حد نفرت ہے اور یہ ان کے وجود کو زندہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ ان کے نزدیک نبی کریمﷺ کے آل بیت غدر و خیانت کے ہتھیار ہیں۔ رافضی ان مقدس ہستیوں کا نام استعمال کر کے امت مسلمہ کو راہِ حق سے برگشتہ کرتے ہیں اور آل بیت کی نصرت کے نام پر اسلامی عقائد پر نقب لگاتے ہیں۔
امت مسلمہ پر لازم ہے کہ وہ ان آتش پرست مجوسیوں اور ان کے سرکش قائدین سے امت کو بچانے کی پھرپور کوشش کریں اور ہر اس قول و فعل کی حقیقت کو آشکارا کریں، جس کے ذریعے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت و حرمت اور عقیدہ و ایمان پر طعن کیا جاتا ہے تاکہ امت مسلمہ کے عقیدہ ان کی وحدت اور ان کی شخصیت کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکے، جبکہ ان سب افعال کا ارتکاب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور آل بیت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ غم خواری، تعزیت اور محبت کے اظہار کی آڑ میں کیا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور آل بیت نبیﷺ کی مصیبت کا غم تو امت مسلمہ کو پہنچا ہے اور انہیں دہرا غم پہنچا ہے۔ ایک غم یہ کہ ان مقدس ہستیوں کے ساتھ نہایت گھناؤنی صورت میں غدر و خیانت کی گئی، جس کے نتیجہ میں امت مسلمہ ان مقدس ہستیوں کے بابرکت وجودوں سے محروم ہو گئی اور دوسرا غم یہ اٹھانا پڑا کہ خود آل بیت اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ناموں کو کتاب و سنت کے عقیدہ اور ان کی لغت پر بھرپور حملہ کرنے کے لیے بطور ہتھیار کے استعمال کیا جانے لگا۔ لہٰذا یہ کہنا عین حقیقت ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مصیبت کا صدمہ تو امت مسلمہ نے اٹھایا ہے۔ جبکہ اعدائے صحابہ ان کے مصائب کے نام پر تعزیت اورمظلومیت کا اظہار کرنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور مظلومیت کے نام کے نعرے بلند کرتے ہیں، جن کا مقصد امت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ اس گھناؤ نے مقصد کے حصول کے لیے ان رافضی اعدائے صحابہ نے ایک مستقل حکومت کو قائم کیا ہے، جو اصحاب رسولﷺ اور حضرات تابعین کے عقیدہ و عمل کے نشانات اور آثار کو مٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور ’’خاکم بدہن‘‘ ان بدبختوں کی کوششوں کی کامیابیوں کے آثار بھی ظاہر ہونے لگے ہیں۔ جن میں سرفہرست کتاب و سنت اور ان کی ثقافت سے جنگ کرنا، نام نہاد بے علم و عمل مسلمانوں کو حسینیت اور مظلومیت کے ناموں پر اور نعروں کی آڑ میں کتاب و سنت کے خلاف ابھارنا اور ان کے نزدیک حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شخصیات کو مشکوک بنانا ہے۔ جیسا کہ دَورِ حاضر میں اس کے واضح آثار نظر آنے لگے ہیں۔ اس لیے علماء کی یہ خصوصی ذمہ داری بنتی ہے کہ اعدائے صحابہ کے چہروں کو بے نقاب کریں، آل بیت رسولﷺ کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے اصلی مجرموں کو سامنے لائیں، جو آج بھی امت مسلمہ کو تباہی کے گھاٹ اتارنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں، علماء کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی تربیت کر کے انہیں کتاب و سنت کے حقیقی دشمنوں سے آگاہ کریں، ان کے تمام وسائل کا پردہ چاک کریں، ان کے معاونین کو بے نقاب کریں اور اعدائے صحابہ نے اسلامی ثقافت اور جغرافیہ پر جو جو ستم بھی ڈھائے ہیں، ان کے تدارک کی تدابیر اختیار کریں۔ بالخصوص ان نام نہاد، دھوکا باز، گمراہ اورمفاد پرست مسلمانوں سے امت کو خبردار کریں، جو حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں اور ان کے کینہ پرور قاتلوں میں برابری کرنے کی نامسعود کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
مناسب ہے کہ اس مقام پر اپنے معزز قارئین کے سامنے مظلومیت اور حسینیت کے نام پر کیے جانے والے باطل افعال اور گمراہ رسومات کی حقیقت خود رافضی مآخذ و مصادر سے کھول کر بیان کر دی جائے، تاکہ امت مسلمہ کو ان افعال کی گمراہی اور خطرناکی کا علم دلیل کے ساتھ حاصل ہو اور وہ جان لیں کہ ان باطل رسومات کی آڑ میں دراصل حضرات صحابہ کرام اور بالخصوص آل بیت رسولﷺ کے عقیدہ و عمل کو باطل قرار دینے کی گھناؤنی سازش کی جا رہی ہے، جو صدیوں سے جاری ہے تاکہ امت مسلمہ خوابِ غفلت سے بیدار ہو۔